آخری آنسو کا حساب

urdu stories

Urdu Font Stories

آخری آنسو کا حساب - سبق آموزکہانی

قسط وار کہانیاں

دلاور نظر آ جائے بس کہیں سے آئینہ نے دل سے دعا کی تھی ، کالج کے لیے لیٹ بھی ہو رہی تھی مگر پھر بھی بار بار اس کا خیال آئے جا رہا تھا۔ صبح ہی ہلکی لپ اسٹک چھپ کر لگائی تھی بس ایسے چلتے چلتے ہی شکر ہے پتا نہیں چلا امی کو ۔ اس نے دل ہی دل میں شکر ادا کیا گیٹ سے باہر سبزی والا حلق پھاڑ کر چیخ رہا تھا۔ پیاز، ٹماٹر، اد رک اور بھنڈی۔ اچھا امی بھنڈی گوشت بنا رکھنا آج موسم اچھا خاصا تپا ہوا تھا مگر اس عمر میں ہر موسم ہی اچھا لگتا ہے دو مہینے پہلے کالج ٹرپ پر جاتے جب وہ بے انتہا خوب صورت لگ رہی تھی اپنی تئیں یا پھر وہ دلاور کی نظر ہوگی جس نے اسے خاص بنا دیا تھا۔
 
 اس نے اپنی فیورٹ میکسی پہنی تھی ساتھ گولڈن بندے اور کھسہ بھی امی کی نظر بچا کر میچنگ ہی پہنا تھا۔ دیکھا تو بہت غور سے بائیو والے سرنے بھی تھا مگر ان کے دیکھنے میں وہ بات کہاں جو دلاور میں تھی۔ لڑکیاں کہتی تھیں کہ دلاور میں کیا رکھا ہے نہ وہ خوش شکل ہے نہ ہی اتنا ذہین اور پیسے والا اور تو اور رنگ بھی صاف نہیں اور تم تو اتنی پیاری ہو۔ یہ تانیہ کی رائے تھی۔ تم کیا جانو کہ دلاور کتنا اہم ہے میرے لیے ، میرے لیے وہ کل جہان ہے اس کے بغیر دنیا ادھوری لگتی ہے مجھے۔ 
 
آئینہ نے دل میں کہا۔ دلاور نے بائیک اس کے قریب روک کر ایک گلاب کا پھول دیا تھا قریب ہی گجروں پھولوں کی خوشبو اڑاتی دکان تھی۔ جس میں پان کھاتے آدمی بھانت بھانت کی بولیاں لگا کے تازہ گلاب اور پیتیاں بیچتے تھے وہاں سو گوار لوگ بھی آتے تھے اور منچلے بھی۔ قریب کی دیوار ان کے گاڑھے گیلے تھوک کی وجہ سے گندی سندی ہو رہی تھی۔ یہاں سے ہی رنگین چادروں ، عبایوں اور دوپٹوں کی بہار کا ریلا کالج کو رواں دواں ہوا کرتا تھا۔ دلاور نے یہیں سے ایک ٹہنی والا گلاب آئینہ کو دیا تھا۔ کانٹوں والا اور سرخ، اس کی خوشبو آئینہ کو دنیا میں سب سے الگ لگی تھی۔ آئینہ تم میری زندگی ہو۔ میرا غم ہو میری خوشی ہو۔ دلاور نے بھلے کسی ترنگ میں کہا ہو۔ آئینہ محبت کے رنگ میں سرتا پا رنگ گئی گی۔ پھول سوکھ کر کالا ہو گیا تھا۔ مگر نہیں سوکھا تو اس کا معصوم سا دل ، محبت عورت کرتی ہے مرد بھی کر لیتے ہیں مگر عورت کی محبت میں جو معصومیت ہے، وہ کسی مرد میں کہاں آئینہ کی معصومیت بھی عروج پر تھی عجیب سے انداز میں وہ بدلتی گئی اس کی ہوتی گئی وہ جو اس کا تھا دلاور اور وہ دلاویز ہوگئی۔
مزید پڑھیں

امی نے تپتے کچن سے آواز دی۔ آئینہ کچھ گھرداری سیکھ لے اگلے گھر کام آئے گی۔ کوئی کسی کو بٹھا کر نہیں کھلاتا ۔ لوگ صرف طعنے دے سکتے ہیں۔ پچھاڑ سکتے ہیں۔ شکست دے سکتے ہیں۔ دلا سا نہیں دے سکتے ۔ ایسی باتیں اس نے ہوا کے دوش پر ہوش میں کئی بار سنی تھیں مگر آج پتا ہی نہیں چلا کہ کون اسے کیا کہہ رہا ہے کسی کا خیال کتنا انوکھا ہے۔ پتا نہیں کون لوگ ہیں جو ایسے ہیں کہ دل دکھانے کے سوا اور کوئی کام ہی نہیں ۔ مہندی ہتھیلی پر لگاتے اور اس کا گہرا رنگ چیک کرتے وہ سوچ رہی تھی کہ دلاور محبت کرنا جانتا ہے۔
 
