شیطان کے بہکاوے

subimegate urdu stories

جب میری شادی ہوئی دیور امیر نو سال کا تھا۔ ساس وفات پا چکی تھیں۔ میں نے اس کو اپنے بچوں کی طرح پالا۔ وہ بھی مجھے بھابھی کی بجائے آپا کہتا تھا۔ خدا نے مجھے دو بیٹوں سے نوازا تھا۔ شوہر مکینک تھے۔ اچھا کما لیتے تھے۔ ہمارا گزارا ٹھیک ٹھاک ہو رہا تھا۔ امیر 18 برس کا ہو گیا تو میں بیوہ ہو گئی۔

 اللہ تعالی نے ایک ناگہانی حادثے میں میرے جیون ساتھی کو ہم سے ہمیشہ کے لیے جدا کر دیا اور ہم سوات سے پنڈی آگئے۔ ان دنوں ہمارے علاقے کے حالات خراب تھے۔ روزگار کا ملنا محال تھا۔ ایک سواتی ہم زبان بھائی کی مدد سے امیر کو تعمیراتی کمپنی میں کام مل گیا۔ اس کمپنی کا مالک ایک بہت دولت مند شخص تھا جس کے بڑے پراجیکٹ اسلام آباد اور راولپنڈی میں چل رہے تھے۔ یہ ایک بزرگ آدمی تھا۔ محنتی اور شریف طبیعت۔ اس نے ملازمت پر رکھنے سے قبل امیر سے تھوڑی سی بات چیت کی تو وہ اسے ٹھیک بندہ لگا۔ اس نے کہا کہ میں تم کو دفتر میں کچھ لکھنے پڑھنے کا کام سونپ رہا ہوں۔ کام اچھی طرح سے میرے مینیجر سے سمجھ لینا اور تنخواہ کا بھی وہی تم کو بتا دے گا۔

 تنخواہ جو بھی اپ دیں گے مجھے منظور ہے۔ لیکن میں سوات سے آیا ہوں۔ میری بیوہ بھابھی اور ان کے دو بچے بھی ہمراہ ہیں۔ ہمارا بڑا مسئلہ رہائش ہے۔ اگر آپ یہ مسئلہ حل کر دیں تو مہربانی ہوگی۔ افسر صاحب بولے ٹھیک ہے رہائش کا مسئلہ میں حل کر دیتا ہوں۔ ہمارے بنگلے میں ایک سرونٹ کوارٹر ہے۔ تم اپنی بیوہ بھابھی اور بچوں کے ساتھ وہاں رہائش اختیار کر سکتے ہو۔ افسر صاحب نے جب ہماری داستان حیات سنی ازرا ہمدردی انہوں نے امیر کی تنخواہ بھی معقول مقرر کر دی۔ وہ میٹرک پاس تھا مزدوری کی بجائے اس کو دفتر کا کام دیا۔

امیر نے جب یہ خبر دی کہ صاحب کی کوٹھی کے سرونٹ کوارٹر میں ہماری رہائش کا بندوبست ہو گیا ہے تو میں کھل اٹھی۔ جلدی سے بیگ میں بچوں کے کپڑے رکھے امیر کے ساتھ ہم کوٹھی پر پہنچ گئے۔ بیگم کو قیوم صاحب فون کر چکے تھے لہذا انہوں نے اچھی طرح ہم سے بات کی اور امیر بھائی سے کہا کہ تم جاؤ کام پر کوارٹر میں ان کے حوالے کر دوں گی۔ جب میں نے کوارٹر میں قدم رکھا تو میرا دل باغ باغ ہو گیا۔ کشادہ دو کمروں کا صاف ستھرا اور عمدہ بنے ہوئے غسل خانے اور باورچی خانہ بھی ساتھ تھا۔ چولہا، چوکی، چارپائیاں، بستر غرض ہر شے میسر تھی۔ اللہ تعالی مسبب الاسباب ہے۔ اس نے ہمارے رہنے کا بہت اچھا بندوبست اتنی جلدی کر دیا کہ میں شکر ادا کرتے نہ تھکتی تھی۔

 ایک روز بعد بیگم نے مجھے بلا کر پوچھا تمہارا نام کیا ہے؟ خدیجہ بی بی نام ہے امیر جو میرا دیور ہے وہ مجھے آپا بی بی کہہ کر بلاتا ہے۔ بہت اچھی بات ہے وہ کہنے لگی میں بھی تم کو آپا بی بی کہوں گی۔ دراصل میں اکیلی ہوں اس وجہ سے میرا جی گھبراتا ہے۔ تم میرا کام کرو گی تو کھانا اور تمہاری الگ تنخواہ تم کو مل جائے گی اور میری تنہائی بھی دور ہو جائے گی۔ بچوں کو پڑھانا چاہو تو ہم ان کو سکول میں داخل کرا دیں گے۔ اس سے اچھی اور کیا بات ہو سکتی تھی مجھے کام مل رہا تھا۔ تنخواہ اور کھانا بمہ رہائش سبھی مسئلے حل ہو رہے تھے۔ شام کو جب امیر کو چھٹی ہوتی وہ بھی آجاتا۔ امیر کی تنخواہ صاحب نے معقول رکھی تھی ۔ سفر وسیلہ ظفر کے مصداق میں پنڈی آ جانے پر بہت خوش تھی۔ یہاں ہماری قسمت کھل گئی تھی۔ میں نے ان کا گھر سنبھال لیا۔ کھانا بنانا کپڑے استری کرنا اور ہر وہ کام جو وہ کہتی بخوشی سلیقے سے کر دیتی۔ وہ مجھ سے بہت خوش تھی کہتی تھی تم جیسی ملازمت قسمت والوں کو ملتی ہے۔ واقعی تم اچھے گھر کی ہو تبھی تمہاری عادتیں اچھی ہیں۔

 میں نے بتایا بیگم صاحبہ میرے والد کا سوات میں سیبوں کا باغ تھا اور میرے خاوند اور سسر بھی پہلے سیبوں کے تاجر تھے۔ سسر اور والد صاحب کی وفات ہو گئی ہمارے سیبوں کے باغ اجڑ گئے۔ مجبورا ہم کو دربدر ہونا پڑا۔ اللہ کی طرف سے انسانوں پر آزمائش آتی ہے۔ بس اللہ پاک ہمیں ثابت قدم رکھے اور ہر وقت شکر کی توفیق عطا کر دے۔ وہ میری باتوں سے بہت متاثر ہوئیں مجھ سے عزت سے پیش آتی میں پانچ وقت نماز پڑھتی صبح تلاوت کرتی۔ وہ کہتی میں نماز بھول گئی ہوں مجھے سکھاؤ تاکہ میں بھی پڑھوں۔ نماز سے سکون ملتا ہے بیگم صاحبہ اپ ضرور پڑھا کریں۔

مجھ سے کچن میں آکر باتیں کرتی اور سواتی کھانے بنانا سیکھتی۔ میں نے جان لیا کہ ان کو کسی کے ساتھ کی اشد ضرورت ہے اور سخت تنہائی کا شکار ہیں۔ اندر سے یہ لڑکی بہت دکھی تھی۔ لڑکی اس وجہ سے کہ اس کی عمر بمشکل 16 17 برس تھی جبکہ ان کے شوہر کی عمر 65 سے بھی اوپر ہوگی۔ خدا جانے ان کے والدین نے کیوں اتنی کم سن پھول سی بچی کو اتنے عمر رسیدہ آدمی سے بیاہ دیا تھا۔ شاید دولت کی وجہ سے۔ نام حسنا تھا۔ قسمت کی دھنی تھی کہ دولت میں کھیل رہی تھی۔ کسی شے کی کمی نہ تھی۔ مگر خوش نہ تھی ۔شوہر نہ صرف عمر رسیدہ تھا بلکہ وہ اس قدر مصروف شخص تھا کہ اس کو گھر میں بیوی کو وقت دینے کی فرصت نہ تھی۔ وہ گھر پر صرف اتوار کو ناشتہ کرتا تھا۔ ورنہ ناشتہ آفس میں اور دوپہر کا کھانا گھر سے بیگم صاحبہ کا ڈرائیور ان کو دینے کمپنی کے دفتر جاتا تھا۔ صاحب کا کھانا میں علیحدہ بناتی تھی۔ قیوم صاحب مجھ سے خوش تھے کیونکہ ان کا کھانا میں ان کی حسب منشا تیار کر دیا کرتی تھی۔

کچھ دن بعد ان کا ڈرائیور بیمار ہو گیا انہوں نے امیر سے دریافت کیا۔ کیا تم ڈرائیونگ جانتے ہو؟ وہ بولا جی صاحب میرے پاس گاڑی چلانے کا لائسنس ہے۔ میں ڈرائیور رہ چکا ہوں۔ وہ بہت خوش ہوئے۔ کہنے لگے تو پھر تم یہاں میرے آفس کی ڈیوٹی چھوڑ دو۔ مجھے کوئی اور مل جائے گا۔ آج میں کمپنی کے ڈرائیور کے ساتھ نہیں بلکہ تمہارے ساتھ گھر جاؤں گا۔ تمہارا ٹیسٹ بھی ہو جائے گا کہ کیسی ڈرائیونگ کرتے ہو۔ آٹھ بجے کے قریب صاحب کو لے کے امیر ان کی گاڑی میں گھر آگیا۔ صاحب اس کی ڈرائیونگ سے مطمئن ہو گئے کہنے لگے آج سے گھر کی گاڑی کے ڈرائیور تم ہو گئے۔ اس طرح امیر نے کمپنی جانا ترک کر دیا اور وہ اب گھر میں رہنے لگا۔ بیگم صاحبہ نے کہیں جانا ہوتا۔ کوئی گھر کا سودا سلف منگوانا ہوتا یا صاحب کو دفتر پہنچانے اور دوپہر کو پھر کھانا دینے جانا ہوتا۔ یہ تمام کام اب امیر کے سپرد ہو گئے۔ امیر کو بھی سہولت ہو گئی اس کو کھانا گھر کا ملنے لگا۔ وہ کوارٹر میں آرام کر لیتا گھر میں رہنے سے امیر اور بہت سے گھریلو کام کر دیا کرتا تھا۔ فارغ بیٹھنے کی اس کی عادت نہیں تھی۔

 ہم بھابھی دیور نے صاحب کا گھر اتنی اچھی طرح سنبھال لیا کہ وہ چھوٹے چھوٹے مسائل سے بے نیاز ہو گئے ۔ دونوں میاں بیوی ہماری عزت اور قدر کرنے لگے اور ہم بھی بری دیانت داری اور خلوص سے ان کی خدمت کرتے تھے۔ گھر میں امن و سکون تھا تو ہماری زندگیوں میں بھی امن و سکون تھا۔ میرے بچے سکول جانے کے قابل ہو گئے انہوں نے ایک قریبی اوسط درجے کے سکول میں دونوں بچوں کو داخل کرا دیا۔ میں ان کو پیدل سکول پہنچا آتی۔ امیر گھر میں ہوتا تو وہی لانے پہنچانے کا کام کر دیتا۔ غرض ہماری زندگیوں میں ایک ٹھہراؤ آ چکا تھا۔

ایک روز بیگم نے باتوں باتوں میں بتایا آپا بی بی جیسے تم پر وقت پڑا ہے میری والدہ پر بھی اسی طرح کا وقت پڑا تھا۔ والد کو گردوں کا مرض لاحق ہو گیا تو وہ کمانے کے قابل نہ رہے۔ بھائی غلط دوستوں میں گھر کی ذمہ داریوں سے بے نیاز ہو رہا۔ اس نے میٹرک کے بعد پڑھائی بھی چھوڑ دی۔ والد کی بیماری پر بہت خرچہ آتا تھا اور ہم پانچ بہنیں تھیں کسی کی شادی نہ ہوئی تھی۔ امی بہت پریشان تھی کیونکہ والد قیوم صاحب کی کمپنی میں کام کرتے تھے۔ وہ بھی بیمار پڑے تھے۔ قیوم صاحب جب ان کی عیادت کو گھر آئے تو ہمارا حال دیکھ کر افسردہ ہو گئے۔ ان کے بچے نہیں تھے۔ بیوی کی وفات کو کافی عرصہ گزر گیا تھا اور انہوں نے دوسری شادی نہیں کی تھی۔ مجھے دیکھا تو پسند کر لیا مگر منہ سے کوئی بات نہیں نکالی۔ والد صاحب کی بیماری کا خرچہ اٹھا لیا۔ تین سال زندہ رہے۔ یہ اخراجات بھی قیوم صاحب دیتے رہے ان کی وفات کے بعد قیوم نے والدہ سے میرا ہاتھ مانگ لیا تو امی نے بھی یہ سوچ کر کہ ان کو کسی دولت مند کا سہارا چاہیے تھا۔

 میں نے جب انکار کیا۔ وہ رونے لگی اور اپنی مجبوریوں کا واسطہ دیا تو بہنوں اور ماں کی خاطر میں نے قربانی دی۔ مگر میرے دل نے کبھی قیوم صاحب کو بطور شوہر قبول نہیں کیا۔ میرا اور ان کا عمر کے فرق کی وجہ سے جوڑ نہیں بنتا تھا لیکن یہ چاہتے تو مجھے محبت اور توجہ دیتے۔ مگر آپا بی بی ان کے پاس مجھے محبت دینے کے لیے وقت ہی نہیں ہے اور تو اور مجھ سے باتیں تک کرنے کا ٹائم نہیں ہے ان کے پاس۔ تم دیکھ تو رہی ہو کہ میں سونے کے پنجرے میں قید ایک پرندے کی طرح ہوں۔ کبھی کبھی تو دل چاہتا ہے کہ اس پنجرے کو توڑ کر اڑ جاؤں۔ پھر بہنوں اور ماں کا خیال اتا ہے۔ جن کو ہر ماہ وہ خرچہ دیتے ہیں اور میری بوڑھی ماں کا علاج معالجہ اور دیکھ بھال کرتے ہیں۔

 میری ایک بہن کی شادی انہی کی کوشش سے اچھے گھرانے میں ہو گئی۔ مگر ابھی تین اور رہتی ہیں کالج پڑھ رہی ہیں۔ خرچہ ابھی قیوم صاحب دیتے ہیں۔ ایک میری قربانی کے بدلے انہوں نے کتنی زندگیاں بنا دی ہیں ۔یہی سوچ کر سمجھوتے پر دل کو راضی کر لیا ہے ورنہ دل تو گھٹا گھٹا ہی رہتا ہے اپ لوگ آئے ہو تو میں ذرا خوش رہنے لگی ہوں ورنہ میں تو کسی سے بات کرنے کو بھی ترستی تھی۔ بیگم صاحبہ کی باتیں سن کر مجھے بہت افسوس ہوا۔ وہ اتنی خوبصورت تھی کہ ان کا جیون ساتھی ان کا ہم عمر کوئی خوبصورت شہزادہ ہونا چاہیے تھا۔ مگر واہ ری قسمت کہ ان کی تقدیر میں بوڑھا بادشاہ لکھا گیا تھا۔

قیوم صاحب عمر رسیدہ مگر دل کے بادشاہ تھے۔ وہ کئی ضرورت مندوں کے کام آتے۔ خدا ترس تھے۔ مگر اس قدر اپنے پیشے سے وابستہ تھے کہ ان کو اس بات کا بھی احساس نہ تھا کہ انہیں کچھ وقت اپنے کم سن بیوی کے لیے بھی نکالنا چاہیے۔ جب سے امیر گھر میں ایا تھا میں نے محسوس کیا کہ بیگم خوش رہنے لگی ہیں۔ وہ اب میرے دیور میں کچھ اس طرح دلچسپی لیتی تھیں کہ میرا دل آنے والے کسی خطرے سے ڈرنے لگا تھا اسے بہانے بہانے سے بلا کر باتیں کرنے لگتیں۔