براہ مہربانی پلے کا بٹن ضرور دبائیں اور نیچے دی گئی کہانی پڑھیں۔ آپ کے تعاون کا بہت بہت شکریہ
👇👇
شہر کا وہ پرانا محلہ، جہاں گلیاں اتنی تنگ تھیں کہ سانس لینے کی جگہ بھی مشکل سے ملتی، رات کے گہرے سناٹے میں ڈوبا ہوا تھا۔ دیواریں، جو برسوں کی گرد، دھوئیں، اور بارشوں سے سیاہ پڑ چکی تھیں، جیسے خاموشی سے محلے کے راز اپنے سینے میں چھپائے کھڑی تھیں۔ گلیوں میں کتوں کے بھونکنے کی آواز کے سوا کوئی جنبش نہ تھی، اور چاند کی ہلکی سی روشنی زمین پر پڑ کر عجیب سے سائے بناتی تھی۔ اچانک، اس خاموشی کو ایک ایسی چیخ نے چیر دیا کہ محلے کے کتے بدحواس ہو کر بھونکنے لگے، کھڑکیوں کے شیشوں میں لرزش دوڑ گئی، اور وہ چند لوگ جو ابھی جاگ رہے تھے، خوف سے سہم گئے۔ یہ چیخ تھی ثمینہ کی، ایک ایسی عورت کی جس کی زندگی رازوں کے سائے میں گزرتی تھی۔
صبح کی پہلی کرن پھوٹنے سے پہلے ہی محلے والوں نے ایک دل دہلا دینے والا منظر دیکھا۔ ثمینہ کی لاش اس کے گھر کے صحن میں پڑی تھی، خون سے لت پت۔ اس کے سینے میں ایک چھری گہرائی تک دھنسی ہوئی تھی، اور اس کے ہاتھ اب بھی اس چھری کے دستے کو تھامے ہوئے تھے، جیسے وہ اپنی آخری سانس تک کسی نامعلوم دشمن سے لڑتی رہی ہو۔ اس کے چہرے پر خوف اور حیرت کا ایک عجیب سا ملغوبہ جم گیا تھا، جیسے اس نے مرنے سے پہلے کوئی ایسی چیز دیکھ لی ہو جو اس کی سمجھ سے باہر تھی۔
اس قتل کی سب سے حیران کن بات یہ تھی کہ اس کا واحد گواہ ایک اندھا آدمی تھا۔اسلم، جو محلے کے کونے پر ایک چھوٹی سی چائے کی دکان چلاتا تھا۔ اسلم نے پولیس کو بتایا کہ اس نے قاتل کی "صورت" محسوس کی ہے۔ پولیس کے کان کھڑے ہوئے۔ ایک اندھا آدمی قاتل کی صورت کیسے دیکھ سکتا ہے؟ کیا وہ جھوٹ بول رہا تھا؟ یا پھر اس کے پیچھے کوئی ایسی حقیقت تھی جو عام انسان کی سمجھ سے بالاتر تھی؟
رات کے بارہ بجے، جب شہر نیند کے آغوش میں تھا، اسلم اپنی دکان کے باہر لکڑی کے تختے پر بیٹھا تھا۔ اس کی دکان، جو دراصل ایک چھوٹا سا ڈھابہ تھا، رات گئے تک کھلی رہتی تھی۔ محلے کے چند رات کے راہی وہاں چائے پینے رکتے، کچھ سگریٹ کے کش لگاتے، اور کچھ اسلم کی باتوں سے وقت گزارتے۔ اسلم کی آنکھیں روشنی سے محروم تھیں، لیکن اس کے کان ہر آہٹ کو پکڑ لیتے تھے، اس کی ناک ہر خوشبو اور بدبو کو سونگھ لیتی تھی، اور اس کی انگلیاں ہوا کے ہر جھونکے کو چھو لیتی تھیں۔ محلے والے کہتے تھے کہ اسلم کی باقی حواس اس کی نابینائی کا بدلہ دس گنا بڑھ کر دیتی ہیں۔
اس رات، ہوا میں ایک عجیب سی ٹھنڈک تھی، جیسے کوئی طوفان آنے والا ہو۔ اسلم اپنی چھڑی کو زمین پر ہلکے ہلکے ٹک ٹک کرتے ہوئے بیٹھا تھا۔ اس نے اپنے پرانے ٹرانزسٹر پر ریڈیو چلا رکھا تھا، جہاں کوئی پرانا گانا بج رہا تھا۔ شاید نور جہاں کی آواز میں ایک غمگین نغمہ۔ اچانک، اس نے ایک آہٹ سنی۔ یہ کوئی معمولی آہٹ نہ تھی۔ یہ جوتوں کی کھڑکھڑاہٹ تھی، جو تیزی سے اس کی دکان کی طرف آرہی تھی۔ جوتوں کی آواز میں ایک عجیب سی دھات کی ٹک ٹک بھی شامل تھی، جیسے تلووں میں لوہے کی کیلیں لگی ہوں۔ اسلم نے سر اٹھایا، حالانکہ اس کی آنکھیں کچھ نہ دیکھ سکیں۔
"کون ہے؟" اسلم نے آواز لگائی، اس کا لہجہ پرسکون لیکن چوکنا تھا۔
کوئی جواب نہ آیا۔ قدموں کی آواز تیز ہوتی گئی اور پھر اچانک رک گئی، جیسے کوئی اس کی دکان کے سامنے والی گلی کے موڑ پر کھڑا ہو گیا ہو۔ اسلم نے اپنی چھڑی مضبوطی سے پکڑ لی۔ اسے لگا کہ کوئی اسے گھور رہا ہے۔ اس نے گہری سانس لی، اور ہوا میں ایک تیز، مردانہ عطر کی خوشبو اس کی ناک سے ٹکرائی۔ یہ کوئی سستی خوشبو نہ تھی۔ یہ مہنگی تھی، ایسی جو شہر کے امیروں کے ڈرائنگ رومز میں پھیلتی ہے۔ اسلم کے کانوں نے ایک اور آواز پکڑی۔ کپڑوں کی سرسراہٹ، جیسے کوئی موٹے کپڑے کا کوٹ پہنے تیزی سے حرکت کر رہا ہو۔
پھر، اچانک، وہ چیخ گونجی۔ یہ چیخ ثمینہ کے گھر کی طرف سے آئی تھی، جو اسلم کی دکان سے صرف دو گلیاں دور تھا۔ چیخ ایسی تھی کہ اسلم کا دل دھک سے رہ گیا۔ یہ کوئی عام چیخ نہ تھی—یہ درد، خوف، اور مایوسی کا ملغوبہ تھا۔ اسلم اپنی جگہ سے اٹھا، چھڑی زمین پر مارتا ہوا، اس طرف بڑھا جہاں سے چیخ آئی تھی۔ اس کے قدم تیز تھے، لیکن ایک اندھے آدمی کی رفتار کتنی ہو سکتی ہے؟ وہ ابھی گلی کے موڑ تک پہنچا ہی تھا کہ اس نے دوبارہ وہی عطر کی خوشبو محسوس کی۔ اس بار، یہ خوشبو اس کے بالکل قریب سے گزری، جیسے کوئی اس کے پاس سے بھاگ رہا ہو۔ اسلم نے اپنی چھڑی آگے بڑھائی، اور اس کی چھڑی کسی چیز سے ٹکرائی—شاید کسی کے جسم سے۔
"روکو! کون ہے؟" اسلم نے چیخا، لیکن کوئی نہ رکا۔ صرف ہوا میں ایک عجیب سی بدبو رہ گئی تھی—خون کی بدبو، تازہ اور گاڑھی۔ اسلم کے ہاتھ کانپنے لگے۔ اسے احساس ہوا کہ جو کچھ ہوا، وہ کوئی معمولی بات نہیں تھی۔ وہ واپس اپنی دکان کی طرف لوٹا، لیکن اس کا دل ابھی تک دھک دھک کر رہا تھا۔
صبح ہوتے ہی محلے میں ہلچل مچ گئی۔ ثمینہ کی لاش کی خبر جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی۔ پولیس نے گھر کو گھیر لیا۔ انسپکٹر جاوید، ایک سخت گیر اور تجربہ کار افسر، اس کیس کی تفتیش کے لیے آیا تھا۔ جاوید کی عمر پچاس کے قریب تھی، لیکن اس کے چہرے کی جھریاں اور آنکھوں کی گہرائی بتاتی تھی کہ اس نے زندگی میں بہت کچھ دیکھا ہے۔ اس کے بال سر سے غائب ہو چکے تھے، اور اس کا موٹے فریم کا چشمہ اسے ایک پروفیسر جیسا لک دیتا تھا۔ لیکن اس کی آواز میں ایک ایسی دھمک تھی کہ مجرم اس کے سامنے کانپ اٹھتے تھے۔
جاوید نے جائے وقوعہ کا جائزہ لیا۔ ثمینہ کی لاش صحن میں پڑی تھی، اس کے کپڑے خون سے تر تھے۔ چھری، جو اس کے سینے میں دھنسی تھی، ایک عام باورچی خانے کی چھری تھی، لیکن اس کے دستے پر کوئی فنگر پرنٹس نہیں تھے۔ صحن میں خون کے دھبوں کے علاوہ کچھ عجیب سے نشانات تھے۔ جیسے کوئی بھاری چیز گھسیٹ کر لے جائی گئی ہو۔ جاوید نے نوٹ کیا کہ گھر کے دروازے پر کوئی زبردستی داخل ہونے کے نشانات نہیں تھے، یعنی قاتل کو یا تو ثمینہ نے خود اندر آنے دیا تھا، یا وہ پہلے سے گھر میں موجود تھا۔
جاوید نے محلے والوں سے پوچھ گچھ شروع کی۔ کوئی کچھ نہ بتا سکا۔ سب کہتے تھے کہ انہوں نے رات کو چیخ سنی، لیکن کوئی باہر نہ نکلا۔ محلے کے لوگ خوفزدہ تھے؛ ثمینہ کی موت نے سب کے دلوں میں ایک عجیب سا خوف بٹھا دیا تھا۔ پھر ایک عورت، جس کا نام گل رعنا تھا، نے جاوید سے کہا، "اسلم کو پوچھو، انسپکٹر صاحب۔ وہ نابینا ہے، لیکن اس کے کان سب کچھ سنتے ہیں۔ وہ رات کو دکان پر تھا۔"
جاوید اسلم کی دکان پر پہنچا۔ دکان دراصل ایک چھوٹا سا لکڑی کا ڈھانچہ تھا، جس کے سامنے ایک تخت پڑا تھا۔ اسلم اس وقت چائے کی کیتلی چولہے پر چڑھا رہا تھا۔ اس کے ہاتھ ہلکے ہلکے کانپ رہے تھے، لیکن اس کا چہرہ پرسکون تھا، جیسے وہ رات کے واقعے سے بالکل بے خبر ہو۔ اسلم کی عمر چالیس کے قریب تھی، لیکن اس کے چہرے پر وقت کی سختی صاف دکھائی دیتی تھی۔ اس کی آنکھیں سفید دھندلی تھیں، اور اس کے بال بے ترتیب سے جھڑ رہے تھے۔
"اسلم، تم نے رات کو کیا سنا؟" جاوید نے پوچھا، اپنی آواز کو نرم رکھتے ہوئے۔
اسلم نے کیتلی سے نظر ہٹائے بغیر کہا، "میں نے سب کچھ سنا، انسپکٹر صاحب۔ اور نہ صرف سنا، بلکہ میں نے قاتل کی صورت بھی محسوس کی۔"
جاوید کے منہ سے ایک ہلکی سی ہنسی نکل گئی۔ "کیا مطلب؟ تم اندھے ہو، اسلم۔ تم کیسے کسی کی صورت دیکھ سکتے ہو؟"
اسلم نے مسکراتے ہوئے کہا، "آنکھیں ہی سب کچھ نہیں دیکھتیں، انسپکٹر صاحب۔ میرے کان، میری ناک، میری جلد یہ سب میری آنکھیں ہیں۔ میں نے اس آدمی کے جوتوں کی آواز سنی۔ لوہے کی کیلیں لگے جوتے، جو زمین پر ٹک ٹک کرتے ہیں۔ وہ لمبا ہے، شاید چھ فٹ سے زیادہ۔ اس کا وزن زیادہ نہیں، لیکن وہ طاقتور ہے، کیونکہ اس کے قدموں میں ایک عجیب سی دھمک تھی۔ اس نے کوئی موٹا کوٹ پہنا تھا، کیونکہ میں نے کپڑوں کی سرسراہٹ سنی۔ اور اس کا عطر... وہ عطر کوئی سستا نہیں تھا۔ اس کے ہاتھوں سے خون کی بدبو آ رہی تھی، اور جب وہ میرے قریب سے گزرا، تو میں نے اس کے سانسوں کی آواز سنی۔ تیز اور گھبرائی ہوئی۔"
جاوید نے اسلم کی باتوں کو غور سے سنا۔ اسے لگا کہ اسلم یا تو بہت ذہین ہے، یا پھر وہ جھوٹ کا جال بُن رہا ہے۔ "تم کہہ رہے ہو کہ تم نے قاتل کو 'دیکھا'، لیکن تم اس کا نام نہیں جانتے؟"
اسلم نے سر ہلایا۔ "نہیں، لیکن اگر وہ دوبارہ میرے قریب سے گزرے گا، میں اسے پہچان لوں گا۔ اس کی خوشبو، اس کی آواز، اس کے قدم۔ یہ سب میرے دماغ میں نقش ہو چکے ہیں۔"
جاوید کو اسلم کی باتوں پر یقین نہ آیا۔ اس نے سوچا کہ شاید اسلم پاگل ہے، یا پھر وہ کوئی راز چھپا رہا ہے۔ لیکن چونکہ اس کے پاس کوئی اور گواہ نہ تھا، اس نے اسلم کو تھانے لے جانے کا فیصلہ کیا۔ تھانے میں، جب اسلم سے پوچھ گچھ ہو رہی تھی، جاوید نے اسلم کے ماضی کے بارے میں جاننا چاہا۔ اسلم نے بتایا کہ وہ بچپن سے نابینا ہے۔ اس کے والدین غریب تھے، اور وہ ایک ٹریفک حادثے میں مر گئے جب اسلم صرف دس سال کا تھا۔ اس کے بعد، اسلم نے برسوں تک سڑکوں پر بھیک مانگی، لیکن ایک دن ایک بزرگ دکاندار نے اسے اپنی دکان پر کام کرنے کے لیے رکھ لیا۔ اسی دکان کو اسلم اب چلاتا تھا۔
"لیکن تم اتنی تفصیل سے چیزیں کیسے بتا سکتے ہو؟" جاوید نے پوچھا، اس کی آواز میں شک کی لکیر واضح تھی۔
اسلم نے جواب دیا، "جب آپ کی آنکھیں کام نہ کریں، تو آپ کی باقی حواس آپ کو سکھاتی ہیں۔ میں نے برسوں سے آوازوں، خوشبوؤں اور لمس سے دنیا کو سمجھا ہے۔ میں جانتا ہوں کہ کون سا پرندہ صبح گاتا ہے، کون سی گاڑی کس گلی سے گزرتی ہے، اور کون سا آدمی جھوٹ بولتا ہے۔ جب کوئی جھوٹ بولتا ہے، تو اس کے سانس تیز ہوجاتے ہیں، اس کی آواز میں ایک ہلکی سی لرزش آ جاتی ہے۔"
جاوید کو اسلم کی باتوں میں کچھ سچائی نظر آئی، لیکن وہ پھر بھی شک میں تھا۔ اس نے اسلم کو عارضی طور پر حراست میں رکھنے کا فیصلہ کیا، یہ سوچ کر کہ شاید وہ خود قاتل ہو یا اسے کوئی راز چھپا رہا ہو۔ اسلم نے کوئی مزاحمت نہ کی۔ وہ خاموشی سے تھانے کی ایک چھوٹی سی کوٹھری میں چلا گیا، اپنی چھڑی کو ہاتھ میں تھامے، جیسے وہ اسی سے اپنی طاقت کھینچ رہا ہو۔
دوسری طرف، جاوید نے ثمینہ کے بارے میں تفتیش شروع کی۔ ثمینہ ایک تنہا عورت تھی، جو محلے میں چار سال پہلے آئی تھی۔ وہ ایک چھوٹا سا گھر کرائے پر لیتی تھی اور کہتی تھی کہ وہ سلائی کا کام کرتی ہے۔ لیکن محلے والوں کو شک تھا کہ وہ کچھ اور بھی کرتی تھی۔ کچھ عورتوں نے چپکے سے بتایا کہ رات کو ثمینہ کے گھر عجیب لوگ آتے تھے۔ لمبے قد کے مرد، جو مہنگی گاڑیوں میں آتے، چند گھنٹے رکتے، اور پھر چپکے سے نکل جاتے۔ کوئی اس کے بارے میں کھل کر بات نہ کرتا، کیونکہ ثمینہ کے بارے میں بات کرنا محلے میں ایک طرح سے ممنوع تھا۔
جاوید نے ثمینہ کے گھر کی تلاشی لی۔ گھر سادہ تھا، لیکن اس کی دیواروں پر کچھ عجیب سے نشانات تھے الماری میں کچھ کپڑے، کچھ سستے زیورات، اور ایک چھوٹی سی لکڑی کی ڈبیا تھی۔ ڈبیا کھولنے پر جاوید کو کچھ خطوط ملے، جو بظاہر کسی عاشق کے لکھے ہوئے تھے۔ خطوط کی تحریر خوبصورت تھی، لیکن اس میں ایک عجیب سی شدت تھی۔ ایک خط میں لکھا تھا: "تم میری ہو، ثمینہ۔ اگر تم نے مجھ سے منہ موڑا، تو میں تمہیں زندہ نہیں چھوڑوں گا۔" دوسرے خط میں لکھا تھا: "تمہارا یہ نیا دوست، وہ تمہیں تباہ کردے گا۔
میرے پاس واپس آؤ، ورنہ..." خطوط پر کوئی نام نہ تھا، لیکن ان سے وہی عطر کی خوشبو آ رہی تھی جو اسلم نے بیان کی تھی۔ جاوید نے خطوط کو پلاسٹک کے تھیلے میں بند کیا اور لیبارٹری بھیج دیا۔
تلاشی کے دوران، جاوید کو ثمینہ کی الماری کے پیچھے ایک پرانی ڈائری ملی۔ ڈائری کے صفحات زرد پڑ چکے تھے، اور اس کی تحریر دھندلی ہو رہی تھی۔ ڈائری میں ثمینہ نے اپنی زندگی کے کچھ راز لکھے تھے۔ اس نے لکھا تھا کہ وہ ایک چھوٹے سے گاؤں سے شہر آئی تھی، جہاں اس کے والدین اسے ایک بوڑھے آدمی سے بیاہنا چاہتے تھے۔ وہ بھاگ کر شہر آئی، لیکن یہاں اسے زندگی نے اور سخت امتحان دیے۔ ڈائری کے آخری صفحے پر لکھا تھا: "وہ واپس آ گیا ہے۔ وہ مجھے نہیں چھوڑے گا۔ لیکن اس بار میں ہار نہیں مانوں گی۔ میں نے اس کا راز جان لیا ہے۔ اگر مجھے کچھ ہوا، تو سب کو پتا چل جائے گا۔"
جاوید کے ذہن میں سوالات کے طوفان اٹھنے لگے۔ یہ "وہ" کون تھا؟ اور ثمینہ نے کون سا راز جان لیا تھا؟ کیا یہ راز اس کی موت کی وجہ بنا؟ جاوید نے ڈائری کو اپنے بیگ میں رکھا اور تھانے واپس چلا گیا۔
تفتیش کے دوران، جاوید کو ایک اور گواہ ملا۔ حاجی صدیق، ایک بوڑھا آدمی جو محلے کی مسجد کا خیال رکھتا تھا۔ حاجی صدیق نے بتایا کہ اس نے رات کو ثمینہ کے گھر کے قریب ایک لمبی سی سیاہ گاڑی دیکھی تھی، جو تیزی سے گلی سے نکل گئی۔ گاڑی کا نمبر اسے یاد نہ تھا، لیکن اس نے بتایا کہ گاڑی سے ایک عجیب سی خوشبو آ رہی تھی—بالکل وہی عطر جو اسلم نے بیان کیا تھا۔ حاجی صدیق نے یہ بھی بتایا کہ گاڑی کے ڈرائیور نے ایک لمبا کوٹ پہنا تھا، اور اس کے جوتوں سے ٹک ٹک کی آواز آ رہی تھی۔
جاوید نے گاڑی کے بارے میں معلومات اکٹھی کرنی شروع کیں۔ اسے پتا چلا کہ شہر کے ایک امیر تاجر، فیصل ملک، کے پاس ایسی ہی ایک گاڑی ہے۔ فیصل ایک مشہور کاروباری آدمی تھا، لیکن اس کے بارے میں افواہیں تھیں کہ وہ غیر قانونی کاروبار میں ملوث ہے۔ شاید منشیات یا ہتھیاروں کی سمگلنگ۔ جاوید نے فیصل سے ملنے کا فیصلہ کیا۔
فیصل کا دفتر شہر کے پوش ایریا میں ایک بلند و بالا عمارت کے سب سے اوپر والے فلور پر تھا۔ دفتر کی دیواریں شیشے کی تھیں، اور اندر مہنگے فرنیچر اور آرٹ کے نمونے سجے تھے۔ فیصل خود ایک لمبا، دبلا پتلا آدمی تھا، جس کی عمر پینتالیس کے قریب تھی۔ اس کے بال چاندی کی طرح چمکتے تھے، اور اس کی مسکراہٹ ایسی تھی جیسے وہ ہر بات کو مذاق سمجھتا ہو۔ جب جاوید اس سے ملا، تو اس نے دیکھا کہ فیصل کے دفتر میں وہی عطر کی خوشبو پھیلی ہوئی تھی جو اسلم نے بیان کی تھی۔
"انسپکٹر، آپ یہاں؟" فیصل نے مسکراتے ہوئے کہا۔ "کیا میں نے کوئی ٹریفک سگنل توڑ دیا؟"
جاوید نے سیدھا سوال کیا۔ "ثمینہ نامی عورت کو جانتے ہیں؟"
فیصل کے چہرے پر ایک لمحے کے لیے گھبراہٹ دکھائی دی، لیکن اس نے فوراً خود کو سنبھال لیا۔ "ثمینہ؟ نہیں، یہ نام پہلی بار سن رہا ہوں۔ کون ہے یہ؟"
جاوید نے فیصل کی آنکھوں میں جھانکا۔ وہ جانتا تھا کہ فیصل جھوٹ بول رہا ہے۔ اس نے فیصل کی گاڑی کی جانچ کرنے کا فیصلہ کیا، لیکن اس سے پہلے کہ وہ کچھ کرتا، اسے تھانے سے فون آیا۔ اسلم نے کہا کہ اسے کچھ اور یاد آیا ہے۔
جاوید تھانے واپس پہنچا۔ اسلم نے اسے بتایا کہ جب قاتل اس کے قریب سے گزرا تھا، تو اس نے ایک عجیب سی آواز سنی تھی۔ جیسے کوئی دھاتی چیز زمین پر گر گئی ہو۔ اسلم نے کہا کہ یہ آواز شاید کسی چابی یا سکے کی ہو سکتی ہے۔ جاوید نے فوراً ثمینہ کے گھر واپس جانے کا فیصلہ کیا۔ وہاں، صحن میں، اسے واقعی ایک چھوٹی سی دھاتی چیز ملی—ایک پرانا لاکٹ، جس پر ایک عجیب سا نشان بنا ہوا تھا۔ لاکٹ پر ایک عقاب کی تصویر تھی، اور اس کے نیچے کچھ حروف کندہ تھے جو دھندلے پڑ چکے تھے۔ جاوید نے لاکٹ کو غور سے دیکھا۔ یہ کوئی سادہ لاکٹ نہیں تھا؛ اس پر جو علامت تھی، وہ شہر کے ایک پرانے خاندان سے تعلق رکھتی تھی۔ اور وہ خاندان تھا فیصل ملک کا۔
جاوید اب پوری طرح یقین کر چکا تھا کہ فیصل اس قتل میں ملوث ہے۔ لیکن اس کے پاس کوئی ٹھوس ثبوت نہ تھا۔ اس نے اسلم کو دوبارہ بلایا اور اس سے پوچھا کہ کیا وہ فیصل کو پہچان سکتا ہے۔ اسلم نے کہا کہ اگر فیصل اس کے قریب سے گزرے، تو وہ اسے اس کے عطر، اس کی آواز، اور اس کے چلنے کے انداز سے پہچان لے گا۔
جاوید نے فیصل کو تھانے بلایا۔ جب فیصل تھانے کے کمرے میں داخل ہوا، اسلم اپنی جگہ پر بیٹھا تھا، اپنی چھڑی کو ہاتھ میں تھامے۔ فیصل کے قریب سے گزرتے ہی اسلم نے سر اٹھایا۔ اس کے چہرے پر ایک عجیب سی مسکراہٹ پھیل گئی، جیسے وہ کوئی راز جان گیا ہو۔
"یہی ہے،" اسلم نے کہا، اس کی آواز میں ایک عجیب سی یقینیت تھی۔ "یہی وہ آدمی ہے۔"
فیصل نے غصے سے چیخا، "یہ پاگل ہے! میں اسے نہیں جانتا، اور نہ ہی میں نے کوئی قتل کیا! یہ سب جھوٹ ہے!"
جاوید نے فیصل کو حراست میں لے لیا، لیکن اسے لگ رہا تھا کہ کہانی ابھی ختم نہیں ہوئی۔ اسلم کی باتوں میں کچھ ایسی بات تھی جو اسے پریشان کر رہی تھی۔ اسلم اتنا پراعتماد کیوں تھا؟ اور وہ لاکٹ—کیا واقعی یہ فیصل کا تھا، یا کوئی اور اسے وہاں چھوڑ گیا تھا؟ جاوید کے ذہن میں سوالات کے بادل چھا گئے۔
رات کو، جب جاوید تھانے سے گھر جا رہا تھا، اسے ایک گمنام فون آیا۔ فون پر ایک دھیمی، دھکتی ہوئی آواز تھی: "انسپکٹر، تم غلط آدمی کے پیچھے پڑے ہو۔ اسلم وہ نہیں جو تم سمجھ رہے ہو۔ اس کا ماضی تم نہیں جانتے۔"
جاوید نے فوراً پوچھا، "تم کون ہو؟ اور اسلم کے بارے میں کیا جانتے ہو؟"
لیکن فون بند ہو گیا۔ جاوید کے دل میں ایک عجیب سا خوف جاگ اٹھا۔ کیا اسلم واقعی ایک معصوم گواہ تھا؟ یا پھر وہ خود اس کھیل کا ایک حصہ تھا؟ اور سب سے بڑا سوال۔ اگر فیصل قاتل نہیں تھا، تو پھر وہ لاکٹ اس کے خاندان کا کیوں تھا؟ کیا اسلم کوئی راز چھپا رہا تھا؟ یا پھر کوئی اور اس کھیل کا اصل کھلاڑی تھا؟
انسپکٹر جاوید کی گاڑی رات کے سناٹے میں شہر کی سڑکوں پر دوڑ رہی تھی، لیکن اس کا دماغ اس گمنام فون کال کی آواز سے آزاد نہ ہو پا رہا تھا۔ "اسلم وہ نہیں جو تم سمجھ رہے ہو۔ اس کا ماضی تم نہیں جانتے۔" یہ الفاظ اس کے کانوں میں گونج رہے تھے، جیسے کوئی اسے چیلنج کر رہا ہو کہ وہ حقیقت تک پہنچے۔ جاوید نے گاڑی کی کھڑکی کھولی، رات کی ٹھنڈی ہوا اس کے چہرے سے ٹکرائی، لیکن اس کے ذہن کا طوفان تھمنے کا نام نہ لے رہا تھا۔ کیا اسلم واقعی ایک معصوم گواہ تھا؟ یا وہ اس قتل کے کھیل کا کوئی چالاک کھلاڑی تھا؟ اور فیصل ملک کا وہ لاکٹ—کیا وہ واقعی اس قتل کی کنجی تھا، یا کوئی اور اسے گمراہ کر رہا تھا؟
