ایک خوفناک رات

Sublimegate Urdu Stories

براہ مہربانی پلے کا بٹن  ضرور دبائیں کہانی ان لاک ہو جائے گی۔ آپ کے تعاون کا بہت بہت شکریہ
👇👇

بنگال کے گھنے جنگلوں اور دلدلی زمینوں کے درمیان سے گزرتی ایک ٹرین، "بمبئی ایکسپریس"، اپنی منزل کلکتہ کی طرف رواں دواں تھی۔ یہ برطانوی راج کے ابتدائی ریلوے نظام کا حصہ تھی، جو دیہاتوں اور شہروں کو آپس میں جوڑتی تھی۔ لیکن اس رات کا سفر ایک خوفناک خواب بننے والا تھا۔ آسمان پر گہرے بادل چھائے ہوئے تھے، اور چاند کی مدھم روشنی جنگل کے گھنے درختوں کے درمیان سے چھن کر زمین پر پڑ رہی تھی، گویا کوئی راز افشا کرنے کی کوشش کر رہی ہو۔ مقامی لوگ اس جنگل کو ملعون سمجھتے تھے۔ کہانیاں مشہور تھیں کہ رات کے وقت یہاں عجیب و غریب مخلوقات گھومتی ہیں—کچھ انہیں "بھوتنی" کہتے، کچھ "راکشس"، اور کچھ "نرہ پشاچ"—ایک ایسی مخلوق جو دن میں انسان کا روپ دھارتی تھی، لیکن رات کو خون کی پیاسی ہو جاتی تھی۔

ٹرین کے اندر بیٹھے مسافر ان کہانیوں سے بے خبر تھے، لیکن یہ بے خبری زیادہ دیر نہ رہنے والی تھی۔ ٹرین کا گارڈ، رام دیال، ایک تیس سالہ مضبوط جوان تھا، جو اپنی ذمہ داریوں کو جان سے زیادہ عزیز رکھتا تھا۔ وہ ایک غریب کسان کا بیٹا تھا، لیکن ریلوے کی ملازمت نے اسے عزت اور روزگار عطا کیا تھا۔ اس کی وردی پر مٹی کے دھبے لگے تھے، کیونکہ وہ ٹرین کے پچھلے ڈبے کی جانچ کرتے ہوئے جنگل کی کیچڑ والی زمین پر پھسل گیا تھا۔ اس کی جیب میں ایک پرانی لالٹین تھی، جو اس دور کی واحد روشنی تھی۔ رام دیال کا دل بوجھل تھا—اس کی ماں گاؤں میں بیمار تھی، اور وہ اس سفر کو جلد ختم کرنا چاہتا تھا۔ لیکن اسے کیا معلوم تھا کہ یہ رات اس کی زندگی کی سب سے خوفناک رات بننے والی تھی۔

ٹرین کے اندر مختلف پس منظر کے مسافر بیٹھے تھے، ہر ایک اپنی کہانی لیے ہوئے۔ سریش کمار، ایک کلکتہ کا تاجر، اپنی دکان کے لیے مال لے کر جا رہا تھا۔ وہ باتونی اور چالاک تھا، لیکن اس کی باتیں اکثر دوسروں کو پریشان کرتی تھیں۔ اس کے پاس ایک بڑا صندوق تھا، جسے وہ ہر وقت اپنے قریب رکھتا، گویا اس میں کوئی راز چھپا ہو۔ لاجونتی، ایک جوان بیوہ، اپنے میکے سے کلکتہ اپنی بہن کے گھر جا رہی تھی۔ وہ خاموش تھی، لیکن اس کی آنکھوں میں ایک عجیب سا خوف جھلکتا تھا، جیسے وہ کوئی بھید چھپا رہی ہو۔ مولوی عبدالرحیم، ایک بزرگ عالم دین، اپنی دینی کتابوں کے ساتھ سفر کر رہے تھے۔ وہ اکثر دعائیں پڑھتے اور مسافروں کو جنگل کی "بھوتنی" کہانیوں سے ڈراتے رہتے تھے۔ پنڈت رگھوناتھ، ایک مقامی پنڈت، گاؤں میں ایک رسم ادا کرنے کے بعد واپس جا رہا تھا۔ اس کے پاس کچھ پرانے سنسکرت مخطوطات تھے، جن کے بارے میں وہ دعویٰ کرتا تھا کہ وہ "قدیم رازوں" سے بھرے ہیں۔ بیکٹو، ایک شرارتی لڑکا، اپنی دادی کے ساتھ سفر کر رہا تھا۔ وہ ٹرین کے ڈبوں میں ادھر اُدھر بھاگتا رہتا، جس سے رام دیال کو خاصی پریشانی ہوتی تھی۔

ٹرین کا ڈرائیور، بشن سنگھ، ایک تجربہ کار سکھ تھا، جو ریلوے سے پہلے فوج میں خدمات انجام دے چکا تھا۔ اس کا اسسٹنٹ، منوج، ایک جوان لڑکا تھا جو ہنسی مذاق میں مصروف رہتا تھا۔ بشن سنگھ اس رات کے سفر سے ناخوش تھا۔ اسے مقامی افواہوں کا علم تھا کہ اس جنگل میں رات کے وقت عجیب واقعات رونما ہوتے ہیں۔ وہ اپنی پگڑی کو درست کرتے ہوئے منوج سے کہہ رہا تھا، "یہ جنگل اچھا نہیں، منوج۔ رات کو یہاں سے گزرنا خطرناک ہے۔" منوج نے ہنستے ہوئے جواب دیا، "بشن جی، آپ بھی ان دیہاتیوں کی کہانیوں پر یقین کرتے ہیں؟ یہ بس کوئی بھالو یا چیتا ہوگا۔"

رات گہری ہوتی جا رہی تھی، اور اچانک ٹرین کی رفتار سست پڑ گئی۔ مسافر بے چین ہو رہے تھے۔ سریش کمار بلند آواز میں شکایت کر رہا تھا، "یہ بمبئی ایکسپریس کبھی وقت پر نہیں پہنچتی!" لاجونتی اپنی سیٹ پر خاموشی سے دعا مانگ رہی تھی، اس کی انگلیاں اس کے گلے میں پڑے تعویذ پر پھر رہی تھیں۔ مولوی عبدالرحیم نے اپنی تسبیح نکالی اور بلند آواز میں آیات پڑھنی شروع کیں، جس سے ڈبے کا ماحول مزید بھاری ہو گیا۔ بیکٹو اپنی دادی سے کہہ رہا تھا، "دادی، یہ مولوی اتنا کیوں ڈرا رہا ہے؟" لیکن اس کی دادی نے اسے چپ کرا دیا۔

رام دیال ڈرائیور کے ڈبے کی طرف بڑھا تاکہ سست رفتاری کی وجہ معلوم کرے۔ بشن سنگھ نے بتایا کہ ٹریک پر کوئی رکاوٹ ہے—شاید کوئی بڑا پتھر یا درخت کی شاخ۔ رام دیال نے اپنی لالٹین اٹھائی اور منوج کے ساتھ ٹریک کی جانچ کے لیے اترا۔ جنگل کی خاموشی غیر معمولی تھی۔ نہ پرندوں کی آواز، نہ جھینگر کی سرسراہٹ۔ صرف ہوا کی ایک عجیب سی سرگوشی تھی، جو درختوں کے پتوں سے ٹکراتی ہوئی کانوں میں گونج رہی تھی۔ رام دیال کے ہاتھ میں لالٹین ہلکی سی لرز رہی تھی۔ اسے اپنے گاؤں کی کہانیاں یاد آ رہی تھیں، جہاں بڑوں نے "نرہ پشاچ" کا ذکر کیا تھا—ایک مخلوق جو چاندنی راتوں میں انسانوں کا شکار کرتی تھی۔

جب وہ ٹریک پر آگے بڑھے، انہیں زمین پر عجیب نشانات نظر آئے۔ بڑے بڑے پنجوں کے نشانات تھے، جو نہ بھالو کے تھے، نہ چیتے کے۔ وہ اتنا گہرے تھے کہ جیسے کوئی بھاری مخلوق یہاں سے گزری ہو۔ منوج نے ہنستے ہوئے کہا، "یہ کوئی جنگلی جانور ہوگا، رام بھائی۔ ڈرو مت!" لیکن اس کی آواز میں ایک ہلکی سی لرزش تھی۔ اچانک، جنگل سے ایک خوفناک آواز گونجی—جیسے کوئی زخمی جانور چیخ رہا ہو، لیکن اس میں ایک عجیب سی انسانی سی کیفیت تھی۔ رام دیال کا دل دھک سے رہ گیا۔ اس نے منوج کو کہا، "جلدی واپس چلو!" لیکن اس سے پہلے کہ وہ مڑتے، ایک سایہ جنگل سے نکل کر ان کی طرف لپکا۔

دونوں بھاگ کر ٹرین کی طرف لوٹے، لیکن جب وہ ڈبے کے قریب پہنچے، ایک زوردار دھماکے کی آواز آئی۔ ٹرین کا ایک ڈبہ زور سے ہلا، جیسے اسے کسی نے دھکا دیا ہو۔ مسافروں میں افراتفری مچ گئی۔ سریش کمار چیخا، "یہ کیا ہو رہا ہے؟ ہم سب مر جائیں گے!" بیکٹو اپنی دادی کے پیچھے چھپ گیا، اور لاجونتی کی آنکھوں میں خوف کی گہرائی بڑھ گئی۔ مولوی عبدالرحیم نے بلند آواز میں دعا پڑھنی شروع کی، جبکہ پنڈت رگھوناتھ اپنے مخطوطات پر جھکا ہوا کچھ منتر ڈھونڈ رہا تھا۔

رام دیال نے ڈبے میں داخل ہونے کی کوشش کی، تو اسے ایک گندی بدبو آئی—جیسے گیلی مٹی اور خون کی ملاپ۔ اس نے اپنی لالٹین اٹھائی اور دیکھا کہ ڈبے کی کھڑکی ٹوٹ چکی تھی۔ شیشے کے ٹکڑے زمین پر بکھرے ہوئے تھے، اور کھڑکی کے باہر دو چمکتی ہوئی آنکھیں نظر آئیں، جو چاند کی روشنی میں خون کی طرح سرخ دمک رہی تھیں۔ اس سے پہلے کہ وہ کچھ سمجھ پاتا، ایک عظیم مخلوق نے ڈبے پر حملہ کر دیا۔ اس کا جسم انسان جیسا تھا، لیکن چہرہ بھیڑیے جیسا—لمبے، نوکیلے دانت، بالوں سے ڈھکا جسم، اور پنجوں والی انگلیاں جو دھات کو چیر سکتی تھیں۔ اس کی چیخ اتنی خوفناک تھی کہ مسافروں کے خون جم گئے۔

رام دیال نے اپنی بندوق اٹھائی، جو اسے ریلوے سیکیورٹی کے لیے دی گئی تھی، اور مخلوق پر گولی چلائی۔ گولی اسے لگی، لیکن وہ صرف ایک قدم پیچھے ہٹی اور پھر اور زیادہ غصے سے حملہ آور ہوئی۔ اس نے ڈبے کی دیوار کو چیر دیا، اور اس کی پنجوں والی ہتھیلی ایک مسافر کی طرف بڑھی، جو چیختے ہوئے پیچھے ہٹا۔ جنگل سے مزید چیخیں آ رہی تھیں—جیسے ایک نہیں، کئی مخلوقات وہاں موجود ہوں۔ ہوا میں خون کی بو گھل گئی تھی، اور ٹرین کے اندر کا ہر لمحہ موت کے قریب لے جا رہا تھا۔

افراتفری میں، منوج غائب ہو چکا تھا۔ رام دیال نے ٹریک پر خون کے دھبے دیکھے، جہاں منوج کی لالٹین زمین پر پڑی تھی، اس کی شعلہ مدھم ہو رہی تھی۔ وہ سمجھ گیا کہ یہ کوئی عام جانور نہیں ہے۔ اس نے مسافروں کو ڈبے کے اندر بند ہونے کا حکم دیا اور دروازوں کو مضبوط کرنے لگا۔ لیکن اسے احساس تھا کہ یہ صرف آغاز ہے۔ جنگل کی خاموشی اب ٹوٹ چکی تھی، اور ہر طرف سے عجیب آوازیں آ رہی تھیں—کبھی ہنسی کی طرح، کبھی رونا، کبھی گرجنا۔

رام دیال نے مسافروں کو جمع کیا اور کہا، "ہمیں مل کر مقابلہ کرنا ہوگا۔ یہ کوئی عام جانور نہیں ہے۔ ہمیں بمبئی ایکسپریس کو دوبارہ چلانا ہوگا، ورنہ ہم سب مارے جائیں گے۔" سریش کمار نے احتجاج کیا کہ وہ اپنا صندوق نہیں چھوڑ سکتا، جیسے اس میں اس کی جان بسی ہو۔ لاجونتی خاموشی سے رام دیال کو دیکھ رہی تھی، اس کی آنکھوں میں ایک عجیب سی چمک تھی، جیسے وہ جانتی ہو کہ یہ مخلوق کیا ہے۔ مولوی عبدالرحیم نے کہا، "یہ شیطان کا کام ہے۔ صرف دعائیں ہمیں بچا سکتی ہیں۔" پنڈت رگھوناتھ نے اپنے مخطوطات سے سر اٹھایا اور دھیمی آواز میں کہا، "یہ 'نرہ پشاچ' ہے۔ میرے مخطوطات میں اس کا ذکر ہے۔ یہ چاندنی راتوں میں خون مانگتا ہے، اور اسے روکنے کا ایک ہی طریقہ ہے—لیکن اس کے لیے ہمت چاہیے۔"

رام دیال نے فیصلہ کیا کہ وہ بشن سنگھ کے ساتھ مل کر ٹرین کو دوبارہ چلانے کی کوشش کرے گا۔ لیکن اس سے پہلے کہ وہ انجن روم کی طرف بڑھتا، ایک اور چیخ گونجی۔ یہ بیکٹو کی دادی کی آواز تھی۔ رام دیال بھاگ کر ڈبے میں پہنچا، لیکن وہاں صرف خون کے چھینٹے اور ایک ٹوٹی ہوئی کھڑکی تھی۔ بیکٹو زمین پر بیٹھا رو رہا تھا، اس کے ہاتھ میں اس کی دادی کا ٹوٹا ہوا کنگن تھا۔ لاجونتی اسے گلے لگا کر تسلی دے رہی تھی، لیکن اس کی اپنی آنکھیں خوف سے بھری ہوئی تھیں۔

جنگل سے ایک اور گرجدار آواز آئی، جیسے کوئی بھاری چیز ٹرین کی طرف بڑھ رہی ہو۔ رام دیال نے دروازے کی طرف دیکھا، جہاں چاند کی روشنی میں ایک اور سایہ نظر آیا۔ اس کی آنکھیں سرخ تھیں، اور اس کے دانتوں سے خون ٹپک رہا تھا۔ رام دیال کا دل زور زور سے دھڑک رہا تھا، لیکن وہ جانتا تھا کہ اب پیچھے ہٹنا موت ہے۔ اس نے اپنی بندوق مضبوطی سے پکڑی اور مسافروں کو پکارا، "تیار ہو جاؤ! یہ رات ہم سب کی آزمائش ہے!"

چاند کی مدھم روشنی اب تقریباً ختم ہو چکی تھی، اور بنگال کے گھنے جنگل کی گہری تاریکی بمبئی ایکسپریس کے ڈبوں پر چھا گئی تھی۔ ٹرین، جو کبھی کلکتہ کی طرف امیدوں کے پلندے لے کر رواں دواں تھی، اب موت کے سائے تلے کھڑی تھی۔ رام دیال کی بندوق کی نال ابھی تک گرم تھی، لیکن اس کے ہاتھ ٹھنڈے پڑ رہے تھے۔ جنگل سے آنے والی چیخوں نے مسافروں کے دل منجمد کر دیے تھے۔ بیکٹو کی دادی کا غائب ہونا اور خون کے چھینٹوں سے بھری ٹوٹی کھڑکی ہر ایک کے ذہن میں ایک ہی سوال اٹھا رہی تھی—کیا وہ اس رات سے زندہ بچ پائیں گے؟

رام دیال نے مسافروں کو ڈبے کے وسط میں جمع کیا۔ سریش کمار اپنا صندوق مضبوطی سے تھامے ہوئے تھا، گویا اس کی جان اسی میں بند تھی۔ لاجونتی بیکٹو کو سینے سے لگائے خاموش کھڑی تھی، لیکن اس کی آنکھوں میں ایک عجیب سی چمک تھی، جیسے وہ کوئی گہرا راز جانتی ہو۔ مولوی عبدالرحیم تسبیح پھیرتے ہوئے آیات پڑھ رہے تھے، ان کی آواز میں ایک عجیب سی شدت تھی، جو خوف اور ایمان کا ملغوبہ تھی۔ پنڈت رگھوناتھ اپنے پرانے مخطوطات پر جھکا ہوا تھا، اس کی لرزتی انگلیاں پیلے پڑے صفحات پر پھر رہی تھیں، جیسے وہ کوئی بھولی بسری تدبیر ڈھونڈ رہا ہو۔ بیکٹو، اپنی دادی کا ٹوٹا ہوا کنگن ہاتھ میں پکڑے، زمین پر بیٹھا سسکیاں لے رہا تھا۔ بشن سنگھ انجن روم سے واپس آیا، اس کا چہرہ پریشانی سے لبریز تھا۔ "ٹرین کا انجن ٹھیک ہے، لیکن ٹریک پر کوئی بھاری چیز پڑی ہے۔ ہمیں اسے ہٹانا ہوگا، ورنہ ہم یہاں پھنس جائیں گے۔"

رام دیال نے گہری سانس لی اور دھیمی لیکن پرعزم آواز میں کہا، "ہم سب کو مل کر مقابلہ کرنا ہوگا۔ یہ کوئی عام جانور نہیں۔" اس نے اپنی بندوق دوبارہ لوڈ کی اور دروازے کی طرف بڑھا۔ لیکن اس سے پہلے کہ وہ باہر قدم رکھتا، ایک زوردار دھماکہ ہوا۔ ڈبے کی چھت پر کچھ بھاری گرنے کی آواز آئی، اور اس کے ساتھ ایک ایسی خوفناک چیخ گونجی کہ فضا کانپ اٹھی۔ مسافروں نے خوفزدہ نظروں سے ایک دوسرے کی طرف دیکھا۔ سریش کمار چیخا، "یہ کیا ہے؟ ہم سب مر جائیں گے!" اس کی آواز اب ہسٹیریا کے دہانے پر تھی۔

مزید پڑھیں

رام دیال نے دروازہ کھولنے کی کوشش کی، لیکن وہ جام ہو چکا تھا۔ اچانک، کھڑکی سے ایک بہت بڑا پنجہ اندر آیا اور ڈبے کی دیوار کو چیر ڈالا۔ خون کی بو اور گیلی مٹی کی گندی بدبو فضا میں پھیل گئی۔ مخلوق کا سایہ اب واضح تھا—ایک انسان نما جسم، لیکن اس کا چہرہ بھیڑیے جیسا، آنکھیں خون کی طرح سرخ، اور نوکیلے دانتوں سے خون ٹپک رہا تھا۔ اس نے ایک زوردار چیخ ماری اور سریش کمار کی طرف لپکا۔ سریش نے اپنا صندوق آگے کیا، لیکن مخلوق نے اسے ایک جھٹکے میں چھین کر دیوار سے ٹکرا دیا۔ صندوق ٹوٹ کر کھل گیا، اور اس میں سے سونے کے سکے اور جواہرات زمین پر بکھر گئے۔ سریش چیختا ہوا زمین پر گر پڑا، اور اس سے پہلے کہ کوئی کچھ کر پاتا، مخلوق نے اس کے سینےRobinhoods of the Night کے سینے پر پنجہ مارا۔ سریش کی چیخ فضا میں گونجی اور پھر خاموشی چھا گئی۔ اس کا جسم بے جان ہو کر گر پڑا، خون کا تالاب اس کے نیچے بن گیا۔

مسافروں میں افراتفری مچ گئی۔ لاجونتی نے بیکٹو کو مضبوطی سے پکڑا اور ڈبے کے کونے میں چھپ گئی۔ مولوی عبدالرحیم نے بلند آواز میں دعا پڑھنی شروع کی، لیکن ان کی آواز خوف سے کانپ رہی تھی۔ پنڈت رگھوناتھ نے اپنا مخطوطہ اٹھایا اور بولا، "یہ نرہ پشاچ ہے، ایک قدیم لعنت۔ اسے روکنے کا ایک ہی طریقہ ہے—اس کے دل میں مقدس تعویذ گھونپنا ہوگا۔" اس نے اپنی جیب سے ایک چھوٹا دھاتی تعویذ نکالا، جس پر عجیب سے نشانات کندہ تھے۔

رام دیال نے پرعزم لہجے میں کہا، "ہمارے پاس کوئی اور راستہ نہیں۔ اگر ہم یہاں رہے، یہ ہمیں ایک ایک کر کے مار ڈالے گا۔" اس نے بشن سنگھ کو اشارہ کیا کہ وہ انجن روم تیار رکھے۔ "ہم ٹرین کو چلائیں گے اور اس مخلوق سے لڑیں گے۔" لیکن اس سے پہلے کہ وہ منصوبہ مکمل کرتے، ایک اور چیخ گونجی۔ یہ مولوی عبدالرحیم کی آواز تھی۔ سب نے مڑ کر دیکھا تو وہ زمین پر گرے ہوئے تھے، ان کا گلہ چیرا ہوا تھا، اور ان کی تسبیح خون میں ڈوبی پڑی تھی۔ ایک اور مخلوق ڈبے میں داخل ہو چکی تھی، اس کی آنکھیں رام دیال پر جمی ہوئی تھیں، جیسے وہ اسے چیلنج کر رہی ہو۔

رام دیال نے بندوق اٹھائی اور گولی چلائی، لیکن مخلوق نے گولی جھیل لی اور اس کی طرف لپکی۔ بشن سنگھ نے ایک لوہے کی راڈ اٹھائی اور مخلوق کے سر پر زور سے ماری، لیکن اس کا اثر نہ ہوا۔ مخلوق نے بشن سنگھ کو دیوار سے ٹکرا دیا، اور وہ بے ہوش ہو کر گر پڑا۔ رام دیال نے لاجونتی اور بیکٹو کو پکارا، "بھاگو! ڈبے کے پچھلے دروازے کی طرف!" وہ خود مخلوق سے مقابلہ کرنے لگا، لیکن اسے احساس ہو چکا تھا کہ اس کی بندوق اس کے خلاف بے اثر ہے۔

لاجونتی نے بیکٹو کا ہاتھ پکڑا اور پنڈت رگھوناتھ کے ساتھ ڈبے کے پچھلے حصے کی طرف بھاگی۔ پنڈت نے اپنے مخطوطے سے ایک پرانا منتر پڑھنا شروع کیا، لیکن اس کی آواز خوف سے لرز رہی تھی۔ اچانک، لاجونتی رکی اور اپنے گلے سے ایک تعویذ نکالا۔ اس نے رام دیال کی طرف دیکھا اور کہا، "یہ وہی تعویذ ہے جو اس مخلوق کو روک سکتا ہے۔ میری ماں نے بتایا تھا کہ یہ ہمارے خاندان کی لعنت ہے۔" رام دیال حیران رہ گیا۔ "تم جانتی تھیں؟ پھر تم نے پہلے کیوں نہیں بتایا؟"

مزید پڑھیں

لاجونتی کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے۔ "میں ڈرتی تھی۔ یہ نرہ پشاچ ہمارے خاندان کی وجہ سے وجود میں آیا۔ میرا بھائی اسی جنگل میں غائب ہوا تھا، اور اس کے بعد سے یہ مخلوق ہر چاندنی رات کو شکار کرتی ہے۔" اس نے تعویذ رام دیال کے ہاتھ میں تھمایا اور کہا، "اسے اس کے دل میں گھونپ دو۔"

رام دیال نے تعویذ پکڑا، جس پر عجیب سے قدیم نشانات کندہ تھے، جیسے کسی گمشدہ رسم کا حصہ ہوں۔ اس نے لاجونتی سے کہا، "تم بیکٹو کو لے کر ڈبے میں چھپو۔ میں اسے روکوں گا۔" وہ دروازے کی طرف بڑھا، جہاں مخلوق ابھی تک ڈبے میں گھوم رہی تھی۔ جنگل سے مزید چیخیں آ رہی تھیں، گویا اور بھی مخلوقات جمع ہو رہی تھیں۔

رام دیال نے تعویذ کو اپنی بندوق کے سرے پر لگایا اور مخلوق کی طرف بڑھا۔ اس کی سرخ آنکھیں اور خون آلود دانتوں نے اسے جیسے پتھر کر دیا، لیکن اس نے ہمت جمع کی اور تعویذ کو مخلوق کے سینے میں زور سے گھونپ دیا۔ مخلوق نے ایک دل دہلا دینے والی چیخ ماری اور پیچھے ہٹی، لیکن ابھی زندہ تھی۔ اس نے رام دیال کو زمین پر گرا دیا اور اس کے گلے کی طرف جھکی۔ اسی لمحے، پنڈت رگھوناتھ نے اپنا منتر بلند آواز میں پڑھا۔ تعویذ سے ایک عجیب سی روشنی نکلی، جو مخلوق کے جسم میں داخل ہوئی۔ مخلوق نے ایک آخری چیخ ماری اور دھول میں تبدیل ہو کر غائب ہو گئی۔

لیکن رام دیال بری طرح زخمی ہو چکا تھا۔ اس کا بازو چیرا ہوا تھا، اور خون بہہ رہا تھا۔ لاجونتی اور بیکٹو اس کے پاس بھاگے، لیکن جنگل سے ایک اور گرجدار آواز آئی۔ ایک اور نرہ پشاچ، اس بار اور بھی عظیم، ٹرین کے سامنے نمودار ہوا۔ بشن سنگھ، جو ہوش میں آ چکا تھا، نے انجن کو زور دیا، اور ٹرین تیزی سے آگے بڑھی۔ رام دیال نے آخری ہمت جمع کی، تعویذ اٹھایا، اور مخلوق کے سینے میں گھونپ دیا۔ مخلوق نے اسے اپنے پنجوں سے پکڑ کر ہوا میں اٹھا لیا، لیکن رام دیال نے تعویذ کو اور گہرائی سے دھنسایا۔ ایک زوردار دھماکے کے ساتھ مخلوق غائب ہو گئی، لیکن رام دیال کا جسم زمین پر گر پڑا، اس کی آنکھیں ہمیشہ کے لیے بند ہو چکی تھیں۔

مزید پڑھیں

بشن سنگھ نے ٹرین کو کلکتہ کی طرف موڑ دیا۔ لاجونتی، بیکٹو، اور پنڈت رگھوناتھ خاموشی سے رام دیال کی لاش کے پاس بیٹھے تھے۔ سریش کمار، مولوی عبدالرحیم، اور بیکٹو کی دادی اس رات کی دہشت کا شکار ہو چکے تھے۔ رام دیال نے اپنی جان دے کر باقی مسافروں کو بچایا تھا، لیکن اس کی قربانی نے سب کے دل پر گہرا زخم چھوڑ دیا۔

ٹرین کلکتہ پہنچی، لیکن اس رات کی داستان مسافروں کے ذہنوں میں ہمیشہ کے لیے نقش ہو گئی۔ نرہ پشاچ کی لعنت شاید اس رات ختم ہو گئی تھی، لیکن بنگال کے جنگل کی خاموشی اب بھی خوف کی داستان سنانے کے لیے کافی تھی۔ بمبئی ایکسپریس اس راستے سے دوبارہ کبھی نہ گزری، اور رام دیال کی بہادری ایک عظیم داستان بن کر رہ گئی۔

(ختم شد)
👇👇
اگر کہانی پسند آئی ہو تو کمنٹ میں ضرور بتایئں شکریہ