معصوم کی قربانی

Sublimegate Urdu Stories

ہمارا گاؤں کوہاٹ سے آگے جو سڑک پہاڑی رستے کے پیچ و خم طے کرتے ہوئے علاقہ غیر کو جاتی ہے، اسی رستے کے درمیان واقع تھا۔ آج سے ساٹھ برس پہلے ہمارے گاؤں سے عجب خان کا جلا ہوا گھر بھی نظر آتا تھا  وہ ایک الگ قصہ ہے۔ فی الحال جو قصہ میں آپ کو سنانے جا رہی ہوں، وہ بھی دل سوز ہے۔آج سے تقریباً چالیس برس قبل ایک لڑائی ہوئی تھی، جس میں ایک لڑکا اپنے ہی بھائیوں کی گولیوں سے ہلاک ہو گیا تھا۔ اس لڑکے کا نام گل زر خان بھٹّا تھا؛ وہ ہمارے گھر کے قریب رہتا تھا۔ اسے علم نہ تھا کہ اس کے بھائیوں کے کچھ رشتے داروں کے ساتھ لڑائی ہو رہی ہے۔ وہ وادی میں بکریاں چرا رہا تھا جب کہ ان کے گھروں میں فائرنگ ہو رہی تھی۔ گل زر کو بھوک لگی تو وہ اچانک بکریوں کا گلہ وادی میں چھوڑ کر گھر کی طرف بھاگا اور دوڑتا ہوا اپنے گھر کی چھت پر چڑھ گیا۔ 

گل زر کے گھر کی چھت فریقِ مخالف کے گھر کی چھت کے بالکل سامنے تھی۔ جب اس کے بھائی اپنی چھت پر فائرنگ کے لیے چڑھے تو انہیں معلوم نہ تھا کہ ان کا چھوٹا بھائی ابھی بھی چھت پر ہے۔ انہوں نے اوپر چڑھتے ہی اندھا دھند فائرنگ کر دی۔ آواز سن کر گل زر چارپائی کے پیچھے سے باہر نکلا — وہ سمجھ بھی نہ پایا کہ یہ کیسی آواز ہے کہ اچانک ایک گولی اس کی کمر میں جا لگی۔ وہ منہ کے بل گر گیا اور اللہ کو پیارا ہو گیا۔ اپنے گھروں کی چھتوں سے کئی لوگوں نے اسے گولی لگتے اور گرتے دیکھا۔ جب بھائیوں کو ہوش آیا تو گل زر دم توڑ چکا تھا۔ وہ لڑکے کی لاش کندھوں پر اٹھائے شور مچاتے نیچے آئے اور کہنے لگے کہ گل زر مخالف پارٹی کی فائرنگ کا نشانہ بن گیا ہے۔ اب ہم اس کے قتل کا بدلہ لیں گے۔ اس وقت سب پر گل زر کی جواں موت کا صدمہ طاری تھا؛ کسی کو ہوش نہ تھا اور نہ ہی کسی کو غور کرنے کا موقع ملا۔ ہر کسی نے فوراً فریقِ مخالف کو ہی موردِ الزام ٹھہرا دیا۔

مقدمہ دائر ہو گیا اور مخالف پارٹی کے بعض نوجوان، جنہوں نے دراصل فائرنگ شروع بھی نہیں کی تھی، اس مقدمے میں گرفتار کر لیے گئے۔ محبت کی طرح قانون بھی اندھا ہوتا ہے؛ لہٰذا انہیں ناحق گل زر کے قتل کی سزا بھگتنی پڑی۔ دو سال وہ جیل میں رہے۔ پھر اللہ نے انصاف کرایا اور وہ صحیح سلامت گھر واپس آئے، کیونکہ ماں کو اپنے ایک بیٹے کے بیان سے معلوم ہوا کہ گل زر مخالفین کی گولیوں سے نہیں بلکہ ان کے اپنے بھائیوں کی گولیوں سے مارا گیا تھا۔ماں تو سب کے لئے ماں ہوتی ہے ، اس نے اپنے لڑکوں کو راضی نامے پر مجبور کیا۔ راضی نامہ ہو گیا، مگر گل زر کے بھائیوں نے ماں کی ضد پر راضی نامہ کیا تھا۔ ان کو ماں کی یہ بات پسند نہیں آئی تھی۔ انہوں نے قسم کھائی کہ وہ ان لوگوں کو نیچا دکھا کر رہیں گے۔ گل زر کا باپ ہر ایک سے کہتا تھا کہ میرا جواں سال لڑکا ان کی بھینٹ چڑھ گیا ہے۔ 

میں اس کے قتل ناحق کا انتظام ضرور لوں گا۔ فریق مخالف میرے کزن تھے ۔ ان کے والد ین نے کئی بار گل زر کے ماں باپ کی منت کی کہ اب جھگڑا ختم کر دو۔ ایک جان جاتی تھی، چلی گئی۔ بات آگے بڑھے گی تو کئی اور جانیں بھی ایسے ہی چلی جائیں گی۔ بیٹے انمول ہوتے ہیں، ان کو جنم لینے کے بعد پڑھنے ، پھولنے پھلنے اور جوان ہونے میں وقت لگتا ہے۔ ماؤں کے دل ان کی سلامتی کے لئے دھڑکتے رہتے ہیں، مگر وہ لوگ نہ مانے۔ ان کا دل کسی طور صاف نہ ہوتا تھا۔ وہ کہتے تھے کہ بدلہ ہر صورت لینا ہے، ورنہ لوگ ہمیں بزدل سمجھیں گے۔میرے سارے کزن ہی خوبصورت تھے ، لیکن ان میں گل ریحان کا جواب نہیں تھا۔ وہ تعلیم یافتہ، سلجھا ہوا، حسین اور لائق نوجوان تھا۔

وہ سارے خاندان کے سر کا تاج اور غرور تھا، جس پر ہم سب فخر کرتے تھے۔ وہ اس جھگڑے کو ختم کرانے اور صلح کروانے میں پیش پیش تھا۔ گل ریحان کو لڑائی جھگڑا پسند نہ تھا، وہ سبھی کو ہمیشہ امن و امان سے رہنے پر آمادہ کرتا رہتا تھا۔ اس جھگڑے میں بھی وہ کئی بار ثالث بن چکا ھتا، گل زر کے بھائی اب اس کو ہی اپنی راہ کا سب سے بڑا روڑا سمجھتے تھے۔ انہوں نے گل ریحان کو ہی ختم کرنے کا فیصلہ کر لیا تھا۔ریحان کو ان دو فریقوں کے جھگڑے سے کچھ نہ تھا، فکر تھی تو یہ کہ کہیں علاقے کا سکون تباہ نہ ہو۔ تبھی وہ ان کے بیچ ہمیشہ کے لئے صلح کروانا چاہ رہا تھا۔ وہ زیادہ تر شہر میں رہتا تھا اور وہاں وکالت پڑھ رہا تھا۔ جب وہ امتحان دے کر گھر لوٹا تو دشمنوں نے اس کے لئے بندوقیں تیار کر رکھی تھیں۔ انہوں نے اس کو گھر تک بھی جانے نہ دیا۔ راستے میں ہی پہاڑی کے اوپر سے فائر کیا۔ 

خدا کی قدرت اس وقت ریحان کا پاؤں پھسلا اور وہ ندی میں جا پڑا، یوں اس کی جان بچ گئی۔ دشمن یہ سمجھے کہ اس کو گولی لگ گئی ہے اور وہ زخمی ہو کر پانی میں گرا ہے۔ ندی کے پانی نے تھوڑی دیر کے لئے ریحان کو چھپا لیا اور فائر مارنے والے اس کو مردہ سمجھ کر چلے گئے۔ اب گل ریحان کو پتا چل گیا کہ مخالف اس کی جان کے درپے ہیں اور اس کو مار دینا چاہتے ہیں۔ اس صورت حال سے تنگ آکر اس نے گاؤں ہی چھوڑنے کا فیصلہ کر لیا اور کوہاٹ میں مکان کرایے پر لے کر وہاں وکالت شروع کر دی۔ جب گل زر کے بھائیوں کو پتا چلا کہ ریحان گاؤں چھوڑ گیا ہے، تو وہ ہر ایک سے کہنے لگے کہ دیکھو وہ بزدل ہمارے ڈر سے گاؤں چھوڑ کر نکل گیا۔ اب ہم کو ہاٹ جا کر اس کو قتل کر دیں گے اور اس کو مار کر اپنے بھائی کے قتل کا بدلہ ضرور لیں گے۔
گل ریحان سب بھائیوں میں چھوٹا تھتا اور گل زر بھی اپنے تمام بھائیوں میں سب سے چھوٹا ہی تھا۔ یہ آپس میں کزن بھی تھے ، اسی وجہ سے اس کے بھائی کہتے تھے کہ ہم تا تلوں کے سب سے چھوٹے بھائی یعنی گل ریحان کو مار کر اپنے برادر خورد کا بدلہ لے کر دلوں کی آگ کو ٹھنڈا کریں گے۔پہاڑی علاقوں میں جب مرد ایک بات کہہ دیتے ہیں، تو اس کا پورا کرن اضروری ہو جاتا ہے ، خواہ وہ بات صحیح ہو یا غلط ، تب یہ اُن کی آن اور زبان کا سوال ہو جاتا ہے ، حالانکہ وہ جانتے گل زر کا قتل ان کے اپنے ہاتھوں اتفاقی ہوا ، تاہم لوگوں سے جو کہہ بیٹھے کہ ہمارے بھائی کو مخالفوں نے قتل کیا ہے، تو ہم بے غیرت نہیں کہ اپنے بھائی کے خون کا بدلہ خون سے نہ لیں۔ وہ اب اسی دکھاوے کی غیرت کی خاطر ریحان کے قتل کے درپے تھے۔ 

ریحان کے بھائیوں کو علم تھا کہ یہ لوگ جو اُن کو قاتل ٹھہرا چکے ہیں، وہ ریحان کی جان لے کر ہی رہیں گے۔ گاؤں میں خود کو با غیرت اور سچا ثابت کرنے کے لئے اگر انہوں نے اپنی زبان سے نکالی ہوئی بات کو پورا نہ کیا، تو گاؤں والے ان کو جینے نہ دیں گے اور بزدل بے غیرت کہہ کہہ کر طعنے دے کر مار دیں گے، سو انہوں نے ریحان کی نگرانی شروع کر دی۔ اب ہر وقت وہ سالے کی طرح بندوق لئے ریحان کے ساتھ ہوتے اور اس کی حفاظت کرتے تھے۔ریحان کا منجھلا بھائی تو اس کی حفاظت کی خاطر دن رات اس کا پہرہ دیتا تھا۔ وہ اپنے پیروں کے چھالوں کا خیال کرتا ، نہ اس بندوق کے بوجھ کا، جو چو بیس گھنٹے اس کے کندھوں پر رہتی تھی۔ اس نے پانچ سال میں نیند کو بھی خیر باد کہہ دیا تھا۔ وہ بہت کم سوتا تھا اور زیادہ تر بھائی کے سرہانے جاگ کر رات بسر کرتا تھا، مگر بد قسمتی کی بات یہ ہے کہ جب ریحان کی موت آئی، تب کوئی بھی اس کے پاس نہیں تھا۔

کہتے ہیں ناں کہ جب خدا کسی کو مارنا چاہے، تو خود بخود پاسبان محافظ اور سہارے اس کے پاس سے ہٹ جاتے ہیں۔آخر کار ان ظالموں کی بن آئی۔ جس دن ریحان کا نکاح تھ، وہ دولہا بنا ہو ا ذرا دیر کو کھیت کی طرف چلا گیا کیونکہ اندر عورتیں تھیں اور وہ باتھ روم کی طرف نہیں جا سکتا تھا۔ دشمن تاک میں تھے۔ انہوں نے اس کو رفع حاجت کے لئے کھیت میں بیٹھے ہوئے دیکھا، تو پشت کی طرف سے گولی مار دی۔ لوگ سمجھے ، خوشی میں فائرنگ ہو رہی ہے کیونکہ ہمارے علاقے میں خوشی کے موقع پر خوب فائرنگ ہوتی ہے، یوں کسی نے اس پر توجہ نہ دی، مگر جب دولہا نظر نہ آیا تو بھائی بھاگے ، ادھر اُدھر دیکھا، وہ تھوڑی دور ہی خون میں لت پت مل گیا۔ اس کا لباس اس کے اپنے ہی خون سے رنگین ہو گیا تھا ۔
 ان ظالموں نے ایک بے گناہ کو ناحق مار ڈالا ، صرف گاؤں والوں کو جتلانے کے لئے کہ وہ بدلہ لے سکتے ہیں۔ شادی کا گھر ماتم کدے میں تبدیل ہو گیا۔ دلہن بھی میری خالہ زاد تھی، یہ خبر سن کر غش کھا گئی اور ماں، اس کی حالت بیان کرنے کے لئے الفاظ نہیں ہیں۔سب کہتے تھے کہ گل ریحان ساجوان پھر جنم نہ لے گا، ایسا صالح پسند امن پسند نوجوان نہیں دیکھا۔ ایسی ہستی کو مارنے کو کسی طرح ان کا جی چاہا ہو گا۔ پتا نہیں ان ظالموں نے کیسے اس پر ہاتھ اٹھایا ہو گا، وہ بھی دولہا بنتے وقت ! اس دن پہاڑ تو کیا وادی کی گھاس کے تنکے بھی فریاد کر رہے تھے۔ مجھ کو اپنے کزن کے مرنے کا اتنا دکھ ہوا کہ بیان نہیں کر سکتی۔

 سوچ رہی تھی کہ اے کاش اس کے حصے کی موت مجھے آجاتی۔ گل ریحان کی ماں ہوش مند رہی اور نہ پاگل ہوئی۔ وہ بیچ میں کہیں رہ گئی تھی۔ ایسی ماؤں کو خدا صبر دے یا پہلے اپنے پاس بلالے، جن کے جواں سال بیٹے بے نام چلے جائیں۔ خدا جانے اس جہان سے انصاف کہاں چلا گیا ہے کہ گناہ گار بچالیا جاتا ہے اور بے گناہ کو سزا مل جاتی ہے۔ گل ریحان تو وکیل بن کر وطن کے لوگوں کو انصاف دلانے والا تھا، یوں ایک معصوم پھول کچلا گیا کہ سارا گلشن ہی ویران ہو گیا۔ شاید اس کے بعد ہمارے گاؤں کے باغوں میں مدتوں ایسا مہک دار گلاب نہ کھلے ، جو اپنے علاقے کو اپنی ذہانت سے معطر کر دے۔

(ختم شد)

اگر کہانی پسند آئی ہو تو فیس بک کمنٹ میں ضرور بتائیں۔ شکریہ