انوکھی تکلیف

Sublimegate Urdu Stories

میں بچپن سے حساس تھی۔ ذرا ذرا سی بات پر رونے لگتی۔ جب سمجھ دار ہو گئی ، تب بھی یہ عادت نہ گئی۔ امی پیار تو کرتیں ، مگر ظاہر ہے ماں تھیں، جب ان کو میری بات بات پر روٹھ جانے اور منہ پھلانے پر غصہ آتا، تو میری کمر پر دو تین مکے بھی جڑ دیا کرتیں ، تب پہروں بیٹھ کر روتی۔ کوئی مناتا بھی تو اسے پرے جھٹک دیتی، جب تک والد آکر مجھے پیار سے نہ بلاتے، تبھی اماں بڑ بڑانے لگتیں کہ لڑکی کا دماغ آپ نے خراب کر دیا ہے۔ بیٹی سے اتنا لاڈ پیار ٹھیک نہیں، ان کو پرائے گھر جانا ہوتا ہے۔ غرض ایسے جملے مجھ پر اور تپ چڑھاتے۔  کیا ہو گیا ہے تمہیں ؟ یہ بچی ہے ، عقل میں تمہارے برابر تو نہیں ہے۔ بچوں سے کبھی اس طرح مقابلہ نہیں کرتے، پیار سے بات کیا کرو۔ وہ مجھے منا لیتے اور میں فورا مان جاتی۔ 

یوں میں سمجھتی تھی کہ ابا مجھے پیار کرتے ہیں۔ مجھ سے بڑی دو بہنیں اور دو بھائی تھے۔ ان سب کے ساتھ اماں کارویہ محبت بھرا رہتا، لیکن میرے ساتھ ان کا برتاؤ الگ تھا۔ اس کی وجہ یہ بھی تھی کہ میں چاروں بہن بھائیوں میں سب سے چھوٹی تھی۔ سب مجھ سے پیار کرتے ، خاص طور پر ابو اور بھائی ، وہ کبھی میری کسی فرمائش کو نہیں ٹالتے تھے۔ لاڈ پیار سے چھوٹے بچے خو کو خاص سمجھنے لگے ہیں ، ہر ایک سے اپنے لئے خاص توجہ اور برتاؤ چاہتے ہیں، مگر ماں کے لئے تو سبھی بچے برابر ہوتے ہیں۔

مجھے شروع سے کچھ الگ اور نمایاں کر دکھانے کا شوق تھا۔ میں امی کی لپ اسٹک اٹھا کر گالوں پر مل لیتی، پھر خود کو آئینے میں دیکھ کر خوب ہنستی ۔ اس پر اماں دوڑی آتیں اور میک اپ کا سامان مجھ سے چھین کر کمر پر دو ہاتھ جڑ کر کہتیں۔ پھر وہی حرکت ! کتنی بار منع کیا ہے۔ اتنا مہنگا سنگھار کا سامان، سب برباد کر کے رکھ دیا۔ وہ الماری کے اوپر میک اپ باکس رکھتیں اور میں کرسی پر چڑھ کر اتار لیتی۔ میں صرف ایک حساس اور رونے دھونے والی لڑکی نہیں تھی۔ بہت چنچل بھی تھی۔ جب مجھ پر خوشی کی لہر آتی، تو بات بات پر ہنستی بولنے پر آتی، تو خوب بولتی بہنوں سے اور بھائیوں کے ساتھ شرارتیں کرتی۔

 کبھی کبھی ان شرارتوں کی وجہ سے بھائیوں کا بھاری نقصان ہو جاتا اور وہ بچارے صبر کا گھونٹ پی کر چپ ہو جاتے، مگر اماں چپ نہ ہو تیں۔ وہ مجھے خود لتاڑتیں کہ دیکھو ، اس ضدی لڑکی کو ، خدا جانے کس منحوس گھڑی میں پیدا ہو گئی۔ سارے گھر کا سکون برباد کرنے کو۔ یہ کوسنے وہ مجھے اس وقت دیتیں، جب ابو گھر پر نہ ہوتے۔ ان کی موجودگی میں وہ صبر کے گھونٹ بھر کر خاموش رہتیں اور میں من مانی میں لگی رہتی۔ چھ برس کی عمر سے پہلے تک تو میری شرارتوں پر مجھے نہیں ٹوکتا تھا، مگر جیسے ہی میں بڑی ہونے لگی اور پابندیاں لگنی شروع ہو گئیں۔ پہلے میں گھر سے باہر جا کر کھیلا کرتی، اب سب منع کرنے لگے کہ باہر نہ جایا کرو۔ بڑی ہو گئی ہو۔ اونچی آواز میں مت بولا کرو، بیٹیاں اس طرح نہیں چلتیں ، تمیز سے چلا کرو۔ یا اللہ ! یہ سب کیا ہے؟ کیا میرے سر پر سینگ نکل آئے ہیں ؟ جن باتوں پر پہلے یہ سب خوش ہو کر تعریف کرتے ، اب وہی باتیں بد تہذیبی میں شمار ہونے لگیں۔ اس روک ٹوک سے میرا دم گھٹنے لگا۔میرا معصوم سا ذہن یہ بدلتے رویئے قبول نہیں کر پار ہا تھا۔ میں الجھنے لگی، یہ گھٹا گھٹا سا ماحول برا لگنے لگا اور گھر ایک قید خانہ محسوس ہونے لگا۔

اسکول میں بھی بعض ٹیچرز کا رویہ بچوں کے ساتھ جارحانہ ہوتا۔ میرا دل چاہتا کہ بھاری بستے کا بوجھ مجھ پر سے ہلکا ہو ، ہوم ورک کم ملے، استانی شفقت سے بات کریں، سبق سمجھ نہ آرہا ہو تو زور سے جھڑکنے کے بجائے پیار سے دوبارہ سمجھا دیں، مگر وہاں بھی اندھیر نگری تھی اور گھر میں امی چپل کے زور پر راج کرتی تھیں۔ میں ضد کرتی کہ تھوڑی دیر تو باہر گلی کے بچوں کے ساتھ کھیلنے دیں ۔ وہ کہتیں، ہر گز نہیں۔ اب تم بڑی ہو رہی ہو، پہلے کی طرح باہر نہیں جا سکتیں۔ یوں آزادی کا لطف ختم ہو گیا، پابندیاں بڑھنے لگیں اور میری الجھنیں بھی بڑھتی گئیں۔ماں پڑھی لکھی نہ ہو تب بھی بچے سفر کرتے ہیں، یوں تو وہ ہر کام بہت سلیقے سے کرتی تھیں، لیکن زبان کی تیز اور بہت غصے والی تھیں۔ ایک روز وہ نلکے کے چوکے پر بیٹھی برتن مانجھ رہی تھیں۔ میں پاس کھڑی ان کو دیکھ رہی تھیں۔ انہوں نے اچانک مجھ پر نظر ڈالی، تبھی ایک دم ان کو خیال آیا کہ میں بڑی ہو گئی ہوں اور اب۔ مجھے ان کے ساتھ گھر کے کاموں میں ہاتھ بٹانا چاہیے۔ تب انہوں نے مجھ پر سختی شروع کر دی۔ میں سختی سے گھبرا کر گھر کا کام کرنے لگی۔ 

امی کو بس اپنے ہاتھ کا کام پسند تھا، اور کسی کا کیا ہوا کام ان کو پسند نہیں آتا تھا۔ اسی وجہ سے وہ ماسی نہیں رکھتی تھیں۔ تمام کام کاج اپنے ہاتھوں سے انجام دیتی تھیں۔ ان کو وہم تھا کہ نوکرانیاں اچھا کام نہیں کرتیں۔ اب میں کام کرتی اور وہ نقص نکالتیں۔ برتن دھوتی، تو کہتیں، کتنے خراب برتن دھوئے ہیں۔ اس سے تو اچھا ہے کہ تو کوئی کام ہی نہ کیا کر۔ مجھے بہت غصہ آتا کہ ایک تو اتنی محنت کرو، پھر بھی صلہ نہ ملے ، الٹا ڈانٹ پڑے ، تب میں نے کام کرنا چھوڑ دیا۔ اب امی ابو سے شکایت کرنے لگیں کہ یہ لڑکی کوئی کام نہیں کرتی۔ آپ نے شروع سے ہی آزادی دی۔ اب یہ میری کسی بات کو خاطر میں نہیں لاتی ، کام کا کہوں تو انکار کر دیتی ہے۔ آگے سے زبان چلاتی ہے۔ بے شک ابو بہت اچھے ، پڑھے لکھے تھے، لیکن پتھر پر بھی قطرہ قطرہ پانی پڑتا ر ہے ، تو شگاف پڑ جاتا ہے ، وہ تو پھر انسان تھے۔

امی ہر روز ان کو میرے خلاف بھڑکاتیں۔ ان کی باتوں کا ان پر خاطر خواہ اثر ہوتا، تبھی وہ بھی دھیرے دھیرے مجھ پر غصہ ہونا شروع ہو گئے۔ تب مجھے بہت رونا آتا۔ دل چاہتا، مر جاؤں تا کہ سب کو سکون مل جائے۔ اس طرح میں گھر والوں سے دور ہوتی چلی گئی۔ میٹرک میں تھی، پڑھائی میں دل نہ لگتا تھا، تب میں غمگین شاعری کرنے لگی۔ مجھے گانے سننے کا بھی بہت شوق تھا۔ دل زیادہ پریشان ہوتا تو گانے سننے لگتی۔ امی کو میرے اس شوق سے بھی چڑ تھی۔ ان کو تو اس بات سےچڑ تھی، جو مجھے پسند تھی۔ کبھی کبھی یوں لگتا ، جیسے وہ میری سوتیلی ماں ہیں۔ آخر کار انہوں نے ابو سے شکایت کی کہ یہ ہر وقت عشقیہ گانے سنتی ہے۔ تصور کریں ایک ماں کے منہ سے عشقیہ گانے“ کے الفاظ زیب دیتے ہیں ؟ میرا تو کلیجہ ٹکڑے ٹکڑے ہو گیا۔ امی نے یہیں پر بس نہیں کیا، تمام کیسٹیں جو میں نے منتیں ترلے کر کے اپنے جیب خرچ سے چھوٹے بھائی سے منگوائی تھیں، ایک روز اماں نے انہیں تنور میں جھونک دیا۔ بتائیے ، میرے دل کا کیا حال ہوا ہو گا۔ اتنا روئی کہ آنکھیں اور چہرہ سرخ ہو گیا۔ غم کے مارے دو دن تک اسکول نہ گئی۔ 

میٹرک کے پرچے بھی نہ دے سکی، صدمہ جو اتنا تھا۔ ابو کو میرے پرچے نہ دینے کا بے حد غم ہوا۔ انہوں نے امی کو برا بھلا کہا، مجھے بھی پیار سے سمجھایا کہ اب کیسٹوں کا زمانہ نہیں ہے۔ تم دل لگا کر اس سال دوبارہ میٹرک کی تیاری کرو۔ اگر اچھے نمبروں سے دسویں پاس کر لوگی ، تو میں تم کو موبائل فون لا دوں گا۔ اس میں بھی گانے ہوتے ہیں، تم سن لینا، مگر ابھی پڑھائی کا وقت ہے، تعلیم پر دھیان دو۔ اس قیمتی وقت کو مت ضائع کرو۔ ان کے دلاسہ دینے سے خود کو سنبھالا ، ٹوٹے ہوئے دل کو جوڑا اور خود کو پڑھائی پر آمادہ کیا۔ سال بھر محنت کی، تو میٹرک میں سیکنڈ ڈویژن میں پاس ہو گئی۔ ابو خوش ہو گئے ، ان کو میرے طرف سے تھرڈ ڈویژن کی امید بھی نہ تھی۔ یہ ایک بڑا مرحلہ تھا، جو حل ہو گیا، مگر ابا نے حسب وعدہ موبائل فون لے کر نہ دیا کہ امی نے منع کر دیا تھا۔ والد صاحب مجھے کالج داخل کرانا چاہتے تھے ، مگر امی بولیں کہ اس کی حرکتیں ، ٹھیک نہیں ، کالج بھیج کر پچھتاؤ گے۔

 کسی دن کوئی بات بری لگی، تو گھر سے ہی بھاگ جائے گی۔ وہ چیز جو آپ بڑی محنت سے ایک ایک کر کے جمع کرتے ہیں، اچانک وہ آپ سے چھن جائے تو دل پر کیا قیامت برپا ہوتی ہے ، وہ صرف میں ہی محسوس کر سکتی ہوں۔ میرا کالج جانے کا خواب چکنا چور ہو کر بکھر گیا ۔ اوپر سے امی کے لبوں پر رقص کرتی فاتحانہ مسکراہٹ دیکھ کر میں پوری جان سے جل گئی۔مجھے یقین ہو گیا کہ میری خوشیوں کی قاتل صرف میری ماں ہی ہے ، مجھے دُکھ پہنچا کر ان کو سکون ملتا تھا۔ امی خود تو کافی سوشل تھیں۔ سب سے ملتی تھیں اور میری صرف ایک ہی دوست تھی، تھی ، اس اس سے بھی ملنے نہیں دیتی تھیں۔ کبھی سال میں ایک دفعہ کوئی پارٹی آتی، لیکن وہ اجازت نہ دیتیں، البتہ ابو کا موڈ ہوتا تو وہ جانے دیتے۔ کبھی ماں کی شکایت ابو سے کرتی، تو وہ کہتے کہ تمہاری بڑی بہنیں تو کبھی شکایت نہیں کرتیں ، نہ ہی تمہاری ماں ان کو ڈانٹتی ڈپٹتی ہیں۔ تم ہی سے ایسا شکوہ ان کو کیوں رہتا ہے ؟ ذرا تم بھی تو اس بات پر غور کر لیا کرو۔ شاید کہیں تم سے کوئی کوتاہی سر زد نہ ہوئی ہو اور تم کو پتا نہ چلتا ہو۔ بیٹی مائیں اولاد کی دشمن نہیں ہوتیں۔ ہر حال میں ان کا بھلا ہی سوچتی ہیں۔ ابو کے ایسے بھاشن مجھے برے لگتے ، تاہم چپ رہتی۔ ان کو کیسے بتاتی کہ باجی اور آپی نے حالات سے سمجھوتہ کر لیا ہے اور پھر ہر انسان دوسرے سے مختلف ہوتا ہے۔ میں تو شروع سے ایسی ہی تھی، پہلے کیوں نہیں منع کیا۔

امی کو میرا ابو سے شکایتیں کرنا بالکل پسند نہیں تھا۔ وہ اس بات پر بھی مجھے برا بھلا کہنے لگتیں، تب میرا دماغ گھوم جاتا تھا۔ ایک دن میں نے ماں سے کہہ دیا کہ میں ابو سے آپ کی اور بھی شکایتیں کروں گی۔ جو سلوک آپ میرے ساتھ کرتی ہیں، ان کے مقابلے میں یہ شکایتیں تو کچھ بھی نہیں ہیں۔ دیکھیے گا، میں کیا کرتی ہوں آپ کے ساتھ — کسی دن گھر ہی سے چلی جاؤں گی!امی پر تو جیسے بم گر گیا۔ رات کو انہوں نے ابو سے رو رو کر کہا کہ سنبھالیے اپنی بیٹی کو، میری تو کوئی عزت ہی نہیں رہی۔ یہ گھر سے بھاگ گئی تو میرے خاندان پر کوئی آنچ نہیں آئے گی، میرے باپ بھائیوں کو کوئی کچھ نہیں کہے گا، مگر آپ کا نام بدنام ہو جائے گا۔ آپ کے خاندان کی رسوائی ہو گی۔امی کا یہ رونا دھونا اور میری بھاگنے والی بات سن کر ابو کا تو دماغ الٹ گیا۔ مجھے بلا کر خوب ڈانٹا۔ امی پیچھے بیٹھی آنسو بہا رہی تھیں۔ انہی کے یہ آنسو تھے جن کے باعث ابو ہمیشہ ان کی باتوں میں آ جاتے تھے۔ 
مزید پڑھیں
وہ تعلیم یافتہ ضرور تھے، مگر اس دن جیسے ان کی سمجھ بھی جاتی رہی۔ بولے کہ ثانیہ، میں نے تمہیں ڈھیل دی تاکہ تم خوش رہو، مگر تم میری نرمی کا ناجائز فائدہ اٹھا رہی ہو۔ تمہاری ہر غلطی کو ہم برداشت کر لیں گے، مگر اگر تم نے گھر سے بھاگنے کا سوچا بھی تو میں تمہارا خون پی جاؤں گا۔ خبردار، آئندہ اپنی ماں کو دھمکی دی یا زبان چلائی تو اچھا نہ ہوگا۔ اب گھر سے قدم باہر نکال کر تو دیکھنا۔یہ باتیں سن کر میں پاگل سی ہونے لگی۔ سوچتی تھی کہ جب گھر والے میرا خیال نہیں رکھتے تو مجھے کیا کرنا چاہیے؟ اگر اس گھر میں میری عزت نہیں تو یہاں سے چلے جانا ہی بہتر ہے۔

بس پھر ایک دن میں چپکے سے گھر سے نکل آئی۔مجھے نہیں معلوم تھا کہ جانا کہاں ہے، بس ایک احساس غالب تھا کہ میں گھر کے جہنم سے نکل آئی ہوں۔ جہاں ایک ظالم اور جلاد صفت ماں تھی۔ مجھے یہ سوچ کر خوشی ہو رہی تھی کہ اب ماں لوگوں کا سامنا کیسے کریں گی۔ وہ سر جو ہمیشہ فخر سے بلند رہا کرتا تھا، اب جھک جائے گا۔ تبھی مجھے اپنے باپ اور بہن یاد آئے۔ ان کا تو کوئی قصور بھی نہ تھا۔ وہ بس ماں کی باتوں پر آنکھیں بند کر کے یقین کر لیتے تھے۔ گھر کی دہلیز پار کرتے ہوئے قدم ضرور لڑکھڑائے، مگر رک نہ سکی۔اس وقت میری عمر تقریباً پندرہ سال تھی۔ میں نے چادر اپنے گرد لپیٹ لی اور چہرہ ڈھانپ لیا، لیکن لوگوں کی نظریں پھر بھی میرے وجود میں پیوست ہو رہی تھیں۔ ریلوے اسٹیشن پہنچی تو ایک ٹرین آ چکی تھی، میں اسی میں سوار ہو گئی۔ٹرین میں بیٹھی تو حواس باختہ تھی۔ سامنے ایک خوش شکل نوجوان بیٹھا ہوا تھا جو مسلسل مجھے دیکھ رہا تھا۔ شاید اسے میری کیفیت کا اندازہ ہو گیا تھا۔اس نے نرمی سے پوچھا کہ کیا اکیلی سفر کر رہی ہو؟میں گھبرا گئی۔اس نے کہا کہ گھبراؤ نہیں، بس اس لیے پوچھا کہ اگر کسی چیز کی ضرورت ہو تو بتا دینا۔ اگلے اسٹیشن پر ریل رکے گی تو لے دوں گا۔اس کی تسلی آمیز گفتگو کے باوجود میری گھبراہٹ کم نہ ہوئی۔ 

ماتھے پر پسینہ آنے لگا۔ مجھے یہ بھی نہیں معلوم تھا کہ ٹرین کہاں جا رہی ہے اور کہاں جا کر رکے گی۔کئی گھنٹے گزر گئے۔ جب اندھیرے نے دن کو اپنی آغوش میں لے لیا تو ٹرین ایک اسٹیشن پر رک گئی۔ سفر کے دوران اس نوجوان نے دوبارہ کوئی بات نہیں کی تھی۔ مسافر اترنے لگے، آخر میں میں بھی اتری۔ وہ اب بھی مجھے بغور دیکھ رہا تھا۔میں پریشانی کے عالم میں ادھر اُدھر دیکھنے لگی تو وہ قریب آیا اور بولا کہ آپ اکیلی اتنی رات گئے کہاں جائیں گی؟ قریب ہی میرا گھر ہے، میری بہن موجود ہے۔ آپ چاہیں تو رات وہیں ٹھہر سکتی ہیں۔ صبح جہاں جانا ہو، پہنچا دوں گا۔وہ اوباش آدمی نہیں لگتا تھا۔ چہرے پر سنجیدگی اور لہجے میں اعتماد تھا۔ میں نے کچھ سوچا، مگر سمجھ نہ آئی، اس لیے اس کے پیچھے ہو لی۔ 
مزید پڑھیں
وہ مجھے اپنے گھر لے آیا۔ اس کی بہن نے مجھے کھانا دیا، بستر بچھایا اور میں سو گئی۔صبح آنکھ کھلی تو باتوں کی آواز سنائی دی۔ بہن اپنے بھائی سے کہہ رہی تھی کہ رات کا وقت تھا، لڑکی کم عمر ہے، اس لیے میں نے ترس کھا کر رکھ لیا۔ مگر اب اس کا کیا کرنا ہے؟ میں ایسے تو اسے نہیں رکھ سکتی۔بھائی نے جواب دیا کہ ذرا مہلت دو، میں اپنے کسی دوست سے بات کرتا ہوں، اسے کسی اور کے حوالے کر دیتے ہیں۔ رات کو ترس آیا تھا، مگر اب مزید نہیں رکھ سکتے۔ کسی کی جوان لڑکی کو یوں گھر میں نہیں رکھ سکتے۔ خدا جانے اس کے پیچھے کیا معاملہ ہے۔ تم بھی درمیان میں مت پڑو، کہیں ہم خود مصیبت میں نہ پڑ جائیں۔یہ باتیں سن کر میرا سر چکرانے لگا۔ اچھا تو یہ دنیا ہے! ابھی تو میں نے اس بے مروّت دنیا کی بس ایک ہی جھلک دیکھی تھی۔

ابھی سوچ بچار میں تھی کہ کہاں جاؤں، اتنے میں اس لڑکے کی بہن میرے پاس آئی اور نرمی سے بولی کہ دیکھو بی بی، تم ناسمجھ اور کم عمر لڑکی ہو، اور یہ دنیا اتنی بری جگہ ہے کہ تمہیں اس کا اندازہ نہیں ہے۔ سچ سچ بتا دو، کہاں جانا ہے تاکہ تمہیں وہاں پہنچا دیں، ورنہ اپنے گھر کا پتا بتا دو، ہم تمہارے گھر والوں کو اطلاع کر دیتے ہیں، وہ آ کر تمہیں لے جائیں گے۔میں نے کہا کہ میں اب گھر نہیں جا سکتی، اور کہیں بھی نہیں جا سکتی۔ مجھے اپنے پاس رہنے دو، کچھ دن سوچنے دو کہ مجھے کیا کرنا ہے۔وہ بولی کہ تمہیں کرنا ورنا کچھ نہیں ہے، سوچنے سے کیا حاصل؟ یا تو ماں باپ کا پتا بتا دو، یا پھر ہم تمہیں دارالامان پہنچا دیتے ہیں۔ کسی اور کے ہاتھوں میں دینے سے بہتر ہے کہ تم دارالامان چلی جاؤ۔

 آگے تمہاری قسمت۔ ہم تمہیں اپنے پاس نہیں رکھ سکتے۔ میرے بھائی کی باتوں میں مت آنا، وہ تمہیں کسی دوست کے حوالے کر دے گا، اور پھر خدا جانے وہ دوست تم سے کیا سلوک کرے۔ بعد میں ہم ذمہ دار نہیں ہوں گے۔ لوگ لاوارث لڑکیوں کو کوٹھے والیوں کے ہاتھ بیچ دیتے ہیں اور لاکھوں روپے کما لیتے ہیں۔ تم خوبصورت ہو، اچھے گھر کی لگتی ہو۔ میرا بھائی بے روزگار ہے اور میں بیوہ ہوں، ہم تمہارا بوجھ نہیں اٹھا سکتے۔وہ عورت صاف گو تھی، اس نے کھری کھری باتیں کر دیں۔ میں نے کہا کہ ایک شرط پر دارالامان جاؤں گی، آپ وہاں میری خبر لینے آتی رہنا۔اس نے کہا کہ ہاں، ٹھیک ہے، میں آتی رہوں گی۔یوں میں دارالامان پہنچ گئی، مگر اس کے بعد نہ وہ عورت آئی نہ اس کا بھائی۔ کچھ دن دارالامان میں رہ کر اندازہ ہو گیا کہ یہ جگہ جیسی لڑکیوں کے لیے مناسب نہیں۔ اپنا گھر تو اپنا ہوتا ہے، جو کسی جنت سے کم نہیں ہوتا، اور ہم نادانی کے باعث اسے جہنم سمجھ لیتے ہیں۔ماں باپ اور بہن بھائی بہت یاد آنے لگے۔ 
ماں تو سب سے زیادہ یاد آتی تھیں۔ آخر میں نے دارالامان کی انچارج سے رو رو کر التجا کی کہ میں گھر جانا چاہتی ہوں۔ بھلے ابو مار دیں، مر جانا قبول ہے مگر یہاں رہنا قبول نہیں۔ انہوں نے اپنے ادارے کے افسر سے بات کی، اور یوں میں اپنے گھر لوٹ آئی۔ والدین مجھے جان سے کیا مارتے، انہوں نے تو مجھے یوں گلے سے لگایا جیسے انہیں دوبارہ زندگی مل گئی ہو۔ آج سمجھتی ہوں کہ بیٹیاں ماں باپ کو کتنی پیاری ہوتی ہیں، اور ہم نادان لڑکیاں ذرا سی بات پر نجانے خود کو کیا سمجھنے لگتی ہیں۔ لڑکیوں کو ماں باپ کی باتوں پر روٹھنا نہیں چاہیے، کیونکہ وہ تو ہماری اچھی تربیت کرنا چاہتے ہیں، وہ ہمارے دشمن نہیں ہوتے۔

(ختم شد)

اگر کہانی پسند آئی ہو تو فیس بک کمنٹ میں ضرور بتائیں۔ شکریہ