ضمیر کی خلش

sublimegate urdu stories

Sublimegate Urdu Stories

ضمیر کی خلش - مکمل اردو کہانی

قسط وار کہانیاں

مجھے اقرار ہے کہ میں نے خود طلاق لی، مجھے یہ بھی اقرار ہے کہ طلاق لینا عورت کے لئے کوئی فخر کی بات نہیں، میں اقرار کرتی ہوں کہ جس گھر میرا بیاہ ہوا وہاں مجھے کوئی تکلیف بھی نہیں تھی، بس اک ضمیر کی خلش کے سوا، لیکن ضمیر کی خلش بھی کچھ کم عذاب نہیں، سو میں نے طلاق لے لی اور اس پر مجھے کوئی پچھتاوا، شرمندگی یا افسوس نہیں ہے۔ مطلقہ ہونے کا داغ لے کر مجھے ایسا لگا جیسے یہ داغ نہیں بلکہ تمغۂ افتخار ہے۔ عیش و آرام بھری اس دنیا سے نکل کر اپنی مفلسی میں دوبارہ سما جانے سے جو راحت و سکون ملا ہے ، وہ جنت کی راحت سے کم نہیں ہے۔

آپ حیران نہ ہوں۔ میں بتاتی ہوں کہ کیوں میں نے اپنے ماتھے سے سہاگ کا جھومر نوچ کر طلاق کا داغ لگانے کے لئے اتنی دعائیں مانگیں تھیں۔ میں غریب مگر انتہائی شریف گھرانے میں پیدا ہوئی۔ میرے والد اسکول ماسٹر تھے۔ وہ بچوں کو زیور تعلیم سے آراستہ کرنے میں روز و شب کوشاں رہتے تھے۔ ان کو نیکی، شرافت اور دیانت کا درس دیتے تھے۔ بچپن سے انہوں نے ہمیں اخلاقیات بھرے سبق رٹوائے تھے۔ وہ اکثر کہا کرتے تھے کہ ملاوٹ کرنے والے اور منافع خور دوزخی ہوتے ہیں۔ یہ قوم کی صحت سے کھیلتے ہیں اور ملت کو کمزور کر دیتے ہیں۔ ان کے رزق میں حرام اور پیٹ میں آگ اور انگارے بھر جاتے ہیں ان پر خدا کی لعنت ہوتی ہو گی۔ جب بچوں کے ذہنوں میں اس طرح کی باتیں راسخ ہو جائیں تو وہ بدی سے سمجھوتہ کرنے سے کترانے لگتے ہیں۔ والد صاحب نے مجھے ایم اے تک تعلیم دلوائی کہ مجھے پڑھنے کا شوق تھا۔ کتنی دقتیں اٹھا کر انہوں نے مجھے اس منزل تک پہنچایا، جب کہ ہم گائوں میں تھے اور یونیورسٹی شہر میں تھی۔ ایک پرائمری اسکول ٹیچر کی تنخواہ اس قدر قلیل ہوا کرتی تھی کہ دو وقت کی روٹی عزت سے بمشکل پوری ہو پاتی تھی۔ ایسے حالات میں انہوں نے ہمت ہاری اور میں چاہتی تھی کہ ایم اے کر کے ہائی اسکول میں ٹیچر لگ جائوں یا قسمت یاوری کرے تو لیکچرار بن کر والد صاحب کے دل کو ٹھنڈک پہنچاؤں۔
 
 جب حالات کا ریلا آتا ہے تو برسوں کے خوابوں کو بھی بہالے جاتا ہے۔ ان دنوں میں نے لیکچر رشپ کی آسامی کے لئے درخواستیں دی ہوئی تھیں کہ والد صاحب کی ملاقات گائوں کے ایک امیر آدمی سے ہو گئی ، جس کا اپنا کاروبار تھا۔ وہ اپنے پوتے کا اسکول لیونگ سرٹیفکیٹ لینے آیا تھا۔ ابا جان سے ان کی اچھی گپ شپ ہوئی اور باتوں باتوں میں رشتوں کا ذکر چل نکلا۔ آفاق صاحب نے کہا۔ مجھے اپنے ڈاکٹر بیٹے کے لئے ایسی لڑکی کی تلاش ہے، جو کم از کم گریجویٹ ہو اور سادہ رہن سہن کی پروردہ ہو۔ امیری غریبی کے فرق کو میں اہمیت نہیں دیتا، لیکن جیسے ہر نوجوان کی آرزو ہوتی ہے کہ اس کی شریک حیات تعلیم یافتہ ہونے کے ساتھ نیک سیرت اور خوش شکل بھی ہو، میرے زاہد کی بھی یہی آرزو ہے۔ میری بیوی نے کافی لڑکیاں دیکھی ہیں، لیکن ابھی تک کوئی ایسی لڑکی نہیں ملی جس میں یہ تمام خوبیاں یکجا ہوں۔ دراصل گائوں میں لڑکیاں خوبصورت تو بہت ہیں مگر تعلیم بس میٹرک۔ آپ ہی انصاف کیجیے! ڈاکٹر لڑکے کے لئے لڑکی بھی اعلیٰ تعلیم یافتہ ہونا چاہیے کہ نہیں ؟ شہر میں تو بہت لڑکیاں مل جائیں گی مگر ہماری بیگم کی نجانے کیا منطق ہے کہ وہ اس بات پر اڑی ہوئی ہیں کہ مجھے بہو گائوں میں رہنے والے گھرانے سے ہی بہو چاہیے ۔ آفاق صاحب کی یہ باتیں سن کر میرے سادہ دل و صاف گو والد صاحب بولے۔ بھائی صاحب اگر آپ پسند کریں، تو اپنی بیگم کو ہمارے گھر بھجوا دیں۔ میری بیٹی گائوں کی پروردہ، لیکن اعلیٰ تعلیم یافتہ ہے۔ اس نے ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی ہے، جس کے لئے وہ دو سال یونیورسٹی کے گرلز ہاسٹل میں قیام پذیر رہی ہے۔ یہ سن کر آفاق صاحب کی باچھیں کھل گئیں۔ 
 
وہ بولے۔ رشتے تو نصیبوں سے ہوتے ہیں، ہر حال میں آج ہی اپنی بیگم کو آپ کے گائوں بھیجوں گا تا کہ وہ ایک نظر آپ کی بچی کو دیکھ لیں۔ ہو سکتا ہے کہ آپ سے ہماری رشتہ داری ہو جائے۔ آپ تو بہت بھلے مانس ہیں یقیناً اولاد بھی آپ کے جیسی نیک سیرت ہو گی۔ خیر اس طرح آفاق کی بیگم ہمارے گھر تشریف لائیں۔ مجھے تو علم نہ تھا کہ یہ کیوں آئی ہیں۔ جیسا ہمارے مزاج میں تھا، خوش اخلاقی سے مہمان کی آئو بھگت کرنا، وہ ہم نے کی۔ والد صاحب نے بتایا تھا کہ ان کے دوست کے گھر سے خواتین آئیں گی، باتوں باتوں میں مسز آفاق نے یہ بھی بتایا کہ ان کے شوہر کافی اثر ورسوخ والے ہیں اور علاقے کے سیاست دان کی معاونت سے گائوں میں لڑکیوں کے لئے کالج کے قیام کی کوشش کر رہے ہیں، پھر مجھ سے مخاطب ہو کر بولیں۔ مجھے یہ جان کے بہت خوشی ہوئی ہے کہ گائوں میں رہ کر تم نے ماسٹر زکر لیا ہے۔ ان شاء اللہ دو چار ماہ میں ہمارے گائوں میں لڑکیوں کا کالج کھلنے والا ہے۔ جونہی منظوری آئے گی ، عمارت بننا شروع ہو جائے گی۔ مجھ کو ان کی باتیں بہت پسند آئیں کہ وہ تعلیم کی اس قدر ، قدردان ہیں۔ بہر حال جب والد صاحب آئے تو امی نے مسز آفاق کی بہت تعریف کی۔ اسی طرح جب وہ گھر گئیں تو اپنے شوہر اور لڑکے سے میری بہت تعریف کی گویا ان کو میں بطور بہو پسند آگئی تھی گرچہ ایک سفید پوش پرائمری اسکول ٹیچر کی بیٹی تھی۔ والدین نے سوچا یہ بھی ان لوگوں کی بڑائی ہے۔ باوجود یہ کہ ہماری غریبی ثابت تھی، انہوں نے اس امر کو مسئلہ نہیں سمجھا اور ایک معمولی گھرانے میں بیٹے کا رشتہ کرنے پر آمادگی ظاہر کر دی۔

امی زاہد کا گھر دیکھنے گئیں تو ان کی وسیع و عریض حویلی دیکھ کر حیران رہ گئیں۔ کیا دولت تھی، کیا شان و شوکت تھی۔ نوکر چاکر تھے ، گاڑیاں، سوزوکیاں ، ویگنیں تھیں۔ ہر شے منہ سے بول رہی تھی کہ دولت اس گھرانے کی باندی ہے۔ امی ابا کو تو یقین نہیں آرہا تھا کہ کیسے انہوں نے ہم سیدھے سادے کم مایہ لوگوں کے ساتھ رشتہ جوڑنا پسند کر لیا تھا۔ خیر ، یہ قسمت کا لکھا تھا۔ زاہد کے ساتھ میری شادی ہو گئی اور میں آفاق صاحب کی بہو بن کر ان کے گائوں آگئی۔ یہ بالکل غیر لوگ تھے مگر مجھے انہوں نے پہلے دن سے یہی احساس دیا کہ میں غیر نہیں ہوں۔ اپنائیت کے اس احساس سے دوماہ بہت سکون سے گزر گئے ، پھر رفتہ رفتہ اس گھر کے اسرار کھلنے لگے۔ پاس پڑوس سے سن گن ملی کہ پہلے یہ لوگ بہت غریب تھے۔ رفتہ رفتہ امیر ہو گئے ، میرے سسر صاحب تین قسم کا کاروبار کرتے تھے۔ ایک میٹھی چھالیہ بنانے کا کارخانہ تھا اور دوسرا کارخانہ مسالوں کا تھا، تیسر ا چائے کی پتی کا کاروبار تھا۔ 
 
اس کاروبار ہیں میرے چار دیور بھی برابر کے شریک تھے ، جب کہ میرے شوہر کی ایک ڈسپنسری تھی اور وہ ڈاکٹر کہلاتے تھے۔ شادی کے بعد مجھ پر انکشاف ہوا کہ یہ ڈاکٹر نہیں، بلکہ ڈسپنسر کا کورس کیا ہوا ہے اور قریبی دیہات میں چھوٹا سا مطب چلاتے ہیں۔ دیہات کے سادہ لوگ ان کو سچ مچ کا ڈاکٹر ہی سمجھتے تھے۔ ساتھ ہی دواؤں کا ایک چھوٹا سا اسٹور بھی کھول رکھا تھا، جہاں سے دیہاتی بچارے ان کے بتائے ہوئے نسخوں سے دوا خریدتے تھے۔ جہاں میرے میاں مطب کرتے تھے ، وہ دیہات شہر سے صرف سات میل دور تھا۔ میں اپنی سسرال میں ہی رہتی تھی۔ میرے میاں ہفتے میں دو دن کے لئے ہی گھر آتے ، باقی دن وہ اپنے مطب پر رہتے تھے۔ ایک بار میں نے ساتھ جانے کو کہا تو بولے۔ میں تمہیں وہاں اس لیے نہیں لے جاسکتا کہ دیہات کا ماحول ٹھیک نہیں ہے۔ تم وہاں اکیلی نہیں رہ سکو گی کیونکہ میں تو رات دن مریضوں میں الجھا رہتا ہوں۔ ان کا جواب سن کر میں چپ ہو گئی۔ ہمارے گھر کے دو حصے تھے۔ ایک حصے میں ہم سب کی رہائش تھی، جب کہ دوسرا بڑا حصے میں ان کے کارخانے لگے ہوئے تھے۔ کارخانے میں اجرت پر مرد اور عور تیں کام کرتے تھے، تاہم کچھ کام گھر کی عورتوں کے بھی ذمے تھے ، جو وہ اپنے ہاتھوں سے سر انجام دیتی تھیں۔ 
 
جب شادی کو تین ماہ گزر گئے تو ایک دن میری ساس نے کہا۔ دلہن اب تم بھی اس کام میں میرا ہاتھ بٹایا کرو۔ جی اچھا امی جان! میں نے جواب دیا۔ جو کام آپ کہیں گی، میں کر دیا کروں گی۔ اگلے روز جس ہال کمرے میں پیسے ہوئے مسالے کی ڈھیریاں ہوتی تھیں ، وہ مجھے وہاں لے گئیں اور بولیں۔ تم ایسا کرو کہ ان دو قسم کی ڈھیروں کو اتنے تناسب سے ملاتی جائو۔ بس اتنا ہی کام ہے۔ انہوں نے مجھے ناک ڈھانپنے کو خاص قسم کا ڈوریوں والا رومال دیا۔ میں ناک منہ لپیٹ کر مرچوں والی ڈھیری کے پاس بیٹھ گئی اور غور سے ان ڈھیریوں کو دیکھا تو ان میں ایک ڈھیری سرخ مرچوں اور دوسری رنگے ہوئے باریک برادے کی تھی۔ گویا ملاوٹ کا کام ہم گھر کی عورتوں کو کرنا تھا۔ یہی حال ہر مسالے کا تھا، حتیٰ کہ چائے کی پتی گھٹیا قسم کی اعلیٰ کوالٹی کے ڈبوں میں بھر کر زیادہ داموں میں بیچی جاتی تھی۔ چھالیہ گلی سڑی، مضر صحت رنگ میں رنگنے کے علاوہ سکرین کے زہر سے میٹھی کا جاتی۔ میرا سر چکرانے لگا۔ میرا ضمیر گوارہ نہ کرتا تھا کہ ایسے گھٹیا کاموں میں ان لوگوں کا ہاتھ بٹائوں جبکہ سسرال کے کسی ایک فرد کو بھی اس بات کا احساس نہ تھا کہ دولت کمانے کی خاطر وہ جو کام کر رہے ہیں، کس قدر گھٹیا اور اخلاق سے گرا ہوا ہے۔

یقین کریں جب پہلی بار میں نے پسی ہوئی سرخ مرچوں میں برادہ ملایا تو میرے دل میں ٹھیس سی اٹھی۔ دل اور ہاتھ کانپ رہے تھے ، مگر لب خاموش تھے۔ سسرال میں کسے کیا کہتی ، یہ تو سارا کنبہ ہی بگڑا ہوا تھا۔ ان پر میری نصیحت کا کیا اثر ہونا تھا۔ انتظار کرنے لگی کہ شوہر صاحب آئیں تو ان سے کہوں کہ مجھ سے یہ کام نہیں ہو سکتا اور نہ ملاوٹ کے اتنے بڑے جرم میں آپ لوگوں کی شریک بن سکتی ہوں۔ خدا خدا کر کے چھ دن گزر گئے، ساتویں روز زاہد آگئے۔ ان سے کہا۔ آپ کے والد اور بھائی، والدہ اور بہنیں، سب کے سب جس غلط کاروباری رنگ کو اختیار کئے ہوئے ہیں، میں ان کا ساتھ نہیں دے سکتی۔ بظاہر تو آپ شریف کہلاتے ہیں، کوٹھی نما گھر میں رہتے ہیں، مگر ایسی دولت سے کیا فائدہ، جب رزق حلال اس میں شامل نہ ہو۔ ہمارے والد صاحب نے تو ہمیں ہمیشہ رزق حلال کھلایا ہے اور ہر کام ضمیر کی روشنی میں کرنے کی ہدایت کی ہے۔ میں خلاف ضمیر کوئی کام نہیں کروں گی۔ یہ کام کرنا تو کجا، میں گھر میں یہ دھاندلی اپنی آنکھوں کے سامنے برداشت بھی نہیں کر سکتی۔ یہ میری ایک ہفتہ کی گھٹن تھی جو شوہر کے سامنے ان الفاظ میں نکلی۔ میں سمجھ رہی تھی کہ وہ میری باتوں کی صداقت کو تسلیم کر لیں گے۔ بھلا، ملاوٹ کی چیزیں لوگوں کو کھلا کر انہیں بیماریوں میں مبتلا کرنا ایک گھنائونا جرم نہیں تو اور کیا تھا۔ میری باتیں سن کر زاہد نے فرمایا۔ اپنی بکواس بند کرو اور خبردار جو آئندہ ایسی خرافات مجھے سنائیں۔ طلاق دے دوں گا۔
 
 مت پوچھئے ، کتنا دل کو صدمہ پہنچا۔ میرا سراپا ہی سلگ اٹھا۔ رورو کر پاگل ہو گئی۔ اب تو تمام گھر والوں کو میری پریشانی کا علم ہو گیا اور وہ مجھے ایسے دیکھنے لگے ، جیسے پرائی قوم کا جاسوس ان کے قبیلے میں گھس آیا ہو۔ میں سخت پریشان رہنے لگی تھی، لیکن انہیں میری پریشانی سے کوئی واسطہ نہ تھا۔ اب میں اس دن کو کوستی کہ ایسے بے ضمیر لوگوں میں رشتہ ہوا۔ میرے والد بے چارے تو ایک معمولی ٹیچر تھے، اپنی سادگی کی وجہ سے ان لوگوں کو نہ پہچان سکے۔ انہوں نے کتنے دکھ سہ کر مجھ کو ایم اے کرایا تھا۔ سوچتی تھی کہ اسی دن کے لئے، یہ لوگ تو صرف دولت مند ہی نکلے ۔ تعلیم یافتہ بھی نہ تھے کہ کم از کم میری بات سننے کا ہی ان میں حوصلہ ہوتا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ میری ذرا سی بات پر طوفان اٹھا دیتے۔ سچ بات کہتی تو الٹا مجھ پر ہی لعن طعن کرتے کہ کیا بیوقوف لڑکی ہے۔ اپنے ہی گھر کی خوشحالی کی دشمن بنی ہوئی ہے۔ کاش میرے والدین خوشحال گھرانے کی بجائے کسی ایماندار مگر غریب گھر میں بیاہ دیتے۔ میں پڑھی لکھی تھی، ملازمت کر کے اپنے گھر کے حالات سدھار لیتی۔ دل کو سکون تو میسر رہتا۔

اب میں ہر وقت غمزدہ و پریشان رہنے لگی۔ کھانا کھاتی تو کراہت آتی کہ رزق حرام کھارہی ہوں۔ آہستہ آستہ دل کی گھٹن بڑھتی گئی۔ جب پتا ہو کہ قریب ہی کھرے میں کھوٹ ملایا جا رہا ہے۔ جب علم ہو کہ ایسا کچھ غلط ہو رہا ہے جو لاکھوں انسانوں کی صحت کو برباد کرنے کا سبب بن رہا ہے ، اف کتنی روح فرسا بات تھی۔ سوچ سوچ کر ذہنی بیمار پڑتی گئی اور میری آنکھوں کے سامنے ملاوٹ کا کاروبار جاری رہا۔ اب میں نے نماز کی طرف دھیان دیا۔ ہر نماز کے بعد یہی دعا مانگتی که خدایا تو مجھے سکون دے اور ان لوگوں کو سدھار دے اور سیدھی راہ دکھا یا پھر مجھے اس گھرانے سے نجات دلا دے۔ اللہ تعالی نے میری دعا قبول کر لی۔ کارخانے پر چھاپہ پڑ گیا، سسر دھر لیے گئے۔ ایک لاکھ روپیہ دے کر پولیس سے جان چھڑائی۔ ابھی اس واقعہ سے سنبھلے بھی نہ پائے تھے کہ میرے شوہر گرفتار ہو گئے ، ایک دیہاتی عورت کو غلط انجکشن لگادیا، جس باعث وہ جاں بحق ہو گئی اور یہ اس کے قتل کے الزام میں گرفتار کر لئے گئے۔

ڈسپنسری پر پولیس نے قبضہ کر لیا۔ مطب کی تلاش لی تو کئی مضر صحت جعلی دوائیں نکلیں۔ اس کے علاوہ ادویات جو تاریخ گزر جانے کے بعد ضائع کر دینی چاہیں، وہ یہ خرید لیتے اور ان کو استعمال کر کے روپیہ کھرا کر لیتے تھے۔ کئی ڈبے ایسے سرکاری اسپتالوں سے اسمگل شدہ دواؤں کے نکلے ، جو حکومت غریب مریضوں کے لئے مفت مہیا کرتی ہے اور سرکاری اسپتالوں سے ضمیر فروش ملازموں کے ذریعے ایسے ہی عطائی ڈاکٹروں کے پاس فروخت کر دی جاتی ہیں۔ زاہد صاحب جیل سے باہر آئے تو انہوں نے مجھے طلاق کی دھمکیاں دیں۔ گرچہ میں نے ان کو اندر نہ کرایا تھا، قدرت کی طرف سے ان کے ساتھ یہ ہوا کہ جاں بحق ہو جانے والی مریضہ کے لواحقین نے ان کو اندر کرا دیا تھا۔ جب طلاق کی دھمکیاں ملیں تو والد صاحب نے عدالت کے ذریعہ ان بے ضمیر لوگوں سے نجات حاصل کر لی۔ سسر صاحب کے کارخانے بھی بند ہو گئے۔ یہ بھی سب قدرت کی طرف سے ہوا۔ جو لوگ اپنے مفاد کی خاطر غریبوں کا حق مارتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ کبھی قانون کی گرفت میں نہیں آئیں گے ، وہ ضرور ایک دن گھیر لیے جاتے ہیں کیونکہ اللہ کی لاٹھی بے آواز ہے۔
 
 وہ قانون سے بچ بھی جائیں تو کیا کہ اللہ تعالی کے انصاف سے بچ سکتے ہیں؟ میں آج مطلقہ کا داغ لیے ہوں، مگر اس سے میری عزت پر کوئی حرف نہیں آیا۔ ہیں شکرا دا کرتی ہوں کہ خدا نے برے لوگوں سے نجات دی، ورنہ میری اولاد کا کیا حشر ہو گا۔ اب زیادہ آبرو بھری زندگی جی رہی ہوں۔ ایک کالج میں لیکچرار ہو گئی اور اپنے والدین بہن بھائیوں کی خدمت کا موقعہ میرے رب نے مجھے عطا کر دیا۔

sublimegate urdu stories

Urdu stories online, Urdu stories for kids, Short Urdu stories, Urdu Kahaniyan, Famous Urdu stories, Urdu stories with moral, Best Urdu stories collection, Urdu stories for students, Urdu love stories, Urdu horror stories, Urdu stories for reading, Urdu stories in Urdu text, Funny Urdu stories, Urdu stories for beginners, Urdu detective stories, Urdu motivational stories, Urdu stories Urdu font, Urdu moral stories, Urdu stories for children, Urdu true stories, Urdu suspense stories, Urdu emotional stories, Urdu adventure stories,hindi moral stories in urdu,سبق آموز کہانیاں, jin-ki-dushmni,good moral stories in urdu,Moral Stories,Urdu Stories,urdu kahani,اردو کہانی,قسط وار کہانیاں, urdu short stories, emotional urdu stories

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے