دیوانی لڑکی کی شادی ۔ پہلا حصہ

دیوانی لڑکی کی شادی ۔ پہلا حصہ

میڈم یہ رسید خوش شکل سیلز مین نے لاپروائی سے پراندہ ہلاتی لڑکی کو بتسی نکال کے متوجہ کیاعائشہ نے چونک کے دیکھا.. ساڑھے چار ہزار عائشہ کے تلوں پے لگی دماغ پے بجھی نکال ساری چیزیں بل میں خود بناوں گی.. پیچھے سے ایک کم عمر لڑکے نے ٹوک کے کہا میڈم یہ شاپنگ مال ہے یہاں کپیوٹر رائیز بل بنتا ہے ہم لوگ بےایمان نہیں ہیں... رسید بنانے والے نوجوان نے ہاتھ اٹھا کے لڑکے کو بولنے سے روکا... عائشہ نے ہنہ کر کے ساری چیزوں کی قیمت پڑھی خود وہاں زمین پے بیٹھ کے التی پالتی مار کے بل بنایا لوگوں کے لئے یہ ایک تماشہ تھا مفت کا تماشہ. دیکھا میں نہ کہتی تھی اتنا بل نہیں بن سکتا میرا پورے پندرہ روپے زیادہ مانگ رہے تھے خسمنو خانے عائشہ گویا صدمے سے دھاڑی اور داد طلب نظر سے حاظرین کو دیکھا لوگوں میں چی مگوئیاں شروع ہو گئی.. نوجوان نے دانت پیسے اور لڑکی کی عقل پے ماتم کرتے بولا میڈم یہ شاپر کے پیسے ہیں... عائشہ نے آنکھیں پٹپٹائی اور حاظرین کو دیکھ کے بولی اف اتنا بڑا مال اور شاپر کے بھی پیسے لیتے ہیں اوئی ماں بچارے بوکھے لوگ چلو یہ پندہ روپے ٹیپ دی پھر عائشہ نے "تین بار تھوک لگا کے" پیسے گنے اور پھر میز پے پٹخے پیچھے سے ہنڈسم نوجوان نے پیسے پکڑے دانت کچکا کے ہانک لگائی ایک بار پھر گن لیں کہیں زیادہ نہ آ گئے ہو عائشہ نے ہاتھ جھلایا اور رک کے صرف گردن پلٹی اور مسکرا کے بولی وہ آپ شاپر خرید لینا اور آنکھ مار کے چلی گئی معیز کا منہ کھلا کا کھلا رہ گیا... سر آپ رہنے دیں ہم دیکھ لیں گے.. پیچھے سے لڑکے نے معیز کو کہا معیز چونکا اور اپنی عقل پے لانت ملامت کرتا خود کو پیچھے ہٹ گیا....

عائشہ اماں نے دفتر کی فائیلوں میں سر کھپاتی عائشہ کو پانچویں بار بلایا... جی عائشہ نے قوفت سے سر اٹھایا.. کیوں کرتی ہو اتنی محنت تیرے باپ کا حصہ لیں گے تو زندگی سہل ہو جائے گی عائشہ غصے سے ماں کو دیکھا . کونسا حصہ جن لوگوں نے ابا سے رشتہ ختم کر دیا تھا وہ لوگ ہمیں حصہ دیں گے وہ بھی ابا کے بعد ہنہ ان سے تو صرف ایک چیز مل جائے مجھے کافی ہے میری آذادی عائشہ نے فائیلیں اٹھائی اور اندر چل دی اماں تنہا چاند کو دیکھ کے پے ہاتھ اٹھا کے دعا مانگے لگی اللہ میرے کئے کی سزا میری بیٹی کو مت دینا..
 
معیز دیھان کہاں ہے ٹھیک سے کھا پتر دادی نے پیار سے کہا ہمم معیز نے سر اٹھایا اور پھر مبائل پے مگن ہو گیا.دادی نے تاسف سے سر ہلایا معیز تم اپنا دیھان نہیں رکھتے تمہاری بیوی کو لے آوں پھر دیکھتی ہوں کیسے اپنا خیال نہیں رکھتے معیز نے لب پھنچے اور ناشتہ چھوڑ کے بولا میں آپکی پوتی سے شادی نہیں کروں گا اور یہ میرا آخری فیصلہ ہے دادی نے پیچھے سے آواز لگائی معیز وہ تمہاری بیوی بھی ہے اسکا مجھ سے زیادہ تم سے رشتہ ہے جس دن وہ حساب مانگنے آ گئی تمہیں ہی اگے کروں گی معیز نے پلٹ کے مسکرا کے کہا دیکھی جائے گی اور اسے میری ضرورت ہوتی تو آج وہ یہاں ہوتی چھپ کے نہ بیٹھی ہوتی.. تمہیں اللہ پوچھے معیز دادی نے دہل کے سینے پے ہاتھ رکھا اور دل ہی دل میں آج آمنہ کے گھر جانے کا ارادہ کیا صبح سے نجانے کیوں دل بیٹھا جا رہا تھا اللہ خیر کرے اللہ میری بہو اور پوتی کو اپنے امان میں رکھنا.
 
اماں عائشہ نے بے جان پڑی ماں کو ہلایا. نرس نے تاسف اور ہمدردی سے عائشہ کے کندھے پے ہاتھ رکھا مس عائشہ وہ زندہ نہیں ہے عائشہ کو سکتا ہو گیا... اور زمین پے بیٹھتے بولی آپ جھوٹ بول رہی ہیں اماں مجھے کس کے سہارے چھوڑ کے جا رہی ہو اماں میرا کون ہے اماں ایک بار میرے بارے میں سوچتی اماں آنکھیں کھولو...لیکن اماں تو شائد عائشہ کی زد سے روٹھ چکی تھی...
 
مت لے جاو میری اماں کو چھوڑ دو چھوڑ دو مجھے میت اٹھاتے وقت عائشہ صدمے سے چور بہکی بہکی باتیں کرنے لگی اسکے لئے یعقین کرنا مشکل تھا کہ اللہ نے اسکا واحد سہارا بھی چھین لیا ہے.. مگر کون جانے جب سامنے والا دروازہ رب بند کرتا ہے اس سے پہلے کوئی اور راہ گزر کھول دیتا ہے کون جانے عائشہ کی قسمت اسے کہاں لے جانے والی ہو کون جانے یہ فیصلہ رب نے کیوں کیا... عائشہ بے ہوش ہو کے محلے والی عورت کے ہاتھوں میں جھول گئی... باہر سیاہ لینڈ کروز رکی... اس میں سے عابدہ بیگم نکلی اپنی لائٹ پنک ساڑھی جو بہت مہنگی اور نفیس معلوم ہوتی تھی پرل موتیوں سے سجا ہلکا کامدار پلو زمین کو چھو رہا تھا گلے میں ڈائیمنڈ نکلیس اور زرقون جڑے موتی پہنے تھے کانوں میں ڈائیمنڈ کے آویزے. قدرے مہنگی بریسلیٹ جو وائٹ گولڈ کی معلوم ہوتی تھی اپنے کمزور اور لاغر ہاتھوں سے عابدہ بیگم نے گاڑی کا دروازہ پکڑا ڈرائیور معلوم کرو کون فوت ہوا ہے میت لے جاتے دیکھ کے عابدہ بیگم نے گاڑی رکوائی تھی... میڈم یہاں کرائے دار ہیں دو ماں اور بیٹی محلے والے کہتے ہیں ماں آج صبح بی پی لو ہو گیا تو دل کی دھڑکن رکنے سے انتقال کر گئی... یہ اللہ خیر عابدہ بیگم کے چہرے پے تفکر پھیلنے لگا... اور بھاگ کے اندر گئی... اندر ہجوم سہ لگا تھا عابدہ نے آوازیں لگانا شروع کردی میری عائشہ کہاں ہے عائشہ عائشہ میری بچی دیکھ میں آ گئی ہوں... لیکن وہاں سننے والی ہوش وحواس سے بے گانی تھی... جی آپ کون ایک خاتون نے متاثر ہو کے پوچھا میں دادی ہوں عائشہ کی؛ سارے گھر میں دوبارہ موت سی خاموشی پھیل گئی عورتیں پیچھے ہٹتی گئی اور زمین پے بے سد پڑی کمزور لڑکی کی طرف اشارہ کیا....
 
معیز کمرے میں داخل ہوا تو جسم درد سے چور تھا اسنے سارے کپڑے اتار دیئے اور الماری گھس کے سلیپنگ سوٹ نکالنے لگا.. پھر گنگناتا ہوا شاور لینے چلا گیا..کمرے میں گپ اندھرا کر کے وہ واپس آ کے اپنے بسترپے نیم دراز ہو گیا.. کچھ دیر بعد کچی نیند میں معیز کو لگا کچھ نرم نرم چیز اسکے وجود سے ٹکرائی ہے وہ ہربڑا کے اٹھا اور اس چیز کو زور سے پکڑ لیا اور دوسرے ہاتھ سے لیمپ چلایا معیز کی آنکھیں پٹھنے کے قریب تھی یہ تو وہی تھی جو ہفتہ بھر پہلے ماشاللہ سے ساڑھے چار ہزار کی شاپنگ کر کے گئی تھی اور آج یہاں اسکے کمرے اسکے بستر میں مدہوش پڑی تھی معیز نے اسکی کلائی چھوڑی اور بستر سے اتر کے لمبے لمبے سانس لئے.. معیز کو یاد آیا ابھی کچھ دیر پہلے وہ کس حلیئے میں گوم رہا تھا معیز کو سوچ کے ہی جھرجھری آئی اگر وہ جاگ رہی ہوتی اور دیکھ لیتی تو مگر یہ یہاں کیسے اور اس طرح اس حال میں کھلے رف بال پیلے پھٹک ہونٹ زرد رنگ سیاہ حلقے اسے یاد آیا وہ ہفتہ پہلے ایسی نہ تھی .. ہیل معیز جھنجلا گیا اور دندناتا ہوا سب کو دیکھا پورا گھر سویا تھا ایک وہی الوں کی طرح جاگ رہا تھا یہ ہے کون اور میرے کمرے میں پہنچی کیسے.. گارڈ سے پوچھا اور معیز کے تن بدن میں آگ گئی معیز کو سن کے صدمہ ہوا یہ تھی اسکی بچپن کی بیوی جس کی وجہ سے آج تک اسکی کوئی گرل فرنڈ نہ بن پائی وہ کچھ سوچ کے بڑے جارحانہ طریقے سے کمرے کی طرف بڑھا...
 
معیز نے کمرے کا دروازہ خاصی بتمیزی سے کھولا تاکہ اندر سوئی آفت اٹھ جائے مگر وہ شائد نہیں پعقینن ڈیٹھوں کی سردار تھی جو زرہ بھی نہیں ہلی اے اٹھو معیز بستر کے قریب جا کے دھاڑا مگر وہاں سویا وجود ٹس سے مس نہ ہوا معیز نے دانت کچکچائے اور کندھے سے عائشہ کو ہلایا عائشہ نے پٹ سے بڑی بڑی آنکھیں کھول دی جن میں خوف وہشت پتہ نہیں کیا کیا نہ تھا معیز کچھ لمہوں کے لئے جم سہ گیا... جی آپ کون عائشہ کو وحشت ہوئی اجنبی مرد کو دیکھ کے... میں معیز نے ابرو اچکائے میں تمہارا شوہر کہہ کہ معیز دوسری طرف جان بوجھ کے نیم دراز ہو گیا. عائشہ معیز کے لیٹتے ہی چھپک سے بیڈ سے اتری جیسے وہ کوئی اچھوت شے ہو اور یہی تو معیز چاہتا تھا اسکے نرم گلابی گدار ہونٹوں میں منچھوں تلے مسکراہٹ پھیل گئی. عائشہ نے ادھر ادھر اپنا ڈوپٹہ دیکھا معیز کے نیچے تھا عائشہ نے ڈوپٹہ کھنچا اور وہ ڈیٹھ ہو کہ آنکھیں موند کے لیٹ گیا عائشہ نے جھک کے نکالنا چاہا تو معیز نے کلائی سے اسے خود پے کھنچ لیا اور سرخ انگاروں جیسی آنکھیں خوف سے پھٹی آنکھوں میں ڈال کے بولا آج کے بعد میرے کمرے میری کسی بھی چیز کے آس پاس نظر نہ آنا تم کسی بھول میں مت رہنا کہ تم کبھی اس گھر یہ مجھے حاصل کرلو گی یہ کہہ کے معیز نے اپنی گرفت ڈھیلی چھوڑ دی عائشہ ایک جھٹکے سے اٹھی اور چپل پہن کے انگلی اٹھا کے بولی تم شاید کسی خوش فہمی میں ہو
" نہ منہ نہ متھا جن پاروں لتھا"
 
شکل دیکھ کے بات کرنی تھی نہ مجھے تو تمہاری شکل ایز اے ہسبنڈ پسند ہی نہیں آئی تم سے شادی کرتی ہے میری ٹوٹی جوتی جاو اس سے کرلو... یہ کہہ کے وہ چلی گئی وہ معیز کی نیند اڑ گئی ساری رات وہ بار بار آئینہ دیکھتا اور بار بار چہرے کو چھو کے دیکھتا...
پتر اتنی صبح اٹھ گئی.. دادو نے پیار سے جانماز پے بیٹھی عائشہ کو پیار کیا عائشہ نے دادو کا ہاتھ بتمیزی سے جھٹکا اور اٹھ کے جانماز تہہ کر کے بولی میں واپس جا رہی ہوں اب میں بے ہوش ہوں یا مروں میرے پیچھے مت آئے گا اور اپنے پوتے سے کہہ دیں مجھے طلاق چاہیئے اور میں حق مہر اسے خیرات میں دیا.. دادی جانتی تھی وہ صدمے سے چور ہے اور ناانصافی دادی کی طرف سے ہوئی تھی تو خاموشی سے سنتی رہی اسکا غصہ حق بجانب تھا ماں باپ اسکے نے بھاگ کے شادی کی تھی مگر اس بچاری کا کیا قصور تھا جو ہر رشتے کو ترس گئی تھی... جب عائشہ دس سال کی تھی تو اسکے باباکا اکسیڈنٹ ہو گیا تھا معیز کے بابا بھائی کی محبت میں بھاگم بھاگ ہسپتال پہنچے اور آخری خواہش کے تور پے معیز اور عائشہ کا نکاح کر دیا پھر کیا تھا وہ تو چلے گئے تب معیز اٹھارہ سال کا تھا بچہ نہیں تھا سمجھ دار تھا مجبور تھا گھر میں اسکی ماں بہت لڑی پہلے اسکی بہن کی جگہ عائشہ کی ماں آ گئی اب بھانجی کے حق پے اسکی بیٹی ڈاکہ ڈال گئی معیز کو بھی ماں ٹھیک لگتی اور اسکی کزن حرا اسے واقع حیرا لگتی... خیر یہ تو تھی پرانی باتیں اب کرتے ہیں نئی باتیں اسکے بعد کوئی عائشہ کے گھر نہ گیا اور دادی کبھی کبھی فون کر لیتی پچھلے ایک سال سے مگر عائشہ کی محرومیاں اتنی تھی کہ وہ کیسی کو معاف کرتی بھی تو کیوں..
 
بچے اکیلی کیسے رہو گی دادو نے پیار سے کہا عائشہ نے نماز سٹائل میں لوپیٹا ڈوپٹہ اتارا کمر پے باندھا اور کان کے قریب جا کے بولی بے بے میں تو ساری زندگی اکیلی رہی ہوں تمہیں کیا لگتا ہے اماں میکے مجھے لے کہ جاتی نہ نہیں پتہ ہے کیا ان لوگوں نے اپنی بیٹی کو تو معاف کر دیا مگر مجھے قبول نہ کیا عائشہ نے سینے پے انگلی رکھ کے نہ میں ہاتھ ہلایا بلکل اسی طرح جیسے اپنے اپنے بیٹے کو معاف کر دیا مگر میرا وجود اور میری ماں کو قبول نہیں کیا... بے بے چپ ہو گئی وہ کیا کہتی سانس پیتی رہی اور کانپتے کمزور ہاتھ جوڑ کے بولی اپنے ماں باپ کے واستعے اپنی بےبے کو معاف کردے دیکھ تو کہی مت جا تیری ہر بات مانوں گئی اس بات سے عائشہ کی آنکھیں چمک گئی اور ٹھیک ہے کہہ کے بولی میرے لئے کوئی اور کمرہ تیار کروا دیں رات کو اپکے پوتے نے مجھے دھکے دے کہ نکال دیا ساتھ ہی نہ نظر آنے والا آنسو بھی ہونچھ لیا دادو شرمندہ ہو گئی دادو بچاری کو کیا پتہ آدھی ایکٹنگ ہے بیٹا وہ تمہارا شوہر.. نہیں بے بے وہ انکاری ہے میں بھی کوئی گری پڑی نہیں جو انکے ساتھ رہوں عائشہ نے ایسے کہا جیسے بہت وفعشور بیوی ہو. بے بے تو دل ہی دل میں معیز کو گالیاں نکال کے بچے کچے دانت پیس کہ رہ گئی...

آہستہ ناشتہ کرو عائشہ بچے دادو کا آج کل سارا پیار عائشہ کے لئے تھا عائشہ نے نفی میں سر ہلا کے منہ صاف کیا اور کمرے سے بیگ لا کے کندھے پے ڈالا اچھا بے بے شام میں لیٹ آوں گی کہاں جا رہی ہو بیٹا؟ میں یونیوسٹی جاوں گی دوپہر میں ایک اکیڈمی میں پڑھانا ہے شام میں پیزا میک کی جاب ہے سب کے کانٹے اور چھریوں کی آواز بند ہو گئی سب بت بنے عائشہ کو دیکھ رہے تھے جو بے نیازی سے کتابیں چیک کر رہی تھی.. بچے تم کام پے مت جانا بے بے بہت شرمندگی ہوئی کہ وہ 20سال کی عمر میں کتنی محنت کررہی تھی نہیں بے بے ایک مہینے سے فارغ یہاں پڑی ہوں اب پیسے بھی ختم ہونے والے ہیں میرے "؛ گھر میں بستر پے ماتم کرنے سے اماں واپس نہیں آئے گی مجھے خود کے لئے ابھی جینا ہے جب تک سانس باقی ہے چلو بائے جھک کے بےبے کے گال پے بوسہ دیا بائے دیا معیز کی چھوٹی بہن کو ہاتھ ہلایا ایک مہنے میں اسکی دوستی دیا سے کافی ہو گئی تھی بائے ساسو امی شرارت سے صدف کو متوجہ کیا صدف جان چکی تھی عائشہ اپنے کام سے کام رکھنے والی سیدھی سادھی لڑکی ہے وہ نہ کسی کو چھیڑتی نہ فضول چھڑتی بس ایک معیز ہی تھا جیسے عائشہ کا سویٹو سویٹ ہارٹ جانو کہنا زہر لگتا ہر وقت گلی میں بلیوں کے بچے پکڑنے والی کبھی گٹر سے کتے کے بچے نکالتی اور کبھی گھر میں طوطے کبوتر لے آتی خیر طوطے وہ پرانے گھر سے لائی تھی جو بے جا میٹھو میٹھو بولتا اور عائشہ اور باقی سب کا سہی نام لیتا صرف معیز کو ہی زیرو زیرو کہتا معیز کو پکا یعقین تھا یہ عائشہ کے کام ہیں مگر وہ رنگے ہاتھوں پکڑی جاتی تب نہ.. 
 
پیچھے ہٹو مجھے اندر آنا ہے عائشہ نے دروازہ باہر سے کھولتے کہا تم پیچھے ہٹو مجھے اندر آنا ہے پہلے میں آئی تھی یہ گھر میرا ہے تم پیچھے ہٹو لیڈیز فسٹ میں لڑکی میں اندر آوں گی تم کہاں سے لڑکی ہو اور بس پھر عائشہ بھک سے اڑ گئی مرو تم پاگل انسان معیز نے قہقہہ دبایا اور زور سے دروازہ کھولا اور عائشہ پھچے الٹے گر گئی اور دروازہ ناک پے لگنے سے خون کی بوند نکل آئی آہ آہ آہ آہ یہ کیا باہر وہ کسی کی مظبوط باہوں میں تھی. اور حیرت سے جمی تھی مقابل کے دانت باہر تھے معیز کا منہ پورا کھولا تھا یہ سب ایسے ہی سٹیل رہتا مگر عائشہ کی آواز پے سب کو ہوش آیا چھوڑو مجھے مقابل نے فورا فرمابرداری سے چھوڑ دیا اور عائشہ زمین بوس ہو گئی پھر دونوں کے قہقے ابلے اور سر سہلاتی عائشہ اٹھ بیٹھی اور پاوں پٹختی اندر چلی گئی ارے کون تھی یہ بجلی کرنٹ حسینہ معیز نے مقابل کے نظروں کے تعاقب میں دیکھا اور کھوئے کھوئے سے لہجے میں بولا مسز معیز واٹ یہ تھی وہ... مقابل نے معنی خیز اووووو کہا اور معیز کو کھویا دیکھ کہ گردن اثبات میں ہلائی.......یہ تو گیا کام سے.

یہ لو کھیر سویٹ ہارٹ تمہارے لئے معیزنے خطرے کی گھنٹی محسوس کی اور ادھر اودھر سب کو دیکھا سب کھیر کھا رہے تھے معیز نے خوشی خوشی پکڑی پھر بولا یہ والی پیالی تم کھاو گی وہ دوسری جو تم نے اپنے لئے رکھی وہ مجھے دو عائشہ نے فرمابرداری سے یہی کیا اور دوسری پیالی سے کھانے لگ گئی معیز نے کھیر ڈرتے ڈرتے چکھی اور جب معلوم ہوا کہ کھیر ٹھیک ہے تو کھانے لگ گیا اچانک معیز کا پیالی زمین بوس ہو گئی اور منہ میں موجود کھیر باہر نکال کے تھوک دی اور گلے میں انگلیاں ڈالتا واش روم بھاگ گیا کیا ہوا بے بے نے اشارے سے عائشہ سے پوچھا عائشہ نے کھیر کا آخری چمچہ منہ میں ڈالا اور لاپروائی سے بولی بچارے کی کھیر میں چھپکلی تھی دیا تو اچھل پڑی عاشی تو نے بھائی کی پیالی میں تم بہت گندی ہو ... اور عاشی صاف مکر گئی اور بھولی بن کے بولی وہ تو میری پیالی تھی اسنے خود مانگی تھی اور چھپکلی بھی نقلی لگ رہی ہے مجھے اس کھیر کی قسم اسنے یہ مجھے پہنسانے کے لئے خود ہی ڈالی ہے میں جھوٹ بولو تو تجھے یہ ہضم نہ ہو دیا نے دہل کے آنکھیں کھول کے اپنے تیسرے کھیر کے پیالے کو دیکھا اور خوف سے بولی نہ نہیں میری بہن میں تو مزاق کر رہی تھی تو بھلا ایسا کیوں کرے گی عائشہ نے چمکتی آنکھوں سے اسے گھورتے معیز کو دیکھا اور آنکھ مار کے دوبارہ کھیر ڈالنے لگ گئی....
یہ کارڈ مسٹر معیز کے نام کا ہے عائشہ نے کارڈ لہراتے سب کو کہا تو پتر تم اسکی گھر والی ہو تم ساتھ ہی جاو گی بس دادو نے گویا حکم سنایا.. نہ نہیں وہ مجھے لے کے نہیں جائے گا. پیچھے سے میٹھو نے بولنا شروع کردیا نہیں لے کہ جائے گا نہیں لے کہ جائے گا.. اوے کھوتے تو چپ کر عائشہ کو میٹھو کا اس "سنجیدہ " گفتگو میں بولنا زہر لگا.. تو چپ کر تو چپ کر میٹھو نے ثابت کیا کہ وہ عائشہ کا ہی میٹھو ہے... عائشہ نے چمچ پکڑ کے میٹھو کو دیکھایا تو بچارا گونگا ہو گیا.. ہاں تو میں کہہ رہی تھی وہ دیکھنا حرا پھپھے کٹنی کو لے کے جائے گا.. عائشہ نے ہاتھ نچا نچا کے کہا دادو اور دیا کو بڑی ہنسی آئی اسکے انداز پے معیز سیڑیاں اتر رہا تھا دادی کی آواز پے رک گیا... جی وہاں بہت مرد ہوں گے اسکا وہاں کیا کام معیز نے مکھی اڑائی عائشہ نے اسکے جانے کے بعد بےبے کو ایسی نظر سے دیکھا جیسے کہہ رہی ہو دیکھا میں نہ کہتی تھی نہیں لے کے جائے گا مر جانا...
برہان بھائی عائشہ ہانپتی کانپتی تیار ہو کے معیز کے بڑے بھائی کے پاس پہنچی جی بیٹا انہوں نے ٹائی لگاتے شفقت سے آئینے میں اسکا نکھرا سراپہ دیکھ کے کہا... بھائی مجھے بھی جانا یہ اور یہ دیکھیں میں تیار ہوں عائشہ نے اپنے چوڑوں سے سجے ہاتھ سامنے پھلائے برہان نے پلٹ کے اسکے ہاتھ پکڑے اور سر تھپک کے بولا تم معیز کے ساتھ کیوں نہیں گئی.. وہ مجھے لے کے نہیں گئے حرا کو لے گئے عائشہ نے جان بوجھ کے افسردہ لہجے میں کہا جیسے پتا نہیں کتنی محبت کرنی والی بیوی ہو.. برہان کو معیز کا یہ رویہ سخت ناگوار گزرا اسنے ایک نظر عائشہ کو دیکھا پھر شرمندگی سے بولا ہم جائیں گے عائشہ لیکن ان کپڑوں اور یہ رنگ برنگی چوڑیوں میں نہیں... عائشہ نے اپنی بڑی بڑی گول بالیاں پراندہ اور پٹیالہ شلوار چھوٹی کمیز بڑھکیلا ڈوپٹہ دیکھتے کہا کیا میں پیاری نہیں لگ رہی.. نہیں میری بہنا بہت پیاری ہے برہان نے اسکی بڑی بڑی نیلی آنکھوں میں دیکھا جو سرمے اور کاجل سے بھری تھی... چلو میرے ساتھ.. پارٹی تو ویسے بھی رات کو ہے ابھی وہاں لنچ میٹنگ ہو گی...

معیز سبزے سے بھرے لائٹنگ والے لان میں قدم رکھتے مبہوت رہ گیا.. آہ اوپر سے یہ دل نشی آواز.. جیسے چاروں اور خشبو پھیلی ہو.. معیز آواز کے تعاقب میں چلتا گیا.. آواز تیز ہوتے جا رہی تھی
تیرے بنا زندگی میں کوئی شکوہ تو نہیں شکوہ نہیں شکوہ نہیں شکوہ نہیں تیرے بنا لیکن زندگی بھی زندگی نہیں زندگی نہیں..
تیرے بنا زندگی سے کوئی شکوہ تو نہیں شکوہ نہیں... جی میں آتا ہے تیرے دامن میں سر جھکائیں ہم روتے رہیں روتے رہیں تیری بھی آنکھوں میں آنسو کی نمی تو نہیں تیرے بنا زندگی سے کوئی شکوہ تو نہیں کاش ایساہو تیرے قدموں........... اور معیز کی نظر گانے والی پر پڑی اسکی پشت معیز کی طرف تھی معیز نے دیکھا کالی ساڑی سے ہلکی جھلکتی کمر ہائف سے بھی کم سلیو سے نکلتے دودھیا بازو معیز کو ایسے کپڑے جو آریاں ہوں تقریبا وہ سخت نا پسند تھے لیکن یہ لڑکی کونسا اسکی ماں بہن یہ گھر کی تھی معیز آنکھیں پھاڑ پھاڑ کے اسکی گوری دودھ مائی کمر پے موجود کالے تیل کو دیکھ رہا تھا اور آس پاس موجود لوگوں کے تبصرے جو لڑکی پے کر رہے تھے انکو انجوائے کر رہا تھا... پیانو بجاتی گانا گاتی لڑکی تالیوں کی آواز پے مسکرا کے پلٹی تو معیز کے آگے آسمان اور زمین گھوم گئے اسکی رگوں میں شرارے پنپھنے لگے وہ کوئی اور نہیں ہاں عائشہ ہی تھی لائٹ میک اپ کھلے لمبے بال ایک شانے پے تھے نازک جیولری لوگوں گی داد وصول کرتی .... پاس کھڑے انئیس نے معیز کو کہا دیکھ اسکی کمر پے سفید موتیوں سے بنا کمر بند کالی جارجٹ کی ساڑی پے کتنا حسین لگ رہا ہے مگر اسکو دیکھ کے لگتا ہے کہی دیکھی دیکھی ہے.. معیز نے گھور کے انئیس کو دیکھا دانت پیس کے بولا"عائشہ" اور انئیس نے اب کی بار زیادہ گھور کے عائشہ کو دیکھا اور کھولے منہ سے ٹپکتی رال منہ بند کرکے اندر نگل لی...انئیس کو وہ دن یاد آیا جب گھر کے دروازے پے گرنے سے وہ اسکی باہوں میں تھی.. معیز نے عائشہ کو میسج کیا دس منٹ میں یہاں سے دفع ہو جاو ورنہ سب کے سامنے بہت عزت کروں گا.. عائشہ نے بھی منہ پے ہاتھ پھیرا کہ اس میسج کا بدلہ وہ ضرور لے گی...
پلیز مجھے کوئی گھر ڈراپ کردے میری بہو کے ہاں بچہ ہوا ہے عائشہ نے چلا چلا کے بزنس پارٹی میں شور مچایا... اسے میری ضرورت ہے...
انئیس نے معیز کو کہنی ماری اور کان میں گھس کے بولا تیری بیوی تو آئٹم ہے یار... معیز نے کان کجھایا وہ منکوحہ ہے بیوی نہیں نہ ہی دماغ سے پیدل لڑکی میری بیوی بنے گی...
عائشہ کی آواز سے پوری پارٹی میں مبارک باد دینے کی بجائے سناٹا چھا گیا... ایک ہنڈسم نے بے یعقینی سے پوچھا تو آپ کی شادی کیا پیدا ہوتے ہو گئی تھی آئی مین آپ صرف آٹھارہ بیس سال کی لگتی ہیں کیا سرجری کرواتی ہیں... عائشہ کا منہ کھول گیا... اور قدرے زور سے بولی بہو کے ہاں بیٹا ہونے کا مطلب یہ نہیں میں شادی شدہ ہوں الحمدللہ میں سنگل ہوں اور صرف 20 سال کی ہوں.. انئیس نے قہقہہ دبا کے پھر سے معیز کو ٹہکہ دیا اور جوس پیتے معیز کا جوس عائشہ کی بات سے حلق میں اٹک گیا اور وہ زور زور سے کھانسنے لگا.....
برہان نے اپنا قہقہہ معیز کی شکل دیکھ کے دبایا.. اور عائشہ کا ہاتھ دبا کہ بولا اصل میں میری بہن نے بلیاں اور طوطے رکھے ہیں اور ابھی میری دادو نے بتایا کے اسکے میٹھو جو کہ اسکا بیٹا ہے اس کے انڈے سے بچہ نکل آیا... سب سنگل کنوارے لڑکوں کی جان میں جان آئی اور معیز اسے اپنے بھائی سے ایسی بیوقوفی کی امید نہ تھی.. اسنے اپنے جبڑے سختی سے میچ لئے.. انئیس نے دانت نکال کے کہا تم خوش ہو اب تمہاری بیوی کو پاگل ثابت کرنا آسان ہے اور تم حرا کو میری بھابی بنا دینا ویسے اگر تم چاہو تو میں عائشہ سے شادی کر سکتا ہوں .جب تم اسے ڈیورس...... اور پھر معیز کی آنکھوں سے نکلتے شرارے دیکھ کو انئیس کی زبان تالو سے چپک گئی...اور دل ہی دل میں اللہ سے اپنی زندگی مانگی...

تمہاری ہمت کیسے ہوئی وہاں اس بے ہودہ لباس میں جانے کی معیز نے گھر آتے اس پے چڑائی کی... اور وہ دنیا جہان کی معصوم بنی برہان کے پیچھے چھپ گئی اور مصنوعی کانپنے لگ گئی.. تم اپنا منہ بند رکھو معیز اسے میں نے یہ کپڑے لے کے دیئے تھے اور یہ میری ساتھ میری بہن بن کے گئی تھی برہان نے عائشہ کا سر تحفظ دینے کے انداز میں اپنے سینے سے لگا کے تھپکا..
معیز نے ایک جھٹکے سے عائشہ کو برہان سے کھنچا اور جا کے سیدھا اسکے چوڑے سینے سے ٹکرائی او مائی جنگلی عائشہ نے ڈرنے کی ایکٹنگ چھوڑ کے میدان میں آکے کمر کسی..جانور ہو ہاتھ چھوڑو میرا عائشہ کو غصہ آیا نہیں چھوڑتا میرے پکڑنے سے تمہیں تکلیف ہے اور وہ جو آدھے شہر کے سامنے ننگی گھوم رہی تھی وہ کچھ نہیں...تمہیں اس سے کیا عائشہ نے لاپروائی سے کہہ کے ہاتھ کھنچا مگر معیز نے گرفت اور سخت کردی کمینے وہشی چھوڑ ٹوٹ جانی میری کلائی دوسے ہاتھ سے چھڑاتے عائشہ نے ایک ہاتھ معیز کے سینے پے مارا تو مبادا اسنے اسکا دوسرا ہاتھ بھی پکڑ لیا گھور سیاہ آنکھوں میں بھری خفگی اور گھنی مونچھوں تلے سختی سے پھنجے لب عائشہ کو معیز سے خوف آیا.. اور معیز اسکی نیلی بڑی بڑی آنکھوں میں جھانک کے چبا چبا کے بولا تم کہتی ہو میں حرا کے ساتھ کیوں جاتا ہوں اسے اہمیت دیتا ہوں تو سن لو مسز معیز اسکا ہجاب اسکی حیا مجھے اسکی طرف بلاتی ہے دیکھو اسے معیز نے صوفے پے ٹکی ٹانگ پے ٹانگ رکھ کے سین انجوائے کرتی حرا کی طرف اسکا رخ موڑا اور تم ہو کیا اپنی نمائش کر رہی ہو یاد رکھنا جان سے مار دوں گا اگر دوبارہ اسے کہی گئی تو جب تک میرے نکاح میں ہو شرافت کے جامے میں رہنا.. اور تم بھی شرافت کے جامے میں رہو تم بھی نکاح میں ہو اب تم مجھے نظر آنا دوسری تیسری گری پڑی لڑکیوں کے ساتھ رنگ رلیاں مناتے تو میں ایسے ہی کروں گی دو موتی ٹوٹ کے عائشہ کے رخسار پے گرے اور ناجانے کیوں معیز کے لب مسکراہٹ سے پھیل گئے اپنی پوروں سے اسکے آنسو صاف کر کے ٹھیک ہے فرمابرداری سے بول کے اپنے کمرے میں چلا گیا... سب لوگ معیز کی اس حرکت پے خوشگوار حیرت میں ڈوب گئے اور حرا کے تن بدن میں اگ لگ گئی ہنہ بے حیا با آواز بلند بول کے حرا معیز کے پیچھے ہولی عائشہ نے اگے بڑھ کے اسکا ہاتھ پکڑا اور چبا چبا کے بولی اگر میں بے حیا ہوں تو تم کیا ہو جو دوسروں کے شوہر سے چپکی رہتی ہو تب تمہارا اسلام تمہارا مذہب کچھ نہیں کہتا جب تم پورا پورا دن معیز کے ساتھ بند کمرے میں رہتی ہو... حرا نے مدد طلب نظر سے خالہ کو دیکھا مگر وہ نظر چرا گئی وہ معیز اور عائشہ کی آنکھوں میں ایک دوسرے کے لئے محبت کے جلتے لو دیکھ چکی تھی وہ نہیں چاہتی تھی اسکا بیٹا تاعمر پا کے کھو دینے کی تڑپ میں رہے.....
شٹوپیڈ حرا پاوں پٹختی باہر چل دی اور عائشہ کھلا کھلا کے پیچھے سے زبان چڑا کے میاں میٹھو کے بچے کو دیکھنے چل دی....
.............................
............................ 
............................  
گوگل پلس پر شئیر کریں

ہمارے بارے میں

دنیا کی سب سے بڑی اردو ویب سائٹ، اردو خبریں، اردو شاعری، اردو کہانیاں، اسلامی کہانیاں، اخلاقی کہانیاں، قسط وار کہانیاں، خوفناک کہانیاں، اردو ناول، ٹیکنالوجی، کاروبار، کھیل، صحت، اسلام، ادب، اسلامی نام، اسلامی مضامین۔ سبلائم گیٹ ایک بہترین ویب بلاگ ہے اور آپ یہاں اپنی من پسند تحریریں پڑھ سکتے ہیں
    Blogger Comment
    Facebook Comment

0 کمنٹس:

ایک تبصرہ شائع کریں