ڈاکٹر نے اسے خبر دار کیا کہ اگر مزید بچے پیدا کیے تو بیوی کی جان جا سکتی ہے، اسے بیوی بے بہت پیار تھا۔ علیم نے چوری چھپے اپنی نس بندی کروالی۔ لیکن اس کی بیوی ایک سال بعد وفات پا گئی۔ والدین نے علیم کی دوسری شادی ایک اٹھارہ سالہ لڑکی سے کر دی۔ تین سال تک اولاد نہ ہوئی تو لڑکی پریشان ہو گئی۔ آخر ایک دن لڑکی نے شوہر کو خوشخبری سنائی کہ وہ باپ بننے والا ہے۔ یہ بات بجلی بن کر علیم کے سر پر گری کیونکہ وہ جانتا تھا کہ اب باپ نہیں بن سکتا۔
👇👇
علیم میرے شوہر کا بچپن کا دوست تھا، اسی لیے ان سے کوئی بات نہیں چھپاتا تھا۔ ان کی دوستی اتنی گہری تھی کہ جب کاروبار شروع کیا تو دونوں نے مل کر شراکت داری کی۔ برابر کا سرمایہ لگایا کیونکہ دوستی میں خلوص اور سچائی تھی، نیتیں صاف تھیں۔ کاروبار دن بہ دن ترقی کرنے لگا، یہاں تک کہ دونوں مالی طور پر خوشحال ہو گئے۔ تب انہوں نے نیا گھر بنانے کا فیصلہ کیا۔
علیم اور مشتاق نے دو کنال کا پلاٹ مشترکہ سرمایہ سے خریدا اور پھر اسے برابر دو حصوں میں تقسیم کر لیا۔ دونوں نے اپنے اپنے گھروں کا ایک جیسا نقشہ بنوایا اور تعمیر کے لیے ایک ہی ٹھیکیدار کی خدمات حاصل کیں۔
جب دونوں گھر مکمل ہو گئے تو دونوں دوست اپنے اپنے خاندانوں کے ساتھ نئے گھروں میں منتقل ہو گئے۔ گھر میں پیسے کی کمی نہ تھی، اس لیے زندگی خوشی اور آسودگی سے گزرنے لگی۔
میری اور مشتاق کی شادی کو دس برس گزر چکے تھے، جبکہ علیم بھائی اور اُشنا کی شادی کو بارہ سال ہو چکے تھے۔ ان بارہ برسوں میں وہ پانچ بچوں کے والدین بن چکے تھے۔ بچوں کی پیدائش میں وقفہ نہ ہونے کے باعث اُشنا کی صحت متاثر ہو گئی اور وہ اکثر بیمار رہنے لگی۔ ڈاکٹروں نے کہا کہ اب مزید بچوں کی پیدائش اُشنا کی جان کے لیے خطرناک ہو سکتی ہے، کیونکہ اس کے تمام بچے آپریشن سے ہوئے تھے، اور ایک اور آپریشن مہلک ہو سکتا تھا۔
علیم بھائی کو اپنی بیوی سے بے پناہ محبت تھی۔ وہ چاہتے تھے کہ بچوں کی پیدائش کا سلسلہ ختم ہو جائے تاکہ اُشنا کی صحت بحال ہو سکے اور وہ سکون سے زندگی گزار سکے۔ ان کا خیال تھا کہ پانچ بچے کافی ہیں۔ وہ ہر ایک سے کہتے تھے کہ دعا کریں ہمیں مزید اولاد نہ ہو، ورنہ اُشنا جیسی پیاری بیوی کو کھو بیٹھوں گا۔
ان دنوں کسی نے مشورہ دیا کہ اگر میاں بیوی میں سے کوئی ایک نس بندی کروا لے تو مسئلے کا حل نکل سکتا ہے۔ اُشنا نہایت پاکیزہ سوچ رکھنے والی، پرہیزگار اور مذہبی رجحان کی حامل خاتون تھی۔ جب لیڈی ڈاکٹر نے اسے نس بندی کا مشورہ دیا تو اس نے انکار کر دیا کہ وہ اس عمل میں مذہبی قباحت محسوس کرتی ہے۔ تاہم، علیم بھائی نے یہ مشورہ قبول کر لیا اور کہا کہ مجھے اپنی بیوی کی جان زیادہ عزیز ہے۔ خدانخواستہ اگر اُشنا نہ رہی تو ان معصوم بچوں کی پرورش کون کرے گا؟
علیم صاحب کو اندازہ تھا کہ ان کی بیوی انہیں بھی نس بندی سے روک دے گی، کیونکہ وہ قدرت کے کاموں میں دخل اندازی کو غلط سمجھتی تھی۔ اس لیے علیم صاحب نے بیوی کو بتائے بغیر خود ہی نس بندی کروا لی تاکہ مستقبل میں اولاد کی پیدائش کا خطرہ نہ رہے۔ انہوں نے یہ راز اپنی بیوی سے بھی چھپایا اور صرف میرے شوہر کو اس بارے میں بتایا۔ گھر والوں سے بھی یہ بات چھپائی، کیونکہ وہ بھی اس فیصلے کی مخالفت کرتے، خاص طور پر ان کے والدین۔
اپنے خیال میں علیم صاحب نے اپنی محبوب بیوی کی زندگی بچانے کی خاطر یہ قربانی دی، مگر اللہ تعالیٰ کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ اُشنا کی عمر کم تھی، اور وہ کسی اندرونی بیماری میں مبتلا تھی۔ دو سال تک بمشکل جی سکی اور پھر رضائے الٰہی سے وفات پا گئی۔ علیم بھائی کو بیوی کی وفات کا شدید صدمہ ہوا، مگر اللہ کی رضا کے سامنے کس کا بس چلتا ہے؟ انسان کو اپنے رب کے ہر فیصلے کے آگے سر جھکانا پڑتا ہے، اور صبر کے سوا کوئی چارہ نہیں۔
لیکن بچوں کو صبر کون سکھاتا؟ وہ اس عمر میں تھے کہ ماں کی موجودگی ان کے لیے سب کچھ تھی۔ ماں کے بغیر ان کی پرورش ممکن نہ تھی۔ علیم بھائی اپنی بیوی کی وفات کے بعد افسردہ اور خاموش رہنے لگے۔ ان کے والدین بھی بچوں کی نگہداشت سے قاصر تھے۔ والدہ ضعیف تھیں، اور بمشکل ایک سال گزارا۔ بالآخر والدین نے بیٹے کو دوسری شادی پر آمادہ کیا۔
سب خیر خواہوں نے یہی کہا کہ تمہیں نہیں، تمہارے بچوں کو ماں کی ضرورت ہے۔ چنانچہ جو لڑکی ان کی دوسری شریکِ حیات بنی، اس کا نام سوہا تھا۔ وہ اٹھارہ سالہ دوشیزہ تھی، اور علیم صاحب کے رشتے کے ماموں کی بیٹی تھی۔ علیم کی والدہ کی درخواست پر ماموں نے اپنی بیٹی کا رشتہ دے دیا، کیونکہ وہ غریب تھے اور علیم ایک خوشحال انسان تھے۔یہ رشتہ اس بنیاد پر طے پایا کہ سوہا کو مفلسی سے نجات ملے گی اور وہ ایک خوشحال گھر میں عیش و آرام سے زندگی گزارے گی۔ علیم بھائی اور سوہا میں عمر کا واضح فرق تھا۔ علیم چالیس سال کے تھے جبکہ سوہا صرف اٹھارہ برس کی تھی۔ سوہا خوبصورت، سادہ، اور باحیا لڑکی تھی۔ اگر کوئی کمی تھی تو وہ صرف یہ کہ وہ غریب گھر سے تھی، ورنہ ہر لحاظ سے پرکشش اور نیک فطرت تھی۔
شادی کو تین سال گزر گئے تو سوہا کے والدین کو فکر لاحق ہوئی کہ ان کی بیٹی ابھی تک صاحبِ اولاد نہیں ہوئی ہے۔ ظاہر ہے کہ ایسی فکر ہر ماں باپ کو ہوتی ہے۔ خود سوہا کو بھی شدید خواہش تھی کہ وہ ماں بنے۔ شوہر کے پانچ بچے تھے، مگر اپنی کوکھ کی خوشی ایک الگ ہی ہوتی ہے۔سوہا، علیم سے اکثر کہتی کہ اس کا دل چاہتا ہے کہ اس کی گود بھی ہری ہو، وہ اپنا علاج کروانا چاہتی ہے۔ شوہر نے خوش دلی سے اجازت دے دی، بلکہ خود بھی اس کے ساتھ جاتے۔ کئی اسپتالوں میں لیڈی ڈاکٹروں کو دکھایا گیا۔ ہر ایک ڈاکٹر نے یہی کہا کہ سوہا ہر لحاظ سے صحت مند ہے اور اولاد پیدا کرنے کے قابل ہے، یہ سب اللہ کی مرضی پر منحصر ہے۔البتہ، شوہر کو کوئی الزام نہیں دیا جا سکتا تھا کیونکہ ان کے پہلے سے پانچ بچے موجود تھے۔ تاہم، علیم صاحب جانتے تھے کہ سوہا کی ماں بننے کی خواہش کبھی پوری نہیں ہو سکے گی۔وہ بیوی کی دلجوئی کرتے ہوئے کہتے کہ اللہ نے چاہا تو وہ ضرور ماں بنے گی۔ اس کے اندر کوئی کمی نہیں، نہ ہی ان کے اندر، کیونکہ وہ تو پہلے ہی پانچ بچوں کے باپ ہیں۔ بس جو دیر ہو رہی ہے، وہ اللہ کی طرف سے ہے۔ اسے مایوس نہ ہونا چاہیے، دعا کرتی رہے، اور علیم کے بچوں کو اپنے ہی بچے سمجھنا چاہیے۔
اس نیک دل عورت نے واقعی شوہر کے بچوں کو اپنے ہی بچے سمجھا۔ ان کا ہر طرح سے خیال رکھا۔ صبح سویرے انہیں جگاتی، نہلاتی، کپڑے پہناتی، ان کے یونیفارم وقت پر تیار رکھتی، ناشتہ کروا کر اسکول روانہ کرتی، شام کو ان کی کاپیاں چیک کرتی، اور ہوم ورک کرواتی۔اگر کبھی علیم کسی بات پر بچوں کو ڈانٹتے یا سختی کرتے، تو سوہا ان کے لیے ڈھال بن جاتی۔ وہ باپ کو بچوں پر غصہ نہ کرنے دیتی اور کہتی کہ ان کی ماں نہیں ہے، وہ خود انہیں سمجھا دے گی، اس طرح جھڑکنے کی ضرورت نہیں۔سوہا کے اچھے اخلاق کی وجہ سے علیم صاحب کے والدین، بہن بھائی، حتیٰ کہ رشتہ داروں کو بھی اس سے کوئی شکایت نہ تھی۔ سب کہتے تھے کہ ایسی نیک بیوی قسمت والوں کو ملتی ہے، اور علیم بہت خوش قسمت ہے۔سوہا کی محبت، توجہ، اور خدمت سے علیم بھائی اپنی پہلی بیوی کا غم بھول چکے تھے۔ اب وہ خوش رہنے لگے تھے، اپنے آپ پر توجہ دینے لگے، اور اپنی عمر سے کم نظر آنے لگے تھے۔ ان کی خوش لباسی اور خوش مزاجی میں اضافہ ہو گیا تھا، اور ہم سب ان کی خوش نصیبی پر رشک کرتے تھے۔
ہمیں لگتا تھا کہ سوہا اب اپنی حقیقی اولاد کی خواہش کو اللہ کی رضا سمجھ کر بھلا چکی ہے، اور اس نے علاج کروانا بھی چھوڑ دیا ہے۔ لیکن یہ ہماری خام خیالی تھی۔ حقیقت یہ تھی کہ وہ اب بھی علیم صاحب کی اجازت کے بغیر اپنی ماں اور بہنوں کے ساتھ مختلف ڈاکٹروں کے پاس جاتی اور خفیہ طور پر علاج کرواتی رہتی تھی۔بظاہر، علیم صاحب کا گھر سکون کا گہوارہ تھا۔ بچے سوتیلی ماں سے خوش اور مطمئن تھے، اور شوہر بھی مسرور رہتے تھے، کیونکہ سوہا بھابی اپنے جیون ساتھی کا بے حد خیال رکھتی تھیں اور ان کی خدمت میں کوئی کسر نہیں چھوڑتی تھیں۔ہم سب سمجھتے تھے کہ علیم بھائی کی نئی زندگی ہر طرح سے خوشیوں بھری اور پُرسکون ہے، اور ایسے ہی ہمیشہ رہے گی۔ لیکن ایک دن، اس گھر میں ایک بہت بڑا انقلاب آ گیا
ہر شخص حیران تھا، چہرے سو گوار تھے، بچے سہمے ہوئے تھے، محلے والے انگلیاں اٹھارہے تھے اور دوستوں پر سکتہ طاری تھا۔ ہر شخص یہی سوال کر رہا تھا کہ آخر ان صاحب نے اتنی اچھی اور نیک بیوی کو کیوں طلاق دے دی جبکہ ان کے بچے بھی اپنی سوتیلی ماں سے والہانہ محبت کرنے لگے تھے۔ آخر تک کوئی اس طلاق کی وجہ اور وہ راز نہ جان سکا جس کو علیم صاحب جانتے تھے یا پھر مشتاق صاحب اور ان کے توسط سے میں جان چکی تھی۔
آج بھی جب سوہا مجھے یاد آتی ہے تو دل میں ایک کسک سی اٹھتی ہے۔ لوگ تو علیم بھائی کو ہی مورد الزام ٹھہراتے ہیں کہ انہوں نے بلا قصور اپنی نیک اور شریف بیوی کو طلاق دے دی تھی لیکن سوہا، علیم کا گھر چھوڑنے سے قبل میرے پاس آخری بار ملنے آئی تو اس نے مجھے بتادیا تھا کہ میں نے شوہر کو بتائے بغیر علاج معالجہ جاری رکھا تھا۔ بالآخر میری جد وجہد بار آور ہوئی اور میں امید سے ہو گئی لیکن جب میں نے علیم کو اس خوشخبری سے آگاہ کیا تو بجائے خوش ہونے کے انہوں نے مجھ کو طلاق دے دی۔ سوہاوالدین کے گھر چلی گئی۔ اس نے وہاں ہی اپنی حقیقی خوشی کو جنم دیا اور دو سال بعد دوسری شادی بھی کرلی۔ آج وہ پانچ بچوں کی ماں ہے۔ اور اپنی زندگی سے بے حد خوش اور مطمئن ہے۔ بے شک اللہ تعالی کے بھید کوئی نہیں جان سکتا۔ وہ جب چاہے جسے چاہے نواز دے۔
(ختم شد)