کچھ دن پہلے پولیس نے ایک ہوٹل پر چھاپہ مارا اور چند مرد و عورتوں کو بدکاری کے الزام میں گرفتار کیا۔ انہی گرفتار شدگان میں ایک سولہ برس کی بے وسعت و خوبصورت لڑکی شمیم بھی تھی۔ اس سے میری ملاقات حوالات میں ہوئی، جب میں ایک خواتین کی تنظیم کی جانب سے بے سہارا عورتوں کی بہبود کے لیے جیل گئی تھی۔ تب شمیم نے اپنے ننھے دل کی کہانی سنائی:ہمارا گھر ایک غریب آبادی میں تھا، جہاں زیادہ تر گھر مزدوروں کے تھے۔ قریب ہی ایک چھوٹا سا کارخانہ تھا، جہاں میرا باپ کام کرتا تھا۔ باپ کی زندگی میں ہم عزت کی روٹی کھاتے رہے۔
کارخانے کے دوسری جانب مزدوروں کے لیے ایک ڈسپنسری اور اس سے آگے ایک باغ کے بیچوں بیچ سیٹھ کا پختہ مکان تھا۔ غریب آبادی میں وہ محل جیسا لگتا تھا، ہر جدید سہولت سے آراستہ، گرمیوں میں اے سی، سردیوں میں ہیٹنگ کی سہولت کے ساتھ۔بچپن ہی سے میری خواہش تھی کہ کبھی میں اس محل کو قریب سے دیکھوں، لیکن سیٹھ کے گھر میں داخل ہونا صرف ان کا حق تھا۔ ایک بار جب اما کو کسی کام پر سیٹھ نے بلایا، میں چھ سال کی تھی، باپ کے پیچھے دوڑ کر میں بھی سیٹھ کے مکان پہنچ گئی۔ اندر کا منظر ایسا دلکش تھا کہ میری آنکھیں حیرت سے پھٹی رہ گئیں۔ اس کے بعد میں بار بار اپنے ذہن میں اس محل کا نقشہ گھماتی، ماں کو کہتی کہ اماں! تم اندر ایک بار جا کر دیکھو، خواب سے بھی حسین ہے۔سیٹھ صاحب کا بیٹا شہاب شہر میں پڑھتا تھا۔ ہمارا شہر چھوٹا تھا، جبکہ شہاب بڑے شہر کے ہوٹل میں رہتا تھا۔ جب وہ کبھی آتا، تو مزدوروں کے بچے اسے پاشا جی کہہ کر پکارتے۔ وہ ایک شہزادے کی مانند خوبرو، گورا، لمبا قد والا تھا۔ اس کی آمد پر ہم گھروں سے باہر آ جاتے۔ وہ شاندار لباس پہنتا اور شان سے چلتا۔
جب سیٹھ کو اچانک ہارٹ اٹیک ہوا، شہاب ہی وراثت میں کارخانے کا مالک اور مزدوروں کا بادشاہ بن گیا۔ اب اس کے سامنے سب گردن جھکاتے، آنکھیں نیچی کرتے۔جب میں پندرہ برس کی ہوئی، تو اماں نے کارخانے کے احاطے میں جانے پر پابندی عائد کر دی۔ ایک روز باپ بیمار ہو گئے، اماں نے مجھے کہا کہ چھمو، کارخانے کی ڈسپنسری سے کھانسی کی دوا لے آؤ۔ میں دوا کی بوتل تھامے جب واپس لوٹ رہی تھی، حادثاتی طور پر شہاب سے سامنا ہو گیا۔ اس کی آنکھوں میں مجھے دیکھ کر یکدم گرمی سی محسوس ہوئی، اور مجھ سے برداشت نہ ہو کر میں بھاگ پڑی۔ہم چار بہن اور ایک بھائی تھے، میں سب سے بڑی۔ بھائی گلو مجھ سے ایک سال چھوٹا تھا۔ ابا چاہتے تھے کہ وہ تعلیم حاصل کرے، مگر اسے پڑھائی سے زیادہ پتنگ بازی اور کینچے کھیلنے میں مزہ آتا تھا۔
پانچویں جماعت کے بعد وہ اسکول چھوڑ آیا اور آوارہ لڑکوں کے ساتھ گھومنے لگا۔ وقت کے ساتھ اس کی بگڑتی عادت نے گھر کا سکون اجاڑ دیا۔ ایک بار لڑائی کے دوران گلو نے کسی کو زخمی کر دیا، پولیس مداخلت ہوئی اور ابا کو جرمانہ دینا پڑا۔اب گلو کسی سے وابستہ نہ تھا اور گھر والوں کو اس کی وجہ سے جھٹکا لگا ہوا تھا۔ بارشِ محنت نے باپ کو وقت سے پہلے بوڑھا کر دیا، بیماری نے سانس روک دی اور کام کرنے سے قاصر کر دیا۔ اس کے نتیجے میں تنخواہ میں مسلسل کٹوتی ہوئی، اور سیٹھ کی جانب سے خبردار کیا جانے لگا کہ اگر کام نہیں کریں گے تو مکان خالی کر دیں۔احاطے میں مزدوروں کو کوارٹرز دئیے گئے تھے، باپ بھی ان میں سے ایک سینیئر تھے۔ مکان سادہ تھا مگر سر چھپانے کی پناہ دیتا، بچوں کے لیے اسکول قریب تھا، ڈسپنسری دستیاب تھی، اور سفر و وقت کی بچت بھی ہو جاتی۔ یہ سب سہولتیں مزدور فیملی کے لیے کسی نعمت سے کم نہ تھیں۔
ابا یہ نوکری کیسے چھوڑ سکتے تھے؟ چاہے جان چلی جاتی، مگر مزدوری تو کرنی ہی تھی، کیونکہ اتنے بڑے کنبے کا دار و مدار انہی پر تھا۔ مگر پھر چند ہی دنوں میں ابا بستر سے جا لگے۔ انہیں ٹی بی ہو گئی تھی اور وہ مزدوری کے قابل نہ رہے۔ موت ان سے چند قدم کے فاصلے پر تھی، لیکن وہ پہلے ہی اس خوف سے مرے جاتے تھے کہ اگر ان کا کام چھوٹ گیا، تو ہمارا کیا بنے گا۔ مگر ہونی ہو کر رہتی ہے۔ آخر کار موت نے ان کا ساتھ توڑ دیا۔ابا کے جانے کے بعد ہم فاقوں کے گرداب میں پھنس گئے۔ گلو بھی گم صم ہو گیا۔ اپنی شرارتیں، اپنی چوکڑیاں سب بھول گیا تھا۔ میرا بس نہیں چلتا تھا کہ ابا کے کپڑے پہن کر مزدوروں کی قطار میں جا کھڑی ہوں، تاکہ کسی طرح گھر کا چولہا جلتا رہے۔ ماں کی نظریں گلو پر لگی تھیں کہ دیکھیں، اب وہ کیا کرتا ہے۔گلو اماں کے کہنے پر سیٹھ کے پاس گیا، مگر پاشا نے یہ کہہ کر اسے مزدور رکھنے سے انکار کر دیا کہ وہ ابھی بہت چھوٹا ہے، پورا کام اس سے نہیں ہو سکے گا۔ اس کے ساتھ ہی پاشا نے ہمیں مکان خالی کرنے کا حکم بھی دے دیا۔
یہ سن کر ہم لرز گئے۔ سر چھپانے کو کوئی اور ٹھکانہ نہ تھا۔ ماں بولی، ہم مکان کیسے خالی کریں؟ میں سیٹھ کے پاس جا کر فریاد کروں گی کہ میرا شوہر تمام عمر ان کے کارخانے میں کام کرتا رہا ہے، اور وہ آنکھ بند کرتے ہی ہمیں دربدر کر رہا ہے۔ یہ کہاں کا انصاف ہے؟ ماں یہ کہتے ہوئے میری چھوٹی بہن کو سینے سے لگائے زار و قطار رو رہی تھیں۔ ان کو روتا دیکھ کر میرے تن بدن میں آگ لگ گئی اور میں ان سے پوچھے بغیر کارخانے کے احاطے میں چلی گئی۔پاشا کارخانے سے نکل کر اپنی گاڑی کی طرف آ رہا تھا۔
جونہی میں احاطے میں داخل ہوئی، ہمارا آمنے سامنے ہو گیا۔ وہ مجھے دیکھ کر ٹھٹھک گیا اور میں اپنی جگہ رک گئی۔ وہ پاس آ کر بولا، ادھر کہاں جا رہی ہو؟ کسی سے کام ہے؟میں نے دھیمی آواز میں کہا، جی، کام تو ہے مگر آپ سے۔مجھ سے کیا کام ہے؟آپ نے ہمیں مکان خالی کرنے کا حکم دیا ہے، ہمارا باپ زندگی بھر آپ کے کارخانے میں کام کرتا رہا ہے۔ اب ہم کہاں جائیں؟ میرا بھائی آپ کے پاس باپ کی جگہ کام مانگنے آیا تھا، مگر آپ نے اسے یہ کہہ کر لوٹا دیا کہ وہ مزدوری کے لائق نہیں۔ ہمارے گھر فاقے ہو رہے ہیں۔ اگر اُسے مزدوری نہیں مل سکتی، تو ہم کھائیں گے کہاں سے؟کیا تم کام کرو گی؟جی، میں کر لوں گی۔ میں نے اپنی اوڑھنی سے آنسو پونچھتے ہوئے جواب دیا۔اچھا تو کل صبح میرے گھر آ جانا۔یہ کہہ کر وہ گاڑی میں بیٹھا اور چلا گیا، اور میں اُسے جاتے ہوئے دیکھتی رہ گئی۔اگلی صبح جمعہ کا دن تھا۔ کارخانے کی چھٹی تھی۔ میں اماں کو بتائے بغیر سیٹھ کے گھر چلی گئی۔
وہ برآمدے میں بیٹھا اخبار پڑھ رہا تھا، سامنے چائے کا کپ رکھا تھا۔ میرے قدموں کی چاپ پر اس نے اخبار نیچے کیا۔ میں نے سلام کیا۔ اس نے سر ہلا کر جواب دیا۔جی، میں آگئی ہوں کام کے لیے۔اس نے چند لمحے سوچ کر کہا، میرے کمرے کی صفائی کر دو، میں ابھی آتا ہوں، پھر اور کام بتاؤں گا۔میں اس کے کمرے کا جائزہ لینے لگی۔ ایک بڑا خوبصورت پلنگ، ریشم کی جھالروں والی بیڈ شیٹ، محمل کے پردے، نرم گدا، ہاتھ رکھتے ہی ایسا لگا جیسے خود بخود اس میں دھنس گئی ہوں۔ دس منٹ بعد پاشا واپس آیا۔تم نے ابھی تک صفائی نہیں کی؟ کیا دیکھ رہی ہو؟جی، صفائی کا سامان نہیں مل رہا۔ برش اور کپڑا کہاں ہیں؟سیڑھی کے نیچے دراز میں دیکھو۔ جھاڑو بھی مل جائے گی۔میں نے جیسے اس کی بات نہ سنی ہو اور ہونق سی سجاوٹ کی چیزیں، میزوں پر رکھے کانچ کے گلدان اور چھت پر جھولتے فانوس کو تکنے لگی۔کیا دیکھ رہی ہو؟ پاشا نے پھر پوچھا۔آپ کا گھر کتنا خوبصورت ہے۔ہاں، اپنا اپنا نصیب ہے۔ ہو سکتا ہے کل تمہارا گھر بھی اتنا خوبصورت ہو۔ تم بھی انسان ہو، ہم بھی۔ ہم انسان نہیں پاشا، ہم مزدور ہیں، اور آپ آقا۔ ہمارا نصیب آپ جیسا نہیں ہو سکتا۔اچھا، اب صفائی شروع کرو۔ کیا ماں کو بتا کر آئی ہو؟میں نے جھوٹ بولا، جی، بتایا ہے۔وہ باہر برآمدے میں جا کر بیٹھ گیا اور کہا، صفائی جلدی مکمل کرو، ڈرائیور پٹرول بھروانے گیا ہے، مجھے کام سے جانا ہے۔
میں نے جلدی جلدی قالین پر برش لگایا، جھاڑ پونچھ کی۔ تبھی وہ کمرے میں آیا۔صفائی مکمل ہو گئی؟جی۔بس، کل کر لینا باقی کام۔ ابھی مجھے جانا ہے۔میں چلنے کو مڑی تو اس نے آواز دی، تمہارے گھر میں کچھ کھانے کو ہے؟میں نے نفی میں سر ہلایا۔اچھا، یہ روپے لے جاؤ، ماں کو دے دینا، اور کھانے پینے کا سامان منگوا لینا۔ کل صبح آٹھ، نو بجے تک آ جانا۔
میں نوٹ لے کر گھر آگئی اور ماں کو دے کر کہا۔ اماں یہ لو، مجھے کام مل گیا ہے۔ سیٹھ صاحب کے گھر میں ان کے کمرے کی صفائی کا کام ہے۔ یہ روپے انہی نے دیئے ہیں۔ آٹا، آٹا، چاول، دال، تیل ، جو منگوانا ہے، لوانا ہے، منگوالو۔ ماں سوچ میں پڑ گئیں۔ کہنے لگیں۔ تو اکیلی وہاں صفائی کرنے جائے گی ؟ ہاں ماں ، تو کیا ہوا۔ اگر کہو گی تو گلو کو ساتھ لے جاؤں گی تا کہ سیٹھ اس کو بھی نوکری دے دے۔ اگلے دن جب میں پاشا کے گھر گئی، تو مجھے لگا جیسے وہ میرا انتظار کر رہا تھا۔ میں نے اس کی نظروں میں انتظار کو نظر انداز کیا اور بولی۔ اب میرے بھائی گلو کو نوکری مل جائے گی ؟ ہاں، مل جائے گی ۔ تم روز نو بجے اس کو اپنے ساتھ لے کر آجایا کرو۔ اسے میں اپنے دفتر میں کام دے رہا ہوں۔ یہ یہاں سے میرے دفتر چلا جائے گا اور صفائی کر دیا کرے گا۔ اس کے بعد یہ معمول ہو گیا۔
گلو میرے ساتھ سیٹھ کے گھر جاتا، ان کے جوتے وغیرہ پالش کرتا اور پھر کار خانے کے احاطے میں چلا جاتا۔ جب تک پاشا تیار ہوتے، میں ان کے کمرے کی صفائی کر دیتی۔ وہ تیار ہو کر دفتر چلے جاتے اور میں گھر لوٹ آتی۔ گلو نے کچھ دن ہی سیٹھ کے آفس میں نوکری کی، پھر ایک دن وہاں سے بھاگ گیا کیونکہ پاشا اُسے سارا دن اپنے آفس میں رکھتا تھا۔ صفائی کے علاوہ وہ وہاں مہمانوں کے لئے چائے وغیرہ بھی بناتا اور ایسے ہی دفتر کے چھوٹے موٹے کام کرواتا، مگر اس کو یہ سارے دن کی پابندی پسند نہ تھی۔ گلو گیا، تو اس کی تنخواہ بھی گئی۔ اب میری تنخواہ سے تو گھر کا گزارہ مشکل تھا۔ ایک دن میں نے پاشا سے کہا۔ آتا میری تنخواہ تھوڑی ہے ، اس میں پانچ لوگوں کا گزارہ مشکل ہے۔ آپ کچھ تعاون کریں۔ اس نے کہا۔ میں تو تعاون کر رہا ہوں، تم بھی تو تعاون کرو۔ پہلے تو میں نہیں سمجھ سمجھی اور گھر جا کر ماں سے کہا کہ سیٹھ کہتا ہے تم تعاون کرو، تو میں بھی کروں گا۔ ماں بولیں۔ دراصل اس کی والدہ اور بہن دبئی میں بڑے بیٹے کے پاس رہتی ہیں۔ میں نے سنا ہے ، وہ آنے والی ہیں ، تب کام بڑھ جائے گا۔ ہو سکتا ہے، تم کووہاں سارا دن کام کرنا پڑے ، وہ اسی وجہ سے کہہ رہا ہے۔
جب تک وہ آئیں کی، میں کام کرتی رہوں گی، کیا خبر پھر وہ تم کو بھی بلالے ؟ میں پاشا سے تعاون کرتی رہی۔ ان کا باورچی چلا گیا تو ناشتہ اور کھانا وغیرہ بھی بنا دیتی تھی، جس کے بدلے انہوں نے میری تنخواہ بڑھادی، باہمی تعاون کی رسی لمبی ہوتی گئی۔ اس آس میں شاید سہارے مرادوں کی جھولی بھر جائے۔ ایک دن ایسا آیا کہ نوکر اور ڈرائیور جو آپس میں ماموں اور بھانجے تھے۔ ایک ساتھ اپنے گاؤں چلے گئے کہ ان کے قریبی عزیز کی شادی تھی۔ اب میں سیٹھ کے گھر جاتی تو بڑی سی حویلی بھائیں بھائیں کرتی ملتی ، نہ نوکر ڈرائیور اور نہ مالی، میں پہلے کچن کا کام کرتی ، سیٹھ ناشتہ کر کے آفس چلا جاتا اور میں ان کے گھر کی صفائی شروع کر دیتی۔ ایک لڑکا جو مزدور کا بیٹا تھا، وہ شام کو باغ کو پانی دینے آتا، تب تک میں گھر کا کام کاج سمیٹ کر جا چکی ہوتی۔
ایک روز پاشا آفس سے جلدی آگیا اور مجھے کہا۔ کھانا لگا دو۔ میں نے میز پر کھانا لگا دیا۔ وہ کہنے لگا۔ آج لڑ کا چھٹی پر ہے ، تم پودوں کو پانی دے دو۔ جب میں باغ کا کام مکمل کر کے لوٹی، تو پاتا اپنے کمرے میں جا چکا تھا۔ میں ان کے کمرے میں گئی اور دروازے پر کھڑے رہ کر بتایا کہ اب میں گھر جارہی ہوں۔ اس نے کہا۔ رکو، تھوڑا سا اور تعاون کر دو۔ تیل سے میرے پیروں کی مالش کر دو۔ میں نے کچن میں رکھی تیل کی بوتل سے تھوڑا سا تیل پیالی میں انڈیلا اور کمرے میں آگئی۔ مجھے ان کے پاس کام کرتے تقریباً تین ماہ ہونے آئے تھے اور اب میں پاشا سے کافی مانوس ہو چکی تھی۔ پیروں کی طرف جا کر میں نے ان کے پاؤں کے تلووں کو تیل لگایا اور تھوڑی دیر مالش کی۔ انہوں نے مجھے سوروپے دیے اور کہا۔ ایسے کام بڑھتا جائے گا، تو میرا تعاون بڑھتا جائے گا۔ یوں ان کے پیروں کی مالش بھی میرے فرائض میں شامل ہو گئی اور اسی طرحمیری اجرت میں اضافہ ہوتا رہا، ساتھ ہی باہمی تعاون کی یہ رسی لمبی ہوتی گئی-
یہاں تک کہ اپنی عمر کی ساری جمع پونجی لٹا کر بھی میں مرادوں کی جھولی نہ بھر سکی۔ میں ایک مزدور کی مفلس بیٹی غریب سے غریب تر ہو گئی، صرف اپنے گھر والوں کے پیٹ کا دورُخ بھرنے کے لیے۔ایک روز پاشا نے ماں کو بلا کر کہا کہ کل میری ماں اور بہنیں دبئی سے آرہی ہیں میری شادی کرنے، تم فی الحال اپنی لڑکی کو لے جاؤ اور خرچ کی فکر نہ کرنا۔ وہ میں دوں گا۔ جب ماں آئیں گی تو وہ خود تم لوگوں کو بلوا کر کام پر رکھ لیں گی۔ ابھی لڑکی کو تم اپنے کسی رشتہ دار کے گھر بھیج دو۔ماں سیٹھ کا مطلب سمجھ گئیں اور بہت سے نوٹ لے کر، مجھے گناہ کی گٹھری کی طرح سمیٹ کر ساتھ لے آئیں۔
ہم کچھ دنوں کے لیے خالہ کے گھر دوسرے شہر چلے گئے۔ پندرہ دن وہاں رہ کر ماں واپس گھر لوٹ گئیں کیونکہ گلو کی فکر دن رات انہیں پریشان رکھتی تھی۔ میری پریشانی تو انہوں نے خالہ کے کندھوں پر لاد دی تھی۔تین ماہ بعد ماں خالہ کے گھر آئیں اور پندرہ دن بعد میری نوزائیدہ بچی کو لے کر گھر لوٹ گئیں، مگر مجھے ساتھ نہ لے گئیں۔خالہ لاہور کے ایک اسپتال میں ڈسپنسر تھے۔ وہ ہر ماہ تنخواہ لینے گھر آتے اور ایک دو دن رہ کر ڈیوٹی پر چلے جاتے۔ انہیں اسپتال سے زیادہ چھٹی نہیں ملتی تھی۔ اس بار جب وہ آئے تو ماں جا چکی تھیں، مگر میں بیماری کی حالت میں بستر پر لیٹی تھی۔ میرا رنگ زرد پڑا ہوا تھا۔ خالہ نے مجھے غور سے دیکھا تو انہیں کچھ شک ہوا۔انہوں نے بیوی سے پوچھا کہ یہ ماں کے ساتھ کیوں نہیں گئی؟ ابھی تک یہاں کیوں رہ رہی ہے؟ بیوی نے حالت بنانے کی کوشش کی کہ اسے بخار تھا، اس لیے ماں اسے لے کر نہیں گئی، لیکن خالو مطمئن نہ ہوئے اور بولے کہ معاملہ کچھ اور ہے۔محلے کی وہ عورت جو اس سنگین مرحلے میں ہم سے تعاون کر رہی تھی، اتفاقاً خالہ کی موجودگی میں آئی۔
تب خالو کا شک مزید پختہ ہو گیا کیونکہ یہ عورت وہاں ہیلتھ وزیٹر کے طور پر کام کر چکی تھی اور وہ اسے اچھی طرح جانتے تھے۔ انہوں نے باہر جا کر اس عورت سے بات کی اور غصے میں گھر آ کر کہا، مجھے سارے معاملے کا پتا چل گیا ہے۔بیوی، تم اپنی اس نابکار بھانجی کو واپس اس کے گھر روانہ کرو۔ جب میں دوبارہ گھر میں قدم رکھوں تو یہ یہاں نہ ہو۔ یہ کہہ کر وہ چلے گئے۔چند دن بعد گلو گھبرایا ہوا آیا اور بتایا کہ ماں کو پولیس نے پکڑ کر لے گئی ہے کیونکہ پولیس کو کسی نے اطلاع دی تھی کہ اس بیوہ عورت کے پاس ایک نوزائیدہ بچی ہے۔ نجانے یہ بچی اس نے کہاں سے اغوا کر لائی ہے۔ان دنوں پاشا اپنی شادی رچا کر بارات لے کر لاہور گئے ہوئے تھے اور ان کے گھر والے بھی ساتھ گئے ہوئے تھے۔ یہ سن کر خالہ گھبرا گئیں اور مجھے کہا، تو گلو کے ساتھ ماں کے گھر چلی جا۔
اگر اس کے ساتھ نہیں جاتی تو پھر جہاں چاہے چلی جا، مگر میرے گھر نہ رہو ورنہ پولیس یہاں بھی آجائے گی۔گلو پہلے ہی گھبرایا ہوا تھا، خالہ کو غصے میں دیکھ کر اور گھبرا گیا اور فوراً گھر سے چلا گیا، مگر خالو گھر آگئے۔ خالہ نے ان سے کہا کہ صبح کو اس بدبخت کو لے جا کر لاری اڈے پر چھوڑ آؤ ورنہ پولیس یہاں بھی آجائے گی اور ہماری بدنامی ہوگی۔ یہ ہمیں بھی مصیبت میں ڈال دے گی، جیسے اس کے کُرتوں نے اس کی ماں کو مصیبت میں ڈال دیا ہے۔اسی رات، جب خالو اور خالہ سو رہے تھے، میں ان کے گھر سے نکل پڑی۔ اڈے پر آخری لاری تیار کھڑی تھی۔ میں اس میں سوار ہو گئی۔صبح چار بجے بس خالی ہو گئی، مگر میں بس سے نہ اتری۔ ڈرائیور نے پوچھا، تم کس کے ساتھ ہو؟ کہاں جانا ہے؟میں نے جواب دیا، میرے ساتھ کوئی نہیں اور نہ ہی میں کہیں جانا چاہتی ہوں۔
ڈرائیور اچھا آدمی نہ تھا۔ چند دن اس نے مجھے اپنے ایک دوست کے خالی مکان میں رکھا، پھر اپنے دوست کے حوالے کر دیا۔ وہ مجھے ایک ہوٹل لے گیا۔ وہاں اسی رات پولیس کا چھاپہ پڑ گیا۔جب سے ماں دوسری جیل میں ہے اور میں اس جیل میں ہوں، بہن بھائیوں کا پتا نہیں کہاں ہے۔ شمیم کی کہانی سن کر مجھے بہت دکھ ہوا۔ میں نے سوچا کہ اصل مجرم کون ہوتا ہے اور سزا کس کو ملتی ہے۔