کبھی کبھی انسان کسی بارے بہت غلط سوچ لیتا ہے، تبھی تاسف سے دامن جاتا ہے۔ یہ تاسف پھر کبھی دل سے نہیں جاتا۔ میرے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوا تھا۔ ان دنوں میں سکینڈ ایئر کے امتحان سے فارغ ہوئی تو چھٹیاں مل گئیں۔ ایک دن گھر بیٹھی ہوئی بور ہو رہی تھی، موسم کافی خوش گوار تھا۔
بلکی ہلکی پھوار پڑ رہی تھی اور آسمان پر کالے بادل چھائے ہوئے تھے کہ اچانک میری سہیلیاں آگئیں۔ وہ کہنے لگیں کہ کلفٹن چلتے ہیں۔ میں نے امی سے اجازت لی اور ان کے ساتھ موسم کا لطف اٹھانے کلفٹن چلی گئی۔ جب ہم وہاں پہنچے تو بارش تیز ہو گئی۔ ساحل پر لوگوں کا ہجوم بارش سے لطف اندوز ہورہا تھا۔ ہم نے باسکٹ سے کھانے پینے کی چیزیں نکال کر ٹیبل پر رکھیں اور ہنسی مذاق کرنے لگیں۔ ذرادیر بعد محسوس ہوا کہ کچھ لڑکے ہمیں گھور رہے ہیں۔ جب ہم ان کی جانب دیکھتے تو وہ دوسری جانب دیکھنے لگتے، تبھی ہم نے مسلسل اُن پر نظر رکھی تاکہ وہ گھبرا کر چلے جائیں، لیکن اس کا الٹا اثر ہوا۔ ان کی ہمت بڑھی اور مذاق کرتے کرتے قریب آکر بیٹھ گئے اور ہمیں زیادہ تنگ کرنا شروع کر دیا۔
کچھ لڑکیاں تو اس سے سے محظوظ ہو رہی تھیں اور کچھ اس کو ناپسند کر رہی تھیں۔ انہی لڑکوں میں ایک لڑکا سب سے الگ تھلگ ، مگر نمایاں نظر آرہا تھا۔ وہ اوپر دیوار پر بیٹھا تھا جبکہ باقی سب ساحل کی لہروں کے پاس تھے۔ وہ باوقار شخصیت کا مالک تھا۔ اس کے چہرے پر ملاحت تھی۔ وہ اپنے دوستوں کی حرکتوں پر مسکرا رہا تھا۔ اس کے دوستوں نے ہمیں اتنا تنگ کیا کہ ان سے پیچھا چھڑانا مشکل ہو گیا۔ بالآخر ایک لڑکی نے پولیس والے سے شکایت کر دی اور یہ سارے دھر لئے گئے ، سوائے اس لڑکے کے ، جو الگ تھلگ تما شاد دیکھ رہا تھا۔ وہ آگے بڑھا اور پولیس والے سے کچھ بات کیں، جیب سے کچھ نوٹ نکال کر پولیس والے کو دیئے اور اپنے ساتھیوں کو چھڑا لیا۔ تب ہم لڑکیاں ڈری سہمی واپس گھر کو چل دیں۔
اس واقعے کو کافی عرصہ گزر گیا۔ دل پر اس لڑکے کی یاد کے نقوش گہرے ہی رہے۔ تمنا کرتی کہ کاش ایک بار اس سے ملاقات ہو جاتی۔ نجانے کیوں میری تمنا تھی کہ ایسا ہی میرا ابھائی ہوتا۔ میرا تو کوئی بھائی تھا، نہ بہن۔ رفتہ رفتہ اس واقعہ کی یاد محو ہو گئی۔ ایک روز اپنے آفس میں بیٹھی تھی کہ وہ لڑکا نظر آگیا۔ بہت خوش ہوئی، بھاگی ہوئی گئی اور اس کو اپنی سیٹ کی طرف لا کر کرسی پیش کی اور چائے منگوالی۔ وہ خوش دلی سے مسکر اتارہا۔ میرے پوچھنے پر بتایا کہ اس کا نام مہربان خان ہے ، پشاور سے یہاں پڑھنے کی خاطر آیا ہوا ہے۔ اس نے میرے گھر کا پتا پوچھا، میں نے بتادیا اور گھر آنے پر کافی اصرار بھی کیا۔ اس نے گھر آنے کا وعدہ کیا اور چلا گیا۔ ہفتہ بعد وہ ہمارے گھر آگیا۔ میں نے گھر والوں سے اس کا تعارف کرایا۔ انہیں بھی وہ پسند آیا۔
اس واقعے کو کافی عرصہ گزر گیا۔ دل پر اس لڑکے کی یاد کے نقوش گہرے ہی رہے۔ تمنا کرتی کہ کاش ایک بار اس سے ملاقات ہو جاتی۔ نجانے کیوں میری تمنا تھی کہ ایسا ہی میرا ابھائی ہوتا۔ میرا تو کوئی بھائی تھا، نہ بہن۔ رفتہ رفتہ اس واقعہ کی یاد محو ہو گئی۔ ایک روز اپنے آفس میں بیٹھی تھی کہ وہ لڑکا نظر آگیا۔ بہت خوش ہوئی، بھاگی ہوئی گئی اور اس کو اپنی سیٹ کی طرف لا کر کرسی پیش کی اور چائے منگوالی۔ وہ خوش دلی سے مسکر اتارہا۔ میرے پوچھنے پر بتایا کہ اس کا نام مہربان خان ہے ، پشاور سے یہاں پڑھنے کی خاطر آیا ہوا ہے۔ اس نے میرے گھر کا پتا پوچھا، میں نے بتادیا اور گھر آنے پر کافی اصرار بھی کیا۔ اس نے گھر آنے کا وعدہ کیا اور چلا گیا۔ ہفتہ بعد وہ ہمارے گھر آگیا۔ میں نے گھر والوں سے اس کا تعارف کرایا۔ انہیں بھی وہ پسند آیا۔
میں نے اپنے دل میں اس کے لئے ایسی محبت محسوس کی، جو ایک بہن کو اپنے بھائی سے ہوتی ہے۔ اس کے دل میں بھی یہی جذ بات میرے لئے تھے۔ وہ کہتا، میری ایک بہن شائستہ ہے اور دوسری تم ہو۔ اب وہ جب ہمارے گھر آتا، سارے گھر میں خوشی کی لہر دوڑ جاتی۔اس کی بول چال، بات کر کرنے کا طریقہ بہت ہی خوبصورت تھا۔ وہ ہمیشہ عمدہ لباس پہنتا اور اچھی بات منہ سے نکالتا۔ اب وہ ہمارے گھر تقریباًروز آنے لگا۔ جس دن میری اس سے ملاقات نہ ہوتی، دل کو چین نہ آتا۔ اس کی ایک تصویر بھی میں نے اپنے ڈرائنگ روم میں لگادی تھی، کیونکہ میں نے مہر بان کو بھائی اور امی ابو نے بیٹا بنالیا تھا۔ ہم اکٹھے قریبی پارک جاتے، چنے چھولے کھاتے، کولڈ ڈرنک پیتے اور آخر میں وہ میرے دوپٹے سے اپنا منہ پونچھ لیتا۔ میں احتجاج کرتی تو کہتا۔
بھئی میں تو شائستہ کے دوپٹے سے بھی یونہی منہ پونچھ لیتا ہوں۔ برامناتی ہو ، تو مناتی رہو۔ وہ بہت شائستہ انسان تھا، کبھی کوئی ناپسندیدہ یا غیر اخلاقی بات نہ کی۔ اتنی اچھائیوں کے باوجود اس میں کچھ برائیاں بھی تھیں۔ وہ پارٹ ٹائم جاب کرتا اور گھر سے بھی پیسے منگوالیتا، پھر سب پیسے دوستوں کے ساتھ کافی ہاؤس اور سگریٹ نوشی میں اڑا دیتا۔ وہ بہت فضول خرچ تھا۔ میں اسے فضول خرچی سے منع کرتی مگر وہ نہ سنتا، تب میں روٹھ جاتی تو وہ مان جاتا اور فضول خرچی سے باز رہتا۔ اس نے گھر سے پیسے منگوانے چھوڑ دیئے اور سگریٹ نوشی بھی کم کردی۔ اس کی کوئی بات بھی مجھ سے چھپی ہوئی نہ تھی، سوائے ایک بات کے۔ وہ یہ نہیں بتاتا تھا کہ جمعرات کی شام سے جمعہ کی شام تک وہ کہاں ہوتا ہے۔
کہتار شتہ داروں کے پاس ہوتا ہوں۔ بہت پیچھے پڑی کہ مجھے بھی وہاں لے چلو، جہاں تم جاتے ہو۔ آخر زچ ہو کر ایک دن اس نے کہا۔ اچھا چلو تیار ہو جاؤ۔ میں بہت خوش ہوئی، اس نے میرے ابو کی موٹر سائیکل نکالی اور مجھے لے جا کر ایک سنیما ہاؤس میں بٹھا دیا کہ یہاں ہوتا ہوں ، اپنے دوستوں کے ساتھ۔ میں بہت ناراض ہوئی تو کہنے لگا۔ تم ہی نے تو ضد کی تھی۔ بہر حال فلم بہت اچھی ہے ، دیکھنا ہے تو دیکھو ، ورنہ چلو واپس گھر اور آئندہ مجھ سے مت پوچھنا کہ میں جمعرات کو کہاں ہوتا ہوں۔ بہر حال ہم بغیر فلم دیکھے گھر آگئے۔ اس کے بعد کئی دن میں مہربان سے ناراض رہی۔
اکثر وہ اپنے رشتہ داروں کی باتیں بتاتا اور اپنی چھوٹی بہن شائستہ کے بارے میں بھی بتاتا جو اس سے بہت محبت کرتی تھی۔ اس کا ہر دم خیال رکھتی اور مزیدار چائے بناتی تھی۔ جب دو تین بار مہربان نے ہمارے گھر کھانا نہ کھا یا تو مجھے ناراضی ختم کر نا پڑی، تب اس نے کھانا کھایا۔ میری اور مہربان کی اس محبت کا میری ساری سہیلیوں کو پتا تھا۔ وہ عموماً مجھ سے مذاق کرتی رہتی تھیں۔ ان کا خیال تھا اس زمانے میں کوئی مرد کسی لڑکی کو بہن نہیں بنا سکتا۔ منہ بولے بہن بھائی کارشتہ مشکوک ہوتا ہے اور کبھی بھی برائی میں بدل سکتا ہے۔ میں ان کو قائل کرنے کی کوشش کرتی تو وہ مجھ پر قہقہے لگانے لگتیں۔ اس بات سے میر ادل بہت برا ہو جاتا اور اپنی سبکی محسوس ہوتی۔
ایک دن وہ مجھے مہربان کے نام سے چھیڑ رہی تھیں تو میں نے ان سے کہا۔ تم جس طرح چاہو آزمالو۔ مہربان خان کا دل میرے لئے سگے بھائی جیسا ہے۔ انہوں نے کہا۔ ٹھیک ہے، تم ذرا اس کو آزما کر تو دیکھو۔ تم کو خود ہی ہماری باتوں کا یقین آجائے گا۔ اس کے دل میں جو چھپا ہے، زبان پر لے آئے گاور برائی کا یقین تم اپنی آنکھوں سے کر لو گی۔ بس ذرا ساتمہیں جھوٹ بولنا پڑے گا۔
ایک دن وہ مجھے مہربان کے نام سے چھیڑ رہی تھیں تو میں نے ان سے کہا۔ تم جس طرح چاہو آزمالو۔ مہربان خان کا دل میرے لئے سگے بھائی جیسا ہے۔ انہوں نے کہا۔ ٹھیک ہے، تم ذرا اس کو آزما کر تو دیکھو۔ تم کو خود ہی ہماری باتوں کا یقین آجائے گا۔ اس کے دل میں جو چھپا ہے، زبان پر لے آئے گاور برائی کا یقین تم اپنی آنکھوں سے کر لو گی۔ بس ذرا ساتمہیں جھوٹ بولنا پڑے گا۔
مجھے مہربان کی محبت پر اعتماد تھا، سو میں نے ہامی بھر لی۔ انہوں نے مجھے سکھایا کہ تم اس کو کہنا کہ میں تم سے اس طرح سے محبت کرتی ہوں کہ تم سے شادی کرنا چاہتی ہوں۔ اس طرح اس کی محبت کا امتحان ہو جائے گا۔ ہیں ان کی باتوں میں آگئی، تبھی اسی وقت وہ آگیا۔ کہنے لگا۔ چلو بازار چلیں، عید آنے والی ہے۔ عید سے دو تین دن پہلے گھر چلا جاؤں گا۔ تم کو عید کی شاپنگ کرادوں، تم شائستہ کے لئے بھی چوڑیاں اور جوڑا پسند کر لینا۔ میں نے کہا۔ نہیں، آج مجھے تم سے ضروری بات کرنا ہے۔ میری سہیلیاں پردے کے پیچھے سے چھپ کر ہماری باتیں سن رہی ی تھیں۔
میں نے مہر بان سے کہا۔ ہماری بہن بھائی کی محبت قائم نہیں رہ سکتی کیونکہ کیونکہ کیہ منہ بولے رشتوں کا اعتبار نہیں ہوتا اور نہ ہی ایسے رشتوں پر دنیا اعتبار کرتی ہے۔ میں آپ سے ضرور محبت کرتی ہوں سچی محبت کرتی ہوں اتنی کہ آپ کے بغیر نہیں رہ سکتی، مگر میرے دل میں اس محبت کا روپ بدل گیا ہے۔ میں آپ سے شادی کرنا چاہتی ہوں۔ مجھے لگتا ہے آپ بھی ایسا ہی چاہتے ہیں مگر بھرم رکھا ہوا ہے اور کہتے نہیں ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ آپ میری اس خواہش کو نہیں ٹھکراؤ گے ۔
اتنا سننا تھا کہ مہر بان خان کا چہرہ ست گیا۔ کچھ دیر وہ حیرت سے مجھے دیکھتا رہا، پھر کہا۔ اتنے پاکیزہ جذبات کو تم نے ٹھیں پہنچائی ہے۔ کاش تمہارے منہ سے یہ سب سننے سے پہلے مجھے موت آجاتی۔ میں تو تم کو اپنی سگی بہن سمجھتا تھا اور ہمیشہ سمجھتار ہوں گا۔ یہ کہتے ہوئے اس کا چہرہ غصے سے سرخ ہو گیا، جیسے کسی نے اسے گالی دے دی ہو۔ وہ بغیر کوئی دوسرا لفظ کہے اٹھ کر چلا گیا۔ اس روز میں نے ایک بھائی کی محبت اور پیار کو کھو دیا۔
اتنا سننا تھا کہ مہر بان خان کا چہرہ ست گیا۔ کچھ دیر وہ حیرت سے مجھے دیکھتا رہا، پھر کہا۔ اتنے پاکیزہ جذبات کو تم نے ٹھیں پہنچائی ہے۔ کاش تمہارے منہ سے یہ سب سننے سے پہلے مجھے موت آجاتی۔ میں تو تم کو اپنی سگی بہن سمجھتا تھا اور ہمیشہ سمجھتار ہوں گا۔ یہ کہتے ہوئے اس کا چہرہ غصے سے سرخ ہو گیا، جیسے کسی نے اسے گالی دے دی ہو۔ وہ بغیر کوئی دوسرا لفظ کہے اٹھ کر چلا گیا۔ اس روز میں نے ایک بھائی کی محبت اور پیار کو کھو دیا۔
میں بے جان سی کرسی پر بیٹھی اسی صوفے کی طرف دیکھتی رہی جس پر کچھ دیر پہلے مہربان بیٹھا ہوا تھا۔ میری سہیلیاں بھاگ کر اندر آئیں۔ انہوں نے مجھے جھنجھوڑا۔ اس دن میں اتنار وئی کہ شاید کبھی نہ روئی ہوں گی۔اب میر اسکون چھن گیا۔ مجھے ایک پل چین نہ آتا تھا۔ امی نے الگ ڈانٹا کہ تم نے اس کے ساتھ ایسا مذاق کیا ہی کیوں۔ مجھے کیا معلوم تھا کہ اس کو آزمانا اتنا مہنگا پڑے گا کہ میں ایک بھائی کی محبت سے ہاتھ دھولوں گی۔ کئی سال گزر گئے ، وہ نہ آیا اور نہ پھر رابطہ کیا۔ امی ابو نے بھی بہت کوشش کی اس کو منانے کی ، وہ بھی تو اس کو منہ بولا بیٹا بنا چکے تھے۔ ان کو بہت دکھ تھا اس کے روٹھ جانے کا ، حالانکہ قصور میر اتھا۔ میں ہی نادان سہیلیوں سے شرط لگا بیٹھی تھی۔ آج اس بات کو برسوں گزر گئے۔
میری شادی ہو گئی۔ اب میں چار بچوں کی ماں اور ایک نیک شوہر کی بیوی ہوں لیکن یہ خلش اب بھی دل میں موجود ہے۔ اے کاش ! مہربان بھائی مجھے ایک نادان لڑکی سمجھ کر معاف کر دیتے۔ ایک بار میرے والدین سے ہی ملنے آجاتے ، جو اب دنیا میں نہیں رہے۔ مہربان کو میں ساری بات بتا کر معافی مانگ لیتی مگر ایسانہ ہوا۔ وہ گئے تو پھر نہیں آئے۔ سچ ہے منہ سے نکلی بات اور کمان سے نکلا تیر کبھی واپس نہیں آتے۔
Urdu stories online, Urdu stories for kids, Short Urdu stories, Urdu Kahaniyan, Famous Urdu stories, Urdu stories with moral, Best Urdu stories collection, Urdu stories for students, Urdu love stories, Urdu horror stories, Urdu stories for reading, Urdu stories in Urdu text, Funny Urdu stories, Urdu stories for beginners, Urdu detective stories, Urdu motivational stories, Urdu stories Urdu font, Urdu moral stories, Urdu stories for children, Urdu true stories, Urdu suspense stories, Urdu emotional stories, Urdu adventure stories,hindi moral stories in urdu,سبق آموز کہانیاں, jin-ki-dushmni,good moral stories in urdu,Moral Stories,Urdu Stories,urdu kahani,اردو کہانی,قسط وار کہانیاں, urdu short stories, emotional urdu stories
1 تبصرے
Wah Wah
جواب دیںحذف کریں