پاگل عورت کا راز (مکمل اردو کہانی)

Urdu Stories

Urdu Font Stories

پاگل عورت کا راز (مکمل اردو کہانی)

قسط وار کہانیاں

ماجے چھوٹے چوہدری کو اٹھاؤ
وقت گزرتا جا رہا ہے۔آج کھیتوں میں پانی لگانے کا ہمارا وارا ہے۔چوہدری قادر نے اپنے مخصوص انداز میں یاد دہانی کراتے ہوئے اپنے کامے ماجے کو آواز لگائی۔
ماجا فوراً چھوٹے چوہدری کو اٹھانے چلا گیا۔
چھوٹا چوہدری جس کا نام چوہدری جاوید تھا۔چوہدری قادر کی اکلوتی اولاد تھا۔
سب گاؤں والے اسے بہت پیار کرتے تھے،اور پیار سے چھوٹا چوہدری بلاتے تھے۔
جاوید خوبصورت بانکا سجیلا جوان تھا جو عمر کی 22 ویں سیڑھی چڑھ رہا تھا۔
چوہدری قادر عمر کے اس حصے میں تھا ۔جہاں انسان صرف گھر میں بیٹھ کر امور خانہ کے کاموں کی یاد دہانی کرواتا رہتا ہے۔
جیسے چوہدرانی ،چوہدری قادر کی بیوی کو پتہ چلا کہ جاوید کھیتوں کو پانی لگانے جا رہا ہے
فوراً شور مچانا شروع کر دیا
چوہدری میں نی اپنے بیٹے کو جانے دینا ،آج جمعرات ہے اور وہ شوخا 24 گھنٹے خوشبو لگائے دکھتا ہے اور اوپر سے وہ پیپل والی زمین
اسے رات ہو جانی ہے وہاں
نا چوہدری نا۔میں نی جانے دینا اپنے پتر کو
چوہدرانی نے بھی اپنے مخصوص انداز میں فیصلہ سناتے ہوئے کہا۔
اس سے پہلے کہ چوہدری قادر چوہدرانی کو کچھ بولتا
ماجا چھوٹے چوہدری کو اٹھا کر آ رہا تھااور اس نے کپڑے بھی بدل لیے تھے
گویا تھوڑی دیر میں کامہ اور جاوید جانے والے تھے۔
اماں جی ۔آپ میری ماں ہیں اس لیے پریشان ہوتی ہیں۔ماجا اور میں پانی لگا کر ابھی آئے۔
پیپل والی زمین کا سن کر آپ ایسے پریشان ہو جاتی ہیں۔وہ کملی وہاں گھومتی رہتی ہے اس لیے
اس بیچاری کو تو اپنا ہوش نہی۔اس نے ہمیں کیا کہنا بھلا
پتر وہ لوگ۔۔۔۔۔۔۔چوہدرانی نے پریشانی کے عالم میں کچھ کہنا چاہا
مگر جاوید نے قہقہہ لگا کر چوہدرانی کو خاموش کروا دیا۔
اماں لوگوں کا کیا،وہ تو بس باتیں بناتے رہتے ہیں۔
اتنے میں کامہ پانی لگانے کے لیے ضروری سامان لے آیا۔اور وہ دونوں چوہدری اور چوہدرانی کو سلام کر کے کھیتوں کی طرف چل پڑے۔
زمینوں میں عام طور پر کیکر یا شیشم کے درخت ہوتے ہیں۔مگر چوہدری کی زمین پر درمیان میں ایک بڑا پیپل کا درخت تھا۔
ایک بار ہؤا یوں کہ کمہاروں کی جوان سالہ لڑکی گھر سے غائب ہو گئی۔سب گاؤں والے اسے تلاشِ کرتے کرتے جب پیپل کے درخت کے پاس گئے تو اسے عجیب حالت میں پایا۔
نہ اسے کوئی ہوش تھا۔بال بکھرے ہوئے ۔آنکھیں سرخ اور سانسیں اتنی تیز چل رہی تھی جیسے ابھی کہیں سے لمبا سفر طے کر کے آئی ہو۔
بے ہوشی کی حالت میں اسے گھر لایا گیا اور مولوی صاحب کو بلا کر دم درود کرایا گیا۔
مگر اب ایسا اکثر ہوتا لڑکی رات کو اچانک سے غائب ہو جاتی اور ملتی صبح پیپل کے درخت کے نیچے سے بے ہوشی کی حالت میں۔
جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔
کمہار اللہ دکھا بے چارہ ایک غریب آدمی تھا۔اسکی غربت اسے موقع ہی نہیں دیتی تھی کہ لڑکی کو شہر کے کسی ہسپتال سے چیک کرایا جائے۔
یا اسے کسی اچھے پیر بابا سے دم درود
گاؤں کے مولوی کے دم درود کا لڑکی پر کوئی اثر نہیں ہو رہا تھا۔الٹا حالت روز بروز بگڑتی جا رہی تھی۔ پہلے جہاں وہ ہفتے میں ایک آدھ بار جنونی کیفیت میں مبتلا ہوتی تھی اب تو اکثر و بیشتر اسی حالت میں پیپل کے درخت کے نیچے پائی جاتی تھی۔
بے چارے اللہ رکھے نے اب اس کو اسکی حالت پر چھوڑ دیا تھا ۔بس اگر وہ شام کو گھر نہ ہوتی تو جاکے اسے پیپل والے درخت کے پاس سے لے آتا۔
اور لڑکی نے تو گویا پیپل والے درخت کو اپنا گھر ہی بنا لیا تھا۔
چھوٹا چوہدری جاوید اور کامہ کھیتوں میں پہنچ کر ملکوں کے بندوں سے اپنا پانی باندھ چکے تھے۔
اوہ ماجے جا پیپل کے نیچے دیکھ آ۔کمہاروں کی لڑکی ہے یا نہی
جاوید نے ماجے کو چڑانے کے انداز میں کہا
تو ماجے کا رنگ ہی اڑ گیا۔
اوہ چھوٹے چوہدری جی دعا مانگو اللہ سے وہ آج ادھر نہ ہو۔آج جمعرات بھی ہے یاد رکھو
میں نے بڑے بزرگوں سے سنا ہے کہ جمعرات ان ہوائی مخلوق کے لیے بڑا دن ہوتا ہے۔اور انسانوں کو اس رات باہر ایسے نی گھومنا چاہئیے۔
باقی اللہ بہتر جانتا ہے۔
اوئے تو آج مجھے عالم کیوں لگ رہا ہے۔وہ دیکھ تیرے پیچھے کیا چیز کھڑی ہے۔جاوید نے ہنسی روکتے ہوئے کہا۔تو ماجا ایسے اچھلا جیسے اس کا پاؤں سانپ پر آ گیا ہو۔
چھوٹے چوہدری اللہ واسطے میرے ساتھ ایسے مذاق نہی کیا کرو۔میری جان نکل جاتی ہے۔
اوئے ابھی تو مغرب ہو رہی ہے اور تو آدھی رات کی طرح ڈر رہا ہے۔مرد بن مرد
شادی ہوگئی تیری تو بیوی کا خیال کیسے رکھے گا
وہ دونوں ایسے باتیں کرتے کرتے پیپل کی طرف کو چل پڑے۔ماجا جو آگے چل رہا تھا اب رک کر جاوید کے پیچھے ہوگیا تھا۔
ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی۔پیپل کے پتے گویا ہوا میں جھوم رہے ہوں ۔ہلکے اندھیرے میں پیپل کا یہ درخت کسی بد مست ہاتھی کے جیسے لگتا تھا۔درخت کافی پرانا اور اسکا تنا کافی بڑا تھا ۔
درخت کے نیچے سوکھے پتوں کے چھوٹے چھوٹے ڈھیر لگے ہوئے تھے۔جیسے ابھی گاؤں کے بچے کھیل کے گئے ہوں۔
ہوا کے جھونکوں سے سوکھے پتوں میں عجیب سی سرسراہٹ ہو رہی تھی۔
ماجا تو ادھر ادھر ایسے دیدے پھاڑ کے دیکھ رہا تھا۔جیسے اگر کملی زمین کے نیچے بھی چھپی ہوگی تو وہ اسے دیکھ لے گا۔
ماجے ڈر نئی چاچا اللہ رکھا لے گیا ہو گا اسے شام سے پہلے
جاوید نے اسے تسلی دیتے ہوئے کہا
اور اگر وہ رات کو یہاں آ گئی تو
ماجے نے دھیمی سی آواز میں جواب دیا
جیسے کہ اسے ڈر ہو کملی اپنا ذکر سن کر کہیں سے آ ہی نہ جائے۔
اوئے ماجے دیکھ کتنا سکون ہے یہاں،لوگ ایسے ڈرے ہوئے ہیں اس درخت سے
چل ہاتھ دھو اور کپڑا بچھا نیچے
بڑے زوروں کی بھوک لگی ہے
دیکھ چوہدرانی جی نے کیا بنا کے دیا ہے۔
بکرے کا گوشت ہے جی۔میں خود رانے قصائی سے لے آیا تھا دوپہر میں
وہ بڑا دو نمبر آدمی ہے ساری ہڈیاں دی ہونگی
نا جی میں خود اسکے اوپر کھڑا ہو کے گوشت
بنوایا تھا۔ماجا پہلی بار سینہ چوڑا کر کے بولا
چل کپڑا بچھا جاوید نے اس کے ہاتھ سے گھٹڑی لیتے ہوئے کہا۔
ماجے نے ایک بڑی چادر نما کپڑے کو کھول کر نیچے بچھایا۔ وہ دونوں اس پر بیٹھ گئےاور روٹیوں والا رومال کھولنے لگے۔جیسے جیسے کپڑا کھل رہا تھا
کھانے کی خوشبو باہر آنا شروع ہو گئی تھی
واہ بڑے مزے کا لگ رہا ہے جاوید نے ہلکارہ مارتے ہوئے کہا
مزے کا کیوں نہ ہو جی
چوہدرانی بی بی نے اپنے ہاتھوں سے بنایا ہے
چھوٹے چوہدری آپکو ایک بات بولوں
بول ماجے بول۔سب بول دے جاوید نے قہقہہ لگاتے ہوئے کہا
چوہدرانی بیبی آپکو بہت پیار کرتی ہے۔آپ خیر سے انکی اکلوتی اولاد ہو نا
کہتی بڑی منتوں سے دعاؤں سے اللہ سے مانگا ہے جاوید کو
اسکا خیال رکھا کر
اوئے۔ بےوقوفا
بندے کی زندگی سے جب ماں باپ چلے جاتے ہیں نہ تو زندگی کڑی دھوپ کی طرح بن جاتی ہے۔انسان سر سے لے کر پاؤں تک جلتا رہتا ہے
ماں باپ تو اللہ تعالٰی کی بڑی رحمتوں میں سے ایک رحمت ہیں۔
اور تو یہ بتا پھر میرا خیال تو کرتا ہے یا میں تیرا
اب کی بار ماجے نے زور سے قہقہہ لگایا تو جاوید بھی ہنس پڑا۔
اندھیرا اب کافی ہو گیا تھا ۔گاوں کے کتے گیدڑوں کی آوازوں پر بھونکنا شروع ہو گئے تھے۔دونوں بڑے سکون سے کھانا کھانے میں مصروف تھے۔
کہ اچانک انکو پیپل کے پیڑ کی دوسری طرف سے خشک پتوں کی چرچراہٹ سنائی دی
جیسے کوئی تیز قدموں سے انکی طرف آ رہا ہو
مگر درخت کے بڑے تنے کی وجہ سے وہ اسے نہی دیکھ پا رہے تھے۔
ماجا تو کھسک کر جاوید کے قریب ہو گیا تھا
اندھیرے کی وجہ سے وہ زیادہ دور نہیں دیکھ سکتے تھے۔
ماجے ٹارچ لائٹ جلاو
اور دیکھو کون ہے وہاں
قدموں کی آواز تنے کی دوسری طرف رک گئی تھی
جاوید نے زور سے کہا
کون ہے بھئی۔رک کیوں گئے ہو۔یہاں آو
مگر وہاں سے کوئی آواز نہیں آئی گویا وہاں کوئی ہو ہی نہی۔
ماجے دیکھ کون ہے وہاں ،روشنی کر ذرا
ماجا آگے بڑھنے کی بجائے ترچھا ہو کر ٹارچ لائٹ سے دیکھنے کی کوشش کر رہا تھا
جاوید ابھی بھی کھانا کھانے میں مصروف تھا مگر
اسکی نظریں مسلسل دوسری طرف تھی۔
جیسے ماجا ڈرتے ہوئے آگے بڑھا اور روشنی دوسری طرف ڈالی
آگے کا منظر دیکھ کر زور سے چلایا
چھوٹے چودھری۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔جاری ہے
جیسے ہی ماجے نے آگے کا منظر دیکھا
زور سے چلایا
چھوٹے چودھری
مگر اسکی آواز اگلے لفظوں تک بالکل دب گئی
اور وہ گھگیانے کے انداز میں بولا
ککککک۔۔۔ممم۔۔۔للی
اتنے میں جاوید ذرا محتاط انداز میں وہاں بڑھا جہاں سے ماجا ساکت ہوا کھڑا تھا
اور ابھی بھی کچھ بولنے کی مسلسل ناکام کوشش کر رہا تھا۔
تنے کی دوسری طرف مکمل اندھیرا تھا۔یہ مہینے کے آخری ایام چل رہے تھے۔جس کی وجہ سے چاند بھی ابھی نہی نکلا تھا۔
جاوید نے پہلے ماجے کو پیچھے کھینچا اور اس کے کانپتے ہاتھوں سے ٹارچ لائٹ اپنے ہاتھوں میں لی
اور وہاں روشنی ڈالی جہاں ابھی تک وہ نہی دیکھ سکا تھا۔
جیسے ٹارچ لائٹ کی روشنی وہاں پڑی جہاں بقول ماجے کے کملی تھی اسکی اپنی سانسیں اوپر کی اوپر اور نیچے کی نیچے رہ گئیں۔
جاوید کوئی بزدل جوان نہی تھا اور نہ وہ پہلی بار کھیتوں کو پانی لگانے آیا تھا اس سے پہلے وہ کئی بار اکیلے میں پانی لگانے آتا تھا۔اسی پیپل کے نیچے بیٹھ کر اپنا وقت گزارتا تھا۔اپنی زمینوں کے چپے چپے سے واقف تھا وہ۔
انہی زمینوں پر آتے جاتے تو وہ جوان ہوا تھا۔
یہ بھی اتفاق کی بات ہے کہ جب سے کملی پر جنونی کیفیت طاری ہوئی تھی اس نے اسے نہی دیکھا تھا۔
کملی تو گاؤں کے لوگوں نے اس کا نام رکھا تھا ورنہ تو اس کا اصلی نام رانی تھا۔
وہ جس رانی سے واقف تھا وہ تو جواں سالہ خوبرو حسین لڑکی تھی۔بھلے بیچاری سادے کپڑے پہنتی تھی مگر اس کا حسن مہنگے کپڑوں کا محتاج نہی تھا۔
لیکن اب جو وہ دیکھ رہا تھا ۔وہاں ایک لڑکی سر اپنی ٹانگوں میں دبائے بیٹھی تھی۔سفید رنگ کے کپڑے کافی میلے ہو گئے تھے جو اسکی پر اسراریت کو اور بڑھا رہے تھے۔اس کے لمبے کالے بال زمین کو چھو رہے تھے۔اور وہ مسلسل روئے جا رہی تھی۔
کافی خوفناک منظر تھا۔وہ زندگی میں پہلی بار ایسے تجربے سے گزر رہا تھا۔ابھی وہ بغور اسے دیکھ ہی رہا تھا۔کہ اچانک اس لڑکی نے سر اوپر اٹھایا اور زور سے قہقہہ لگایا کہ جاوید بے ہوش ہوتے ہوتے بچا۔
پہلی بار اس نے اسکا چہرہ اس جنونی حالت میں دیکھا۔وہ رانی تھی جو اب کملی بن چکی تھی۔
زرد چہرہ ۔الو کی طرح گھومتی مگر سرخ آنکھیں سانسوں کی بے ترتیبی بتا رہی تھی۔کہ وہ کسی ان دیکھی مخلوق کے زیر اثر ہے۔
ماجے نے یقیناً اس کا چہرہ نہی دیکھا تھا
ورنہ وہ بے ہوش ہو چکا ہوتا۔
اتنے میں کملی نے ہاتھ زمین پر ٹیکے اور کھڑے ہوکے چلنے کی کوشش کرنے لگی جیسے 3 سال کا بچہ لڑکھڑا کر چلتا ہے،ویسے وہ چل رہی تھی
دو قدم چل کر وہ تنے کے پیچھے سے نکل کر سامنے آگئی تھی۔یقینا ماجے نے اب اسے دیکھ لیا تھا
جو وہ پیچھے ہٹتے ہوئے چیخ کر بولا
چھوٹے چوہدری بھاگو بھاگو بھاگو
یہ کملی ہے۔بھاگو
وہ مسلسل لڑکھڑا کر چل رہی تھی اور اسی کی طرف بڑھ رہی تھی۔خشک پتے بار بار اس کے پاؤں کے نیچے چٹخ رہے تھے اور ماحول کو اور زیادہ بھیانک بنا رہے تھے۔اچانک اس کا لاغر لڑکھڑاتا جسم ہوا میں بلند ہوا اور وہ زور زور سے رونے لگ گئی۔ اس کے کالے بال ہوا میں لہرا رہے تھے۔یہ وہ منظر تھا جسے ماجا دیکھ کر چلاتے ہوئے بے ہوش ہو کر زمین پر گیا تھا۔
رونے کی آواز بلیوں کی غراہٹ میں بدل چکی تھی جیسے کئی بلیاں آپس میں لڑ رہی ہوں۔اور یہ شور بڑھتا ہی جا رہا تھا۔ہوا بھی تیز ہو گئی تھی جس سے پیپل کے سوکھے پتے تیزی سے نیچے گرنا شروع ہو گئے تھے۔
اب اس میں کوئی شک نہیں رہا تھا کہ رانی کسی مافوق الفطرت چیز کے زیر اثر ہے۔وہ مضبوط اعصاب کا مالک تھا مگر آہستہ آہستہ اس کے اعصاب بھی جواب دے رہے تھے۔
اسے خود کو مضبوط رکھنا تھا اپنے لیے اور ماجے کے لیے۔ورنہ یہ رات ان دونوں کے لیے آخری رات بھی ثابت ہو سکتی تھی۔
اس ساری صورتحال میں وہ خود کو کسی ان دیکھے حصار میں جکڑا ہوا محسوس کر رہا تھا۔
اس کے ہاتھ اور ٹانگیں جیسے کسی نے باندھ دیے ہوں۔زبان گنگ ہو چکی تھی۔بلیوں کے لڑنے کی آواز جیسے جیسے بلند ہو رہی تھی ویسے ویسے وہ ہوش کھو رہا ہے۔اود اتنا ہی رانی کا جسم پیپل کے اوپر گھوم رہا تھا۔
کہتے ہیں جب انسان مشکل میں ہوتا ہے
یا تو دعا کام آتی ہے چاہے اپنی ہو یا کسی دوسرے کی یا قسمت۔
00000000
چوہدرانی کو آج بالکل بھی سکون نہی تھا ہوتا بھی کیسے
محلے کی سب عورتیں اسے کملی کے بارے میں روز بتاتی تھیں۔جس پیپل کا پیڑ اس کا مسکن تھا آج اسکا بیٹا وہاں کھیتوں کو پانی لگانے گیا ہوا تھا۔
چوہدری اسکی بے چینی بار بار دیکھ رہا تھا
آخر کار بول پڑا۔
بھلی مانس ایں۔سو جا
تیرا پتر جی دار جوان ہے۔وہ کوئی بچہ تو نہی جو کوئی چیل اسے اٹھا جائے گی۔ابھی آتا ہی ہوگا
اور ماجا بھی تو اس کے ساتھ ہے۔فکر نہ کر سو جا
مگر چوہدرانی کو سکون کیسے آتا
بولی میرا دل بیٹھا جا رہا ہے
اور کچھ نہی کر سکتے تو بس ایک کام کرو کمہاروں کے گھر جا کر بس پتہ کرو کہ کملی گھر میں ہے یا نہی۔
پاگل مت بنو
رات کے اس پہر کسی کا دروازہ کھٹکھٹانا اچھی بات نہی۔ چوہدری نے ڈانٹتے ہوئے کہا۔
اچھا آپ نہی جاتے تو نہ جاؤ میں جا رہی
میرا دل بیٹھا جا رہا ہے
یہ کہہ کر اس نے پلنگ سے اتر کر جوتی پہن لی۔
بادل ناخواستہ چوہدری بھی اٹھ کھڑا ہوا
وہ چوہدرانی کی بے چین طبیعت سے واقف تھا
کمہاروں کا گھر حویلی سے ذرا ہی دور تھا۔
تھوڑی دیر میں چوہدری کمہاروں کا پرانا دروازہ کھٹکھٹا رہا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دوسری دستک پر اندر سے کمہار اللہ رکھا کی آواز آئی
کون ہے بھائی۔۔۔۔آ رہا ہوں
آ رہا ہوں
شاید وہ اندھیرے میں سنبھل سنبھل کے چل رہا تھا
قریب آ کر اس نے دوبارہ پوچھا
کون ہے بھائی
چوہدری نے کھنکھارتے ہوئے جواب دیا
اوہ میں ہوں چوہدری قادر بخش بھائیا
اوہ چوہدری صاحب
کمہار اللہ رکھا نے حیرت کا اظہار کرتے ہوئے جلدی جلدی دروازہ کھولتے ہوئے جواب دیا۔خیر تے ہے اس وقت چوہدری صاحب
مگر اسکو حیرت کا دوسرا جھٹکا تب لگا،جب اس نے چوہدرانی کو دیکھا
بھاگ لگے رہن میرے اچھے نصیب
میری بہن چوہدرانی ہمارے گھر آئی ہے،اندر آو چوہدرانی بی بی،اندر آو
بھائی اللہ رکھا
ہم نے آپ کو پریشان کیا بات یہ ہے کہ میرا دل ڈوبا جا رہا تھا،نیند نہی آ رہی تھی۔
وہ آپکا بھتیجا چھوٹا چوہدری کھیتوں میں پانی لگانے گیا ہوا ہے ۔پیپل والی زمین کی طرف
وہ ابھی تک آیا نہی
بس پوچھنا تھا کہ آج رانی بیٹی گھر پر ہی ہے کہ نہی۔
چوہدرانی بی بی شام کو میں رانی کو لے آیا تھا مگر آج اس کی حالت اندھیرا ہوتے ہی پھر خراب ہو گئی۔اور وہ جیسے اڑ کے کہیں چلی گئی ۔
اب تو کافی رات ہو گئی ہے میں بھی سارا دن کام کر کے تھک گیا تھا اس لیے اسے لینے نہی گیا
آپ کو تو پتہ ہے وہ ہوتی ادھر ہی پیپل کے پاس ہے
ہائے میرا اللہ
جیسے چوہدرانی نے یہ سنا کہ کملی گھر پر نہی اب اس کو یقین ہو چلا تھا کہ اس کے بیٹے کی زندگی خطرے میں ہے۔زور سے آہ کاری کی۔
اس کی آواز سن کر پاس کے گھر کا دروازہ کھلا اور مولوی صاحب آنکھیں مسلتے ہوئے پریشانی کے عالم میں باہر نکلے۔
اور چوہدری ،چوہدرانی کو دیکھ کر مزید شش و پنج میں مبتلا ہو گیا۔
اس سے پہلے کہ وہ کچھ کہتا
چوہدرانی بول پڑی
مولوی صاحب رانی گھر پہ نہی ہے،اور جاوید پتر پیپل والی زمین کو پانی لگانے گیا ہوا ہے
مجھے ڈر ہے کہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ چوہدرانی آگے خاموش ہو گئی۔یہ بات ہے تو چلو میرے ساتھ مگر آپ چوہدرانی بی بی گھر جائیں۔
باقی اللہ خیر کرے گا۔
......000000.......
کملی جو پیپل کے درخت پر خوفناک بلیوں کی غراہٹ میں گھوم رہی تھی۔
اب آہستہ آہستہ نیچے آنا شروع ہو گئی تھی
جاوید مکمل ان دیکھے حصار میں قید تھا چاہتے ہوئے بھی حرکت نہی کر سکتا تھا۔صرف آنکھیں تھیں جو یہ دیکھ رہی تھی۔احساس تھا جو یہ سب محسوس کر رہا تھا۔
ماجا تو بے چارہ کب کا اس سب سے بے خبر بے ہوش ہو چکا تھا۔
کملی نیچے اس کے سامنے آ کر کھڑی ہو گئی
اور غصے میں چلائی
تمہیں نہی پتہ یہ میرا گھر ہے،میرا گھر
۔تیری جرات کیسے ہوئی یہاں آنے کی۔اب میں تیرا وہ حشر کروں گی کہ کسی کی ہمت نہی ہوگی دوبارہ ادھر کو منہ کرنے کی۔یہ زمینں بنجر ہو جائیں گی ۔اور زور سے چیخ ماری کہ جاوید کے کان کے پردے ہل گئے۔
جاوید نے محسوس کیا کہ کملی کی شکل بگڑ رہی ہے۔اس کے سامنے کے دانت آگے کو بڑے ہو رہے ہیں
چہرے پر کسی ہزار سالہ بڑھیا کے جیسے جھریاں پڑ گئی تھی۔پاوں پیچھے کو مڑنا شروع ہو گئے تھے
ناخن لمبے اور ہاتھوں پر لمبے کالے بال اگنا شروع ہو گئے تھے۔اسکی شکل رانی سے کسی عجیب و غریب خوفناک عفریت میں بدل چکی تھی۔وہ نہ اب انسان معلوم ہوتی تھی نہ جانور
اس حالت میں اگر کوئی بہادر سے بہادر انسان بھی اسے دیکھتا تو حرکت قلب بند ہونے سے مر جاتا۔
جاوید کو اپنے بازوؤں میں درد کی ایک ٹیس اٹھتی محسوس ہوئی۔کوئی ان دیکھی طاقت اس کے دونوں بازو مروڑ رہی تھی۔یقینا یہ اس چڑیل کا طلسم تھا۔درد برداشت سے باہر ہو رہا تھا
وہ کچھ کرنے سے قاصر تھا۔وہ چلانا چاہتا تھا
کچھ پڑھنا چاہتا تھا مگر آواز تو اس کے حلق میں جیسے کہیں پھنس گئی تھی۔
اب وہی درد اسکی ٹانگوں
میں شروع ہو گیا تھا۔خود بخود اس کی ٹانگیں مڑ رہی تھیں۔وہ نیچے زمین پر گر پڑا تھا۔
پہلے تیرا ایک ایک جوڑ توڑوں گی پھر تجھے کھاؤں گی۔تیری ہڈیاں بھی نہی ملیں گی کسی کو
وہ آگے بڑھی اور اپنے لمبے تیز ناخن سے جاوید کی گال پر ایک خراش لگائی جب ذرا سا خون رسنا شروع ہوا تو اسکی زبان بلی کی غراہٹ کے ساتھ باہر نکلی اور خون کو چاٹنے لگی۔
ھاھاھاھاھاھاھا
بڑے مزے کا ہے ۔بڑے مزے کا ہے
تمہیں اسی پیپل کے درخت پر مار کر لٹکا دوں گی
اور ہر روز تیرا ایک ایک حصہ کھاؤں گی۔
بڑی اذیت ناک موت مرے گا تو
ھھاھاھاھاھاھھاھاھا
مگر اسکی ہنسی لمحے بھر کو رک کر رونے کی آواز میں بدل گئی۔
جاوید کو اپنے کانوں میں اپنے بابا اور کمھار اللہ رکھا اور مولوی صاحب کی آواز سنائی دینے لگی
جو زور زور سے
اعوذباللہ من الشیطان الرجیم
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم
پڑھ رہے تھے اور مولوی صاحب
آیت الکرسی کا ورد کر رہے تھے۔
جیسے یہ آوازیں چڑیل کے کانوں میں پڑی وہ دوبارہ سے ہچکیاں لیتے ہوئے کملی کے روپ میں واپس آنے لگی اور ایک کالے دھویں کی شکل میں کملی کے جسم سے نکل کر ہوا میں غائب ہو گئی۔کملی کا جسم کسی کٹے ہوئے تنے کی مانند زمین پر گر گیا۔
اور جاوید کو بھی اب اپنے ہاتھ پاؤں میں حرکت محسوس ہونے لگی۔وہ جیسے کھڑا ہوا چوہدری مولوی اور اللہ رکھا بھی وہاں پہنچ گئے۔
پتر تو ٹھیک تو ہے نا
چوہدری نے جاوید کو گلے لگاتے ہوئے پوچھا
اللہ رکھا اپنی بے ہوش بیٹی کو ہلا رہا تھا جبکہ مولوی صاحب ماجے کے منہ پر جگ سے پانی کے چھینٹے ڈال رہا تھا۔
اللہ نے کرم۔کیا ابا جی
آپ وقت پر آ گئے ورنہ وہ ابھی ہمیں مارنے ہی والی تھی۔وہ بہت بڑی بلا ہے جس نے رانی پر قبضہ کیا ہوا ہے۔مگر جیسے آپ لوگ ورد کرتے ہوئے آئے وہ دھواں بن کر ہوا میں غائب ہو گئی۔
پتر اللہ کا کلام حق ہے سچ ہے ۔بڑی طاقت والا ہے
مگر میں ٹھہرا سیدھا سادھا سا امام مسجد
یہ بلا میری طاقت سے باہر ہے
آپ لوگ شہر سے کسی عالم کو بلائیے جو اسے ٹھکانے لگائے۔
ورنہ آپ لوگوں کی زندگیوں کو اب خطرہ رہے گا
اور جلدی کرو یہاں سے نکلو
یہاں رہنا خطرے سے خالی نہی۔
اتنے میں ماجے کے بے سدھ جسم نے حرکت کی اور وہ بدکے ہوئے بکرے کی طرح اٹھ کھڑا ہوا۔
اوہ میرا بہادر پتر ہوش میں آگیا
چوہدری نے ماجے کو تھپکی دیتے ہوئے کہا
چل پتر سامان اٹھاؤباقی باتیں گھر کریں گے،چوہدرانی بڑی پریشان ہو گی۔
جاوید پتر تم رانی بیٹی کو کندھے پر اٹھاو
میں کل ہی کسی کو شہر بھیجتا ہوں کسی عالم کو بلانے کے لیے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔جاری ہے
چوہدری کا بھیجا ہوا بندہ 3 دن پہلے شہر سے ایک بزرگ عالم بابا کو لے آئے تھے۔
مگر حیران کن طور پر کملی پر ابھی تک اس چڑیل کا حملہ نہی ہوا تھا۔
سب کچھ معمول کے مطابق چل رہا تھا۔
جاوید بھی اس واقعے کے بعد سنبھل چکا تھا۔
ماجا البتہ کملی یا پیپل کے نام سے اب بہت ڈرتا تھا۔ بزرگ بابا روز چوہدری کے ڈیرے پر مراقبہ کر رہا تھا۔مگر ابھی تک اسے چڑیل کا کوئی سراغ نہیں مل سکا تھا۔
آج سوموار کا دن چاند کی 27 تاریخ تھی۔عصر سے ہی زور کی ہوا چل رہی تھی۔جو کہ اب آندھی کی شکل اختیار کر چکی تھی۔دیہاتی علاقہ ہونے کی وجہ سے ہوا میں بہت مٹی اڑ رہی تھی۔
عالم بابا اپنے معمول کے مراقبے میں بیٹھا تھا۔کہ کمہاروں کے گھر سے اچانک بڑے زور کی بلیوں کی غراہٹیں آنا شروع ہو گئی۔گلیوں کے آوارہ کتے بھونکنے کی بجائے سہم گئے تھے۔
عالم بابا جو آنکھیں بند کر کے مراقبے میں تھے اپنی آنکھیں کھول دیں۔
اور ہاتھ میں پکڑی تسبیح پر جلدی جلدی ورد کرنا شروع کر دیا۔اور ساتھ ساتھ ہاتھ میں پکڑے پانی پر پھونکیں مارنی شروع کردی۔تھوڑی دیر کے بعد وہ کمرے میں لٹکتی لالٹین کو تھامے کمرے سے باہر نکل آئے۔ہوا مسلسل تیز چل رہی تھی۔جس کی وجہ سے لالٹین کی لو کبھی کم اور کبھی ذیادہ ہو رہی تھی۔صحن میں لالٹین کی روشنی دیکھ کر جاوید بھی اپنے کمرے سے نکل آیا تھا۔
جاوید کو دیکھ کر عالم بابا مسکرا دیئے۔اور ہاتھ میں پکڑا پانی کا برتن اسے تھما دیا۔اور اسے خاموشی سے اپنے پیچھے آنے کو کہا۔
گاؤں کی گلیوں سے ہوتے ہوئے وہ دونوں پیپل والی زمین کی طرف چل پڑے۔تو جاوید عالم بابا کا مقصد سمجھ گیا۔تھوڑی دیر کے بعد انہیں پیپل کا پیڑ تیز ہوا میں جھومتا ہوا نظر آنا شروع ہوگیا۔تو جاوید کی آنکھوں میں کچھ دن پہلے کے مناظر گھومنا شروع ہو گئے۔
پیپل کا پیڑ رات کے اندھیرے اور تیز آندھی میں بہت وحشت ناک لگ رہا تھا۔ایسے لگتا تھا پورا پیڑ چڑیل کا روپ دھار چکا ہے۔۔پیڑ کے نیچے پہنچ کر بابا نے ہاتھ میں پکڑی چھڑی کی مدد سے ایک دائرہ لگایا۔اور جاوید کو مخاطب کرتے ہوئے کہا
جاوید بیٹا اس دائرے میں آ جاو۔اللہ آپکی حفاظت کرے گا ۔کچھ بھی ہو جائے تم نے اس سے باہر نہی نکلنا۔اور نہ مجھے آواز دینی ہے۔اور نہ کسی آواز کا یقین کرنا ہے۔جب تک کہ میں نہ کہوں۔
اور اس پانی کا خیال کرنا۔میں پیڑ کے دوسری جانب جا رہا ہوں۔
یہ کہہ کر عالم بابا جاوید کا کندھا تھپتھپا کر پیڑ کی دوسری طرف چلے گئے۔
جاوید دائرے کے اندر پانی کے برتن کو دونوں ہاتھوں سے تھام کر بیٹھ گیا۔کافی دیر ہو گئی تھی۔کچھ بھی نہی ہوا تھا۔
عالم بابا کی بھی کوئی آواز نہی آ رہی تھی جس سے وہ سمجھ گیا کہ وہ ایک بار پھر مراقبے میں ہیں۔کہ اتنے میں اسے پگڈنڈی پر پائل کے بجنے کی آواز آنا شروع ہوئی جیسے کوئی عورت ادھر کو آ رہی ہو ۔آواز تو قریب قریب آ رہی تھی۔مگر کوئی وجود اسے ابھی تک نظر نہیں آیا تھا۔
پھر پائل کی آواز بلی کی غراہٹوں میں بدل گئی۔جیسے کئی بلیاں ایک دوسرے پر غرا رہی ہوں۔
خوف کی ایک لہر اس کے بدن میں سرایت کر گئی جب اس نے ۔سامنے والی پگڈنڈی پر کملی کو آتے دیکھا۔بلیوں کی غراہٹیں اسکے منہ سے نکل رہی تھیں۔جیسے جیسے وہ پیڑ کے قریب آ رہی تھی اس کی ہییت بدل رہی تھی۔اب وہ کملی سے چڑیل میں بدل چکی تھی۔اس کی موجودگی میں ماحول اور بھیانک ہو گیا تھا۔
اچانک اس نے ایک چیخ ماری اور ہوا میں بلند ہو کر پیپل کے گرد گھومنے لگی۔جب وہ نیچے زمین پر اتری تو ایک خونخوار بھیڑیے کی شکل اختیار کر چکی تھی۔جو پیڑ کے دوسری طرف منہ کر کے غرا رہی تھی۔اچانک پیڑ کے دوسری طرف سے ایک دیو ہیکل شیر نمودار ہوا۔شیر نے آتے ہی بھیڑیے پر حملہ کر دیا۔دونوں ایک دوسرے کی گردن پر وار کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔اس لڑائی میں کبھی بھیڑیا ہاوی ہو رہا تھا تو کبھی شیر۔ مگر مجموعی طور پر شیر کا پلڑا بھاری ہو رہا تھا۔ بھیڑیا اب مدافعاتی لڑائی لڑ رہا تھا اور ایسے لگتا تھا
جیسے بھاگنے کے چکر میں ہے مگر شیر اس کو یہ موقع نہی دے رہا تھا۔
اتنے میں بھیڑیا ہوا میں بلند ہوا شیر نے اسے دبوچنے کے لیے جست لگائی مگر وہ کالا دھواں بن کر ہوا میں تحلیل ہو گیا۔
شیر واپس جہاں سے آیا تھا وہی واپس چلا گیا
بظاہر چڑیل اور عالم بابا کی پہلی لڑائی میں جیت عالم بابا کی ہوئی تھی۔
مگر یہ تو شروعات تھی ابھی۔
اتنے میں اردگرد سے ایک بار پھر بلیوں کی غراہٹوں کی آوازیں آنا شروع ہو گئی۔اور آس پاس سے سینکڑوں بلیاں کھیتوں سے نکل کر پیڑ کے نیچے جمع ہو گئیں ۔ان بلیوں کی جسامت اور ہیئت عام بلیوں سے قدرے مختلف تھیں۔دیکھتے ہی دیکھتے وہاں پر تل دھرنے کو جگہ بھی نہی بچی تھی۔مگر کسی بلی نے ابھی تک دائرے کی لکیر کو عبور نہی کیا تھا۔اسے انتظار تھا کہ اب عالم بابا کس روپ میں آتے ہیں۔مگر پیڑ کے دوسری طرف مکمل خاموشی تھی۔کافی دیر تک بلیاں بیٹھی غراتی رہیں۔اور آخر کار جہاں سے آئیں تھیں
واپس کھیتوں میں گم ہو گئیں۔
بلیوں کے جاتے ہی جاوید نے سکھ کا سانس لیا۔ابھی تک وہ یہ ڈرامہ دیکھ رہا تھا مگر نہ ہی بھیڑیے نے اور نہ ہی بلیوں نے اس پر حملہ کیا تھا۔آندھی رک چکی تھی مگر پیپل کا پیڑ بدستور ان دیکھے طوفان کا سامنا کر رہا تھا۔
اتنے میں اسے کھیتوں سے سرسراہٹ کی آواز آنا شروع ہو گئی۔ایک بہت بڑا کالے رنگ کا اژدھا اب کی بار سیدھا اسی کی طرف بڑھ رہا تھا۔
اتنا بڑا اژدھا اسنے زندگی میں پہلی بار دیکھا تھا۔اس کے جی میں آیا کہ اٹھ کر کھیتوں میں دوڑ لگا دے مگر عالم بابا کے الفاظ اسے یاد تھے۔کہ کچھ ہو جائے اس دائرے سے نکلنا نہی ہے۔ازدھا سیدھا اس کے پاس آ کر کھڑا ہو گیا۔ازدھے کی جسامت اسکی جسامت سے کوئی چار گنا بڑی تھی ۔اگر وہ منہ کھول لیتا تو جاوید کو پورے کا پورا نگل سکتا تھا ۔ازدھے نے دائرے کا چکر لگایا اور پھنکارتے ہوئے واپس کھیتوں میں چلا گیا۔
اس کے جاتے ہی ایک بار پھر اسے پائل کی آواز آنا شروع ہو گئی۔
سامنے کے راستے سے ایک عورت بنی سنوری دلہن کے لباس میں آ رہی تھی۔عورت اندھیرے میں بھی چاند کی طرح چمک رہی تھی۔مگراس نے چہرہ نقاب میں چھپایا ہوا تھا
جاوید کے قریب آ کر اس نے نقاب ہٹا دیا
یہ تو کملی تھی۔جو مکمل دلہن بنی ہوئی تھی ۔اور اتنی خوبصورت کہ پہلے اس نے اتنی حسین عورت نہی دیکھی تھی۔وہ جاوید کو دیکھ کر مسلسل مسکرا رہی تھی۔
آؤ جاوید ہم اپنی دنیا میں چلتے ہیں۔جہاں کوئی نہی ہوگا آپ ہوں گے ۔میں ہوں گی
اور ہماری محبت
آؤ جاوید آو ۔خود کو اس دائرے میں قید نہ کرو
دیکھو میں تمہارے لیے بن سنور کے آئی ہوں
دیر نہ کرو آو آؤ آؤ ۔وہ مسلسل اسے پکارے جا رہی تھی۔اسکی آواز میں جادو تھا۔طلسم تھا۔اس نے محسوس کیا کہ وہ اپنا اختیار کھو رہا ہے۔قریب تھا کہ وہ اٹھ کر اس کے پاس چلا جاتا۔پیڑ کے دوسری طرف سے اسے شیر کی ایک گرجدار دھاڑ سنائی دی جس نے جاوید کے اٹھتے ہوئے قدم روک دیئے۔اور جاوید اس طلسم سے نکل آیا۔
وہ کملی نما عورت غصے میں پاؤں پٹختی پیڑ کے دوسری طرف چلی گئی۔جہاں عالم بابا گئے تھے۔
وہ غصے میں چلا رہی تھی۔تم کیا سمجھتے ہو
تم یہاں سے زندہ نکل جاؤ گے۔تم رانی کو آزاد کرا لو گے۔میں تم دونوں کو زندہ جلا دوں گی ۔
اسکی آواز میں کر خت پن تھا جس کی وجہ سے جاوید کو اپنے کانوں میں درد محسوس ہورہا تھا۔
اتنے میں پیپل کا پیڑ اتنی زور سے ہلا جیسے ابھی گر جائے گا۔پیڑ کی جڑیں تک زمین سے اکھڑ رہی تھیں۔اسے لگا کہ پیڑ ان دونوں کے اوپر گر جائے گا وہ اور عالم بابا نیچے دب کر مر جائیں گے۔پیڑ کے ہلنے میں شدد آ چکی تھی۔وہ بہت پریشان ہو گیا
اس نے دائرے سے نکلنے کا مکمل ارادہ کر لیا تھا
جیسے وہ نکلنے کے لیے اٹھا پیڑ کے پیچھے سے ایک بار پھر شیر جست لگا کر اس کے سامنے دھاڑنے لگا جیسے اسے دائرے سے۔نکلنے سے روک رہا ہو۔
وہ عالم بابا کا اشارہ سمجھ گیا اور اللہ کا نام لے کر پھر بیٹھ گیا۔
اسے بیٹھتا دیکھ کر شیر واپس چلا گیا۔
شیر کے جاتے ہی اسے عالم بابا کی آواز سُنائی دی
بیٹا جاوید مجھے پیاس لگی ہے ۔ادھر آ کر مجھے پانی دو۔
پانی دو
بہت پیاس لگی ہے آؤ بیٹا آؤ
چڑیل سے لڑتے لڑتے تھک گیا ہوں
اگر مجھے پانی نہ ملا تو میں مر جاؤں گا
میرے مرتے چڑیل تمہیں بھی مار دے گی
اللہ کے واسطے آؤ بیٹا
مجھے پانی دو ۔۔۔۔۔
عالم بابا اب باقاعدہ منتیں کر رہا تھا۔
مگر جاوید کو عالم بابا کے الفاظ یاد تھے کہ میری آواز کا یقین نہ کرنا اور دائرے سے باہر کچھ ہو جائے مت نکلنا۔وہ اپنے دونوں ہاتھوں سے پانی کو تھامے بیٹھا رہا۔
اب عالم بابا کی آواز میں غصہ آ گیا تھا ۔وہ باقاعدہ گالم گلوچ کر کے پانی مانگ رہا تھا ۔مگر جاوید ٹس سے مس نہی ہوا۔
تھوڑی دیر کے بعد عالم بابا کی آواز آنا بند ہوگئی اور بہت سی عورتوں کے رونے کی آوازیں آنا شروع ہو گئیں
وہ آپس میں بول رہی تھیں ۔
ہائے چڑیل نے چوہدری اور چوہدرانی کو مار دیا ہے۔کوئ جا کر چھوٹے چوہدری کو اطلاع دے
ہائے ہائے ہائے
یہ آوازیں سن کر اس کا دل۔ بیٹھ گیا
اس کے جی میں آیا کہ وھ عالم بابا کو آواز دے کر پوچھے۔کہ کیا یہ سچ ہے کہ نہی
وہ اسی مخمصے کا شکار تھا کہ پیڑ کے پھچے سے کملی نکل کر اس کے سامنے آ گئی۔اب کی بار وہ پرانے کپڑوں میں ملبوس خستہ حال لگ رہی تھی
اس کے ہاتھ خون سے رنگے ہوئے تھے۔
یہ دیکھ چوہدری اور چوہدرانی کو مار کر آ رہی ہوں
یقین نہی آتا تو جا کر دیکھ آو۔نکلو دائرے سے
اس کے پیچھے گاؤں کی طرف سے ابھی تک عورتوں کے بین کرنے کی آوازیں آ رہی تھیں
مگر اس نے چڑیل کو کوئی جواب نہ دیا۔اور خاموشی سے اسے دیکھتا رہا
مرو گے تم دونوں مرو گے
اب تم سب کو مار کر جاؤں گی یہاں سے
اتنے میں پیڑ کی دوسری طرف سے عالم بابا تیزی سے نکلے اور کملی کی ٹانگوں پر اپنی لاٹھی ماری
کملی کراہ کر نیچے گر ی اور عالم بابا نے جلدی سے اس کے گرد دائرہ لگا دیا۔
اور ہاتھ میں پکڑی تسبیح پر جلدی جلدی ورد کرنا شروع کر دیا۔کملی دائرے سے نکلنے کے لیے جیسے نکلی آگ کا ایک شعلہ اسکی طرف لپکا اور وہ فوراً پیچھے ہٹ گئی۔یہی اس نے دائرے کے دوسری طرف کیا وہاں بھی اس کے ساتھ ویسے ہوا
نکالو مجھے ۔نکالو مجھے یہاں سے
وہ زور زور سے چلا رہی تھی
مگر عالم بابا بس آنکھیں بند کر کے تسبیح پر ورد کیے جا رہے تھے۔
تھوڑی دیر کے بعد انہوں نے اپنی آنکھیں کھولیں اور کملی کی طرف دیکھ کر بولے
بتا کیوں تو نے اس بچی کو پکڑا ہوا ہے ۔بتا
ورنہ مرنے کے لیے تیار ہو جا اس کے ساتھ ہی عالم بابا نے جاوید کے ہاتھ سے پانی لے کر اپنے منہ پر چھڑکا
تو کملی مارے تکلیف کے زمین پر قلا بازی مارنے لگی
اور زور زور سے ناچنے لگی
رک جاؤ رک جاؤ
سب بتاتی ہوں
یہ بہت خوبصورت تھی۔روز اپنی ماں کے ساتھ یہاں گھاس کاٹنے آتی تھی۔مجھے اسکو دیکھ کر خود سے نفرت ہوتی تھی۔اس لیے میں نے اسے جکڑ کر اس کی خوبصورتی ختم کر دی۔وہ ناچتی ناچتی بولی
خوبصورتی چہروں پر نہی دلوں میں ہوتی ہے
اخلاق میں ہوتی ہے
چہروں کی خوبصورتی کے پیچھے بھاگنے والے اپنے مقصد سے بھٹک جاتے ہیں۔عالم بابا نے اسے مخاطب کر کے کہا
تو نے اپنی حد پھلانگ لی ہے اب تیرا واپسی کا کوئی راستہ نہی۔یہ کہہ کر عالم بابا نے ہاتھ میں پکڑی تسبیح کملی کے گلے میں ڈال دی
نہی نہی نہی مجھے مت مارو
مجھے جانے دو جانے دو
میں کبھی واپس نہیں آؤں گی۔مجھے جانے دو
وہ دونوں ہاتھوں سے تسبح کو تھامے ہوئے تھی
اس کے ہاتھوں اور گردن سے دھواں نکل رہا تھا
وہ بہت اذیت میں زمین پر تڑپ رہی تھی۔دھواں آہستہ آہستہ پھیل گیا اور اسکی آوازیں آنا بند ہو گئی۔
جیسے دھواں ختم ہوا کملی زمین پر بے ہوش پڑی نظر آئی۔عالم بابا نے اس کے چہرے پر اپنا پیر پھیرا تو وہ اٹھ کر بیٹھ گئی اور سر پر دوپٹہ ٹھیک کرنے لگ گئی۔
یہ ہم کہاں ہیں ۔مجھے کیا ہوا تھا
بیٹی بس آپکو ایک تکلیف تھی جس کا علاج ہو گیا ہے ۔شاباش یہ پانی پیو
اور ہم گھر چلتے ہیں
شاباش جاوید پتر میں نے تیرے جیسا بہادر جوان ۔نہی دیکھا۔عسلم بابا نے جاوید کا سر تھپتھپاتے ہوئے کہا۔
جب وہ گاؤں پہنچے تو فجر کی اذان ہو رہی تھی
عالم۔بابا نے جاوید کو رانی کو اس کے گھر پہنچانے کا کہا اور خود ڈیرے پر چلا گیا۔
صبح ناشتے کے بعد عالم بابا نے چوہدری کو مختصر ساری صورتحال بتائی
چوہدری کو یقین ہی نہیں ہو رہا تھا۔
اتنے میں کمہار اللہ رکھا ڈیرے میں آتا ہوا دکھائی دیا۔آتے ہی اس نے سب کو سلام کیا اور عالم بابا کو طیش سے دیکھنے لگا کے اور دونوں ہاتھوں کی لعنت بنا کر ان کے منہ پر چپکا دی سب یہ منظر حیرت سے دیکھ رہے تھے وہ اپنے ساتھ ایک بلیڈ بھی لایا تھا جس نے اس سے عا لم بابا کا آدھا سر گنجا کر دیا اور منہ پر تھپڑ کی برسات کر ڈالی
عالم بابا بو کھلا نے لگ گئے۔
اللہ رکھا بولا ۔آج میں تجھ پر کوئی رحم نہ کروں گا اور باقی کے بچے بالوں سے پکڑ اس کو گاؤں میں گهسیٹ دیا آخر چوہدری کے قدمو میںلا پٹخا عالم بابا اٹھ کھڑے ہوئے اور چوہدری کے کان میں کچھ کہا
تو چوہدری مسکرا کر کہنے لگا
نیک میں تاخیر کیسی
یہ کہہ کر چوہدری نے اللہ رکھا کے آگے جھولی پھیلا دی
اللہ رکھا بیٹی کا باپ تھا فوراً سمجھ گیا
اور چوہدری کے گلے لگ گیا۔اور عا لم بابا کو سب نے پورے گاؤں میں گدھے کی سواری کرا دی سر گنجا کر کے
رانی اور جاوید کی شادی طے ہو گئی تھی
اگلے روز عالم بابا واپس شہر کو لوٹ گئے۔
(ختم شد)


Urdu stories online, Urdu stories for kids, Short Urdu stories, Urdu Kahaniyan, Famous Urdu stories, Urdu stories with moral, Best Urdu stories collection, Urdu stories for students, Urdu love stories, Urdu horror stories, Urdu stories for reading, Urdu stories in Urdu text, Funny Urdu stories, Urdu stories for beginners, Urdu detective stories, Urdu motivational stories, horror stories in urdu, Urdu moral stories, Urdu stories for children, Urdu true stories, Urdu suspense stories, Urdu emotional stories, Urdu adventure stories,

hindi moral stories in urdu,سبق آموز کہانیاں, jin-ki-dushmni,good moral stories in urdu,Moral Stories,Urdu Stories,urdu kahani,اردو کہانی,قسط وار کہانیاں,


ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے