دیوانی لڑکی کی شادی ۔ تیسرا حصہ

 

دیوانی لڑکی کی شادی ۔ دوسرا حصہ

معیز نے عائشہ کی بات سن کے صرف اتنا کہا مگر اب تم لیٹ ہو کیونکہ یہ شادی تو ہو کے رہے گی بلکہ ہو چکی صرف ایک زرا سہ ولیمہ باقی اور اس رات... معیز عائشہ نے اسکی بات کاٹ دی مجھے اس #رات کے طعنے مت دینا معیز خاموش ہو گیا وہ اسے غلط سمجھ رہی وہ بھلا اسے طعنہ کیوں دے گا وہ اسکی عزت تھی بھلا کوئی اپنی عزت بھی سر بازار اچھالتا ہے... عائشہ وہ نرمی سے بولا تم میرے ساتھ رہنا نہیں چاہتی کیا تمہیں مجھ سے ابھی تک محبت نہیں ہوئی وہ اقرار مانگ رہا تھا عائشہ نے نجانے کیوں #نظریں جھکا لی اور مری ہوئی آواز عائشہ کو خود کسی کھائی سے آتی محسوس ہوئی مجھے ڈائیوس چاہیئے... وہ اسکی اس قدر پتھر دلی پے ششد تھا اب جب وہ اپنا بھی چکا تھا اسے اپنا محبت بھرے لمس کا ذائقہ چکھا چکا تھا تو وہ یہ کیا کہہ گئی تھی...

معیز تم عائشہ کو شاپنگ کروا دینا وہ ساتھ جائے گی.. معیز نے چونک کے دیکھا کہاں جائے گی دادو کو محسوس ہوا اسکا ٹی وی سے زیادہ کہی اور ہے کیا بات ہے معیز دادو نے سوال کیا ناتھنگ آپ کیا کہہ رہی تھی تمہارے دوست کی شادی ہے کارڈ مسٹر اپنڈ مسز معیز کے نام کا ہے اسے بھی لے کے جاو اس بار دادو نے حکم دیا.. گاوں میں ہے شادی انئیس کی ساری فیملی وہاں کی ہے وہ کیا کرے گی جا کے..وہ تو دیکھنا پسند نہیں کرتی تھی کجا کہ اتنے دن ساتھ رہنا وہ اگر بتا دیتا وہ کیا چاہتی ہے تو گھر میں طوفان آ جاتا... آپ اس سے کہہ دینا میں لے جاو گا وہ گیند ان کے کوٹ میں پھنک کے بری ہو گیا..... دادو کے کہنے پے تو وہ خاموش رہی کار میں معیز سے لڑ پڑی تم منع کردیتے مجھے نہیں جانا کہی تم جانتے ہو معیز نے صرف اتنا کہا وہ بھی سختی سے آٹھ سال بڑا ہوں تم سے یہ تو تیرا کر کے بات مت کیا کرو آج تک اس نے معیز کی شرارتیں محبت احساس یہ دیکھا تھا ڈانٹ سن کے وہ چپ ہو گئی باقی کا رستہ خاموشی سے کٹا....

انتی دیر لگا دی آنے میں تجھے ہفتہ پہلے کا کہا تھا انئیس نے ملتے گلا کیا معیز مسمرائز سہ مسکرا کے شرارت سے بولا تمہاری بھابھی نے دیر لگا دی اور پھر عائشہ کے تاثرات دیکھ کے دونوں ہاتھ پے ہاتھ مار کے ہنس دئیے... عائشہ خجل سی ہو گئی اور دماغ میں باور کروایا خود کے عائشہ آ تو گئی ہو اب منہ سیدھا رکھو لوگ معیز کے بارے میں باتیں بنائیں گے.. لگتا ہے بھابھی تھک گئی ہیں آو میں کمرہ دکھاتا ہوں لمبا سہ دبلا سہ انئیس آنکھ مارتے ہوئے چل دیا معیز اسکا مطلب پا کے مسکرا دیا سب سے مل کے وہ بھی کمرے میں آیا تو وہ لیٹی سے اٹھ بیٹھی تم میرا مطلب آپ یہاں وہ زرا تمیز کے دائرے میں بولی معیز کے غصے کا کیا پتہ یہاں مہمانوں سے بھرے گھر میں ڈانٹ دے یہاں تو بےبے بھی نہیں تھی جو آجکل بات بات پے معیزکے ڈانٹنے کے بعد اسے دلاسہ دیتی...
 
میں اور کہاں رہوں میاں بیوی کو ایک کمرہ ہی دیں گے نا وہ لوگ یا انکو بھی جا کے تمہاری فضول زد بتا دوں وہ دانت پیس کے بولا نن نہیں لیکن اسکے بولنے سے پہلے معیز دوسری طرف لیٹ کے کروٹ بدل گیا اور وہ بھی کچھ دیر بعد اسکے سو جانے کا یعقین ہونے کے بعد سو گئی.. 
 
عائشہ تیار نہیں ہونا بال بناتے معیز نے ایک بار پھر آواز دی مندی مندی آنکھوں سے دیکھا وہ نا صرف جاگ چکا تھا بلکہ تیار بھی تھا سفید کلف دار شلوار سوٹ گلے میں براون چنری نما ڈوپٹہ مفرل بنا کے لوپٹا تھا لیدر کی جیکٹ پہنے اسکی وجاہت نمایا تھی.. ایسے چھپ چھپ کے چوروں کی طرح کیوں دیکھ رہی ہو ابھی تو تمہارا میرا نکاح سلامت لو کھل کے دیکھو وہ اس کے قریب آ کے شرارت سے جھک گیا اور عائشہ بوکھلا کے نکل گئی. اپنا سوٹ نکال کے واشروم میں گھس گئی اور وہ ٹھنڈی آہ بھر کے باہر چلا گیا..یار انئیس تم لوگ انجوائے کرو عائشہ ابھی تیار نہیں ہوئی وہ مجھے ڈھونڈھے گی سارے دوست معنی خیز ہنس کے اوو کرتے چلے گئے معیز کیا بتاتا اب کچھ ایسا ہے ہی نہیں تو بس اسکی بیوی صرف اسکے اگے شیرنی بنتی تھی اندر سے چوہیا تھی... سارا گھر تقریبا خالی ہو چکا تھا وہ کافی دیر بعد تیار ہو کے آئی تو معیز اسے دیکھتے مبہوت رہ گیا لمبی ہلکے لیمن رنگ کی کلیوں والی فراک جالی دار ڈوپٹہ نیلی آنکھیں میک اپ سے سجی تھی ہونٹوں پے ہلکی گلابی لپ سٹک سجی سلکی بال شانوں پے بکھرے کیا کوئی اتنا بھی خوبصورت لگ سکتا ہے وہ حیران تھا کے اچانک چکر آنے سے وہ لہرا گئی قبل اس کے وہ گرتی معیز نے اسے سنبھال لیا دو منٹ تک طبعیت سنبھل جانے پے معیز نے پوچھا تم ٹھیک ہو تو وہ اثبات میں سر ہلا کے سیدھی ہو گئی گلابی چہرہ زرد ہو رہا تھا مگر پھر بھی اسکے چہرے کے دلکشی آج کل عجیب حسن خیز تھی جیسے کوئی چاندنی گھل گئی ہو معیز نے سوچا اسے اس کی ہی نظر لگ گئی ہے پھر نظر چرا کے پوچھنے لگا صبح بھی راستے میں تم ومٹ کر رہی تھی شام میں چائے پیتے بھی تم نے ومٹ کی تھی اب چکر آئے ہیں مجھے تم ٹھیک نہیں لگتی چلو ڈاکٹر کے پاس.. میں ٹھیک ہوں بس شائد سفر کی وجہ سے ہوا لمبا سفر تھا نہ علاقہ بھی ٹھنڈا ہے میں کبھی پہاڑی علاقے میں نہیں گئی بلکہ لاہور سے باہر ہی پہلی بار آئی ہوں وہ معصومیت سے بولی معیز نے محبت سے اسے دیکھا اور فکر مندی سے بولا پھر تو لازمی ڈاکٹر کے پاس چلنا چاہئے اگر کچھ ہو گیا تو تمہاری بےبے میری پھینٹی لگا دیں گی ... وہ ہنس دی اسکی ایکٹنگ پے پھر سنجیدگی سے بولی ابھی تو ہال میں جانا ہے مہندی کا وقت ہے... یہاں مہندی شادی سب تمہارے بنا ہو سکتا ہے مگر میری زندگی میں تمہارے بنا کچھ نہیں ہو سکتا اور وہ کیا کہتی چپ ہی رہی اور چل دی چھوٹا سا کلینک تھا وہ بھی مشکل سے ڈھونڈہ تو بند ہو رہا تھا آیا کہ یہاں سب جلدی سوتے ہیں اور کسی ایمرجنسی کی وجہ سے ابھی تک کھلا ورنہ مغرب میں ہی بند ہو جاتا ہے چیک اپ کے بعد لیڈی ڈاکٹر نے پوچھا اندر آپ کی میسز ہیں معیز نے مسکرا کے جی کہہ دیا اور میسج ٹائپ کرنے لگا جو انئیس کو اطلاع دے رہا تھا.. مبارک ہو آپکی مسز امید سے ہیں اور معیز کا میسج لکھتا ہاتھ رک گیا غائب دماغی سے ڈاکٹر کو دیکھنے لگ گیا ڈاکٹر مسکرا کے دوا لکھنے لگ گئی اور بولی اکثر جب پہلا بچہ ہو تو ینگ پیرنٹس ایسے ہی بے یعقینی سے مجھے دیکھتے ہیں آپ تو یہاں کے نہیں لگتے.. بس ایک لفظ میں جواب دیا جی اور مبائل جیب میں رکھ کے اپنی گھنی مونچھوں پے ہاتھ پھرنے لگا پھر سر پے پھر گہری سانس لے کہ منہ پے یہ کچھ میڈسن ہے آپ لے لیں باقی یہ ٹھیک ہیں بس تھوڑی ویک ہیں اندر آتی عائشہ نے بس آخری جملہ سنا معیز تھنک یو بول کے نسخہ پکڑ کے اٹھ گیا عائشہ کا ہاتھ پکڑ کے اسے کار تک لایا فرنٹ ڈور کھول کے بولا تم بیٹھو میں یہ لے آوں... عائشہ نے نقاہت سے آنکھیں موند لی... چلو بھئ یہ جوس پیو اور یہ ابھی کھاو وہ فرش سہ آ کے اسکے پاس بیٹھ گیا.. ابھی وہ سوچ میں پڑ گئی ہاں ابھی اور تم کسی فنکشن میں بھی نہیں جا رہی ابھی تم آرام کرو گی کل کا فنکشن دیکھ لینا... لیکن میں بہت مشکل سے تیار ہوئی تھی عائشہ کو افسوس ہوا تو میں نے دیکھ لیا کافی نہیں تمہارے لئے وہ شرارت سے بولا یا کوئی اور بھی ہے اسکی بات سے عائشہ نے ناراضگی سے رخ موڑ لیا.... ہاہاہاہا سوری یار مزاخ کر رہا تھا یہ لو یہ پیو... وہ پیار سے اسے منانے لگا.. پھر سست روئی سے کار ڈرائیو کرتا گھر تک لایا.. اور آرام کرنے کو کہہ دیا پر مجھے تو نیند نہیں آئی وہ مصومیت سے بولی پھر میں رک جاوں تمہارے پاس وہ شوخ ہوا.. نن نہیں آپ جائیں میں ٹی وی دیکھ لو گی وہ گھبرا گئی تمہیں ڈر تو نہیں لگے گا وہ تسلی چاہتا تھا... نہیں وہ سر جھکا گئی... معیز نے جھک کے اسکی پشانی پے محبت کی مہر ثبت کی اور اسے دل میں اتارتا چل دیا....در حقیقت وہ بہت خوش تھا مگر کون جانے عائشہ کا وہ خبر سن کے کیا ردے عمل ہوتا... رات کو جب وہ لوٹا تو دوائیوں کے زرے اثر سو رہی ابھی تک انہیں کپڑوں میں تھی معیز چینج کر کے اسے قریب نیم دراز ہو کے اسکا ماتھا چھو کے دیکھنے لگ گیا پھر میک سے بھری آنکھیں کتنی پرسکون تھی.. وہ دھرے دھرے اسکے بالوں میں ہاتھ سرکاتا گیا جب لاکھ کوشش کے باوجود وہ خود کو روک نہیں پایا تو بے ساختہ اس پے جھک گیا وہ ڈر کے اٹھ گئی تو معیز کو اتنے قریب دیکھ کے احتجاج کرنے لگی لیکن آج وہ اسکی سننے کے موڈ میں نہیں تھا اسکے سارے احتجاج دھرے دھرے ختم ہو گئے.. اور سیاہ رات پے چاند چھپکے سے شرما گیا.....

آپ کو میرے ساتھ ایسا نہیں کرنا چاہئے تھا صبح ہوتے وہ جراع پے اتر آئی وہ آرام سے فرش سا ٹاول سے بال رگڑتا مڑ کے معصومیت سے پوچھنے لگا کیسا... عائشہ جی جان سے جل گئی اور حیا سے سرخ ہو گئی گھنی پلکیں سجدہ ریز ہو گئی وہ دلکشی سے اسکے چہرے پے یہ سب رنگ دیکھتا اسے گلے لگا کے بولا کیا غلط کیا ہے میں نے اور بس عائشہ پھک پھک رونے لگ گئی ارے وہ بوکھلا گیا عاشی کیا ہوا یار... عاشی وہ چپ نہیں کروا پا رہا تھا... تو وہ ہچکتے ہوئے بولی میں آپ کے قابل نہیں ہوں معیز مجھے آپکے ساتھ نہیں رہنا معیز جانتا تھا کہیں کچھ غلط ہے اور کچھ کچھ اسکی سمجھ میں آ چکا تھا مگر وہ کیسے پوچھتا عائشہ سے ہر بار وہ یہ سوچ کے خاموش ہو جاتا کے اسے معیز کے سوالوں یا اسکی ذات سے اب کوئی دکھ نہ پہنچے... کیوں قابل نہیں ہو وہ تھوڑی سے پکڑ کے اسکا سر اونچا کر کے بولا آج وہ سچ سننا چاہتا ہے پوری ہمت کے ساتھ... وہ نظر جھکا گئی اور اپنی ازلی زد سے بولی مجھے آپ کے ساتھ نہیں رہنا معیز نے چند لمہے اسے گھورا جس کا عائشہ کو کوئی اثر نہیں ہوا پھر اسکا ہاتھ اپنے سر پے رکھ کے بولا یہی بات اب کہو کے تم میرے ساتھ نہیں رہنا چاہتی اور مجھ سے محبت بھی نہیں کرتی... عائشہ نے قرب سے آنکھیں موند لی اور آنسو ابشار بن کے بہنے لگے... معیز اسکا ہاتھ پکڑ کے بستر پر بٹھایا اور خود کرسی رکھ کے سامنے بیٹھ گیا اب بولو جو بات تمہیں مجھ سے دور کرتی عائشہ سر جھکا گئی میں آپکے قابل نہیں آپ جان چکے ہوں گے معیز نے اسکا ہاتھ پکڑ لیا اور بولا یہی تو میں جاننا چاہتا تھا عاشی وہ سب کب اور کیسے ہوا کیونکہ اس رات میں تمہیں محفوظ لے آیا تھا پھر وہ..... بات ادھوری مطلب پورا... جب میں دس سال کی تھی اعطراف جرم کے انداز میں بولا گیا جس دن ابو کا اکسیڈنٹ ہوا تھا... تو چاچو کا اکیسیڈنٹ کا اس سے کوئی تعلق تھا وہ پوچھ رہا تھا وہ اثبات میں سر ہلا کے رونے لگ گئی معیز اٹھ کے اسکے پاس ٹک گیا اور اسکو اپنے ساتھ لگا کے پوچھا اس لئے چاچو نے تمہارا نکاح مجھ سے کروایا تھا ہر بات کا جوان ہاں میں تھا.. ابو کو پتا ہے یہ سب.. ہاں اور معیز ششد تھا کے اسکے باپ نے اتنی بڑی حقیقت چھپا کے اسکا نکاح کروا دیا.... کس نے کیا یہ سب آخری سوال تھا جواب مشکل تھا میری دوست کے پاپا نے میں وہاں پڑھنے جاتی تھی... معیز چپ ہو گیا جبڑے سختی سے بھنچ لئے رگیں تن سی گئی اور عائشہ خوف میں تھی کے اسکا پردہ چاک ہو گیا اب محبت کی دیوار بھی ٹوٹ جائے گی مگر یہ کیا وہ خود کو نارمل کر چکا تھا اسکے سر پے ہاتھ رکھ کے تھپکنے لگا...آہستگی سے اسے خود سے الگ کیا اور شرٹ پہن کے بال بنانے لگا عائشہ نے ڈرتے ڈرتے سر اٹھایا مگر یہ کیا وہ تو ایسا جیسے کچھ ہوا ہی نہیں... ارے ایسے کیا دیکھ رہی ہو باہر نہیں جانا کیا اٹھو کم ان تیار ہو پھر ناشتہ کر کے میڈسن بھی لینی ہے.. عائشہ نے پوچھا معیز اب آپ مجھے چھوڑ دیں گے نا معیز سنجیدہ ہو گیا پھر پوچھنے لگا کیوں چھوڑوں گا میں تمہیں عاشی جس بات میں تمہارا قصور نہیں اسکی سزا تمہیں کیون دوں... مگر آپ کو اندھیرے میں رکھ کے یہ سب ہوا ہے زیاتی ہے یہ وہ رو دی ... اللہ ایک تو میری بیوی روتی بہت ہے وہ مسکراتے ہوئے گھٹنوں کے بل بیٹھ گیا اور اسکا ہاتھ تھام کے بولا میرے لئے یہ سچ کڑوا ضرور ہے مگر نیا نہیں ہے عائشہ نے چونک کے اسے دیکھا اور یہ فیصلہ میرے بابا نے کیا وہ سب جانتے بوجھتے تمہیں میری لائف میں لائے تو میں کون ہوتا ہوں اعتراض کروں والدین کبھی بھی اپنے بچوں کے لئے غلط نہیں سوچتے وہ مسکرایا اور اسکی چھوٹی سی سرخ ناک دبائی... چلو ابھی تم ناسمجھ ہو جب خود پیرنٹس بنو گی تب سمجھو گی وہ شرارت سے معنی خیز گویا ہوا ..... اور عائشہ شرما دی اور کسی نے نہایت بتمیزی سے دروازہ پیٹ ڈالا..
 
دروازہ پیٹنے کی آواز پے عائشہ ہواس باختہ ہو گئی.. معیز نے اسکا ہاتھ دبایا میں دیکھتا ہوں دروازہ کھولنے پے انئیس کسی جن کی طرح اندر حاضر ہوا اور خونخوار نظروں سے معیز کو گھورنے لگا یہ لڑاکا عورتوں کی طرح کمر پے ہاتھ جما کے کیوں گھور رہے ہو.. انئیس نے دانت پیسے تم یہاں میری شادی میں آئے ہو یا اپنے ہنی مون پے جو کل سے بھابھی کے پلو سے لگے ہو.. ناٹ بیڈ ائیڈیا معیز نے ایک دھپ اسکی کمر پے رسید کرتے کہا اور عائشہ جھنپ گئی انکی باتیں سن کے انئیس نے لال گلابی ہوتی عائشہ سے طبعیت پوچھی اور انکو لے کے باہر گیا...

رات میں عائشہ نے شفون کی مہرون ساڑھی نکالی جس پے باٹر گرین باڈرز پےکام تھا اور کہی کہی ہلکی ستاری تھی سلیو لیس پیٹی کوٹ والی ساڑھی لہمے کے ہزاروں زاویے پے اسے اپنی غلطی کا احساس ہوا معیز تو مجھے مار دیں گے کاش ایک بار دیکھ ہی لیتی بےبے نے کیا کیا رکھا ہے.. یہ ساڑھی لے کے تو معیز نے ہی دی تھی اور یہ بھی کہا تھا اسے صرف گھر میں پہننا اب وہ گومگو کی کیفیت میں تھی دوسرا ڈریس نکالا تو گرے اور پرپل امتزاج کی فراک تھی جو کہ اپنی جگی بہت نفیس اور خوبصورت تھی مگر برات کے دن یہ پہن لوں ... کوئی بات نہیں عائشہ ضروری نہیں تم دلہنوں والا لباس ہی پہنو یہ پہن لیتی ہوں اور کل کے لئے معیز کے ساتھ جا کے کچھ لے آوں گی اس نے خود کو ریلکس کیا وہ دونوں ڈریس پھلا کے کھڑی تھی جب پیچھے سے معیز نے آ کے اسکے شانے پے تھوڑی جما دی کیا دیکھا جا رہا ہے.. دو دونوں ہاتھ اسکے پیٹ پے کے گرد باندھتے پوچھ رہاتھا عائشہ نے ڈر کے فورا ساڑھی گول گول باندھ دی میں یہ پہننے لگی ہوں وہ فراک کی طرف اشارہ کر کے بولی معیز نے اسکے ہاتھ سے ساڑھی کا گچھا لیا یہ کیا ہے بھئ وہ دلچسپی سے پوچھ رہا تھا... کچھ نہیں وہ بےبے نے غلطی سے یہ رکھ دی ہے ایم سوری معیز میں نہیں پہن رہی یہ اسکی نیلی آنکھیں پانی بھرنے سے کانچ سی چمک اٹھی.. تم ڈرتی ہو مجھ سے وہ حیران ہونے کی ایکٹنگ کرنے لگا. عائشہ نے سر جھکا دیا اچھا مجھے تو یہ ساڑھی پسند ہے تم یہی پہن لو عائشہ نے حیرت سے سر اٹھایا معیز اثبات میں سر ہلا کے مسکرایا.. او بیوی مکس گیدرنگ نہیں ہے ویسے بھی یہ گاوں ہے یہاں مکس گیدرنگ ممنوع ہے.. پھر ٹھنڈ بھی تو ہے تم اسکے اوپر سے شال بھی تو لو گی وہ آہستہ آہستہ اسے سمجھا رہا تھا عائشہ کی آنکھوں میں رکے کب کے آنسو چھلک گئے اور اکسائٹنگ سے بولی آپ کتنے اچھے ہیں معیز میں ایسے ہی آپ کو تنگ کرتی رہی یہاں پاس آ کے بتانا کتنا اچھا ہوں وہ شرارت پے امادہ ہوا.. جی نہیں مجھے تیار ہونا کل بھی اکیلے چلے گئے تھے وہ کپڑے لے کے کھلکھلاتی واشروم گھس گئی...

تقریب بہت شاندار رہی اور پوری تقریب میں وہ انئیس کی بہنوں کے ساتھ رہی.. رات سونے سے پہلے وہ آئینے کے اگے کھڑی مسکرا رہی تھی اسکے ہونٹوں پے بڑی پیاری مسکراہٹ تھی معیز نے بستر پے لیٹے یہ نوٹ کیا آج وہ ضرورت سے زیادہ خوش ہے.... وہ ہاتھوں سے انگوٹھی اتارنے کے بعد چوڑیاں اتار رہی تھی کے معیز نے پکار لیا کیا بات ہے بڑا مسکرا رہی ہو.. تو وہ چوڑیاں چھوڑ کے اکسائٹنگ ہو کے بتانے لگی معیز آپکو پتا ہے اور پھر وہ آج کی ہر اچھی بات بتانے لگ گئی کیا کیا ہوا سب رسمیں جو اسنے کبھی نہیں دیکھی تھی.. پھر بات کرتے اسکا ہاتھ دوبارہ چوڑیوں کی طرف گیا جب دوسرے ہاتھ سے وہ اتارنے لگی تو معیز نے ٹوک دیا عائشہ ابھی کچھ مت اتارو وہ خاموش ہو کے حیرت سے دیکھنے لگ گئی پھر بےیعقینی سے پوچھنے لگ گئی آپ نے میری کوئی بات نہیں سنی نا.. ارے یہاں آو میں سب سنا وہ ایک بازو پھلا کے بولا میں چینج کر کے آتی ہوں.. ابھی چینج نہیں کرنا یہاں آو پہلے اب کی بار زرا سختی سے کہا.. وہ جھجکتے اسے پاس کھڑی ہو گئی... شرم تو نہیں آتی کب سے بلا رہا ہوں اور اب آئی ہو تو کھڑی ہو...
 
معیز نے روٹھنے کی ایکٹنگ شروع کردی عائشہ جلدی سے اسکے پاس بیٹھی تو معیز نے اسکی کمر میں ہاتھ ڈال کے اپنے قریب کر لیا جی اب بولیں کیا کہہ رہی تھی وہ تھوڑی پکڑ کے اسکا سر اونچا کرکے بولا.. عائشہ بھول گئی کہ وہ اسکے کس قدر قریب ہے اور پھر نان سٹاپ شروع ہو گئی معیز اسکی چوڑیاں جھمکے سب آہستہ آہستہ اتار رہا تھا اور عائشہ اکیلی بول رہی تھی اسکے بازو پے سر رکھے وہ سب بتا رہی تھی جو اس نے دیکھا معیز کا ہاتھ اسکی ساڑھی کی پینں کھول رہا تھا تو عائشہ ایک دم خاموش ہو گئی تب اسے احساس ہوا وہ اکیلی بول رہی ہے اور وہ ہوں ہاں بھی نہیں کر رہا.."مع عیز" عائشہ نے پکارا شششی معیز نے اسے خاموش کروا دیا....

ولیمے کے اگلے دن عائشہ کو بخار ہو گیا... معیز متفکر تھا انئیس کی بہن بار بار ٹھنڈی پٹیاں رکھتی معیز نے کہا میرا تمہیں گھمانے پھرانے کا پلئین تھا تم اب لیٹی رہو گی کیا.. اور ایک دم سے اٹھ کے بیٹھ گئی اور بولی میں ساری وادیاں دیکھنا چاہتی ہوں اب میں ٹھیک ہوں اور اسکی اس حرکت پے سب ہنس دئیے...
شام میں باہر چہل قدمی کرتے انئیس نے پوچھا معیز تم خوش ہو بھابھی کے ساتھ آئی مین تم تو کہتے تھے تم......
. اس نے جان بوجھ کے جملہ ادھورا چھوڑ دیا معیز افسردہ سہ مسکریا انئیس نے محسوس کیا اسکی اس مسکراہٹ میں کوئی درد چھپا ہے.. پتہ ہے انئیس میں غلط تھا جو رشتہ اللہ نے بنا دیا اس کو جھٹلا رہا تھا سراب کے پیچھے بھاگ رہا تھا اور میں حقیر سہ بندہ ہوں اگر اللہ نے مجھے اس ازمائش کے لئے چنا ہے تو ضرور اس ذات نے میرے لئے انعام بھی بڑا رکھا ہوگا...
 
