چاند کی مدھم روشنی اب تقریباً ختم ہو چکی تھی، اور بنگال کے گھنے جنگل کی گہری تاریکی بمبئی ایکسپریس کے ڈبوں پر چھا گئی تھی۔ ٹرین، جو کبھی کلکتہ کی طرف امیدوں کے پلندے لے کر رواں دواں تھی، اب موت کے سائے تلے کھڑی تھی۔ رام دیال کی بندوق کی نال ابھی تک گرم تھی، لیکن اس کے ہاتھ ٹھنڈے پڑ رہے تھے۔ جنگل سے آنے والی چیخوں نے مسافروں کے دل منجمد کر دیے تھے۔ بیکٹو کی دادی کا غائب ہونا اور خون کے چھینٹوں سے بھری ٹوٹی کھڑکی ہر ایک کے ذہن میں ایک ہی سوال اٹھا رہی تھی—کیا وہ اس رات سے زندہ بچ پائیں گے؟
رام دیال نے مسافروں کو ڈبے کے وسط میں جمع کیا۔ سریش کمار اپنا صندوق مضبوطی سے تھامے ہوئے تھا، گویا اس کی جان اسی میں بند تھی۔ لاجونتی بیکٹو کو سینے سے لگائے خاموش کھڑی تھی، لیکن اس کی آنکھوں میں ایک عجیب سی چمک تھی، جیسے وہ کوئی گہرا راز جانتی ہو۔ مولوی عبدالرحیم تسبیح پھیرتے ہوئے آیات پڑھ رہے تھے، ان کی آواز میں ایک عجیب سی شدت تھی، جو خوف اور ایمان کا ملغوبہ تھی۔ پنڈت رگھوناتھ اپنے پرانے مخطوطات پر جھکا ہوا تھا، اس کی لرزتی انگلیاں پیلے پڑے صفحات پر پھر رہی تھیں، جیسے وہ کوئی بھولی بسری تدبیر ڈھونڈ رہا ہو۔ بیکٹو، اپنی دادی کا ٹوٹا ہوا کنگن ہاتھ میں پکڑے، زمین پر بیٹھا سسکیاں لے رہا تھا۔ بشن سنگھ انجن روم سے واپس آیا، اس کا چہرہ پریشانی سے لبریز تھا۔ "ٹرین کا انجن ٹھیک ہے، لیکن ٹریک پر کوئی بھاری چیز پڑی ہے۔ ہمیں اسے ہٹانا ہوگا، ورنہ ہم یہاں پھنس جائیں گے۔"
رام دیال نے گہری سانس لی اور دھیمی لیکن پرعزم آواز میں کہا، "ہم سب کو مل کر مقابلہ کرنا ہوگا۔ یہ کوئی عام جانور نہیں۔" اس نے اپنی بندوق دوبارہ لوڈ کی اور دروازے کی طرف بڑھا۔ لیکن اس سے پہلے کہ وہ باہر قدم رکھتا، ایک زوردار دھماکہ ہوا۔ ڈبے کی چھت پر کچھ بھاری گرنے کی آواز آئی، اور اس کے ساتھ ایک ایسی خوفناک چیخ گونجی کہ فضا کانپ اٹھی۔ مسافروں نے خوفزدہ نظروں سے ایک دوسرے کی طرف دیکھا۔ سریش کمار چیخا، "یہ کیا ہے؟ ہم سب مر جائیں گے!" اس کی آواز اب ہسٹیریا کے دہانے پر تھی۔
مزید پڑھیں |
رام دیال نے دروازہ کھولنے کی کوشش کی، لیکن وہ جام ہو چکا تھا۔ اچانک، کھڑکی سے ایک بہت بڑا پنجہ اندر آیا اور ڈبے کی دیوار کو چیر ڈالا۔ خون کی بو اور گیلی مٹی کی گندی بدبو فضا میں پھیل گئی۔ مخلوق کا سایہ اب واضح تھا—ایک انسان نما جسم، لیکن اس کا چہرہ بھیڑیے جیسا، آنکھیں خون کی طرح سرخ، اور نوکیلے دانتوں سے خون ٹپک رہا تھا۔ اس نے ایک زوردار چیخ ماری اور سریش کمار کی طرف لپکا۔ سریش نے اپنا صندوق آگے کیا، لیکن مخلوق نے اسے ایک جھٹکے میں چھین کر دیوار سے ٹکرا دیا۔ صندوق ٹوٹ کر کھل گیا، اور اس میں سے سونے کے سکے اور جواہرات زمین پر بکھر گئے۔ سریش چیختا ہوا زمین پر گر پڑا، اور اس سے پہلے کہ کوئی کچھ کر پاتا، مخلوق نے اس کے سینےRobinhoods of the Night کے سینے پر پنجہ مارا۔ سریش کی چیخ فضا میں گونجی اور پھر خاموشی چھا گئی۔ اس کا جسم بے جان ہو کر گر پڑا، خون کا تالاب اس کے نیچے بن گیا۔
مسافروں میں افراتفری مچ گئی۔ لاجونتی نے بیکٹو کو مضبوطی سے پکڑا اور ڈبے کے کونے میں چھپ گئی۔ مولوی عبدالرحیم نے بلند آواز میں دعا پڑھنی شروع کی، لیکن ان کی آواز خوف سے کانپ رہی تھی۔ پنڈت رگھوناتھ نے اپنا مخطوطہ اٹھایا اور بولا، "یہ نرہ پشاچ ہے، ایک قدیم لعنت۔ اسے روکنے کا ایک ہی طریقہ ہے—اس کے دل میں مقدس تعویذ گھونپنا ہوگا۔" اس نے اپنی جیب سے ایک چھوٹا دھاتی تعویذ نکالا، جس پر عجیب سے نشانات کندہ تھے۔
رام دیال نے پرعزم لہجے میں کہا، "ہمارے پاس کوئی اور راستہ نہیں۔ اگر ہم یہاں رہے، یہ ہمیں ایک ایک کر کے مار ڈالے گا۔" اس نے بشن سنگھ کو اشارہ کیا کہ وہ انجن روم تیار رکھے۔ "ہم ٹرین کو چلائیں گے اور اس مخلوق سے لڑیں گے۔" لیکن اس سے پہلے کہ وہ منصوبہ مکمل کرتے، ایک اور چیخ گونجی۔ یہ مولوی عبدالرحیم کی آواز تھی۔ سب نے مڑ کر دیکھا تو وہ زمین پر گرے ہوئے تھے، ان کا گلہ چیرا ہوا تھا، اور ان کی تسبیح خون میں ڈوبی پڑی تھی۔ ایک اور مخلوق ڈبے میں داخل ہو چکی تھی، اس کی آنکھیں رام دیال پر جمی ہوئی تھیں، جیسے وہ اسے چیلنج کر رہی ہو۔
رام دیال نے بندوق اٹھائی اور گولی چلائی، لیکن مخلوق نے گولی جھیل لی اور اس کی طرف لپکی۔ بشن سنگھ نے ایک لوہے کی راڈ اٹھائی اور مخلوق کے سر پر زور سے ماری، لیکن اس کا اثر نہ ہوا۔ مخلوق نے بشن سنگھ کو دیوار سے ٹکرا دیا، اور وہ بے ہوش ہو کر گر پڑا۔ رام دیال نے لاجونتی اور بیکٹو کو پکارا، "بھاگو! ڈبے کے پچھلے دروازے کی طرف!" وہ خود مخلوق سے مقابلہ کرنے لگا، لیکن اسے احساس ہو چکا تھا کہ اس کی بندوق اس کے خلاف بے اثر ہے۔
لاجونتی نے بیکٹو کا ہاتھ پکڑا اور پنڈت رگھوناتھ کے ساتھ ڈبے کے پچھلے حصے کی طرف بھاگی۔ پنڈت نے اپنے مخطوطے سے ایک پرانا منتر پڑھنا شروع کیا، لیکن اس کی آواز خوف سے لرز رہی تھی۔ اچانک، لاجونتی رکی اور اپنے گلے سے ایک تعویذ نکالا۔ اس نے رام دیال کی طرف دیکھا اور کہا، "یہ وہی تعویذ ہے جو اس مخلوق کو روک سکتا ہے۔ میری ماں نے بتایا تھا کہ یہ ہمارے خاندان کی لعنت ہے۔" رام دیال حیران رہ گیا۔ "تم جانتی تھیں؟ پھر تم نے پہلے کیوں نہیں بتایا؟"
مزید پڑھیں |
لاجونتی کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے۔ "میں ڈرتی تھی۔ یہ نرہ پشاچ ہمارے خاندان کی وجہ سے وجود میں آیا۔ میرا بھائی اسی جنگل میں غائب ہوا تھا، اور اس کے بعد سے یہ مخلوق ہر چاندنی رات کو شکار کرتی ہے۔" اس نے تعویذ رام دیال کے ہاتھ میں تھمایا اور کہا، "اسے اس کے دل میں گھونپ دو۔"
رام دیال نے تعویذ پکڑا، جس پر عجیب سے قدیم نشانات کندہ تھے، جیسے کسی گمشدہ رسم کا حصہ ہوں۔ اس نے لاجونتی سے کہا، "تم بیکٹو کو لے کر ڈبے میں چھپو۔ میں اسے روکوں گا۔" وہ دروازے کی طرف بڑھا، جہاں مخلوق ابھی تک ڈبے میں گھوم رہی تھی۔ جنگل سے مزید چیخیں آ رہی تھیں، گویا اور بھی مخلوقات جمع ہو رہی تھیں۔
رام دیال نے تعویذ کو اپنی بندوق کے سرے پر لگایا اور مخلوق کی طرف بڑھا۔ اس کی سرخ آنکھیں اور خون آلود دانتوں نے اسے جیسے پتھر کر دیا، لیکن اس نے ہمت جمع کی اور تعویذ کو مخلوق کے سینے میں زور سے گھونپ دیا۔ مخلوق نے ایک دل دہلا دینے والی چیخ ماری اور پیچھے ہٹی، لیکن ابھی زندہ تھی۔ اس نے رام دیال کو زمین پر گرا دیا اور اس کے گلے کی طرف جھکی۔ اسی لمحے، پنڈت رگھوناتھ نے اپنا منتر بلند آواز میں پڑھا۔ تعویذ سے ایک عجیب سی روشنی نکلی، جو مخلوق کے جسم میں داخل ہوئی۔ مخلوق نے ایک آخری چیخ ماری اور دھول میں تبدیل ہو کر غائب ہو گئی۔
لیکن رام دیال بری طرح زخمی ہو چکا تھا۔ اس کا بازو چیرا ہوا تھا، اور خون بہہ رہا تھا۔ لاجونتی اور بیکٹو اس کے پاس بھاگے، لیکن جنگل سے ایک اور گرجدار آواز آئی۔ ایک اور نرہ پشاچ، اس بار اور بھی عظیم، ٹرین کے سامنے نمودار ہوا۔ بشن سنگھ، جو ہوش میں آ چکا تھا، نے انجن کو زور دیا، اور ٹرین تیزی سے آگے بڑھی۔ رام دیال نے آخری ہمت جمع کی، تعویذ اٹھایا، اور مخلوق کے سینے میں گھونپ دیا۔ مخلوق نے اسے اپنے پنجوں سے پکڑ کر ہوا میں اٹھا لیا، لیکن رام دیال نے تعویذ کو اور گہرائی سے دھنسایا۔ ایک زوردار دھماکے کے ساتھ مخلوق غائب ہو گئی، لیکن رام دیال کا جسم زمین پر گر پڑا، اس کی آنکھیں ہمیشہ کے لیے بند ہو چکی تھیں۔
مزید پڑھیں |
بشن سنگھ نے ٹرین کو کلکتہ کی طرف موڑ دیا۔ لاجونتی، بیکٹو، اور پنڈت رگھوناتھ خاموشی سے رام دیال کی لاش کے پاس بیٹھے تھے۔ سریش کمار، مولوی عبدالرحیم، اور بیکٹو کی دادی اس رات کی دہشت کا شکار ہو چکے تھے۔ رام دیال نے اپنی جان دے کر باقی مسافروں کو بچایا تھا، لیکن اس کی قربانی نے سب کے دل پر گہرا زخم چھوڑ دیا۔
ٹرین کلکتہ پہنچی، لیکن اس رات کی داستان مسافروں کے ذہنوں میں ہمیشہ کے لیے نقش ہو گئی۔ نرہ پشاچ کی لعنت شاید اس رات ختم ہو گئی تھی، لیکن بنگال کے جنگل کی خاموشی اب بھی خوف کی داستان سنانے کے لیے کافی تھی۔ بمبئی ایکسپریس اس راستے سے دوبارہ کبھی نہ گزری، اور رام دیال کی بہادری ایک عظیم داستان بن کر رہ گئی۔