اربازخان میرا جیالا بھائی تھا، کڑیل جوان اور بہادر تھا۔ میں تو سوچ بھی نہیں سکتی تھی کہ کبھی وہ ایسی بزدلانہ حرکت کر گزرے گا۔ اربازخان کو اپنی بیوی شیریں سے بہت محبت تھی، ایسی فریفتگی کہ جس کی مثال نہیں ملتی۔ سچ تو یہ ہے کہ شیریں کے دنیا سے جانے کے بعد میرا شیر دل بھائی بھی جیتے جی ہی مر گیا۔ شیریں کے بعد اس کی زندگی ویران ہو گئی، وہ جیسے اپنے حواس کھو بیٹھا ہو۔ ہر وقت اس کے لبوں پر ایک ہی فقرہ رہتا تھا، زندگی سزا ہو گئی، آدمی کی زندگی سزا ہو گئی۔ جب بھی میں اپنے بھائی کے لبوں سے یہ فقرہ سنتی تو حیرت میں ڈوب جاتی کہ آخر اس بات کا کیا مطلب ہے کہ زندگی سزا ہو گئی۔
اس فقرے کے پیچھے کوئی اندوہناک کہانی معلوم ہوتی تھی، اور واقعی ایک دن مجھ پر یہ راز کھل گیا کہ شیریں کو دشمنوں نے نہیں مارا تھا بلکہ خود اس پر فریفتہ رہنے والے اس کے محبوب شوہر نے اپنے ہاتھوں موت کے حوالے کیا تھا۔ تبھی اس کے لیے زندگی سزا ہو گئی تھی۔ بات یہ تھی کہ شیریں ساتھ تھی تو ایک دنیا ساتھ تھی، وہ نہ رہی تو کچھ بھی نہ رہا۔ دل میں امنگ نہیں رہی، نہ پھولوں میں رنگ، خواب نہیں رہے، نہ خیال۔ اربازخان کے لیے اس بن سکھ چین حرام اور جینا دشوار ہو گیا۔ ہر سانس ایک فرد جرم، ہر سوچ ایک سولی، ہر تعلق ایک واہمہ، ہر رشتہ ایک فریب۔ یقین بچھڑ گئے، جذبے سو گئے، آرزوؤں کو موت آگئی۔
اربازخان پھانسی سے تو بچ گیا مگر زندگی خود اس کے لیے سزا ہو گئی۔ یہ کیسے ہوا؟ یہ میں آپ کو بتاتی ہوں۔ مرنے سے قبل اربازبھائی نے مجھے بتایا تھا کہ اگر میں جانتا کہ شیریں بن زندہ ربنا محال ہو گا تو خود بھی اس آگ کی لپٹوں میں جل کر بھسم ہو جاتا، جس نے اسے ایک بار ہی آگ میں جلا دیا تھا، مگر مجھے ہزار بار جلا کر بھی سرد نہ کیا جا سکا۔آج میرے دل و دماغ میں، جسم و جان میں، رگ رگ میں، نس نس میں یہ آگ دوزخ بن کر جل رہی ہے۔
صرف اس لیے کہ مجھے شیریں سے محبت تھی اس آگ کو ٹھنڈا کرنے کے لئے پھر میں نے ایک دوسری آگ سلگائی۔ اس میں اپنی محبت ، گھر بار ، خوشیاں سبھی کچھ جھونک دیا، اپنا آشیانہ جلایا، گھر پھونک تماشہ دیکھا۔شیریں میری زندگی تھی، وہ سوتے جاگتے ہر دم میری نظروں میں سمائی رہتی تھی۔ میں گھر سے باہر جاتا تو اس کا مہکتا ہوا تنفس میرے ساتھ ساتھ چلتا۔ گھر آتا تو اس کا وجود میرے وجود کا حصہ بن جاتا۔ میں اس کے بغیر نامکمل اور وہ میرے بغیر ادھوری تھی۔ میں اس کا دیوانہ تھا کہ بانکپن اس پر پھولوں کی طرح برستا تھا۔ خوبصورتی اس پر ختم تھی، دلکشی کے سب زاویئے اس پر تمام تھے۔ وہ زمین کا چاند تھی اور آسمان کی حور تھی۔
سب کہا کرتے تھے کہ اربازخان بلند بخت ہے اور شیریں خانم صاحب نصیب … کہ میں اس کو ملا تھا اور وہ میرے حصے میں آئی تھی۔ اتنا کہہ کر بھائی کی سانس اکھڑ نے لگی وہ چپ ہو گئے اور میں مبہوت بیٹھی رہ گئی۔ حالانکہ شادی سے پہلے وہ خرم خان سے محبت کرتی تھی۔ لیکن میں جانتی تھی کہ بھائی نے اپنی تمام تر کوششیں صرف کر کے اس کا رشتہ حاصل کر لیا تھا۔ وہ نہ چاہتے ہوئے بھی میری بھائی بن گئی۔ تب اس کو نہ چاہتے ہوئے بھی اپنی تمام تر محبت خان کی جھولی میں ڈالنی پڑی۔ اس نے اقرار کر لیا کہ دراصل میرا بھائی ہی اس کی محبت کے لائق تھا خرم ہر گز نہ تھا۔وہ حیا کی تصویر اور وفا کی پتلی تھی۔
شوہر کی آن اور گھر کی لاج تھی۔ جس کا ظرف واقعی معبد گاہوں کا سا، اعلی مقام تھا۔ جس کا پیار کھرے سونے کا سا انمول تھا۔ اس نے 20سال اس طرح ہمارے درمیان میرے بھائی کی رفاقت میں گزار دیئے کہ ایک لمحے کے لئے بھی ہم نے یہ محسوس نہیں کیا کہ بھائی نے اس کے ساتھ شادی کر کے غلطی کی ہے۔ ان کے تین بیٹے ہو گئے ، بڑے بیٹے کی عمر اس وقت سترہ سال تھی جب یہ حادثہ ہوا۔ بھائی کچہری میں بیٹھا تھا کہ 20 برس بعد اچانک وہاں خرم خان آ گیا۔ دونوں رو برو تھے ، آمنا سامنا ہو گیا۔ وہ بھائی کا رقیب تھا اور ماضی میں شیریں کو چاہتا تھا اور اس سے شادی کا خواہش مند تھا۔ برسوں ان دونوں نے آپس میں سرد جنگ لڑی تھی۔ آخر اربازخان میرابھائی یہ بازی جیت گیا اور اس کی شادی شیر میں خانم سے ہو گئی۔ خرم رقیب روسیاہ بار گیا اور دلبر داشتہ ہو کر ہمارے علاقے سے ہی کوچ کر گیا اور پھر بھی اس نے علاقے میں کسی کو اپنا چہرہ نہ دکھایا۔
آج بھی اس کا نظر آنا میرے بھائی کو ویسا ہی سخت گزرا جیسے بیس سال پہلے گزرتا تھا۔ اربازخان کو دیکھتے ہی اس نے طعنہ زنی کی، یوں کہ بلند آواز سے کہا کہ مجھے یقین ہے عورت اپنی پہلی محبت کبھی نہیں بھولتی۔ اگرچہ اس کا مخاطب ایک اور شخص تھا، لیکن پس پردہ وہ ارباز خان سے ہی مخاطب تھا۔ یہ اور بات ہے کہ یہ امر مجبوری کسی اور سے نباہ کرتی رہی۔ یوں بھری کچہری میں ماضی کا افسانہ سناتے ہوئے اس نے میرے بھائی کی پگڑی اچھال دی تھی۔بھائی نے اپنی آخری سانسوں میں پھر اس راز سے پردہ اٹھا دیا۔
اُس نے مجھے بتایا تھا کہ خرم خان کے یہ الفاظ سن کر میرے کان سائیں سائیں کرنے لگے۔ ماضی کا وہ دن جنگی پھریرے کی مانند میری نظروں کے سامنے لہرانے لگا، جب ایک بار ہم دونوں شیریں خانم کی خاطر دست و گریباں تھے، لیکن آج وہ میری منکوحہ، میرے تین بچوں کی ماں تھی- میں کسی غیر کی زبان سے اپنی بیوی کا نام کیسے برداشت کر سکتا تھا۔ میں آپے سے باہر ہو گیا۔ اس سے پہلے کہ میں اس پر پل پڑتا، لوگ درمیان میں آگئے اور انہوں نے میری بندوق کی نال پکڑ لی۔ مجھے قابو کر کے بے بس کر دیا۔ ہجوم کے درمیان میں آجانے سے اسے بھاگ نکلنے کا موقع مل گیا۔ وہ چلا گیا مگر میری لاکھوں کی عزت خاک میں مل گئی-وہ میری سکون بھری دنیا پھر جلتی ہوئی مشعل پھینک کر چلتا بنا تھا۔ اس توہین کا میں اس کو ایک نہ بھولنے والا سبق دینا چاہتا تھا۔
سو اور تو کچھ نہ سوجھا میں نے اس کے بھائی کی کھڑی فصل کو آگ لگا دی۔خرم خان کب چپ بیٹھ رہنے والا تھا۔ رات ہی کو وہ بھائیوں کے ہمراہ آ گیا۔ ان کے ہاتھوں میں مشعلیں تھیں وہ ہمارے گھر کو آگ لگانے آئے تھے اور مکان کو خالی کئے بنا چارہ نہ تھا۔انہوں نے کَہا خان مکان خالی کر دو۔ میں نے حکم دے دیا اور گھر کے تمام افراد باہر نکل گئے۔ پندرہ منٹ بعد انہوں نے دوبارہ للکارا کہ یہ آخری للکار ہے، تمہیں سانس کا تھورا دیا ہے۔ نکل سکتے ہو تو نکل جائو۔ سانس کا تھورا مطلب یہ تھا کہ ہم نے دُشمن ہو کر بھی تم پر یہ احسان کیا ہے کہ اپنی زندگی بچا سکتے ہو تو بچالو۔ اس کے بعد انہوں نے گھر کی چوکھٹ ، دروازوں، اور چھتوں کو نذر آتش کر نا شروع کر دیا۔ بھائی نے ایک لمبی سانس کھینچی اور کہا۔ میری ہمشیرہ! تو پھر ایسا نظارہ کون برداشت کرتا ہے۔
میری آنکھوں کے سامنے میری دنیا میری جنت جل رہی تھی۔ وہ گھر جو ہماری محبت کا گہوارہ اور میرے بچوں کی محفوظ پناہ تھی۔ شیریں میرے کندھے پر سر رکھے رو رہی تھی کہ اس نے تنکا تنکا جوڑ کر یہ آشیانہ بنایا تھا۔ تبھی میرے دل میں ایک خیال کوندا کہ میں کیوں نہ خرم خان کو ایسی سزادوں کہ عمر بھر نہ بھلا سکے۔ مجھے یہ تو یقین تھا کہ وہ اب بھی شیر یں خانم کو چاہتا ہے اور اس کی محبت کو دل میں بسائے ہوئے ہے۔ سو جوش میں مجھ کو یہ بھی یاد نہ رہا کہ شیریں میری محبت ہے، میرے تین بچوں کی ماں ہے۔ میں نے اس کو اٹھایا اور اپنے جلتے ہوئے مکان کے اندر شعلوں کی نذر کر دیا۔ وہ چیختی چلاتی ، فریاد کرتی رہ گئی۔ اس کو جلتے دیکھ کر خرم خان تو جیسے پاگل ہو گیا۔
اگر اس کے بھائی اس کو قابو نہ کر لیتے تو وہ شیریں کو بچانے کو یقینا آگ میں کود جاتا۔بھائی کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے۔ انہوں نے کہا۔ میرا ارادہ خرم خان کو شیریں خانم کے زندہ جلانے کے الزام میں گرفتار کروانے کا تھا۔ میرا یہ وار کاری لگا اور وہ میرے گھر کو آگ لگانے کے الزام میں گرفتار ہو گیا۔ جس میں میری بیوی شیریں خانم جل گئی تھی۔ شیریں کے زندہ جلائے جانے کے جرم میں اس کو پھانسی ہو گئی، کیونکہ علاقے کے لوگوں نے یہی گواہی دی تھی کہ جلتی مشعل مکان پر سب سے پہلے خرم خان نے پھینکی تھی۔
اربازخان اور بچے تو مکان سے باہر نکل آئے مگر شیریں نہ نکل سکی کیونکہ وہ آگ کی لپیٹ میں آ گئی تھی۔ خرم تو ایک بار ہی پھانسی کا پھندا گلے میں ڈال کر اس جہاں کی کمینگیوں سے نجات پا گیا مگر میرے لئے احساس جرم ایک ایسی سولی بن گیا ہے کہ جس پر میں آج اپنی آخری سانسوں کے درمیان بھی لٹک رہا ہوں۔ یہ کہہ کر میرے اربازبھائی نے آخری ہچکی لی اور اس جہان کی سزا سے ہمیشہ کے لئے نجات پا گیا۔
(ختم شد)