یہ آج سے تیس سال پہلے کی بات ہے۔ اُن دنوں ہمارے ابو تحصیل دار تھے۔ ہم چار بہنیں اور ایک بھائی تھے۔ سب سے بڑی بہن کا نام سمیرا تھا۔ باجی سمیرا کو بچپن میں میری خالہ نے گود لے لیا تھا، کیونکہ خالہ خالدہ کے ہاں اولاد نہیں ہوئی تھی۔جب سمیرا پیدا ہوئی تو امی شدید بیمار ہو گئیں۔ اُنہیں اسپتال داخل کرا دیا گیا۔ اُس وقت بچی کو ساتھ اسپتال میں داخل نہیں کرتے تھے۔ یوں آنٹی نے سمیرا کو اپنی گود میں بھر لیا اور وہ اُن کی بیٹی بن گئی۔جب امی اسپتال سے صحت یاب ہو کر گھر آئیں تو وہ بہت کمزور تھیں۔ بچی کی دیکھ بھال نہیں کر سکتی تھیں۔ ادویات کے زیادہ استعمال کی وجہ سے بات کرتے ہوئے اُن کا سانس پھول جاتا تھا۔ چنانچہ انہوں نے سمیرا کو اپنی بہن سے واپس نہ لیا۔ رفتہ رفتہ وہ انہی کی بیٹی سمجھی جانے لگی۔ خالہ بے اولاد تھیں، اُن کی پیاسی ممتا کو سمیرا کے ننھے منے وجود سے سہارا ملا۔ وہ بہت خوش تھیں اس بچی کو گود لے کر۔ خالہ نے پیار سے اُس کی پرورش کی، پھولوں کی طرح رکھا، یہاں تک کہ باجی سمجھدار ہو گئیں۔ اب وہ انہی کو اپنی حقیقی ماں سمجھتی تھیں۔جب سمیرا ایف اے میں تھیں، تو میری خالہ جان اُنہیں اپنے ہاتھوں سے کھانا کھلاتی تھیں، اُن کے سو ناز اٹھاتیں۔ سمیرا نے کبھی اپنے ہاتھ سے کوئی کام نہیں کیا تھا۔ خالہ ہی اُن کے سارے کام کرتیں۔ وہ اتنا خیال رکھتیں کہ ہم رشک کرتے۔ اکثر دل میں خیال آتا کہ کاش ہم خالہ کی اولاد ہوتے۔ایک بار ہمارے گاؤں میں کسی عزیز کی شادی تھی۔ خالہ کو بھی دعوت ملی۔
وہ سمیرا کو ساتھ لے کر شادی میں شرکت کے لیے ہمارے گھر آ گئیں۔ جب سمیرا شادی میں شریک ہوئیں تو وہاں دولہا کے والد کے ایک دوست نے باجی سمیرا کو دیکھا اور اپنے بیٹے کے لیے پسند کر لیا۔شادی کا ہنگامہ ختم ہوا تو حمید صاحب ہمارے گھر کا پتا لے کر پہنچ گئے۔ پہلے ہمارے ہاں آئے، پھر خالہ جان کے گھر چلے گئے اور خالو سے سمیرا کا رشتہ مانگا۔ خالہ اور خالو نے انکار کر دیا کہ ہم غیر لوگوں میں رشتہ نہیں کریں گے۔ ہماری ایک ہی بیٹی ہے۔ لیکن حمید صاحب نے جیسے قسم کھا لی تھی کہ سمیرا ہی کو بہو بنا کر لائیں گے۔اب وہ گاہے گاہے خالو جان کے دروازے پر دستک دینے لگے۔ انہوں نے بہت اصرار کیا، مگر خالو جان نے ہاں نہ کی۔انہی دنوں میرے ماموں، جو انگلینڈ میں مقیم تھے، وطن واپس آئے۔ ماموں کا مکان خالہ کے مکان کے ساتھ ہی تھا۔ خالو نے اُن سے حمید صاحب کا ذکر کیا۔
ماموں جب حمید صاحب سے ملے تو انکشاف ہوا کہ وہ پہلے سے ایک دوسرے کو جانتے ہیں۔یوں ماموں نے خالو جان کو بتایا کہ:حمید صاحب بہت اچھے آدمی ہیں، میرے پرانے جاننے والے ہیں۔ آپ پریشان نہ ہوں۔ اُن کے بیٹے اور گھر بار کو جا کر دیکھ لیجیے۔ دیکھنے میں کیا حرج ہے؟ اگر رشتہ پسند آ جائے تو ہاں کر دیجیے، ورنہ انکار کر دیجئے گا۔ماموں، ممانی اور خالہ، خالو حمید صاحب کے ہاں گئے۔ ان کا بیٹا شالک بہت پیارا سا نوجوان تھا۔ گھر بھی خوبصورت اور خوشحال تھا۔ حمید صاحب نے بہت اصرار کرکے وہیں ہاں کروا لی۔ چٹ منگنی پٹ بیاہ والا معاملہ ہوا، یوں میری نازک سی باجی سمیرا دلہن بن کر اُن کے گاؤں چلی گئیں۔ان کے شوہر شالک بہت اچھے انسان تھے۔ ہمارے دولہا بھائی اپنی بیوی کو بہت چاہتے تھے۔ باجی کی زندگی میں ایک اور خوشی اُسی سال آئی، جب اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنی رحمت سے ایک بیٹا عطا فرمایا، جس کا نام انہوں نے شان رکھا۔شالک بھائی کو بیٹے کی پیدائش کی اتنی خوشی ہوئی کہ انہوں نے سارے گاؤں میں مٹھائی تقسیم کی اور پوری برادری کو کھانا کھلایا۔ مگر خدا کی مرضی کہ شان تین ماہ بعد بیمار ہوا اور وفات پا گیا۔ بیٹے کی محرومی سمیرا اور شالک بھائی پر قیامت بن کر ٹوٹی۔ کافی عرصے تک دونوں افسردہ رہے، پھر رفتہ رفتہ اس صدمے سے سمجھوتا کر لیا۔پانچ سال گزر گئے مگر اللہ نے دوبارہ اولاد کی خوشی سے نہیں نوازا۔ میری بہن اس کمی کو شدت سے محسوس کرنے لگیں، لیکن دولہا بھائی بیوی کو ہر حال میں خوش دیکھنا چاہتے تھے۔ جب بھی باجی اولاد نہ ہونے کا دکھ کرتیں، شالک بھائی انہیں یہ کہہ کر دلاسا دیتے۔
یہ اللہ تعالیٰ کی دین ہے، وہ جب چاہے گا دے دے گا۔ مجھے تمہارے سوا کسی کی ضرورت نہیں ہے۔حالانکہ اولاد کی خواہش تو ہر دل میں ہوتی ہے، لیکن وہ کبھی بیوی کو اس کمی کا ذمہ دار نہیں ٹھہراتے تھے۔ تاہم دنیا کسی حال میں خوش نہیں رہتی۔ایک روز جب شالک بھائی شام کو کاروبار سے گھر آئے تو اُن کے والد نے انہیں اپنے کمرے میں بلایا اور بولے:ہم نے بہت انتظار کر لیا، اب مزید انتظار نہیں کر سکتے۔ تمہاری بیوی سے اولاد کی خوشی دوبارہ نصیب میں نہیں لگتی، لہٰذا تم دوسری شادی کر لو۔جب اُن کے والد نے زور دے کر یہ بات کہی تو شالک بھائی بہت پریشان ہو گئے۔ جس لڑکی سے وہ اُن کی دوسری شادی کرانا چاہتے تھے، وہ باجی کے نندوئی کی بہن تھی، جسے دو بار پہلے ہی طلاق ہو چکی تھی۔گھر میں جھگڑے اور تلخیاں بڑھنے لگیں۔ شالک ان حالات سے تنگ آ گئے اور فیصلہ کر لیا کہ وہ اب اس گھر میں نہیں رہیں گے۔ ایک دن ایسا آیا کہ سسر صاحب نے باجی سے کہا تم یہاں سے چلی جاؤ، میں تمہارا یہاں رہنا پسند نہیں کرتا۔یہ ساری باتیں شالک نے اپنے کانوں سے سن لیں۔ انہوں نے اسی وقت بیوی کو ساتھ لیا، اپنا سامان اٹھایا اور شہر میں ہمارے پاس آ گئے۔ میرے والد نے داماد کو ایک کوٹھی کرائے پر لے کر دے دی تاکہ وہ دوبارہ خوش و خرم زندگی گزار سکیں۔
یوں ایک سال بیت گیا۔ شالک بھائی کا ایک دوست، جو سعودی عرب میں رہتا تھا، اچانک پاکستان آیا۔ وہ دوست باجی کے سسر کو بھی جانتا تھا۔ حمید صاحب نے اپنے بیٹے کے دوست سے درخواست کی کہ مجھ سے غلطی ہو گئی ہے، تم میری صلح بیٹے اور بہو کے ساتھ کرا دو۔ کافی کوشش کے بعد آخرکار ان میں صلح ہو گئی، اور بہنوئی صاحب دوبارہ گاؤں واپس چلے گئے۔ایک سال بعد اللہ تعالیٰ نے انہیں پھر ایک چاند سا بیٹا عطا فرمایا، جس کا نام انہوں نے مہرِ حیات رکھا۔ پیار سے وہ اسے ہنی کہتے تھے۔ اس طرح دوبارہ وہ گھر خوشیوں کا گہوارہ بن گیا۔ابھی ہنی آٹھ ماہ کا ہی تھا کہ شالک بھائی بیمار پڑ گئے۔ انہوں نے اپنی بیماری کا حال بیوی سے چھپائے رکھا، لیکن فیملی ڈاکٹر نے میری بہن کو فون کر کے آگاہ کر دیا کہ آپ کے شوہر کو لاعلاج مرض لاحق ہو گیا ہے، اور ان کی جان کو خطرہ ہے۔ یہ مہلک مرض کینسر تھا۔
باجی کے سسر ان دنوں اپنی بیٹی کے پاس کراچی گئے ہوئے تھے۔ شالک بھائی کی طبیعت اتنی بگڑ گئی کہ انہیں لاہور کے ایک اسپتال میں داخل کرا دیا گیا۔ جب باجی نے اپنے سسر کو فون کیا تو وہ فوراً کراچی سے واپس آ گئے۔ انہوں نے اسپتال جا کر بیٹے کو دیکھا تو ڈاکٹروں نے بتایا کہ انہیں کینسر ہے۔ان کا علاج تین چار ماہ تک وہاں چلتا رہا۔ باجی اور ان کے سسر نے علاج پر بے تحاشا روپیہ خرچ کیا، مگر افاقے کے بجائے شالک بھائی کی حالت دن بدن بگڑتی گئی۔ آخر کار ڈاکٹروں نے جواب دے دیا۔بیماری کے دوران شالک بھائی کا سارا کاروبار ان کے والد نے اپنے ہاتھ میں لے لیا۔ دوست احباب بھی برے وقت میں ساتھ چھوڑ گئے۔ یوں میری شہزادی بہن خالی ہاتھ رہ گئیں اور کوڑی کوڑی کے لیے اپنے سسر کی محتاج ہوئیں۔
یہ دور میری بہن کی زندگی کا نہایت صبر آزما اور آزمائش بھرا دور تھا۔جب والدین نے بیٹی کو پریشان دیکھا تو ابو نے داماد کے علاج کے لیے بیرونِ ملک بھیجنے کا بندوبست کیا۔ انہوں نے اخراجات کی پروا نہ کی، کیونکہ چاہتے تھے کہ بیٹی کا سہاگ سلامت رہے اور اس کا گھر دوبارہ آباد ہو جائے۔انہی دنوں بہاولپور سے ابو کا ایک سرجن دوست ہمارے گھر آیا۔ اُس نے شالک بھائی کو دیکھا اور کہا کہ اب ان کو انگلینڈ علاج کے لیے لے جانا بے کار ہوگا۔ لیکن ابو پھر بھی امید کا دامن ہاتھ سے چھوڑنے کو تیار نہ تھے۔جس روز فلائٹ تھی، اُس سے ایک دن پہلے شالک بھائی کو اُن کے بہنوئی نے دوا دی جو مقدار سے زیادہ تھی۔ اُن کا سانس بند ہو گیا اور وہ خالقِ حقیقی سے جا ملے۔
ڈاکٹر نے معائنہ کرنے کے بعد کہا کہ دوا کی زیادہ مقدار دینے کی وجہ سے ان کی موت قبل از وقت واقع ہوئی ہے۔ سبھی یہی کہہ رہے تھے کہ ان کے بہنوئی نے جائیداد اور دولت ہتھیانے کے لیے دانستہ زیادہ دوا پلائی۔ بہرحال جو ہونا تھا، ہو گیا۔مگر میری بہن پر شوہر کی موت قیامت بن کر ٹوٹی۔ سارا جہاں شالک کی موت پر رو رہا تھا، مگر باجی کی آنکھ سے ایک آنسو نہ گرا۔ وہ سکتے کی کیفیت میں تھیں، جیسے پتھر کی ہو گئی ہوں۔ جب کوئی کہتا کہ رو لو، تمہارے شوہر کا انتقال ہو گیا ہے، تو وہ کہتیں کہ میں کیوں روؤں، میرا شوہر مرا نہیں ہے، وہ تو باہر گیا ہوا ہے۔ڈاکٹروں نے انہیں سکون آور دوائیں دیں، تب جا کر انہیں ہوش آیا اور آنکھوں سے برسات شروع ہو گئی۔ مگر دو منٹ بعد وہ پھر بے ہوش ہو جاتیں۔
اسی دوران جب سمیرا اپنے سہاگ کے بچھڑنے پر غش کھا رہی تھیں، اُن کا سسر باجی کے زیورات اور قیمتی اشیاء اپنی تحویل میں لینے میں مصروف تھا۔ باجی کا نندوئی بہت لالچی انسان تھا۔جب ابو کو اطلاع ملی تو انہوں نے خالو، ماموں اور چاچو کو ساتھ لیا اور شالک بھائی کے گاؤں چلے گئے۔ انہوں نے باجی کے سسر سے کہا کہ بہو کو عدت تو پوری کرنے دو۔ ہم شریف لوگ ہیں، لوگوں کو کیا بتائیں گے؟ لوگ تو یہی کہیں گے کہ بیٹی کی عدت بھی پوری نہ ہونے دی اور واپس لے آئے۔مگر وہ لوگ ایسی باتیں سننے کے لیے تیار نہ تھے۔ وہ تو لڑائی پر اُترے ہوئے تھے۔ پولیس کو بھی اپنے ساتھ ملا رکھا تھا۔جب ان کے تیور ایسے دیکھے تو ابو نے گاؤں کے معزز لوگوں سے مدد مانگی اور انہیں ساتھ لے کر مسجد میں چلے گئے تاکہ بات بات چیت سے طے ہو جائے۔وہ ابھی مسجد میں ہی تھے کہ باجی کے نندوئی نے گھر جا کر سمیرا کو مارنا شروع کر دیا۔ اُن کی ساس پہلے ہی فوت ہو چکی تھیں، اس لیے گھر میں ان کو بچانے والا کوئی نہ تھا۔ نندوئی مارتا جاتا اور کہتا جاتا کہ ہمارے گھر سے ابھی اسی وقت باہر نکل جاؤ۔کچھ لوگوں نے آ کر مسجد میں بتایا کہ آپ یہاں پنچایت جمع کیے بیٹھے ہیں، اور وہاں وہ لوگ آپ کی بیٹی کو مار رہے ہیں۔یہ سنتے ہی ابو بھاگے ہوئے شالک بھائی کے گھر پہنچے۔ لیکن وہ لوگ پہلے سے جھگڑے کے لیے تیار بیٹھے تھے۔ ابو کو دیکھتے ہی فائرنگ شروع کر دی۔ میرے بھائی نے پولیس کو اطلاع دی، مگر پولیس کے کانوں پر جوں تک نہ رینگی۔
گاؤں والے بھی خاموش تماشائی بنے رہے۔الٹا باجی کے سسر نے ابو پر مقدمہ کر دیا کہ یہ لوگ ہمارے مکان پر قبضے کی نیت سے آئے تھے، جبکہ ان کی بیٹی تو خود ہمارے گھر میں تھی۔یوں باجی کو اسی دن گھر چھوڑنا پڑا۔ کیس عدالت میں چلنے لگا۔سارا زیور، قیمتی جہیز اور وہ گاڑی جو ابو نے نواسے کی پیدائش پر بیوی کو تحفے میں دی تھی، سب کچھ سمیرا کے سسر نے اپنے قبضے میں لے لیا۔ باجی تین کپڑوں میں گھر سے نکلی تھیں۔ وہ پوتا ہنی، جس کی پیدائش پر پورے گاؤں میں خوشیاں منائی گئی تھیں، اسے بھی ایک جوڑے کے ہمراہ بہو کے ساتھ گھر سے دھکیل دیا گیا۔میری باجی، جنہوں نے زندگی کی سختیاں کبھی جھیلی نہ تھیں، انہیں عدالتوں کے چکر لگانے پڑ گئے۔ باجی کہتیں کہ مجھے سازوسامان کی فکر نہیں، بس شوہر کے گھر بیٹے کے ساتھ بیٹھنے دے دو، مگر سسرالی منظور نہ ہوئے۔ انہوں نے کہا کہ جو مقدمے کے ذریعے ملے گا، وہ لے لینا، ہم اپنے ہاتھ سے کچھ نہیں دیں گے۔ابو نے ہمت کی اور مکان کا کیس کر دیا۔ کیس چلتا رہا اور فیصلہ باجی کے حق میں آیا، کیونکہ اولاد نرینہ تھی اور شالک بھائی نے زندگی میں اپنے حصے کی جائیداد باجی کے نام کر رکھی تھی۔ عدالت نے قبضہ واپس دلوایا اور باجی اپنے گھر واپس آ گئیں۔
ایک رات ان کے سسرالیوں نے فائرنگ کر کے میری بہن کو ہراساں کیا۔ تب والد صاحب نے ان کے آٹھ افراد کے خلاف مقدمہ درج کرایا کیونکہ انہوں نے ناجائز اسلحہ استعمال کیا تھا۔ جب سسرالیوں نے محسوس کیا کہ وہ بری طرح پھنس چکے ہیں تو انہوں نے صلح کے لیے ہاتھ بڑھایا اور ابو کے سامنے آ کر کہا کہ ہم آپ کی بیٹی کی ہر چیز واپس کرتے ہیں، ہمیں معاف کر دیں۔ ابو شریف انسان تھے اور معاف کرنے کا ارادہ کر بیٹھے تو سسرالی اور نندوئی نے دوبارہ دھوکا دیا۔اس پر والد صاحب کو بہت غصہ آیا اور انہوں نے مقدمے کو آگے بڑھایا۔ سسرالی اور نندوئی واقعی مشکل میں پھنس گئے۔ علاقے کے کئی معزز افراد نے صلح کرانے کی کوشش کی اور دو معزز لوگوں کو ثالث مقرر کیا گیا۔جب فیصلے کا وقت آیا تو حمید صاحب نے کہا کہ عدالت سے باہر فیصلہ کر لیں۔ باجی نے کہا، ٹھیک ہے، اگر یہ قرآن اٹھا لیں تو میں سب کچھ معاف کر دوں گی۔ انہوں نے قرآن اٹھا لیا اور کہا کہ میرے پاس ان کا کوئی سازوسامان نہیں ہے۔ اس پر باجی اور ابو نے عدالت میں جو چیزیں ان کے قبضے میں تھیں، چھوڑ دیں۔مگر چند ہفتوں بعد باجی کے نام ایک خط آیا کہ بڑے عدالتوں کے دروازے کھٹکھٹائے گئے مگر ہم سے کچھ واپس نہ لیا جا سکا۔ لوگوں نے بہن سے کہا کہ ان جھوٹے لوگوں کو آخری حد تک پہنچانا چاہیے، یہ شرافت کی زبان نہیں سمجھتے۔ باجی نے اپنے باقی حقوق کے لیے دوبارہ کیس کر دیا۔آخر کار عدالت نے میری بہن کا حق تسلیم کیا۔ انہیں زیورات، گاڑی، پیسے اور جہیز کا سارا سامان واپس مل گیا۔ کیس کے دوران جو کچھ بھی چلتا رہا، آخرکار انصاف ان کے حق میں ہوا۔
باجی فیصلے مکمل ہونے کے بعد ابو کے پاس ہمارے گھر میں رہنے لگیں۔ جب تمام مقدمات ختم ہو گئے تو وہ اپنی خالہ، جنہیں وہ ماں کہا کرتی تھیں، کے پاس چلی گئیں۔باجی سمیرا ایک نازک کلی تھیں، لیکن شالک بھائی کی موت نے اس نازک پھول کو کانٹوں پر لا ڈالا تھا۔ بعد میں کئی رشتے آئے، سب نے زور دیا کہ شادی کر لیں، مگر انہوں نے صاف کہہ دیا کہ وہ دوبارہ شادی نہیں کریں گی۔ کہنے لگیں کہ اب میں صرف اپنے بیٹے ہنی کے لیے جیوں گی، کیونکہ مہرِ حیات ہی اب میری حیات ہے۔انہوں نے بیٹے کو پالا، پوسا اور اسے ایک روشن مستقبل تک پہنچایا۔ اس دوران ہم بہنوں کی بھی شادیاں ہو گئیں۔ خالہ اور خالو کی کل جائیداد اور سرمایہ باجی سمیرا کو وراثت میں ملا۔ شوہر سے ملا ہوا مکان انہوں نے بیٹے کے نام کر دیا۔ جب مہرِ حیات ایک اعلیٰ عہدے پر فائز ہو گیا تو اس کے رشتے آنے لگے۔باجی سوچ میں تھیں کہ اپنے بیٹے کے لیے کس لڑکی کو بہو بنائیں، کہ اچانک ایک دن ان کی وہی نند اور نندوئی آ گئے جو کبھی ان کے جانی دشمن تھے۔
وہ معافیاں مانگنے لگے۔ باجی کچھ نہ سمجھی کہ یہ کیوں آئے ہیں، مگر جب انہوں نے آخرکار اپنے آنے کا مقصد بیان کیا تو سمیرا حیرت میں ڈوب گئیں۔وہ سوچ بھی نہیں سکتی تھیں کہ وہی نند اور نندوئی، جنہوں نے انہیں عدت پوری کرنے کی بھی مہلت نہ دی تھی اور گھر سے نکال دیا تھا، آج ان سے ایسا سوال کریں گے۔ جنہوں نے انہیں عدالتوں کے چکر لگوائے تھے، وہی آج کہہ رہے تھے کہ ہماری بیٹی کو اپنے بیٹے حیات کے لیے قبول کر لو، کیونکہ حیات ہمارا ہی لختِ جگر ہے۔جس معصوم بچے کو انہوں نے ایک جوڑے کے ساتھ باپ کے گھر سے نکال دیا تھا، آج وہی ان کا لختِ جگر بن چکا تھا۔ افسوس کی بات یہ تھی کہ باجی یہ سمجھ نہ سکیں کہ وہ لوگ کس منہ سے ان سے ایسی بات کر رہے ہیں اور کس امید پر آئے ہیں۔سمیرا نے پرسکون لہجے میں کہا کہ بے شک مہر آپ کا بھی بیٹا ہے، لیکن آج کل اولاد اپنی شادی کے معاملے میں اپنی رائے خود رکھتی ہے۔ آپ اس سے پوچھ لیجیے، اگر اسے آپ کی بیٹی کا رشتہ قبول ہے تو مجھے کوئی اعتراض نہیں ہوگا۔انہوں نے بیٹے کو فون کیا۔ حیات نے کہا کہ میں آدھے گھنٹے میں آ جاتا ہوں۔
آدھے گھنٹے بعد وہ آگیا۔ ماں نے بیٹے کو بتایا کہ تمہاری پھوپی اور پھوپھا آئے ہیں اور تم سے کچھ بات کرنا چاہتے ہیں۔ یہ کہہ کر وہ کمرے سے باہر چلی گئیں۔پھوپی نے بھتیجے کو دیکھا تو بے اختیار اس کی سو بلائیں لیں، پھر آبدیدہ ہو کر بولیں کہ پچیس برس تمہاری جدائی میں تڑپتی رہی ہوں۔ بیٹے، تم میرے اکلوتے مرحوم بھائی کی نشانی ہو۔ اتنی مدت تک آنکھیں تمہاری راہ دیکھتی رہی ہیں۔ آج تمہیں دیکھ کر دل کو سکون ملا ہے، اور اب چاہتی ہوں کہ ہمیشہ تمہیں اپنے سامنے دیکھوں۔ گاؤں میں تمہارے والد کا گھر تمہارا انتظار کر رہا ہے۔اگر تم میری بیٹی سے شادی کر لو تو ہم سب بچھڑے ہوئے ایک بار پھر مل جائیں گے۔ یہ کہہ کر وہ رونے لگیں۔ جب کچھ دیر بعد ان کے آنسو تھمے تو اپنے شوہر کو مخاطب کیا کہ ناصر، تم بھی تو کچھ کہو، تم کیوں چپ بیٹھے ہو۔ناصر نے دانت نکالتے ہوئے کہا کہ ہاں بیٹے، بس تقدیر میں یہی لکھا تھا کہ تمہارے والد اللہ کو پیارے ہو گئے اور تم ہم لوگوں سے جدا ہو گئے، مگر اب ہم زیادہ دنوں تک ایک دوسرے سے جدا نہیں رہیں گے۔مہرِ حیات اب بچہ نہیں تھا۔ وہ ایک کلاس ون آفیسر بن چکا تھا۔ اتنی سمجھ تو اس میں بھی تھی کہ دوست اور دشمن میں فرق کر سکے۔ اپنے باپ کی تو اس نے شکل بھی نہ دیکھی تھی، تاہم ماں جس محبت اور عقیدت سے اس کے سامنے اپنے شوہر کا ذکر کرتی تھی، اس کے دل میں اپنے مرحوم والد سے ایک غیبی سا رشتہ بن گیا تھا۔
اسی رشتے کا لحاظ کرتے ہوئے اس نے نہایت ادب سے کہا کہ پھوپی جان، آپ کا پیار سر آنکھوں پر۔ اگرچہ آپ بہت دیر سے آئیں، پھر بھی دیر آید درست آید کے مصداق آپ لوگوں کا آنا میرے لیے باعثِ خوشی ہے۔ مگر میں آپ کی بیٹی سے شادی نہیں کر سکتا، کیونکہ میرا فی الحال شادی کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔ میری مؤدبانہ گزارش یہ ہے کہ آپ اپنی صاحبزادی کی شادی کہیں اور کر دیں۔میں تاعمر اسے اپنی بہن سمجھوں گا، کیونکہ میری نہ کوئی بہن ہے اور نہ بھائی۔ میں چاہتا ہوں کہ یہ رشتہ آپ کے بچوں سے محبت، عزت اور خلوص کے ساتھ قائم رہے، مگر شادی کے رشتے کی صورت میں نہیں۔مہرِ حیات کی بات سن کر پھوپی جان کے چہرے کا رنگ بدل گیا۔ وہ چند لمحے خاموش بیٹھی رہیں، جیسے یقین ہی نہ آیا ہو کہ جس مقصد کے لیے وہ اتنی منت سماجت کے بعد یہاں تک آئی ہیں، وہ اتنی نرمی سے انکار کر دے گا۔
ان کی آنکھوں میں نمی تیرنے لگی۔پھر آہستہ سے بولیں کہ بیٹے، ہم نے تو دل میں ارمان باندھ رکھے تھے کہ تم آؤ گے تو گھر پھر سے آباد ہو جائے گا۔ تمہارے والد کے جانے کے بعد ہمارے دلوں پر جو بوجھ تھا، وہ تمہیں دیکھ کر کچھ ہلکا ہو گیا تھا، مگر تمہارے اس انکار نے ہمیں جیسے دوبارہ خالی کر دیا ہے۔ناصر نے بیوی کو خاموش دیکھا تو بولا،سمیرا بہن! تمہارے شوہر کے بعد ہم نے تمہیں کبھی دشمن نہیں سمجھا۔ جو کچھ ہوا، وہ وقت کی ستم ظریفی تھی۔ اب جب سب کچھ مٹانے آئے ہیں تو تمہارے بیٹے نے ہمیں ایک بار پھر پرانی یادوں میں دھکیل دیا ہے۔سمیرا دروازے پر کھڑی یہ سب سن رہی تھیں۔ وہ خاموشی سے آگے بڑھیں اور نہایت وقار سے بولیں،ناصر بھائی، وقت سب سے بڑا استاد ہے۔ اس نے مجھے سکھا دیا ہے کہ زخم بھر تو جاتے ہیں، لیکن ان کے نشان کبھی مٹتے نہیں۔ میں نے زندگی کے ہر دکھ کو برداشت کیا، مگر کسی پر الزام نہیں رکھا۔ اگر میرا بیٹا آپ کی بیٹی سے رشتہ قبول نہیں کر رہا تو یہ اس کا اپنا فیصلہ ہے۔ وہ بالغ، سمجھدار اور صاحبِ رائے ہے۔یہ سن کر نند اور نندوئی کچھ دیر ساکت بیٹھے رہے۔
پھر پھوپی نے سر جھکا کر کہا،شاید تم ٹھیک کہتی ہو سمیرا، ہم واقعی بہت دیر سے جاگے ہیں۔ وقت ہمیں موقع نہیں دے گا۔یہ کہہ کر وہ آہستہ آہستہ اُٹھیں، اور جاتے جاتے مہرِ حیات کے سر پر ہاتھ رکھا۔ ان کی آنکھوں سے دو موٹے آنسو لڑھک کر فرش پر گر گئے۔ ناصر نے چپ چاپ دروازے کی طرف قدم بڑھائے۔ جاتے ہوئے بس اتنا کہا،اللہ تم دونوں کو اپنی امان میں رکھے۔سمیرا کی آنکھوں میں بھی نمی اتر آئی، مگر دل میں ایک عجیب سا سکون تھا۔ برسوں کے دکھ جیسے ہوا میں تحلیل ہو گئے ہوں۔ انہیں یوں لگا جیسے شالک بھائی کی روح کہیں دور سے مسکرا کر کہہ رہی ہو۔ تم نے میرا حق اور میرا نام دونوں بچا لیے، سمیرا۔
.jpg)