معیز کیا بات ہے کیسی ازمائش معیز خاموش ہو گیا اسے عائشہ کا پردہ رکھنا تھا وہ قلق صرف اسے پینا تھا... انئیس نے اسکے شانے پے ہاتھ رکھا اور بولا اندر چلیں معیز نے اثبات میں سر ہلا دیا.. اور کھڑکی بند کرتی عائشہ نے سوچا ہر کوئی معیز نہیں ہوتا معیز بننا اتنا آسان نہیں ہوتا اگر جو ہر مرد معیز کی طرح سوچنے لگ جائے تو حوا کی بیٹی رسوا ہی کیوں ہو.. آدم کی بیٹی کی عزت پاش پاش کیوں ہو... لیکن کون ہو ایسا مردوں کو تو صرف مردانگی دیکھانی آتی ہے اور جس طرح وہ دیکھاتے ہیں اس سے صرف وہ یہ ثابت کرتے ہیں کہ وہ حیوانوں سے بھی بتر ہیں اور کسی کی بیٹی کی عزت خراب کرتے وقت یہ مرد کیوں بھول جاتے ہیں انکا قرض اسکی ماں بہن بیٹی یا بیوی میں سے کسی کو چکانا ہوگا کیونکہ یہ دنیا مقعفاتے عمل ہے.. جو بوو گئے وہی کاٹ بھی جاو گے..

پھر وہ لوگ ایک ہفتہ مزید رہ کے چلے گئے اس دوران عائشہ کی طبعیب کبھی سنبھلتی اور کبھی بگڑتی رہی....
یہ پاپیتا کون لایا ہے عائشہ نے فریج میں جھانکتے پوچھا... شہزادی نے منہ بسورا معیز بھائی لائے ہیں بےبے کے لئے اسے تو میں کھاوں گی یہ میرے نام کا ہے وہ پاپیتا لے کے میز پے بیٹھ کے کاٹنے لگی معیز بھائی نے منع کیا ہے آپکو نہیں دینا آپ کی طبعیت خراب ہے.. عائشہ نے ناک سے مکھی اڑائی ان کو بتائے گا کون اور یہ تو مجھے بہت پسند ہے وہ ہونٹوں پے زبان پھرتے بولی ابھی ایک باول میں کاٹا ہی تھا کے بےبے آ گئی لے پتر مجھے بھی کاٹ دے صبح بھی شہزادی کو بولا تھا مگر یہ کام کرتی ہی کب ہے دادی نے مسکین بن کے کہا شہزادی دانت کچکچا کے رخ موڑ دی.. عائشہ نے اپنا کاٹا باول بےبے کو دے دیا آپ یہ لیں میں اور کاٹتی ہوں ابھی وہ کاٹ ہی رہی تھی کہ باہر سے گزرتے معیز کی نظر عائشہ کے منہ میں جاتے ہاتھ پے پڑی وہ دوڑتا اس تک پہنچا اور ہاتھ جھٹک دیا سامنے پڑا پیالہ بھی زمین بوس ہوگیا اور وہ شہزادی کو ڈانٹنے لگ گیا تمہیں کہا تھا نا کہ اسے یہ مت دینا... کیوں عائشہ لڑنے پے اتر آئی معیز جزبز ہوا اب اسے کیا بتاتا کے وہ مدر کئیر کی کتاب پڑھ کے یہ کہہ رہا ہے.. عائشہ نے کوئی جواب نا پا کے باقی آدھا پاپیتا پکڑا اور معیز کے اگئے پھنک کے ناراض ہو کے چلی گئی معیز نے گہرا سانس لیا وہ جانتا تھس اب وہ دو دن ایسے ہی رہے گی پھر دادی کی مشکوک گھورتی نظریں پے ایک اچٹتی نظر دیکھ کے باہر آ گیا...
 
وہ بےبے کے ساتھ ڈاکٹر کے پاس چلی گئی اور ڈاکٹر نے جو نیوز دی اس سے سارا گھر خوش تھا ایک بس وہی ساکت تھی بھلا یہ کیسے ہو سکتا تھا ڈاکٹر نے کہا آپ ٹو منتھ پرگننٹ ہیں اور یہ بات اتنی چھوٹی تو نہ تھی کہ وہ چپ ہو جاتی رات کو وہ معیز کے آنے تک کمرے میں بند رہی اسکے آتے ہی وہ سرخ انگاروں جیسی آنکھیں لئے اسکی منتظر تھی لائٹ اون کرکے معیز نے بستر کی طرف دیکھا جو آنکھوں پے بازو رکھے جاگ رہی تھی.. معیز کے لئے یہ خبر نئی نہیں تھی اور وہ جانتا تھا عائشہ پریشان ہوگی اور کیوں وجہ بھی وہ جانتا تھا.. گہری سانس لے کے ریسٹ واچ اتارتا وہ اسکے قریب کرسی رکھ کے بیٹھ گیا.. پھر آہستہ سے آواز دی عائشہ عائشہ نے بازو آنکھون سے اٹھایا لال بھبھو چہرہ پورا دن رونے کا گواہ تھا میری بیوقوف بیوی وہ ایک دم اٹھ بیٹھی اور معیز کا کالر پکڑ کے بولی آپ نے جھوٹ بولا میرے ساتھ آپ نے کہا تھا آپ مجھے سہی سلامت واپس لائے ہیں تو پھر یہ کیا ہے سائڈ ٹیبل پے پڑی ریپوٹس اس نے معیز کی گود میں پھنکی آپ جھوٹے ہیں مجھے آپکے ساتھ آیک دن بھی اور نہیں رہنا وہ بھپھرا کے بولی......
 
عائشہ چپ ہو جاو میری بات تو سنو ایسے تم اپنی طبعیت بگاڑ لو گی وہ فکر مندی سے بولا مت چھوئیں مجھے اتنا ظرف کہاں سے لے آئے آپ کے ایک نکارہ چیز کو متعبر کر رہے ہیں وہ بھپھرا لے بولی آہستہ آہستہ سب لوگ کمرے کے اندر آتے جا رہے تھے معیز اس بات سے پریشان ہو گیا مگر اسکا دیھان ابھی صرف عائشہ کی طرف تھا جو جنونی انداز میں چیزیں پھنک رہی تھی اچانک اسکا پیر پھسلا تو معیز بھاگ کے اسے تھام لیا پھر کافی سخت لہجے میں بولا تب سے تمہاری سن رہا ہوں اسکا مطلب یہ نہیں تم کچھ بھی بولتی جاو اور کیا کرنے چلی تھی میرے بچے کو کچھ ہو جاتا تو تمہارا حشر بگاڑ دیتا میں...
 
معیز نے ہوا میں اٹھا ہاتھ مٹھی بھنچ کے نیچے گرایا.. سیدھی ہو کہ عائشہ نے تہریر سے اسے دیکھا آپ کا بچہ اس نے معیز کی بات دہرائی معیز کے جبڑے بھنچ گئے.. رگیں تن گی.. ہاں میرا معیز نے اسکی آنکھوں میں جھانک کے کہا وہاں ازحد بے یعقینی تھی... کتنے جھوٹے ہیں آپ... آپ اور میں اچھی طرح جانتے ہیں آپ کا اور میرا ساتھ دو ہفتے پرانا ہے تو یہ دو مہینے پہلے کا کہاں سے آیا اور اس رات آپ مجھے محفوظ گھر میں نہیں لائے تھے یہ سب اس رات کی کہانی ہے وہ ہچکیوں سے روتے بولی...
 
ہاں یہ اسی رات کی مہربانی ہے معیز نے مظبوط لہجے میں کہا اسکی بات سے عائشہ کو سکتہ ہو گیا صدمے سے چپ ہو گئی.. رفتا ملازم اندر آیا تو کہنے لگا صاحب وکیل صاحب آئے ہیں آپ نے کوئی پیپرز بنوائے تھے کہ رہے آپ سائن کردیں... معیز سر ہلا کے پلٹ گیا اپنے تنے ہوئے نقوش کو نارمل کرتا گہری سانسیں لیتا وہ چلا گیا عائشہ نے کمرے کی کھڑکی سے دیکھا وہ کوئی کاغز پڑھ رہا تھا اب سائن کر رہا تھا اللہ تو وہ مجھے طلاق دے رہے ہیں آنسو ٹپ ٹپ کرتے آنکھوں سے بہنے لگے... میں نے یہ کب چاہا تھا اللہ میرے نام کے ساتھ انکا نام رہتا میرے لئے اتنا کافی تھا میں نے اپنی بیوقوفی سے اسے گواہ دیا آہستہ آہستہ چلتے وہ بستر تک آئی بےبے نے اسکے سر پے ہاتھ رکھا... بےبے وہ مجھے اب چھوڑ دیں گے نا وہ خوف میں تھی پھر آہستہ ہستہ وہ ہر واقع بےبے کے گوش گزار کرتی رہی دروازے میں ابستا حرا کی آنکھوں میں الوہی چمک تھی وہ مڑ گئی اور سب جا کے صدف کو بتا دیا اینڈ پے یہ کہہ دیا کیا اب معیز دوسروں کے بچے بھی سنبھالے گا انداز محبت سے چور تھا...
 
مانا کے وہ انوسنٹ ہے مگر آپ چاہتی ہیں معیز کو ناکردہ گناہ کی سزا ملے صدف حیرت سے سنتی رہی پھر بولی میں تو اسے معصوم سمجھتی تھی یہ تو بلکل اپنی ماں جیسی نکلی پھر پورے گھر میں طوفان آ گیا.. سب کی محفل لگ گئ جس میں صدف پیش پیش تھی کے انکو اسی بہو نہیں چاہیئے.. معیز خاموشی سے سب سنتا رہا اینڈ پے تالی بجا کے اپنی ماں کو داد دی پتا ہے مما اگر بابا آج ہوتے کیا کہتے صدف خاموش ہوگی پھر سوچ کے بولی وہ بھی شائد یہی فیصلہ کرتے.. معیز نے نفی میں سر ہلایا اور کہا وہ افسوس کرتے کے انکو شادی آپ سے ہوئی... معیز خاموش ہو جاو کشمالہ بھابھی نے ٹوکا جس پے برہان نے اسے ایک زبردست وارنگ آنکھوں ہی آنکھوں دے کے خاموشی اختیار کرنے کو کہا... مجھے کچھ بھی سمجھو معیز مگر میں آنکھوں دیکھی مکھی نہیں نگل سکتی اس گھر کی بہو حرا بنے گی بس تمہیں بھی تو ہجابی لڑکیاں پسند تھی پھر کیوں ایک بے حیا کے پیچھے خوار ہو رہے ہو.. بس پلیز چپ کر جائیں مما ورنہ میں اپنا اور آپکا رشتہ بھول جاوں گا اور کونسا ہجاب دل کا زبان کا یا جسم کا ان میں سے کونسا کرتی ہے حرا صرف جسم کا وہ بھی میرے لئے یہی وہ اللہ کے لئے کرتی انسانوں کی خاطر سونا بھی بن جاو تو بھی پیتل ،پیتل ہی رہتا ہے اور اگر اللہ کی خاطر پیتل بن جاو تو وہ پیتل بھی سونا بن جاتا ہے...
پھر حرا کی طرف دیکھ کے بولا تم سر کو ڈھانپ کے نیک نہیں بن سکتی اگر تم نیک ہوتی بنا کسی مطلب کے عائشہ کی ذات کو ڈھانپتی مجھے سپورٹ کرتی تمہیں بچپن سے معلوم تھا عائشہ میری بیوی ہے پھر بھی تم نے مجھ سے دل لگی کی.. اور میری تو بات ہی چھوڑ دو میرا تو ہر دوسرے دن نیا افئیر چلتا تھا مگر جب انکو پتا چلتا تھا میں نکاح شدہ ہوں تو جانتی ہو وہ لڑکیاں مجھے چھوڑ دیتی.. آیا کے امانت میں خیانت نہیں کرتے کوئی کہتی کے کسی کا گھر خراب نہیں کرتے جانتی وہ مینی سکرٹ جینز پہننے والی لڑکیاں تم سے بہتر ہیں عائشہ کو دیکھو پتا ہے اس نے پوری لائف انجوائے منٹ کے بنا گزاری ہے اب جب کہی کھانا بچ جائے تو کسی ضرورت مند کو خود دیتی ہے کے کوئی بوکھا نہ سو جائےشہزادی کو اپنے برابر بٹھا کے کھلاتی ہے اکثر تو اسکے لئے اپنے جیسے مگ اور چیزیں لے آتی ہے کے اس کے دل میں شکواہ نہ ہو رب سے... کسی سوالی کو خالی ہاتھ نہیں جانے دیتی کے جانے کون ان میں سے اللہ کا بھیجا فرشتہ ہو وہ اتنی پاک اور معصوم ہے اور اسکا شوہر میں ہوں اسکا رات کا گواہ بھی....
معیز نے بھوریں اچکا کے کہا" شوہر سے زیادہ کوئی نہیں جانتا کے اسکی بیوی کتنی پاک دامن ہے اور اسکا سرٹیفکیٹ مجھے تم لوگوں سے نہیں چاہیئے..."
 
اسے میری لائف میں رہنا ہے یا نہیں تو یہ فیصلہ کرنے کا حق مجھے ہے
اس سے پہلے سب لوگ اپنی غلط فہمی دور کرلو میری بیوی بلکل شفاف اور معصوم ہے اور وہ بچہ بھی میرا ہے اس رات میں اسے محفوظ لایا تھا پھر ان لڑکوں کے دیئے گئے ڈرگز کی وجہ سے وہ نیم ہوش میں تھی سو وہ جان نا پائی کے کیا ہوا ہے پھر ڈاکٹر نے اسے ٹرنکولائز دے دیئے اس کے اصابی سکون کیلئے اور پوری رات اس کے پاس میں تھا صبح تک وہ سب بھول گئی تھی اینڈ ڈیٹس اٹ اگر اب بھی کوئی مشکوک ہے تو دادی اور بےبے سے پوچھ لیں اگلی رات بھی میں عائشہ سے ملنے گیا تھا مگر وہ ناراض تھی دادی تو سب جانتی ہیں میرا عائشہ کے ساتھ ازواجی رشتہ تھا ... پھر اپنی سرخ آنکھیں چاروں طرف گمھا کے بولا اور کسی کو کچھ پوچھنا ہے میری بیوی کے بارے میں؟؟ 
 
صدف نے شرم سے بیٹے کو دیکھا لیکن حرا ہار ماننے کے موڈ میں نہیں تھی وہ پھر ترپ کا پتہ استعمال کرتی بولی اس کے ساتھ بچپن میں زیادتی ہو چکی اس بارے میں کیا کہو گے حرا نے سوچ لیا معیز اگر اسکا نا ہوا تو عائشہ کا بھی نہیں ہوگا... معیز خاموش ہو گیا اس بات سے کئ سوالیہ نظریں اٹھی مگر اب کے سوال کرنے کی ہمت کسی میں نہی تھی معیز نے گہرا سانس لیا پھر مظبوط لہجے میں بولا... وہ جب دس سال کی تھی اپنی دوست کے ڈیڈ سے پڑھتی تھی ایک دن ان کے گھر میں کوئی نا تھا عائشہ پڑھنے گئی تو انہوں نے جھوٹ بول کے کہا اندر آ جاو پھر دروازہ بند کر کے دس سال کی گول مٹول نیلی آنکھوں بھورے بالوں والی اونچی پونی کی بچی کو دیکھ کے حوس جاگ اٹھی قد بھی نمایا تھا تم یہاں بیٹھو میں مینا کو بلاتا ہوں عائشہ بیگ اتار کے پڑھنے لگ گئی اچانک کسی نے پیچھے سے منہ پے سختی سے ہاتھ جما دیئے اور عائشہ کی چیخیں دبتی گئی.... گھر کے باہر گاڑی روک کے اس نے عائشہ کو پھنک دیا محلے والے اکھٹے ہوتے گئے شام کو جاب سے واپس آتے عائشہ کے ماں باپ نے نیم مردہ پڑھی عائشہ اور چھٹخارے بناتے لوگ عائشہ کے بابا نے پاس سے گزرتی کا جس کا ڈرائیور بھی یہی منظر دیکھ رہا تھا اس کے اگے جا کے خودکشی کی مگر قسمت میں ابھی سانسیں تھی انہوں نے بیوی سے کہہ کے اپنے گھر والوں بلانے کو کہا مگر آئے صرف معیز کے بابا بھائی اور بھتیجی کی حالت دیکھ کے وہ چکرا گئے کالج سے واپسی پے پلے انجوائے کرتے معیز نے کال اٹھائی اور بنا پوری بات سمجھے ہسپتال چلا گیا وہاں سب تیار تھا صرف قبول ہے بولنا تھا معیز نے منہ بسورا تو باپ کی آنکھیں دیکھ کے چپ ہو گیا بنا حقیقت بتائے اسے ازمائش میں ڈال دیا گیا ....اور نکاح کرکے گھر جاتے ماں کو بتایا تو پاس بیٹھی خالہ نے شوشہ چھوڑ دیا یہ تو میری حرا کی امانت تھی پاس کھڑا معیز بھی گنہار بن گیا اور یوں وہ تا عمر عائشہ سے لاتعلق رہا... اور اب میں سچ جانتا ہوں اور مجھے اپنے باپ کے فیصلے پے کوئی اعتراض نہیں امید کرتا ہوں آپ سب میری وائف کو اب بھی اتنی عزت ہو محبت دیں گے جس کی وہ حق دار ہے ورنہ میرے پاس اسکو دینے کے لئے آسائیشوں کی کمی نہیں جس جگہ میری وائف کی عزت نہ ہوئی وہاں میں بھی رہ نہیں پاوں گا یہ بات وہ اپنی ماں کی طرف دیکھ کے بول رہا تھا جس کا مطلب تھا آخری فیصلہ ہو چکا ہے ........
 
میرا خیال ہے مس حرا اب تم صبح کی ٹرین سے گھر چلی جاو جب تم پھوپھو بن جاو گی تو تمہیں اطلاع مل جائے عزت سے خالہ امی کے ساتھ آنا میری زندگی مکمل ہے اس میں کسی ارے غیرے کی گنجائش نہیں ... حرا پاوں پٹختی واک اوٹ کر گئی.. اور برہان نے معیز کو سینے سے لگا لیا ایم پراوڈ اوف یو برادر اللہ سب کو ایسا بھائی اور بیٹا دے جو سچ میں کسی نازک ابغیعنے کی حفاظت کرنا جانتا ہو.. میں دعا کرتا ہوں سنی بڑا ہو کے تم جیسا بنے مجھے فخر ہے تمہارا بھائی ہونے پے... لو یو برادر ؛ شدت سے برہان کی آواز بھرا گئی..
وہ رات لیٹ کمرے میں گیا وہ اس وقت عائشہ سے کوئی لڑائی نہیں چاہتا تھا صرف سکون سے سونا چاہتا تھا مگر وہ شائد لڑنے کے موڈ میں تھی نہ صرف جاگ رہی تھی بلکہ واک کر رہی تھی اسے دیکھتے رک کے اسے دیکھنے لگی معیز نظر انداز کر کے فرش ہو کے لیٹ گیا... عائشہ نے گہری سانس لی آج پہل اسے ہی کرنی تھی اسے ہی معیز کو منانا تھا وہ سب سن چکی تھی اب وہ اپنی کم عقلی پے جتنا پچھتاتی کم تھا... معیز عائشہ نے اسکے قریب بیٹھ کے اسکے بالوں کو چھڑتے کہا... آہ اتنا پیار وہ بھی عائشہ معیز تو حیرت سے غرق ہوتے ہوتے رہا بدظاہر سنجیدگی سے پوچھا کے کیا کام ہے...
 
عائشہ چند منٹ لفظ توڑجوڑ کرتی رہی پھر بولی آپ نے مجھے بتایا کیوں نہیں آپ نے اس رات میرے ساتھ.. باقی بات وہ حیا سے مکمل نہ کر پائی معیز نے اسکے تاثرات دیکھے اور مسکراہٹ روکنے کے لئے ہونٹ دانتوں میں دبائے.. پھر معصوم بن کے پوچھنے لگا تمہارے ساتھ کیا... عائشہ ہاتھ مسلنے لگ گئی سر جھکا تھا اس لئے وہ معیز کے تاثرات نہیں دیکھ پا رہی تھی آپ جانتے تھے مجھے سب بھول گیا آپ بتا ہی دیتے میں اتنا پریشان تو نا ہوتی وہ پس مردہ سی بولی معیز کو اس پے بے پناہ پیار آیا اسکا پکڑ کے بولا کیوں بتاتا میں نے کچھ غلط تو نہیں کیا تھا کے بتاتا اس بات کا ڈھنڈورا پیٹتا... تم بتاو میں نے کچھ غلط کیا تھا؟؟؟ عائشہ نے صرف نفی میں گردن ہلائی اور آنسو ضبط کے باوجود نکل آئے.. معیز اٹھ بیٹھا اور تھوڑی سے پکڑ کے اسکا سر اونچا کرکے اسکے آنسو صاف کرتا بولا میری بیٹی تم سے زیادہ سمجھ دار ہو گی.. عائشہ نے منہ کھول کے معیز کو دیکھا پھر بولی کیا میں بیوقوف ہوں معیز ہنس دیا..ہاں تھوڑی سی چھوٹی چھوٹی بات پے کہتی ہو تمہیں میرے ساتھ نہیں رہنا جیسے میں تو تم سے تمہاری مرضی پوچھ کے چلو گا نا... عائشہ نے حیران ہو کے اسے دیکھا پھر بولی تو آپ مجھے نہیں چھوڑ رہے تو وکیل کیوں آیا تھا..
 
عائشہ چپ ہو جاو میری بات تو سنو ایسے تم اپنی طبعیت بگاڑ لو گی وہ فکر مندی سے بولا مت چھوئیں مجھے اتنا ظرف کہاں سے لے آئے آپ کے ایک نکارہ چیز کو متعبر کر رہے ہیں وہ بھپھرا لے بولی آہستہ آہستہ سب لوگ کمرے کے اندر آتے جا رہے تھے معیز اس بات سے پریشان ہو گیا مگر اسکا دیھان ابھی صرف عائشہ کی طرف تھا جو جنونی انداز میں چیزیں پھنک رہی تھی اچانک اسکا پیر پھسلا تو معیز بھاگ کے اسے تھام لیا پھر کافی سخت لہجے میں بولا تب سے تمہاری سن رہا ہوں اسکا مطلب یہ نہیں تم کچھ بھی بولتی جاو اور کیا کرنے چلی تھی میرے بچے کو کچھ ہو جاتا تو تمہارا حشر بگاڑ دیتا میں...
 
معیز نے ہوا میں اٹھا ہاتھ مٹھی بھنچ کے نیچے گرایا.. سیدھی ہو کہ عائشہ نے تہریر سے اسے دیکھا آپ کا بچہ اس نے معیز کی بات دہرائی معیز کے جبڑے بھنچ گئے.. رگیں تن گی.. ہاں میرا معیز نے اسکی آنکھوں میں جھانک کے کہا وہاں ازحد بے یعقینی تھی... کتنے جھوٹے ہیں آپ... آپ اور میں اچھی طرح جانتے ہیں آپ کا اور میرا ساتھ دو ہفتے پرانا ہے تو یہ دو مہینے پہلے کا کہاں سے آیا اور اس رات آپ مجھے محفوظ گھر میں نہیں لائے تھے یہ سب اس رات کی کہانی ہے وہ ہچکیوں سے روتے بولی...
 
ہاں یہ اسی رات کی مہربانی ہے معیز نے مظبوط لہجے میں کہا اسکی بات سے عائشہ کو سکتہ ہو گیا صدمے سے چپ ہو گئی.. رفتا ملازم اندر آیا تو کہنے لگا صاحب وکیل صاحب آئے ہیں آپ نے کوئی پیپرز بنوائے تھے کہ رہے آپ سائن کردیں... معیز سر ہلا کے پلٹ گیا اپنے تنے ہوئے نقوش کو نارمل کرتا گہری سانسیں لیتا وہ چلا گیا عائشہ نے کمرے کی کھڑکی سے دیکھا وہ کوئی کاغز پڑھ رہا تھا اب سائن کر رہا تھا اللہ تو وہ مجھے طلاق دے رہے ہیں آنسو ٹپ ٹپ کرتے آنکھوں سے بہنے لگے... میں نے یہ کب چاہا تھا اللہ میرے نام کے ساتھ انکا نام رہتا میرے لئے اتنا کافی تھا میں نے اپنی بیوقوفی سے اسے گواہ دیا آہستہ آہستہ چلتے وہ بستر تک آئی بےبے نے اسکے سر پے ہاتھ رکھا... بےبے وہ مجھے اب چھوڑ دیں گے نا وہ خوف میں تھی پھر آہستہ ہستہ وہ ہر واقع بےبے کے گوش گزار کرتی رہی دروازے میں ابستا حرا کی آنکھوں میں الوہی چمک تھی وہ مڑ گئی اور سب جا کے صدف کو بتا دیا اینڈ پے یہ کہہ دیا کیا اب معیز دوسروں کے بچے بھی سنبھالے گا انداز محبت سے چور تھا...
ششی چپ ڈفر بھلا کوئی دل سے ڈھڑکن بھی الگ ہوتی ہے... چلو سوئیں آج کے لئے اتنا کافی ہے میں تھک گیا ہوں....
 
عائشہ نے تمانیت سے سے معیز کے سینے پے سر رکھ کے آنکھیں موند لی اب وہاں بہاریں ہی بہاریں تھی...معیز نے اسکے گرد اپنے بازوں کا حصار بنا کے لائٹ اوف کردی... اندھرے میں معیز کے آنسو بہہ کے عائشہ کے بالوں میں جذب ہوتے گئے... اور وہ اللہ سے ہمکلام ہوتے بولا یا اللہ مجھے اتنا ظرف دینا کے میں کبھی ڈگمگا نا جاوں مجھے اپنے سامنے سرخرو کردینا... مجھے ہمت دینا میں اس نازک سی لڑکی کی ڈھال بن کے رہوں..... مجھے ہمت دینا میں اپنی بیوی اور بچے کی حفاظت کر سکوں... پھر اسنے آنسو پونچھ کے ہونٹ عائشہ کے بالوں میں رکھ دئیے.... پھر اسکی پشانی چومتے بولا ہم اپنی بیٹی کا نام دعا رکھیں گے... وہ کیوں عائشہ نے سوال کیا... کیونکہ میں دعا کروں گا میری بیٹی ہی ہو... سو جائیں معیز آپ بہکی بہکی باتیں کر رہے ہیں عائشہ نے نیند سے بوجھل آواز میں کہا... معیز نے قہقہہ لگا اسکے گرد حصار اور تنگ کردیا عائشہ کی کھکھلانے کی ہنسی دور تک گئی.
.......ختم البخیر......
اگر ناول اچھا لگے تو لائک ضرور کریں
............................ 
............................  

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے