موت کا اندھا کھیل - ایڈوانچر کہانی

urdu stories

Urdu Font Stories

موت کا اندھا کھیل  - ایڈوانچر کہانی

قسط وار کہانیاں

نعمان، روزنامہ سویرا کے دفتر میں جرم و سزا کے صفحے کا انچارج تھا۔ اس کا آفس ایک بیسمنٹ میں واقع تھا۔ اس کی میز وسیع و کشادہ تھی لیکن اس پر اخبارات کے پلندے رکھے ہوئے تھے۔ ایک کرائم رپورٹر کے سر پہ یہ ذمہ داری بھی ہوتی ہے کہ روزانہ اسپتالوں سے اموات کا حساب بھی معلوم کرے۔ جواب ملنے پر وہ ان کے نام ایک رجسٹر میں درج کرتا تھا اور اس کا باقاعدہ ریکارڈ رکھتا تھا۔ اسے ایسے لوگوں پر بھی خاص توجہ دینا ہوتی تھی، جو زندگی کی بہاریں دیکھ چکے ہوتے تھے اور اب جہانِ فانی سے کوچ کرنے کی تیاری میں تھے۔ اس کے لیے نعمان نے ایک فارم بنایا ہوا تھا۔ موت کی خبر سنتے ہی وہ اس کی خانہ پری کر لیتا تھا۔ پھر ان معلومات کو اخبار کے اموات کے کالم میں شائع کیا جاتا تھا۔

سویرا کا ایڈیٹر اور چیف رپورٹر احتشام عمر تھا۔ ایک روز نعمان ایک خبر لے کر اس کے پاس گیا تو اس نے چونک کر کہا ۔ کیا بات ہے نعمان ! کیا پھر کوئی شخصیت چل بسی ہے؟ نہیں، موت تو ایک چھوٹے شخص کی ہوئی ہے لیکن خبر بڑی ہے۔ نعمان نے جواب میں کہا۔ وہ کیسے؟ احتشام نے اپنا چشمہ درست کرتے ہوئے کہا۔ پھر اس کے ہاتھ سے خبر لے کر پڑھی اور آگے بولا۔ مجھے تو اس میں کوئی خاص بات نظر نہیں آرہی۔ سوائے اس کے کہ اس شخص کی موت ہوٹل بلیومون میں ہوئی جہاں شہر کے تقریباً سب ہی بوڑھوں نے اپنا مسکن بنا رکھا ہے۔ اس شخص کی موت پر تم کیوں اتنے پریشان ہو رہے ہو ؟ اس لیے کہ بلیومون میں کچھ زیادہ ہی اموات ہونے لگی ہیں۔ معلوم نہیں فرشتہ اجل کو اس ہوٹل سے اتنی اپنائیت کیوں ہو گئی ہے ؟کیا وہاں بوڑھے کسی سازش کے تحت موت کا شکار ہو رہے ہیں ؟ یہی تو میں معلوم کرنا چاہتا ہوں۔ 
 
 نعمان نے کہا پھر مزید بولا۔ اس مہینے ، اس ہوٹل میں چوتھی موت ہے یہ … میرا خیال ہے کہ تم ایسی باتوں میں اپنا وقت نہ ضائع کرو۔ احتشام نے ہاتھ اُٹھا کر کہا۔ اپنا کام کرو۔ یوں نعمان نے اس کی ہدایت پر عمل کیا اور اپنی میز پر آکر بیٹھ گیا۔ مرنے والے کاریکارڈ چیک کرنے پر پتا چلا کہ اس کا نام ذیشان بیگ تھا۔ وہ تین تاریخ کو مرا تھا۔ اس کی عمر پینتالیس سال تھی۔ وہ معذور تھا اور اس کے لواحقین میں کوئی نہیں تھا۔ اسے ہارٹ اٹیک ہوا تھا۔ ہوٹل مون کے منیجر نے طبی امداد کے لیے نزدیکی اسپتال میں فون کر کے ایمبولینس بھیجنے کی گزارش کی لیکن اس سے پہلے ہی ذیشان بیگ انجہانی ہو گیا۔ یہ کوئی ایسی بات نہیں تھی کہ سویرا کا ایڈیٹر چونک جاتا، مگر نجانے کیوں نعمان کے ذہن میں ایک خلل پیدا ہو چلا تھا کہ وہ اس کی تحقیق و تفتیش کرنے بیٹھ گیا۔ سات تاریخ کو کاشف خان کی موت ہوئی۔ اسے بھی ہارٹ اٹیک ہوا تھا۔ اس کی وارثوں میں ایک لڑکی تھی، جو غالباً کینیڈا میں رہتی تھی۔ اسے اطلاع دے دی گئی تھی، لیکن وہ وقت پر نہ پہنچ سکی۔ گیارہ تاریخ کو بشیر شاہ دل کا دور پڑنے انتقال کر گیا۔ اس کے رشتے داروں میں بھی کوئی نہیں تھا۔ اس کے پانچ روز بعد ہی سولہ تاریخ کو سلیم ہمدانی کا انتقال ہو گیا۔ اس کا بھی کوئی والی وارث نہیں تھا۔ اس کی عمر باسٹھ سال تھی۔
 
 دل اس عمر میں خاصا کمزور ہو جاتا ہے ، اس لئے اسے بھی دورہ پڑ گیا۔ مرنے والے کثرت سے مشروب خاص پیتے تھے ، جوا کھیلتے تھے۔ یوں ان کی صحت کافی خراب تھی، اس لئے ان کی موت پر کسی کو حیرت نہیں ہوئی، لیکن نعمان کی چھٹی حس نہ جانے کیوں یہ اشارہ کر رہی تھی کہ کوئی گڑبڑ ہے ضرور … اس نے ریکارڈ چیک کیا تو پتا چلا کہ گزشتہ چھ ماہ میں ہوٹل مون میں بیس اشخاص موت سے ہم کنار ہو چکے ہیں۔ اس کے لیے یہ بات کسی اچنبھے سے کم نہ تھی۔ چنانچہ وہ سیدھا ایڈیٹر انچیف احتشام کے کمرے میں دوبارہ گیا۔ تم نے اپنا کام تحریر کر لیا ؟ اس نے پوچھا۔ نہیں، میں اصل میں ہوٹل مون میں ہونے والی اموات پر تحقیق کر رہا تھا ، اس لیے ..کیا بکواس کر رہے ہو ؟ احتشام نے اس کا جملہ قطع کرتے ہوئے کہا۔ وہ سب بوڑھے تھے، ان کی عمریں ایسی تھیں کہ وہ ادھر اُدھر نکلنے کی بجائے سیدھے اوپر چلے جاتے ، سو چلے گئے۔ اب تم کون سے گڑے مردے اکھاڑنے میں اپنا فضول اور میرا قیمتی وقت برباد کرنے پر تلے ہوئے ہو وہ اس مہینے نہیں مرتے ، تو اگلے مہینے مر جاتے۔ ہمیں تو ان کی اموات کی خبریں چھاپنا ہیں۔ ہم اس پریشانی میں کیوں مبتلا ہوں کےان کی تعداد کتنی تھی ؟ سر، میں نے جو تحقیق کی ہے اس سے ایک دلچسپ فیچر بن سکتا ہے۔ نعمان نے اصرار کیا۔ اس لیے کہ گزشتہ چھ مہینوں میں وہاں بیس اموات ہوئی ہیں۔ اس پر فیچر نہیں تیار کیا جا سکتا۔ تم جا کر اپنا کام کرو۔ بوڑھے لوگ مرنے کے لیے ہی ہوتے ہیں۔ اس میں ایسی تشویش کی کیا بات ہے ؟ وہ سب مفلس اور کم مایہ تھے اور ان کا کوئی وارث بھی نہیں تھا۔ ان کی شخصیت پر کیا فیچر بنائیں ؟ ایڈیٹر کی جلی کٹی سننے کے بعد نعمان اپنے کمرے میں آ گیا۔ اس نے کالم لکھا اور ایڈیٹر کے سپرد کر دیا، لیکن وہ مطمئن نہیں تھا۔ کوئی چیز اسے پریشان کر رہی تھی۔ شام کو جب اس کی ڈیوٹی ختم ہوئی تو اس نے گاڑی نکالی اور ہوٹل مون کی طرف چل پڑا۔

ہوٹل مون ایک تین منزلہ عمارت تھی، جس کا بس نام ہی مون تھا، ورنہ اس میں مون والی کوئی بات نظر نہیں آتی تھی۔ عمارت کی وضع قطع قدیم تھی اور اس کی تعمیر سرخ اینٹوں سے کی گئی تھی۔ اندازہ ہوتا تھا کہ عمارت کی عرصے سے دیکھ بھال نہیں ہوئی ہے۔ اس نے اپنی کار مرکزی دروازے کے سامنے کھڑی کی اور چاروں طرف نظر دوڑائی۔ دروازے کے قریب گندگی کے ڈھیر تھے ، جن سے سخت تعفن اُٹھ رہا تھا۔ دو بوڑھے مردہ چال چلتے ہوئے فٹ پاتھ کی طرف بڑھ رہے تھے۔ ان کے شیو بڑھے ہوئے اور کپڑے سلوٹ زدہ تھے۔ مرکزی گیٹ کے قریب چند اور گاڑیاں بھی کھڑی تھیں جن میں ایک سیاہ رنگ کی ٹویوٹا کرولا کار بھی تھی۔ نعمان مرکزی دروازے سے اندر چلا گیا۔ راہداری سے ناگوار بدبو آ رہی تھی۔ دائیں جانب ایک کاوئنٹر بنا ہوا تھا۔ وہ اس کی طرف چلا گیا۔ کاوئنٹر کے پیچھے ایک فربہ شخص بیٹھا ہوا تھا، جس نے ملگجے سے کپڑے پہن رکھے تھے۔ وہ اُونگھتے ہوئے ہلکی آواز میں خراٹے بھی لے رہا تھا۔ نعمان نے کاوئنٹر کے قریب پہنچ کر اسے انگلیوں سے بجایا تو اس نے آنکھیں کھول دیں اور اس کی جانب چونک کر دیکھنے لگا۔ اسے نعمان کا حلیہ وہاں رہنے والوں کی بہ نسبت بہتر دکھائی دیا تھا۔ اس نے بھنویں سکیڑ کر پوچھا۔ اگر تم کوئی خالی کمرہ لینے آئے ہو تو میں معافی چاہتا ہوں، یہاں کوئی کمرہ خالی نہیں ہے۔ ہوٹل کے منیجر کو بلائو۔ میں اس سے بات کروں گا۔ اس ہوٹل کا منیجر میں ہی ہوں، اور میرا نام شاکر ہے۔ میں روزنامہ سویرا کا نمائندہ ہوں۔ تمہارے ہوٹل میں ذیشان بیگ نامی ایک بوڑھے کی موت ہو گئی تھی، میں اس کے بارے میں معلومات حاصل کرنے آیا ہوں۔ تم اس کے بارے میں کیا معلوم کرنا چاہتے ہو ؟ اس نے تشویش بھری نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے پوچھا۔ 

ذیشان کی موت کی اطلاع سب سے پہلے تم نے ہی دی تھی۔ میں یہ پوچھنا چاہتا ہوں کہ وہ بیمار تھا یا اس کی موت اچانک ہو گئی ؟ وہ بیمار تھا۔ اسے تقریباً ایک درجن بیماریاں تھیں۔ وہ کسی عمر رسیدہ افراد کے کئیرنگ والے ادارے کی جانب سے وظیفے پر گزارا کرتا تھا، اس لئے وہ مر گیا تو اچھا ہی ہوا۔ نعمان نے طنزیہ انداز میں اس کا جملہ قطع کرتے ہوئے کہا۔ اس لیے کہ اب زندگی اس کے لیے کرب ناک نہیں ہو گئی۔ وہ ساری تکلیفوں سے نجات پا گیا۔ معلوم نہیں نجات پا گیا یا نہیں ، اس کی تکلیفوں میں اضافہ ہوا یا کمی ، یہ کون بتا سکتا ہے ؟ ہاں یہ کہا جا سکتا ہے کہ وہ اس دنیا سے گزر ضرور گیا ہے۔ کاوئنٹر مین بولا۔ اس ہوٹل میں رہنے والے دنیا سے کچھ زیادہ ہی گزر رہے ہیں۔ کیا موت کے فرشتے سے تمہاری دوستی کچھ گہری ہو گئی ہے ؟ نعمان نے پھر طنزیہ کہا۔ میں نے ریکارڈ چیک کیا ہے۔ اس سے پتا چلا ہے کہ اس مہینے ہوٹل میں درجن بھر اموات ہوئی ہیں۔ مجھے ان بوڑھوں سے شکایت ہے کہ مرنے سے پہلے وہ یہاں کیوں آ گئے ؟ شاکر نے ناگواری سے کہا۔ وہ لاوارث اور کمزور تھے، ان کی موت لکھی ہوئی تھی۔ یہ بھی تو ہو سکتا ہے کہ وہ یہاں آنے کے بعد مرے ہوں ، ان کا پہلے سے کوئی ارادہ نہ ہو۔ تم چاہتے کیا ہو آخر ، مسٹر صحافی ؟اس کی ناگواری بڑھ گئی۔ مرنے والے ہارٹ اٹیک میں مبتلا ہوئے ہیں۔ میرے خیال میں یہ کوئی غیر معمولی بات نہیں ہے ؟ نعمان نے پوچھا۔ سب ہی کو دل کا دورہ پڑ گیا ؟ کیا یہ حیرت کی بات نہیں؟ اس میں حیرت کی کیا بات ہے ۔ ؟ اس نے ناک سکیڑ کر کہا۔ وہ بوڑھے تھے ، ناتواں تھے۔ دل کے عارضہ میں مبتلا ہوئے اور مر گئے۔ اس میں تشویش کی کوئی بات نہیں ہے۔ تم اتنے پریشان کیوں ہو ؟ کیا ذیشان بیگ تمہارا رشتے دار تھا ؟

ایسی کوئی بات نہیں ہے۔ میں ان لوگوں پر ایک فیچر لکھنا چاہتا ہوں۔ بوڑھے اور لاوارث لوگوں سے کسی کو دلچسپی کیوں نہیں ہوتی، کیا وہ خود کبھی بوڑھے نہیں ہوں گے ، جو اُن ضعیف العمر لوگوں کے ساتھ ایسا سلوک کرتے ہیں۔ نعمان نے چالاکی سے بات آگے بڑھائی۔ یہی میرا مقصد ہے اور کچھ نہیں ، مجھے تعاون کی ضرورت ہے۔ تم خواہ مخوہ اپنے صفحات اور وقت ضائع کرو گے۔ حالاں کہ ان کے ساتھ جو کچھ بھی ہو رہا ہے وہ قانونِ فطرت کے مطابق ہے۔ منیجر فلسفیانہ لہجے میں بولا۔ کیونکہ وہ سب بوڑھے گدھ تھے ، سمجھتے ہونا ! بوڑھے گدھ کون ہوتے ہیں ؟ وہی جو اپنی زندگی کے آخری ایام بھی اللہ کو یاد کرنے کی بجائے برائیوں میں گزار دیتے ہیں۔ یہ سب کے سب شرابی اور بد کردار تھے۔ انہوں نے جوانی میں اعتدال سے زندگی بسر نہیں کی، لہٰذا آخری عمر میں اس کا خمیازہ بھگتا- منیجر سے اسے کوئی معلومات حاصل نہیں ہوئیں۔ اس لئے وہ وہاں سے چلا آیا۔ واپسی پر اس نے لابی میں چند بوڑھوں کو مست حال میں اور ایک دوسرے کو مارتے دیکھا۔ ان کے لباس میلے کچیلے تھے اور شیو اتنا بڑھا ہوا تھا کہ داڑھیوں کا گمان ہوتا تھا۔ وہ قہقہے تو لگا ر ہے تھے لیکن ان میں خوشی کے بجائے بے بسی تھی۔ وہ شاید اپنوں کی بے اعتنائیوں کا انتقام خود سے لے رہے تھے۔
 
 نعمان وہاں سے چلا آیا، لیکن نجانے کیوں کوئی بات اسے رہ رہ کر کھٹک ضرور رہی تھی۔ کوئی ایسی بات تھی ضرور ، جو اسے الجھن میں مبتلا کرتی رہی تھی۔ اسے کوئی غیر معمولی بات محسوس ہوئی تھی، مگر وہ اس کا تجزیہ نہیں کر پا رہا تھا، یوں وہ چیز سامنے ہونے کے باوجود آنکھ سے اوجھل تھی۔ تین روز بعد اس کی الجھن دور ہو گئی۔ انہی کے روزنامے کا ایک فوٹو گرافر شہر بھر میں گھوم پھر کر کچھ تصاویر بنا لایا تھا۔ اس نے وہ تمام تصویریں ایڈیٹر کے سامنے ڈال دیں کہ جو اسے پسند ہوں ، رکھ لی جائیں، باقی واپس کر دی جائیں۔ پاس کھڑے نعمان نے بھی بھنویں سکیٹرے سامنے میز پر بچھی ہوئی ان تصاویر کو دیکھا۔ تین تصویر یں ایک زیر تعمیر اسپتال کی تھیں۔ ایک میں دو ڈاکٹر، شہر کے چند معزز لوگ اور انتہائی دائیں جانب دو تین کاریں کھڑی تھیں۔ ان کاروں میں ایک سیاہ رنگ کی ٹویوٹا کرولا بھی تھی۔ نعمان کے اندر ایک جھماکا ہوا۔ اسے یاد آ گیا کہ وہ سیاہ ٹویوٹا کار اس نے ہوٹل مون کے سامنے کھڑی دیکھی تھی۔ اس کار پر ڈاکٹر کی تختی لگی ہوئی تھی۔ کوئی ڈاکٹر اس گھٹیا سے ہوٹل میں رہتا ہو ، یہ وہ ماننے کے لیے تیار نہیں تھا۔ وہاں کوئی ایسا مریض ہونا بھی ناممکن تھا، جو ڈاکٹر سے علاج کراتا ہو۔ اس لیے کہ ٹویوٹا پر کوئی بڑا ڈا کٹر ہی آتا ہو گا۔ لاوارث بوڑھے ایسے ڈاکٹروں کا خرچ کیوں کر برداشت کر سکتے ہیں ؟ اس ہوٹل کے نزدیک بھی تیسرے درجے کے لوگ رہتے تھے۔ چنانچہ وہ ایسی قیمتی کار استعمال نہیں کر سکتے تھے۔

 یہ تصویریں تم نے کتنے روز پہلے اُتاری تھیں ؟ بالآخر نعمان نے فوٹو گرافر سے سوال کیا۔ یہ میں نے کل سہ پہر کے وقت اُتاری تھیں۔ کیا ان میں کوئی حیرت ناک بات ہے ؟ یا تمہیں اپنی کوئی گرل فرینڈ یا کوئی رقیب نظر آ گیا ہے ؟ رپورٹر ذرا مخولیا تھا، مگر نعمان نے اس کا مذاق نظر انداز کرتے ہوئے سنجیدگی سے کہا۔ میں اس سیاہ رنگ کی ٹویوٹا کرولا کو دیکھ پریشان ہوں۔ میں نے اسے ہوٹل مون کے سامنے کھڑا دیکھا تھا۔ تم وہاں کب گئے اور کیوں ؟ فوٹو گرافر نے قدرے چونک کر اس کی طرف دیکھا۔ ہوٹل مون سے تمہیں کیا لینا دینا تھا ؟ میں فیچر تیار کرنا چاہتا تھا، لہٰذا کہانی کی تلاش میں وہاں گیا تھا۔ تو پھر کوئی کہانی ملی ؟ اس بار احتشام نے نعمان کی طرف دیکھ کر ناگواری سے کہا۔ تم میں ایک اچھا ایڈیٹر بننے کی صلاحیت نہیں ہے، لہٰذا تم یہ فیصلہ ہی نہیں کر پاتے کہ کس موضوع پر فیچر لکھنا چاہیے اور کس پر نہیں۔ اس کی بات پر فوٹو گرافر منہ دبا کر بتیسی نکالنے لگا۔ نعمان نے البتہ فوراً جواب میں کہا۔ او کے جناب ! میں اب ہوٹل مون کا پیچھا چھوڑ رہا ہوں اور ساتھ ہی ایک اچھا ایڈیٹر بننے کی کوشش کرتا ہوں۔ اس نے بات پوری کی اور اپنے کمرے کی طرف چلا گیا۔ اپنے روز مرہ کے کام سے فارغ ہونے کے بعد نعمان نے اپنی کار نکالی اور ہوٹل مون کی طرف چل پڑا، لیکن یہ دیکھ کر اسے مایوسی ہوئی کہ وہاں سیاہ ٹویوٹا کار موجود نہیں تھی۔ اس نے اپنی کار پارک کی اور ہوٹل کے مرکزی دروازے کی طرف چل پڑا۔ وہ ابھی اس کے نزدیک پہنچا ہی تھا کہ اس نے وہاں سے ایک سیاہ ٹویوٹا نکلتے دیکھی۔ وہ دائیں جانب مڑ گئی۔ اس پر ڈاکٹر کا ٹیگ لگا ہوا تھا، لیکن ڈرائیونگ سیٹ پر کون تھا ؟ اس کا اندازہ نہیں ہو سکا۔

اس وقت سورج غروب ہو چکا تھا اور اسٹریٹ لائٹس روشن ہو نا شروع ہو گئی تھیں۔ نعمان فورا اپنی کار کی طرف پلٹا اور ٹویوٹا کا تعاقب شروع کر دیا۔وہ کار ایک متمول رہائشی علاقے کے ایک خوب صورت مکان میں داخل ہو گئی۔ وہاں سارے مکانات کے آگے لان تھے۔ نعمان نے آگے جا کر درختوں کے جھنڈ میں اپنی کار کھڑی کی اور واپس اس مکان کی طرف پلٹا۔ وہاں سناٹا چھایا ہوا تھا، کیونکہ وہ پوش علاقہ تھا اور وہاں ٹریفک نہ ہونے کے برابر تھا۔ مکان کا پھاٹک کھلا ہوا تھا اور اندر تک جانے والا راستہ سنسان پڑا تھا۔ نعمان پہلے تو قدرے جھجکا پھر اندر چلا گیا۔ چند قدم طے کرنے کے بعد دفعتاً اس کو ایک غراہٹ سنائی دی اور خون اس کی رگوں میں منجمد ہو گیا۔ وہ کتے کی آواز تھی۔ وہ آواز کی سمت مڑا تو ایک خاتون کو کتے کی زنجیر تھامے دیکھا۔ کون ہو تم ؟ اس نے درشتی سے پوچھا۔ میں ڈاکٹر طاہر سے ملاقات کرنا چاہتا ہوں۔نعمان نے گھبرائے ہوئے لہجے میں کہا۔ کون طاہر ؟ یہاں اس نام کا کوئی ڈاکٹر نہیں رہتا۔”پھپ ….پھر” احمق آدمی ! یہاں ڈاکٹر طاہر نہیں، ڈاکٹر مسعود جواد رہتے ہیں۔ ڈاکٹر مسعود جواد شہر کا مشہور سرجن تھا۔ وہ کسی تعارف کا محتاج نہیں تھا۔ اس نے بہت سے پیچیدہ آپریشن کئے تھے۔ 
 
اس کا نام سن کر نعمان تذبذب میں مبتلا تھا کہ اتنا بڑا ڈاکٹر تیسرے درجے کے ہوٹل کے چکر کیوں کاٹ رہا ہے ؟ اب اس کے نزدیک سب سے اہم بات یہ تھی کہ تصدیق کرے کہ وہ کار واقعی ڈاکٹر مسعود جواد کی ہے یا نہیں ! لہذا اس نے متعلقہ ادارے میں فون کر کے پوچھا کہ اس شہر میں کتنے لوگوں کے پاس سیاہ رنگ کی ٹویوٹا ہے ؟ اس نے جواب میں بتایا کہ یہ چھوٹا سا شہر ہے ، اس میں صرف سرجن مسعود جواد کے پاس سیاہ ٹویوٹا ہے۔ لنچ کے وقت نعمان ایک بار پھر ہوٹل مون پہنچ گیا۔ اس کی الجھن کی وجہ ایک جیسی اموات تھیں اور وہ سب ہوٹل مون میں ہوئی تھیں۔ جب تک یہ معمہ حل نہ ہو جاتا اسے قرار نہیں آنا تھا۔ اس نے اپنی کار ہوٹل کے باہر ایک مناسب کسی جگہ پر پارک کر دی اور انتظار کرنے لگا۔ تھوڑی دیر بعد ہوٹل سے ایک بوڑھا شخص باہر نکلا۔ نعمان نے اس کا تعاقب شروع کر دیا۔ وہ بوڑھا ایک عام قسم کے ریستوران میں جا کر بیٹھ گیا۔ اس کی میز خالی تھی، لہٰذا نعمان نے نزدیک جا کر کہا۔ اگر اجازت ہو تو میں یہاں بیٹھ جائوں؟ ضرور اس نے سر ہلا کر کہا، پھر ویٹر کو بلا کر اس سے چائے لانے کو کہا۔ نعمان نے بھی اپنے لیے چائے کا آرڈر دے دیا۔ موسم خوش گوار ہے آج . نعمان نے بوڑھے سے کہا۔ انتہائی تھرڈ کلاس اور بے کار موسم ہے۔ بوڑھے نے خشک لہجے میں کہا۔ انسان جب تک صحت مند اور نوجوان ہوتا ہے، زندگی میں چیزیں حسین نظر آتی ہیں اور موسم خوشگوار لگتا ہے۔ نعمان نے محسوس کر لیا کہ وہ زندگی سے اکتایا ہوا ہے ، اس لئے تلخ باتیں کر رہا ہے۔ اس نے تھوڑی دیر تک گفتگو کی اور اس نتیجے پر پہنچا کہ ڈاکٹر مسعود جواد تقریباً ہر ہفتے ان بوڑھوں کا معائنہ کرنے آتا ہے۔ وہ وہاں سے واپس اپنے دفتر گیا اور ڈاکٹر مسعود جواد کی فائل نکال کر اس کا مطالعہ کرنا شروع کر دیا۔ اس سے ایک بات سامنے آئی کہ اس نے حال ہی میں چند بڑے اور کامیاب آپریشن کئے ہیں۔ نعمان نے ان کا حال احوال پڑھا اور ایک نتیجے پر پہنچ گیا۔ اگر اس کا تجزیہ درست تھا تو وہ ایک بہت بڑا انکشاف کرنے والا تھا، مگر اس سے پہلے ڈاکٹر مسعود سے ملاقات ضروری تھی۔

نعمان نے ایڈیٹر کے کمرے میں جھانک کر دیکھا۔ اس کی کرسی خالی تھی۔ معلوم ہوا کہ وہ ایک پریس کانفرنس میں گیا ہوا ہے۔ دو گھنٹے بعد ہی لوٹے گا۔ یوں موقع غنیمت جان کر اس نے کار نکالی اور ڈاکٹر مسعود کے اسپتال پہنچ گیا، لیکن اس کی سیکریٹری نے نعمان کو ڈاکٹر سے ملاقات کی اجازت نہیں دی۔ اس کا کہنا تھا کہ ملاقات کے لیے پیشگی اجازت لینا ضروری ہے۔ جیسا کہ بڑے ڈاکٹروں کا وطیرہ ہوتا ہے۔ نعمان نے واویلا کیا کہ میں روزنامہ سویرا کا رپورٹر ہوں اور ڈاکٹر مسعود جواد سے میری ملاقات بہت ضروری ہے ، تب بھی اس نے نفی میں سر ہلایا لیکن اس کے غل مچانے سے یہ فائدہ ہوا کہ ڈاکٹر خود اپنے کمرے کا دروازہ کھول کر باہر آ گیا۔ ہاں ! کیا بات ہے؟ کیوں شور مچا رکھا ہے ؟ میں روزنامہ سویرا کا رپورٹر ہوں اور آپ سے بات کرنا چاہتا ہوں۔ اموات و حادثات کی رپورٹنگ اور فیچر لکھنے کا کام میرے پاس ہے۔ میرا ابھی مرنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے، بہر حال تم اندر آجائو اور مختصر لفظوں میں اپنی روداد بیان کرو۔ میرے پاس زیادہ وقت نہیں ہے۔ اس نے کہا۔ وہ ایک دراز قامت اور وجیہہ شخص تھا اور اس کے بال سفید تھے۔ میں تم سے ہوٹل مون کے بارے میں کچھ پوچھنا چاہتا ہوں۔
 
 نعمان نے بالآخر ملائم لہجے میں کہا۔ ہوٹل کا نام سنتے ہی ڈاکٹر مسعود کے چہرے پر برہمی کے آثار پیدا ہو گئے۔ اس نے کہا۔ میں بہت مصروف ہوں اور تمہیں صرف تین منٹ دے سکتا ہوں، اندر آ جائو۔ نعمان اس کے شان دار آفس میں داخل ہو کر اس کے سامنے والی کرسی پر بیٹھ گیا تو وہ بولا ۔کیا پوچھنا چاہتے ہو ؟کیا ہوٹل مون آپ کی ملکیت ہے ؟ تمہیں اس سے کیا مطلب؟ ڈاکٹر مسعود نے خشک نظروں سے اس کی طرف گھورتے ہوئے کہا۔ یہ میرا ذاتی معاملہ ہے۔ میں اس سوال کا جواب نہیں دینا چاہتا۔ بلا شبہ ڈاکٹر مسعود جواد ایک بڑی شخصیت تھی اور اس کی زبان سے کوئی بات اگلوانا آسان نہ تھی، اس لئے نعمان نے سوچا کہ اس سے براہ راست اصل موضوع پر ہی بات کرنا مناسب ہوگا۔ ہوٹل مون میں بعض ایسے معاملات اُبھر رہے ہیں کہ اس کے مالک کو جواب دہی مشکل ہو جائے گی، لہٰذا میں چاہتا ہوں کہ اس پر گفتگو کر لی جائے ، ورنہ جب یہ کہانی اخبار میں شائع ہو جائے گی تو پھر کچھ نہیں ہو سکے گا۔ غیر ضروری چیزوں کے لیے میرے پاس وقت نہیں ہے۔ڈاکٹر نے ترش روئی سے کہا۔ اصل بات کرو۔ حال ہی میں ہوٹل مون میں بہت سی اموات ہوئی ہیں۔ نعمان نے بالآخر کہنا شروع کیا۔ تو پھر ؟ ان اموات کا تمہارے پیشے سے گہرا تعلق ہے۔ مثلاً… ڈاکٹر مسعود ، نعمان کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بولا۔ تین تاریخ کو ذیشان بیگ کا انتقال ہوا۔ اسی روز تم نے ایک صنعت کار کا آپریشن کیا تھا اور اس کے گردے کی پیوند کاری کی تھی۔ سات تاریخ کو بشیر شاہ کی موت واقع ہوئی، اس روز تم نے ایک دولت مند شخص کی بیٹی کی آنکھوں کا آپریشن کیا تھا۔
 گیارہ تاریخ کو تم نے ایک شخص کے پھیپھڑے کی پیوند کاری کی۔ اس کے بعد چھبیس تاریخ کو – فضول اور احمقانہ باتیں نہ کرو میں ایک کامیاب سرجن ہوں اور اب تک سینکڑوں آپریشن کر چکا ہوں۔ ڈاکٹر مسعود جواد نے غرا کر کہا اور نعمان کا جملہ اُدھورا رہ گیا۔ میر اخیال ہے کہ فاضل اعضاء کی فراہمی کے لئے تم نے ہوٹل مون کو اپنا مرکز بنا رکھا ہے۔ پولیس کی دلچسپی اس کیس میں اس وقت مزید بڑھ جائے گی جب یہ پتا چلے گا کہ تم اس کے مالک بھی ہو ۔ بات قطع ہو جانے کے ایک سیکنڈ بعد ہی نعمان نے جلدی سے اپنا خیال اس کے آگے بیان کر دیا اور یہ سب کہتے ہوئے اس نے آنکھیں سکیڑ کر بہ غور ڈاکٹر مسعود کے چہرے پر اپنی بات کی اثر پذیری کے آثار بھانپنے کی کوشش بھی کی تو اسے مایوسی نہیں ہوئی تھی کیونکہ اس کی بات سنتے ہی ڈاکٹر کا چہرہ ایک دم متغیر سا ہو گیا تھا، لیکن دوسرے ہی لمحے اس نے سنبھلنے کی کوشش کی۔ کیا تم مجھے بلیک میل کرنا چاہتے ہو؟ اس نے گھور کر کہا۔ اوہ نہیں، آپ غلط سمجھے ہیں۔ میں تو حقائق معلوم کرنا چاہتا ہوں۔ وہ تو بہت سادہ ہیں، لیکن میں انہیں مشہور نہیں کرنا چاہتا۔ میں سادگی پسند ہوں۔ تم نہایت آسانی سے اسے سادہ کہہ رہے ہو ؟ لیکن حقیقت میں ایسا نہیں ہے۔
 
 موٹی اسامیوں کے اعضا تبدیل کرنا یقیناً سرجری کا بڑا کارنامہ ہے، لیکن اعضاء کی فراہمی غیر قانونی طور پر کرنا ایک قبیح فعل ہے اور اس کارروائی میں تمہارا ہوٹل منیجر شاکر بھی شامل ہے۔
 
 یہ تم کیا بکواس کر رہے ہو۔ ڈاکٹر تقریباً چیختے ہوئے بولا۔ یہ درست ہے کہ میں نے اعضاء کی پیوند کاری کے لیے ہوٹل مون کے چند بوڑھوں کی لاشوں کو استعمال کیا ہے ، لیکن اس کے لیے شاکر کو باقاعدگی سے ایک معقول رقم وہ یکلخت خاموش ہوا اور سوچتا ہوا بن گیا، پھر ذرا توقف کے بعد بولا۔ وہ سب لاوارث بوڑھے ہیں ۔ اگر انہیں بطور ریسرچ استعمال کر لیا، یعنی ان کے اعضاء کسی اور مریض کو لگا دیئے، تو اس میں کیا حرج ہے؟ میں اس سلسلے میں ذاتی طور پر کچھ رقم شاکر کو دے دیتا ہوں۔ تم چاہو تو تمہارے لئے بھی بندوبست ہو سکتا ہے، مگر اس معاملے کو اخبار میں نہیں آنا چاہیے ، ورنہ میری بڑی بد نامی ہو گی۔ بولو ! کیا کہتے ہو ؟ پل کے پل نعمان نے محسوس کیا کہ اس کا غصہ کافور ہو چکا ہے۔ وہ ہموار لہجے میں اسے مخاطب کرتے ہوئے بولا۔ 
 
ڈاکٹر مسعود جواد ! میں تمہیں بلیک میل کرنے نہیں آیا ہوں۔ میں تو حقیقت معلوم کرنا چاہتا ہوں۔ مجھے یہ نہیں پتا تھا کہ شاکر لاشیں فراہم کرنے کا تم سے باقاعدہ وظیفہ لے رہا ہے ، یا یوں کہہ لو کہ منہ بند رکھنے کا معاوضہ … حقیقت وہی ہے جو میں نے تمہیں بتا دی ہے۔ بات یہ ہے کہ اگر پیوند کاری کے وقت تازہ اعضاء نہ استعمال کئے جائیں، تو وہ ضائع ہو جاتے ہیں اور جاندار جسم انہیں قبول نہیں کرتا، اس لیے جونہی ان بوڑھوں میں سے کوئی مرتا ہے یا مرنے لگتا ہے تو شاکر مجھے خبر کر دیتا ہے۔ میں فوراً ہی جاکر متوفی کے مخصوص اعضاء نکال لیتا ہوں اور آپریشن کر ڈالتا ہوں۔ اب بتائو ، میں انسانیت کی خدمت کر رہا ہوں یا قبیح فعل سر انجام دے رہا ہوں ؟اس کی بات سن کر نعمان نے ایک گہری ہمکاری بھری اور بولا۔ میں نے تمہارا بہت وقت لے لیا ہے۔ اب میں چلتا ہوں۔ وہ اُٹھ کھڑا ہوا۔ٹھہرو مسٹر نعمان ! اگر ہم کسی نتیجے پر پہنچ جاتے تو بہتر تھا۔ ڈاکٹر بولا۔ نعمان نے کوئی جواب نہ دیا اور وہاں سے نکل گیا۔

اب اس کے شکوک و شبہات یقین میں بدل چکے تھے کہ ہوٹل مون میں ضرور کوئی گڑبڑ ہے۔ وہ وہاں سے سیدھا ہوٹل پہنچا۔ وہاں دو چار بوڑھے لابی میں کہیں ہانکتے ہوئے چائے پی رہے تھے۔ اس نے ان پر اچٹتی سی نظر ڈالی اور راہداری کی طرف بڑھ گیا۔ راہداری اس وقت سنسان پڑی تھی۔اس کے اختتام پر ایک دروازہ تھا۔ کاوئنٹر پر اس وقت کوئی نہیں تھا۔ معلوم نہیں شاکر اس وقت کہاں گیا تھا۔ نعمان نے راہداری کا دروازہ کھولا اور دوسری طرف چلا گیا۔ وہاں کچن تھا، جب کہ بائیں جانب ایک خواب گاہ قسم کا کمرہ نظر آتا تھا۔ اس کمرے میں بھی کوئی نہیں نظر آیا تو اس نے سوچا کہ شاید شاکر اوپر ہو گا۔ یہ سوچ کر وہ اوپر چلا گیا۔ اس نے لفٹ کے بجائے زینے کو ترجیح دی تھی، مگر دوسری منزل پر بھی کوئی نہیں تھا، اس لیے وہ تیسری منزل پر پہنچ گیا۔ وہاں دائیں بائیں کمرے بنے ہوئے تھے۔ آخری کمرے کے دروازے میں اسے شاکر کی صورت نظر آئی۔ نعمان کو دیکھ کر اس نے کمرے کا دروازہ عجلت میں بند کر دیا۔ نعمان نے بھی کچھ گڑ بڑ بھانپتے ہی تیزی سے حرکت کی اور اس کے قریب پہنچ گیا۔ ہیلو ، شاکر میاں ! مجھے تمہاری تلاش تھی- کیوں ؟ اس نے سوالیہ انداز میں ، کچھ ناگواری سے اپنی بھنویں سکیڑ کر کہا۔ اس لیے کہ میں مردوں پر فیچر تیار کر رہا تھا۔ اس سلسلے میں مجھے تمہاری تلاش تھی۔ میرے پاس فضول سوالات کے لیے وقت نہیں ہے۔
 وہ دونوں ہاتھ پھیلا کر دھاڑا، جیسے اسے آگے بڑھنے سے روکنا چاہتا ہو۔ یہاں سے نکل جائو، میں تمہیں ہوٹل کے متعلق کوئی فیچر لکھنے کی اجازت نہیں دے سکتا۔ اگر تم نے ایسا کیا تو میں تم پر مقدمہ کر دوں گا۔ تھوڑی دیر پہلے میں ڈاکٹر مسعود جواد سے ملاقات کر کے آرہا ہوں۔ نعمان اس کی بات نظر انداز کرتے ہوئے بولا ۔ جو تمہارا باس ہے۔ میں اس نام سے واقف نہیں ہوں۔ وہ دوبارہ دھاڑا۔ یہاں سے بھاگ جائو۔ میں اس ہوٹل میں رہنے والے چند بوڑھوں سے بات کرنا چاہتا ہوں۔ میرا خیال ہے کہ اس پر تو تمہیں کوئی اعتراض نہیں ہوگا اور ہاں یہ بھی بتادو کہ اس کمرے میں کون ہے ؟ یہاں کوئی نہیں رہتا۔ وہ پھر چیخا ۔ بھاگو یہاں سے تب ہی نعمان کچھ بھانپ کے راہداری کے دوسرے حصے کی طرف بڑھا اور پھر اگلے ہی لمحے اسے جھکائی دے کر پلٹا اور کمرے کے دروازے کو دھکیل کر کھولتا ہوا اندر چلا گیا۔ وہاں اسے ایک بوڑھا بستر پر چت پڑا نظر آیا۔ اس کے ہاتھ بے ہنگم زاویوں پر مڑے ہوئے تھے۔ ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے وہ بے ہوش ہو یا پھر اس جہانِ فانی سے کوچ کر گیا ہو۔ شاکر اس کے پیچھے تیزی سے لپک کر اندر آیا تھا۔ اس نے نعمان کا ہاتھ تھام کر زور سے جھٹکا دیا تو وہ باہر نکل گیا۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ تم نے ڈاکٹر مسعود جواد کے لیے ایک اور لاش تیار کر لی ہے۔ آج کل تو تمہارا لاش کا کاروبار زوروں پر ہے۔ یہ سن کر شاکر اسرار بھرے انداز میں مسکرایا۔
 
 اس کی مسکراہٹ عجیب انداز کی تھی، پھر وہ اسی پر اسرار انداز میں بولا۔ چلو ، اندر آ جائو اب بات چھپانے سے کوئی فائدہ نہیں ہے ۔ اس نے ایک ہاتھ پھیلا کر نعمان کو اندر آنے کا اشارہ کیا۔ نعمان کو تجس تھا کہ معلوم نہیں ، وہ کچھ کہنا چاہتا ہے ، یا پھر اسے کچھ دکھانا چاہتا ہے۔ وہ اندر چلا گیا تو شاکر نے دروازہ بند کر کے کہا۔ میرے پاس اتنا مواد ہے کہ تم بہ آسانی ایک عمدہ فیچر لکھ سکتے ہو۔ نعمان نے خاموشی اختیار کئے رکھی تاکہ وہ اپنی بات مکمل کر سکے۔ اس ہوٹل میں جو ناکارہ اور بدکار قسم کے بوڑھے رہائش اختیار کئے ہوئے ہیں وہ اس معاشرے کے لیے ناسور ہیں اور بد نما داغ بھی . یہ لوگ بہت بیماریوں میں مبتلا ہیں اور اس کے قصور وار وہ خود ہیں۔ ان کی زندگی اب کسی مصرف کی نہیں رہی۔ ان کے اپنے بھی ان سے بیزار رہتے ہیں۔ حکومت پر بھی بوجھ ہیں یہ بوڑھے … اور میرے لیے سب سے پریشان کن بات یہ ہے کہ ان میں سے بہت سوں نے میرے ہوٹل کا کرایہ بھی کئی ماہ سے ادا نہیں کیا ہے۔ تو تم ان کی لاشیں فروخت کر کے اپنا کرایہ پورا کرتے ہو ؟ نعمان نے اس کی طرف دیکھ کر زہریلے لہجے میں کہا۔ تمہارا اندازہ درست ہے۔ یہاں کے لوگ سادہ لوح ہیں۔ یہ بوڑھے لاوارث ہیں، اس لئے جب وہ مر جاتے ہیں تو کوئی ان کی فکر نہیں کرتا ۔ اس نے سادہ لفظوں میں جیسے بھیانک حقیقت کا اظہار کیا۔ نعمان پھر مڑ کر بستر پر پڑی لاش کو گھور نے لگا۔ معلوم نہیں یہ بد نصیب کون تھا ؟ البتہ تمہاری لاش کو ٹھکانے لگانے میں مجھے بہر حال دشواری پیش آئے گی ۔ یکلخت شاکر کا لہجہ خوف ناک ہو گیا۔ ایک لمحہ کے لیے تو نعمان جیسے نڈر آدمی کو بھی اس کے لہجے نے دہلا دیا۔ تب ہی شاکر اپنے دونوں ہاتھ پھیلا کر جارحانہ انداز میں اس کی جانب بڑھا۔ نعمان آہستہ آہستہ پیچھے کھسکنے لگا۔ اس نے اپنے خوف پر حتی الوسیع قابو پانے کی کوشش چاہی تھی، اس کے پاس کوئی ہتھیار بھی نہ تھا۔ خیر ،ہتھیار تو شاکر کے پاس بھی نہ تھا، اس لیے نعمان کو کچھ تسلی تھی کہ وہ فوری طور پر اس کی گرفت میں نہیں آسکتا۔ دو بدو مقابلے کی مہلت کافی ہوتی ہے۔ ممکن تھا کہ شاکر اس کا گلا دبانے کا ارادہ رکھتا ہو ، جو بہرحال اتنا آسان کام نہ تھا۔
 
 اچانک شاکر نے جست لگائی اور سیدھا اس پر آرہا، مگر نعمان نے برق کی سی حرکت سے جھکائی دے کر خود کو اس کی گرفت سے بچانے کی کوشش کی تھی، لیکن اس کی گردن پھر بھی شاکر کے ہاتھوں کی گرفت میں آتے آتے بچی تھی۔ نعمان اندازے کی غلطی سے میز سے ٹکرایا گیا اور فرش پر آ رہا۔ اس کا سر چوں کہ پتھریلے فرش سے ٹکرا گیا تھا، چنانچہ اسے چکر آنے لگے اور آنکھوں کے آگے تاریکی چھانے لگی تھی۔ ٹھیک اسی وقت شاکر نے پھر جست لگائی اور اس بار اس کی گردن دبوچ ہی لی۔ اس کے طاقت ور ہاتھ نعمان کی گردن دبائے دے رہے تھے اور نعمان کے لیے سانس لینا دشوار ہوا جا رہا تھا۔ ایسے ہنگامی موقعوں پر انسان کے ہاتھ پائوں یوں بھی ٹھنڈے پڑ جاتے ہیں یا پھر قوت مدافعت بڑھ جاتی ہے اور وہ حالات کا مقابلہ کرنے لگتا ہے۔ نعمان کی بھی قوت مدافعت بڑھ گئی۔ اس نے اپنی توانائی مجتمع کی اور شاکر کو اپنے اوپر سے اُچھال پھینکا۔ شاکر دوسری طرف گرا تو نعمان پھرتی سے اُٹھ کھڑا ہوا اور دروازے کی جانب لیکا، لیکن شاکر نے اس کو دبوچ لیا اور اس کی گرفت سے خود کو چھڑانے کے لیے زور آزمائی کرنے لگا۔ اچانک شاکر نے نعمان کی ناک پر اپنے سر کی ٹکر رسید کر دی۔ نعمان کے حلق سے مارے تکلیف کے کراہ آمیز چیخ بلند ہوئی، اس کا سر چکرانے لگا اور حواس مختل ہونے لگے۔
 وہ جانتا تھا کہ یہ بہت نازک اور سنگین وقت تھا۔ اگر اس نے خود کو جلدی نہ سنبھالا اور بے ہوش ہو گیا تو پھر اس کی آنکھ شاید عالم بالا میں ہی کھلے گی۔ اس سوچ نے اس کے اندر ایک نئی طاقت بھر دی، جان بچانے اور بقا کے جذبے نے اس کے ڈھتے وجود کو جیسے پل کے پل ایک انجانی قوت میں بدل دیا۔ اس نے سر کو دو تین بار جھٹکا۔ یہ موقع بھی اسے تب ہی ملا جب مردود صفت شاکر اسے نڈھال کرنے کے بعد یہ سمجھا تھا کہ اب شکار قابو میں ہے۔ وہ اسے دبوچ کر کمرے کے وسط میں کھینچے لے جارہا تھا۔ تب ہی شاکر کے ذہن میں ایک خیال آیا۔ اس نے جھوٹ موٹ اور نیم بے ہوشی کی اداکاری شروع کر دی، تاہم اب بھی اس کی زخمی ناک سے خون بہہ رہا تھا۔ شاکر نے اسے ایک طرف ڈالا اور وال کیبنٹ سے ایک سرنج اور وائل نکالا۔

شاکر نے بھینچی بھینچی نظروں سے دیکھا۔ وہ سرنج میں دوا بھر رہا تھا۔ وہ سمجھ گیا کہ یہ اسے مکمل طور پر بے ہوش کرنے کے بعد آرام سے ٹھکانے لگانے کا ارادہ رکھتا ہے۔ سرنج میں دوا بھرنے کے بعد شاکر اس کی جانب بڑھنے لگا۔ اس کے بدہیت ہونٹوں پہ بڑی شیطانی مسکراہٹ رقصاں تھی۔ نعمان اسی طرح بے حس و حرکت پڑا رہا تھا، لیکن ایک آنکھ کی جھری سے وہ اسے دھیرے دھیرے اپنے قریب آتا دیکھ رہا تھا۔ پھر جیسے ہی شاکر دوا بھری سرنج لیے ہوئے اس کے نزدیک پہنچا، نعمان نے اپنے ڈھتے وجود کی بچی کچھی طاقت مجتمع کی اور جونہی شاکر سرنج لیے اس پر جھکا، نعمان نے اپنے دائیں ہاتھ کا گھونسہ اس کے جبڑے پر رسید کر دیا۔ شاکر اس اچانک اور غیر متوقع حملے کے لیے بالکل بھی تیار نہ تھا۔ نتیجتا مار کھا گیا۔ وہ حلق سے اوغ کی کراہ آمیز چیخ کے ساتھ چند قدم پیچھے جا لڑکھڑایا، لیکن سرنج اس کے ہاتھ میں دبی رہی، چھوٹی نہیں۔ اس نے فورا دیوار کا سہارا لے کر کھڑے ہونے کی کوشش کی تھی کہ اچانک ہال کی طرف سے دوڑتے قدموں کی آوازیں آنے لگیں۔ یہی وہ وقت تھا جب کچھ لوگ اندر آئے۔
 
 ان میں بوڑھے بھی تھے اور کچھ جوان بھی۔ ان دونوں کو باہم دست و گریبان دیکھ کر وہ ٹھٹھک کر وہیں رک گئے۔ تب ہی نعمان نے چلا کر مدد کے لیے انہیں اکسایا۔ میری مدد کرو… یہ خونی آدمی ہے۔ تمہیں قتل کر کے تمہاری لاشیں ڈاکٹر کے ہاتھ فروخت کر دیتا ہے اور وہ انہی لاشوں کے اعضا نکال لیتا ہے۔ وہ دیکھو وہ لاش اسی مقصد کے لیے رکھی ہوئی ہے۔ یہ عقدہ کھلتے ہی لوگ شاکر پر پل پڑے۔ تھوڑی دیر بعد پولیس کو مطلع کیا گیا۔ اسی دوران سویرا کا ایڈیٹر احتشام بھی اپنے دو آدمیوں کے ساتھ آ گیا تھا۔ شاکر کو ہتھکڑیاں لگادی گئی تھیں۔ احتشام نے نعمان کا کاندھا تھپتھپاتے ہوئے شفقت بھری مسکراہٹ سے کہا۔ تمہیں کرائم رپورٹر ہونے کی بجائے محکمہ پولیس میں بھرتی ہو جانا چاہیے۔ جواب میں نعمان بھی ہولے سے مسکرایا تھا۔ اگلے دن ، اخبارات میں اس خبر کے علاوہ ایک اور سنسناتی خبر بھی شامل تھی اور وہ یہ تھی کہ ڈاکٹر مسعود جواد نے خودکشی کر لی تھی۔
 

 Urdu stories online, Urdu stories for kids, Short Urdu stories, Urdu Kahaniyan, Famous Urdu stories, Urdu stories with moral, Best Urdu stories collection, Urdu stories for students, Urdu love stories, Urdu horror stories, Urdu stories for reading, Urdu stories in Urdu text, Funny Urdu stories, Urdu stories for beginners, Urdu detective stories, Urdu motivational stories, Urdu stories for kids, Urdu moral stories, Urdu stories for children, Urdu true stories, Urdu suspense stories, Urdu emotional stories, Urdu adventure stories,
moral stories in urdu,سبق آموز کہانیاں,good moral stories in urdu,Moral Stories,Urdu Stories,urdu kahani,اردو کہانی,قسط وار کہانیاں,

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے