سوتیلی ماں کا انجام

Sublimegate Urdu Stories

یہ اس وقت کی بات ہے جب میں چوتھی جماعت میں پڑھتی تھی۔ ہم دو بہن بھائی تھے آپس میں بڑی محبت کرتے تھے۔ میرا نام فرح اور بھائی کا نام انور تھا۔ ہمارا بچپن پیاری ماں کی زیر سایہ بہت سکون اور آرام سے گزر رہا تھا۔ خوشیوں بھرے دن تھے۔ ممتا کے گلاب ہمارے اطراف کھلتے رہتے تھے۔ اچانک امی بیمار ہو گئی اور دو ماہ بعد اس دنیا سے چل بسیں۔ وہ ہم دونوں بچوں سے بہت پیار کرتی تھیں۔ ہمارے والد بھی ہم سے بہت پیار کرتے تھے۔

 تقریبا دو سال ایسے ہی گزر گئے۔ آخر والد صاحب نے دوسری شادی کر لی۔ ہم نادان تھے اس دن بہت خوش ہوئے کہ نئی امی آگئی۔ ایک سجی سنوری دلہن بچوں کو کتنی دلکش لگتی ہے۔ ہمارے دلوں کو بھی یہ سجی ہوئی ماں بڑی پیاری لگی اور ہم دونوں تتلیوں کی طرح ان کے گرد منڈلانے لگے۔ والد صاحب نے انہیں سمجھا دیا تھا کہ بچے چھوٹے اور معصوم ہیں ان کو ماں کا پیار دینا ہوگا۔ لہذا نئی ماں ہم کو پیار کرتی تھی۔ وقت گزرتا گی۔ا ہمارا ایک بھائی اور آگیا ۔ قدرتی امر ہے کہ ماں کی زیادہ توجہ اپنے لخت جگر کی جانب رہنے لگی۔ رفتہ رفتہ ان کا رویہ تبدیل ہوتا گیا۔ وہ ہمارے لیے اجنبی بن گئیں۔ ہم دونوں بہن بھائی بہت پریشان رہنے لگے۔ وقت گزرتا رہا امی کے دو بیٹے اور آگئے۔ ان کی سگی تین اولادیں ہو گئیں۔ گھر ان کی چہکاروں سے بھر گیا۔ ان کو ہماری ضرورت نہ رہی۔ لیکن ہم کو والدین اور گھر کی ضرورت تھی بھلا اور کہاں جاتے۔ ماں کے سارے ستم سہ کر بھی ان کے ساتھ رہنے پر مجبور تھے۔ میں بڑی ہو گئی اور سمجھدار تھی۔ گھر کا تمام کام کاج ماں نے مجھ پر ڈال دیا تھا۔ سارا دن میں کام کرتی اور جو وقت بچتا تو ماں کہتی کہ میرے بچوں کے ساتھ کھیلو۔ وہ لڑکے بہت شریر تھے۔ 

کھیل کھیل میں مجھے مارتے تھے۔ یہاں تک کہ کبھی ڈنڈا اٹھا کر میرے سر میں بھی مار دیتے۔ کبھی گیند مار دیتے اور کبھی بلے سے ضرب لگاتے۔ میں درد سے بلبلا اٹھتی۔ مجھے پڑھائی کی تو فرصت نہ ملتی تھی ماں ایک منٹ فارغ نہ بیٹھنے دیتی تھی۔ ماں نے میرے ساتھ ایسا رویہ روا رکھا کہ جو گھر آتا نوکرانی سمجھتا۔ تینوں سوتیلے بھائی ہر وقت حکم چلاتے۔ وہ مجھے سچ مچ خادمہ ہی جانتے تھے۔ بات بات پر لاتیں ٹھڈے مارتے تھے۔ یہ منظر دیکھ کر میرا بھائی انور اندر اندر کڑھتا اور جلتا تھا۔ ان دنوں وہ نویں جماعت کا طالب علم تھا۔ جبکہ میں سکول سے اٹھا لی گئی تھی انور کو سخت اذیت ہوئی۔ جب امی مجھے ذرا ذرا سی بات پر مارتی اور میں سسکتے ہوئے چپ چاپ مار کھاتی رہتی۔ میں ہر وقت سہمی سہمی رہتی تھی۔ ایک دن تو ہمارے گھر میں قیامت ہی برپا ہو گئی۔

اس دن جب انور سکول سے گھر پہنچا تو میں بیٹھی رو رہی تھی اور چھوٹے بھائی مل کر مجھ کو مار رہے تھے۔ انور سے یہ منظر دیکھا نہ گیا۔ پہلے تو اس نے منع کیا لیکن وہ بولے تمہیں کیا یہ ہماری نوکرانی ہے۔ ہم اس کو ماریں گے۔ امی نے ابھی اپنے بیٹوں ہی کی طرفداری کی۔ تبھی انور کو غصہ آگیا۔ سامنے ڈنڈا پڑا ہوا تھا۔ جس سے سوتیلے بھائی مجھے مارا کرتے تھے۔ انور نے وہ ڈنڈا اٹھا لیا اور امی کو خوب مارا۔ یہ چھوٹے بھائی درمیان میں آئے۔ تو ان کو بھی مارا۔ تبھی ماں شور مچاتی محلے والوں کے پاس چلی گئی۔ شام کو ابو دکان سے لوٹے۔ ماں نے رو رو کر برا حال کر لیا کہ میں نہ کہتی تھی کہ اس بدمعاش کو گھر میں نہ رکھو۔ آج اس نے یہ حرکت کی ہے تو کل کچھ اور بھی کر سکتا ہے۔ ابا امی کی باتوں پر اس طرح یقین کر لیتے تھے۔ جیسے ان پر کسی نے جادو کر دیا ہو۔ وہ ماں کے اکسانے پر انور کو کمرے سے باہر نکال لائے اور روتی ہوئی بیوی کو خوش کرنے کے لیے اس قدر مارا کہ میرا بھائی بے ہوش ہو گیا۔ میں بہن تھی اپنے بھائی کو اس طرح پیٹتے ہوئے نہیں دیکھ سکتی تھی ۔ابو کے پاؤں پڑ گئی۔ التجا کی کہ ابو جی اسے نہ ماریں بس کریں ورنہ میں مر جاؤں گی۔

والد صاحب پر جیسے جنون سوار ہو چکا تھا۔ میری ایک نہ سنی اور دھکا دے کر بولے تم بھی دفع ہو جاؤ۔ اب انور جیسے بد قماش بیٹے کے لیے میرے گھر میں کوئی جگہ نہیں ہے۔ میں نے انور کے منہ پر پانی کے چھینٹے مارے اور کہا اٹھو میرے پیارے بھائی اٹھو۔ انور کو ہوش آگیا تو باپ بیٹے کو دھکے دینے لگا۔ وہ ان کے پیر پکڑے کہہ رہا تھا کہ خدا کے لیے مجھے گھر سے نہ نکالیں۔ چاہے جتنا ماریں۔ میں کہاں جاؤں گا ؟ مجھے میری بہن سے جدا نہ کریں۔ والد نے ایک نہ سنی بیٹے کو گھر سے باہر نکال کر دروازے کی کنڈی لگا لی کہ اس کا اب اس گھر میں داخلہ بند ہو گیا ہے۔ خالہ کلثوم ہمارے ساتھ والے گھر میں رہتی تھی۔ وہ ہم لوگوں کے دکھ سمجھتی تھیں کیونکہ وہ سگی امی کی بہت اچھی سہیلی تھی۔ جب سے امی کا انتقال ہوا تھا انہوں نے ہمارے گھر آنا جانا بند کر دیا تھا۔ ان کی تین بیٹیاں اور ایک بیٹا تھا ان کو پتہ چلا تو انور سے کہا کہ تم ہمارے ساتھ رہو۔ تمہیں کہیں جانے کی ضرورت نہیں ہے۔ بھائی دروازے کے باہر کھڑا روتا رہا۔ وہ اس کو بازو سے پکڑ کر گھر میں لے گئی۔ اس وقت تو انور خالہ کلثوم کے گھر چلا گیا مگر یہ اس کا مستقل ٹھکانہ نہیں تھا۔ وہ ایک ہفتہ بمشکل ان کے گھر رہا۔

 ایک روز دوپہر کو جب سب سوئے ہوئے تھے انور نے اپنے کپڑے اٹھائے اور انجانے راستے پر چلا گیا۔ میرے پاس صرف 50 روپے تھے میں نے اس کے کپڑے کے بیگ میں ڈال کر خالہ کی بیٹی کو بیگ دے دیا تھا۔ مجھے یہ بھی پتہ نہ تھا کہ کس نیت سے انور نے کپڑے منگوائے ہیں۔ انور بس میں سوار ہو گیا اور انجانی منزل کی جانب چلا گیا۔ پشاور میں ایک ہفتہ مارا مارا پھرا اور کہیں نوکری نہ ملی ایک ہوٹل پر برتن دھوتا کھانا دے دیتے تھے۔ اچانک قدرت اس پر مہربان ہو گئی ہوٹل پر ایک شخص کھانا کھانے آیا۔ وہ صورت سے اچھا معلوم ہوا تو میرے بھائی نے اسے کہا کہ مجھے نوکری چاہیے۔ پہلے تو اس نے بات سنی ان سنی کر دی اور آگے بڑھ گیا مگر انور نے پیچھا نہ چھوڑا۔

اس کے ساتھ چلتا رہا اخر وہ بھی تنگ آگیا اور سوال کیا تو کہاں سے آیا ہے۔ انور نے اس کو اپنا پتہ بتا دیا۔ اس شخص کو کافی سامان لے کر دوسرے شہر جانا تھا اس نے ساری داستان سن کر کہا تمہاری کوئی ضمانت دے تو رکھ لوں گا۔ اس شہر میں میری ضمانت کون دے گا؟  شہر میں اپنے محلے والوں کا پتہ دے سکتا ہوں ان سے میرے بارے میں پوچھ لیں۔ اس بات پر خان صاحب مطمئن ہو گیا اور اپنے پاس ملازم رکھ لیا۔ انور کو ٹرک چلانے کی ٹریننگ دی اور وہ ٹرک چلانے لگا۔ انور مالک کو خان چاچا کہتا تھا۔ نو ماہ بعد میرے بھائی نے پڑوس میں فون کر کے مجھے بتایا اور تسلی دی کہ پریشان مت ہو میں یہاں خان چاچا کے پاس کام کر رہا ہوں۔ کچھ کما لوں گا تو آ جاؤں گا۔ میں جو دن رات بھائی کے لیے تڑپ رہی تھی اس کا فون آیا تو تسلی ہو گئی۔ ایک بار خان کے ساتھ سامان لے کر دوسرے شہر جانا تھا۔ یہ شہر ہمارے شہر سے کچھ آگے تھا۔ انور نے خان چاچا کو بتایا کہ ہم اپنے شہر سے گزریں گے وہ کہنے لگا ٹھیک ہے سامان پہنچا کر واپسی پر تمہارے شہر چلیں گے۔ واپسی پر خان کے ساتھ انور آگیا۔ لیکن وہ گھر نہیں آیا بلکہ خان کو اپنے ہمراہ کلثوم خالہ کے گھر لے گیا۔ جب خالہ نے اسے دیکھا دوڑ کر گلے لگا لیا اور خوب روئیں ان کی بیٹیاں اور بیٹا بھی انور کو اچانک سامنے پا کر بہت خوش ہوئے۔ وہ سمجھ رہے تھے کہ انور کسی حادثے کا شکار ہو گیا ہے۔ ان کو تمام روداد سنا کر انور نے خان چاچا کا تعارف کروایا کہ اس مہربان انسان کی وجہ سے آج میں زندہ لوٹ کر آیا ہوں ورنہ شاید فاقوں کی وجہ سے مر چکا ہوتا۔ اب خان کو اصل حالات پتہ چلا بڑا غصہ آیا کہ ماں باپ ایسے بھی ہوتے ہیں۔

انور نے خانہ کو کچھ چیزیں دیں کہ میری بہن کو بھجوا دیں۔ خالہ آئیں اور بولیں کہ تیرا بھائی آیا ہے دو گھڑی آجا اور اس سے مل لے۔ ماں نے سنا تو آگ بگولا ہو گئیں خالہ پر بھی برہم ہو گئیں کہ یہ کہیں نہ جائے گی۔ اگر اس نے قدم باہر نکالا تو واپس گھر آنے نہ دوں گی۔ خالہ نے فراست سے کام لیا۔ نرمی سے امی کی منت سماجت کی کہ تم اولاد والی ہو۔ ایسا نہ کرو۔ اس کو بھائی سے ملنے دو۔ بالاخر بڑی مشکل سے اجازت دی اور میں کلثوم خالہ کے گھر آکر بھائی سے ملی۔ بھائی کی صحت ٹھیک تھی مگر میں تو ہڈیوں کا ڈھانچہ بنی ہوئی تھی۔ انور کو دیکھا تو دوڑ کر گلے لگ گئی۔ اتنے عرصے بعد ہم ملے آنسو رکنے کا نام نہیں لے رہے تھے۔ اس وقت لگتا تھا جیسے کائنات کی ہر شے ہماری بد نصیبی پر آنسو بہا رہی ہو۔ اس وقت ذہن میں ایک ہی سوال تھا۔ آج اگر ہماری ماں زندہ ہوتی تو کیا ہمارا ایسا حال ہوتا؟ دنیا میں سوتیلی ماؤں کی ہزار داستانیں پڑھی اور سنی تھیں۔ واقعی سوتیلی ماں اگر بری ہو تو وہ قیامت ہوتی ہ۔ے تھوڑی دیر ہم نے باتیں کی پھر بھائی جانے لگ۔ا میرے سر پر ہاتھ رکھا اور صبر کی تلقین کی۔ پھر وہ خان صاحب کے ساتھ چلا گیا۔ اور میں کافی دن اس کو یاد کر کے چھپ کر آنسو بہاتی رہی۔
 واپسی پر خان چاچا نے کہا کہ انور تم ٹرک چلانا۔ انور نے جواب دیا بہن کی حالت خستہ پا کر میرے حواس ٹھیک نہیں۔ مالک نے تسلی دی کہ مرد بنو۔ زندگی میں دکھ سکھ آتے رہتے ہیں۔ اپنے حواس مجتمع کرو۔ اس کے بعد خان چاچا کے دل میں میرے بھائی کے لیے اچھی جگہ بن گئی۔ وہ بیٹوں کی طرح اس کو چاہنے لگا اور اپنے گھر لے گیا جہاں اپنی بیٹھک رہنے کو عطا کر دی۔ شروع میں ان کے گھر انور کا دل نہ لگا۔ مگر یہ شریف لوگ تھے۔ خان چاچا کی بیوی بچوں کی طرح میرے بھائی کا خیال رکھتی۔ یہ لوگ انور کی دیانت اور شرافت کی وجہ سے خوش تھے کسی دور اس کو کھونا یا خود سے جدا کرنا نہیں چاہتے تھے۔ خان صاحب کے پاس یوں تو کافی دولت اور زمین تھی مگر اس کی ایک قبیلے سے دشمنی چل رہی تھی خان نے اپنا ٹرک بھائی کے حوالے کر دیا کہ تم چلاؤ اور کمائی جمع کرو۔ تاکہ میں عزت سے تمہاری شادی کر سکوں۔ وہ انور سے بہت خوش تھا اور اس کی بھلائی کے لیے سوچتا تھا۔

 چار برس بعد انور کو میری یاد ستانے لگی۔ ایک روز اکیلا ہی آگیا۔ خالہ کلثوم کے دروازے پر دستک دی۔ ان کی بیٹی انور کو دیکھ کر بہت خوش ہوئی۔ عزت سے گھر کے اندر لائی اور جب انور نے خالہ کے بارے میں پوچھا تو رونے لگی کیونکہ کلثوم خالہ کو فوت ہوئے ایک سال ہو چکا تھا۔ انور نے مجھ سے ملنے کی کوشش کی مگر ماں نے کلثوم کے گھر جانے کی اجازت نہ دی۔ وہ بغیر ملے ہی چلا گیا۔ میں اپنے دروازے کی درز سے اس کو جاتے ہوئے دیکھتی رہ گئی۔ آنسو میرے گالوں پر بارش کے قطروں کی طرح گرتے جا رہے تھے۔ خان چاچا کو بتایا کہ ظالم ماں نے مجھ سے بہن کو ملنے نہیں دیا تو اس کو بھی دکھ ہوا۔ اس نے سوچ کر اپنی بیٹی کی شادی میرے بھائی سے کر دی۔ ادھر ابو نے میری بھی شادی کر دی۔ یہ میری سوتیلی ماں کی ایما پر ہوئی تھی۔ ان کے خالہ زاد بھائی کے ساتھ جو نشہ کرتا تھا اور کماتا نہ تھا تاہم مجھے گزارا کرنا تھا۔ کدھر جاتی؟ اب میرا خرچہ ابو دیتے تھے۔ کسی کو میرے حالات نہیں بتاتے تھے۔ اور کس کے ساتھ بیاہی ہے۔ شادی کے بعد انور دوبارہ مجھ سے ملنے آیا۔ لیکن میں کہاں تھی جب پتہ چلا کہ میری شادی ہو گئی ہے تو وہ ابو کی دکان پر گیا۔ تاکہ پوچھے کہ آپ نے کہاں فرح کی شادی کی ہے؟
 بھائی مجھ سے ملنا چاہتا تھا۔ ابو اسے راستے میں مل گئے۔ بھائی نے باپ کو سلام کیا تو انہوں نے جواب نہ دیا۔ انور والد صاحب سے بات کرنا چاہتا تھا۔ ابو نے بات نہ کی۔ تب بھائی نے باپ کا ہاتھ پکڑ لیا۔ پوچھا کہ بتائیے آپ نے میری بہن کی شادی کسے کی ہے؟ اور فراح کہاں رہتی ہے؟ مجھے ان سوالوں کا جواب چاہیے۔ والد بھی دھن کے پکے تھے۔ منہ سے ایک لفظ نہ پھوٹے۔ مایوس ہو کر انور بوجھل قدموں سے لوٹ گیا۔ اور یوں باپ، بہن، بھائی تینوں بچھڑ گئے۔ شادی ہوئے چھ برس کا عرصہ گزر گیا بھائی کا کچھ پتہ نہ تھ۔ا میں تین بچوں کی ماں بن گئی۔ ادھر بھائی کو بھی اللہ نے دو لڑکے عنایت کیے اور وہ پشاور چھوڑ کر پنڈی آگیا۔ کیونکہ خان کے دشمن دھمکاتے تھے۔ خان چاچا بھی ساتھ آگیا۔ اس نے پنڈی میں مکان خرید لیا اور بھائی کو بس لے کر دے دی۔ پھر ویگن لے لی۔ یوں کاروبار بڑھتا گیا اور وقت گزرتا رہا ۔میرے خاوند کا نشہ بڑھتا رہا۔ یہاں تک کہ نشے کی لت نے اس کو بستر پر گرا دیا۔ ایک دن وہ اسی حالت میں انتقال کر گیا۔

غریب تو میں پہلے ہی تھی۔ بیوہ بھی ہو گئی۔ والد جو مالی مدد کرتے وہ تین بچوں کے لیے کافی نہ تھی۔ مجبورا بڑے بیٹے کو ایک ورک شاپ میں ملازم کرا دیا۔ وہ کم سن تھا۔ استاد کی سختیاں اور جھڑکیاں نہ سہ سکا۔ تبھی ایک دن ورک شاپ سے بھاگ کھڑا ہوا ۔رات کا وقت تھا ۔ڈر سے بڑا بیٹا گھر نہیں آرہا تھا۔ بارش شروع ہو گئی۔ وہ سڑک کے کنارے کھڑا بھیگ رہا تھا ۔ایک ویگن اس کے قریب سے گزرنے لگے اور لڑکا تیزی سے سڑک پار کر کے ویگن کے سامنے آگیا۔ ڈرائیور نے کمال پھرتی سے ویگن روک لی۔ مگر وہ چکرا گیا۔ کہ ایک لمحے کی تاخیر سے بچہ ویگن تلے آ جاتا۔ نیچے اترا اور لڑکے کو اٹھایا۔ نام پوچھا اس نے کہا میرا نام انور ہے وہ رو رہا تھا۔ تب ویگن ڈرائیور اسے قریبی ہوٹل میں لے گیا۔ باتوں باتوں میں لڑکے نے اپنی ماں اور نانا کا نام بتایا تو ویگن ڈرائیور نے پوچھا کہ تمہارا نام انور کس نے رکھا ہے؟ میری ماں نے اس نے جواب دیا۔ کیونکہ میرے مامو کا نام بھی انور ہے اور وہ میری ماں سے جدا ہو گیا ہے۔ امی اس کی یاد میں دن رات روتی ہیں اور ان سے ملنے کی دعا کرتی رہتی ہیں۔ میری ماں مامو انور کی دی ہوئی چیزوں کو دیکھ کر زندہ ہے۔ ہماری اس سوتیلی نانی نے ماں اور مامو کو جدا کر دیا ہے۔
یہ سن کر انور کی آنکھوں سے آنسو نکل پڑے۔ کیونکہ وہ ویگن ڈرائیور میرا بھائی ہی تھا۔ جس کی گاڑی کے سامنے میرا بیٹا انور آگیا تھا۔ یوں اپنے بھانجے کی وجہ سے میرا بچھڑا ہوا بھائی مجھ سے آ ملا۔ اسے اتنے عرصے بعد دیکھ کر میں روتی ہوئی گلے لگ گئی۔ یقین نہیں آ رہا تھا کہ میرا بیٹا اپنے مامو کو گھر لایا ہے۔ دل کو سکون آ رہا تھا۔ مگر انسو رکتے ہی نہ تھے۔ کچھ دن بعد انور مجھے اور میرے بچوں کو اپنے ساتھ پنڈی لے گیا اور ہم کو گھر لے کر دیا۔ کچھ دن بعد پتہ چلا کہ ابو بیمار ہیں۔ میں نے پڑوس میں خالہ کلثوم کی بیٹی کو فون کیا تھ۔ا وہ سمجھانے لگی کہ تم لوگ واپس آ جاؤ کیونکہ تمہارے والد کی بیماری سے تمہاری ماں اور اس کے بچے کافی پریشان رہتے ہیں۔ ان کے حالات اب ٹھیک نہیں رہے۔ دکان بھی بند پڑی ہے۔ لڑکیوں کا دل نرم ہوتا ہے میں نے بھائی کو منا لیا کہ چل کر ابو کو دیکھ آتے ہیں جب بھائی اور میں وہاں گئے۔ امی بہت شرمندہ تھیں اور والد واقعی قریب المرگ تھے ان کے گھر میں کھانا بھی موجود نہ تھا۔ ہم پر جو بیتی مگر ایسے وقت دل نے گوارا نہ کیا کہ اپنے باپ کو چھوڑ آئیں لہذا ہم لوگ ایک ماہ وہاں رہے اور جب والد صحت یاب ہو گئے تو بھائی ان کو بھی ساتھ لے آئے۔

 اپنے گھر کے قریب انہیں مکان لے دیا تاکہ میں اور بھیا دونوں والد اور ان کے بچوں کی دیکھ بھال کر سکیں۔ وقت گزرتا گیا ۔والد صاحب بوڑھے ہو گئے اور آخر ایک دن اللہ کو پیارے ہو گئے۔ انور بھائی کی رگوں میں شرافت کا خون تھا انہوں نے گوارا نہ کیا کہ سوتیلی ماں اور ان کے بچوں کو بے آسرا کریں۔ انہوں نے چھوٹے بھائیوں کو روزگار مہیا کیا اور میرے لڑکوں کو بھی کہیں ڈرائیور کہیں کنڈکٹر لگوا دیا۔ تاکہ ہمارے گھر کا خرچہ چلتا رہے۔ میرے بچے بھی نہ پڑھ سکے اور میرے سوتیلے بھائی بھی میٹرک سے آگے نہ پڑھے۔ البتہ بھائی کے بچے اچھے سکول میں پڑھ کے زندگی کی دوڑ میں آگے نکل گئے۔
 آج میں ایک خوشحال زندگی بسر کر رہی ہوں تو اپنے بھائی کی وجہ سے۔ خدا ایسے نیک دل اور پیار کرنے والے بھائی ہر کسی کو دے۔ جس نے ہزار مشکلات سہ کر بھی بہن اور اپنے باپ کی اولاد کو نہ بھلایا۔ آج ہم جو کچھ ہیں انور بھائی کی وجہ سے ہیں۔ دن رات اپنے پیارے ماں جائے کی سلامتی اور ترقی روزگار کے لیے دعا کرتی ہوں۔