 نجانے کہاں سے سیکھا ہے مگر اس کے الفاظ خوب ہیں کیسے بات کرتا ہے اور سیدھا دل میں اتر جاتا ہے، بدلتے موسموں کی طرح نہیں ہے وہ ہر بار ہی اسے دیکھ کر دل کو خوشی ملتی ہے۔ کاش ساری دنیا ہی ایسے لوگوں سے بھر جائے اور جیسے امی کہتی ہیں کہ لوگ ہوتے ہیں وہ رہیں بھی ناں۔ خود کلامیوں کا سلسلہ تھا جو نجانے کب تک چلتا۔ وہ خود سے باتیں کر رہی تھی جب اچانک امی نے سامنے ٹرے میں دال گوشت اور روٹی لا کر رکھی بلکہ پٹخی تھی۔ نجانے کسی خیال میں رہتی ہو۔ اتنی آواز دی ہے جواب تک نہیں دیا کیا ہو گیا ہے تمہیں ۔ نجانے کب شام سے رات کا اندھیرا بھی پھیل گیا اور مجھے پتا بھی نہیں چلا سامنے انار کا درخت اندھیرے میں مکمل ڈوب کر اداس ہو رہا تھا سب اندھیرے میں ڈوب کر کیسا عجیب لگ رہا ہے فرش پر انار کے پھول اور میں اس نے دلاور کا دیا پھول اپنی کتاب میں سمیٹا اور اٹھ کھڑی ہوئی رات ہو گئی اور پتا بھی نہیں چلا۔

دلاور نے دھیرے دھیرے محبت کی اور آئینہ کو گرویدہ کر لیا تھا۔ چھوٹے چھوٹے لفظ اور چھوٹے چھوٹے جملے بہت تیزی سے اسے دلاور کا کر رہے تھے، وہ ہر وقت دلاور کے بارے میں سوچا کرتی۔ زندگی میں سوچنے کو اب رہ ہی کیا گیا تھا۔ ایک دن ناصر آدھمکا تھا اسے ناصر آج سے پہلے کبھی اتنا برا نہیں لگا تھا۔ اور کوئی کام ہی نہیں ہے ملنے ملانے کے سوا آ جاتے ہیں منہ اٹھا کے۔ اس کا موڈ خراب ہو گیا تھا مگر خود پر قابو بھی ضروری تھا۔
مزید پڑھیں
 امی اندر لاؤنج میں ہیں۔ لہجہ پہلے سے بھی روکھا سوکھا ہو گیا تھا۔ سوکھے پاپے کی طرح جو کئی دن کچن کے کسی کونے میں بے یارومددگار پڑا رہا ہو۔ میں تو آپ سے بھی ملنے آیا تھا مگر خیر آنٹی سے پہلے مل لیتے ہیں ۔ وہ پھر بھی مسکرا رہا تھا۔ آئینہ کی یادداشت میں وہ کہیں بھی محفوظ نہیں تھا دھیمے قدم اٹھاتے وہ اندر چلا گیا تھا اور سامنے ہی امی چلی آرہی تھیں۔ اس سے ایسے بات نہ کیا کرو وہ پیار کرتا ہے تم سے۔ بچپن سے اور تم منسوب بھی ہو اس سے جو قدر کرے اسے بھی قدر کی ضرورت ہوا کرتی ہے آئینہ امی نے بہت پیارے ادیبوں کو پڑھ رکھا تھا بلکہ وہ پڑھنے کی شیدائی تھیں۔کچن میں لاؤنج میں بیڈ روم میں ہر جگہ امی کی کتابیں ملتی تھیں امی نے اور اس نے بھی چائے کی گرم خوشبو میں دیکھا کہ ناصر اپنے آفس کی باتیں کر رہا تھا مگر دیکھ اسے رہا تھا بڑے طریقے سے۔ کیا شاطر انسان ہے۔ لحاظ ہی نہیں ہے خالہ گا۔ تاڑ رہا ہے مجھے اس نے دل ہی دل میں اسے برا بھلا کہ ڈالا تھا۔
 
 جب دلاور رشتہ لے آئے تو صاف منع کردوں گی امی کو۔ اس نے دل ہی دل میں فیصلہ کر رکھا تھا۔ دلاور کے خیال میں گزر گئے اس نے ان لمحوں کا شمار ہی نہیں کیا جو اس کی یاد میں گزارے تھے۔ جو بے خودی کے عالم میں گزر گئے جن کے گزر جانے کا اسے علم ہی نہ ہو سکا تھا۔دو دن وہ آنہیں سکا اور جب دیکھا تو کالج گیٹ کے سامنے وہ کسی کے ساتھ تھا ایک اور لڑکی جس کی آنکھوں میں خواب تھے اس کی طرح کے جو اس نے دیکھے تھے۔ یہ کوئی عام لڑکی تو نہیں ہو سکتی۔
 جس حق سے وہ ساتھ تھی۔ اس نے آئینہ کے قدموں سے زمین کھینچ لی تھی۔ وہ میری منگیتر ہے مگر سچ کہتا ہوں آئینہ ! پیار تم سے ہے مجھے۔ دلاور نے جھوٹ نہ بولا اور اے پتی پتی کر ڈالا تھا۔ میں نے تو اس پھول کو بھی ذرا سا ٹوٹے نہیں دیا جو تم نے مجھے دیا تھا اور تم نے میری ذات کو ہی ریزہ ریزہ کر دیا۔ دلاور ؟ اس رات وہ پہلی بار تڑپ تڑپ کر روئی تھی۔ اس نے آنسو بہائے تھے اتنے آنسو کہ اپنا آپ ہی ڈوبتا محسوس ہو رہا تھا ۔ مگر میں پیار تم سے کرتا ہوں۔ ابھی جب تم اس کے ساتھ ہوتے ہو۔ اس کی مسکراہٹ پر مسکراتے ہو تمہاری آنکھیں اسے دیکھ کر خوش ہو جاتی ہیں پھر بھی۔

آئینہ نے آئینہ دیکھ کر سوچا میرا وزن کتنا گر چکا ہے اور آنکھیں کتنی ویران ہوگئی ہیں کتنا آسان ہے لوگوں کے لیے دوسروں کے دل سے کھیلنا اسے جھٹکے سے توڑ ڈالنا دنیا واقعی تو ڑنے والی ہے جوڑنا نہیں جانتی۔ اس نے اپنے ہڈیوں بھرے ہاتھوں کو ایک دوسرے میں جکڑا اور اپنی سفید گردن کو دیکھا جو پہلے کی طرح اٹھی ہوئی نہیں تھی۔ لڑکیوں کے دل چوڑیوں کی طرح کے ہوتے ہیں ذرا سی ٹیس سے ٹوٹ جاتے ہیں۔ ایک دوپہر وہ کالج گیٹ سے نکلی وین نہیں آئی تھی تب اچانک ہیں ناصر سامنے آگیا تھا۔ چلیں، میں گھر ڈراپ کر دیتا ہوں ۔ سامنے کھڑا دلاور دیکھ رہا تھا۔ نظروں کے حصار میں تھی تو دوسروں کا انتظار تھا اسے۔ اس نے اسٹائل سے بیگ سائیڈ پر کیا اور جا کر بیٹھ گئی۔ 
 
گرم ہوانے اس کے سامنے کے ہلکے براؤن بال اڑا کر جیسے مزا سا لیا ہو، دلاور کا عکس دھندلا گیا تھا۔ وہ محبت میں پاگل کر سکتا ہے۔ میں پاگل ہو سکتی ہوں تو پاگل تو کچھ بھی کر سکتا ہے۔ دھواں اڑاتی سڑک پر وہ دور نکل گئی تھی۔ ناصر خوشگوار حیرت میں مبتلا ہو چکا تھا۔ وہ کون تھا؟ دلاور نے کیسی آس کے تحت پوچھا تھا آنکھوں کی روشنی بجھی گئی تھی۔ بچپن سے نسبت طے ہے ہماری، امی نے بھیجا تھا اسے مجھے لینے۔ پیار میں بھی صرف تم سے کرتی ہوں۔ واپس مڑتے آئینہ کی آنکھ سے اس محبت میں اذیت کا آخری آنسو ٹپکا اور سفید براق دوپٹے میں کہیں گم ہو گیا۔

Urdu stories online, Urdu stories for kids, Short Urdu stories, Urdu Kahaniyan, Famous Urdu stories, Urdu stories with moral, Best Urdu stories collection, Urdu stories for students, Urdu love stories, Urdu horror stories, Urdu stories for reading, Urdu stories in Urdu text, Funny Urdu stories, Urdu stories for beginners, Urdu detective stories, Urdu motivational stories, Urdu stories for kids, Urdu moral stories, Urdu stories for children, Urdu true stories, Urdu suspense stories, Urdu emotional stories, Urdu adventure stories,

hindi moral stories in urdu,سبق آموز کہانیاں, jin-ki-dushmni,good moral stories in urdu,Moral Stories,Urdu Stories,urdu kahani,اردو کہانی,قسط وار کہانیاں,

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے