چار بہن بھائیوں پر مشتمل ہمارا گھرانہ بہت خوشحال تھا۔ میں گھر میں سب سے بڑی تھی۔ مجھ سے چھوٹی ایک بہن اور پھر دو بھائی تھے۔ یہ اُن دنوں کی بات ہے جب میری عمر بمشکل نو سال ہوگی کہ ہماری خوشیوں کو کسی کی نظر لگ گئی، اور جو کبھی سوچا نہ تھا، وہ ہو گیا۔ماں، جو بچوں کی خاطر بڑے بڑے خطرے مول لیتی ہے، جس کے قدموں تلے جنت ہے، ہماری زندگیوں کو جہنم بنا کر رات کی تاریکی میں جانے کس آشیانے کی تلاش میں، کسی بدقسمت شخص کے ساتھ چلی گئی۔ اس اچانک افتاد پر میرا باپ کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہ رہا۔ میں چونکہ گھر میں بڑی تھی، ابھی ناسمجھی کی عمر تھی، لیکن ایسی بھی ناسمجھ نہ تھی کہ لوگوں کی طنزیہ نگاہوں کو نہ پہچان سکتی۔میرا ڈھائی سال کا چھوٹا بھائی، جس نے ابھی “امی” کہنا سیکھا تھا، ماں کے جانے کے بعد اس لفظ کے معنی ہی کھو بیٹھا، اور وہ معصوم اپنی توتلی زبان میں خالی گھر میں “ماں ماں” پکارتا رہتا۔ اُس سے بڑا بھائی، نگاہوں میں امید لیے صرف اس لیے دروازے کی طرف تکتا رہتا کہ شاید ابھی ماں آجائے۔ مگر اس طرح سے جانے والے لوٹ کر کب آیا کرتے ہیں؟
ابو نے سوچا شاید وہ کہیں کھو گئی ہے یا اغوا ہو گئی ہے، اور جلد واپس آ جائے گی۔ ہر جاننے والے اور رشتہ دار کے گھر جا کر پتا کیا، اسی امید پر کہ معصوم بچے ماں کی شفقت سے محروم نہ رہیں۔ مگر ہر جگہ سے یہی جواب آیا کہ آئی تو ضرور تھی، مگر کچھ رقم اُدھار لے کر چلی گئی۔ایک ماہ اس آس میں گزر گیا۔ اس دوران ہم بہن بھائی ماں کے چچا کے گھر رہنے لگے، اور ہمارا باپ اُسے تلاش کرتا رہا۔ یہ معلوم ہونے کے باوجود کہ وہ اغوا نہیں ہوئی تھی، نہ لاپتہ تھی، بلکہ اپنے کسی آشنا کے ساتھ فرار ہو گئی تھی۔ اُدھر وہ اپنی عیاشیوں میں مگن تھی، اِدھر میرا باپ اُس کی تلاش میں وقت گنوا کر اپنا روزگار بھی کھو بیٹھا۔ اب نوبت فاقوں تک آ گئی تھی۔ماں ہمارے لیے رحمت تھی۔ وہ کیا گئی کہ ہمارا سکون، آرام، رزق، حسرتیں، خواہشیں سب کچھ ساتھ لے گئی۔ جاتے جاتے اپنے تلخ نقوش چھوڑ گئی، جنہیں بھلانا کم از کم میرے بس میں نہ تھا، کیونکہ میرا ذہن شعور کی منزلوں پر قدم رکھ چکا تھا۔
والد کو کچھ نہ سوجھا، تو ہمیں لے کر پھوپھی کے گھر آ گئے۔ اور کچھ دن میں واپسی کا کہہ کر ایسے گئے کہ ایک ماہ تک لوٹے ہی نہیں۔ ایسا لگتا تھا جیسے آسمان اور زمین ہمارے لیے تنگ ہو چکے ہیں۔اس دوران پھوپھی کے گھر کے کام اور اپنے معصوم بہن بھائیوں کی دیکھ بھال میرے لیے، جو محض نو سال کی بچی تھی، ایک سخت آزمائش سے کم نہ تھی۔ پھوپھی کے نازوں میں پلے بچوں کے طعنے اور گالیاں سن کر دل چاہتا کہ زمین مجھے اپنی گود میں ہمیشہ کے لیے چھپا لے۔ مگر پھر چھوٹے بہن بھائیوں کے حیرت زدہ چہرے دیکھ کر آنکھ بھر آتی۔آخرکار مجھ پر خدا کو رحم آ گیا، اور ایک ماہ بعد ابو واپس آ گئے۔ ساتھ یہ خوشخبری بھی لائے کہ ہمارے سر چھپانے کا ایک نیا ٹھکانہ مل گیا ہے۔
اس ایک ماہ میں میرے والد نے محنت کر کے کچھ پیسے کمائے تھے اور اب اپنے بچوں کو واپس لینے آئے تھے۔ ہم جب اپنے نئے کرائے کے مکان میں آئے تو خوش ہو گئے کہ چلو، لوگوں کی طنزیہ باتوں اور ترس بھری نظروں سے تو بچے، مگر یہ سکون بھی زیادہ دیر راس نہ آیا اور والد صاحب کے پاس پیسے ختم ہو گئے۔اسی دوران میرے چھوٹے بھائی کو بخار نے آن لیا۔ میں اکیلی ننھی جان، کیا کرتی! سرہانے بیٹھی روتی رہتی۔ چھوٹے بہن بھائی مجھے روتا دیکھ کر خود بھی رونے لگتے۔ گھر میں کھانے کو کچھ نہ تھا کہ اُسے کچھ کھلا سکتی۔ کھانا تو دور کی بات، والد روزگار کی تلاش میں صبح نکلتے اور شام کو خالی ہاتھ، ناکام و نامراد واپس آ جاتے۔ اپنی بے بسی اور بچے کی بیماری دیکھ کر ان کی آنکھ بھر آتی۔
غرض یہ کہ تین دن تک وہ معصوم بچہ بخار میں تپتا رہا۔ اچانک والد کو یاد آیا کہ ملازمت کے دنوں میں کمپنی کی طرف سے ایک ہیلتھ کارڈ ملا تھا جس پر مفت علاج کی سہولت تھی۔ وہ فوراً اُسے لے کر اسپتال روانہ ہو گئے اور خدا کا شکر کہ اس کی مشکل آسان ہوئی۔یہ پریشانی ختم ہوئی تو تقدیر کو ہمارا سکون پھر بھی راس نہ آیا۔ میرے دوسرے بھائی کے سر میں، جس کا پہلے بھی آپریشن ہو چکا تھا، دوبارہ پیپ پڑ گئی۔ والد سر پکڑ کر بیٹھ گئے۔ معصوم بچے کو اتنی تکلیف میں دیکھ کر خدا سے دعا کی کہ مولا! تو ہی مشکل کشا ہے۔ خدا کو اس پر رحم آیا اور پندرہ دن کی پریشانی کے بعد، صرف ایک سیرپ پینے سے یہ مصیبت بھی جاتی رہی۔
زندگی کے نشیب و فراز میں ابھی بہت سی صعوبتیں باقی تھیں۔ نوکری تھی کہ ملنے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی۔ والد صاحب نے تنگ آکر ایک مزار پر جانا شروع کر دیا۔ وہ سارا دن ہمارے ساتھ رہتے اور رات کو مزار سے لنگر کی روٹی اور چاول جمع کرتے، جن سے ہم اپنی بھوک مٹاتے۔ یہ سلسلہ چار ماہ تک چلتا رہا۔ کبھی کبھی ان کے پاس مزار تک جانے کا کرایہ بھی نہیں ہوتا تھا تو ہم سب گھر والے ایک دوسرے کی شکلیں بدحواسی سے دیکھتے۔ایک ایسے ہی دن ہم اداس بیٹھے تھے کہ مزار پر جانے کا کرایہ بھی نہیں تھا۔ اچانک ہماری پڑوسن، جو ایک بدنام عورت تھی اور نشہ بھی کرتی تھی، دروازے پر آئی۔ اُس نے ابو سے پوچھا، کیا بچوں نے کھانا کھایا ہے؟ پھر بغیر کچھ کہے ایک ہزار روپے کا نوٹ دے کر چلی گئی۔ اُس برے وقت میں وہ عورت کسی فرشتے سے کم نہ تھی۔ ہم معصوموں کے دل سے اُس کے لیے دعائیں نکلیں۔
ان تمام حالات سے تنگ آ کر ابو نے دونوں بھائیوں کو، جو مشکل سے تین اور چار سال کے تھے، یتیم خانے میں داخل کروا دیا۔ چھوٹی بہن چھ سال کی تھی، اُسے میری پھپھو کی بہو کے خاندان کی ایک عورت نے رکھ لیا۔ اب مجھ بدنصیب کو زمانے کی ٹھوکریں سہنا تھیں۔ابو کو ایک کوٹھی میں بطور چوکیدار ملازمت مل گئی تو وہ مجھے بھی ساتھ لے جانے لگے۔ وہ سارا دن چوکیداری کرتے اور میں کوٹھی میں کام کرتی۔ اکثر برتن مانجھتے ہوئے آنکھوں میں آنسو آ جاتے کہ جن بدنصیبوں کی مائیں انہیں زمانے کی ٹھوکروں میں چھوڑ جاتی ہیں، ان کے ساتھ ایسا ہی ہوتا ہے۔زندگی اسی طرح گزرتی رہی۔ چھوٹے بہن بھائی یاد آتے تو دل خون کے آنسو روتا۔ ایک دن ایک فرشتہ صفت انسان ابو سے ملا۔ اُس نے کہانی سن کر کہا، بچوں کو یوں الگ رکھنے سے بہتر ہے کہ چاروں بچے ایک ہی جگہ رہیں، اس لیے تم بچوں کو ایس او ایس ولیج میں داخل کروا دو۔
اب وہاں داخلے کے لیے ابو نے بھاگ دوڑ شروع کر دی۔ بڑی کوشش کے بعد آخرکار ہم چاروں بہن بھائی ایک چھت تلے جمع ہو گئے۔ وہ دن ہمارے لیے کسی عید سے کم نہ تھا۔ لیکن یہ دل کیسا تھا جو خوشی میں بھی آنسو بہا رہا تھا؟ شاید وہ مہربان باپ سے جدائی کے آنسو تھے، جس نے ایک ماں کی طرح ہماری پرورش کی، اور اپنی مجبوری کی وجہ سے ہمیں خود سے جدا کیا۔ اُس باپ پر کیا بیتی ہو گی، یہ صرف وہی جانتا ہو گا۔
ہم وہاں سکون میں تھے، مگر جب بھی کھانے کے وقت دستر خوان پر بیٹھتے، تو ہاتھ رک جاتے کہ نہ جانے ابو نے کھانا کھایا بھی ہے یا نہیں؟ ہمیں وہ فاقوں کے دن عزیز لگنے لگے، کیونکہ اُن دنوں ہمارا باپ ہمارے ساتھ ہوتا تھا۔ لگتا تھا کہ واقعی ہمارا بھی اس دنیا میں کوئی ہے۔پھر وقت نے ایک اور پلٹا کھایا اور ہمیں دوسرے شہر منتقل کر دیا گیا۔ میں بہت رویا کرتی تھی۔ چھوٹے بہن بھائی بچپن سے ہی ٹھوکریں کھانے کے عادی تھے۔ وہ سمجھتے تھے کہ شاید یہی زندگی ہے: کبھی یہاں، کبھی وہاں، کبھی بھوک، کبھی تنگی، کبھی افلاس۔ایک ماہ بعد ہمارا باپ ہم سے ملنے آیا۔ چھوٹے بہن بھائی دیر سے آنے کی وجہ پوچھ رہے تھے، مگر صرف میں جانتی تھی کہ میرا باپ وہاں تک کا کرایہ کس طرح جمع کر کے پہنچا ہو گا۔
ہم باپ سے گلے مل کر بہت خوش ہوئے اور دیر تک روتے رہے۔ والد نے تسلیاں دیں کہ بے فکر رہو، سب ٹھیک ہو جائے گا۔ ہم سب روتے روتے چپ ہو گئے اور دعاؤں میں لگ گئے۔ یہاں ہم بہن بھائی دوبارہ اسکول جانے لگے اور وقت پر لگا کر گزرنے لگا۔تین سال بعد، گرمیوں کی چھٹیوں میں پہلی بار والد ہمیں گھر لے کر آئے، تو میری آنکھیں دھندلا گئیں۔ گھر میں ایک عورت کھانا پکا رہی تھی۔ پوچھنے پر معلوم ہوا کہ یہ ہماری دوسری ماں ہے۔جس باپ کے لیے ہم نے دعائیں کیں کہ اللہ اُسے اتنے پیسے دے کہ وہ ہمیں گھر واپس لے آئے، جب اللہ نے اُسے وسائل دیے تو اس نے ہمیں گھر لانے کے بجائے اپنا نیا ساتھی تلاش کر لیا۔ وجہ یہ تھی کہ ابو کو سنبھالنے والا کوئی نہ تھا۔ نہ کوئی جو ان کی دیکھ بھال کرے، نہ کھانا بنائے۔ بہن بھائی سب اپنی گھریلو زندگی میں مگن تھے، لہٰذا پھپھو نے ان کی دوسری شادی کروا دی۔
اب ابو نوکری بھی کرتے، گھر بھی سنبھالتے اور ہمیں ملنے بھی آتے۔ عید پر ہمارے لیے کپڑے اور چیزیں لاتے۔ جس گھر سے بچھڑے تھے، اس کی یادیں ستاتی تھیں۔ دل میں ایک ہی خواہش تھی کہ کاش ہم بھی باپ کے ساتھ رہ سکتے، لیکن ایسا ممکن نہ ہو سکا۔ کیونکہ بچوں کی خوراک، تعلیم اور کپڑوں کا خرچ دو افراد کے خرچ سے کہیں زیادہ تھا، اور ان کی آمدنی محدود تھی۔ہماری نئی ماں بہت اچھی تھیں۔ خیال رکھنے والی، نرم مزاج اور محبت کرنے والی، مگر مجبوریاں ہر جگہ انسان کو گھیرے رکھتی ہیں۔ ان کی بھی کچھ مجبوریاں تھیں۔میرا ذہن ان حالات میں بالکل کام کرنا چھوڑ چکا تھا۔ میں اپنے باپ کی جدائی میں کڑھتی رہتی تھی۔ اس غم نے مجھے ذہنی طور پر مفلوج سا کر دیا۔ پانچویں جماعت میں تین سال لگانے کے بعد مجھے واپس گھر بھیج دیا گیا۔
میں بہت خوش تھی۔ امی اور ابو بہت خیال رکھتے تھے، مگر ناسمجھی کی عمر میں یہ بھول گئی کہ بد نصیبی ہمیشہ سے میرے تعاقب میں ہے۔ میں شروع سے ہی حساس تھی۔ ذرا سی بات دل سے لگا لیتی، سمجھدار ضرور تھی مگر وقت کے ساتھ ضدی اور چڑچڑی بھی ہو گئی تھی۔باپ کی محبت کا بٹوارہ مجھ سے برداشت نہ ہوا۔ اگر ابو تھوڑی توجہ دیتے، تو ان کی جیون ساتھی ناراض ہو جاتی۔ اگر وہ مجھے چھوڑ کر ماں کے پاس بیٹھتے، تو میرا دل رونے لگتا۔ یہی بات ماں اور میرے درمیان اختلاف کا باعث بنی، اور وہ مجھ سے بدظن ہو گئیں
آخرکار باپ نے ماں کی خواہش کا احترام کرتے ہوئے روز روز کے جھگڑوں سے تنگ آ کر مجھے غصے میں آ کر پھپھو کے گھر چھوڑ دیا۔ وہاں مجھے بظاہر سکون ملا، مگر میرا ضمیر گواہی نہیں دیتا تھا کہ اپنے باپ اور اپنے گھر کے ہوتے ہوئے رشتہ داروں کے در پر پڑی رہوں۔لوگ بھی مختلف قسم کی باتیں کرنے لگے کہ دوسری شادی کر کے اپنی بیٹی کو دوسروں کے گھر چھوڑ دیا ہے۔
آخر ان تمام باتوں کو سوچ کر میں نے ایک بار پھر ایس او ایس کا سہارا لیا اور یہاں “مدر” بن گئی۔ سولہ سال کی ایک ننھی، بن بیاہی مدر، جو اپنے جیسے بے سہارا بچوں کو بڑی بہن اور ماں جیسی شفقت دیتی ہے۔ ان کا کام کر کے دل کو سکون ملتا ہے۔ میں سوچتی ہوں کہ شاید ان بے سہاروں کے کام آؤں، تو قسمت بھی مجھ پر مہربان ہو جائے۔اب میں یہاں ہر طرح کے سکون میں ہوں۔ کھانے پینے، رہائش اور کپڑوں کا کوئی مسئلہ نہیں۔ کوئی ایسا جھگڑا نہیں جو میرے سکون کو برباد کرے۔ روپے پیسے کی کوئی محتاجی نہیں۔ لیکن دل کے کسی کونے میں ایک پریشانی چھپی ہوئی ہے۔ ایک ایسا گھر ہو، جو صرف میرا اپنا ہو، جہاں سے کوئی مجھے نکال نہ سکے۔ کبھی تو میں اپنوں کی چھاؤں میں سکھ کا سانس لے سکوں۔
مجھے اپنے باپ سے جتنا پیار ہے، اتنی ہی اپنی ماں سے نفرت ہے، جس نے ہمیں دربدر کیا، ہمارا گھر چھینا، سکون چھینا، جدائیاں دیں اور چھوٹی چھوٹی عمروں میں ہمیں کڑی آزمائشوں میں ڈال دیا۔آپ سب دعا کریں کہ خدا مجھے سچی خوشیاں دے۔ جن غموں سے میرا دامن بھرا ہے، اتنے ہی خوشیوں کے پھول بھی میرے نصیب میں کھلیں۔
(ختم شد)