یہ پناہ بستی عارضی آبادی پر مشتمل تھی، جو شہر سے کچھ فاصلے پر غریبوں نے بسائی تھی۔ ان کے پاس نہ اپنی زمین تھی نہ اپنی چھت۔ جب وقت نے صمد خان اور ماہ بانو کو غربت کی چادر میں لپیٹا، تو وہ بھی اسی بستی میں آ بسے۔اس بستی میں چھوٹی موٹی کریانے کی دکانیں تو موجود تھیں، لیکن مزدوروں اور تنہا مردوں کے لیے کوئی چائے خانہ نہیں تھا۔ صمد کو خیال آیا کہ کیوں نہ وہ یہاں ایک چائے خانہ کھول لے۔ اس نے اپنے دو کمروں کے کچے مکان کے آگے ایک چھپر بنا کر، چاروں طرف قناتیں لگا دیں اور چند کرسیاں اور میزیں رکھ کر ایک چھوٹا سا چائے خانہ قائم کر لیا۔
چائے خانے کا سامان اُسے اس کے ایک پرانے دوست نے عنایت کیا تھا۔ وہ دونوں اچھے وقتوں میں گہرے دوست تھے اور تفریحی مقامات پر اکٹھے جایا کرتے تھے۔ صمد خان کی دیکھا دیکھی بستی میں چند اور چائے خانے بھی کھل گئے، لیکن صمد کے چائے خانے کی تو بات ہی کچھ اور تھی، کیونکہ یہاں چائے ماہ بانو خود اپنے ہاتھوں سے بناتی تھی۔ چائے بنانے کا سامان، چولہا وغیرہ گھر کے صحن میں ہوتا، اور چائے خانہ چھپر تلے واقع تھا، جہاں چائے کے شوقین گاہک دو گھڑی کے لیے خالص دودھ پتی، گرما گرم پکوڑوں اور سموسوں سے لطف اندوز ہوتے۔
صمد کا چائے خانہ شام چار بجے کھلتا اور صبح بند رہتا۔ بستی کے اکثر مکین مزدور پیشہ تھے، جو شام کو لوٹتے تو تازہ دم ہونے کے لیے صمد کے چائے خانے کا رخ کرتے۔ رفتہ رفتہ یہاں رش بڑھنے لگا، چائے کی شہرت دُور دُور تک پھیل گئی۔ ارد گرد کی آبادیوں سے بھی لوگ یہاں آ کر لذتِ کام و دہن حاصل کرتے۔اس مقبولیت کی وجہ ماہ بانو کے ہاتھوں سے بنے ہوئے پکوڑے اور سموسے تھے، جو اس قدر لذیذ ہوتے کہ ادھر سے گزر کر شہر جانے والے بھی اپنی سواری روک کر یہ اشیاء خرید کر اپنے گھر لے جاتے۔ اب تو کام کی زیادتی کے باعث مزدور بھی رکھنا پڑے۔
جب آمدنی خاطر خواہ ہونے لگی، تو صمد نے چائے خانے کی چھت پختہ کروا لی اور چار دیواری بھی بنوا لی۔ نئی میزیں اور کرسیاں خرید لیں۔ اب یہ چائے خانہ نہیں بلکہ صمد ہوٹل بن چکا تھا۔ تاہم پناہ بستی والوں کی زبان پر تو اب بھی “صمد چائے خانہ” ہی چڑھا ہوا تھا، لہٰذا وہ اسے ہوٹل نہیں بلکہ اب بھی چائے خانہ ہی کہتے۔ایک سال بعد صمد اس قابل ہو گیا کہ ماہ بانو کے لیے سونے کے بالے اور شیشے کی ٹیوب میں پرویا ہوا ہار بھی بنوا دیا۔ اب میاں بیوی کی زندگی سکون سے گزر رہی تھی، کہ ایک دن ایک واقعے نے ان کے پُرسکون جیون کی جھیل میں بری نیت کا ایسا پتھر پھینکا کہ تلاطم پیدا ہو گیا۔
اس دن ان کے گھر مدت بعد ایک خاص مہمان آیا، جو صمد خان کا محسن تھا۔ یہی وہ شخص تھا جس نے صمد پر ترس کھا کر چائے خانہ کھولنے کے لیے کچھ رقم اور میز کرسیاں دی تھیں۔ وہ خود ایک بڑے شہر میں ایک معروف چائے خانے کا مالک تھا، اور اس نے اپنے ہوٹل کے پرانے سامان کو صمد کو دے کر اس پر احسان کیا تھا۔آنے والے پرانے دوست، بہادر، نے ماہ بانو کو پہلے بھی دیکھ رکھا تھا۔ اس کی تصویر تو پہلے دن سے ہی اس کے دل پر نقش ہو گئی تھی، مگر اسے حاصل کرنے کی آرزو دل میں دبا لی تھی، کیونکہ ماہ بانو پرائی عورت تھی، اور وہ پرائی عورت بھی اس کے دوست کی عزت تھی۔
جب وہ آیا تو صمد نے اسے اپنے گھر کے اندر چارپائی پر بٹھایا اور بیوی سے کہا کہ میرا جگری دوست مدت بعد آیا ہے، تم خاص طور پر میرے مہمان کے لیے مدارات کا اہتمام کرو، اور تنور میں بکرے کی ران کی سبزی بنا کر لاؤ۔ ماہ بانو نے شوہر کے حکم کی تعمیل کی۔ پہلے اس نے پستے، بادام، بالائی والی چائے اور باقرخانی سے مہمان کے لیے ناشتہ تیار کیا، پھر تندوری نان کے ساتھ بکرے کی ران روسٹ کر کے شوہر کو دی، تاکہ وہ اپنے مہمان کی مناسب تواضع کر سکے۔ بہادر، ماہ بانو کے ہاتھوں سے تیار کردہ لذیذ کھانوں سے خوب لطف اندوز ہوا اور دل سے خوش بھی ہوا کہ خاتونِ خانہ نے بڑی محنت اور توجہ سے یہ سب کچھ اس کے لیے تیار کیا تھا۔
جاتے ہوئے اس نے ماہ بانو کا شکریہ ادا کیا، اور صمد کو باتوں میں لگا کر اپنے ہوٹل لے گیا۔ مگر وہ ہوٹل دراصل پردے کے پیچھے فحاشی کا اڈا بھی تھا، جس کا علم صمد خان کو نہ تھا۔ جب صمد وہاں پہنچا تو دیکھا کہ ماحول خاصا بدلا ہوا ہے۔ چائے خانہ تو سامنے کے حصے میں تھا، مگر پچھلے حصے میں، جہاں بہادر نے اسے بٹھایا، وہاں مختلف عمروں اور شکلوں کے لوگ خوبصورت گلاسوں میں سرخ رنگ کا مشروب پی رہے تھے، جو قہوہ ہرگز نہ تھا۔ صمد کو اس کی بُو بہت ناگوار محسوس ہوئی اور اس نے وہاں سے اٹھنے کی کوشش کی، مگر بہادر نے اس کا ہاتھ تھام کر زبردستی بٹھا دیا۔ اسی لمحے بہادر نے اشارہ کیا، تو ایک لیڈی ویٹر ہاتھ میں ٹرے تھامے آگئی اور گلاس صمد کے ہونٹوں سے لگا دیا۔
صمد نے سمجھا یہ قہوہ ہے، مگر اس کی خوشبو بالکل مختلف تھی۔ بہادر نے کہا کہ میری جان کی قسم، میری خاطر پی لو۔ دنیا کے سب غموں سے آزاد ہو جاؤ گے۔ صمد نے جواب دیا کہ مجھے اللہ کے فضل سے کوئی غم نہیں، مگر بہادر نے خود گلاس اٹھایا اور زبردستی اس کے ہونٹوں سے لگا دیا۔ دوست کی خاطر، صمد نے دل مار کر وہ مشروب پی لیا۔ تھوڑی ہی دیر میں اسے سرور سا محسوس ہونے لگا، اور ذہن ہلکا پھلکا سا ہو گیا۔
اس کے بعد یہ روز کا معمول بن گیا۔ بہادر روز آتا اور صمد کو اپنے اڈے پر لے جاتا، جہاں وہ اسے سرخ مشروب سے تواضع کرتا۔ اس مشروب کی مقدار دن بہ دن بڑھتی گئی، اور پھر شراب و شباب نے صمد خان کو کہیں کا نہ چھوڑا۔ زیادہ تر وقت وہ نشے کی حالت میں رہنے لگا، جس کی وجہ سے وہ اپنے چائے خانے سے لاپروا ہوتا گیا۔ اکیلی عورت، ماہ بانو، کے لیے چائے خانہ چلانا دوبھر ہو گیا۔ وہ باہر گلہ سنبھالتی اور اندر کچن کا کام بھی کرتی، مگر گاہکوں کو خود چائے، پکوڑے، اور سموسے پیش نہ کر سکتی تھی۔ ایک ملازم لڑکا رکھا، وہ چند دن بعد ہی بھاگ گیا۔ دوسرا کوئی لڑکا رکھا گیا تو وہ کسی دن اچانک چھٹی کر لیتا، اور اس دن ہوٹل بند رکھنا پڑتا۔ اس کے بعد تو ہوٹل ہر دوسرے تیسرے دن بند ہی رہنے لگا، کیونکہ صمد کے مزاج میں تبدیلی آ چکی تھی۔
وہ گاہکوں سے ترش رو ہو گیا تھا۔ اگر کوئی گاہک چائے میں میٹھے کی کمی کی شکایت کرتا، تو صمد بجائے شکایت دور کرنے کے، اس پر بگڑ جاتا۔ اگر کوئی گاہک وقت پر ادھار ادا نہ کر پاتا، تو صمد اسے گالیوں سے نوازتا۔ ان باتوں کا نتیجہ یہ نکلا کہ گاہک آہستہ آہستہ بددل ہو کر دوسرے ہوٹلوں کا رخ کرنے لگے، اور ایک وقت ایسا بھی آیا کہ صمد کے ہوٹل پر آنے والے چند گنے چنے لوگ ہی رہ گئے۔ یہ وہ گاہک تھے جو ماہ بانو کے ہاتھوں کے بنے پکوڑے اور سموسے کھانے آتے تھے، اور اس بہانے کبھی کبھار ماہ بانو کی ایک جھلک دیکھ لیتے۔
ماہ بانو ان نظروں کی امیدوں سے بے خبر نہ تھی، مگر وہ مشرقی ماحول میں پلی بڑھی تھی، جہاں شوہر کو مجازی خدا سمجھا جاتا ہے۔ اسی لیے شوہر کی بری حالت اور بے توجہی کے باوجود اُس نے کبھی کسی نوجوان کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھا۔ آخر کار، مایوس ہو کر وہ چند چاہنے والے بھی کہیں اور چلے گئے، اور ہوٹل بالکل بند ہو گیا۔ گھر کا اثاثہ آہستہ آہستہ بکنے لگا۔ پہلے ماہ بانو کے زیورات فروخت ہوئے، پھر ہوٹل کا کچھ سامان بیچا گیا، اور آخر میں گھر کے اندر کے کھانے پینے کے برتنوں کی باری آ گئی۔ یوں ایک سجا سجایا چھوٹا سا گھر ویران ہو گیا۔
صمد جانتا تھا کہ ابھی بھی کچھ دل پھینک نوجوان ماہ بانو کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے ہوٹل میں بیٹھنے کی حسرت رکھتے ہیں۔ اسے یہ بھی علم تھا کہ اگر ماہ بانو چاہے، تو ان کی تنگدستی کے دن ختم ہو سکتے ہیں۔ اُس نے بارہا بیوی کو اس قسم کے اشارے دیے کہ اگر میں چائے خانے کے گلے پر نہ بیٹھ سکوں، تو تم خود بیٹھ سکتی ہو۔ اس طرح کمائی ہمارے ہاتھ میں رہے گی، ملازم اسے ضائع نہیں کریں گے، اور ہم پھر سے اپنا کاروبار جما سکیں گے۔
ماہ بانو خوب سمجھتی تھی کہ اب نکما ہو جانے پر اس کا شوہر اسے مالک کی گدی پر، گاہکوں کے سامنے بٹھانا چاہتا ہے۔ آخر ایک دن صمد نے صاف صاف کہہ دیا کہ اب یہ ہوٹل تم چلاو گی۔ کچن کا کام ملازم کریں گے، اور تم گلے پر بیٹھ کر گاہکوں پر نظر رکھو گی۔ تم ہی چائے خانے کو باہر سے سنبھالو گی۔ میں اب پہلے کی طرح یہ کام نہیں کر سکتا، میری صحت ٹھیک نہیں رہتی۔ اب زندہ رہنے کی بس یہی صورت باقی رہ گئی ہے کہ تم گاہکوں کو خود سنبھالو۔ یہ کہہ کر اس نے ماہ بانو کو غور سے دیکھا۔
فاقوں کے باوجود اس میں بھرپور کشش باقی تھی۔ بس ذرا میک اپ کی ضرورت تھی۔ پھر صمد نے بیوی سے کہا کہ وہ اب مناسب سا میک اپ کیا کرے اور کوئی اچھا سا سوٹ پہن کر گاہکوں سے خود پیسے وصول کیا کرے۔ ماہ بانو نے حیرت سے پوچھا: ایسا تم نے سوچا بھی کیسے؟ صمد بولا: میں نے نہیں سوچا، بہادر نے سوچا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ غربت کو شکست دینے کے بہت سے طریقے ہوتے ہیں۔ اسی نے مجھے سمجھایا ہے کہ مصیبت سے لڑنے کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ تم مالک کی گدی پر بیٹھ جاؤ۔ وہ آنے والا ہے، تاکہ تمہیں خود سمجھا سکے کہ عورتوں کو مردوں کے ساتھ مل کر کام کرنا چاہیے۔ اُس نے بھی اپنے ہوٹل میں ویٹرز کے طور پر عورتیں رکھی ہوئی ہیں۔ دیکھو اس کا ہوٹل کیسا چل رہا ہے، ہر وقت گاہکوں سے بھرا رہتا ہے اور دولت جیسے برستی ہے۔
صمد کی باتیں سن کر ماہ بانو خوف زدہ ہو گئی۔ اس نے چونک کر شوہر کی طرف دیکھا، اور یہ سوچ کر آنکھوں سے آنسو بہنے لگے کہ اس کے شوہر کی غیرت کو کیا ہو گیا ہے؟ کیا واقعی نشہ انسان کی حمیت اور غیرت کو ختم کر دیتا ہے؟ جب صمد نے اسے یونہی سوچتے ہوئے پایا، تو سختی سے حکم دیا کہ تیار ہو جاؤ اور اچھا سا سوٹ پہن لو، ابھی بہادر آنے والا ہے۔ ماہ بانو نے انکار کیا تو پہلی بار اس کا مجازی خدا اس پر بگڑ گیا، اُس کے منہ پر تھپڑ مارا اور زور سے دھکیل دیا، جس سے وہ فرش پر جا گری۔دو دن کی بھوکی ہے اور اب بھی اکڑ دکھا رہی ہے! ماں باپ تیرے مر گئے، اب آخر کہاں جائے گی؟ میں ابھی آتا ہوں، آدھے گھنٹے میں… میرے آنے سے پہلے ہاتھ منہ دھو کر تروتازہ ہو جانا! یہ کہہ کر وہ کمرے سے نکل گیا۔
اس کے جانے کے بعد، ماہ بانو سسکتی ہوئی اٹھی۔ اُس نے فیصلہ کر لیا کہ وہ مر جائے گی، لیکن کسی قیمت پر مردوں کا نشانہ نہیں بنے گی۔ ورنہ کل تک جو اس کے ہاتھ کی بنی چائے اور پکوڑوں کے عاشق تھے، وہ اس کے عاشق گاہک بن کر آنے لگیں گے۔ اس نے چائے خانے میں دوڑتے بھاگتے چوہوں کے لیے رکھی گئی زہریلی گولیاں اٹھائیں اور پھانک لیں۔ خالی پیٹ میں گولیوں نے فوراً اثر دکھایا۔ تکلیف شدید ہو گئی، جو اس کی برداشت سے باہر تھی۔ اُس کا دل چاہا کہ باہر جا کر کسی کو بتائے کہ اُس نے زہر کھا لیا ہے، تاکہ کوئی اُسے اسپتال لے جائے اور اس کی جان بچ جائے۔ اُس نے دروازے کی طرف جانے کی کوشش کی، مگر دہلیز پر ہی گر گئی۔ شاید بدن میں طاقت نہ رہی تھی، یا شاید اُس نے یہی سوچا کہ جسم کے پنجرے سے اپنی بے بس اور بے چین روح کو آزاد ہی ہو جانے دے۔ اس کی روح قفسِ عنصری سے پرواز کر چکی تھی۔
جب صمد خان کمرے میں آیا تو ماہ بانو دہلیز پر پڑی ملی۔ اُس کے ساتھ بہادر بھی تھا۔ دونوں نے مل کر اُسے اٹھا کر چارپائی پر لٹایا اور اس پر چادر ڈال دی۔ اب صمد خان کے چہرے پر ہوائیاں اُڑ رہی تھیں، اور خوف سے اس کا رنگ پیلا پڑ چکا تھا۔ بہادر نے فوراً پولیس کو فون کیا۔ تھوڑی دیر بعد پولیس آ گئی۔ وہ ماہ بانو کی لاش کے ساتھ صمد کو بھی ساتھ لے گئی۔ صرف گھر ہی نہیں بلکہ اس کے ہوٹل کو بھی تالہ لگا دیا گیا، اور جو چائے خانہ ایک زمانے میں “صد کا چائے خانہ” کہلاتا تھا، اب لوگوں کی زبان پر “بھوت ہوٹل” کے نام سے جانا جانے لگا۔
(ختم شد)