جاوید نے گاڑی تھانے کی طرف موڑ دی۔ اسے فیصل سے دوبارہ پوچھ گچھ کرنی تھی، لیکن اس سے بھی زیادہ، وہ اسلم کے ماضی کی تہہ تک پہنچنا چاہتا تھا۔ تھانے پہنچتے ہی اس نے اپنے ماتحت سب انسپکٹر راشد کو بلایا۔ راشد ایک جوان، چاق و چوبند افسر تھا، جس کی آنکھوں میں ہر کیس کو حل کرنے کا جنون ہوتا تھا۔ "راشد، اسلم کا ماضی کھودو۔ اس کے بچپن سے لے کر آج تک، ہر چیز۔ اس کے والدین کے حادثے، اس کی بھیک مانگنے کی زندگی، وہ دکاندار جس نے اسے پناہ دی—سب کچھ۔ اور ہاں، اس کی دکان کے آس پاس کے لوگوں سے بھی پوچھو کہ وہ رات کو کس کس سے ملتا تھا۔"
راشد نے سر ہلایا اور فوراً کام پر لگ گیا۔ جاوید خود فیصل کے سیل کی طرف بڑھا۔ فیصل اپنی حراست کی کوٹھری میں بیٹھا تھا، اس کا چہرہ غصے اور بے چینی سے سرخ ہو رہا تھا۔ اس کے چاندی جیسے بال اب بے ترتیب تھے، اور اس کی مسکراہٹ غائب ہو چکی تھی۔ جاوید نے اسے لاکٹ دکھایا، جو پلاسٹک کے تھیلے میں بند تھا۔ "یہ تمہارا ہے، فیصل؟" جاوید کی آواز میں ایک ایسی گہرائی تھی کہ فیصل کے چہرے پر پسینے کی بوندیں چمکنے لگیں۔
"میں نے پہلے بھی کہا، انسپکٹر۔ میں اس عورت کو نہیں جانتا، اور یہ لاکٹ میرا نہیں ہے!" فیصل نے غصے سے کہا، لیکن اس کی آواز میں ایک ہلکی سی لرزش تھی۔ جاوید نے غور کیا کہ فیصل کی آنکھیں لاکٹ کو دیکھ کر سہم گئی تھیں، جیسے اسے کوئی پرانا راز یاد آ گیا ہو۔
"یہ لاکٹ تمہارے خاندان کی علامت ہے، فیصل۔ عقاب کا نشان، یہ حروف۔ یہ سب تمہارے خاندان سے جڑتے ہیں۔ اور وہ عطر، جو ثمینہ کے خطوط سے، اسلم کے بیان سے، اور تمہارے دفتر سے ایک ہی ہے۔ اب بتاؤ، سچ کیا ہے؟" جاوید نے اپنی آواز کو اور سخت کر دیا۔
فیصل نے ایک لمحے کے لیے خاموشی اختیار کی، پھر سر جھکاتے ہوئے کہا، "ٹھیک ہے، انسپکٹر۔ میں ثمینہ کو جانتا تھا۔ لیکن میں نے اسے نہیں مارا۔ وہ... وہ میری زندگی کا ایک حصہ تھی، ایک وقت پر۔ لیکن ہمارا رشتہ ختم ہو گیا تھا۔ وہ خطوط، وہ میری طرف سے نہیں تھے۔ کوئی اور تھا جو اسے دھمکیاں دے رہا تھا۔"
جاوید نے فیصل کی باتوں کو غور سے سنا۔ اسے لگا کہ فیصل سچ بول رہا ہے، لیکن وہ کچھ چھپا بھی رہا تھا۔ "تو وہ کون تھا؟ اور یہ لاکٹ وہاں کیسے پہنچا؟" جاوید نے پوچھا۔
فیصل نے ایک گہری سانس لی۔ "یہ لاکٹ میرا نہیں، لیکن یہ میرے بھائی کا ہو سکتا ہے۔ میرا بھائی، کامران... وہ کئی سال پہلے غائب ہو گیا تھا۔ ہمارے خاندان میں جھگڑے تھے، کاروبار کے، وراثت کے۔ وہ ایک خطرناک آدمی تھا، انسپکٹر۔ اگر وہ واپس آیا ہے، تو..." فیصل کی آواز لرزنے لگی۔
جاوید کے ذہن میں ایک نئی راہ کھلی۔ کامران ملک؟ کیا وہ اس قتل کے پیچھے تھا؟ لیکن اسلم نے جو بیان دیا تھا۔ وہ عطر، وہ جوتوں کی آواز، وہ کوٹ۔ کیا یہ سب کامران سے ملتا تھا؟ جاوید نے فیصل کو واپس سیل میں چھوڑا اور راشد سے رابطہ کیا۔ "راشد، فیصل کے بھائی، کامران ملک، کے بارے میں معلوم کرو۔ وہ کون تھا، کہاں گیا، اور کیا وہ شہر میں واپس آیا ہے؟"
دوسری طرف، اسلم تھانے کی ایک چھوٹی سی کوٹھری میں بیٹھا تھا۔ اس کی چھڑی اس کے ہاتھوں میں تھی، اور وہ ہلکے ہلکے زمین پر ٹک ٹک کر رہا تھا۔ اس کا چہرہ پرسکون تھا، لیکن اس کی سفید دھندلی آنکھوں میں ایک عجیب سی گہرائی تھی، جیسے وہ کوئی ایسی چیز دیکھ رہا ہو جو دوسروں کے لیے ناممکن تھی۔ اسلم کے دماغ میں رات کے واقعات بار بار گھوم رہے تھے۔ وہ عطر، وہ جوتوں کی آواز، وہ خون کی بدبو۔ سب کچھ اس کے حواس میں قید تھا۔ لیکن ایک چیز اسے پریشان کر رہی تھی۔ وہ دھاتی چیز کی آواز، جو اس نے سنی تھی جب قاتل اس کے قریب سے گزرا تھا۔ یہ کوئی معمولی چیز نہیں تھی۔ اسلم نے اپنی چھڑی کو اور مضبوطی سے پکڑ لیا، جیسے وہ اس سے کوئی راز کھولنا چاہتا ہو۔
راشد کی تفتیش نے جلد ہی نتائج دینا شروع کر دیے۔ اسے پتا چلا کہ اسلم کا بچپن واقعی مشکل تھا، لیکن اس کے ماضی میں کچھ ایسی باتیں تھیں جو اسلم نے چھپائی تھیں۔ اسلم کے والدین کے حادثے کے بعد، اسے ایک یتیم خانے میں رکھا گیا تھا، جہاں سے وہ بار بار بھاگ جاتا تھا۔ ایک بار، اسے ایک چوری کے الزام میں پکڑا گیا تھا، لیکن چونکہ وہ نابینا تھا، اسے رہا کر دیا گیا۔ اسلم کی زندگی میں ایک عجیب موڑ اس وقت آیا جب وہ اس بزرگ دکاندار، حاجی یونس، کے پاس آیا۔ حاجی یونس کوئی معمولی دکاندار نہیں تھا۔ وہ محلے کے ایک بااثر آدمی تھے، جن کے بارے میں افواہیں تھیں کہ وہ غیر قانونی کاروبار سے جڑے تھے۔
راشد نے حاجی یونس کے بیٹے، شاہد، سے بات کی، جو اب اپنے والد کی جگہ محلے کے کاروبار سنبھالتا تھا۔ شاہد نے بتایا کہ اسلم حاجی یونس کا پسندیدہ تھا۔ "میرے والد کہتے تھے کہ اسلم کی نابینائی اس کا سب سے بڑا ہتھیار ہے۔ وہ ہر چیز سنتا تھا، ہر چیز سونگھتا تھا۔ وہ ہمارے لیے ایک طرح سے جاسوس تھا۔ لیکن پھر کچھ ہوا، اور اسلم نے ہم سے دوری بنا لی۔"
"کیا ہوا؟" راشد نے پوچھا۔
شاہد نے ایک گہری سانس لی۔ "یہ بات کئی سال پرانی ہے۔ ایک رات، ہمارے ایک کاروباری ساتھی کی لاش ملی، بالکل اسی طرح جیسے ثمینہ کی۔ سینے میں چھری، خون سے لت پت۔ اسلم اس رات وہاں تھا، لیکن اس نے کہا کہ اس نے کچھ نہیں دیکھا۔ میرے والد کو اس پر شک ہوا، لیکن اسلم نے قسم کھائی کہ وہ بے گناہ ہے۔ پھر وہ ہم سے الگ ہو گیا۔"
راشد نے یہ معلومات جاوید کو دیں۔ جاوید کے ذہن میں ایک نیا شک جاگا۔ کیا اسلم کا اس قتل سے کوئی پرانا تعلق تھا؟ کیا وہ واقعی ایک جاسوس تھا، یا اس سے بھی بڑھ کر کچھ؟ جاوید نے اسلم کو دوبارہ پوچھ گچھ کے لیے بلایا۔
"اسلم، تم نے حاجی یونس کے لیے کیا کام کیا؟" جاوید نے سیدھا سوال کیا۔
اسلم کے چہرے پر ایک ہلکی سی مسکراہٹ آئی۔ "انسپکٹر صاحب، میں ایک غریب، نابینا آدمی ہوں۔ میں نے بس ان کی دکان پر چائے بنائی، لوگوں سے باتیں کی۔ اس کے علاوہ کچھ نہیں۔"
جاوید نے اپنی آواز کو اور سخت کیا۔ "جھوٹ مت بولو، اسلم۔ تم حاجی یونس کے لیے جاسوسی کرتے تھے۔ اور اس رات، جب ان کے کاروباری ساتھی کا قتل ہوا، تم وہاں تھے۔ بتاؤ، سچ کیا ہے؟"
اسلم نے ایک لمحے کے لیے خاموشی اختیار کی، پھر کہا، "ٹھیک ہے، انسپکٹر صاحب۔ میں سچ بتاتا ہوں۔ ہاں، میں حاجی یونس کے لیے کام کرتا تھا۔ میں ان کے دشمنوں کی باتیں سنتا تھا، ان کی حرکات پر نظر رکھتا تھا۔ لیکن اس قتل سے میرا کوئی تعلق نہیں تھا۔ اور ثمینہ کے قتل سے بھی نہیں۔ میں نے جو کچھ دیکھا۔ یا سنا۔ وہ سب آپ کو بتا دیا۔"
جاوید کو اسلم کی باتوں پر یقین نہ آیا۔ اس نے اسلم کو واپس سیل میں بھیج دیا اور کامران ملک کی تفتیش پر توجہ دی۔ راشد نے پتا لگایا کہ کامران ملک، فیصل کا بڑا بھائی، ایک دہائی پہلے شہر سے غائب ہو گیا تھا۔ اس کے بارے میں افواہیں تھیں کہ وہ غیر قانونی کاروبار میں گہرائی تک دھنس گیا تھا اور ایک بڑے گینگ کے ساتھ جھگڑے کے بعد روپوش ہو گیا۔ لیکن حال ہی میں، شہر کے کچھ جرائم پیشہ حلقوں میں یہ بات پھیل رہی تھی کہ کامران واپس آیا ہے، اور وہ اپنے پرانے دشمنوں سے بدلہ لینے کی منصوبہ بندی کر رہا ہے۔
جاوید نے کامران کے ممکنہ ٹھکانوں کی تلاش شروع کی۔ اسے ایک پرانا گودام ملا، جو شہر کے مضافات میں تھا۔ گودام کے باہر ایک سیاہ گاڑی کھڑی تھی، بالکل وہی جو حاجی صدیق نے ثمینہ کے گھر کے قریب دیکھی تھی۔ جاوید نے اپنی ٹیم کے ساتھ گودام پر چھاپہ مارا۔ اندر، انہیں کچھ مسلح آدمی ملے، لیکن کامران وہاں نہیں تھا۔ گودام میں کچھ دستاویزات ملیں، جن سے پتا چلا کہ کامران ثمینہ کے ساتھ رابطے میں تھا۔ ایک خط میں لکھا تھا: "ثمینہ، تم نے جو راز چھپایا ہے، وہ میری تباہی کا باعث بن سکتا ہے۔ اگر تم نے منہ کھولا، تو تمہاری موت یقینی ہے۔"
جاوید کے ذہن میں سب کچھ واضح ہونے لگا۔ ثمینہ نے کامران کا کوئی راز جان لیا تھا، اور اسی راز کی وجہ سے اسے مارا گیا۔ لیکن اسلم کا کردار کیا تھا؟ کیا وہ واقعی صرف ایک گواہ تھا، یا اس سے بڑھ کر کچھ؟ جاوید نے گودام سے ایک اور چیز اٹھائی۔ ایک پرانا کوٹ، جو موٹے کپڑے کا بنا تھا، اور اس سے وہی عطر کی خوشبو آ رہی تھی جو اسلم نے بیان کی تھی۔
جاوید واپس تھانے آیا اور اسلم کو ایک آخری بار پوچھ گچھ کے لیے بلایا۔ اس نے کوٹ اسلم کے سامنے رکھا۔ "اسلم، اس کوٹ کو سونگھو۔ یہ وہی ہے، نا؟"
اسلم نے کوٹ کو ہاتھ لگایا، اسے اپنی ناک کے قریب لے گیا، اور ایک گہری سانس لی۔ اس کے چہرے پر ایک عجیب سی مسکراہٹ پھیل گئی۔ "ہاں، انسپکٹر صاحب۔ یہ وہی ہے۔"
جاوید نے پوچھا، "تو کیا یہ کامران ملک تھا؟"
اسلم نے سر ہلایا۔ "میں نام نہیں جانتا، لیکن یہ وہی آدمی ہے جو اس رات میرے قریب سے گزرا تھا۔"
جاوید نے فیصل کو دوبارہ بلایا اور اسے کوٹ دکھایا۔ فیصل نے کوٹ کو دیکھتے ہی کہا، "یہ کامران کا ہے۔ وہ ہمیشہ اس قسم کے کوٹ پہنتا تھا۔"
جاوید اب یقین کر چکا تھا کہ کامران ہی قاتل تھا۔ لیکن اسے ابھی تک ایک ٹھوس ثبوت کی ضرورت تھی۔ اس نے گودام سے ملنے والی دستاویزات کا جائزہ لیا۔ ان میں ایک پرانا نقشہ تھا، جو شہر کے ایک ویران علاقے کی طرف اشارہ کر رہا تھا۔ جاوید نے اپنی ٹیم کے ساتھ اس علاقے کا رخ کیا۔ وہاں، ایک پرانے گھر میں، انہیں کامران ملا۔ وہ اکیلا تھا، لیکن اس کے ہاتھ میں ایک پستول تھی۔
"ہتھیار پھینکو، کامران!" جاوید نے چیخا۔
کامران نے ایک شیطانی مسکراہٹ کے ساتھ کہا، "تم دیر کر چکے ہو، انسپکٹر۔ ثمینہ نے میرا راز جان لیا تھا۔ وہ میرے کاروبار کو بے نقاب کرنا چاہتی تھی۔ میں نے اسے ختم کر دیا، اور اب تمہاری باری ہے۔"
اس سے پہلے کہ کامران گولی چلا پاتا، راشد نے اس پر جھپٹا مارا اور اسے زمین پر گرا دیا۔ کامران کو گرفتار کر لیا گیا۔ اس کے جوتوں پر لوہے کی کیلیں لگی تھیں، بالکل وہی جو اسلم نے بیان کی تھیں۔ جاوید نے کامران کے جیب سے ایک اور لاکٹ نکالا، جو بالکل وہی تھا جو ثمینہ کے گھر ملا تھا۔
تھانے واپس آ کر، جاوید نے اسلم سے آخری بار بات کی۔ "اسلم، تم نے سچ بتایا۔ لیکن تمہارا ماضی... تم حاجی یونس کے لیے جاسوسی کرتے تھے۔ کیا تم اس قتل میں ملوث تھے؟"
اسلم نے ایک گہری سانس لی۔ "انسپکٹر صاحب، میں نے اپنی زندگی میں بہت غلطیاں کیں۔ لیکن اس قتل سے میرا کوئی تعلق نہیں۔ میں بس ایک گواہ ہوں۔ میرے حواس نے مجھے وہ سب کچھ بتایا جو میں نے آپ کو بتایا۔"
جاوید نے اسلم کو رہا کر دیا۔ اسے یقین تھا کہ اسلم سچ بول رہا ہے۔ کامران نے اپنے جرم کا اعتراف کر لیا۔ اس نے بتایا کہ ثمینہ اس کے غیر قانونی کاروبار کے بارے میں جان گئی تھی، اور وہ اسے بلیک میل کر رہی تھی۔ اسی وجہ سے اس نے اسے مار دیا۔
کیس بند ہو گیا، لیکن جاوید کے دل میں ایک عجیب سا سکون تھا۔ اسلم کی کہانی نے اسے یہ سکھایا کہ کبھی کبھی، جو چیزیں نظر نہیں آتیں، وہی سب سے زیادہ سچ ہوتی ہیں۔ اسلم اپنی دکان پر واپس چلا گیا، اپنی چھڑی زمین پر ٹک ٹک کرتا ہوا، جیسے وہ اب بھی دنیا کو اپنے حواس سے دیکھ رہا ہو۔
(ختم شد)