انسانی لاش کا کمبل

sublimegate urdu stories

Urdu Font Stories

انسانی لاش کا کمبل (خوفناک اردو کہانی)

قسط وار کہانیاں
لکشمی ڈگری کالج کے سٹاف روم سے اچانک چیخوں کا شور ہوا اور پورا کالج سہم گیا، ویک اینڈ کے بعد معمول کے مطابق کالج پیر کو کھلا سٹوڈنٹس اور سٹاف صبح سویرے آنے لگے، ہر چیز معمول کے مطابق تھی کہ جب مس شیلا نے اپنا سامان رکھنے کے لیے الماری کھولی تو وہ چیخیں مارتی ہوئی پیچھے ہٹیں اور گر کر بے ہوش ہو گئیں، آنا فانا سٹاف روم میں موجود دیگر اساتذہ مس شیلا کی طرف لپکے اور انکو سنبھالنے کی کوشش کی۔ لیکن جیسے جیسے انکی نظر الماری کے اندر جاتی سب کی چیخیں نکل رہی تھیں اور دو چار اور حالت غیر ہونے پر وہیں ڈھیر ہو چکے تھے۔ پورے کالج میں بھونچال سا آگیا تھا کچھ ٹیچر الٹیاں کرتے سٹاف روم سے باہر بھاگ کھڑے ہوئے اور کمزور دل چکرا کر وہیں دروازے میں گر گئے۔ پرنسپل خبر ملتے ہی تقریبا بھاگتا ہوا سٹاف روم میں آیا اور وہاں کا منظر دیکھ کر بڑی مشکل سے خود کو سنبھالا اور پولیس کو کال کی۔ ایک انسپیکٹر اور چند اہلکار موقع پر پہنچ چکے تھے انہوں نے آتے ہی سٹاف روم خالی کروا لیا اور سٹاف روم کو چاروں طرف سے سیل کر دیا۔ انسپیکٹر تک یہ منظر دیکھ کر سہما ہوا تھا اور اسکے ماتھے پر پسینے اور چہرے پر پریشانی آثار نمایاں تھے۔
 
منظر کیا تھا ایک انسانی لاش تھی جسے کسی وزنی چیز کے نیچے دیکر ہڈیاں کھوپڑی سب کچھ گوشت اور حتی کے اسکے پہنے ہوئے کپڑوں سمیت برابر کر دیا گیا تھا اور وہ ایک انسانی کھال اور کپڑوں میں پیک کمبل کی شکل اختیار کر گئی تھی اور اسے کمبل ہی کی طرح رول کر کے گٹھڑی سی بنا کر الماری میں رکھ دیا گیا تھا۔ لاش ایک دو روز پرانی لگ رہی تھی کیونکہ وہاں کیڑوں کا ڈھیر اس پر جمع تھا اور چونٹیاں اور مکوڑے لائن در لائن اسکو کھانے اور لے جانے میں مصروف تھے۔
لیکن پریشان کن وجہ یہ تھی کہ فرش پر تو دور گیٹ سے سٹاف روم تک آنے جانے والے رستے میں دور دور تک بھی خون کا ایک بھی قطرہ اور نہ ہی کوئی قتل کا نشان تھا اور صبح جب کالج کھولا گیا تو سٹاف روم سمیت سارے دروازے تالا بند تھے۔ اس کیساتھ ساتھ لاش کی حالت دیکھ کر یوں لگتا تھا جیسے خون کا ایک ایک قطرہ اس میں سے نچوڑ لیا ہو۔ اسکے بعد کسے روڈ رولر کے نیچے دیکر اسکو پریس کر کے انسانی جسم کا کمبل بنا کر یہ کمبل نما لاش گول کر کے یہاں رکھ دی گئی ہو۔
 
سوال یہ پیدا ہوتا تھا کہ پھر بند دروازوں میں سے کسی ایک کا بھی تالا توڑے بغیر اور الماری کا تالا بھی توڑے بغیر لاش الماری میں کیسے پہنچی اور اگر پہنچی تو دروازے کے باہر موجود چوکیدار اور کالج میں موجود دیگر ملازمین کو کیوں نہ پتہ چل سکا، یہ نوے کی دہائی تھی تو سیکورٹی کیمروں کا تو اس وقت تصور بھی نہیں تھا کہ کوئی سراغ مل سکتا اور سٹاف روم کے اندر یہ سب کچھ ہو گیا تو لاش کا خون کیوں نہیں بہا اور اسکا قتل کرتے وقت کوئی توڑ پھوڑ کے آثار بھی نظر نہیں آئے، صفائی والے عملے اور بہت سویرے آنے والے اساتذہ نے یہ بھی بتایا جمعہ کے دن سٹاف روم میں چھوٹی سی پارٹی ہوئی کھانے کے ٹکڑے اور اس دن زمین پر چائے کا کپ گرنے سے جو نشان پڑا تھا وہ ابھی تک موجود ہے اور اس سے پہلے کہ صفائی والا عملہ صفائی شروع کرتا مس شیلا نے یہ خوفناک منظر دیکھ لیا۔
 
پولیس نے اب کوئی سراغ نہ ملنے پر کالج بند کروا دیا اور پورے کاج کی بڑی تفصیل کے ساتھ تلاشی لی گئی اور اس وقت کے جدید تقاضوں سے جانچ پڑتال کی گئی لیکن قتل یہاں ہوا، یا باہر ہوا اور قاتل کہاں سے آیا کہاں گیا کوئی سراغ نہ لگا سکی، ماسوائے لاش کی شناخت کے جو اسکی قمیض میں موجود بٹوے سے ہوئی، یہ بد قسمت پنڈت کرشنا کی لاش تھی جو اسی کالج میں ہندی پڑھاتے تھے اور جمعہ کے روز کالج آئے تھے اور اس چھوٹی سی پارٹی میں بھی شریک ہوئے، لیکن اس کے بعد وہ کہاں گئے یہ سب کب ہوا کسی کو کچھ پتہ نہیں تھا۔ بس ایک بات سامنے آئی کہ پنڈت جی نے اپنا سکوٹر دیکر چوکیدار کو اپنے گھر بھیجا کہ سکوٹر وہاں چھوڑ کر انکو پیغامدے آئے کہ پنڈت جی کسی پوجا میں شرکت کرنے کشمیر جارہے ہیں اور پیر کے روز وہیں سے سیدھا کالج آجائیں گے۔ چوکیدار کے مطابق پنڈت کے گھر سے ہو کر آنے میں اسے کوئی ڈیڑھ گھنٹا لگ گیا۔ اس نے رستے میں چائے پی اور کھانا بھی کھایا۔ اس کے بعد وہ کالج آیا۔ ایک ایک کر کے کمرے چیک کیے اور تالا لگا کر باہر اپنے کمرے میں آگیا۔ اس کے بعد کالج کی عمارت پر دو دن تالا پڑا رہا نہ کوئی آیا نہ گیا۔
 
پولیس نے اپنا ہر حربہ آزمایا لیکن کوئی بھی شخص اپنے بیان سے اوپر نیچے نہیں ہوا سب کا بیان جوں کا توں آرہا تھا انہی چکروں میں ہفتہ بھر گزر گیا کالج کے ساتھ ساتھ پورے شہر میں بھی اس لرزہ خیز اور ہولناک قتل کی دہشت طاری تھی۔ تنگ آکر کالج کی سیل کی گئی عمارت کھول دی گئی اور کالج پھر سے چالو ہوگیا۔
کچھ دن حاضری اوپر نیچے ہوئی پھر سب کچھ معمول پر آگیا۔ لیکن اس واقعہ کے بعد کالج کی ایک لڑکی سلونی کے اندر اسکی دوست رشمی نے کافی بدلاؤ دیکھا اور یہ بدلاؤ سلونی کو کافی پراسرار اور مشکوک بنا رہا تھا۔ سلونی اپنے ماں باپ کی اکلوتی اولاد تھی اور فرسٹ ائیر میں اسی سال کالج آئی تھی۔ یہیں آکر اسکی دوستی رشمی سے ہوئی تھی اور ان دونوں کا اور کوئی دوست نہیں تھا۔ لیکن اس لرزہ خیز واردات کے بعد سے سلونی نے مسکرانا یکسر چھوڑ دیا اور اس کے ہونٹوں پر ہلکی سی سیاہی اتر آئی جو پہلے گلاب جیسے گلابی ہوتے تھے اور اسکی سلیٹی مائل سرمئی آنکھوں میں ہلکی سی زردلکیر نمودار ہونے لگی تھی۔ گو کہ سلونی کی شخصیت پہلے بھی بہت دلکش اور دل کو مو لینے والی تھی۔
 
 اسکے نیم گھنگھریالے بال، کسی بل کھاتے پہاڑی رستہ کے اتار چڑھاؤ والی پتلی کمر پر کسی ملکہ کی قبا کی طرح پھیلے ہوتے اور نیچے گنبد نما لیکن ریشم بھرے گداز کہولوں کو چھوتے تھے۔ سلونی رنگت سے بہت سرخ و سفید تو نہیں تھی لیکن پلاٹینم جیسی چمکتی دمکتی روشن چہرے کیساتھ اونٹ کی کوہان جیسا سینہ لیے پورے کالج میں منفرد نظر آتی تھی۔ لڑکیاں اس پر رشک کرتے نہیں تھکتی تھیں اور لڑکے رالیں ٹپکاتے آنکھیں سینکتے نظر آتے تھے۔ اب اسی روشن چہرے والی سلونی کی آنکھوں کے گرد بھی ہلکی سی سیاہی اتر آئی تھی۔ لیکن جو سب سے قابل ذکر بات تھی وہ جہاں ہینڈ سم لڑکا دیکھتی کسی بھوکی شیرنی کی طرح اسکو ہوس ذدہ نظروں سے گھورنے لگتی کہ اچھے خاصے لڑکے بھی گھبرانے لگ جاتے تھے۔ رشمی کے لیے سلونی کا یہ انداز بلکل نیا تھا اور وہ اس سب سے کافی پریشان تھی۔ اس بدلاؤ کی وجہ سے رشمی اور سلونی آہستہ آہستہ دور ہونے لگیں اور سلونی نے بھی اس سب پر کوئی خاص توجہ نہیں دی۔
 
پنڈت کرشنا کی ہولناک موت کے بعد پورا شہر اس وقت لرز کر رہ گیا جب شہر کے مشہور بدمعاش کالیا کی لاش اسی حالت میں اسکی گاڑی کی پچھلی سیٹ سے برآمد ہوئی۔ وہاں بھی نہ کوئی سراغ ملا اور نہ کوئی خون کا قطرہ نہ توڑ پھوڑ صرف اور صرف ہڈیاں کھوپڑی پسی ہوئی تہہ دار کمبل کی طرح گول کی گئی لاش تھی۔ اب تو پولیس اور دیگر قانون کے کارندے بھی دہشت زدہ تھے اور حیران و پریشان بھی تھے

اس رونگٹے کھڑے کر دینے والے دوسرے قتل نے شہر کے ساتھ ساتھ ملک میں بھی ہلچل مچا دی لیکن چونکہ اس زمانے میں ذرائع ابلاغ اتنے جدید نہیں تھے اور معاملہ ایک دفعہ پھر دب سا گیا۔
ایک طرف دردناک سفاکانہ قتل ہو رہے تھے تو دوسری طرف سلونی کے حسن اور شباب کے چرچے کالج سے نکل کر شہر کی گلیوں میں بھی ہونے لگے مرد و خواتین اسکی مستانی آنکھوں سے لیکر اس کے حسین اور قیامت خیز سراپے کو ترسی نگاہوں سے دیکھتے اور ٹھنڈی آہ بھر کر رہ جاتے۔ انہی دنوں کالج میں چندو کی پوسٹنگ ہوئی جو فریش گریجویٹ تھا اور وہ فلسفہ اور نفسیات کے مضامین پر مضبوط گرفت رکھتا تھا اور اس کے ساتھ ساتھ وہ دنیا میں موجود دیگر مخلوقات کی موجودگی پر خفیہ طریقے سے تحقیق کر رہا تھا۔ چندو اونچا لمبا کشادہ پیشانی اور چوڑے سینے والا وجہیہ مرد تھا، اسکی آنکھوں میں شائستگی لیکن ذہانت کی چمک تھی اور وہ آس پاس کے ماحول پر بڑی گہری نگاہ رکھتا تھا۔
اس کی نظر جب سلونی پر پڑی تو وہ اسکی خوبصورتی یا نسوانیت کی طرف مائل نہیں ہوا بلکہ سلونی کے گھورنے کے انداز اور کسی للچائی ہوئی بھوکی شیرنی جیسی ٹھہری ہوئی نظر سے ہوا، سلونی کے آنکھیں جھپکنے کا انداز اور پیٹھ پیچھے کے منظر سے مکمل آشنائی اور پھر اچانک نظریں پھیر کر منظر سے غائب ہونے پر ہوا۔
 
اسی لمحے چندو کے دماغ میں سلونی کو لیکر غیر انسانی ہونے کا خیال آیا اور اگلے ہی لمحے سلونی چونکی اور منظر سے غائب ہو گئی۔ یہ بلکل ایسا ہی تھا جیسے سلونی نے چندو کا دماغ پڑھ لیا ہو۔ لیکن سلونی کی آنکھوں میں چندو کے لیے ہوس اور دل میں بھری ہوئی شہوت چندو کو اسکی پہلے والی سوچ کی نفی کرنے پر بھی مجبور کر رہی تھی۔ چندو اب سلونی کی تلاش میں رہتا لیکن کافی دن گزر جانے کے باوجود سلونی اسے دوبارہ نظر نہ آئی جیسے کہیں روپوش ہو گئی ہو۔ یہ بات اب دوبارہ چندو کے شک کو تقویت دینے لگی کہ سلونی کی حقیقت کچھ اور ہی ہے۔ چندو نے اس پر منصوبہ بندی کی اور سلونی کے بارے میں سوچنا بند کر دیا۔ اور اپنی سوچ کو چھپا کر رکھنے کی مشق شروع کر دی۔ دو چار دن میں ہی وہ اس میں کامیاب ہو گیا۔ اور اب وہ آنکھوں میں کچھ اور سوچتے ہوئے لا شعور میں سلونی کو ہی ڈھونڈ رہا ہوتا تھا جس کا فایدہ یہ ہوا کہ سلونی اسے پھر نظر آگئی اور اس دفعہ ذرا فاصلے پر کھڑی ہوبہو وہی ہوس و شہوت سے لبالب نظروں سے چندو کو گھور رہی تھی۔ چندو کمال مہارت سے اسکی آنکھوں میں دیکھے بغیر اسکا مشاہدہ کرتے منہ دھیان گزر گیا لیکن لا شعور میں وہ سلونی کی حرکات پر مسلسل نظر رکھےہوئے تھا۔
 
 اسی دوران اسکو رشمی کا پتہ چلا اور اس نے باتوں باتوں میں رشمی سے سلونی کے بارے میں پوچھ لیا۔ تو رشمی نے جو پہلی بات کی اس نے چندو کے شک کو یقین میں بدل دیا۔ کیونکہ جب رشمی نے سلونی میں بدلاؤ دیکھا تو سلونی نے دو تین بار رشمی کے دماغ میں آنے والے شکوک کی وضاحت دی حالانکہ رشمی منہ سے کچھ نہیں بولی تھی۔ پھر کالج کا بگڑا ہوا لڑکا راکی جس نے سلونی کے جسم کو بلا اجازت اور نامناسب انداز میں چھوا تو سلونی نے اسکے منہ پر جو تپھڑ مارا وہ کسی مہر کی طرح راکی کے منہ پر نشانی چھوڑ گیا، آج ایک سال بعد بھی ہلکا نیلا وہ ہاتھ کا نشان غور کرنے پر راکی کے منہ پر نظر آتا تھا، اور راکی اس تھپڑ کے بعد بدمعاشی بھول کر سلونی سے چھپتا پھرتا تھا۔ رشمی کی یہ باتیں سن کر چندو بیس سالہ سلونی پر نظر رکھنے کا سوچنے لگا اور آگے کا لائحہ عمل طے کرتے ہوئے گھر کہ طرف چل پڑا۔
 
اب شہر میں ایک اور طرح کے واقعات ہونے لگے، ہر ایک دو ہفتے بعد ایک ہی رات چار پانچ وجیہہ اور ہینڈ سم مرد ہوٹل کے کمروں، فارم ہاؤسز یا ویران جگہوں سے بے ہوش اور برہنہ حالت میں ملنے لگے۔ انکے جسم پر انسانی دانتوں اور ناخنوں کے بڑے واضح اور گہرے نشانات ہوتے تھے۔ ہوش میں آنے پر وہ اس قدر خوف زدہ ہوتے کہ کئی دنوں تک بات کرنے یا خود پر بیتی سنانے کے قابل نہیں رہتے تھے، اور اکثر کے نفس زخمی ہوتے یا انکے اندر سے خون رس رہا ہوتا تھا جیسے ان کیساتھ اس وقت تک جنسی فعل کیا گیا ہو جب تک انکی حالت غیر نہ ہو جائے۔ نارمل ہونے کے بعد سب ایک ہی بات بتاتے کہ نقاب
پوش خوبرو حسینہ انکو ورغلا کر ساتھ لے گئی اور پھر وہ بار بار انکے بے ہوش ہونے تک انکو استعمال کرتی اور ٹشو پیپر کی طرح پھینک جاتی۔ ان واقعات کا سلسلہ جاری تھا کہ شہر کے سب بڑے سنار اور اسکے دو کاروباری شراکت داروں کی اسی وحشی طریقے سے کی گئی موت اور پھر کمبل نما لاشیں انکے فارم ہاؤس سے برآمد ہوئیں۔
 
پنڈت کرشنا، کالیا اور اب تین بڑی کاروباری شخصیات کا اندوہناک قتل اور وہ بھی نہایت خاموشی اور بغیر کسی ثبوت کے پولیس کی کارکردگی پر سوالیہ نشان بنتا جارہا تھا۔ دوسری طرف تاریخ میں پہلی بار مردوں کے ساتھ جنسی تشدد کر کے انکو زندگی اور موت کی کشمکش میں چھوڑ کر نہایت چالاکی سے منظر عام سے غائب ہو جانا عوام کو اور بھی خوف میں مبتلا کر رہا تھا۔
یہاں تک کہ ماؤں نے اپنے نوجوان وجہیہ لڑکے گھروں میں قید کر لیے اور شہر بھر کے جرائم پیشہ افراد بھی سہمے سہمے نظر آنے لگے۔ لیکن نہ قاتل کا کوئی سراغ مل رہا تھا اور نہ اس جنسی عورت نما بلا کا جو ایک ہی رات میں پانچ پانچ مردوں پر بھاری پڑ رہی تھی۔
 
چندو مسلسل سلونی پر نظر رکھے ہوئے تھا اور بڑی چالاکی کے ساتھ اسکے ریڈار میں آئے بغیر اسکے بارے میں کافی کچھ جان گیا تھا۔ لیکن چندو کے سوالوں کے جوابات سلونی پر نظر رکھ کر نہیں مل رہے تھے۔ پھر اس کو اپنے باپ پروفیسر امن داس کی وصیت یاد آئی جب مرتے وقت انہوں نے کہا تھا کہ تمہارے سوالوں کے جواب تمہیں میری لائبریری میں ملیں گے۔ اس وقت چندو کو کچھ سمجھ نہیں آئی تھی کہ امن داس کیا کہہ رہا، لیکن آج چندو کو جن سوالات کا سامنا تھا وہ انکے حل کے لیے باپ کی لائبریری میں جا گھسا تھا۔ ادھر سلونی کی دماغی حالت دن بہ دن بگڑتی جا رہی تھی کیونکہ اسکی دماغی حسیں اسے مسلسل کسی کی نظروں کے تعاقب کا اشارہ تو دیتی تھیں لیکن وہ سمت اور اس پر نظریں گاڑھنے والے کا دماغ پڑھنے سے قاصر رہتی۔ اس نے کئی بار چندو کو شک کی نگاہ سے دیکھا لیکن ہر بار چندو کے دماغ میں کچھ اور ہی ملا۔ یہ چندو کی شب و روز مشق کا نتیجہ تھا کہ وہ اپنی اصل سوچ لاشعور میں رکھ کر سلونی کا مسلسل تعاقب کر رہا تھا۔
 
دوسری طرف پولیس نے شہر بھر سے اور آس پاس کے علاقوں سے طوائفیں اور انکے دلال گرفتار کر کے ان سے ہر حربہ آزما کر تحقیق کر لی لیکن کچھ ہاتھ نہ آیا۔ کیونکہ ایک ہی رات میں پانچ مردوں کی حالت غیر کرنا ایک اکیلی عورت کا کام نہیں ہو سکتا تھا جبکہ نشانہ بننے والے سارے لوگ ایک ہی عورت کا ذکر کرتے دکھائی دیتے تھے۔ اور وہ ابتک اس قدر خوف ذدہ تھے کہ گھروں میں محصور ہو کر رہے گئے تھے۔
چندو نے تقریبا سارے کاغذات چانچ پڑتال کر کے دیکھ لیے لیکن سب وہی پرانی باتیں اور پہلے سے کھوجی گئی مخلوقات کا ذکر تھا لیکن اس نئی جنسی اور درندہ صفت مخلوق کے بارے
میں کچھ ہاتھ نہ لگا۔ جو ڈھونڈ کر شہوت سے بھرے ہوئے لڑکوں اور مردوں کا انتخاب کرتی ساتھ انکی ظاہری خوبصورتی کو بھی مدنظر رکھتی اور جن کا قتل کرتی انکے ساتھ جنسی فعل سے اجتناب بھرت رہی تھی۔ پہلا شکار ایک مذہبی اور تدریسی اعتبار سے شریف آدمی، دوسرا کرمنل اور تیسری واردات میں مرنے والے خالص کاروباری لوگ تھے۔ لیکن ان سب کی عمریں تقریبا 45 سے 50 کے درمیان تھیں۔ اور جنکو ہوس کا نشانہ بنایا گیا وہ بیس سے پینتیس سال تک کے مرد تھے۔
 
چندو انہی سوچوں میں گم تھا کہ اسے کالی فائل یاد آئی جس پر امن داس آنکھوں کی بینائی جانے سے پہلے کام کر رہا تھا اور وہ اسکی ذاتی الماری میں رکھی تھی۔ چندو بجلی کی تیزی سے باپ کے کمرے میں آیا اور فائل اسکے ہاتھ میں تھی۔ اس نے وہیں بیٹھے بیٹھے ساری فائل پڑھ لی۔ جسمیں انسان، جن اور بھیڑئیے کے ملاپ سے وجود میں آنے والی کسی انوکھی پرجاتی کا ذکر تھا۔ جو انسان کی طرح شاطر اور مکار، جنات کی طرح ذہن پڑھنے اور بھیڑئیے کی طرح درندہ صفت ہو سکنے کی چناوتی دی گئی تھی۔ اس کیساتھ ساتھ اگر وہ کسی زندہ انسان یا جاندار کا خون پئیے گی تو اس خون کے ذریعے وہی خصلتیں اس مخلوق میں منتقل ہو جانے کا اندیشہ بھی موجود تھا۔ اور اس میں صاف صاف پروفیسر امرناتھ کو متنبہ کیا تھا کہ اس کام سے رک جاو۔ اس میں پرانا حوالہ دیکر امرناتھ کی جن ذاد بیوی کا ذکر تھا جو امرناتھ کی حاملہ ہو کر اسے اولاد دینے سے قاصر تھی۔ لیکن دونوں اولاد کے بے حد خواہش مند تھے۔ اور امرناتھ کے کہنے پر ہی یہ تحقیق شروع کی گئی۔ اولاد کے لیے انکو ایک مادہ بھیڑیا درکار تھی جس کے رحم میں امرناتھ اور اسکی جن زاد بیوی کا بچہ پروان چڑھ سکتا تھا۔ اور انکی پرانی نایاب مذہبی کتاب میں چند عملیات ایسے تھے جو مادہ بھیڑیا پر بچے کی پیدائش تک کرنے تھے۔ اور بچے کی پیدائش مادہ کا پیٹ چیر کر ہی ممکن تھی۔
 
آگے کا باب اس پرجاتی کو کنٹرول یا قابو کرنے کا عنوان تو تھا لیکن معلومات ادھوری تھیں یا یوں لگتا تھا کوئی صفات پھاڑ کر لے گیا ہے۔ اور یقینا وہ امرناتھ ہی تھا جو اپنی اولاد پیدا کر کے اسے محفوظ کرنے کے لیے آخری باب کے صفحے پھاڑ کر ساتھ لے گیا تھا۔
چندو کا پہلا شک سلونی پر گیا کہ یہ جن، انسان اور بھیڑئیے کا ملاپ ہو سکتی لیکن اگر یہ سلونی تھی تو اسکا باپ امرناتھ نہیں بلکہ مورتی فروش کشن لال تھا۔ اور جو پہلا خون ہوا وہ پنڈت تھا کوئی شہوت ذدہ یا جرائم پیشہ تو نہیں تھا کہ سلونی اس طرف پڑتی۔
چندو وہاں سے سیدھا رشمی کے پاس گیا اور اس سے کالج میں آخری جمعے کا احوال پوچھا جس کے بعد پنڈت کی لاش ملی تھی۔ تو رشمی نے بتایا کہ پنڈت نے سلونی کو چھٹی کے بعد رکنے کو کہا تھا، اور یہ کہ پنڈت کافی شوقین مزاج تھا، وہ بھرپور جوان لڑکیوں کو اکثر ہیلے بہانے سے روکتا اور باتوں میں لگا کر انکے جسم کے قابل اعتراض جگہوں پر ہاتھ لگانے سے بھی نہیں کتراتا تھا۔ اور وہ سلونی کو کسی بھوکے کتے کی طرح للچائی ہوئی نظروں سے دیکھتا تھا۔ اور اس دن جب اس نے سلونی کو روکا تو سلونی پریشان تو نہیں کافی غصے میں تھی اور مجھے اپنے ساتھ رکنے بھی نہیں دیا زبردستی گھر بھیج دیا تھا۔ لیکن چھٹی کے بعد شام میں سلونی کے گھر فون کیا تو وہ گھر پر ہی ملی تھی اور اس نے بتایا پنڈت نے کچھ نہیں کہا صرف ایک دو مورتیاں مرمت کروانے کے لیے دی تھیں۔
 
یہ ساری کہانی سن کر چندو کی آنکھوں میں عجیب سی چمک آگئی۔ اب اسے یہ تو یقین ہو چکا تھا کہ یہ سلونی ہی ہے لیکن اس بات کی تصدیق کے لیے اسکے اصلی ماں باپ کا پتہ لگانا ضروری تھا کیونکہ ان کے پاس سلونی کی بھیڑئی ماں کی عملیات کے زیر اثر لاش تھی۔ اور اسکے جادو کی کاٹ سے ہی سلونی کو اصلی حالت میں واپس لایا جاسکتا تھا۔ اور وہ کاٹ کیا ہوسکتی تھی یہ پتہ کرنا اس سے بھی زیادہ ضروری تھا۔
اب چندو نے سلونی کا چوبیس گھنٹے پیچھا کرنا شروع کر دیا۔ اس نے دیکھا کہ سلونی رات گئے گھر سے نکلی اور بڑی سڑک پر آتے ہی چہرے پر کیٹ وومن جیسا نقاب چڑھا لیا، وہ بہت خوبصورت لگ رہی تھی، اسکا سڈول اور ریشمی بدن اسکی چست لال قمیض میں غیض و غضب ڈھا رہا تھا، اور آنکھیں نقاب کے باجود چراغوں کی طرح چمک رہیں تھیں، اس نے نہایت عمدگی سے زلفیں دائیں کندھے سے آگے سینے پر گرائی ہوئیں تھیں جو اسکی چھاتی کے ابھار سے پھسل کر نیچے کمر تک آرہی تھیں۔ اور کمر کیا تھی جیسے کوئی نہایت قیمتی کمان شائستگی سے تنی ہوئی ہو اور اسکے نیچے کا اتار چڑھاؤ اتنا ریشمی تھا کہ نظر تک پھسل رہی تھی سمجھ نہیں آرہا تھا نیچے ٹھہرے گی یا چڑھائی پر رکے گی۔ اس پر وہ نہایت مہارت سے کولہوں کو دل پگھلا کر رکھ دینے والے انداز میں ہلاتی ہوئی بے باک چلی جا رہی تھی۔ سڑک پر زیادہ ٹریفک نہیں تھی۔ اکا دکا گاڑیاں، کچھ سکوٹر اور دو چار سائیکل رکشے آ جا رہے تھے۔
گھر سے کافی دور آنے کے بعد سلونی ایک سائیکل رکشہ پر سوار ہو گئی تو چندو نے بھی سکوٹر کی رفتار بڑھا لی۔ سلونی کا ریڈار اسے خبر دے رہا تھا کہ کوئی ہے جو پیچھا کر رہا لیکن وہی سوال کہ کون؟ خیر وہ ہمیشہ کی طرح اپنا وہم سمجھ کر شہر کے سب سے بڑے شراب خانے میں پہنچ گئی۔ کچھ دیر بعد سلونی شراب خانے سے باہر آئی تو اسکے پیچھے تقریبا چھ اونچے قد کاٹھ اور مردانا وجاہت والے نوجوان تھے جو بالوں کے سٹائل سے فوجی معلوم ہوتے تھے۔ وہ شراب کے نشے میں سلونی کی قاتل جوانی سے لطف اندوز ہوتے ہوئے ایک فوجی گاڑی میں سوار ہوگئے۔ سلونی انکے درمیان ایسے پھنسی ہوئی تھی جیسے بھیڑیوں کے غول میں ہرن پھنس جاتی تو کوئی اسکی گردن نوچ رہا, کوئی اسکی ٹانگ، کوئی بازو، کوئی کان غرض جہاں منہ گھسا وہیں نوچ رہا ہو، لیکن سلونی پر مست آنکھیں بند کیے انہیں بہکنے دے رہی تھی۔ چندو اچھی طرح جانتا تھا کہ اگر صبح تک روکا نہ گیا تو یہ فوجی افسر فوج کے قابل نہیں رہ جائیں گے۔ اس نے سکوٹر کی رفتار اور تیز کی لیکن فوجی گاڑی چھاؤنی کی حدود میں داخل ہو گئی اور ناکے پر چندو کو شناخت پریڈ کے لیے روک لیا گیا۔ 
 
تب تک وہ فوجی گاڑی منظر سے غائب ہوگئ۔ چندو کافی دیر تلاش کرتا رہا لیکن کچھ ہاتھ نہیں آیا۔وہ سیدھا چھاؤنی سے باہر جانے والی بڑی سڑک پر آکر رک گیا۔ اسے پتہ تھا سلونی یہیں سے گزرے گی۔ وہی ہوا نصف رات گزر جانے پر اسے کوئی دور سے آتا دکھائی دیا، چندو نے ہیلمٹ پہن رکھا تھا اور اس فلرٹ کرتے ہوئے لفٹ پیش کی جو سلونی نے دلکش مسکراہٹ سے قبول کی۔ وہ پیچھے بیٹھتے ہی چندو کے ساتھ دانستہ لپٹ کر بیٹھی کہ اسکا ایمان بھی ڈھولے اور وہ کسی ویرانے کی طرف چل نکلے۔ اگرچہ سلونی کی گرم سانسیں، نرم اور دہکتا ہوا خوشبودار جسم چندو کی پشت پر اسکا موڈ بنانے کے لیے برسرپیکار تھا لیکن چندو مضبوط بنا رہا، سلونی اسی شراب خانے کی طرف چلنے کو کہہ رہی تھی۔ چندو نے وہاں سلونی کو اتارا تو سلونی ششدر تھی کہ یہ کیسا مرد ہے جو میری لذیز ترین دعوت پر بھی نہیں بہکا وہ حیرت سے اسے دور تک جاتا دیکھتی رہی۔ اگلی صبح شہر میں کہرام مچا ہوا تھا کہ اس بار چھ نوجوان فوجی افسران کو اکیلی نقاب پوش حسینہ مکمل نچوڑ کر چھاؤنی کے بیچوں بیچ سے فرار ہوگئی۔
 
چندو شام کو شہر کے مشہور مورتی فروش کے پاس پہنچ چکا تھا۔ یہ ایک باریش آدمی تھا جس کی لمبی لمبی زلفیں چہرے کے آگے تک پھیلی ہوئی تھیں اور موٹا چشمہ لگا کر آنکھیں اس کے پیچھے ڈھانپ رکھی تھیں۔
چندو اسکو گاہک بن کر ملا اور اسے انسان نما مادہ بھیڑئیے کی مورتی بنانے کا آرڈر دیا جسے سن کر بوڑھا کافی چونکا تھا اور چندو سے الٹے سیدھے سوال و جواب کرنے لگا۔ چندو کا تیر نشانے پر لگا تھا اور اسے کافی حد تک اسکا جواب مل چکا تھا۔
یہ پروفیسر امرناتھ ہی تھا جو روپ بدل کر مورتی فروش بن چکا تھا۔ وہ بیس سال پہلے والے 8 سالہ چندو کو کڑیل جوانیمیں پہچان نہیں سکا تھا۔
اسکے چونکنے پر چندو نے کھل کر بات کرنے کا ارادہ کیا۔ اور اسے ماضی کے جھروکوں میں لے جاکر پوچھا کہ تمہاری جن زاد بیوی اور مادہ بھیڑئیے سے پیدا ہونے والی اولاد سلونی ہی ہے نا؟
بوڑھا سٹپٹا کر رہ گیا اور اسے فورا وہاں سے چلے جانے کا کہا۔
 
اس پر چندو نے سلونی کی حرکات و سکنات کی ساری تفصیل بوڑھے کے گوش گزار کی اور اسے بتایا کہ ہمیں ملکر سلونی کو اس کیفیت سے نجات دلانی چاہئے ورنہ شہر میں تباہی پھیل جائے گی اور تم اپنی اولاد کی محبت میں اس تباہی کے ذمہدار ٹھہرو گے۔ اس پر بوڑھا غصے سے چیختا ہوا بولا کہ امن داس اپنے دھرم کا بھگوڑا ہو کر امن داس سے عمر بن گیا تھا اور کسی مسلم سکالر علی کی باتوں میں آکر میرے خاندان کی جان کا دشمن بن گیا تھا۔ اور میں نے اسکی آئی ڈراپس میں تیزاب ملا کر اسکی صرف بینائی چھینی تھی جان بخش دی تھی۔ وہ چندو کی کوئی بات نہیں سننا چاہتا تھا۔ جب وہ ٹس سے مس نہ ہوا تو چندو نے سلونی سے براہ راست بات کرنے کا ارادہ کیا اور اسکے گھر کی طرف چل پڑا۔

چندو انہی سوچوں خیالوں میں سلونی کے گھر کی طرف جارہا تھا کہ اچانک اسکے ذہن مسلم سکالر علی کا کردار آگیا کہ یہ بندہ کون ہے اور اسکے باپ امن داس نے مذہب تبدیل کر کے اپنا نام عمر کب رکھا؟
اسکے ذہن میں امن داس کا وہ آخری باب گھوم گیا جس میں اس مخلوق سے چھٹکارے کا روحانی علاج کا ذکر تھا۔ وہ فورا گھر آیا اور اپنے باپ کی وصیت والی فائل میں موجود وہ بند لفافہ کھولا جس کے بارے میں امن داس نے کہا تھا کہ اس لفافے میں اسکی زندگی کی کل کمائی بند ہے۔ چندو کو تب لگا تھا شاید وہ کوئی پراپرٹی کے کاغذات ہوں گے۔ اسے روپے پیسے میں کوئی دلچسپی نہیں تھی تو یہ سوچ کر سائیڈ پر رکھ دیا کہ کبھی ضرورت پڑی تو اسکو استعمال کر لوں گا۔

اب اس نے کانپتے ہاتھوں سے وہ لفافہ کھولا تو اس میں بڑی ترتیب سے نفیس کاغذ کے کچھ ٹکڑے تھے جن پر اسکے باپ کی لکھائی نہیں تھی لیکن مخاطب اسکا باپ ہی تھا۔
اس اسلام و علیکم سے شروع کر کے اپنے مذہب کی تبدیلی اور نام کا حلف اٹھایا تھا، اور اپنے محسن سکالر علی کے لیے اظہار تشکر کے چند کلمات لکھوائے تھے، کسی اور کی لکھائی سے یہ بات تو عیاں تھی کہ یہ امن داس یعنی عمر نے بینائی چھن جانے کے بعد اپنے آخری ایام میں تحریر کروایا تھا۔
 
پھر وہ چندو سے مخاطب ہوا اور اپنا یہ راز اسے کھو دینے کے ڈر سے آشکار نہ کر سکنے پر شرمندگی کا اظہار کیا۔ اور اپنی تحقیق کے پرانے ساتھی، دوست اور معاون امرناتھ کی اس کے مذہب بدلنے پر بے وفائی اور بغاوت کا بڑی تفصیل سے لکھا اور کیسے آنکھ میں ڈالنے والے دارو میں تیزاب ڈال کر امن داس کو رستے سے ہٹا کر امرناتھ نے اپنی بے اولادی والی محرومی پوری کرنے کے لیے یہ شیطانی عمل کیا۔ اس سارے عمل کی تفصیل وہاں درج تھی جو انکے مذہب کی قدیم روایت میں ایک جادوئی منتر جنتر کے ذریعے پروان چڑھایا گیا۔ چونکہ انکا مذہب قدیم ترین تھا تو اس زمانے میں جن زاد، آدم زاد اور دیگر مخلوقات کا روز مرہ زندگی میں آمنا سامنا ہونا اچھنبے کی بات نہیں تھی۔
 
اس وقت کے مذہبی پیشواؤں نے یہ سارے عملیات انکے باہمی رشتوں اور نسل کو آگے بڑھانے کے لیے جن زادوں کی معاونت سے تیار کیے تھے۔ لیکن اس عمل کے نتیجے میں پیدا ہونے والی مخلوق کی خصوصیات کرو ارض پر موجود سب کے لیے خطرے کا باعث بن سکتی تھیں۔ اور اس وقت میں اسکا کوئی توڑ بھی موجود نہیں تھا تو کسی بھی جن زاد یا آدم زاد کو یہ سب کرنے کی جرات نہیں ہوئی۔ اور یوں یہ عملیات خاک در خاک دفن ہو گئے لیکن آج ہزاروں سال بعد امرناتھ اور امن داس نے یہ کھوج نکالے تھے۔ لیکن امن داس نے انکے ساتھ لکھے تنبیہ پیغامات پر امرناتھ کی مخالفت کی اور اس پیدا ہونے والی مخلوق کو شانت کیسے کرنا ہے وہ طریقہ ڈھونڈنے کا مشورہ دیا۔ امرناتھ یہاں تک تو راضی تھا لیکن جب آخر میں اسکی کاٹ کے دروان اسکی زندگی کو خطرے والی بات سامنے آنے پر امرناتھ بغاوت کر گیا اور دھوکے سے امن داس کو اندھا کر کے غائب ہوگیا۔
 
 امن داس کو یہ تک معلوم نہیں تھا کہ کہ نئی پیدا ہونے والے مخلوق جنس کے اعتبار سے عورت تھی یا مرد۔ پھر امن داس نے سکالر علی سے ملاقات کا احوال بیان کرتے ہوئے لکھا تھا کہ وہ اپنے مذہب پر تحقیق کرنے والا بہت ماہر اور قابل محقق تھا۔ اور وہ بھی ان عملیات کو پتہ لگا چکا تھا اور اسکی روحانی طاقتوں نے اس تک یہ خبر پہنچا دی تھی کہ یہ شیطانی عمل کیا جا چکا ہے اور بنی نوع انسان اور جن زاد خطرے میں ہیں۔ لیکن سکالر علی نے چھوٹی سی مسکراہٹ کے ساتھ اس مسلے کا حل بتا کر یہ واضح کر دیا کہ جدید ترین اور خالص ترین مذہب میں قدیم ادوار میں ہونے والے تمام شیطانی عملیات کا توڑ موجود ہے۔ پھر اس نے کئی سال امن داس کو قرآن شریف میں موجود پوشیدہ روحانی علاج حدیث کی روشنی میں واضح کیے جو بہت آسان اور مکمل توڑ ہیں۔ ان میں صرف باوضو رہنا ہے، نماز کی پابندی کرنی ہے اور چند قرآنی آیات کو ورد پاکی کی حالت میں کرتے رہنے کا واضح عندیہ ہے جسے آسان الفاظ میں ذکر کہتے ہیں۔ ان ذکر اذکار سے پاک روحانی قوتیں مومن کی ہر طرف سے اپنے حصار میں لیکر حفاظت کرتی ہیں۔

اب امن داس کی عقل میں بات آگئی تھی کہ وقت کے ساتھ ساتھ مذہب میں جدت آتی گئی اور نبی آخری الزمان نے دین مکمل کر کے اس پر مہر ثبت کر دی کہ انسان کی زندگی گزارنے کا سب سے جدید اور مکمل ضابطہ حیات اسلام میں ہی موجود ہے۔ اور تین چار مواقع پر نازل ہونے والی سوره معوذتین جادوئی عملیات، حسد، رشک، بدنظری ہر شے سے بچاؤ کا آسان اور سادہ حل پیش کی گئی۔ اور مختلف اوقات میں آیت الکرسی کا ورد میں حفاظتی حصار کی نشاندھی کرتا ہے۔
 
اب کرنا یہ تھا کہ امرناتھ سے سلونی کو جنم دینے والی مردہ بھیڑیا کا جسم درکار تھا اور ساتھ امرناتھ اسکی جن زاد بیوی اور سلونی کو قابو رکھنا تھا تاکہ اس شیطانی عمل کی کاٹ کی جاسکے۔ چندو نے سکالر علی کا پتہ ڈھونڈ کر ان سے مدد کی اپیل کی تو وہ فراخدلی سے ساتھ ہو لیے اور چندو کو دعوت اسلام بھی دے ڈالی جو اسنے فی الفور قبول کر لی، انہوں نے اسکو وضو بنانا سکھایا اور اسکا اسلامی نام حمزہ تجویز کیا۔
اب حمزہ سکالر علی کے ساتھ ایمان کی دولت سے مالا مال ہو کر سکالر علی کے ساتھ ذکر اذکار کرتا ہوا سلونی کے گھر پہنچ چکا تھاجہاں سلونی نے حمزہ کو دیکھتے ہی اسکے بدن کی مہک سے پہچان لیا کہ اس دن سکوٹر پر کون تھا۔ لیکن چونکہ وہ ہوس زدہ اور شہوت سے بھرے ہوئے شیطان مردوں کا خون انکے زندہ ہوتے ہوئے پی چکی تھی تو انکی باطل روحوں کی خصلتیں سلونی میں سرایت کر گئی تھیں اور اسکی روح میں موجود نیک خصلتیں ایمان کی غیر موجودگی میں دبتی چلیں گئیں اور وہ آج پھر حمزہ کو دیکھ کر شہوت سے بھر گئی اور اسکی آنکھوں میں ہوس چھلکنے لگی۔ وہ اپنی نسوانی اداؤں سے حمزہ کو مائل کرنے لگی۔ پہلے اس نے شرٹ کا اوپر بٹن کھول کر مرد کی سب بڑی کمزوری کی جھلک پیش کی۔ پھر وہ اپنی ریشمی ٹانگ سے دھائیوں تک کپڑا ہٹا کر حمزہ کو اور امتحانوں میں ڈالنے لگی۔
 
 ساتھ وہ خمار زدہ، رس گھولتی مست اور سریلی آواز سے اسکا پرانا نام پکار کر آو نا، مجھ پیار کرو نا، میں تمہارے لیے تڑپ رہی ہوں جیسے پتھر پگھلانے والے جملے ادا کر رہی تھی۔ اس سے پہلے کے وہ مزید کوئی وار کرتی حمزہ نے امرناتھ کا پوچھا اور سلونی کو ایک ایک کر کے ساری تفصیل ایک ہی سانس میں بتا دی۔ اس پر سلونی رونے لگی کہ میں اپنی موجودہ حالت سے خوش نہیں ہوں اور نہ میں ایسی ہوں، وہ اپنی اسی حالت لا شعور میں اور ضمیر پر بہت ملامت اور لعن طعن کا اظہار کر رہی تھی۔ پھر اس نے خود پر بتانے والی داستان سنائی کے کیسے پنڈت کرشنا اسپر بری نظر رکھے ہوئے تھا اور اس دن سٹاف روم میں اس نے سلونی کو بے لباس کر اسکی عزت پر ہاتھ ڈالا تو سلونی غصے اور پریشانی میں غرا اٹھی اور اسکے اندر کا بھیڑیا جاگ گیا جس نے پنڈت کی گردن سے پکڑ کر سارا خون پینے کے بعد اپنے بھاری پنجوں سے پنڈت کی ساری ہڈیاں چور چور کر کے انسانی جسم کا کمبل بنا ڈالا۔ جب پنڈت انجام سے دوچار ہوچکا تو پھر سلونی انسانی روپ میں واپس آئی اور اسنے کسی سگھڑ عورت کی طرح اس انسانی لاش کے کمبل کو گول کرکے الماری میں سنبھال دیا۔ لیکن اسکا شہوت ذدہ زندہ خون اسکی روح کی گندگی سمیت سلونی کی روح میں جذب ہوگیا اور یوں سلونی کا دوسرا جنسی کردار سامنے آیا جو اسکا انسانی پہلو تھا، یوں وہ انسانی شہوت کی آگ بجھانے کے لیے جناتی اعتبار سے دماغ پڑنے والے طاقت استعمال کرتی اور اس گندگی کے رستے پر چل نکلی۔ لیکن جو با اثر لوگ اسکی ظاہری خوبصورتی دیکھ اسے کھلونا بنا کر زبردستی نوچنے کی کوشش کرتے سلونی کے اندر کا درندہ انکا کمبل بنا کر رکھ دیتا۔
 
اب اسکا ایک حل تو یہ تھا کہ نیک روح والوں کا خون چوستی اور اپنے شہوت پر قابو پا لیتی لیکن شہوت پر قابو والے لوگ گنتی میں تھے جو چند ایک تھے انکی جان بھی لے کر سلونی ضمیر پر بوجھ نہیں ڈالنا چاہتی تھی۔
اب سکالر علی نے سلونی کو تسلی دی اور اسے کہا تمہاری ماں سے کہو وہ سامنے آجائے مجھے پتہ ہے وہ یہیں ہے ورنہ میں اسے اپنی روحانی طاقتوں کے بل پر جکڑ لوں گا۔ سلونی نے ماںکو اشارے سے بلایا تو سکالر علی نے دونوں ماں بیٹی کو سادہ سا حل بتایا کہ اس کالے علم کے زیر اثر سلونی کو جنم دینے والی بھیڑیا ماں کے جسم کے باقیات کو تازے تازہ پانی سے دھو کر سوره معوذتین کا ورد کرتے ہوئے آگ برد کرنے سے یہ عمل ٹوٹ جائے گا اور اگر سلونی کو کچھ نہ ہوا تو اسکی یہ بھیڑئی کیفیت بھی ختم ہو جائے گی، اور خون کی پیاس نہ ہونے کی وجہ سے کسی کی گندی خصلتیں بھی سلونی میں سرایت نہیں کر سکیں گی۔
 اتنے میں امر ناتھ نمودار ہوا اور سکالر علی کے گلے لگ کر رونے لگا کہ مجھے معاف کر دو میں تمہیں غلط سمجھا میں نے تمہاری تعلیمات کی کھوج اور تحقیق کیے بنا قدیم علوم کا پرچار جاری رکھا اور میری وجہ سے یہ سب کچھ ہوا۔ اسکے ساتھ ساتھ وہ سلونی اور حمزہ سے بھی معافی طلب کرتا رہا۔ تب ایک روشنی کا ہیولا سا نمودار ہوا اور اسمیں سے سرگوشیوں سی آواز نمودار ہوئی کہ میں امرناتھ کے پریم میں پاگل تھی اس لیے اسکے ساتھ دیا ورنہ اسکے ساتھی جن زادوں نے بھی تنبیہ کی تھی۔ سلونی کی ماں اسی وقت اللہ کی وحدت اور آخری نبوت کی گواہی دیتے ہوئے مسلم ہوگئی اور اس نے عظیم الفاظ ادا کیے کہ کوئی بھی دنیاوی محبت عقیدے یا ایمان سے اونچی نہیں ہو سکتی اور اگر اسکے اونچے ہو جانے کا خطرہ محسوس ہو تو ایسی محبت ترک کر دو، وہ گھاٹے کا سودا ٹھہرے گی۔
 
امرناتھ اور سلونی بھی ایمان کی شمع سے روحیں منور کر کےباوضو ہوکر آگئے۔ امرناتھ اپنا نام عبداللہ اور سلونی کا نام ماریہ رکھ دیا۔ لیکن ماریہ کی شہوت بدستور برقرار تھی اور وہ حمزہ کو کھا جانے والی نظروں سے دیکھ رہی تھی۔ وہ جلدی جلدی گھر کی زیریں خانے میں گئے وہاں زیر زمین خانے میں موجود ایک صندوق کھولا تو اس میں بوسیدہ کھال میں سکڑی ہوئی ہڈیوں کے ساتھ مردہ بھیڑئیے کی لاش تھی جس کے پیٹ میں ماریہ یا سلونی کا بیچ پروان چڑھایا گیا۔
 
اب اس لاش کو تازے پانی سے ورد کرتے کرتے دھویا گیا، ناگوار بدبو سے سب کا برا حال تھا پھر خشک لکڑیوں کا ڈھیر آتشدان میں لگا کر سوره معوذتین کے ورد میں اس بھیڑئیے کی لاش کو جلا دیا گیا، لاش کے جل کر ختم ہوتے ہی ماریہ بھی گر کر بے ہوش ہوگئی، جس پر عبداللہ اور اسکی جن زاد بیوی رونے لگے، لیکن سکالر علی نے اللہ کے حضور دعا فرمائی اور ماریہ کی زندگی اور صحت کی التجا رکھی۔ ساتھ وہ اپنا مخصوص ذکر کرتے رہے جیسے جیسے وقت گزرتا گیا ماریہ کے چہرے پر ابھر آنے والے نیلگوں نسیں مدہم ہوتی گئیں، اس نے ایک لمبی سانس جھٹکے سے اندر کھینچی اور ہڑ بڑا کر اٹھ بیٹھی۔ لیکن اب وہ حواسوں پر قائم اور اپنے رکھ رکھاؤ میں تھی ۔ شہوت اور ہوس کا وہ شیطانی بخار اتر چکا تھا اور وہ حمزہ کو دیکھ کر شرمانے لگی، حمزہ نے بھی سکھ کا سانس لیا۔ سب نے ملکر اللہ کا شکر ادا کیا۔
 
علی اور حمزہ مسکراتے ہوئے وہاں سے رخصت ہوئے۔ کچھ دن بعد عبداللہ حمزہ سے ملنے اسکے گھر آیا اسکے مرحوم باپ عمر کو یاد کر کے دیر تک روتا رہا اور معافی طلب کرتا رہا۔ اور جاتے ہوئے ماریہ کو قبول کرنے کی تجویز رکھ گیا۔ حمزہ نے ماریہ کی منکری کے زمانے کی سب باتیں بلائے طاق رکھ کر نکاح کی حامی بھر لی اور بہت عظمت والے جملے کہے۔ کہ جب ایمان لانے پر یا توبہ کرنے پر بلا شک و شبہ اللہ سب کچھ معاف دیتا ہے تو میری کیا اوقات ہے کہ میں خالق کی رضا کے خلاف جاوں۔ ختم شد


Urdu stories online, Urdu stories for kids, Short Urdu stories, Urdu Kahaniyan, Famous Urdu stories, Urdu stories with moral, Best Urdu stories collection, Urdu stories for students, Urdu love stories, Urdu horror stories, Urdu stories for reading, Urdu stories in Urdu text, Funny Urdu stories, Urdu stories for beginners, Urdu detective stories, Urdu motivational stories, horror stories in urdu, Urdu moral stories, Urdu stories for children, Urdu true stories, Urdu suspense stories, Urdu emotional stories, Urdu adventure stories, hindi moral stories in urdu,سبق آموز کہانیاں,good moral stories in urdu,Moral Stories,Urdu Stories,urdu kahani,اردو کہانی,قسط وار کہانیاں,

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے