خوفناک سفر

Sublimegate Urdu Stories

براہ مہربانی پلے کا بٹن  ضرور دبائیں۔ آپ کے تعاون کا بہت بہت شکریہ
👇👇


لاہور کی گہماگہمی والی گلیوں میں، جہاں شام کے بعد بھی زندگی کا شور جاری رہتا ہے، دو بھائیوں، زین اور فرحان، کی کہانی شروع ہوتی ہے۔ یہ دونوں ایک چھوٹی سی ٹرانسپورٹ کمپنی "سفرِ شام" کے ملازم تھے۔ زین، جو بڑا بھائی تھا، ایک ماہر ڈرائیور تھا جسے سمتوں کا غیر معمولی شعور حاصل تھا، جبکہ فرحان، چھوٹا بھائی، ایک خوش مزاج کنڈیکٹر تھا جو مسافروں کا موڈ ہلکا کر دیتا تھا۔ ان کی زندگی روزمرہ کے معمولات، لمبے سفر، اور راتوں کی محنت سے بھری تھی۔ لیکن ایک شام، ایک غیر متوقع ہنگامی سفر نے ان کی زندگی کو ہمیشہ کے لیے بدل دیا، اور انہیں ایک ایسی خوفناک مہم جوئی میں دھکیل دیا جس نے ان کی ہمت کو آزمایا اور ایسی رازوں سے پردہ اٹھایا جو ان کے وہم و گمان سے باہر تھے۔

یہ 2025 کی جولائی کی ایک حبس بھری شام تھی۔ لاہور کا آسمان گہرے نیلے رنگ میں ڈوبا ہوا تھا، اور مغرب کی اذان شہر کی فضا میں گونج رہی تھی۔ زین اور فرحان اپنی پرانی لیکن مضبوط بس کو ایک غیر متوقع سفر کے لیے تیار کر رہے تھے۔ کمپنی کا منیجر، قاسم، ایک بوڑھا اور سخت مزاج شخص، گودام میں تیزی سے داخل ہوا۔ "ہنگامی بکنگ!" اس نے دھاڑتے ہوئے کہا۔ "ایک گروپ کو آدھی رات تک ملتان پہنچانا ہے۔ کوئی سوال نہیں، بس چلو!"

زین اور فرحان نے ایک دوسرے کی طرف بے چینی سے دیکھا۔ یہ حکم عجیب سا تھا۔ ملتان پانچ گھنٹے کی مسافت پر تھا، اور وقت بہت کم تھا۔ مسافروں کی تعداد تیرہ تھی، سب نقاب پوش، اور انہوں نے مکمل رازداری اور راستے میں کوئی رکنے کی اجازت نہ دینے کی درخواست کی تھی۔ فرحان، جو ہمیشہ شک کرنے والا تھا، بڑبڑایا، "ایسی رازداری میں رات کے وقت کون سفر کرتا ہے؟" زین نے اسے چپ کراتے ہوئے کہا، "فرحان، کام پر توجہ دو۔ شاید کوئی اہم لوگ ہیں۔" لیکن اس کے اپنے دل میں بھی ایک عجیب سی گھنٹی بج رہی تھی، جیسے کوئی خطرہ قریب ہو۔

بس اسٹینڈ پر ہوا غیر معمولی طور پر ٹھنڈی تھی، حالانکہ گرمیوں کا موسم تھا۔ جب مسافر بس میں سوار ہوئے، تو ان کے چہروں پر نقابوں کی وجہ سے کچھ بھی واضح نہ تھا۔ ان میں مرد، عورتیں، اور چند بچے شامل تھے، لیکن سب غیر معمولی طور پر خاموش تھے۔ ایک بزرگ، جن کا چہرہ جزوی طور پر نقاب سے ڈھکا تھا، سب سے آگے تھے۔ ان کی آنکھوں میں ایک عجیب سی چمک تھی جو زین کو غیر فطری لگی۔ "کوئی موسیقی نہیں، کوئی بات چیت نہیں،" بزرگ نے سخت لہجے میں کہا۔ "ہمارا سفر خاموشی سے مکمل ہونا چاہیے۔" زین نے سر ہلایا، لیکن فرحان نے آہستہ سے زین کے کان میں کہا، "یہ لوگ عجیب ہیں۔ دل گھبرا رہا ہے۔"

بس نے ملتان کی طرف سفر شروع کیا۔ رات گہری ہوتی جا رہی تھی، اور سڑک پر ٹریفک کم ہوتی گئی۔ بس کے اندر مکمل خاموشی تھی، سوائے مسافروں کی سانسوں کی ہلکی آواز کے۔ زین نے بس کی رفتار مستحکم رکھی، لیکن اسے لگ رہا تھا کہ کوئی اسے مسلسل گھور رہا ہے۔ فرحان نے آئینے میں دیکھا تو ایک بچے کی آنکھیں اسے چمکتی ہوئی نظر آئیں، جیسے وہ رات کے اندھیرے میں چمکتی ہوں۔ "زین، یہ بچہ... اس کی آنکھیں!" فرحان نے دھیمی آواز میں کہا، لیکن زین نے اسے نظر انداز کر دیا۔

کچھ دیر بعد، بزرگ نے اچانک کہا، "بیٹا، بس روک دو۔ ہمیں عشاء کی نماز پڑھنی ہے۔" زین نے حیرانی سے کہا، "چاچا، ابھی ہم ہائی وے پر ہیں۔ ملتان پہنچ کر پڑھ لیجیے۔" بزرگ نے اسے ایسی گھور سے دیکھا کہ زین کا دل دھک سے رہ گیا۔ "تمہیں اندازہ بھی ہے کہ تم کس سے بات کر رہے ہو؟" ان کی آواز دھیمی لیکن دھمکی آمیز تھی۔ فرحان نے زین کو اشارہ کیا کہ چپ رہے، لیکن ماحول اب اور بھی کشیدہ ہو گیا تھا۔

رات کے گیارہ بجے، بس ایک سنسان موڑ پر پہنچی جہاں سڑک کے دونوں طرف گھنے درخت تھے۔ اچانک، بس کا ریڈیو خود بخود آن ہو گیا۔ ایک پرانا گانا بجنے لگا، لیکن اس کی آواز بھاری اور خوفناک تھی، جیسے کوئی غیر انسانی مخلوق اسے گا رہی ہو۔ فرحان نے چیخ کر کہا، "زین، یہ بند کرو!" لیکن جب زین نے ریڈیو بند کرنے کی کوشش کی، تو بٹن ٹوٹ گیا، اور گانا اور بلند ہو گیا۔ بس کے شیشوں پر دھند چھا گئی، اور شیشوں پر ہاتھوں کے نشانات ابھرنے لگے، جیسے کوئی باہر سے انہیں چھو رہا ہو۔ لیکن باہر تو صرف اندھیرا تھا۔

فرحان نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو اس کی چیخ نکل گئی۔ آخری سیٹ پر ایک سفید لباس میں ملبوس عورت بیٹھی تھی، جس کا چہرہ نقاب سے ڈھکا تھا۔ اس کے ہاتھوں سے خون ٹپک رہا تھا، اور اس کا سر عجیب طرح سے جھکا ہوا تھا، جیسے وہ زندہ نہ ہو۔ "زین، پیچھے دیکھ!" فرحان نے ڈرتے ہوئے کہا، لیکن جب زین نے آئینے میں دیکھا، وہاں کوئی نہ تھا۔ لیکن فرحان اب بھی اس عورت کو دیکھ رہا تھا، جو اب آہستہ آہستہ ان کی طرف بڑھ رہی تھی۔ اس کے قدموں کی کوئی آواز نہ تھی، لیکن اس کی موجودگی سے بس کے اندر سردی بڑھتی جا رہی تھی۔

زین نے قرآن پاک کی آیات پڑھنی شروع کیں، لیکن جیسے ہی وہ آیات پڑھتا، بس کے اندر سے ایک زور دار چیخ بلند ہوتی، جیسے کوئی اس کی آواز سے تکلیف میں ہو۔ بس کے دروازے خود بخود کھلنے اور بند ہونے لگے، اور ہر بار جب دروازہ کھلتا، ایک ٹھنڈی ہوا اندر آتی جس میں سڑاند کی بدبو شامل تھی۔ فرحان نے دیکھا کہ بس کی چھت پر کچھ سائے حرکت کر رہے تھے، جیسے کوئی اوپر چل رہا ہو۔ جب اس نے اوپر دیکھا، تو اسے لمبے، کالے سائے نظر آئے جن کی آنکھیں سرخ تھیں اور وہ بس کی طرف جھانک رہے تھے۔

اچانک، بس ایک جھٹکے سے رکی۔ زین اور فرحان نے باہر دیکھا تو ایک پرانا، خستہ حال قبرستان نظر آیا۔ قبرستان کی دیوار پر لکھا تھا، "یہ جگہ ان کی ہے جو ہماری نافرمانی کرتے ہیں۔" دونوں بھائیوں کے ہاتھ پاؤں سرد پڑ گئے۔ بس کا انجن خود بخود بند ہو گیا، اور اب بس کے اندر مکمل خاموشی تھی—سوائے ایک دھیمی سرگوشی کے جو کہہ رہی تھی، "تم نے ہمیں روکا۔ تم نے ہمیں ناراض کیا۔ اب ہم تمہیں نہیں چھوڑیں گے۔"
فرحان نے ڈرتے ہوئے کہا، "زین، یہ وہی گروپ تھا۔ یہ انسان نہیں تھے۔" زین نے کہا، "فرحان، ہمت رکھو۔ ہم نے ان سے معافی مانگ لی۔" دونوں نے مل کر بلند آواز میں معافی مانگنی شروع کی اور درود شریف پڑھنے لگے۔ لیکن جیسے ہی وہ درود پڑھتے، بس کے شیشوں پر زور زور سے دستک ہوتی، جیسے کوئی اندر آنا چاہتا ہو۔ شیشوں پر خون کے دھبے نمودار ہو رہے تھے، اور ہر دھبے کے ساتھ ایک چیخ سنائی دیتی۔

رات گہری ہوتی جا رہی تھی۔ گھڑی پر دو بج رہے تھے، لیکن ملتان یا لاہور کا کوئی نشان نہ تھا۔ بس ایک ایسی سڑک پر چل رہی تھی جو انہوں نے پہلے کبھی نہ دیکھی تھی۔ دونوں طرف گھنے درخت تھے، جن کی شاخیں بس کے شیشوں کو کھرچ رہی تھیں، اور شاخوں کے درمیان سے عجیب سی آنکھیں جھانک رہی تھیں۔ اچانک، فرحان نے دیکھا کہ بس کی ایک سیٹ پر ایک پرانا، پھٹا ہوا نقاب پڑا ہے۔ جب اس نے اسے ہاتھ لگانے کی کوشش کی، تو اسے لگا جیسے کوئی اس کی کلائی کو زور سے پکڑ رہا ہو۔ اس نے چیخ کر نقاب پھینک دیا، اور وہ ہوا میں غائب ہو گیا۔

رات بھر وہ اسی قبرستان کے سامنے کھڑے رہے۔ بس کا دروازہ کھلتا اور بند ہوتا رہا، اور ہر بار جب دروازہ کھلتا، ایک سیاہ سایہ بس کے اندر جھانکتا۔ صبح کی اذان کی آواز کے ساتھ ہی بس کا انجن اچانک چالو ہوا، اور بس خود بخود لاہور کی طرف چل پڑی۔ جب وہ لاہور کے بس اسٹینڈ پر پہنچے، تو ان کی ٹانگیں کانپ رہی تھیں۔ انہوں نے بس روکی اور باہر نکل کر سانس لی۔ لیکن جب انہوں نے کمپنی کے ریکارڈ چیک کیے، تو ان کے ہوش اڑ گئے۔ کوئی بکنگ ہی نہیں ہوئی تھی! قاسم نے بتایا کہ گزشتہ رات کوئی گروپ نے ان کی بس بک نہیں کی تھی۔ پھر وہ تیرہ نقاب پوش کون تھے؟
بس کے اندر اب بھی خون کے دھبے، ناخنوں کے نشانات، اور ایک عجیب سی بدبو تھی۔ مقامی لوگوں نے بتایا کہ یہ جنات تھے، جو انسانوں کی شکل میں سفر کرتے ہیں۔ وہ نیک جنات تھے، جو ایک مقدس مقام پر عبادت کے لیے جا رہے تھے، لیکن زین اور فرحان کی نادانی سے ناراض ہو گئے۔ انہوں نے دونوں بھائیوں کو سبق سکھانے کے لیے اپنی موجودگی کے خوفناک نشانات چھوڑے۔

اس خوفناک واقعے کے بعد زین اور فرحان نے ٹرانسپورٹ کمپنی کی نوکری چھوڑ دی۔ زین ایک سال تک اس صدمے سے بیمار رہا، راتوں کو سرگوشیوں اور شیشوں پر دستک کی آوازوں سے ڈرتا رہا۔ فرحان نے بھی اس رات کو کبھی نہیں بھلایا، اور وہ اکثر کہتا کہ وہ رات ان کے دل و دماغ پر ایک داغ کی طرح چھپ گئی۔ مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ وہ جنات آج بھی اس بس کے ساتھ جڑے ہیں، اور رات کے سناٹے میں ان کی موجودگی کا احساس ہر خاص و عام کو ہوتا ہے۔ بس اب اسٹینڈ پر زنگ آلود ہو رہی ہے، لیکن اس کے شیشوں پر اب بھی کبھی کبھار ہاتھوں کے نشانات اور خون کے دھبے نظر آتے ہیں

یہ کہانی ایک ایسی رات کی ہے جو زین اور فرحان کے لیے ایک لامتناہی راز بن گئی، اور سننے والوں کے لیے ایک ایسی داستان جو راتوں کی نیند اڑا دیتی ہے۔
(ختم شد)
👇👇
اگر کہانی پسند آئی ہو تو کمنٹ میں ضرور بتایئں شکریہ