امیر بہت خوبصورت، سرخ و سفید رنگت والا صحت مند اور قد اور نوجوان تھا۔ شاید بیگم صاحبہ کے تصورات میں ایسے ہی کوئی حسین رنگ و روپ اور قدوں کا مت والا نوجوان آئیڈیل رہا ہوگا کہ وہ میرے دیور کو حسرت سے تکنے لگتی تھی۔ یہاں تک کہ امیر کی پیشانی پر پسینہ آجاتا تھا۔ وہ کوشش کرتا کہ کم سے کم بیگم اس کو بلائیں جبکہ وہ ان کا ڈرائیور بھی تھا وہ جب چاہے اسے بلا سکتی تھیں۔ تاہم اللہ کا شکر ہے وہ گھر سے کم ہی نکلتی تھی اور ان کی کوئی سہیلی یا ہم عمر پڑوسن بھی ایسی نہ تھی کہ ملنے میں لانے جائیں۔ انہوں نے بس ہم لوگوں سے دل لگا لیا تھا۔ ہو سکتا ہے کہ صاحب نے ان پر یہ پابندی بھی عائد کر رکھی ہو۔ وہ زیادہ تر گھر پر ہی رہیں گی۔ تب ہی ان کی تنہائی کا مداوا نہ ہو سکا تھا اور وہ ہم ملازموں میں اپنی تنہائی کا علاج ڈھونڈ رہی تھی۔
رفتہ رفتہ ان کی مہربانیاں بڑھتی گئی۔ خاص طور پر میرے دیور امیر پر۔ اسے وہ بن مانگے جیب خرچ دیتی۔ سودا سلب سے جو رقم بچتی وہ واپس نہ لیتی۔ تنخواہ کے علاوہ اتنی مراعات کہ ہماری تنخواہ ساری بچی رہتی تھی۔ سردیاں آگئی تو دن چھوٹے ہو گئے۔ رات جلدی ہو جاتی۔ صاحب اور دیر سے گھر آنے لگے۔ تب وہ ہمارے کوارٹر میں آ کر بیٹھ جاتی ۔ انگھیٹی جلانے کو کہتی۔ پھر ہمارے درمیان بیٹھ کر مزے سے ہاتھ تاپتی ۔ کہتی کہ جب تک صاحب نہیں آ جاتے تم لوگ مجھ سے باتیں کرو۔ بیٹھتی وہ امیر کے کمرے میں تھی۔انگیٹی بھی وہیں رکھی ہوتی۔ مجھ سے کہتی بچوں کو سلا کر آجانا ۔ بچوں پر لحاف ڈالا ہوا ہے اس لیے انگیٹھی ادھر نہیں رکھی ورنہ گیس کمرے میں بھر جائے گی۔ میں بچوں کو سلا رہی ہوتی اور وہ امیر کے ساتھ باتیں کرتی اور کہتی باتیں کرنے نہیں آتی تو اپنے بچپن کی کوئی کہانی سناؤ جب تک بچے سوتے میرا دیور بیچارا گاؤں کے قصے ادھر ادھر کی باتیں کرتا رہتا۔
ایک دن وہ نہانے گئی تو غسل خانے سے دھڑم سے گرنے کی آواز سنائی دی۔ امیر برآمدے میں بیٹھا۔ اپنی سائیکل صاف کر رہا تھا۔ جبکہ میں کچن میں تھی۔ بیگم صاحبہ کی چیخ سن کر میں دوڑی۔ سوچا غسل خانے کا در اندر سے بند ہوا تو کیسے دیکھوں گی کہ کیا ہوا ہے؟ لیکن جب در کو ہاتھ لگایا وہ کھل گیا۔ سوچا کہ شکر ہے انہوں نے لاک نہیں کیا تھا۔ میں اندر گئی وہ فرش پر گری ہوئی تھی۔ شاید پیر پھسلا تھا۔ وہ بے ہوش تھی۔ شاید زیادہ چوٹ آئی تھی۔ میں نے اٹھانا چاہا مجھ سے نہ اٹھائی گئی چادر سے ان کا بدن ڈھانپا اور دیور کو آواز دی چیخ اس نے بھی سنی تھی اور وہ برآمدے سے کچن تک آگیا تھا۔
میں نے کہا کہ میں ان کو نہیں اٹھا سکتی ۔ تب وہ کچھ ہوش میں آگئی بولی کہ میری ٹانگ میں چوٹ آئی ہے۔ ہل نہیں سکتی۔ بہت درد ہو رہا ہے۔ میری ٹانگ میں فریکچر ہوا ہے شاید۔ نہیں اٹھ سکتی۔ تب میں نے امیر کو باہر جانے کا اشارہ کیا اور بڑی دقت سے کس طرح لباس پہنایا۔ دوبارہ اس کو آواز دی کہ آؤ میری مدد کرو۔ اس نے بیگم صاحبہ کو اس طرح اٹھا کر بستر پر لٹا دیا جیسے زمین پر گرے ہوئے چھوٹے بچے کو اٹھا کر لٹاتے ہیں۔
اس رات صاحب لاہور کسی کام سے گئے ہوئے تھے۔ وہ دوسری صبح آئے ہم ساری رات دیور بھابی دونوں اس کے پاس بیٹھے رہے وہ ہائے ہائے کرتی رہیں۔ نہ خود سوئیں اور نہ ہمیں سونے دیا۔ صبح صاحب آگئے۔ وہ ان کو ڈاکٹر کے پاس لے گئے ایکسرے کرائے۔ خدا کا شکر کہ زیادہ جھوٹ نہیں لگی تھی اور جسم میں کہیں بھی فریکچر ایکسرے میں نہ آیا تھا۔ اس کے بعد امیر گھبرایا گھبرایا رہنے لگا۔ مجھے کہتا آپا بی بی میرا دل کرتا ہے کہ ہم یہاں سے چلے جائیں۔ میں یہاں رہنے سے اب دل میں امن محسوس نہیں کرتا۔ دل میں امن تو مجھے بھی محسوس نہ ہوتا تھا لیکن میں یہی کہتی تھی امیر تھوڑا سا اور تحمل سے وقت گزار لو۔ ہم بچوں کے ساتھ کہاں جائیں گے؟ اگر تم کو کہیں اور جگہ نوکری مل بھی گئی تو رہائش کا کیا کریں گے؟ دعا کرو ہمارے اپنے علاقے کے حالات ٹھیک ہو جائیں تو ہم اپنے گاؤں واپس چلے جائیں۔
اس دن کے بعد وہ اکثر کہتی۔ اگر اس دن تم لوگ نہ ہوتے تو شاید میں مر ہی جاتی اے کاش میں تم لوگوں کے گھر کا ہی فرد ہوتی۔ ایسے عیش و آرام سے کیا حاصل جو گھر محبت کی مٹھا س سے خالی ہو۔ سر سے پیر تک بھی تمہارے صاحب مجھے سونے سے بھی لاد دیں تو وہ میرے کسی کام کے نہیں ہیں۔ میں سمجھاتی بیگم صاحبہ ایسی باتیں نہ کریں۔ ان باتوں سے اللہ تعالی ناراض ہوتے ہیں۔ شکر کریں کہ اپ ہم جیسوں سے بہتر ہیں۔ ہمیں دیکھیے اپنے گھر میں خود کو محفوظ نہ سمجھا تو دربدر ہو گئے ہیں۔ آپ کو اللہ نے محفوظ کر دیا ہے۔ ہر نعمت دی ہے اللہ کا شکر کریں۔ مگر ان کے اندر کا اضطراب ایسا تھا کہ جس کو ہم سمجھ کر بھی نہیں سمجھنا چاہتے تھے۔
بالاخر ایک دن امیر سے انہوں نے اپنے دل کی بات کہہ دی جس پر اس نے ان کو سمجھایا کہ بی بی میں نے صاحب کا نمک کھایا ہے میں نمک حرامی نہیں کر سکتا آپ اپنے صاحب کو ہی سر کا تاج سمجھیے اور مجھے نوکر۔ میں آپ کی درکا ملازم ہوں۔ آپ اپنا مقام نہ بھولیے اور نہ میں کبھی اپنی اوقات بھولوں گا۔ اسی میں ہماری بھلائی ہے۔ ان کا دل ٹوٹ گیا۔ کچھ دن مجھے بجھی رہیں میں نے پوچھا بیگم صاحبہ کیا بات ہے؟ اپ کچھ ناراض لگتی ہیں۔ کیا ہم سے کوئی خطا ہو گئی ہے؟ کہا نہیں آپا بی بی میں تو اپ کی بہت عزت کرتی ہوں۔ آپ پر اعتبار ہے میں نے جواب دیا اگر اعتبار ہے تو پھر مجھے بتا دیجئے کہ آپ کیوں ایسی بجی بجھی ہیں۔ کچھ جھجکتے ہوئے انہوں نے کہا میں قیوم کے ساتھ نہیں رہنا چاہتی۔ یہ ضرورت کی شادی تھی میں اس کو توڑنا چاہتی ہوں۔ تم لوگ میرا ساتھ دو۔ طلاق لے کر میں ماں کے گھر نہیں جا سکتی ورنہ میری بہنوں کے گھر خراب ہوں گے۔ میں چاہتی ہوں کہ قیوم سے طلاق لے لوں اور امیر سے شادی کر کے دلی خوشی کے ساتھ گھر بناؤں۔
اس کی یہ بات سن کر میں بہت زیادہ پریشان ہو گئی۔ میں نے کہا ایسا ممکن نہیں ہے آپ اپنا گھر آباد رکھیں۔ خدا کا شکر کہ انہی دنوں صاحب کو بیرون ملک جانا پڑ گیا اور میرے بڑے بھائی کا فون آگیا کہ تم لوگ فوراََ بنوں پہنچو کیونکہ بڑے چچا کا انتقال ہو گیا ہے ۔ ہم کو جانے کا بہانہ مل گیا اور سب لوگ بھی کچھ دن بعد انگلینڈ چلے گئے۔ یوں اللہ تعالی نے ہم غریبوں کی بھی عزت رکھ لی اور ان امیروں کی بھی جنہوں نے برے وقت میں ہم کو سہارا دیا تھا۔ چاہتی تھی حلال روزی کا وسیلہ بنے نہ وہ ہم سے دل برداشتہ ہو کر گئے اور نہ ہم ان سے شرمندہ ہوئے۔
میں خدا سے یہی دعا مانگتی تھی کہ اے ہمارے رب ہماری عزت رکھنا ۔ ہم کو اس عمل کی توفیق نہ دینا کہ ہم کسی سے بددیانتی یا غداری کریں۔ خاص طور پر اپنے محسنوں سے۔ اللہ تعالی نے ہماری دعا سن لی۔ بیگم صاحبہ بھی جہاں ہو خوش رہیں کیونکہ خوشی اور غم بانٹنے والی تو اللہ کی ذات ہے۔ لیکن بیٹی کا رشتہ کرتے وقت ماں باپ کو یہ ضرور سوچنا چاہیے کہ رشتوں میں عمروں کا اتنا فرق نہ ہو کہ بیٹی عمر بھر سچی خوشی کو ترستی رہے۔
(ختم شد)