ان دنوں میں انٹر میں تھی۔ صمد میرا کلاس فیلو تھا۔ وہ معمولی شکل و صورت کا، مگر بلا کا ذہین تھا۔ ہماری بات چیت صرف کلاس تک محدود تھی۔ جب کبھی مجھے پڑھائی میں دقت محسوس ہوتی، میں صمد سے مدد لیتی۔ وہ مجھے اپنے نوٹس دے دیا کرتا، جنہیں میں پڑھ کر واپس کر دیتی۔ مطالعے کے معاملے میں وہ میرا اچھا مددگار ثابت ہوا۔ بی اے تک اس نے مجھ سے تعاون کیا۔
وہ اکثر لائبریری سے اچھی اچھی کتابیں ایشو کروا کر لاتا اور مجھے پڑھنے کے لیے دیتا۔ میری ذہنی تربیت میں صمد کا بڑا ہاتھ تھا۔ بات یہ تھی کہ ہم نہ صرف ایک دوسرے کا احترام کرتے تھے بلکہ دل ہی دل میں ایک دوسرے کو چاہتے بھی تھے، لیکن ہم نے کبھی اپنی چاہت کا اظہار نہیں کیا تھا۔ جب بی اے کے سالانہ امتحان ختم ہوئے اور ہم ہمیشہ کے لیے بچھڑنے لگے، تو صمد نے مجھے ایک کیسٹ دی کہ اسے گھر جا کر سن لینا۔ میں نے گھر جا کر کھانا کھایا اور پھر اپنے کمرے کا دروازہ بند کر کے کیسٹ لگا دی۔
جیسے جیسے میں کیسٹ سنتی گئی، میرے دل کی دھڑکن تیز ہوتی گئی۔ اس میں صمد نے اپنی محبت کا اظہار کیا تھا۔ اس نے کہا تھا: ’بینش، میں تمہارے بغیر زندگی کا تصور بھی نہیں کر سکتا۔ اگر تم اجازت دو تو میں اپنے والدین کو تمہارے گھر بھیجوں۔‘ میں تو خود دن رات اس کی چاہت میں جلتی رہی تھی۔ یہ موقع تھا، میں نے بھی اپنی چاہت کا اظہار کر کے وہ کیسٹ اپنی کزن دلشاد کو دے دی کہ وہ صمد کو پہنچا دے، جو ان کے گھر کے پاس رہتا تھا اور اس کا بھائی خرم، صمد کا دوست تھا۔ وہ ان کے گھر آتا جاتا رہتا تھا۔ دلشاد نے پوچھا، ’یہ کیسٹ صمد کو کیوں دینی ہے؟‘ میں نے کہا، ’میں نے اس سے گانے سننے کے لیے لی تھی، واپس دینے کے وعدے پر۔‘ میں نے اپنی کزن کو مطمئن کرنے کی کوشش کی، مگر وہ مطمئن نہ ہوئی۔ اس نے گھر جا کر کیسٹ سنی، تمام باتیں دوسری کیسٹ میں کاپی کیں، اور اصل کیسٹ صمد کو دے دی۔
مجھے اس کی اس حرکت کا کوئی علم نہ تھا۔ خدا جانے اس نے ایسا کیوں کیا تھا۔ ایک ہفتے بعد صمد کی والدہ اور بہنیں میرا رشتہ لینے ہمارے گھر آئیں تو میرے والدین نے یہ شرط رکھی کہ صمد اچھی ملازمت حاصل کر لے یا پھر اپنا کاروبار شروع کرے اور کمانے کے قابل ہو جائے، تو ہم اپنی بیٹی کا رشتہ آپ کو دے دیں گے۔ صمد نے کافی کوشش کی، مگر اسے اچھی ملازمت نہ مل سکی۔ کاروبار کرنا بھی آسان نہ تھا۔ اسے کاروبار کا کوئی تجربہ نہ تھا۔ اس کے والد صاحب ایک ملازم پیشہ آدمی تھے، وہ کاروباری رموز نہیں جانتے تھے اور نہ ہی ان کے پاس سرمایہ تھا۔ چھے ماہ تک ہم انتظار کرتے رہے کہ وہ لوگ آ کر کوئی مثبت بات کریں گے۔ وہ اب بھی اس کوشش میں تھے کہ ہم اپنی شرطیں ہٹا لیں، مگر بات نہ بن سکی۔ اسی دوران صمد کو اس کے چچا نے اپنے پاس انگلینڈ بلا لیا۔
اس نے جانے سے پہلے مجھے فون کیا اور کہا کہ میں تمہاری خاطر جا رہا ہوں تاکہ کچھ کما کر جمع کر سکوں، پھر وطن واپس آ کر کاروبار شروع کروں۔ اگر تم نے میرا انتظار کیا، تو مجھے ثابت قدم پاؤ گی۔ وہ انگلینڈ چلا گیا، اور میں کچھ نہ کر سکی۔ لڑکیاں مجبور ہوتی ہیں، جو فیصلہ ماں باپ کر دیں، وہی قبول کرنا پڑتا ہے۔ میں عمر بھر اس کا انتظار کرنا چاہتی تھی، مگر والدین کو انتظار پسند نہ تھا۔ انہوں نے میرے رشتے کی تلاش شروع کر دی۔ انہی دنوں چچا جان ہمارے گھر آئے اور والد صاحب سے صلاح مشورہ کرنے لگے کہ کیوں نہ ہم آپس میں رشتے طے کر لیں؟ میری بیٹی تم اپنے بیٹے کے لیے لے لو، اور تمہاری بچی میرے گھر آ جائے۔ اس طرح ہمارے بچوں کی شادی کا مسئلہ حل ہو جائے گا۔
ابا جان بولے کہ تم سے بہتر مجھے اور کوئی نہیں، غیروں میں رشتہ تو مجبوری میں کیا جاتا ہے۔ جب اپنوں میں رشتے موجود ہوں تو باہر دیکھنا بے وقوفی ہے، لیکن تم اپنی بیوی کو منا لو۔ چچا جان نے بتایا کہ اب ان کی بیگم بھی مان گئی ہیں۔ ان کا خیال تھا کہ آپس کے بندھن انہیں معاشی فائدہ بھی دیں گے کیونکہ زیادہ جہیز اور حق مہر کے جھنجھٹ میں نہیں پڑنا پڑے گا۔ بات طے ہو گئی، اور میرا رشتہ دلشاد کے بھائی خرم سے ہو گیا، جب کہ دلشاد کی منگنی میرے بھائی قیصر سے کر دی گئی۔ میں اس رشتے سے خوش نہ تھی۔
میرے دل میں تو صمد بسا ہوا تھا، لیکن کچھ بھی میرے بس میں نہ تھا۔ میں نے حالات کے آگے سر جھکا دیا، اور جہاں ماں باپ نے میرا بیاہ کیا، وہیں کی زینت بن گئی۔ صمد سے کوئی رابطہ نہ رہا۔ اب واسطے اور رابطے رکھ کر کیا کرنا تھا؟ جو زندگی عورت کو ملتی ہے، اسے گزارنا پڑتا ہے۔ جو عورت بھی بغاوت کرتی ہے، خواہ حق کے لیے ہی کیوں نہ ہو، اسے منہ کی کھانی پڑتی ہے۔ میں دل و جان سے اپنے شوہر کی ہو گئی۔ یہی میری منزل تھی، جو مجھے مل گئی۔ شادی کے بعد میں اپنے گھر اور بچوں کی پرورش میں کھو گئی۔ خدا نے مجھے دو بیٹے اور دو بیٹیاں دیں۔ اب بھلا مجھے کہاں فرصت تھی کہ کسی کو یاد رکھتی؟ مجھے خبر نہیں کہ صمد کو کب اور کیسے پتا چلا کہ میں بیاہ دی گئی ہوں۔
اس نے پھر پاکستان کا رخ نہ کیا اور انگلینڈ ہی میں مستقل سکونت اختیار کر لی۔ وقت گزرتا رہا، پرانی یادیں ذہن سے محو ہو چکی تھیں۔ سچ کہوں تو اب تو اس بات کا احساس بھی نہ رہا تھا کہ میں کبھی کسی سے محبت کرتی تھی، یا وہاں کیوں شادی نہ ہو سکی اور کسی اور سے کیوں ہو گئی۔ سب سوال بے معنی ہو چکے تھے۔ میں اپنے بچوں کی محبت میں کھو چکی تھی۔ خرم بھی کچھ برے نہ تھے۔ کچھ انسانی خامیاں تو ہر شخص میں ہوتی ہیں، لیکن وہ اچھے تھے، مجھ سے پیار کرتے تھے، اور ان کو مجھ پر وہ اعتماد تھا جو ایک شوہر کو اپنی بیوی پر ہونا چاہیے۔ میں نے بھی کبھی ان کے اعتماد کو ٹھیس نہ پہنچائی۔ بھلا میں ان کی قدر اور محبت کیوں نہ کرتی، جب کہ وہ مجھ سے محبت کرتے اور میری قدر کرتے تھے؟ میں سوچ بھی نہ سکتی تھی کہ ہماری رواں دواں، سبک خرام کشتی کو کبھی طوفان درپیش ہو گا۔
ہوا یوں کہ ان دنوں صمد بہت عرصے بعد گھر آیا ہوا تھا۔ اپنی شادی کے بعد پہلی بار میں نے سنا کہ وہ آیا ہے۔ وہ ہمارا پڑوسی تھا، تاہم میں آج تک ان کے گھر کبھی نہیں گئی تھی۔ اس دن میں ان کے ہاں چلی گئی کیونکہ صمد کی والدہ سخت علیل تھیں اور غسل خانے میں گرنے سے ان کی ہڈی میں فریکچر آ گیا تھا۔ یوں میں ان کی عیادت کے لیے چلی گئی۔ میرے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ اچانک صمد سے سامنا ہو جائے گا۔ میں اور وہ ایک دوسرے کو دیکھتے رہ گئے۔ اس نے کہا کہ وہ خرم سے ملنے آئے گا۔ وہ دونوں بچپن کے دوست تھے۔ اگلے دن چھٹی تھی، وہ خرم سے ملنے ہمارے گھر آ گیا۔ میں نے اسے ڈرائنگ روم میں بٹھا دیا۔ خرم نہا دھو کر باہر نکلے تو میں نے کہا کہ آپ کا پڑوسی آپ سے ملنے آیا ہے۔
وہ سمجھے میں دائیں طرف کے پڑوسی کی بات کر رہی ہوں، کہنے لگے کہ کل ہی تو وہ مل کر گیا تھا، پھر کیا کام پڑ گیا۔ میں نے کہا، نہیں، صمد آئے ہیں، انگلینڈ والے۔ خرم نے خوش ہو کر کہا، اچھا وہ آیا ہے، بڑی مدت بعد آیا ہے، چائے بھجوا دو۔ جب میں چائے کی ٹرے لے کر کمرے میں گئی، تو خدا جانے کیسے میرا ہاتھ لرز گیا اور چائے کی پیالی لڑھک کر قالین پر جا گری۔ یہ سب کچھ نادانستہ ہوا۔ میں شرمندگی کی وجہ سے بغیر کچھ بولے، الٹے قدموں لوٹ آئی۔ اس دن مجھے بہت شرمندگی محسوس ہو رہی تھی۔ خدا جانے خرم نے کیا سوچا ہو گا کہ میں کیسی بدسلیقہ عورت ہوں جو چائے کی پیالی بھی مہمان کو ٹھیک سے نہیں دے سکی۔ اس دن جانے کیوں سارا وقت بے سکون رہی۔ میری افسردگی اور خاموشی کو خرم نے بھی محسوس کیا اور مجھ سے پوچھا، بینش، تمہیں کیا ہوا ہے؟ کیوں آج خاموش سی ہو؟” میں نے جواب دیا، “کچھ نہیں، بس طبیعت کچھ ٹھیک نہیں۔ اس کے بعد بھی میں ایک دو بار صمد کے گھر اس کی والدہ کی عیادت کے لیے گئی۔
ایک دن میں خالہ کے پاس بیٹھی تھی کہ حرم اچانک دفتر سے گھر آ گئے اور ملازمہ کو بھیجا کہ جا کر بیگم صاحبہ کو بلا لاؤ، کچھ ضروری کاغذات نکالنے ہیں۔ الماری کی چابی میرے پاس ہی رہتی تھی اور پلاٹ کے وہ کاغذات، جن کی رجسٹریشن حرم نے میرے نام کروائی تھی، الماری میں رکھے تھے۔ میں فوراً ہی واپس آ گئی اور میری صمد سے ملاقات نہ ہو سکی۔ اس کے بعد سنا کہ وہ دوبارہ انگلینڈ چلا گیا ہے۔ اس واقعے کو کئی برس گزر گئے۔ پھر سنا کہ اس نے انگلینڈ میں شادی کر لی اور وہیں کا ہو گیا۔ میں نے کبھی اس کے بارے میں نہ سوال کیا نہ اس کا ذکر کیا، مگر خدا جانے کیوں یہ سن کر مجھے ایک طرح کا سکون ضرور ملا۔ میری بیٹی نے میٹرک کر لیا تھا اور بڑے بیٹے نے بی اے مکمل کر لیا تھا۔ میری نند دلشاد، جو اب میری بھابی بھی تھی، اس کے بچے بھی تعلیم مکمل کر چکے تھے۔ ہم نے سوچا کہ ہم بھی اب اپنے فرائض سے سبکدوش ہو جائیں۔ میرا جی نہیں چاہتا تھا کہ اپنی بیٹی وٹے سٹے میں دوں، مگر خرم نہ مانے۔ وہ اپنی بہن کو ہی بیٹی کا رشتہ دینا چاہتے تھے۔ خیر، میں نے بھی زیادہ مخالفت نہیں کی۔ جانتی تھی کہ وہ اس معاملے میں میری نہیں سنیں گے۔ دلشاد نے اگرچہ ہمارے بھائی کے ساتھ اچھی زندگی گزاری تھی، لیکن اس کا لڑکا، روشی، خاصا بدتمیز اور ضدی تھا۔ اس کی عادتیں مجھے ہرگز پسند نہیں تھیں۔
سب کی اپنی اپنی قسمت ہوتی ہے۔ میری بیٹی اپنے گھر جا کر خوش ہو گئی، اُس کا شوہر کے ساتھ اچھا نباہ ہو گیا—بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ میں نے اُس کی تربیت ہی ایسی کی تھی۔ میں نے اُسے غیر ضروری لاڈ نہیں دیا تھا۔ وہ خود بھی بہت سمجھدار تھی۔ لیکن دلشاد نے رُخسانہ کو بہت لاڈ دیا تھا۔ وہ بھی اپنے بھائی کی طرح خاصی بدتمیز اور منہ پھٹ تھی۔ نہ چھوٹوں کا لحاظ، نہ بڑوں کی عزت۔ اپنے دُولہا کا بھی مان نہیں رکھتی تھی۔ جب جی چاہتا، میکے چلی جاتی اور جب دل کرتا، سسرال آ جاتی۔ مجھ سے بھی اجازت لینا ضروری نہ سمجھتی۔ وٹے سٹے کی شادی کو نبھانے کے لیے جیسی قربانی میں نے دلشاد کے لیے دی تھی، ویسی ہی میری بیٹی نے دی۔ وہ ہر ستم سہہ کر چپ رہی، مگر رُخسانہ نے اپنی لڑاکا طبیعت کی وجہ سے ہم سب کی ناک میں دَم کر دیا۔
ایک دن میں نے کسی بات پر اُسے سمجھانا چاہا تو اُس نے آگے سے بکواس شروع کر دی۔ میں بھی غصے میں آ گئی—آخر وہ میری بہو ہونے کے علاوہ میری بھتیجی بھی تو تھی۔ میں نے اُسے دو چار سنا دیں۔ بس پھر کیا تھا، قیامت آ گئی۔ رُخسانہ نے بال کھولے، روتی پیٹتی، بین کرتی، اکیلی ہی ماں کے گھر چلی گئی۔ خدا جانے اُس نے ماں سے میرے خلاف کیا کچھ کہہ دیا کہ میری نند نے نہ صرف فوراً میرے بھائی کو فون کر کے بلا لیا، بلکہ میرے خاوند کو بھی فون کر دیا۔ بھائی قیصر کسی ضروری میٹنگ میں تھے۔ انہوں نے کہا کہ میں ابھی نہیں آ سکتا، تم خاطر جمع رکھو، میں شام کو بینش کے گھر جا کر حالات معلوم کروں گا۔ میرے شوہر البتہ فوراً دفتر سے بہن کے گھر چلے گئے۔
وہاں پہنچے تو دیکھا، رُخسانہ زار و قطار رو رہی ہے اور دلشاد سخت غصے میں ہے۔ وہ بولی کہ میری بیٹی کو تمہاری بیوی نے مارا پیٹا ہے اور تمہارا بیٹا بھی رُخسانہ کے ساتھ ٹھیک نہیں چلتا، بس ہمیں طلاق چاہیے۔ یہ سن کر حرم پریشان ہو گئے۔ کہا کہ ہمارے آپس کے رشتے ہیں، ہم بہن بھائی ہیں، یہ رشتے ٹوٹنے والے نہیں۔ تم طلاق کی بات نہ کرو۔ میری بیٹی بھی تو آخر تمہارے گھر نباہ کر رہی ہے۔ ہم نے تمہاری بیٹی کو سکھی رکھا ہوا ہے۔ دلشاد بولی کہ تم اپنی بیٹی کی بات نہ کرو، مگر رُخسانہ کے ساتھ بینش کا سلوک ٹھیک نہیں ہے۔ خرم نے سمجھایا کہ ہمارے یہاں پہلے کبھی طلاق ہوئی ہے جو اب ہو گی؟ یہ جھگڑے معمولی ہیں۔ اگر کوئی بڑی وجہ بھی ہو، تو بھی میں طلاق کے حق میں نہیں۔ اس طرح عورت، مرد دونوں کا نقصان ہوتا ہے اور بچے الگ برباد ہوتے ہیں۔
دلشاد بولی کہ اگر بیوی آوارہ اور بدچلن ہو، تو کیا پھر بھی طلاق نہیں دینی چاہیے؟ اس سوال پر خرم پریشان ہو گئے۔ بولے کہ دلشاد، آخر تم کیوں ایسی باتیں کر رہی ہو؟ اگر تمہاری بیوی اپنے گریبان میں جھانک لے، تو شاید وہ بھی میری بچی کے ساتھ ایسا سلوک نہ کرے، اور نہ ہی تمہیں اس سوال پر حیرت ہو۔ دلشاد بولی کہ اس کے گریبان میں کیا ہے؟ کیوں یوں بڑھ بڑھ کر باتیں کر رہی ہو؟ خرم کو بھی غصہ آ گیا اور وہ میری طرف داری کرنے لگے۔ یہ دلشاد سے برداشت نہ ہوا۔ کہنے لگی کہ میں برسوں چپ رہی، مگر اب ایسا نہیں ہو گا۔ تمہاری بیوی کون سی شریف ہے، اس سے پوچھو کہ کیا شادی سے پہلے اس کے صمد سے تعلقات نہیں تھے؟ خرم نے کہا کہ کیا بکواس کر رہی ہو، زبان سنبھال کر بات کرو۔ میری پاک باز اور نیک اطوار بیوی پر تہمت لگاتے ہوئے تمہیں شرم نہیں آتی؟ اپنی بیٹی کی محبت میں اتنی اندھی ہو گئی ہو کہ تم کو رشتوں کی بھی تمیز نہیں رہی۔ اب دلشاد کو بھی طیش آ گیا۔ شاید اُس نے وہ کیسٹ اسی دن کے لیے سنبھال کر رکھی ہوئی تھی۔ وہ دوڑ کر کمرے میں گئی اور خدا جانے کہاں سے وہ کیسٹ نکال کر لائی اور بولی کہ اگر میں جھوٹی ہوں، تہمت لگا رہی ہوں، تو یہ لو، اپنی نیک، شریف، پاک باز بیوی کی باتیں خود اپنے کانوں سے سن لو۔
خرم حیران رہ گئے۔ انہوں نے اسی وقت کیسٹ سنی اور سر جھکا کر گھر آگئے، مگر خدا جانے کن قدموں سے چل کر آئے۔ آتے ہی کیسٹ میرے سامنے پھینک کر بولے کہ تم جو اتنی نیک اور شریف بنی رہتی تھیں، نہیں جانتا تھا کہ تمہارے اندر اتنی گندگی بھری ہوئی ہے۔ تب ہی صمد کے آنے پر دوڑ دوڑ کر اس کے گھر جاتی تھیں ملاقاتیں کرنے۔ جب اس کو چائے کی پیالی دے رہی تھیں، تو آج سمجھا کہ کیوں تمہارے ہاتھ سے پیالی گر گئی تھی۔ بس مت پوچھیے کہ میری کیا حالت تھی اس وقت۔ میں پتھر بن چکی تھی اور کاٹو تو لہو نہیں بدن میں۔ یہ تو ایسی ناگہانی آفت مجھ پہ ٹوٹی تھی کہ اس سے بہتر تھا، مجھ کو موت آجاتی۔ میری برسوں کی ریاضت خاک میں مل گئی۔ خرم نے اسی پر بس نہیں کیا، مجھ چار بچوں کی ماں کو طلاق دے کر میری نسوانیت کی حرمت کو دھول میں ملا دیا اور میں روتی ہوئی اپنی والدہ کے پاس آگئی، جو بیٹوں سے علیحدہ رہتی تھیں۔
خرم تو اس قدر طیش میں آگئے کہ انہوں نے کچھ بھی نہ سوچا۔ میری اور اپنی کامیاب ازدواجی زندگی کا خیال کیا، نہ ستائیس برس کی رفاقت کا، نہ میری خدمت، وفا اور محبت ان کا ارادہ کمزور کر سکی، اور نہ ہی جو ان بچوں کا پاس رہا۔ اس دن مجھ کو پتا چلا کہ عورت کی کوئی حیثیت نہیں۔ عورت ہزاروں قربانیاں دے کر بھی کچی مٹی کا کھلونا ہوتی ہے۔ مرد ہر قسم کے گناہ کرتا ہے، پھر بھی اس کا کچھ نہیں بگڑتا، جبکہ عورت کوئی گناہ نہ بھی کرے تو شک و شبہ کی سزا میں مار دی جاتی ہے۔ آج شوہر ہی نہیں، بچے بھی مجھ سے نفرت کرتے ہیں۔ وہ مجھ سے ملنا نہیں چاہتے، جن کی دید کو آنکھیں ترستی ہیں، اور جن کو میں نے بہت پیار سے پال پوس کر پروان چڑھایا تھا۔
(ختم شد)