خودکشی کا راز

Sublimegate Urdu Stories

امی کی نسبت ابو کے ساتھ بچپن ہی سے طے تھی۔ امی کو پڑھنے کا شوق تھا۔ انہوں نے بطورِ پرائیویٹ طالبہ ایم اے کیا، حالانکہ گاؤں میں کسی لڑکی کا ایم اے کرنا ایک معجزہ سمجھا جاتا تھا۔ اس کے برعکس، ابو صرف میٹرک پاس تھے۔ وہ شروع سے ہی لاپروا تھے۔ دادا نے بہت چاہا کہ بیٹا پڑھ لکھ کر کوئی مقام حاصل کر لے، مگر انہوں نے میٹرک سے آگے پڑھنا گوارا نہ کیا۔گھر میں خوشحالی تھی۔ زمین کی پیداوار سے اچھا گزارا ہو رہا تھا۔ ابو ملازمت کو عار سمجھتے تھے، اسی لیے تعلیم کی طرف توجہ نہ دی۔میرے دادا اور نانا آپس میں سگے بھائی تھے۔ زمین اور جائیداد مشترکہ تھی۔ دونوں بھائیوں میں بہت پیار تھا۔ جائیداد، زمین یا اس کی پیداوار پر کبھی اختلاف نہ ہوا۔ ہمیشہ افہام و تفہیم اور باہمی رضامندی سے کام لیا۔امی جان حساس اور باصلاحیت تھیں۔ اپنی ذمہ داریوں کا بخوبی ادراک رکھتی تھیں۔

 ہر کام خوش اسلوبی اور وقت پر انجام دیتی تھیں، جبکہ ابو لااُبالی اور غیر ذمہ دار انسان تھے۔ کوئی کام وقت پر نہ کرتے تھے۔ بزرگ سمجھاتے تو برا مان جاتے۔جب شادی کا مرحلہ آیا تو تعلیم کا فرق سامنے آیا، مگر نانا نے اس بات کو مسئلہ نہ بننے دیا۔ یوں امی کی شادی ابو سے ہو گئی۔امی کے دو بھائی تھے، دونوں اعلیٰ تعلیم یافتہ اور اچھے عہدوں پر فائز تھے۔ انہوں نے والد صاحب کو سمجھایا کہ بےکار گھومنے سے بہتر ہے کہ ہمارے پاس لاہور آ جاؤ، کالج میں داخلہ لے لو اور تعلیم حاصل کرو، کیونکہ انسان کی زندگی کا کوئی نہ کوئی مقصد ہونا چاہیے۔

آوارہ دوستوں کے ساتھ وقت ضائع کرنے کے بجائے دوبارہ پڑھائی شروع کرو۔ماموں کے سمجھانے پر ابو ان کے پاس چلے گئے اور کالج میں داخلہ لے لیا۔ ان کے تمام تعلیمی اخراجات ماموں ہی اٹھاتے تھے۔ وہ دادا جان سے کوئی رقم نہ منگواتے تھے۔میکہ اور سسرال ایک ہی جگہ تھے۔ ہماری پرورش نانی اور دادی نے مل کر کی۔کبھی کے دن بڑے، کبھی کی راتیں۔ اس خوشحال خاندان کو اچانک مشکلات نے آن گھیر لیا۔ دادا اور نانا نے ہمسایہ سے زمین خریدی جو اس کے بھائیوں کے ساتھ مشترکہ تھی۔ انہوں نے مقدمہ کر دیا۔ ہمارے بزرگ بھی فریق بن گئے۔ مقدمے پر بہت روپیہ خرچ ہو گیا۔انہی دنوں سیلاب آ گیا۔ ہماری زمین دریا کنارے تھی۔ دریا میں طغیانی آنے سے زمین دریا بُرد ہو گئی۔ وہ گھرانہ جو خوشحال تھا، مالی پریشانیوں کا شکار ہو گیا۔ابو نے بمشکل تعلیم مکمل کی۔ بڑے ماموں نے اپنے اثر و رسوخ سے ان کو ایک اچھی سرکاری نوکری دلوا دی۔ انہیں سرکاری رہائش بھی مل گئی۔ انہوں نے امی اور ہمیں شہر بلا لیا۔کچھ عرصے بعد امی کو خیال آیا کہ وہ بھی ملازمت کریں۔ انہوں نے قریبی اسکول میں بطور ٹیچر ملازمت اختیار کر لی۔

 وہ صبح ہمارے ساتھ جاتیں اور چھٹی کے وقت ہم سے تھوڑی دیر پہلے گھر آ جاتیں۔وہ کھانا صبح چھ بجے تیار کر کے ریفریجریٹر میں رکھ دیا کرتی تھیں۔ امی نے ہماری تربیت بہت اچھے طریقے سے کی اور گھر بنانے میں بہت محنت سے کام لیا۔ وہ گھر کے تمام کام اپنے ہاتھوں سے انجام دیا کرتی تھیں۔ ان کو اپنے شوہر سے بہت محبت تھی۔ ان کے کپڑے دھونا، استری کرنا، ان کے لیے طرح طرح کے کھانے بنانا اور ان کو آرام و سکون پہنچانا گویا میری والدہ کی زندگی کا مقصد تھا۔ہمارا گھر سکون کا گہوارہ تھا۔ ہم شہر کے ایک اچھے ادارے میں تعلیم حاصل کر رہے تھے، اور یہ سب ہماری ماں کی بدولت ممکن ہوا، کیونکہ والدہ اور ماموں تعلیم کی قدر و منزلت کو بخوبی سمجھتے تھے۔کبھی کبھار دادا دادی اور نانا نانی ہم سے ملنے آ جاتے۔ ہم صرف چھٹیوں میں ہی گاؤں، اپنے آبائی گھر جایا کرتے تھے۔شروع میں ابو ہمارا بہت خیال رکھتے تھے، مگر رفتہ رفتہ ان کا رویہ روکھا اور سرد ہوتا گیا۔ وہ امی کی بات بات پر اہانت کرنے لگے، ہمیں بھی بلاوجہ جھڑک دیتے تھے۔ سمجھ میں نہ آتا تھا کہ انہیں کیا ہو گیا ہے۔

گھر میں آہستہ آہستہ بے سکونی نے قدم جما لیے تھے۔ادھر بے سکونی کا یہ عالم تھا تو اُدھر دادا جان اور نانا ابو باری باری بیمار ہو کر خالقِ کائنات سے جا ملے۔ والد صاحب کو اب کسی کا ڈر نہ رہا، وہ اور زیادہ شیر ہو گئے۔ امی پر ہاتھ اٹھانے لگے حالانکہ وہ بے قصور ہوتیں۔ ہماری کچھ زمین جو دریا برد ہو گئی تھی، دریا کا رخ بدل جانے کے بعد دوبارہ نکل آئی، لیکن اس پر مقامی لوگوں نے قبضہ کر لیا تھا۔ ماموں اپنے اثر و رسوخ سے اس زمین کو واگزار کرانے میں لگے ہوئے تھے۔ اس میں ہم سب کا فائدہ تھا، لیکن اس کے باوجود والد صاحب کا رویہ امی سے درست نہ تھا۔ہم چار بہنیں اور دو بھائی تھے۔ بڑا بھائی اسلام آباد میں پڑھ رہا تھا، وہ ہم سب سے بہت محبت کرتا تھا۔ ابو ہر ماہ اس کو مناسب خرچہ بھجواتے تھے، لیکن کچھ دنوں سے وہ منصور کو خرچہ نہیں بھجوا رہے تھے۔امی اپنی تنخواہ پس انداز کر لیا کرتی تھیں اور بیٹے کو رقم بھجوانے لگیں۔ 

جب وہ ابو سے پوچھتیں کہ آپ منصور کو خرچہ کیوں نہیں بھیج رہے، تو وہ کہتے کہ خرچہ پورا نہیں ہو رہا۔ حیرت کی بات یہ تھی کہ اخراجات وہی تھے، تو پھر ابو کی تنخواہ کہاں جا رہی تھی؟جس دفتر میں وہ کام کرتے تھے، وہاں ایک شازیہ نامی لڑکی بھی کام کرتی تھی۔ ابو کی اس سے دوستی ہو گئی، مگر میری ماں اس بات سے بے خبر تھی۔ ایک دن میری بڑی بہن خانم نے ابو کے موبائل میں شازیہ کا میسج دیکھ لیا۔ لیکن اس نے یہ بات اپنے تک محدود رکھی۔ وہ اب پریشان رہنے لگی تھی۔جب والد صاحب خرچے کے لیے امی کو تنگ کرتے یا ان کا رویہ خراب ہوتا، تو خانم اور زیادہ ملول ہو جاتی۔ آخر کار اس نے مجھے بتا دیا کہ ابو کا تعلق کسی غیر عورت سے جُڑ گیا ہے، اور اسی وجہ سے ان کا رویہ بدل گیا ہے۔ خانم اب چپکے چپکے والد صاحب کا موبائل چیک کرنے لگی، جبکہ میری والدہ کبھی ان کا موبائل ہاتھ تک نہیں لگاتی تھیں۔ خانم نے مجھے بتایا کہ یہ دونوں (ابو اور شازیہ) ایک ہونا چاہتے ہیں، اسی لیے ابو کی امی سے نہیں بن پا رہی۔

میں نے خانم سے کہا کہ ہم امی کو اس معاملے سے باخبر کر دیتے ہیں، وہ اپنی خوشیوں کا خود دفاع کر لیں گی۔ لیکن خانم باجی نے منع کر دیا۔ کہنے لگیں کہ امی بہت حساس ہیں، وہ ابو اور گھر سے بہت مخلص ہیں۔ ایسا نہ ہو کہ مایوس ہو کر کوئی انتہائی قدم اٹھا لیں، اور ہم ہاتھ ملتے رہ جائیں۔کاش ہم اس وقت امی کو باخبر کر دیتے۔ ہم سے کوتاہی ہو گئی، جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ والد صاحب نے خفیہ طور پر اس عورت سے نکاح کر لیا اور اسے الگ گھر میں رکھا۔اس معاملے کا علم تب ہوا جب پانی سر سے گزر چکا تھا۔امی کی طبیعت ایک روز اچانک خراب ہو گئی، تو میں اور مجھ سے بڑا بھائی انہیں اسپتال لے گئے۔ والد صاحب گھر پر نہیں تھے۔

خدا نے شاید وہ بھید اسی دن کھولنا تھا۔ اسپتال میں ابو سے سامنا ہو گیا۔ وہ شازیہ کو اپنی گاڑی میں اسپتال سے لے جا رہے تھے اور ان کے بازوؤں میں ایک نوزائیدہ بچہ تھا۔ شازیہ نے اس نومولود کو جنم دیا تھا، اور اسی دن اس کی اسپتال سے چھٹی ہوئی تھی۔اچانک آمنے سامنے آ گئے تو امی دنگ رہ گئیں۔ وہ سمجھ نہ سکیں کہ ان کا شوہر کسی عورت اور نومولود کو لے کر گاڑی کی طرف جا رہا ہے۔ابو نے بھی ہمیں دیکھ لیا، مگر نظریں چرا لیں۔بھائی نے وہاں موجود نرس سے دریافت کیا، جو اس وقت شازیہ کے ساتھ گاڑی تک گئی تھی۔ اس نے بتایا کہ یہ اکرام صاحب کی بیگم ہیں، جنہوں نے چار روز قبل ایک بیٹے کو جنم دیا ہے۔اکرام صاحب، میرے والد کا نام تھا۔اب ساری حقیقت کھل گئی۔ابو گھر آئے تو امی نے استفسار کیا۔ وہ بگڑنے لگے۔میری ماں نے قرآنِ پاک ان کے سامنے رکھ کر کہا کہ مجھ سے جھوٹ مت بولنا، سچ سچ بتا دو جو حقیقت ہے۔ میں آپ سے لڑنے جھگڑنے کی نہیں بلکہ آپ کی دوسری بیوی کو گھر لانے کو تیار ہوں، تاہم اگر جھوٹ بولا تو معاف نہ کروں گی بلکہ اپنی جان دے دوں گی۔

والد صاحب نے بیچ سے بات گھمائی اور جھوٹ کا سہارا لیا۔ کہنے لگے کہ میرے ایک دوست کا نام بھی اکرام ہے، وہ شدید بیمار ہے۔ اس کے گھر بیٹے کی ولادت ہوئی ہے۔ اس نے کہا تھا کہ گاڑی چاہیے، بیوی اور بچے کو گھر لانا ہے۔اکرام بھائی کی بیماری کے باعث میں نے از راہِ اخلاق یہ کام کیا کہ ان کی بیوی اور بچے کو اسپتال سے گھر پہنچا دیا۔اس کہانی پر یقین کرنے کو کسی کا دل نہیں چاہا، مگر ہم خاموش رہے۔میں اور خانم جان چکی تھیں کہ ابو جھوٹ بول رہے ہیں، تاہم ہماری ہمت نہ ہوئی کہ والد صاحب کے راز سے پردہ اٹھاتے۔ لب سِل گئے تھے۔اس واقعے کے کچھ روز بعد وہ عورت والد صاحب کے ساتھ دوبارہ شاپنگ کرتی نظر آئی۔امی جان نے یہ منظر اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا۔ اس وقت ان کی ایک کولیگ نادرہ بھی ان کے ہمراہ تھیں۔

یہ دونوں اسکول کا کچھ سامان خریدنے بازار گئی تھیں کیونکہ چند دن بعد اسکول میں فنکشن ہونے والا تھا، اور اس فنکشن کے انتظام کی ذمہ داری امی پر تھی۔ نادرہ شازیہ کو جانتی تھی۔ وہ اس کی کزن تھی۔ اس نے امی کو بتایا کہ شازیہ فلاں دفتر میں کام کرتی تھی، جہاں یہ شخص (میرے والد) بھی کام کرتے تھے۔ پھر دونوں کی شادی ہو گئی۔ انہوں نے کورٹ میرج کی تھی۔ شازیہ کا شوہر پہلے سے شادی شدہ تھا اور کئی بچوں کا باپ بھی۔یہ معلومات نادرہ کو اس کے گھر والوں سے ملی تھیں، جو شازیہ کے رشتہ دار تھے۔ امی کو یقین ہو گیا کہ ان کے شوہر نے دوسری شادی کر رکھی ہے، اور یہ عورت ان کی دوسری بیوی ہے۔گھر آ کر انہوں نے والد صاحب سے دوبارہ استفسار کیا کہ: آج میں نے تمہیں بازار میں اس عورت کے ساتھ دوبارہ دیکھا ہے۔ تم تو کہتے تھے کہ وہ تمہارے دوست کی بیوی ہے۔ بالآخر تم نے مجھ سے جھوٹ بولا۔ تم نے شازیہ سے شادی کی ہے، وہ تمہارے دفتر میں کام کرتی تھی، مجھے سب معلوم ہو چکا ہے۔والد صاحب نے کہا:اگر سب کچھ معلوم ہو گیا ہے تو اچھی بات ہے۔ پھر تم مجھ سے کیوں پوچھ رہی ہو؟امی جان نے قسم کھائی تھی کہ اگر شریکِ زندگی نے جھوٹ بولا تو میں جان دے دوں گی۔ اور اب ثابت ہو چکا تھا کہ واقعی ابو نے جھوٹ بولا تھا۔
اس بات پر دونوں میں جھگڑا ہوا۔ رات کو سونے سے پہلے امی نے زہریلی دوا پی لی۔ کسی کو کچھ نہ بتایا۔ دوسرے کمرے میں جا کر سو گئیں۔ہم نے انہیں ڈسٹرب کرنے کی ہمت نہ کی کیونکہ وہ رو کر سوئی تھیں۔ سوچا کہ اگر ان کے پاس گئے تو بے آرام ہو جائیں گی۔مجھے اور خانم کو تو معلوم تھا کہ ابو شادی کر چکے ہیں اور وہ امی سے جھوٹ بولتے رہے ہیں۔بہرحال صبح ہوئی — اور یہ وہ منحوس صبح تھی جس کے بعد امی کی زندگی میں دوبارہ کوئی صبح نہ آ سکی۔وہ رات کے جانے کون سے پہر اپنے خالقِ حقیقی سے جا ملیں۔ہماری زندگی میں ماں ایک روشن چراغ کی مانند تھیں۔ جب وہ نہ رہیں تو اندھیرا ہی اندھیرا چار سُو پھیل گیا۔ستم بالائے ستم یہ کہ کچھ ہی دنوں بعد ابو اپنی دوسری بیوی کو، اپنے نومولود بیٹے کے ساتھ، گھر لے آئے۔

اب ہمارا کیا زور چلتا؟ ماموں بے چارے بھی رو دھو کر واپس اپنے گھروں کو جا چکے تھے۔امی کی خودکشی کا کیس کوئی اور رُخ بھی اختیار کر سکتا تھا، جس کی زد میں ابو آ سکتے تھے،لیکن ہمارے دونوں ماموؤں نے ایسا نہ ہونے دیا اور صرف ہماری خاطر پولیس کو والد صاحب سے دور رکھا، کیونکہ وہ ہمارے باپ تھے۔شازیہ امی کی جگہ ہمارے گھر آ گئی۔ رفتہ رفتہ اس نے گھر کا سارا انتظام اپنے ہاتھ میں لے لیا۔اس نے دوبارہ نوکری پر جانے کی خواہش ظاہر کی۔ والد صاحب اس کی کسی بھی خواہش کو رد نہ کرتے تھے۔اس کے کہنے پر انہوں نے ہمیں اسکول سے ہٹا لیا، اور گھریلو ذمہ داریاں ہم دونوں بہنوں کے سپرد کر دیں۔نئی امی اب ابو کے ساتھ دفتر جاتی تھیں، اور اپنا چھوٹا بچہ ہمارے سپرد کر جاتی تھیں۔ہمیں اپنی ماں کے مرنے کا دکھ کیا کم تھا، کہ اب اس بچے کی خاطر ہمیں تعلیم بھی چھوڑنی پڑی۔
.
ہم نے بڑے بھائی منصور سے رو کر فریاد کی کہ ہم تعلیم حاصل کرنا چاہتے ہیں،جبکہ سوتیلی ماں ہمیں تعلیم سے محروم رکھنا چاہتی ہے اور ابو اس کے حکم کے غلام بنے ہوئے ہیں۔منصور بھائی نے کہا:تم لوگ فکر نہ کرو، میں ماموں سے بات کرتا ہوں۔ ہرگز تم پر علم کے دروازے بند نہ ہونے دوں گا۔اس نے ماموں کو ساری صورت حال بتائی۔ ماموں نے اسلام آباد میں منصور کو کرائے کا مکان لے کر دیا۔پھر ایک دن، جب امی اور ابو دفتر اور اسپتال جانے والے تھے، ہم نے بہانہ کیا کہ خانم کی طبیعت خراب ہے،اسے ڈاکٹر کے پاس لے جانا ہے۔ اس طرح ہم سب بہنیں اور بھائی لاہور سے اسلام آباد بذریعہ بس روانہ ہو گئے۔منصور بھائی کو فون پر اطلاع دے دی گئی تھی، وہ مقررہ وقت پر بس اڈے پر ہمارا منتظر ملا۔ہم نے صرف اپنے چند جوڑے کپڑے لیے اور منصور بھائی کے کرائے کے مکان میں آ گئے۔ادھر، جب پڑوسن نے دروازہ کھٹکھٹایا تو کسی نے نہ کھولا۔ وہ پریشان ہو گئیں۔ نئی امی کا نمبر ان کے پاس تھا،انہوں نے شازیہ کو فون کر دیا۔ امی اور ابو دفتر سے فوراً گھر آ گئے،تب جا کر انہیں پتا چلا کہ ہم موجود نہیں ہیں۔
ابو نے ماموں کو فون کیا۔ انہوں نے کہا بچوں کی فکر مت کرو، وہ ہمارے پاس آ گئے ہیں۔ تم نے ان سب کا اسکول جانا کس خوشی میں بند کروا دیا تھا؟ کیا ایک نئے بیٹے کے پیدا ہونے کی خوشی میں؟ اب سکون سے اس بیٹے اور اس کی ماں کے ساتھ رہو، اور اپنے باقی بچوں کو بھول جاؤ۔ابو میں اتنی جرأت نہ تھی کہ ماموؤں کے سامنے کچھ بول سکتے۔ وہ جانتے تھے کہ اگر یہ لوگ بگڑ گئے تو مجھے جیل بھی بھجوا سکتے ہیں۔لہٰذا انہوں نے خاموشی اختیار کر لی، اور ہم نئی ماں کی غلامی سے آزاد ہو گئے۔منصور بھائی نے ہمیں دوبارہ اسلام آباد کے اچھے اسکولوں میں داخل کروا دیا۔ماموں ہماری تعلیم کا خرچ ابو کی زمین کی پیداوار سے ادا کرتے تھے۔ وقت یونہی گزرتا رہا، اور ہم بہنوں کے ساتھ ساتھ دونوں بھائیوں نے بھی پڑھ لکھ کر ایک شاندار مستقبل حاصل کر لیا۔چونکہ ہمیں احساس تھا کہ ہماری ماں اس دنیا میں موجود نہیں ہیں، اور وہ چاہتی تھیں کہ ہم اعلیٰ تعلیم حاصل کریں،یہ ان کا خواب تھا، جسے ہر حال میں ہم نے پورا کرنا تھا۔

تعلیم مکمل کرنے کے بعد، دونوں بھائیوں نے ممانیوں کی مدد سے پہلے ہمارے رشتے ڈھونڈے اور ہماری شادیاں کیں۔بعد میں ان کی شادیاں ہمارے دونوں ماموؤں کی بیٹیوں سے ہوئیں۔یوں ہم سب کے گھر آباد ہو گئے۔لیکن اس کے بعد نہ ابو ہم سے ملے اور نہ ہم ان سے۔ ہم نے اپنے ماموؤں کو ہی اپنا سرپرست مان لیا، کیونکہ وہی درحقیقت ہمارے سرپرست تھے۔والد صاحب نے اپنی باقی زندگی اپنی دوسری بیوی اور اس کے بچوں کے ساتھ گزار دی۔آج بھی جب ماں کی یاد آتی ہے تو میری آنکھوں میں آنسو آ جاتے ہیں۔

(ختم شد)

اگر کہانی پسند آئی ہو تو فیس بک کمنٹ میں ضرور بتائیں۔ شکریہ