دلال کی دوستی

Sublimegate Urdu Stories


بچپن کے دن سہانے ہوتے ہیں، کہ تب لڑکیوں پر پابندیاں کم ہوتی ہیں۔ میرے وہ دن تو ایسے اُڑ گئے جیسے کوئی پرندہ دیس نکالا۔والدین نے بمشکل میٹرک تک پڑھنے دیا۔ کالج جانے کا خواب اُس وقت ٹوٹ کر دل میں ہی دفن ہو گیا جب والد نے صاف کہہ دیا کہ صدف کالج نہیں جائے گی۔یہ میرا سب سے حسین خواب تھا ڈاکٹر بنوں گی، بااعتماد زندگی گزاروں گی۔لیکن رزلٹ نکلتے ہی سارے خواب بکھر گئے۔ کہا گیا کہ پرایا دھن ہے، آگے پڑھ کر کیا کرنا ہے۔چودہ سو سال پہلے عرب اپنی بیٹیوں کو زندہ دفن کر دیتے تھے،اور آج مجھے میرے خوابوں سمیت زندہ دفن کر دیا گیا۔میں کالج نہ جا سکی۔بے شک ہم لڑکیاں زمین کے اندر گم ہو جانا تو برداشت کر لیتی ہیں،لیکن قید ہونا نہیں اور مجھے ایسی قید نصیب ہوئی کہ خیالوں اور سپنوں کا بھی دم گھٹنے لگا۔

زندگی گزارنے کے لیے صرف دولت کافی نہیں ہوتی۔ انسان کو دل کی راحت کے لیے محبت بھی چاہیے ہوتی ہے۔لیکن میں کم نصیب، گھر میں بھی اس پیار سے محروم رہی جس کی ہر بیٹی حقدار ہوتی ہے۔والدین اپنے کاموں میں مصروف، نہ کوئی ہم عمر بہن، نہ بھائی۔سہیلیوں سے ملنے یا ان کے گھر جانے پر پابندی، بازار جانے پر قدغن۔کہیں جا نہیں سکتی تھی۔گھر بیٹھے کبھی کسی سہیلی کو بلا لیتی تو وہ کہتی ہر بار میں ہی تمہارے پاس آؤں، تم کیوں نہیں آتیں میرے گھر؟کیا تمہارے پیروں میں مہندی لگی ہے؟کیا بتاتی کہ مجھے کسی سہیلی کے گھر جانے کی اجازت ہی نہیں۔میں گھر میں رہ کر اتنی بور ہو جاتی کہ جی چاہتا کہیں بھاگ جاؤں،مگر جانتی تھی، جو لڑکیاں اس طرح گھر سے نکلتی ہیں،وہ در بدر کی ٹھوکریں کھاتی ہیں۔جو پڑھنا چاہے مگر پڑھ نہ سکے،جو ہنر سیکھنا چاہے مگر سیکھ نہ سکے،جو نام کمانا چاہے مگر موقع نہ پائے تو ایسی بیکار زندگی کا کوئی کیا کرے؟کئی سال اسی حبس میں گزر گئے،اور میں تھک گئی ایسی زندگی سے جس کا کوئی مقصد نہ تھا۔گھر کے کام کاج میں مصروف ہو جاتی تو کچھ دیر کے لیے وقت کی بےرحمی بھول جاتی،مگر جب ہاتھ پہ ہاتھ دھر کے بیٹھتی تو ہاتھ خود سوال کرتے کیا ہمیں صرف یہی کام کرنے کے لیے بنایا گیا ہے؟کہ ہم کوئی اعلیٰ مقصد حاصل نہ کریں،بلکہ خود کو چھوٹے چھوٹے کاموں میں کھپا کر بیکار ہو جائیں؟

ابو کا مزاج تیز تھا۔ رشتے دار بھی سوچ سمجھ کر ہمارے گھر قدم رکھتے تھے۔چچی، ممانی، مائی سبھی اچھی تھیں،لیکن یقیناً میرے والدین کے رویّے نے مجھے جکڑ رکھا تھا۔سوچتی تھی کہ اگر گھر والوں کی سختیاں ایسی ہی رہیں تو میرے دل کے زخم کب بھریں گے؟تنہائی سے میرا کشت و خون کب تک جاری رہے گا؟مگر ایک مشرقی لڑکی کو یہ سب کچھ برداشت کرنا ہی پڑتا ہے۔پھوپھو تسلی دیتیں کہ یہ سب تمہارے بھلے کے لیے ہے۔عید کا دن میرے لیے سب سے ظالم دن ہوتا تھا۔جب سب اپنے عزیزوں اور رشتہ داروں سے ملتے،اور میں گھر میں اکیلی، تنہا بیٹھی رہتی۔اگر کوئی رشتہ دار عید پر گھر آ جاتا تومجھے فوراً دوسرے کمرے میں چلے جانے کا حکم ملتا۔ہدایت تھی کہ کسی رشتہ دار لڑکے کے سامنے نہیں آنا،اونچی آواز میں بات نہیں کرنی،تمہاری آواز کمرے سے باہر نہیں آنی چاہیے۔

زیادہ ہنسنا، زیادہ بولنا منع ہے تو پھر سانس لینا منع کیوں نہیں؟عید پر میرے لیے خوبصورت کپڑے بن جاتے،مگر میں سوچتی کہ یہ کپڑے پہنوں تو انہیں دیکھے گا کون؟لڑکیاں تو ایک دوسرے کا لباس ہی دیکھتی ہیں،اور میں؟میں تو گونگی ہوتی جا رہی تھی۔بولنے سے بھی ڈرتی تھی۔اب میں بند کمروں میں دیواروں سے کلام کرنے،اور کہیں نہ جانے کی عادی بنتی جا رہی تھی۔محلے کی لڑکیاں مجھے مغرور اور گھمنڈی کہتی تھیں،اور تب مجھے احساس ہوتا تھا کہ میں ایک جیتی جاگتی، حسین مورتی ہوںجسے ماں باپ نے جب چاہا اپنی مرضی سے ادھر اُدھر سجا دیا۔اگر میں جیوں تو ان کی اجازت سے،اور مروں بھی تو ان کی مرضی سے۔ایسے میں باغی سوچیں ہر وقت مجھ پر حملہ کرتی تھیں،مگر جانتی تھی کہ باغی سوچوں کی رتھ پر سوار ہو کرگھر کی دہلیز پار کرتے ہی لڑکی کی بربادی شروع ہو جاتی ہے۔کہتے ہیں زندگی بہت مختصر ہے۔میں سوچتی تھی کہ اس مختصر زندگی میںمیرے گھر والے مجھے کبھی کچھ ایسا کرنے نہیں دیں گےجس سے میری روح کو تسکین ملے،میری اپنی پہچان بنے،اور لوگ مجھے میرے اچھے اور تخلیقی کاموں کی وجہ سے یاد رکھیں۔میں پڑھ لکھ کر کچھ بننا چاہتی تھی،مگر کالج نہ جانے کی وجہ سےمیں اپنی رشتہ دار لڑکیوں سے بہت پیچھے رہ گئی مجھے تصویریں بنانے کا شوق تھا،مگر ماں میری بنائی ہوئی تصویروں کو آگ لگا دیتی تھی کہ یہ ایک بیکار اور شیطانی کام ہے۔شعر و شاعری بھی مجھے پسند تھی،مگر ماں کہتی تھیں کہ یہ سب فضول باتیں ہیں۔ یہ لڑکیوں کو زیب نہیں دیتی، یہ ان کو بے حیائی سکھاتی ہے۔ وہ دیوانِ غالب میرے ہاتھ سے چھین لیتی تھیں۔

عرض یہ ہے کہ ان دنوں میری زندگی میں خوشی نام کی کوئی چیز باقی نہ رہی تھی۔ایک پھپھو میرا واحد سہارا تھیں۔ وہ سمجھاتیں کہ یہ سب تیرے ہی بھلے کے لیے ہے۔ماں باپ تیرے دشمن نہیں، وہ تجھے ایسے رکھنا چاہتے ہیں جیسے سیپ میں بند موتی، تاکہ تیری آب و تاب قائم رہے اور اس موتی کی چمک کوئی چرا نہ لے جائے۔پھپھو کہتیں کہ صرف یہ بات سمجھ لے کہ لڑکیوں کی قدر صرف شوہروں کے پاس ہوتی ہے۔شوہر کو خبر ہو جائے کہ جو موتی اس نے اپنی پگڑی میں سجایا ہے اس کی آب کوئی چرا لے گیا ہے، تو پھر وہ بھی اس موتی کو کنکر سمجھ کر پیروں تلے روند دیتا ہے۔یہ مرد کی فطرت ہے وہ خود تو ایسی بیوی چاہتا ہے جسے آسمان نے بھی نہ دیکھا ہو،اور خود دوسری عورتوں کو پھول سمجھ کر بھونرے کی طرح سونگھتا پھرتا ہے۔میں پھپھو کی باتوں پر یقین کر لیتی۔ان کی تسلیاں مجھے ڈھارس دیتیں کہ لڑکیوں کو تن و من سے ہی نہیں،بلکہ اپنی سوچوں سے بھی اجلا اور پاک و صاف ہونا چاہیے۔ تبھی خدا کی مہربانی ہوتی ہے، اس کا گھر بنتا ہے اور جنت جیسی راحت سے بھر جاتا ہے۔ہر شوہر پاکباز بیوی کی ویسی ہی قدر کرتا ہے جیسے وہ جنت سے اتری ہوئی حور ہو۔جو دکھ مجھے علم حاصل نہ کر سکنے اور کوئی ہنر نہ سیکھ پانے کا تھا،میں نے ان سب آزردگیوں کو مستقبل کی انہی امیدوں کے ڈھیر میں دفن کر دیا۔یہ سوچ کر خود کو تسلی دیتی کہ جب شادی ہوگی اور میرے جیون ساتھی کو ایک ایسی لڑکی ملے گی جس نے بلا وجہ کبھی گھر سے قدم باہر نہ نکالا ہوگا،تو وہ میری قدر کرے گا،مجھے زمین سے اٹھا کر آسمان پر بٹھا دے گا۔

سترہ برس کی عمر تھی جب میرا رشتہ آیا۔یہ غیر لوگ تھے۔ابا جان کے ایک دوست کی معرفت یہ رشتہ آیا تھا۔مختصر سی فیملی تھی  دو بھائی اور ایک ماں۔خوشحال کنبہ تھا۔بڑا بھائی کمانے کو سعودی عرب گیا ہوا تھا۔میری شادی چھوٹے بھائی سے ہوئی جس کا نام شہزاد تھا۔ابا کے دوست نے ان لوگوں کی بہت تعریف کی۔والد نے سمجھا کہ یہ رشتہ اچھا ہے میری لڑکی سکھی رہے گی اور عیش کرے گی۔ والد نے اپنی حیثیت سے بڑھ کر جہیز دیا۔ سسرال میں میری خوب پذیرائی ہوئی جلد ہی پتا چل گیا کہ شوہر نامدار تو کوئی کام نہیں کرتے۔بڑا بھائی سعودی عرب کی ایک مشہور کمپنی میں کام کرتا تھا۔وہ کما کر بھیجتا اور یہ سب کھاتے پیتے تھے۔میرا شوہر ماں کا لاڈلا تھا۔باپ فوت ہو چکے تھے
یہ ماموں کی سرپرستی میں پلا بڑھا اور گلی محلے کے آوارہ لڑکوں کے ساتھ کھیل کود کر جوان ہوا۔والد صاحب سے کہا گیا کہ یہ ایف اے پاس ہے،لیکن حقیقت یہ تھی کہ میٹرک بھی مکمل نہ کیا۔اسکول سے بھاگ کر آوارہ لڑکوں کی منڈلی کا حصہ بن گیا۔اس کے سارے دوست نشہ کرتے اور ہیروئن بھرے سگریٹ پیتے تھے۔آدمی اپنے دوستوں سے پہچانا جاتا ہے۔شہزاد اخلاقی قدروں پر یقین نہیں رکھتا تھا۔اسے خبر ہی نہ تھی کہ کنکر اور آبدار موتی میں کیا فرق ہوتا ہے۔وہ تو سبھی کو کنکر سمجھتا تھا۔میری حفاظت ماں باپ نے اس طرح کی تھی کہہماری بیٹی کو زمانے کی ہوا نہ لگے۔جس گھر جائے، سبھی اس کی عفت و عصمت کی قسمیں کھائیںاور وہ شوہر کے دل پر راج کرے۔مگر جب شوہر ہی ایسا گیا گزرا ہوکہ جسے نہ اپنی بیوی کی عزت کا خیال ہو،جو دوسروں کی بہو بیٹیوں پر بری نظر رکھتا ہو،اور چور اچکے، بدمعاش اس کے سنگی ساتھی ہوں تو ایسی عورت بھلائی کی کیا توقع رکھ سکتی ہے؟سچ ہے، نشہ آدمی کے ضمیر کو مار دیتا ہے۔

یہ نہ صرف اسے بے حمیت بنا دیتا ہےبلکہ آدمی ہی نہیں رہنے دیتا۔شہزاد کے عیب و ثواب بھی تبھی چھپے رہ سکے جب تک اس کا بڑا بھائی خرچ بھیجتا رہا۔جو ہی وہاں سے یہ *من و سلویٰ* بند ہوا،ان لوگوں کے حواس جاتے رہے۔میرے جیٹھ نے وہاں شادی کر لیاور ہمارے خرچے سے ہاتھ کھینچ لیا کہاب شہزاد بھی کچھ کمانے کی سعی کرے،میں کب تک اسے پالتا رہوں گا۔یہ لوگ دور اندیش نہ تھےکہ برے وقت کے لیے کچھ بچا کر رکھتے۔نتیجہ یہ نکلا کہ پہلے والے ٹھاٹ باٹ نہ رہے،بلکہ دال روٹی کے بھی لالے پڑ گئے۔شہزاد کو کمانے سے کیا واسطہ وہ تو نکھٹوؤں کی منڈلی کا سردار تھا۔اب پیسے نہ ہونے کے باعث یہ سرداری بھی خطرے میں پڑ گئی تھی۔ساس بات بات پر مجھ سے الجھنے لگی جب سے تم آئی ہو، ہم پر برے دن آگئے ہیں۔میکے والوں سے کہو کہ اس برے وقت میں داماد کا ساتھ دیں۔والد صاحب کو حالات کا اندازہ ہوا تو وہ مالی مدد کرنے لگے۔دو سال تک انہوں نے ہمارا خرچ اٹھایا۔اب پتا چلا کہ شہزاد کو کمانے کا ڈھنگ ہی نہیں آتا۔پڑھا لکھا بھی نہیں تھا کہ کہیں ملازمت دلوائی جا سکتی۔شہزاد کے ماموں نے سر کھا لیا کہ اب شہزاد بھی کچھ کرے۔انہوں نے اپنی جمع پونجی سے ایک دکان ڈال دی۔
بھانجے نے چند ماہ میں سارا مال اُڑا دیا اور دکان بیٹھ گئی۔ماموں نے جوتا اٹھا لیا اور کہا کہ اب جو بھی کرو،مزدوری کرو مگر کچھ کما کر لاؤ تاکہ دو وقت کی روٹی کا بندوبست ہو۔ناچار ایک لنگوٹیا یار کو خط لکھا جو لاہور میں رہتا تھا۔اس نے جواب دیا کہ یہاں میرے پاس آ جاؤ تو کچھ سبیل کر پاؤں گا۔ساس بولیں کہ بیوی کو ساتھ لے کر جاؤ،مجھے تم پر اعتبار نہیں۔ایسے ہی تو اور بگڑ جاؤ گے۔پھر وہاں تمہیں کھانا کون پکا کر دے گا؟کتنے دن ہوٹلوں کا کھاؤ گے، بیمار پڑ جاؤ گے۔ان بیچاری نے اپنے زیور بیچ کر شہزاد کی جیبیں بھر دیں کہ پردیس میں کرائے کا گھر لے گا۔بہو کے ساتھ ٹھوکریں نہ کھاتا پھرے،اور جب تک وہاں کام نہ ملے، خرچہ بھی تو کرنا ہوگا۔رفیق کی رقم جیب میں ڈال کر وہ میرے ساتھ لاہور آ گیا،زیب نامی دوست کے پاس، جو اکیلا رہتا تھا۔وہیں اس نے ہمیں ٹھہرا دیا۔

پتا چلا کہ یہ تو منشیات کا کاروبار کرتا ہےاور بڑے لوگوں سے اس وجہ سے جان پہچان رکھتا ہےکہ ان کی عیاشی کے انتظامات کر کے رقم کماتا ہے۔ایسے شخص کو عرفِ عام میں لوگ **دلال** کہتے ہیں۔اس کے گھر ہر وقت طرح طرح کے بدکردار لوگوں کا آنا جانا لگا رہتا۔شہزاد مجھ سے کہتا کہ زیب کے مہمانوں کے لیےچائے اور کھانا تمہیں ہی بنانا ہوگا،تبھی وہ مجھے کسی کام پر لگوائے گا۔اف! ایسا عذاب ناک ماحول کہ کبھی تصور بھی نہ کیا تھاکہ ایسی جگہ رہنا پڑے گا۔میرا تو دم گھٹتا تھا اور کلیجہ منہ کو آتا تھا۔زیب خان اس بازار سے لڑکیاں لاتااور آگے عیاش سیٹھوں کو پہنچاتا۔کس قدر گھناؤنا کاروبار تھا!جلد ہی مجھے اپنی عزت خطرے میں نظر آنے لگی۔شہزاد نے گویا میری حفاظت سے ہاتھ اٹھا لیے تھے۔اب میں کلی طور پر اس کے دوست کے رحم و کرم پر تھی۔جب یقین ہو گیا کہ کسی دن یہ بے ضمیر میری عزت کا بھی سودا کر گزرے گا،تو میں نے اپنے والد کو خط لکھا۔سودا لانے والے ایک لڑکے کی منت کیکہ کسی کو پتا نہ چلے، تم یہ خط سپردِ ڈاک کر آؤ۔وہ بیچارا شریف دل انسان تھا۔اس نے بھی خطرے کی بو پا لی تھی، بڑی رازداری سے میرا خط پوسٹ کر آیا۔ادھر میرے والدین پریشان تھے کہ شہزاد مجھے کہاں لے گیا ہے۔
میرا خط ملا تو ان کے ہوش اُڑ گئے۔والد فوراً میرے لکھے پتے پر پہنچے،مجھے اپنے ساتھ لے گئےاور طلاق کے لیے عدالت میں کیس دائر کر دیا۔یوں انہوں نے میری خلع کروا کرنشئیوں کے گینگ سے میری جان چھڑائی۔انہوں نے کبھی سوچا بھی نہ تھاکہ جس بیٹی کی اتنی حفاظت کی،اتنی پابندیوں میں پالا،اس کی اس طرح مٹی پلید ہوگی —وہ بھی اس شوہر کے ہاتھوںجو عزت کا رکھوالا ہونا چاہیے تھا۔اب ابا پچھتائے کہ کیوں بیٹی کو پڑھنے نہ دیا۔جو یہ چاہتی تھی اگر ہم اجازت دے دیتےتو آج اس کی زندگی بن جاتی۔کیا خبر اس کے اندر کوئی ڈاکٹر، انجینئر یا ادیب چھپا ہوا تھا۔لیکن شاید میری قسمت ہی ایسی تھی۔اب کہتے ہیں، پڑھو جہاں تک پڑھنا چاہو،میں نہ روکوں گا۔لیکن میرا دل بری طرح ٹوٹ چکا تھا۔کاش! وہ اس وقت سمجھ لیتےکہ اگر بیٹی میں صلاحیت ہوتو اسے پڑھنے اور آگے بڑھنے سے نہ روکنا چاہیے،ورنہ یہ آب دار موتیاگر شوہر اچھا نہ ملےتو کنکر ہی بن کر رہ جاتا ہے۔

(ختم شد)

اگر کہانی پسند آئی ہو تو فیس بک کمنٹ میں ضرور بتائیں۔ شکریہ