نادان بیوی کی سزا

Sublimegate Urdu Stories

ان دنوں میں ایک اخبار کے دفتر میں کام کرتی تھی جب مجھ کو نغمانہ ملی۔ وہ نہایت خوبصورت مگر بے حد خستہ حال تھی۔ میں تو اس کو پہچان ہی نہ پائی، جب اس نے اپنا تعارف کرایا تو میں چونک پڑی کہ یہ کیا حال ہو گیا ہے تمہارا؟ جب تمہاری سلیمان سے شادی ہوئی تھی تو تم تو بڑی خوش تھیں۔ کہنے لگی کہ ہاں، بہت خوش تھی کیونکہ ہماری محبت کی شادی تھی۔ 

وہ مجھے بہت چاہتے تھے اور ہر حال میں اپنی دلہن بنانا چاہتے تھے۔ رشتہ داری بھی تھی لیکن والد صاحب اس وجہ سے سلیمان کے رشتے پر نہ مان رہے تھے کہ وہ امیر نہ تھے، ان کی تنخواہ کم تھی۔ ابو سمجھتے تھے کہ سلیمان اتنی قلیل آمدنی میں ان کی بیٹی کو کیونکر خوش رکھ سکے گا، یہ اپنی چھوٹی چھوٹی خوشیوں اور خواہشوں کے پورا ہونے کو ترستی رہ جائے گی۔ سلیمان کا ساتھ قسمت میں لکھا تھا، ان کے والدین نے بالآخر میرے ابو کو راضی کر لیا اور ہماری شادی ہو گئی۔ تم تو جانتی ہو کہ میں ان سے شادی کے بعد کتنی خوش تھی۔ 

غربت میں بھی سکون تھا۔ ہاں، کبھی کبھار یہ بات ضرور کھٹکتی تھی کہ سلیمان کے پاس نہ اپنا مکان ہے، نہ گاڑی اور نہ ہی دیگر آسائشیں، تو زندگی تمام عمر اسی طرح حسرت بھری ہی گزرے گی۔ پہلے پہل ایسے تفکرات آتے تھے، بعد میں اپنی قسمت پر شاکر ہو گئی کیونکہ انہیں مجھ سے بہت محبت تھی۔ اگر محبت مل جائے تو زندگی کی تکلیفیں کم تکلیف دہ محسوس ہوتی ہیں۔ میں نے تبھی خود کو سمجھا لیا کہ خواہشات کو انسان جس قدر بڑھاتا ہے، وہ اتنی ہی بڑھتی جاتی ہیں۔ انسان کو اس دنیا میں دو وقت کی روٹی مل جائے، محبت اور سکون بھی ہو تو یہی بہت کچھ ہے۔ شوہر کی زیادہ دولت بھی بیوی کی زندگی میں پریشانیاں ہی لاتی ہے۔ 

میں نے پوچھا اچھا، تو اب کیا ہوا ہے کہ تم مجھے یہاں کورٹ میں نظر آ رہی ہو؟ کہنے لگی کہ اپنے بیٹے کے لیے سرپرستی کا کیس ڈالا ہوا ہے۔ دراصل مجھے سلیمان نے طلاق دے دی ہے اور بیٹا اپنے پاس رکھ لیا ہے۔ میں حیرت سے بولی یہ کیا کہہ رہی ہو، کیا قصور تھا تمہارا جو اس نے اتنی چاہت کے باوجود طلاق دے دی اور بیٹا بھی تم سے لے لیا؟ نغمانہ کہنے لگی کہ یہاں کورٹ میں کیا بتاؤں، کہیں دیکھیں گے تو بات کروں گی۔ میں نے کہا تو چلو میرے ساتھ، شاید میں تمہاری کچھ مدد کر سکوں۔ یوں میں اپنی پرانی ہم جماعت کو ساتھ لے آئی اور پھر اس نے اپنی روداد سنائی جو اس کی زبانی رقم کر رہی ہوں۔

شروع میں میں اپنے ساس سسر کے ساتھ رہتی تھی۔ جب سلیمان کا تبادلہ دوسرے شہر ہو گیا تو انہوں نے کرائے کا ایک چھوٹا سا مکان لے لیا اور مجھے اپنے ساتھ لے آئے۔ ان دنوں میرا بیٹا سال بھر کا تھا۔ سلیمان کام پر چلے جاتے اور میں محسن کی کلکاریوں میں گم ہو جاتی، اس لیے تنہائی کا احساس نہ ہوتا۔ نئے شہر آ کر یوں تو میں خوش تھی، مگر اب سلیمان کا ہاتھ مزید تنگ ہو گیا تھا۔ سسرال میں مکان کا کرایہ، بجلی کا بل بھی نہیں دینا پڑتا تھا اور کھانے پینے کا خرچہ سسر صاحب برداشت کر لیتے تھے، لیکن یہاں سارے اخراجات ہمیں خود ہی پورے کرنے پڑتے۔ سسر صاحب اگر چاہتے تو دو چار ماہ بعد ملنے آ کر کچھ مالی مدد کر دیتے، مگر ان کا بھی پنشن پر گزارہ تھا۔ 

ہمارے پڑوس میں کھاتے پیتے خوشحال لوگ رہتے تھے۔ جب میں عورتوں کو قیمتی لباس پہنے دیکھتی تو دل میں خواہش جاگتی کہ کاش میں بھی ایسا پہن سکوں، مگر صرف سوچ کر رہ جاتی کیونکہ جتنی چادر ہو، اتنے ہی پاؤں پھیلانے پڑتے ہیں۔ دو سال اس گھر میں گزر گئے، چار عیدیں آئیں مگر میں ایک بار بھی عید پر نیا جوڑا نہ بنوا سکی، جبکہ میری پڑوسن ہر ماہ نئے جوڑے میں نظر آتی۔ دل سے ایک آہ نکلتی، پھر صبر کی چادر اوڑھ کر خواہشوں کو اس کے سپرد کر دیتی۔ میری بدقسمتی کہ اس بار عید سے پندرہ روز قبل محلے میں کپڑا بیچنے والا آیا۔ حسبِ معمول محلے کی عورتیں اس کے گرد جمع ہو گئیں اور کپڑے خریدنے لگیں۔ میں نے آواز سنی تو بیٹے کو گود میں اٹھا کر پڑوس میں چلی گئی۔ 

کپڑے والا رابعہ کے گیٹ کے سامنے بیٹھا تھا، اس نے اپنی گٹھری گیٹ کے اندر رکھ کر کھول دی تھی۔ عورتیں بڑے شوق سے ملکی و غیر ملکی کپڑا دیکھ رہی تھیں۔ میں نے بھی دو جوڑے ہاتھ میں لے کر دیکھے، قیمت پوچھی، الٹ پلٹ کر دیکھتی رہی، پھر واپس رکھ دیے۔ جب عورتیں کپڑے خرید چکیں تو کسی نے کہا: نغمانہ، تم نے کچھ نہیں لیا؟ کچھ تو لو! میں نے حسرت سے کہا: ایک جوڑا لینا تھا، مگر پیسے نہیں بن رہے، کپڑے مہنگے ہیں۔ 

میری یہ بات شاید کپڑے والے کے دل کو لگ گئی۔ سب عورتیں رابعہ کے گھر سے نکل کر اپنے گھروں کو چلی گئیں، آخر میں میں بھی گھر آ گئی۔ میں نے دروازہ بند ہی کیا تھا کہ دستک ہوئی۔ میں نے جھانک کر دیکھا تو سامنے وہی کپڑا بیچنے والا تھا، ہاتھ میں وہی دو جوڑے تھامے جو میں نے پسند کیے تھے۔ اس نے کہا: یہ لے لو، رقم ادھار رکھ لو، میں اکثر یہاں آتا ہوں، اگلی بار دے دینا، اگر نہ آ سکا اور میرا بھائی آیا تو اس کو میرا نام بتا دینا۔ وہ یہ کہہ کر کپڑے تھما کر چلا گیا۔ میں آواز دینے کا ارادہ ہی کرتی رہی۔ میں ششدر رہ گئی کہ یہ کیسا بیوپاری ہے جو جان پہچان کے بغیر مجھ پر اعتبار کر کے کپڑے دے گیا۔ پھر سوچا شاید یہ اس کا کاروباری طریقہ ہے۔ کپڑے بے حد خوبصورت تھے، مگر ان کی قیمت میں ادا کرنے کی استطاعت نہ رکھتی تھی۔ ان دنوں سلیمان کی تنخواہ دو ہزار روپے تھی، جس میں سے آدھا کرایہ اور بلوں میں چلا جاتا، باقی بچوں کے اخراجات اور کھانے پینے پر۔

 کئی دن میں نے وہ جوڑے چھپا کر رکھے، پھر سوچا کہ سلیمان کو بتا ہی دوں۔ مگر پھر ڈر گئی کہ ناراض نہ ہو جائیں۔ اسی کشمکش میں رابعہ آ گئی، جو خوشحال زندگی گزار رہی تھی۔ اس نے جب میری پریشانی دیکھی تو پوچھا، اور ساری بات سن کر بولی: ارے بھئی جب آئے گا تب دیکھا جائے گا، وہ برا آدمی نہیں، اکثر گھروں میں ادھار پر کپڑا دے جاتا ہے۔ فی الحال جوڑے سلواؤ، کیا تمہارا جی نہیں چاہتا کہ عید پر نئے کپڑے پہنو؟ میں نے کہا: جی تو بہت چاہتا ہے، مگر میرے پاس سلائی کے پیسے بھی نہیں۔ کہنے لگی: اس کی فکر مت کرو، کپڑے اور ناپ مجھے دے دو، میرے شوہر سے سلواؤں گی اور سلیمان بھائی سے کہہ دینا کہ یہ رابعہ نے عید کا تحفہ دیا ہے، انہیں معلوم ہے کہ میرے شوہر ٹیلر ہیں۔ یوں میری فکر کا فوری حل نکل آیا۔ جوڑے سلے سلائے ملے تو میں نے وہی کہا جو رابعہ نے سکھایا تھا۔

سلیمان نے خوشی کا اظہار کیا اور کہا کہ اب تم اپنی پڑوسن کا احسان کیسے اتارو گی؟ میں نے کہا: احسان کی کیا بات ہے، اس نے اپنی خوشی سے دیے ہیں، میں نے تو مانگے نہیں تھے۔ رابعہ کے پاس کس چیز کی کمی ہے؟ وہ بہت خوش اخلاق ہے، کیا ایک خوشحال سہیلی اپنی غریب سہیلی کو دو جوڑے بھی نہیں دے سکتی؟ سلیمان نے کہا: اچھا بھئی، تم عورتوں کی باتیں تم جانو، مجھے کھانا لا دو، آج اوور ٹائم کیا ہے، تھک گیا ہوں، محسن کے کپڑے بھی لینے ہیں، عید کے دن ہی کتنے رہ گئے ہیں۔ عید بخیریت گزر گئی، میں نئے کپڑے پہن کر سسرال گئی، والدہ تو وفات پا چکی تھیں، والد سے عید ملنے گئی، وہ بھی مجھے خوبصورت لباس میں دیکھ کر خوش ہو گئے۔ میں نے دل سے رابعہ کو دعا دی کہ جس کے حوصلہ دلانے سے یہ خوشی نصیب ہوئی۔ 

تین ماہ گزر گئے، تب ایک روز اچانک عبدالرحمن آ گیا۔ اس نے دروازہ کھٹکھٹایا، میں نے گیٹ کھولا کہ اس سے معذرت کر کے پہلے قرض کے لیے مہلت لے لوں، مگر اس نے ایک بنڈل تھما دیا اور کہنے لگا، یہ رکھیے، میں پچھلی گلی سے ہو کر آتا ہوں، وہاں سے بھی پیسے لینے ہیں۔ اس سے پہلے کہ وہ تیزی سے آگے نکل جاتا، میں نے بنڈل کے اوپر کا کاغذ ذرا سا پھاڑا اور کہا، ٹھہرو عبد الرحمن! پہلے میری بات سن لو۔ وہ رک گیا۔ بنڈل میں بہت خوبصورت اور قیمتی کپڑا تھا۔ میں نے پوچھا، یہ کس لیے؟ کہنے لگا، آپ کے لیے! دیکھیے گی تو پسند آ جائے گا۔ میں نے جھنجھلا کر کہا، یہ مجھے نہیں چاہیے، واپس لے جاؤ۔ میں نے ابھی تمہارا پہلا قرض بھی ادا نہیں کیا اور تم مزید کپڑے لے آئے ہو؟ کہنے لگا، آپ دیکھیے تو سہی، آپ کی پڑوسن نے بھی لیے ہیں۔ میں نے پھر کہا، ارے بھئی! پہلے پیسے تو دو! مگر وہ کہنے لگا، میں کب کہتا ہوں کہ پیسے دے دیں؟ جب ہوں گے تب دے دیجیے گا اور وہ چلتا بنا۔ اس بار بھی وہ اتنی عجلت میں تھا کہ مجھے اسے روکنے کا موقع نہ ملا، میں بس اسے جاتے ہوئے دیکھتی رہ گئی۔ 

اگر گیٹ سے نکل کر اس کے پیچھے جاتی یا بلند آواز سے آواز دیتی تو بھی شاید نہ روک پاتی، وہ پلک جھپکتے گلی کے کونے سے مڑ گیا۔ میں دیر تک ہاتھ میں بنڈل تھامے کھڑی رہی کہ اب کیا کروں؟ سوچا کہ رابعہ کو بتاتی ہوں۔ وہ عام طور پر کپڑے اپنے گیٹ کے اندر رکھ کر عورتوں کو بلاتا تھا، وہیں سب بیٹھ کر آرام سے کپڑے دیکھتیں اور خریدتیں۔ چنانچہ میں بنڈل لے کر رابعہ کے گھر چلی گئی اور اسے بتایا کہ پچھلے جوڑوں کے پیسے ابھی باقی ہیں اور وہ چالاکی سے مزید کپڑے تھما گیا ہے، اب کیا کروں؟ کہنے لگی، اچھا، ابھی رکو، اگر آ گیا تو بات کر لیتے ہیں۔ ہم نے کافی دیر انتظار کیا مگر وہ نہ آیا۔ 

پھر رابعہ بولی، شاید اب وہ اس طرف نہ آئے، پچھلی گلی میں شائستہ کے گیٹ پر گٹھری کھولی ہو گی۔ تم کیوں پریشان ہو، یہ کپڑا رکھ لو، اگر وہ آ گیا تو واپس کر دینا، نہ آیا تو سلوالو، سلائی تو تمہیں مفت پڑتی ہے نا! پھر بولی، جو قرض باقی ہے، وہ بھی اتر جائے گا، جوڑے سلواؤ اور پہن لو۔ سلیمان بھائی کو بتا دینا کہ میں نے دیے ہیں، کہہ دینا کہ اکثر گاہک زیادہ کپڑا دے جاتے ہیں، جو رہ جاتا ہے ہم رکھ لیتے ہیں اور ان سے پوچھتے تک نہیں، وہ مہنگے ہوتے ہیں تو ہم ان سے سلوا کر کام چلا لیتے ہیں۔ یہ تو معمول کی بات ہے۔ میں نے کہا، کہیں وہ ناراض نہ ہو جائیں کہ مفت کے کپڑے کیوں لے لیے۔ بولی، ان سے کہو، دنیا ایسے ہی چلتی ہے۔ کیا تمہارے اچھے کپڑے پہننے کا کوئی حق نہیں؟ تم نے کوئی چوری یا دھوکہ تو نہیں دیا، بس اور کچھ مت کہنا۔ اس نے مجھے اس بات پر قائل کر لیا۔ یوں خوبصورت اور قیمتی کپڑے پہننے کی خواہش میں میرے اندر کی ضمیر کی آواز دب گئی، اور میں نے ایک بار پھر شوہر سے جھوٹ بولا۔ رابعہ نے جوڑے سلوا دیے اور میں نے پہن لیے۔

اب میں یہ جوڑے پہن کر محلے کی عورتوں کے سامنے بڑی شان سے جاتی، اور ان پر برتری جتاتی کہ میں بھی ان جیسا لباس پہن سکتی ہوں۔ وہ بھی میرے کپڑوں کی تعریف کرتیں، مجھے عزت اور اہمیت ملنے لگی۔ دو ماہ اور گزر گئے۔ اس دوران میں اور سلیمان ان کے والد کی عیادت کے لیے سسرال بھی گئے۔ رابعہ نے بتایا کہ تمہارے پیچھے عبد الرحمن آیا تھا، ہم نے کچھ اور جوڑے خریدے، اس نے تمہارا بھی پوچھا تھا، میں نے بتایا کہ تم سسرال گئی ہو۔ میں نے پوچھا، کیا قرض کے بارے میں کچھ کہا تھا اس نے؟ تو بولی، بالکل نہیں، ایسا کوئی ذکر نہیں کیا۔ 
 اس واقعے کو بھی ایک مہینہ گزر گیا۔ ایک روز سلیمان دفتر گئے ہوئے تھے، صبح دس بجے کسی نے دروازے پر دستک دی۔ میں نے پوچھا، کون ہے؟ جواب نہ آیا، مگر چند لمحوں بعد پھر دستک ہوئی۔ میں نے بلند آواز میں پوچھا، کون ہے؟ جواب آیا، عبد الرحمن۔ میں نے دروازہ کھولے بغیر کہا، کیا قرض کی رقم لینے آئے ہو؟ کہنے لگا، نہیں، رقم کی فکر نہ کرو، جب ہوں بتا دینا، مگر دروازہ کھولو، پیاس لگی ہے۔ میں نے گیٹ کی جھری سے دیکھا، اس کے ہاتھ میں ایک بنڈل تھا، میں سمجھ گئی کہ وہ مجھے مزید مقروض کرنے آیا ہے۔ 

میں نے در نہ کھولا۔ چند لمحے بعد اس نے وہ بنڈل دیوار کے اوپر سے اندر پھینک دیا، جو چارپائی پر جا گرا اور خود چلتا بنا۔ میں اس کی اس حرکت پر ششدر رہ گئی۔ دروازہ کھولا، مگر وہ اتنی دور جا چکا تھا کہ آواز دینے پر لوگ متوجہ ہو جاتے، اور بدنامی کا خدشہ تھا۔ چنانچہ میں بے بسی سے بس اسے گلی پار کرتے دیکھتی رہ گئی۔اب میرا دل دھک دھک کرنے لگا۔ یہ اُس پہلی غلطی کا خمیازہ تھا جو میں نے شوہر سے حقیقت چھپا کر کی تھی۔ کچھ دیر تک ساکت کھڑی بنڈل کو گھورتی رہی، جیسے اس میں دھماکا خیز مواد ہو، یا سانپ بچھو بند ہوں۔ پھر ہمت کر کے بنڈل اٹھا لیا۔ اس بار ایک جوڑا کپڑے کے ساتھ ایک غیر ملکی سینٹ کی شیشی اور مصنوعی زیورات کا نہایت خوبصورت سیٹ لپٹا ہوا تھا۔ 

میں آنکھیں پھاڑے ان اشیاء کو تکتی رہی جیسے یہ کسی اور دنیا سے آئے آسمانی تحفے ہوں۔ بے وقوف سے بے وقوف عورت بھی ایسی باتوں کا مطلب سمجھ لیتی ہے۔ کوئی غیر مرد کسی عورت پر یوں بلا وجہ عنایتیں نہیں کرتا۔ یہ نوازشیں بے مطلب نہیں ہوتیں۔ کیا وہ پھیری والا کپڑا فروش محض ایک نظر میں مجھ پر فریفتہ ہو گیا تھا؟ یا پھر مجھ کو ایک غریب آدمی کی بیوی جان کر ترس کھاتا تھا؟ اس کے سوا تو اس نے کبھی نہ کوئی بات کی، نہ کوئی تعلق واسطہ تھا۔دل چاہا کہ سلیمان کو سچ سچ سب کچھ بتا کر دل ہلکا کر لوں، لیکن دل میں یقین تھا کہ وہ نہ صرف ناراض ہوں گے، بلکہ مجھ ہی کو الزام دیں گے۔ 

ان کے دل میں بدگمانی کا سانپ ضرور پلنے لگے گا. کہ میں نے اتنے دنوں تک کیوں کچھ نہ کہا؟ اور کپڑوں کے لالچ میں کیوں خاموش رہی؟رابعہ کی باتیں یاد آئیں: چپ رہنے میں ہی عافیت ہے۔ نہ تم نے چوری کی ہے، نہ ڈاکا ڈالا ہے، اور کپڑے مانگے بھی نہیں، تو کیوں خود کو مجرم سمجھتی ہو؟ میں نے خود کو تسلی دی، اور وہ زیورات و خوشبو چھپا کر رکھ دیے۔ ارادہ کیا کہ جب سلیمہ (رشتے کی بہن) آئے گی، تو سب اس کے نام لگا دوں گی۔مگر دل بار بار کہتا: ذرا خوشبو تو سونگھ لو۔ آخرکار ایک دن میں نے خود کو آئینے کے سامنے پایا، وہ کپڑا پہنا، زیور سجایا، اور شیشی کھول کر خوشبو سونگھی۔ سچ ہے، عورت اگر خود پر قابو نہ رکھ سکے تو شیطان اس کا ساتھی بن جاتا ہے۔چند دن بعد سلیمان نے کہا: تین دن کی چھٹی ہے، میں اماں کو دیکھ آتا ہوں۔ تم اور محسن یہی رہو، ورنہ تم دونوں کا کرایہ بھی بھرنا پڑے گا۔ رابعہ سے کہنا، تمہارا خیال رکھے گی۔ سلیمان چلے گئے۔ چوتھے دن صبح واپسی تھی، کوچ چھ بجے آنا تھا۔ اچانک دروازے پر دستک ہوئی۔
میں نے گیٹ کی جھری سے جھانکا، تو وہی عبد الرحمن تھا۔ دل میں خوف نہیں تھا، بس ارادہ تھا کہ اس بار وہ جو بنڈل پھینک گیا تھا، واپس کر دوں گی۔ میں نے کہا یہی لینے آئے ہو؟ لے جاؤ اپنا بنڈل، اور آئندہ ایسی حرکت مت کرنا۔ قرض کا تقاضا نہیں کرتے تو کیا ہوا، اب یہ بالیاں دینی پڑیں تو دے دوں گی۔ وہ بولا: بی بی، میں کچھ دینے یا لینے نہیں آیا۔ بس یہ گٹھری ذرا دیر کے لیے رکھ لو، قریبی کام ہے۔ گلیوں میں لے کر گھومنا مشکل ہے۔ ایک گھنٹے میں آ کر لے جاؤں گا۔ میں نے سوچا، سلیمان کل صبح ہی آئیں گے، ابھی تو شام ہے، تھوڑی دیر کے لیے رکھ لینا کون سا مسئلہ ہے۔ گٹھری اندر کھینچ لی، گیٹ بند کر دیا۔

 لیکن وہ ایک گھنٹہ گویا عذاب بن گیا۔ لگتا تھا گٹھری میں کپڑے نہیں، خود عبد الرحمن لپٹا ہوا ہے۔ دو گھنٹے گزر گئے، وہ نہ آیا۔ دل میں وسوسے، اندیشے، اور ندامت کی لہر اٹھی۔شام سے ذرا پہلے وہ آیا، پسینے سے شرابور، تھکا ہارا۔ کہنے لگا: معاف کرنا بی بی، دیر ہو گئی۔ سخت پیاس لگی ہے، پانی مل جائے گا؟ میں نے سوچا، اس نے کبھی قرض کا تقاضا نہیں کیا، محض اپنی چالاکی سے مجھے قرض دار بناتا رہا۔ پھر بھی انسا ہے، پیاسا ہے۔ کولر سے پانی نکالا، شربت کی بوتل نظر آئی، سوچا تھوڑا شربت ڈال دوں، کیا حرج ہے۔جب گلاس لے کر گیٹ تک پہنچی، دیکھا وہ اندر آچکا ہے، چارپائی پر بیٹھا ہے۔ چونکی، مگر کچھ نہ کہا۔ گلاس تھمایا، اس نے غٹاغٹ پی لیا۔میں نے کہا: عبد الرحمن، تم کیوں بار بار مجھے پریشان کرتے ہو؟ میں قرض پر نہیں خریدتی۔ اپنا بنڈل لے جاؤ۔ وہ بولا: “اگر آپ میرا احسان اتارنا چاہتی ہیں تو مجھے کھانا کھلا دیں۔ بہت بھوکا ہوں۔ لمحہ بھر کو سوچا، سالن تھا، دو روٹیاں بنی ہوئی تھیں۔ جلدی سے پلیٹ میں سالن اور روٹیاں رکھ کر لائی۔ کہا: جلدی کھالو، میں گیٹ بند کر دوں۔ وہ بولا: میں بد معاش نہیں، تم بے فکر ہو کر گیٹ بند کر لو۔ اور صحن میں جا کر بیٹھ گیا۔

میں برآمدے میں جا کر کھڑی ہو گئی۔ دل میں اضطراب تھا۔ وہ کھاتے ہوئے کہنے لگا: گیٹ پر کھانا کھانا عزت کے خلاف ہے، اسی لیے اندر بیٹھا ہوں۔ تم فکر نہ کرو۔ کھانے کے بعد بولا: بی بی، میرے ہاتھوں پر پانی ڈال دو، میں مہمان ہوں، فقیر نہیں۔ ابھی میں اس کے ہاتھوں پر پانی ڈال ہی رہی تھی کہ سلیمان اچانک گیٹ سے اندر داخل ہوئے۔ میں پتھر کی مورت بن گئی۔ سلیمان کی آنکھوں میں خون اتر آیا۔ گٹھری کو لات مار کر باہر پھینکا، اور عبد الرحمن بغیر کچھ کہے وہاں سے چلا گیا۔سلیمان کے چہرے پر غصہ تھا، اور آنکھوں میں سوالات۔ کون لگتا ہے تمہارا یہ کپڑے والا، تبھی کہوں کہ سہیلیاں کیسے اتنی مہربان ہو گئیں کہ قیمتی جوڑے سلو سلوا کر تم کو تحفے دیتی ہیں۔ میں خود نہ جانتی تھی کہ یہ کون تھا، کہاں سے آتا تھا اور کیوں میں نے ایسا کیا، شاید لالچ کی وجہ سے؟ میں حسرت زدہ ضرور تھی مگر لالچی تو ہر گز نہ تھی۔ 
میں تو سمجھتا تھا کہ عورت قابلِ احترام ہوتی ہے، بیوی کا بھی ایک مقدس رشتہ ہوتا ہے۔ کیا خبر تھی کہ تو اپنی خواہش کی خاطر ایک کپڑے بیچنے والے سے یاری لگالے گی؟ تو تو میرے گھر کی مالکن، میرے بچے کی ماں تھی۔ یہ بازاری عورت ایسی کیونکر ہو گئی؟ ہاں مگر ٹھیک ہے، یہ بات بھی کہ زیور، کپڑے تو عورت کی کمزوری ہوتے ہیں، میں تم کو نہ دے سکا تو تم نے غلط طریقے سے لے لیے، ہے نا یہی بات؟ یہ کہہ کر نغمانہ رونے لگی۔ بولی کہ کبھی کبھی عورت عقل سے کام نہیں لیتی تو اس کی دنیا اجڑتی ہے اور پھر خمیازہ طلاق کی صورت بھگتنا پڑتا ہے۔ نغمانہ کی باتیں سن کر مجھے بہت دکھ ہوا۔ سوچنے لگی کہ عبدالرحمن پڑھا لکھا نہ تھا، یہ تو پڑھی لکھی، سمجھدار تھی، نجانے پھر اس نے دور اندیشی سے کام کیوں نہ لیا۔
(ختم شد)
👇👇
اگر کہانی پسند آئی ہو تو کمنٹ میں ضرور بتایئں شکریہ