دیوانی لڑکی کی شادی ۔ دوسرا حصہ

 

دیوانی لڑکی کی شادی ۔ دوسرا حصہ

اللہ حافظ بے بے عائشہ نے عجلت میں ناشتہ کر کے معمول کے مطابق دادو کے گال پےچٹہ پٹہ بوسے لئے.. رکو تم میں ڈروپ کروں گا معیز نے ناشتہ کرتے ہوئے نیا حکم صادر کیا عائشہ نے حیرت سے سینے پے انگلی رکھ کے پوچھا مجھے؟ ہاں تمہیں مسکرا کے جواب آیا تم میری ذمہ داری ہو آج سے تم میرے ساتھ ہی ہر جگہ آو جاو گی معیز کو ناجانے کیوں وہم سہ ہوا کہ لوگ عائشہ کو ہی گھورتے ہیں..بڑی جلدی خیال آ گیا ذمہ داری کا نو تھینکس میں رکشے سے چلی جاوں گی یا وین سے عائشہ نے رکھائی سے کہا.. عائشہ پیچھے بہت قریب سے معیز کی آواز آئی پھر کسی نے اسکا ہاتھ دبوچہ اور وہ باہر کھنچتی چلی گئی.. گاڑی میں پھینکا اور گاڑی سارٹ کردی.. راستے میں معیز نے نیا لکچر دیا.. آج سے تم جاب نہیں کرو گی تمہیں جتنے پیسے چاہیئیں مجھ سے لے لینا اور اگر جاب کرنے کا شوق ہے تو پڑھنے کے بعد کرنا ابھی خود پے بوجھ مت ڈالو.. عائشہ تمسخرانا ہنسی ہنس دی معیز حیدر تم پاگل تو نہیں ہو گئے کیوں اپنی اور میری جان عذاب میں ڈال رہے ہو تین لفظ بولو اور ختم کرو یہ رشتہ تم اپنے رستے میں اپنے ہم پھر بھی اچھے کزن رہیں گے.. عائشہ نے ساری پلائنگ کی تھی.. ایسی ہی پلائنگ معیز نے بھی کی تھی مگر اسکی غیرت یہ گورا نہ کرتی تھی وہ گھر کی لڑکی کو طلاق دے کے کسی اور کے حوالے کردے... محبت اور عائشہ جیسی بے ہجاب لڑکی سے وہ مان ہی نہ سکتا تھا... ایک جھٹکے سے کار رکی عائشہ کا سر ڈیش بورڈ پے لگا افف جنگلی عائشہ بری طرح گھور کے نیچے اتر گئی.. اور معیز ہمشہ کی طرح اسکے اس لقب پے مسکرا دیا پھر ہاتھ کے اشارے سے اسے اپنی طرف بلایا اور کھڑکی پے جھکی عائشہ کا ہاتھ دبوچ کے بولا تم نے ابھی میرا جنگلی پن دیکھا کہاں ہے ابھی تمہیں اسکا مطلب بھی شاید معلوم نہیں ساتھ ہی اسکا ہاتھ ہونٹوں سے لگا کے زن سے کار بھگا گیا.. اور عائشہ اسکے اس معنی خیز جملے اور جسارت پے سانسیں معتر کرتی واش بیس کی طرف چل دی 11 بار درود پڑھ کے تین بار ہاتھ دھو کے بھی اسے تسلی نہیں ہوئی تو لینچ بریک میں الٹے ہاتھ سے کھانے لگ گئی..

وہ اپنے کمرے میں پیٹ کے بل لیٹی کتابوں پے جھکی ڈوپٹے سے بے نیاز اڑی ترچھی الست ملست لیٹی تھی کہ وہ ادھر آن دھمکا اور سیدھا نظر اس ہوش روبہ دیوی پے پڑی جو اس کی موجودگی سے یکسر بے نیاز پین منہ میں دبائے جانے کتاب میں دیکھ کے کونسے مراقبے سوچ رہی تھی....
چند لمہے یوں ہی گزر گئے تو معیز کی نظروں کو بند کشمالہ بھابی کی آواز نے باندھا کچھ چاہئے دیور جی.. معنی خیز لہجہ وہ بھی چونک سیدھی ہو کے بیٹی تو سارے بال اگے آ گئے.. اور جھٹ سے قریب پڑا ڈوپٹہ اٹھا کے گلے میں لیا.. معیز کو اسکی یہ حرکت سخت ناگوار گزری یعنی کے حد ہے وہ نا محرم یا غیر تھوڑی تھا وہ تو اسکا گھر والا تھا.. استغفرللہ معیز کی زبان سوچ کے ہی کڑوی ہو گئی...
جی نہیں کچھ نہیں وہ جھنجلا کے پلٹ گیا اور وہ دوبارہ اپنی اسی پوزیشن میں جھک گئی..

ایک گلاس پانی لاو لڈو کھیلتی عائشہ کو مخاتب بلکہ حکم دیا آج کل ویسے ہی اسکے انداز بدلے بدلے تھے جب مرضی کچھ بھی بول دیتا تھا عائشہ تو ویسے بھی چوکنا رہنے لگ گئی جہاں وہ ہوتا وہاں سے عائشہ گدھے کے سر سے سینگ کی طرح غائب ہو جاتی..تابعداری سے اٹھ کے چلی گئی پانی دیتے قسم سے حاظرین ہماری عائشہ کی غلطی نہیں تھی اللہ کی طرف سے چھنک آ گئی.. آ آ چھھھوو اور یہ گرا پانی معیز کی پینٹ پے... یا اللہ معیز بدک کے اٹھا یہ کیا بتمیزی ہے جیسے وہ اسے زچ کرتی تھی معیز نے زرا بھی یعقین نہ کیا اور شوہرانہ ناراض ہو گیا مگر وہاں پروا کیسے تھی... چاچو یوں لگ رہا ہے آپ کا سوسو نکل گیا پیچھے سے سنی کی آواز اسکا دل مزید جلا گئی ...ساتھ ہی عائشہ کی لاپروا ہنسی بھی..

عائشہ پتر اب تم معیز کے کمرے میں رہا کرو دادو نے مالش کرتے عائشہ کو کہا... کس خوشی میں سرد لہجے میں پوچھا گیا.. پتر اسے اسکی غلطی کا احساس ہو گیا ہے وہ شرمندہ ہے وہ تجھے بڑا غلط سمجھتا تھا مگر تو نے بڑی اچھی بچی نکلی... بس کریں مجھے نیند آ رہی ہے عائشہ ایک دم سے اٹھ گئی پھر الماری میں گھس کے سوٹ نکال کے استری کرنے لگ گئی پتر وہ معیز... بےبے میری پینک سینڈل کہاں ہے مل نہیں رہی وہ ایک دم استری کا پلگ نکالتی شہزادی شہزادی کرتی کمرے سے نکل گئی دادو نے ٹھنڈی سانس لے کے اپنے کمرے کی طرف چل دی وہ جانتی تھی اسکا اعتبار وقت کے ساتھ ساتھ ہی بہال ہوگا اور وہ صرف معیز کر سکتا ہے...وہ اپنی سی کوشش کر چکی تھی...

یہ چائے ہے عائشہ کو شہزادی پے غصہ آیا باجی روز تو ایسے بناتی ہوں وہ منمنائی مگر چینی ہے اس میں پھر آدھوری چائے وہ اٹھا کے اٹھ گئی معیز جو سوچ رہا تھاکہ اب شہزادی کی خیر نہیں اسکی حیرت کی انتہا نہ رہی جب چائے وہ اپنی مانو کے برتن میں ڈال کے اسکو پچکارتے ہوئے چوم چاٹ کے بنا ہاتھ دھوئے بیگ اور کتابیں اٹھانے لگ گئی... چلیں عائشہ نے رکھائی سے شوہر جی کو مخاتب کیا اور شوہر جی چونک گئے پھر یاد آیا وہ تو ناراض تھا تو وہ بنا جواب دیئے میسنو کی طرح چائے پیتا رہا... اور عائشہ بھاڑ میں جاو بتمیز کہہ کہ یہ جا وہ جا.. وہ بتمیز چائے چھوڑ کے جانے والی بتمیز کے قدم گنتا رہ گیا... ہٹا بھی لو نظریں چلی گئی ہے وہ دادو کی آواز اسے دنیا میں واپس لائی جی دادو وہ شرمندہ سہ ہو کے کپ دوبارہ منہ کو لگانے لگ گیا..

غیر متوقع طور پے واپسی پے گاڑی سے ٹیک لگائے کھڑے معیز کو دیکھ کے عائشہ اگے بڑھ گئی اور وہ سوٹ بونڈ میں لش پش کالا چشمہ لگائے انتظار میں تھا اسکا منہ کھول گیا.. اور دندناتا ہوا اسکے پیچھے آیا اندھی ہو یا یاداشت کمزور ہے تمہاری وہ اسکے پاس جا کے دھاڑا اور عائشہ کی دوستیں ایک دوسرے کو معنی خیز دیکھنے لگ گئی مجھے تمہارے ساتھ نہیں جانا وہ اپنی ازلی رکھائی سے بولی چلیں گے تو تمہارے فرشتے بھی.. چلو وہ اسکا بازو دبوچ کے بولا اتنے میں ایک دوست کو حسد کے ساتھ غیرت جاگی ائے مسٹر تم اسے ایسے نہیں لے جا سکتے" کیوں؟؟ معیز نے ماتھے پے بل ڈال کے پوچھا.. لڑکی کنفیوز ہو گئی اور مرمری سی آواز میں بولی یہ اچھے گھر کی ہے اور ایسے کیسے کسی کی ساتھ بھی چل پڑے... اور یہ اچھے گھر کی میری گھر والی ہے معیز نے گردن اکڑا کے فخر سے بتایا جیسے یہ اسی کا کارنامہ ہو.. لڑکیاں صدمے سے چور حسد میں مبتلا ہو گئی معیز عائشہ نے غصے سے آواز بھنچ کے تنبہہ کی.. جی معیز کی جان وہ جان نثار ہوا... تم ہو ہی بے ہودہ انسان وہ اسکے جملے سے تپ گئی.. اچھا جیسا بھی ہوں تمہارا ہوں وہ اسکو مزید تپاتے کار تک لایا... آئسکریم کھاو گی وہ بہت مہربان بنا پوچھ رہا تھا .. زہر لا دو وہ بڑبڑائی. مجھے بھری جوانی میں رنڈوا ہونے کا کوئی شوق نہیں وہ ہنستے ہوئے بولا.. اور میں خوشی سے بیوہ ہونا پسند کروں گی یہ سن کے معیز کی ہنسی کو بریک لگ گئی.. اتنی نفرت کرتی ہو وہ نجانے کیوں پوچھ بیٹھا اس سے بھی زیادہ وہ اسکی آنکھوں میں دیکھ کے بولی اور کار سے اتر کے اندر چل دی...

جی ہمیں تو آپکی بچی بہت پسند آئی بس کچھ مصروفیات کی وجہ سے لیٹ ہو گئے... ورنہ اب تک آپکی بیٹی ہماری بہو ہوتی... اور صدف جی جان سے مہانوں کی خدمت میں جتی تھی دیا کا رشتہ آیا تھا وہ بھی بنا کسی کی مدد کے وہ بھی اتنا شاندار معیز کے ہی سرکل سے وہ ملے بنا شادی کی تاریخ مانگ رہے تھے اور صدف اس افادت پے بوکھلا گئی... چائے لاتی صدف کو دیکھ کے بولی یہ ہے میری بیٹی بیٹھ جاو بیٹا صدف نے اسے صوفے پے ٹکا دیا مگر ہم اپکی دوسری بیٹی کا رشتہ لائے ہیں خاتون نے ناپسندیدگی سے دیا کو دیکھا... ہماری تو ایک ہی بیٹی ہے صدف نے جزبز ہو کے کہا... پھر اندر آتی عائشہ کو دیکھ کے خاتون صدف کی غلط بیانی تپ کی بولی ہم اس لڑکی کا رشتہ لائے تھے اور یہ گری عائشہ کے ہاتھ سے کتابیں اور صدف نے بے ساختہ کہا یہ میری بہو ہے خاتون ایک دم کھڑی ہو گئی اور اندر آتے معیز نے گرتی ہوئی عائشہ کو تھاما اور دھاڑ کے بولا آپکی ہمت کیسے ہوئی میری بیوی کا رشتہ لانے کی کس نے بھیجا ہے آپکو گیٹ اوٹ صرف آپکی عمر کا لہاظ کر رہا ہوں ورنہ.... جملا ادھورا مطلب پورا خاتون گدھے کے سر سے سینگ کی طرح غائب معیز نے ایک نظر اپنے بازو پے جھولتی عائشہ کو دیکھا تو اپنے مظبوط بازوں میں اٹھا کے اندر چل دیا....
 
کمرے میں نیم اندھیرا تھا اور سردی کی شیدت بھی کافی تھی عائشہ کی نیند نجانے رات کے کونسے پہر کھلی تھی پھر اسے وہ منظر یاد آنے لگا اسکا رشتہ اسنے بھلا کب سوچا تھا معیز کے علاوہ کسی کو پھر بھی نجانے کیوں وہ اس وقت سکون میں تھی شاید کسی مسیحا کا لمس اپنے بہت قریب محسوس کر رہی تھی.. کوئی بہت دھیرے دھیرے اسکے بالوں میں سرسراتے انگلیاں چلا رہا تھا پھر اسکی پیشانی پے لب رکھے ... آہ یہ کیسا لمس تھا جو پہلے کبھی محسوس نہ ہوا تھا عائشہ نے ہلکی سی آواز میں پکارا" بےبے وہ لوگ چلے گئے نہ" کتنا خوف تھا عائشہ کی آواز میں معیز نے اسے اپنے اور قریب کیا اور سرگوشی کے انداز میں بولا چلے گئے اس لئے کہتا ہوں اسطرح باہر مت جایا کرو لیکن تم مانتی کب ہو میری اب دیکھ لیا نا انجام.. اور عائشہ کرنٹ کھا کے الگ ہوئی اور لائٹ اون کی شدید ترین غصے کی لہر اس وقت اسکی رگوں میں گزری.. تمہاری ہمت کیسے ہوئی میرے کمرے میں آنے کی.. گیٹ اوٹ وہ رخ موڑ کے کھڑی ہو گئی ہاتھ باندھے کھلے بکھرے بال ڈوپٹے سے بے نیاز آہ نیلی آنکھوں میں غصے کی ایک سرخ لکیر ایسے میں کون کمبخت نہ اس حسن پے مر جائے.. معیز کے لب مسکرائے اور چلتا ہوا اسکے پاس گیا پیچھے سے جھک کے کان کے قریب بولا یہ میرا روم ہے میڈم اور عائشہ شرمندگی سے کمرہ دیکھ کے باہر کو چل دی معیز نے اسکا ہاتھ تھام لیا.. کب تک دور بھاگو گی مجھ سے کیا تم معاف نہیں کرو گی مجھے گھر میں سب کا بھی تو اتنا ہی قصور تھا جب تم انکو معاف کر سکتی ہو تو مجھے بھی کر سکتی ہو اب میں تمہیں الگ رہنے کی اجازت نہیں دوں گا عائشی.. معیز کے لب ولہجے میں شرمندگی ندامت اور پھر محبت گھلتی رہی عائشہ نے اسے رگے جان سے قریب محسوس کیا.. پھر زندگی کے مع و سال پھر سے آنکھوں کے گرد چکرا گئے آہ یہ ظالم میمری عورتوں کی بڑی تیز ہوتی عائشہ نے ہاتھ کھنچا اور چبا چبا کے بولی معیز حیدر میرا رشتہ تم سے تھا نکاح نامے پے دستخط تم کر کے آئے تھے مجبوری میں ہی سہی لیکن میں تمہاری ذمہ داری بن گئی کیا ان دس سالوں میں تمہیں ایک بار بھی بھلے سے میری یاد آئی مجھے تو نکاح کا مطلب بھی نہیں معلوم تھا تو تمہاری صورت کیسے یاد رکھتی لیکن جب معلوم ہوا جانتے ہو ہر آہٹ پے ہر دستک پے میں چونک کے دیکھا ہر آواز ہر پکار میں تمہیں تلاشہ مگر تم ذی ہوش تھے پھر بھی کنی کترا گئے ٹھیک ہے میں تمہیں معاف کر دیتی ہوں اگلے دس سال میری بے اعتنائی سہو پھر حساب برابر ہوگا... بولو ہے ہمت اور معیز کی نظریں زمین میں گڑ گئی سر آپ ہی آپ شرم سے جھک گیا... عائشہ تمسخرانہ ہنس کے باہر نکل گئی....

عشق بھی کیا عجب شے بنائی ہے تو نے مولا
تیرے ہی بندے تیری ہی مسجد میں کسی اور کے لئے روتے ہیں
 
معیز پوری رات سو نا پایا تھا اسنے سوچ لیا وہ دور چلا جائے گا عائشہ سے بہت دور جہاں اسکا سایہ بھی عائشہ پے نہ پڑے....ہیلو ڈینی معیز نے اپنے دوست کو کال کی...
ہاں میری لندن کی ٹیکسٹس بک کروا دو.. نہیں یار بس ایسے ہی ہاں ہاں سب ٹھیک ہے چلو تم کر کے مجھے فون کرنا اللہ حافظ اور معیز نے فون بند کر کے پلٹ کے دیکھا پیچھے حرا تھی.. وہ نظر چرا کے ہٹ جانا چاہتا تھا کہ حرا نے اسے روک لیا.. مت جاو لہجے میں التجا تھی وہ زخمی سہ مسکرا دیا اور اسکے سر پے ہاتھ رکھ کے نہانے چلا گیا واپس آیا جینز پہنے تولئے سے بال رگڑتے تو وہ وہاں کھڑی تھی ہچکیوں سے روتی او مائی گوڈ معیز کو ہنسی آ گئی حرا روتے ہوئے اسکے ساتھ لگ گئی معیز کو اندازہ نہیں تھا وہ اسطرح بے حال ہوگی وہ خود بولا گیا حرا پلیز چپ ہو جاو میں ہمشہ کے لئے تھوڑی جا رہا ہوں حرا پلیز... اور لگا معیز کو جھٹکا دروازے میں ابستا پتھر کا بت بنی عائشہ معیز کو پہلی بار خیال آیا کے اسنے شرٹ نہیں پہنی اور اپنے ساتھ چمٹی حرا معیز کے ہاتھ نیچے گر گئے عائشہ چلی گی اور وہ وہی رہ گیا پھر شدت سے جبھڑے بھنچےحرا کو خود سے دور پھنکا اور سیدھا الماری کے ساتھ جا لگی" معیز "حرا کو صدمہ ہوا ناو گیٹ اوٹ یو ومن اور وہ جن کی طرح غائب ہو گئی معیز کپڑے پہن کے بال بنا کے عائشہ کے کمرے میں آیا ارادہ تھا کے اسے سچ بتا کی اسکی غلط فہمی دور کرے مگر یہ کیا وہ دروزے میں ہی رک گیا اندر سے حرا اور اسکی لڑنے کی آوازیں آ رہی تھی آواز حرا کی تھی.. دیکھ لیا تم نے بڑی آئی شوہر شوہر کرنے والی دیکھ لیا ہمارا تعلق کیسا ہے اب اتنے گہرے رشتے میں تمہاری گنجائش کیاں نکلتی ہے اور ہاں معیز مرد ہے. اسکا دل حسن پے پھسل جاتا ہے ہو سکتا ہے موڈ میں آ کر کبھی اسنے تم پے عنائت کردی ہو مگر اسے مستقبل سمجھ کے سر پے سوار نہ کر لینا... اور یہ آئی عائشہ کی آواز.. تم پھپے کٹنی مر جانی بے غیرت کمینی ویلن کہی کی یہ گھر میرے باپ اور تایا کا ہے ابھی تمہاری چوٹی سے پکڑ کے نکال دوں گی اور ہاں رہی عنائت والی بات تو وہ تمہارے لئے میری طرف سے" سیم ٹو یو" بیویوں کا حق ہوتا ہے وہ اور تم جیسوں پے ٹائم پاس "یو سیکنڈ ہینڈ جوانی " ادھر آ اور معیز نے جھری سے دیکھا حرا کے بال عائشہ کے ہاتھ میں تھے معیز مسکرا کے باہر چل دیا اسے یہ سکون تو تھا اسکی بیوی کو اسکے کردار پے یقعین کرتی ہے...

کہاں جا رہے ہو معیز سوٹ کیس گھسٹتے دیکھ کے دادو نے ہوچھا میں بس یوہی وہ جزبز ہوا اسنے ایک مہنے سے گھر رہنا کم کردیا تھا صرف رات کو آتا تھا جب سب سو جاتے تھے..
فرار ہو رہے ہو دادو کو غصہ آیا اسکی ہٹ درمی پے نن نہیں دادو تو کہی گیا مجھے اس عمر میں چھوڑ کے تو میرا مرا منہ دیکھے گا سب کے اسرار پے وہ رک گیا. مگر وہ عائشہ سے دور رہنے لگ گیا..
معیز تم عائشہ کو آج اسکی دوست کے گھر لے جانا مگر دادو
لیکن ویکن کچھ نہیں معیز بس کہہ سو کہہ دیا اور دو مہنے بعد وہ ایک دوسرے کے روبارو تھے واپس کب لینے آوں معیز نے فکر مندی سے پوچھا ہوں وہ ایک دم چونکی میں نے پوچھا واپس کب لینے آوں معیز نے پھر نرمی سے پوچھا 6 بجے تک وہ آہستہ سے بول کے رخ موڑ گئی....

اور اب 8 بج رہے تھے کوئی لینے نہ آیا معیز کا فون بھی بند تھا اور کسی کا نمبر اسے یاد نہ تھا فون گھر بھول آئی تھی صبا میں رکشے سے چلی جاتی ہوں وہ گھبرا گئی کے سب خیرت ہو سوری یار عائشی ابو گھر نہیں ورنہ وہ چھوڑ آتے تمہیں بھائی تو میرا چھوٹا ہے بائک تک چلا نہیں سکتا.. کوئی بات نہیں وہ افسردہ سہ مسکرائی اور متفکر سے چل دی...معیز نے میٹنگ سے فارغ ہو کے ٹائم دیکھا ساڑھے آٹھ بج رہے تھے اسنے سوچا اب تک تو عائشہ کو برہان بھائی نے پک کر لیا ہوگا.. تو وہ گھر کی طرف چل دیا دادو اسے دیکھتے بولی معیز عائشہ کہاں ہے اور وہ فورا سیدھا ہو گیا کیا مطلب وہ گھر نہیں آئی معیز تم اسے لے کے نہیں آئے اوو شٹ معیز نے فون ملایا تو رینگ کی آواز پے دادو نے کہا معیز فون گھر ہے اسکا... سارا رستہ وہ ریش ڈرئیو کرواتا رہا سارا غصہ ڈرائیور پے نکالتا رہا راستے میں اسے گمان ہوا دو لڑکے کسی لڑکی کو پاش کر رہے ہیں کیوں ہیروئن اس رات کیا چہک رہی تھی پاڑی میں کے تمہارا بیٹا اسکے بیٹا ہوا ہے وہ تو تھا ایک طوطا اب تجھے ہم بتاتے ہیں بیٹے کیسے پیدا ہوتے ہیں چھوڑو مجھے یہ آواز عائشہ کی تھی مجھ پے رحم کرو میں مسلمان ہوں میرا مذہب مجھے حرام کام کی اجازت نہیں دیتا مجھے جانے دو پھر اسکی بات سے دونوں خباثت سے ہنس دئیے معیز نے ایک ہی جست ایک لڑکے کو کھنچا اور دور پھنک دیا وہ لوگ شاید سنسان جگہ سمجھ کے اسے لے آئے تھے عائشہ اپنے سائبان کو دیکھتے اسکے پیچھے چھپ گئی وہ لوگ دو تھے اور معیز ایک ساتھ ایک کمزور لڑکی معیز نے جلدی سے اسے کھنچا اور کا میں جا کے بیٹھ گیا عائشہ اسکے سینے سے لگی اسکا کالر جکڑے خوف سے روتی رہی کار تیزی سے ڈرائیور ڈرائیو کر رہا تھا عاشی چپ ہو جاو دیکھو کچھ نہیں ہوا وہ ڈرائیور کی موجودگی کی وجہ سے آہستہ بول رہا تھا اور سے تسلی بھی نہیں دے پا رہا تھا عائشہ اسکی آواز سنتے ہی اور زور سے اسے چپک گئی اور اسکی شرٹ اتنے زور سے پکڑ لی جیسے اب کبھی نہ چھوڑے گی اسکا جسم ہولے ہولے کانپ رہا تھا معیز نے اسکے گرد اپنے بازوں کا حصار تنگ کیا اور لب اسکے بالوں میں رکھ دئیے آج وہ خوف ذدہ ہو گیا تھا اسے سوچ کے ندامت ہوتی اگر اسکی وجہ سے اسے کچھ ہو جاتا تو.... اور آج وہ جان گیا یہ لاپروا سی جھلی سی لڑکی اسے اسکی سانسوں سے بھی عزیز ہے ..
 
وہ مسلسل ایک عذاب اور خوف میں مبتلا معیز کے گریبان کو پکڑے سینے کو بھگو رہی تھی اسکی حالت کے پیش نظر معیز نے سوچا اسکا عائشہ کو اس حالت میں گھر لے جانا ٹھیک نہیں رہے گا پھر اسے گھر والوں کی پریشانی کا خیال آیا اسنے دادو کو فون کر کے کہہ دیا عائشہ اور میں ڈنر پے جا رہے ہیں آپ سو جائیں ہم لیٹ آئیں گے.. پھر کار کو ایک جوس کارنر کے پاس رکوا کر اسنے ڈرائیور کو اترنے کو کہہ دیا.. تم یہ پیسے لو کچھ کھا لو اور دو جوس لا دو.. ڈرائیور بھاگ کے جوس لے آیا اور خود غائب ہو گیا.. معیز نے ہولے سے اسے پکارہ عائشہ یہ پی لو عائشہ کے وجود میں کوئی جنبشں نہ ہوئی ابھی بھی اسکا جسم کانپ رہا تھا اور وہ ہلکی ہلکی سسکی لے رہی تھی. معیز نے جھک کے زرا خود سے الگ کر کے دیکھا وہ شاید بے ہوش تھی یا سو چکی تھی برحال اسے تشویش ہوئی اور وہ عائشہ کو ہلانے لگا مگر وہ نیم غنودگی میں اللہ معیز اللہ معیز اللہ بولی جا رہی تھی وہ اللہ کے بعد معیز کو اپنا سائبان سمجھتی تھی جو اس قدر شیدت سے اسے پکار رہی تھی..ہر وقت معیز سے لڑنے والی اس وقت دنیا وجہان سے بے خبر معیز کو ہی پکار رہی تھی.. اچانک معیز کی نظر پھسل کے اسکی کمیز پے پڑ ی جو سامنے سے پھٹی تھی معیز نے قرب دکھ سے آنکھیں میچ کے اسے خود میں چھپا لیا دو آنسو موتی بن کے ٹوٹ کے عائشہ کے بالوں میں گم ہو گئے... ڈرائیور نے آ کر پوچھا سر گھر چلنا ہے یا ہسپتال معیز سوچوں سے چونکا اور زرلب بڑبڑایا ہستال کیوں؟؟ سر عائشہ بی بی ٹھیک نہیں لگ رہی نظر چرا کے ڈرائیور نے کہا.. ہاں تو دوسروں کی بیٹیوں کو راہ چلتے چھڑنے والے معیز حیدر یہ وقت بھی آنا تھا کسی کو تمہاری عزت پے بھی ہاتھ ڈالنا تھا دل ہی دل میں معیز نے سوچ لیا یہ اسکی بدنیتی کی سزا اسے دی گئی ہے سر کہاں چلنا ہے ڈرائیور شائید تھک چکا تھا اسکی لمبی خاموشی سے.. پہلے میرے شاپنگ پلازہ چلو جی ڈرائیور کو اسکی دماغی حالت پے شک ہوا جو کہا ہے وہ کرو اس بار سختی سے کہا گیا.. جی وہ گڑبڑایا وہ کار چلا دی... کار رکنے کے بعد ایک اور حکم سختی سے دیا گیا جاو اندر سے کپڑے لے آو وہ اس وقت خاموشی اور بذدلی دکھا کے عائشہ کو رسوا نہیں کر سکتا تھا گارڈ بھاگتا ہوا گیا اور حکم بجا لایا... معیز نے ایک نظر عائشہ کو دیکھا وہ گومگو کی کیفیت میں تھا کیسے عائشہ کو اندر لے کے جائے اسکے کپڑے پھٹ چکے تھے اور گارڈ اور ڈائیور پاس ہی منتظر کھڑے تھے معیز اسکے لائے کپڑوں میں سے چادر نکالی اچھی طرح اسکے گرد لپیٹ دی اندر ویٹنگ روم میں لے جا معیز نے دیکھا اسکے جسم پے نیل جابجا پڑے تھے جیسے کسی نے بہت مارا ہو ہونٹ کا کنارہ پھٹ چکا تھا معیز نے اپنی انگلی کی پور سے اسے چھوا آنکھیں سوجی تھی گہری سانس لے معیز نے اسے سمیٹا.........

ہسپتال لے جانے کے بعد اسے ہلکا ہلکا ہوش آنے لگ گیا تھا ڈاکٹر نے سکون آور انجکشن دے کے معیز کو تسلی دی ان کو کوئی گہرہ صدمہ پہنچا ہے یہ آرام کریں گی تو ٹھیک ہو جائیں گی... اور اب وہ اسکے پاس کرسی رکھ کے بیٹھا تھا ایک ہاتھ پے ڈریپ قطرہ قطرہ اندر جا رہی تھی دوسرا ہاتھ سے عائشہ نے معیز کی آستین جکڑی تھی جیسے اب وہ چھوڑ کے گیا تو وہ جینا بھی چھوڑ دے گی معیز نے جھک اسے سر پے ہاتھ پھیرا تو معیز کے آنسو ٹوٹ کے عائشہ کے رخساروں پے گرے.. آہ کتنا مشکل تھا اسے اس طرح دیکھنا بھلا اسنے کب سوچا تھا کے کبھی اسے ایسی انگاروں بھری رات دیکھنی ہو گی.. صبح ہونے کے قریب وہ اسے گھر لے آیا اور خاموشی سے اسکے کمرے میں نرمی سے لٹا دیا اس پے ۔۔
 
بلینک اٹ اٹرا کے ارادہ تھا کے وہ اپنے کمرے میں چلا جائے تاکہ کسی کو پتا نہ چلے جوہی معیز نے اپنی آستین اس سے چھوڑوائی وہ تڑپ اٹھی اور پھر سے ہچکیوں سے رونے لگی مجھے مت چھوڑو معیز مجھے ڈر لگتا ہے مت جاو" جانے وہ کتنا خوف خود میں سما کے بیٹھی تھی معیز اسکے قریب ہی لیٹ گیا اور ہولے ہولے اسکا سر تھپکنے لگا جیسے اپنے ساتھ ہونے کا احساس دلا رہا ہو جب اسکے سو جانے کا یقین ہو گیا تو جھک کے اسکے ماتھے پے بوسہ دیا اور کان کے قریب جا کے آہستگی سے بولا آئی لو یو فورائیور چاہے کچھ بھی ہو جائے عائشی میں تمہارے ساتھ ہوں پھر اسکی گردن پے جھک گیا اوت کے ہاتھ بڑھا کے لیمپ کی جلتی روشنی بھی گل کردی....

ابھی تک عائشہ نہں اٹھی دادو نے فکرمندی سے گھڑی دیکھی جو پونے نو بجا رہی تھی وہ تو سحر خیز بچی ہے اتنا تو کبھی نہیں سوئی معیز نے کافی کا مگ ٹیبل پے رکھ کے بشاش لہجے میں کہا رات دیر تک جاگتی رہی ہے بلکہ صبح ہی سوئی ہے آپ مت جگائیں خود ہی اٹھ جائے گی دادو نے معیز کی طرف گہری نظروں سے دیکھا وہ انکے اس طرح دیکھنے سے گڑبڑیا اور جلدی سے اٹھ کے بولا رات باتوں میں وقت کا پتہ نہیں چلا میں دیکھتا ہوں اسے معیز منظر عام سے غائب ہونا چاہتا تھا سو جلدی جلدی اندر کی طرف چل دیا دادو اس کے جانے کے بعد صدف (بہو) کی طرف دیکھ کے مسکرائی اور صدف بھی معنی خیز مسکرادی دل ہی دل میں دادی نے اللہ سے اس نئی تبدلی پے شکر ادا کیا وہ مایوس ہو چکی تھی ان دونوں کی لاتعلقی سے... معیز نے کمرے میں داخل ہو کے دروازہ لوک کر دیا اور عائشہ کو دیکھ کے مسکرایا اسکے قریب بیٹھ گیا ابھی بھی زخموں کے نشان اسے منہ پے سے عیاں تھے ایک دم معیز کو تشویش ہوئی کے گھر والوں نے اسکا پھٹا ہونٹ یا کلائیوں میں انگلیوں کے نشان دیکھ لئے تو وی کسی سے ڈرتا نہیں تھا وہ ہر حال میں اسکے ساتھ کھڑے رہنے کے طاقت رکھتا تھا مگر وہ ہمدردی اور سوال بھری نظرون سے اسے بچانا چاہتا تھا وہ نہیں چاہتا تھا کے اب کوئی دکھ اس چھوٹی سی لڑکی کو چھو کے بھی گزرے.. عائشہ معیز نے نرمی سے کندھا ہلا کے اسے اٹھایا عائشہ نے آنکھیں کھولی تو سامنے معیز کو دیکھ کے ہڑبڑا کے اٹھی کل رات کا ہر منظر اسے خواب لگا اٹھنے سے درد کی ایک لہر اسکی کمر میں محسوس ہوئی تو وہ کرائی آرام سے معیز نے اگے بڑھ کے اسے سہارا دے کے اٹھایا.. عائشہ نے اسکے ہاتھ خود پر سے جھٹک دئے معیز نے چونک کے دیکھا وہ اپنے ہاتھوں کلائیوں کو گھور رہی تھی پھر اسکی نظر اپنے کپڑون پے پڑی میرے کیڑے عائشہ نے خود کو چونک کے دیکھا معیز نے جلدی سے اسکے ہونٹوں پے ہاتھ جما دئیے کہ کہں وہ چلانے ہی نہ لگ جائے کچھ نہیں ہوا عائشی بھول جاو کل رات ہو تم کسی سے نہ گھر میں نہ کسی دوست سے ذکر کرنا تم کل بھی میری ذمہ داری تھی آج بھی مجھے اس بات سے کوئی فرق نہں پڑھتا قسمت میں جو جیسا لکھا تھا ویسے ہی ہوتا بہت ضبط کے بوجود معیز کے آنسو بہہ گئے اور عائشہ وہ اسکے شانے سی لگی سسک اٹھی تو گویا وہ سب سچ تھا کوئی بھیانک خواب نہیں کافی دیر رونے کے بعد عائشہ نے سر اٹھایا پھر آہستہ سے بولی مجھے سونا ہے معیز اب تم جاو... معیز نے چونک کے اسے دیکھا جس کی نظریں جھکی تھی جو مقابل کو اپنی نیلی آنکھوں سے پتھر کا بناتی تھی آج وہ اپنی وہی قاتل آنکھیں جھکا کے بات کر رہی تھی دکھ سے معیز نے اسکی آنکھیں چوم کے اسے واپس لٹا دیا اور خود باہر چل دیا.....

دوپہر 12:30 بجے بھی جب وہ کمرے سے باہر نہ آئی تو دادی کے ساتھ سب گھر والے بھی پریشان ہو گئے دادی کی چھٹی ہس کسی خطرے کا آلارم بجا رہی تھی معیز بھی آج کام پے جانے کے بجائے اپنے کمرے میں بند تھا.. دادو نے کمرے داخل ہو کے دیکھا تو وہ جاگ رہی تھی کمرے کے چھت کو گھورتی کسی گہری سوچ میں اسکی حالت دیکھ کے دادو نے دہل کے سینے پے ہاتھ رکھا کیا ہوا عائشہ پتر تو ٹھیک ہے اور یہ ہونٹ پے چوٹ کیسے آئی سوجی آنکھیں بہت زیادہ رونے کی گواہ تھی عائشہ نے آنکھیں گمھا کے دادو کو دیکھا اور آہستی سے بولی رات کو واپسی پے کار سے چھوٹا سہ ایکسیڈنٹ ہو گیا تھا.. ہائے میرے اللہ اور معیز نے مجھے بتایا نہیں دادو نے پیار سے اسکے سر پے ہاتھ پھرا تجھے تو بخار ہے دادو کو نئی فکر لگ گئی.اب میں ٹھیک ہوں عائشہ کے چہرے پے خوبصورت سہ سکون تھا جیسے کسی خوبصورت یاد میں ڈوبی ہوئی آواز ہو گلنار سا ہو کے کہا.. دادو مسکرا کے بولی میں تیرا ناشتہ اور دوائی بھجواتی ہوں اس نالائق کے بھی کان کھنچتی ہوں جو تیرا دیھان نہیں رکھتا ہر وقت ہوا کے گھوڑے پے سوار کار چلاتا ہے عائشہ نے ایک دم دادو کا ہاتھ پکڑ لیا اسکا کوئی قصور نہیں دادو میری غلطی تھی اسے کچھ مت کہیں دادو اسکے اسطرح معیز کے حق میں بولنے سے نہال ہو گئی اور سر ہلا کے پلٹ گئی...

پھر پورا دن وہ منتظر رہی مگر معیز نہ آیا.. بار بار ہر آہٹ ہے وہ دروازے کی سمت دیکھتی اسنے سوچ لیا معیز کو اسکے وجود سے کہراہیت آتی ہو گی تبھی نہیں آیا رات اسنے شہزادی کو اپنے پاس سلا لیا کے ڈر لگتا ہے.. معیز رات میں سب کے سو جانے کے بعد نیچے اترتے بائیں طرف والے کمروں کی طرف چل دیا ہلکی سی چرچراہٹ کے ساتھ دروازہ کھولا سامنے صوفے پے شہزادی صاحبہ سوئی تھی اور بستر پے سمٹ کے اسکی دشمن جان. وہ آہستہ سے چلتا صوفے کے قریب گیا اور منہ میں بڑبڑایا کباب میں ہڈی پھر اسے اٹھایا شہزادی نے معیز کو دیکھا اور ڈر کے اٹھی جی صاحب کوئی کام تھا بی بی سوئی تھی تو میں بھی سو گئی ڈر کے سونے کے وضاحت دی چلو نکلو یہاں سے یہ میری بیوی کا کمرہ ہے معیز کو اسکی لمبی گفتگو پے غصہ آیا صاحب مجھے بےبے نے کہا ہے یہاں سونے کو وہ ہٹ دھرمی سے بولی معیز نے اسے باہر دھکیل کے دروازہ لوک کر دیا اوہ حق بقا رہ گئی پھر بولی ابھی بےبے کو بتاتی ہوں صبح پھر مجھے ڈانٹیں گی..
معیز نے اندر آ کے اسے گھورا اسکے پاس نیم دراز ہو کے کہنی کے بل لیٹ کے اس پے جھک گیا عائشہ خود پے کسی کا دباو محوس کر کے اٹھی تو نیم واہ آنکھوں سے معیز کو اتنے قریب دیکھ کے اسے خود سے دور کر کے بدک کے اٹھی معیز نے ہاتھ بڑھا کے اسے اپنے پاس کر لیا.. کیا ہوا معیز نےفکرمندی سے پوچھا پھر لائٹ اون کر کے کہا جناب میں ہوں وہ ہنس کے اسکا خوف ذائل کرنا چاہتا تھا مگر وہاں شیدید غصہ تھا حیا نہیں احتجاج تھا محبت کو ہوس کی نظروں سے دیکھ رہی تھی وہ معیز کو اسکی آنکھوں میں موجود سوال دیکھ کے بہت دکھ ہوا..تم چلے جاو یہاں سے عائشہ نے منہ موڑ لیا... کیوں چلا جاو ابھی اٹھا کے اپنے بیڈروم میں لے گیا تو کسی کی ہمت نہیں مجھ سے سوال کرنے کی ..... مائینڈ یو معیز میں کوئی چیز نہیں ناو گٹ لوسٹ اسکی حالت کے پیش نظر وہ خاموشی سے چلا گیا.... اور دوسری طرف شہزادی نے دادی کو اٹھا کے معیز کی حرکت بتائی دادی نے پہلے تو آرام سے سنی بعد میں تحمل سے بولی دور فٹے منہ تمہارا شہزادی وہ اسکا گھر والا ہے دونوں ناراض تھے اب مان گئے ہیں تو تمہیں کیا اعتراض ہے شہزادی نے زور زور سمجھداری سے سر ہلایا اور مڑنے لگی تھی کے دادی نے روک دیا اب تم پھر کہاں مرنے جا رہی ہو چلو میری نیند تباہ کردی اب پیر دباو شاید آنکھ ہی لگ جائے اور شہزادی اپنا سہ منہ لے کے پیر دبانے لگ گئی...

پھر ایسا ہوا کے اسنے سارے پرندے اڑا دئیے بلی کو بھی کہیں چھوڑ آئی اونگی بونگی ریسپی بنانی بھی بند ہو گئی معیز کو زچ کرنا تو دور نظر اٹھا کے اسے دیکھنا بھی چھوڑ دیا یونیورسٹی بھی چھوڑ دی سارا سارا دن وہ گہری سوچوں میں رہتی سجدے تویل ہو گئے... معیز اسے سنبھلنے کا موقع دینا چاہتا تھا مگر وہ کیا جانے اسکی خاموشی کو عائشہ نے کیا رنگ دے دیا ہے اور گھر والے الگ پریشان ان کی اچانک دوستی اور لمبی خاموشی سب کی سمجھ سے باہر تھی پھر بےبے نے اعلان کردیا اگلے مہینے ہم معیز اور عائشہ کا ولیمہ کریں گے گھر بھر میں خوشی کی لہر دوڑ گئی اور عائشہ نے معیز سے جا کہ کہہ دیا وہ یہ شادی نہیں کرنا چاہتی اسکی منطق سن کے وہ ششد رہ گیا..
.............................
............................ 
............................  

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے