پولیس والا شوہر

urdu font stories online

ہمارا گھر داتا دربار کی سامنے والی گلی میں تھا ۔ جن دنوں ابا کا ہاتھ مشین میں آکر کٹ گیا اور وہ معذور ہوکر گھر بیٹھ گئے تو بڑی پریشانی رہنے لگی گھر کا واحد کفیل کمانے لائق نہ رہے، تو مفلسی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ہم چھ بہن بھائی تھے اور ماں ایک گھریلو عورت جب فاقے پڑے تو انہوں نے محنت مزدوری کے لئے کوئی کام تلاش کرنے کی کوشش کی، لیکن جب مزدوری نہ ملی تو پیٹ کی آگ بجھانے کے لئے وہ مزار سے لنگر کا کھانا لانے لگیں۔

 ایک دن وہاں صفائی کرنے والے آدمی نے میری ماں کو مجبور دیکھ کر کہا کہ تم دربار کی صفائی کا ہی کام پکڑ لو ان دنوں صفائی کرنے والوں کو ، دربار پر آنے والے لوگ کچھ نہ کچھ نذرانہ دے جاتے تھے ۔ اس طرح شام تک اتنے روپے بن جاتے کہ اچھا گزارہ ہو جاتا تھا۔

جب امی صفائی کرتیں تو ہم دربار میں آئے دوسرے بچوں کے ساتھ کھیلا کرتے اور ہمیں کھانا بھی لنگر سے ملتا۔ یہ بچپن کا سنہرا زمانہ تھا – احساس تک نہ تھا کہ ہم غریب ہیں یا گھر میں آسائش کا سامان نہیں ہے یا ہم لنگر کا کھاتے ہیں۔ ہماری خوشیاں تو بس کھیل کود تک محدود تھیں۔ یہ عالم تھا کہ ایک روز جب تیز بارش ہوئی تو ہمارے مکان کی چھت گر گئی۔ ماں رونے لگیں اور میں ہنس رہی تھی۔ سوچ رہی تھی کہ اچھا ہوا، اس ٹوٹے پھوٹے گھر کی چهت گر گئی۔ اس طرح ہم نئے گھر میں چلے جائیں گے۔ یہ خبر نہیں تھی کہ نئے گھر ایسے ہی نہیں مل جاتے۔

 بہر حال ابا کے ایک دوست نے ہمیں پڑوس میں گھر لے دیا، جس کا کرایہ معمولی تھا۔ یہ ایک کمرے کا مکان تھا، جس میں چھوٹا سا صحن تھا خدا ترس مالک مکان نے ترس کھا کر ہمیں یہ چھت عنایت کی تھی۔ میں بارہ سال کی ہوئی تو ماں کو میری شادی کی فکر ستانے لگی، مگر وہ جانتی تھیں کہ ہم اتنے مسکین و غریب ہیں کہ ہمارے در پر رشتے کے لیے کون آئے گا؟ اسی وجہ سے وہ اداس رہنے لگی تھیں، تاہم برسوں سے ہم اس محلے میں رہتے تھے، محلے دار امی کی عزت کرتے تھے، کیونکہ آبا کی حالت زار سے واقف تھے۔ 

ایک دن میں ماں کے ہم راه دربار گئی تو دیکها وہاں پولیس والوں کی ڈیوٹی لگی ہوئی تھی۔ ایک پولیس والے کی نظر مجھ پر پڑی اور اس نے مجھے پسند کر لیا۔ بس یہیں سے میری زندگی نے نیا موڑ لیا۔ اس پولیس والے نے میری ماں کے بارے معلومات لیں، سب نے ان کی تعریف کی کہ عزت دار عورت ہے، حالات سے مجبور ہوکر یہاں کام کرنے لگی ہے۔ اس شخص نے تب ہی ہمارے محلے میں واقفیت نکال لی .

کچھ دنوں بعد ہماری ایک محلے دار خاتون ، جو ماں کی سہیلی تھی، پولیس والے کا رشتہ لے کر ہمارے گھر آگئی۔ اس نے سپاہی کی تعریف کی ماں کو یہ رشتہ اچھا لگا ۔ ابا سے مشورہ کر کے ہاں کردی۔ گرچہ والد کو یہ رشتہ اچھا نہیں لگا تھا، لیکن جہاں قسمت لکھی ہو ، وہاں کا کس زور چلتا ہے۔ پولیس والے کا نام عتیق تھا۔ اس کے گھر والے ہمارے گھر آئے۔ وہ کھاتے پیتے جبکہ ہم مفلس لوگ تھے، تب ہی ہمارا رہن سہن ان کو نہ بھایا۔ عتیق کی والدہ اور بہنوں نے ناک بھوں چڑھائی، مگر بیٹے کی ضد نے مجبور کردیا۔ یوں ان لوگوں نے ہمارے ساتھ رشتہ جوڑ لیا۔ 

میں بھولی بھالی اور خوب صورت تھی اس وجہ سے بھی لڑکے کی ماں نے بیٹے کی بات مان لی۔ جب میں شادی بوکر سسرال گئی تب میری عمر پندرہ سولہ سال تھی ۔ میرے میاں لاہور میں ہوا کرتے تھے اور میں ساس سسر کے ساتھ گائوں میں ہوتی۔ گھر کا ماحول سخت تها۔ ان کو پیسے کا نخرہ تھا، تب ہی انہوں نے مجھے دل سے قبول نہ کیا۔ وہاں کوئی مجھے منہ نہ لگاتا ، میرے کام میں کیڑے نکالتے تھے اور مجھ پر پابندیاں تھیں۔ کھانے پینے کی ہر چیز ساس اپنے ہاتھ سے دیتی تھیں۔

 مجھے سخت بھوک لگی ہوتی تب بھی جب ان کی مرضی ہوتی، تب مجھے کھانے کو دیتیں ، ورنہ میں سارا دن بهوکی رہتی میں ایک دن کی دلہن تھی، جب انہوں نے مجھے کھلے صحن میں کھانا پکانے کو کہا۔ سخت گرمی اور دھوپ تھی۔ مجھ سے لکڑیاں نہ جلتی تھیں، تب بھی کڑکتی دھوپ میں کھانا پکواتے تھے، ڈھیروں برتن مجھ اکیلی کو روزانہ دھونے ہوتے ، صحن میں بغیر چھپر کے کام کرتی اور وہ ٹھنڈے کمروں میں بیٹھے ہوتے تھے جب کام ختم کرلیتی تو ساس لعنت کرتی کہ یہ کیسا سالن پکایا ہے، روٹی اچھی نہیں بنائی۔ ماں باپ کے گھر میں یہ کام کب کرتی تھی۔ اچانک ہی مجھ پر افتاد پڑی تھی اس لیے چمٹے کھاتی اور کام کرتی۔ رفتہ رفتہ کام سیکھ لیا، پھر بھی ان لوگوں کا لڑائی جھگڑا بند نہ ہوا۔ یہ سارے ظلم سہنے کے باوجود میں نے اُف نہ کی۔

ایک دن میں کام کر رہی تھی کہ گرم گھی مجھ پر الٹ گیا۔ مجھے کسی نے دوا یا مرہم لاکر نہ دیا۔ اکیلی تکلیف سے تڑپ رہی تھی، ہاتھ بری طرح جل گیا تھا۔ خدا کی کرنی اسی وقت پڑوسن آگئی، مجھے کراہتے پایا تو اسی وقت اسپتال لے گئی اور دوا لاکر دی۔ ساس خاموشی سے یہ سب دیکھتی رہی، یہ نہ کہا کہ میں ساتھ چلتی ہوں، آخر یہ میری بہو ہے۔ وہ مجھ کو بہو کہتی ہی نہ تھی، محض اس لیے کہ میں ایک غریب معذور کی بیٹی تھی۔ میاں آٹھ دن بعد گھر آتے اور ایک رات ٹھہر کر چلے جاتے تمام خرچہ ساس کے ہاتھ میں تھا۔ 

وہ ہمیں کچھ نہ دیتیں۔ ان ہی حالات میں اللہ کے حکم سے میں امید سے ہوگئی۔ طبیعت خراب رہنے لگی ، مگر کسی نے پروا نہ کی۔ اسی حالت میں گھر کا کام کرواتے۔ جب بچے کی پیدائش کے دن قریب آ گئے تو ساس نے مجھے میری ماں کے پاس بھجوا دیا ۔ خدا نے چاند سا بیٹا دیا، پھر بھی کوئی حال پوچھنے نہ آیا۔ دو ماہ میں ایک بار میرے میاں بیٹے کو دیکھنے آئے اور تھوڑے سے پیسے دے گئے۔ جب لینے آئے تو امی نے خاموشی سے مجھے شوہر کے ساتھ کردیا۔ میری ماں نے پاس پڑوس سے ادھار لے کر زچگی پر خرچہ کیا تھامگر میرے شوہر نے ان کو کچھ نہ دیا۔ عتیق کو بھی دراصل اپنے پولیس میں سب انسپکٹر ہونے کا غرور تھا۔ اس وجہ سے وہ میرے میکے والوں کو حقیر جانتے تھے۔ 

ہر وقت غصے میں رہتے کہ میرے گھر والوں پر دبائو رہے ۔ میرے والدین کو عزت کی نگاہ سے نہیں دیکھتے تھے لیکن مجھے مجبور کرتے کہ میں ان کے گھر والوں کی عزت کروں ۔ میں ایسا ہی کرتی کہ مجبور تھی۔ میرے ماں باپ میرا اور میرے بچے کا بوجھ نہیں اٹھا سکتے تھے۔ تین سال سب کی چاکری کرتے گزار دیے، تب اللہ تعالیٰ نے ایک بیٹی سے نوازا ، مگر خدا کی کرنی کہ جس روز بیٹی پیدا ہوئی، میرے میاں معطل ہوگئے ، تب سب نے میری بیٹی کو منحوس کہنا شروع کر دیا۔ ان کی بے رخی بڑھ گئی، میرا وجود بوجھ لگنے لگا۔ 

میاں کی کمائی جو بے تحاشہ رشوت کی تھی، وہ بھی بند ہوگئی تھی۔ ادھر سال بعد میں پھر اُمید سے ہوگئی۔ حالات کو دیکھتے ہوئے میں نے اس بچے کی زندگی کوختم کرنا چاہا، مگر کسی دوا نے اثر نہ کیا، الٹا بیمار ہوگئی۔ لیڈی ڈاکٹر نے سمجھایا کہ اس طرح حالات ٹھیک نہیں ہوتے ، بلکہ اللہ تعالیٰ ناراض ہوتا ہے ۔ تم توبہ کرو۔ یہ بہت بڑا گناہ ہے، جس کی سزا قتل کی سزا سے کم نہیں ہے۔ اس نے کافی لیکچر دیا۔ میں ناامید بوکر گھر واپس آ گئی اور وقت مقررہ پر ایک اور بیٹی میری گود کی زینت بن گئی ۔ بچوں کا خرچہ بڑھا تو ساس نے مجھے میکے بھجوا دیا کہ اب ان کے اپنے اللے تللے پورے نہیں ہو پا رہے تھے۔ 

عتیق الگ نہ کمانے سے پریشان تھے۔ تیسری بار کی ڈلیوری کا خرچہ بھی نہ دیا۔ سب کچھ میرے والدین کے ذمے کردیا۔ اب ماں سے شکوہ کرتی کہ تم نے مجھے ان کھاتے پیتے لوگوں میں کیوں بیاہ دیا؟ اپنے جیسے لوگ کم از کم مجھے عزت تو دیتے، میری توہین نہ کرتے، اب تو وہاں میری روح تنہا ہوگئی ہے۔ ماں کہتی۔ بیٹی کی قسمت کو کوئی دیکھ نہیں سکتا۔ جیسی تیری تقدیر، ویسا تجھے گھر مل گیا۔ میں کیا کرسکتی ہوں ۔

میرا چوتھا اور آخری بیٹا ساس کے گھر ہوا، تب بھی میاں اور ان کے گھر والے مجھے جوتی کی نوک پر نہ رکھتے تھے ۔ میاں نوکری پر بحال ہوگئے ، پیسہ پھر آنے لگا۔ عتیق ہر ظلم اپنی آنکھوں سے دیکھتے، پھر بھی چپ رہتے، جبکہ اب میں ان کے بچوں کی ماں تھی۔ میں تو مر مر کے جی رہی تھی، لیکن اپنے بچوں کے بارے سوچ کر بلکان تھی۔ ان کو اس ماحول سے دور کرنا چاہتی تھی۔ شوہر کی بیوه پھوپھی ہمارے ساتھ رہتی تھیں۔ 

وہ نیک دل خاتون تھیں اور مجھ سے ہمدردی رکھتی تھیں۔ میں، پھوپھی سے کہتی کہ ان سے کہو کہ یہ جہاں رہتے ہیں، مجھے اپنے ساتھ رکھیں۔ وہ عتیق کو سمجھائیں کہ بیٹا! اگر اولاد اپنے باپ کے سائے تلے رہے تو صحیح رہتی ہے، بگڑتی نہیں۔ اللہ نے میری دعا سن لی اور ان کی کوششوں سے میرے دن پھر گئے۔ عتیق کا تبادلہ ہواتو وہ مجھے اپنے ساتھ لے آئے۔ ایک سال میں نے اپنے گھر میں مرضی سے جی کر سکھ کا سانس لیا۔ بچے بھی خوش تھے کہ عتیق کا دوبارہ تبادلہ ہوگیا۔ وہاں فیملی کے لیے کوارٹر نہ ملا تو پهر سے ہمیں اسی جہنم میں دھکیل دیا، جہاں پل پل مرنا پڑتا تھا۔ ساس کی پھٹکار، نندوں کی حقارت اور کنبے کی خدمت، بس یہی میرا مقدر ٹهر گیا۔ ایسے میں کئی بار زندگی ختم کرنے کی ٹھانی، مگر بچوں سے مجبور تھی۔
 ایک بار پھر اللہ نے میری فریاد سن لی، میاں کو فیملی کے لیے رہائش مل گئی تو وہ ہمیں اپنے ساتھ لے آئے۔ اب وہ زیادہ خرچہ اپنے گھر اور بچوں پر کرتے، میں نے بھی مضبوطی سے پیر اپنے گھر میں جمالیے۔ ساس کو یہ سب بہت کھلنے لگا۔ انہوں نے عتیق سے مطالبہ کیا کہ بہو کو میرے پاس رکھو۔ میں بوڑھی ہوں، کام کاج میں تکلیف ہوتی ہے۔ پہلی بار میاں نے ماں سے کہا کہ میں نے بچے اسکول میں داخل کرادیے ہیں، یہاں پڑھائی اچھی ہے، آپ کوئی ملازمہ رکھ لیں۔ یہ سن کر ساس ناراض ہوگئیں، جبکہ عتیق کو میرے ساتھ رہنے سے سکون ملا تھا۔ ان کی جاب ہی ایسی تھی، سو بندے اپنے کام سے آتے تھے ۔ 

وہ ان کے لیے چائے پانی کا انتظام کرتے اور کبھی کھانے پر بھی مہمان بلاتے تو یہ سارے کام میں ہی کرتی تھی۔ ادھر عتیق کے رشتہ دار جب ملنے آتے ، تو میرے بچوں کے کانوں میں عجیب باتیں کہہ جاتے کہ تمہاری نانی اور ماں دربار کی فقیرنیاں ہیں ، تمہارے نانا لنگر کا کھاتے ہیں۔ تم لوگ اپنی دادی کے پاس چلے جائو ، ورنہ تمہاری ماں تم کو بھی دربار کا فقیر بنادے گی۔ خدا جائے وہ کس کے کہنے سے میرے بچوں کا ذہن خراب کرنے کی کوشش کرتے رہتے تھے۔ بچے ناسمجھی میں ایسے سوال مجھ سے پوچھتے کہ میں پریشان ہو جاتی تھی۔ میاں کو بتائی کہ تمہارے سگے ایسی باتیں کہتے ہیں، وہ جواب دیتے کہ جھوٹ تو نہیں کہتے، تب میرا دل خون بوجاتا ، مگر یہ سوچ کر صبر کر جاتی کہ کبھی تو ظلم کی رات ختم ہوگی اور خوشیوں کا سورج طلوع ہوگا۔ 

خیر کے کام کا انجام خیر ہوتا ہے، نیکی رائیگاں نہیں جاتی۔ خاص طور پر اگر والدین اپنی اولاد کے ساتھ نیکی کریں، ان کو پڑھائیں، لکھائیں اور اچھی تربیت کریں۔ میرے بچے بھی بالآخر بڑے ہوگئے ، پڑھ لکھ گئے، تو میری مصیبت کے دن بھی چھوٹے ہونے لگے ۔ اب میاں مجھے گالی دیتے یا برا بھلا کہتے، تو بچے ان کو روکتے وہ مجھ پر ہاتھ اٹھانے لگتے تو اولاد آگے بڑھ کر باپ کا ہاتھ پکڑ لیتی کہ ابا جان آپ ہماری ماں کو اب نہیں ماریں گے، ہم ایسا نہ کرنے دیں گے۔ اب صورت حال وہ نہ رہی تھی ۔ میرے بیٹے نے تعلیم مکمل کرلی تو اسے پولیس کے محکمے میں ملازمت مل گئی۔ وہ اپنے پیروں پر کھڑا ہو گیا تو میرے پیر بھی مضبوط ہوگئے۔ وہ باپ کا بازو تو تھا ہی، ماں اور بہنوں کا بھی سہارا بن گیا۔ 
حالات سازگار ہوئے ، تو میں نے اپنی بیٹی صبا کی شادی کردی۔ یہی سوچتی تھی کہ مجھے سکون نہیں ملا، لیکن اولاد کو سکھی دیکھوں گی، تو مجھے میرا کھویا ہوا سکون مل جائے گا، مگر ایسا نہ ہوا۔ میری بچی بھی میرے جیسا نصیب لے کر آئی تھی ۔ اس کا شوہر لاپروا اور سسرال والے تنگ دل تھے۔ وہ صبا کو اسی طرح ستاتے، جیسا میرے سسرال والوں نے میرے ساتھ کیا تھا۔ اب جب صبا روتی ہوئی آتی تو عتیق کا دل کتنے لگتا، ان کو بہت دکھ ہوتا۔

آخر اولاد تھی اور بیٹی کا دکھ تو کوئی باپ نہیں سہہ سکتا۔ عتیق کہتے، کسی دن میں جاکر ان لوگوں کو شوٹ کر دوں گا، جو میری بچی کو ستاتے ہیں، مگر مینان کو سمجھاتی کہ صبر سے کام لو۔ بیٹی کے معاملات بہت نازک ہوتے ہیں۔ ہمیں ان کا گھر بسائے رکھنا ہے، جلد بازی اور غصہ گھر اجاڑ ڈالتے ہیں ۔ یوں میں صبا کو سمجھا بجھا کر اس کے گھر بھجوا دیتی تھی۔ پولیس والے بدنام ہیں کہ رشوت لے کر مظلوموں کی بجائے مجرموں کی داد رسی کرتے ہیں۔ بے شک سب پولیس والے برے نہیں ہوتے، ان میں اچھے بھی ہیں او ربرے بھی ۔ 

دراصل ہمارا معاشره بی بگڑا ہوا ہے۔ بہر حال عتیق بھی اس خرابی سے پاک نہ تھے۔ تنخواہ قلیل تھی مگر رشوت کی آمدنی خوب تھی۔ اسی وجہ سے خوشحالی تھی اور گھر میں کسی شے کی کمی نہیں تھی۔ ان بی دنوں ایک ایسا واقعہ ہوا کہ جس نے ہم سب کو بلاکر رکھ دیا۔ ایک غریب بیوہ کی بیٹی کی شادی ایک خوش حال گھرانے میں ہوگئی۔ لڑکے اور لڑکی کی یہ پسند کی شادی تھی اور اس شادی پر لڑکے کے گھر والے خصوصاً ماں اور بہنیں راضی نہ تھیں۔ 

لڑکے کی ضد پر وہ اس غریب لڑکی کوثر کو بیاہ کر تو لے آئے تھے، مگر پھر انہوں نے بہو کا جینا حرام کردیا کہ جہیز بھی نہیں لائی تھی۔ ایک دن کوثر کو اسپتال لے جایا گیا کہ بری طرح جل گئی تھی۔ وہ بے چاری صحیح بیان بھی نہ دے سکی اور اسپتال میں چل بسی۔ یہ کیس عتیق کے پاس تھا۔ لڑکی کی مانایف آئی آر کٹوانا چاہتی تھی کہ اس کی بیٹی کو سسرال والوں نے مٹی کا تیل ڈال کر آگ لگائی ہے، جبکہ سسرالی اصرار کر رہے تھے کہ وہ خود کھانا پکاتے ہوئے جل کر مری ہے۔ لڑکے والے خوشحال تھے، انہوں نے کافی پیسہ دیا، لہٰذا میرے خاوند نے ان کا ساتھ دیا اور ایف آئی آر نہیں کالی – بیوہ بے چاری ، روتی پیٹتی چلی گئی۔ جب عتیق نے بتایا کہ لڑکی والوں کو دراصل سسرال والوں نے ہی جلایا تھا مگر ان کو نوٹوں کی گڈیوں نے بچالیا، تب مجھ کو بہت دکھ ہوا۔ 
میں نے کہا۔ آپ ایسے ظلم کا ساتھ نہ دیا کریں، چاہے لاکھوں میں رشوت ملے۔ ایسے پیسے کا کیا فائدہ، جس کے پیچھے کسی مظلوم کی آہیں ہوں۔ اگر ہمیں کسی غریب کی آہ لگ گئی تو کیا ہوگا؟ کہنے لگے۔ عرصے سے رشوت کا پیسہ کها رہی ہو۔ کیا اب تک کسی غریب کی آہ لگی ہے، جو اب لگے گی؟ اپنا فلسفہ اپنے پاس رکھو، ربی ،رشوت تو رشوت کون نہیں لیتا؟ تنخواہ کے پیسوں سے تو ہم چار بچو کو اچھے اسکول میں نہیں پڑھا سکتے، پھر ہمارے بچے امیروں کے بچوں سے مقابلہ کیسے کریں گے۔ غرض وہ ایسی باتیں کرتے کہ میں لاجواب ہوجاتی، تاہم مجھے کوثر کے جل مرنے کا بہت دکھ ہوا تھا۔ میں نے جب اس کی تصویر دیکھی تو آنکھوں میں آنسو بھر آئے۔ گل کوثر نام تھا اس کا، وہ واقعی پھول جیسی کومل تھی۔ 

ماں باپ نے بھے جانے کیا سوچ کر نام ركها تها۔ مجھے تو اس کے بارے سوچ کر کئی دنوں تک نیند نہ آئی تھی، خبر نہ تھی کہ ایسا ہی ایک زخم اپنے کلیجے پر بھی لگنے والا ہے۔ دوپہر ڈھلنے والی تھی، میں کھانا پکاکر اور برتن سمیٹ کر فارغ ہوئی کہاچانک دروازے پر دستک ہوئی۔ دستک اتنے زور کی تھی کہ میرا کلیجہ ہل گیا۔ میری چھوٹی بیٹی دروازے پر گئی۔ سامنے ہی ایک شخص کھڑا تھا۔ اس نے بتایا کہ میں آپ کی بیٹی صبا کا پڑوسی ہوں۔ 

آپ کو اطلاع کرنے آیا ہوں کہ آپ کی بیٹی اسپتال میں ہے، وہ کھانا پکاتے ہوئے جل گئی ہے، جلدی اسپتال جائیے ۔ یہ سن کر مجھے تو ہوش ہی نہ رہا، ننگے پائوں رکشے میں بیٹھ کر اسپتال گئی چھوٹی لڑکی باپ کو فون ملاتی رہی لیکن میں انتظار نہ کرسکی۔ وہاں اسپتال میں میری لخت جگر، کوئلہ صورت آخری سانسیں لے رہی تھی۔ تھوڑی دیر میں عتیق بھی پہنچ گئے، مگر بیٹی تب دنیا سے جاچکی تھی۔ آج ان کو احساس ہوا کہ کسی ظالم کا ساتھ دینے اور کسی مظلوم کی مدد کرنے کا کیا انجام ہوتا ہے۔
خدا کی لاٹھی بے آواز ہے، اس کے گھر دیر ہے اندھیر نہیں۔ جس نے کائنات تخلیق کی ہے، اس کے کچھ اپنے اصول ہیں اور وہ اٹل قانون ہیں۔ انسان کی خواہشات ان کو تبدیل نہیں کر سکتیں اور نہ خالق کے دربار میں رشوتیں اور سفارشیں چلتی ہیں او رجب وہ پکڑتا ہے، تو اس کی پکڑ بہت سخت ہوتی ہے ، پهر آدمی اس کی مرضی کے بغیر نجات پاسکتا ہے اور نہ اپنی گردن چھڑا سکتا ہے۔ 

مجھ پر تو جو قیامت گزری الفاظ میں لکھ نہیں سکتی، مگر عتیق بھی اپنی بچی کی جلی ہوئی لاش دیکھ کر بے تحاشہ رو رہے تھے۔ وہ مجھ سے کہ رہے تھے کہ تمہارے ساتھ میرے گھر والوں نے ظلم کیا اور میں خاموش رہا۔ اس کی سزا میری بچی کو ملی۔ میں نے رشوت لے کر مجرم چھوڑے تو خدا نے مجھے دکھایا کہ ظالم کا ساتھ دینے پر مظلوم کے دل پر کیا گزرتی ہے۔ اس کے آنسو اور آہیں عرش تک جاتے ہیں۔