جن زادی کی قربانی

Sublimegate Urdu Stories

صبح کی پہلی کرن تھی جب حیدر اپنے کمرے میں میز پر بیٹھا چائے کا کپ ہاتھ میں تھامے رکھے تھا۔ گرم گرم چائے کی لذت سے سوجھی آنکھوں پر بوجھ ہلکا ہونے لگا اور وہ گہری سانسیں لے رہا تھا۔ سرد ہوا کا ہلکا سا جھونکا آیا تو حیدر کو محسوس 
ہوا جیسے یہ تازہ آغاز کی خوشخبری ہو۔

کچن سے والدہ آ کر اس کے کاندھے پر مسکراتے ہوئے ہاتھ رکھا اور پوچھا، "بیٹا، تیاری مکمل ہے؟ یونیورسٹی جانے کا بیگ تیار ہے؟"
حیدر نے گھبرا سا کر کے سر ہلایا، "جی امی، آج نیا سیشن ہے۔ سب ٹھیک ہے۔"
ماں نے عینک آنکھوں سے ہٹا کر ادھر ادھر دیکھا اور پھر بےفکری سے سر ہلایا۔ "پکڑ رکھنا ہر چیز وقت پر،" وہ پیار سے کہتی ہیں۔
حیدر نے بیگ اٹھایا اور باہر نکلا۔ گھر کے دروازے سے نکلتے ہی صبح کی روشنی میں پھولوں کی خوشبو اور ہوا کی سرسراہٹ سے دل تازہ ہو گیا تھا۔

حیدر یونیورسٹی کے بڑے گیٹ پر پہنچا تو چہل پہل دیکھ کر خوشی سے مسکرا اٹھا۔ ہر طرف نئے طلبہ اپنے لیے جگہ تلاش کر رہے تھے۔ دستاویزات کے اسٹال پر لوگ قطار میں کھڑے تھے اور تعارفی بینرز کے رنگ برنگے لٹک رہے تھے۔ گیٹ کے اندر ایک کشادہ کیمپس تھا جس کے وسط میں ایک بڑا میدان اور اس کے اردگرد سرسبز درخت تھے۔ صبح کی دھوپ شاخوں کے ہرے پتوں پر کھیل رہی تھی۔ حیدر نے محسوس کیا جیسے کیمپس اس کی توجہ اپنی طرف کھینچ رہا ہو۔

ہوا میں اسکول کی گھنٹی کی یاد دلانے والی خوشبو تھی اور کہیں سے کسی طالب علم کا مسکراتا چہرہ بھی جھلک رہا تھا۔ لڑکے باغیچے میں بیٹھ کر انگلش گرامر کی ڈسکشن کر رہے تھے، کچھ طالبات نئے آئی ڈی کارڈز بنوانے کے لیے قطار میں کھڑی تھیں۔ ایک کشادہ صحن کے گرد کرسیاں رکھی تھیں اور لوگ ان پر بیٹھے انسٹرکٹر کی تقریر سن رہے تھے۔ سامنے بڑی سکرین پر خیرمقدم کا پیغام چل رہا تھا اور پورے ہال میں خوشی کا ماحول تھا۔ حیدر بھی اس منظر میں کھویا ہوا کھڑا تھا، نئے کیمپس سے محبت میں مبتلا ہو گیا تھا۔

حیدر یونیورسٹی کے کمپیوٹر سائنس بلاک نمبر 2 کی جانب بڑھ گیا جہاں اس کے پہلے لیکچر کا انتظار تھا۔ راستے میں لگے نشانات اور طلبہ کے سوال و جواب نے اس کی راہنمائی کی۔ کلاس روم نمبر 108 کے دروازے پر پہنچ کر اس نے دیکھا کہ چند طالب علم پہلے ہی اندر بیٹھ کر گفتگو میں مصروف تھے۔ دیوار پر نئے سیشن کے کورس کا شیڈول چسپاں تھا۔ کلاس روم کے سامنے ایک درمیانی عمر کے لیکچرر کھڑے تھے جن کے چہرے پر مسکراہٹ اور جوانی کی چالاکی تھی۔ وہ بھرے ہوئے کلاس روم میں خوش آمدید کہتے ہوئے سبق کا خلاصہ بتا رہے تھے۔
حیدر اندر داخل ہوا تو اس نے ایک خالی کرسی کی طرف دیکھا جو قطار کے اوائل میں تھی۔ وہاں پہنچ کر اس نے اپنا بیگ اور کتابیں میز پر آرام سے رکھیں اور سامنے والے طالب علم کو مسکرا کر ہاتھ ہلایا۔

اس نے سامنے بیٹھے ایک لڑکے کو مسکراتے ہوئے دیکھ کر پوچھا، "آپ کا نام کیا ہے؟"
لڑکے نے جواب دیا، "علی۔ آپ؟"
حیدر نے کہا، "میں حیدر ہوں۔"
علی نے کہا، "خوش آمدید، حیدر۔ کہاں سے آئے ہو؟"
حیدر نے بتایا، "کراچی سے ہوں۔ گھر سے بہت دور آیا ہوں۔"
علی نے آنکھیں پھڑکائیں، "واہ، کراچی سے؟ ایسی بڑی یونیورسٹی میں ہاسٹل بھی ہے تمہارا؟"
حیدر نے کہا، "ہاں، امی نے بہت تیار کیا۔"
علی نے شفیق لہجے میں کہا، "مجھے علی کہتے ہیں۔ اچھا، چلو سامنے والی پہلی قطار پر بیٹھتے ہیں، وہاں گفتگو میں آسانی ہوگی۔"

وہ دونوں اٹھ کر سامنے والی میز کے قریب پہنچ گئے اور ایک ساتھ بیٹھ گئے۔
لیکچر ختم ہونے کے بعد حیدر پانی پینے کے لیے فوارے کی جانب گیا تو اسے ایک حسین لڑکی کھڑی نظر آئی۔ وہ ایک طرف درخت کے نیچے خاموش کھڑی تھی، ہاتھوں میں پانی کی بوتل لیے۔ لمبے سیاہ بال اس کے چہرے کا کچھ حصہ چھپا رہے تھے مگر اس کی روشنی بھری آنکھیں اور نرم مسکراہٹ واضح تھیں۔ حیدر نے پلک جھپکا کر خود پر قابو پانے کی کوشش کی، اس کا دل بے ترتیب دھڑک اٹھا تھا۔
وہ اتنی خاص اور الگ نظر آ رہی تھی کہ حیدر مسکرا پڑا۔ اسے محسوس ہوا یہ لڑکی باقی طلبہ سے مختلف ہے۔ اس کی خوبصورتی کچھ فطری اور پرکشش تھی، مگر ساتھ ہی اس میں ایک خاموش اور پراسرار کشش بھی تھی۔

زمرہ نے آہستگی سے پانی کا گھونٹ بھرا اور دست سے اپنے بال ہلائے، گویا وہ کسی تصور میں کھو گئی ہو۔ حیدر اس نظارے میں کھو گیا، جیسے اس کے سامنے کا منظر پھولوں کی سرسبز دنیا کی طرح تابناک ہو گیا ہو۔
حیدر نے ادب سے سلام کیا، "السلام علیکم۔"
زمرہ نے آہستگی سے مسکرا کر جواب دیا، "وعلیکم السلام۔"
حیدر نے پوچھا، "آپ بھی اس یونیورسٹی میں نئے ہیں؟"
زمرہ نے تھوڑا سر ہلایا اور کہا، "جی، آج پہلا دن ہے میرا۔"
حیدر نے جلدی سے اپنا نام بتایا، "میں حیدر ہوں۔"
زمرہ نے آہستگی سے اپنا نام بتایا، "زمرہ۔"

اس نے بہت نرم اور مدھم اندازِ لب میں مسکرایا۔ حیدر نے محسوس کیا کہ اس کی آواز میں حیرت انگیز سکوت اور شائستگی تھی۔ کچھ پلوں کے لیے محسوس ہوا گویا دنیا کی رفتار رک سی گئی ہو۔ عجیب سی الجھن اور چپ چاپ کشش نے حیدر کو گھیر لیا تھا۔ کلاس کی گھنٹی بجی تو طلبہ واپس اپنی نشستوں کی طرف بڑھ گئے۔ حیدر نے بھی مسکراتے ہوئے کہا، "چلیں، کلاس شروع ہونے والی ہے۔"
زمرہ نے ایک خاموش مسکراہٹ کے ساتھ سر ہلایا اور کلاس روم کی طرف روانہ ہو گئی۔ حیدر بھی واپس اپنی کرسی پر واپس لوٹ آیا۔

پھر حیدر دوبارہ کلاس میں بیٹھ گیا۔ لیکن اس کی نگاہ بار بار زمرہ کی طرف جاتی رہی جو آخری قطار کے ایک کونے میں خاموشی سے بیٹھی تھی۔ جیسے ہی لیکچر شروع ہوا استاد اپنا تعارف دے کر سبق کی باتیں شروع کر گیا، مگر حیدر کا دھیان کہیں اور تھا۔ ہر ایک آواز دھیمی پڑ گئی تھی اور استاد کا لہجہ دور محسوس ہو رہا تھا۔ وہ اپنے خیالات میں کھو گیا کہ زمرہ کتنی منفرد ہے۔ اس کی بڑی، گہری آنکھیں، نرم سرخ ہونٹ، اور چہرے کے خنک رخسار میں ایک پراسرار کشش تھی۔
لیکچر ختم ہوا تو طلبہ باہر نکل گئے۔ حیدر نے دل کی دھڑکن کو قابو میں رکھنے کی کوشش کی۔ اس کی آنکھوں کے سامنے زمرہ کا عکس اب بھی گہرا تھا۔ اس کی پرسکون خاموشی اور حسین چہرے کی جھلک ابھی بھی اسے کسی جادو کی طرح لپٹی محسوس ہو رہی تھی۔

وہ کتابوں کا بیگ کندھے پر اٹھائے کمرے سے باہر نکلا، مگر قدم ایسے اٹک رہے تھے جیسے کوئی اس کا راستہ روکنا چاہتا ہو۔ گھر واپس جاتے ہوئے بھی حیدر کے دل میں بےچینی جاگی رہی تھی۔ چاندنی رات میں ماند پڑے ستاروں کی روشنی اس کے ذہن میں زمرہ کے نام سے چمکنے لگی تھی۔


حیدر یونیورسٹی کے دروازے سے باہر آیا۔ شام کے رنگ مائل سورج کی تپش ابھی سردی میں تبدیل ہو رہی تھی۔ اس نے یونیورسٹی کے پارکنگ ایریا سے اپنی موٹر سائیکل نکالی اور سائیڈ پر کھڑی کر دی۔ اس کے ذہن میں تھکاوٹ بھی تھی اور کلاس کے بعد چائے پینے کی خواہش بھی تھی۔ کچھ ہی دیر بعد اس کے والد صاحب موٹر سائیکل پر سوار ہو کر وہاں پہنچ گئے۔ حیدر نے مسکرا کر پوچھا، ’’کلاس کیسی رہی بابا؟‘‘

والد صاحب نے موٹر پکڑتے ہوئے کہا، ’’سب ٹھیک ہے، لو گھر چلتے ہیں۔ تمہیں لے کر چلتے ہیں۔‘‘

حیدر نے اپنی بائیک سٹارٹ کی اور رفتہ رفتہ حرکت کی۔ اس کے پیچھے والد صاحب بھی اپنی موٹر سائیکل پر چپ چاپ سوار تھے، دونوں خاموشی سے راستے پر روانہ ہو گئے۔ لاہور کے چمکتے ہوئے راستے، روشن دکانوں اور مین روڈز سے گزرتے ہوئے حیدر کی موٹر سائیکل رواں رہی۔ کراچی سے آ کر لاہور کے ان بھیڑ بھری سڑکوں میں وہ بتدریج خود کو ڈھال رہا تھا۔ پورا خاندان کراچی چھوڑ کر اس کی پڑھائی کے لیے لاہور آیا تھا، اور اب حیدر اس نئی روشنی میں اپنے راستے بنا رہا تھا۔ چند منٹ بعد وہ اپنا گھر پہنچ گیا۔

گھر کا دروازہ کھلا ہوا تھا اور آنگن میں نرم مٹی کی خوشبو تھی۔ حیدر نے اندر قدم رکھا تو اس کی ماں صحن میں چائے کا کپ پکڑے بیٹھی تھیں۔ ’’السلام علیکم اماں، آپ ٹھیک ہیں؟‘‘ اس نے اندر آتے ہوئے پوچھا۔ ماں نے مسکرا کر جواب دیا، ’’و علیکم السلام بیٹے، ہاں الحمد للہ ٹھیک ہوں۔ دن کیسا گزرا؟‘‘

حیدر نے ناشتہ کرتے ہوئے بتایا کہ کلاس اچھی رہی اور سب ٹھیک ہے۔ شام کی چائے کے وقت سب نے مل کر عام سی باتیں کیں اور ایک دوسرے کے ساتھ ہنستے ہوئے وقت گزارا۔ رات کو حیدر کو گہری نیند آئی۔ اگلی صبح سورج کی سنہری کرنیں کھڑکی کے شیشے پر چمک رہی تھیں تو وہ اٹھ گیا۔ نیچے سے ہلکی روشنی پھیل رہی تھی، مگر پڑوسی کا گھر جو اس کی کھڑکی کے سامنے تھا، سحر کی روشنی میں بھی سنسان محسوس ہو رہا تھا۔ حیدر نے جھانک کر دیکھا—یہ مکان بہت بڑا اور پرسکون لگ رہا تھا، اس کی دیواریں سفید تھیں اور عریض برآمدہ پرسکون ماحول میں نہا رہا تھا۔ دروازہ بند تھا اور کوئی شخص باہر نہیں تھا۔ پورا محلہ خاموشی سے ڈوبا ہوا تھا۔

’’کتنا سنسان گھر ہے!‘‘ حیدر نے خود سے کہا۔ ’’لگتا ہے کئی دن سے یہاں کوئی نہیں آیا۔’’ اس نے سوچا کہ شام کو آ کر پڑوسی سے معلوم کرے گا، ابھی تو روبرو ہونے کی ہمت نہیں ہو رہی تھی۔ جلدی سے تیار ہو کر حیدر ناشتے کے لیے کچن میں گیا۔ اماں نے اس کے لیے پراٹھے اور چائے بنا رکھی تھی۔ ’’جلدی کھا لو بیٹا، تاکہ وقت پر نکل جاؤ،’’ ماں نے حوصلہ بڑھایا۔ حیدر نے ناشتہ کیا، کپڑے ٹھیک کیے اور رخصت ہونے کی تیاری کی۔ ’’شکریہ اماں، میں چلتا ہوں۔’’ اس نے کہا۔

ناشتے کے بعد حیدر اپنی موٹر سائیکل پر سوار ہوا۔ ہیلمیٹ پہن کر جب اس نے اپنا بیگ اٹھایا، اگلے ہی لمحے اس کی نظر پڑوسی گھر کی طرف گئی۔ دروازے کے پاس ایک لڑکی کھڑی تھی۔ حیدر نے گھبرا کر دیکھا—لمبی قامت، صاف شفاف جلد اور یونیورسٹی کا یونیفارم پہنے ایک لڑکی۔ آیا یہی پڑوسی زمرّہ تھی؟ اس نے ہمت کر کے مسکرا دیا اور بولا، ’’السلام علیکم زمرّہ! آپ بھی یونیورسٹی جا رہی ہیں؟‘‘
زمرّہ نے سر ہلایا اور مدھم لہجے میں جواب دیا، ’’وعلیکم السلام، جی ہاں، میں بھی اسکول جا رہی ہوں۔’’

حیدر نے موٹر سائیکل روک کر پوچھا، "کیا آپ یونیورسٹی نہیں جانا چاہیں گی؟ میں آپ کو لے جاتا ہوں۔" زمرّہ نے مسکرا کر کہا، "شکریہ، لیکن میں ٹھیک ہوں، میں اکیلے ہی چل لوں گی۔"

حیدر نے مسکرا کر جواب دیا، "جی ٹھیک ہے، پھر میں چلتا ہوں۔" اس نے ہیلمیٹ ٹھیک کیا اور بائیک اسٹارٹ کر دی۔ زمرّہ نے پیچھے مڑ کر ایک بار اس کی طرف دیکھا، پھر دروازے سے اندر جا کر خاموشی سے کھڑکی پر چلی گئی۔ حیدر نے موٹر چلائی اور یونیورسٹی کی طرف روانہ ہوا۔ راستے میں اس کے دماغ میں زمرّہ کی وہ پرسکون مسکان گھوم رہی تھی جس نے اس کی پیشکش ٹھکرا دی تھی۔ اس نے سوچا کہ اس لڑکی کے چہرے پر اداسی تھی اور بولتے ہوئے بھی تھوڑی سی دوری تھی، گویا اس کی دنیا بالکل الگ تھی۔

جیسے ہی حیدر نے یونیورسٹی کا گیٹ کراس کیا اور کلاس روم کا دروازہ کھولا، اس کی آنکھوں پر یقین نہ آیا۔ زمرّہ پہلے سے ہی کلاس میں موجود تھی! وہ کمرے کے پچھلے کونے میں بیٹھی کتاب میں مصروف تھی۔ حیدر نے گھورتے ہوئے دیکھا، مگر زمرّہ نے اس کی طرف ایک بار بھی نہ دیکھا۔ کلاس کے دوسرے طلباء گپ شپ میں مصروف تھے، مگر زمرّہ بالکل چپ تھی۔ استاد نے سب سے پوچھا، ’’کلاس تیار ہے؟‘‘ زمرّہ نے سر ہلا کر خاموشی سے ’’جی‘‘ کہا۔ اس نے اپنی کرسی پر آرام سے بیٹھ کر نوٹ بک نکالی اور کلاس شروع ہونے کا انتظار کیا۔ اس کے اردگرد کے بچے گپ شپ میں مصروف تھے، مگر زمرّہ خاموشی سے اپنے کام میں مگن تھی۔
حیدر نے خود سے سوچا، ’’یہ زمرّہ کون ہے اور کیوں وہ سب سے الگ ہے؟’’ سبق شروع ہو گیا، لیکن حیدر کی نظر زمرّہ پر جم گئی رہی۔ اس دن سے زمرّہ کی پراسراریت اس کے دل میں اتر گئی تھی، اور اس کے لیے اس کے اندر چھپے راز کو جاننا سب سے بڑا سوال بن گیا تھا۔

پچھلے چند مہینے ایسے ہی گزر گئے تھے۔ حیدر اور زمرّہ ایک دوسرے کے ساتھ بے حد بے تکلف ہو چکے تھے۔ یونیورسٹی میں ہر جگہ ان کی جوڑی نظر آتی تھی؛ چاہے کلاس روم ہو یا کیفے ٹیریا یا لائبریری، ہر جگہ وہ ساتھ رہتے تھے۔ حیدر پہلے کی نسبت اب بہت کھل کر زمرّہ سے بات کرتا تھا۔ وہ چھوٹی چھوٹی باتوں پر بھی ہنستا، اپنے روزمرّہ کے قصے اسے بتاتا اور ہر موضوع پر بلاجھجک گفتگو کر لیتا۔
ایک دن کیفے ٹیریا میں بیٹھے کھانے کا آڈر لینے کے دوران حیدر نے ہمت کر کے زمرّہ سے پوچھا، ‘کیا تمھارے گھر میں سب ٹھیک ہے؟’ زمرّہ نے پلک جھپکائے اور مسکراتے ہوئے کہا، ‘وہ سب ٹھیک ہیں۔ تمہیں یہ سب چھوٹی باتیں بتا کے کیا فائدہ؟’ اور فوراً اس نے موضوع بدل دیا، ‘ارے چلو، دو چائے بنا لیتے ہیں۔’ کچھ دن بعد حیدر نے پھر وہی سوال دہرایا، ‘کیا میں تمھیں اپنے گھر لے جا سکتا ہوں؟’ زمرّہ نے رک کر ہنستے ہوئے پوچھا، ‘کیا تم کچھ زیادہ جاننا چاہتے ہو؟ یہ سب چھوٹی باتیں ہیں۔’ اس کے کہنے پر وہ خاموش ہوگئی اور بات اچانک ادھوری چھوڑ گئی۔ حیدر خاموش ہو گیا اور مزید نہیں پوچھا۔

حیدر اکثر حیران رہ جاتا تھا کہ زمرّہ کے گھر میں کبھی کوئی دوسرا شخص کیوں نہیں دکھائی دیتا۔ کبھی اس نے سوچا کہ شاید زمرّہ اکیلی رہتی ہو، تو کبھی خیال آیا کہ خاندان ضرور ہے مگر وہ سامنے نہیں آتے۔ تاہم چونکہ اس نے زمرّہ پر بھروسہ کر لیا تھا، اس لیے اس معاملے میں اس نے اصرار نہ کیا۔ دل ہی دل میں وہ یہی سوچ کر خود کو مناتا رہتا تھا کہ اگر زمرّہ چاہے گی تو بتا دے گی، ورنہ اس کا اپنا فیصلہ ہے۔
ایک دن یونیورسٹی کے وقفے کے دوران حیدر لان میں بیٹھا تھا۔ کتاب ہاتھ میں لیے وہ پڑھنے میں مگن تھا کہ اچانک پانچ لڑکے قہقہے لگاتے ہوئے اس کے گرد جمع ہوگئے۔ ایک لڑکا اس کے سامنے کھڑا ہو گیا، دو پس منظر میں سینہ تان کر اور دو اطراف میں۔ پہلے لڑکے نے طنزیہ لہجے میں پوچھا، ‘یار، کوئی خاص امتحان ہے کیا؟’ حیدر نے جواب دیا، ‘نہیں، بس پڑھ رہا ہوں۔’ دوسرا بولا، ‘کیا تمہیں پڑھائی ہی پڑے گی؟ مزا نہیں آرہا؟’ ایک تیسرا آگے بڑھ کر بولا، ‘کتابیں چھوڑو، ساتھ کھیلتے کیوں نہیں؟’ ان کے چھیڑنے سے بات تلخ ہوتی گئی اور ایک لڑکا دھمکی سے بول پڑا، ‘چل، ذرا جگہ خالی کردو!’ وہ حیدر کے آگے آیا اور دھکا مار کر بولا۔ اس دوران باقی لڑکے اس کے گرد مزید گھیرے بنائے ہوئے تھے۔ حیدر گھبرا کر پیچھے ہٹنے لگا، مگر تمام اطراف سے وہ گھیرا ہوا تھا۔

اسی گھبراہٹ کے عالم میں اچانک فضا میں ٹھنڈی خاموشی چھا گئی۔ درختوں کی شاخیں ٹھہر گئیں اور پتوں کی سرسراہٹ رک گئی۔ ہوا کے ایک جھونکے کے ساتھ ایک گہرا سایا ان لڑکوں کے گرد پھیلنے لگا۔ حیدر کو لگا کہ اس کے کندھے پر کوئی ہاتھ پڑ گیا ہے، مگر جب اس نے پیچھے مڑا تو وہاں خالی جگہ تھی۔ اچانک اس سائے میں دو دمکتی ہوئی سرخ آنکھیں نمودار ہو گئیں — زمرّہ کی آنکھیں تھیں جو غصے سے سرخ جل رہی تھیں۔ پوری جگہ غیر مرئی خوف کی لہروں سے گونج اٹھی۔ لڑکے چونک گئے اور چند لمحوں میں ان کے پاؤں جم گئے۔ پھر جیسے ہی کسی ان دیکھی قوت کے خوف نے ان کے سینوں کو لپیٹ لیا، وہ ایک ساتھ پیچھے کی طرف بھاگ کھڑے ہوئے۔

حیدر حیران و پریشان رہ گیا۔ اس نے اردگرد دیکھا، لیکن درختوں کی شاخیں پہلے جیسی ہری تھیں اور لوگ معمول کی مصروفیات میں لگے ہوئے تھے، جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو۔ اس نے تیز سانس لی اور خود سے کہا، ‘شاید میں نے خواب دیکھا تھا۔’ مگر دل دھڑک رہا تھا۔ اس نے پیچھے مڑا اور جائے وقوعہ تلاش کرنے کی کوشش کی، مگر وہیں خالی جگہ تھی۔ اس نے اپنے ہاتھوں کو محکم پکڑا اور خود کو تسلی دی، مگر وہ جان گیا تھا کہ اس نے کچھ ایسے واقعات دیکھے ہیں جن کی تشریح عام معقولیت میں نہیں آتی۔

کچھ ہی دیر بعد حیدر کلاس روم واپس چلا آیا۔ کلاس شروع ہونے میں چند لمحے باقی تھے۔ اندر قدم رکھتے ہی اس کی نظر زمرّہ پر پڑی، جو اپنی سیٹ پر بالکل پرسکون مسکراتی بیٹھی تھی، بالکل ویسی ہی جیسے پہلے ہوا کرتی تھی۔ حیدر نے بے ساختہ سر ہلایا اور اپنی سیٹ پر بیٹھ گیا۔ دل ہی دل میں وہ سوچ رہا تھا کہ شاید اس نے سب کچھ خواب دیکھا تھا۔ مگر جب اس رات وہ سویا، تو اسے احساس ہوا کہ کچھ تو حقیقی طور پر ہوا ہے۔

یونیورسٹی کا پہلا سمیسٹر اپنے اختتامی موڑ پر تھا۔ ہر طرف پڑھائی کا شور، تیاریوں کی ہلچل، اور ذہنوں میں چھپا دباؤ۔ حیدر بھی انہی میں سے ایک تھا — مگر اس کے ذہن میں ایک اور شور تھا، جو کسی کتاب یا مضمون کا نہ تھا۔ زمرّہ۔
وہی زمرّہ جو خاموش رہتی تھی، سب سے الگ تھلگ، اور پھر بھی اس کی موجودگی سے فضا بوجھل ہو جاتی تھی۔ وہ جو نہ چاہتے ہوئے بھی حیدر کے دل میں ایک مقام بنا گئی تھی۔ ان مہینوں میں ان کے درمیان ایک ان کہی قربت پیدا ہو چکی تھی۔ رسمی گفتگو اب دوستی میں بدلنے لگی تھی، مگر اب… وہ غائب تھی۔

پہلے پیپر کے دن، حیدر نے کمرہ امتحان میں قدم رکھا، آنکھیں بے اختیار اس کرسی کو تلاش کرنے لگیں جہاں زمرّہ بیٹھا کرتی تھی۔ کرسی خالی تھی۔ دل نے سوچا، شاید آج نہیں آئی۔ دوسرے دن، پھر وہی منظر۔ اور تیسرے، چوتھے روز بھی وہی تنہائی۔
حیدر کی نظریں ہر بار اسی سمت گھوم جاتیں، جیسے کسی امید کی تلاش میں، جو بار بار بکھر جاتی۔ کچھ تو تھا اس خاموشی میں جو چیخ چیخ کر زمرّہ کی غیر موجودگی کو بیان کر رہا تھا۔

آخرکار، ایک شام، بےچینی نے حیدر کو مجبور کر دیا۔ اس نے اپنی بائیک نکالی اور زمرّہ کے گھر جا پہنچا — وہی خاموش، شاندار بنگلہ، جو ہمیشہ ہی پراسرار سا لگا کرتا تھا۔ گیٹ بند تھا۔ اس نے بیل دی، مگر اندر سے کوئی آہٹ نہ آئی۔ کچھ لمحے گزرے، پھر دوبارہ بیل دی۔ کئی منٹ گزر چکے تھے جب دروازہ آہستگی سے چرچراتے ہوئے کھلا۔

سامنے ایک عمر رسیدہ عورت تھی۔ چہرے پر جھریاں، آنکھوں میں سفیدی، جن میں بینائی نہیں بلکہ برسوں کا راز چھپا محسوس ہوتا تھا۔ ہاتھوں میں کپکپاہٹ، مگر وجود میں ایک عجیب ٹھہراؤ تھا۔ ایسا جیسے وہ صرف باہر سے بوڑھی ہو، اندر سے وقت کو جاننے والی ہو۔

حیدر نے سلام کیا اور نرم لہجے میں کہا،
"میں زمرّہ کا دوست ہوں، ہم یونیورسٹی میں ساتھ پڑھتے ہیں… وہ کچھ دنوں سے آ نہیں رہی، اس کی خیریت پوچھنے آیا ہوں۔"
عورت نے سر جھکایا، جیسے وہ یہ سوال پہلے ہی سن چکی ہو۔
"بیٹی اپنے گاؤں چلی گئی ہے۔ نارووال کے ایک طرف ہے وہ جگہ، یہاں سے کافی دور۔"
حیدر چونکا۔ "کب گئی؟ کیا سب خیریت ہے؟"
عورت کے لبوں پر ایک ہلکی سی مسکراہٹ تھی، جیسے وہ جانتی ہو کہ حیدر کی پریشانی محض دوستی نہیں۔
"وقت آنے پر سب پتا چل جائے گا، بیٹا۔ بس سمجھ لو، وہ اب کچھ وقت کے لیے تم لوگوں سے دور رہے گی۔"
حیدر نے درخواست کی، "کیا آپ پتہ دے سکتی ہیں؟"
عورت نے آسمان کی طرف چہرہ اٹھا کر کہا،
"راستے وہی دیکھتے ہیں جو سچے دل سے تلاش کرتے ہیں۔ تم بھی پا لو گے، اگر نیت صاف ہو۔"
حیدر الجھن لیے واپس گھر لوٹا، مگر اس کے دل نے ایک فیصلہ کر لیا تھا۔ پیپرز ختم ہوتے ہی وہ اس گاؤں جائے گا، چاہے کچھ بھی ہو۔ امتحان مکمل ہوتے ہی ایک دن اُس نے والدین سے اجازت مانگی۔
"امی، مجھے نارووال جانا ہے… ایک دوست کی خیریت لینے۔"
والدین پہلے تو حیران ہوئے، پھر سختی سے انکار کیا۔
"نہیں، اکیلا سفر نہیں کرو گے۔"

مگر حیدر کا اصرار، اس کی آنکھوں کی بےچینی، آخرکار والدین کو نرم کر گئی۔ چند شرائط کے ساتھ، اجازت دے دی گئی۔ اب حیدر کے قدم اس راستے پر تھے جو اسے صرف ایک لڑکی تک نہیں، بلکہ شاید ایک سچ، ایک خوفناک حقیقت تک لے جانے والا تھا… ایک ایسی حقیقت جو اس کی دنیا کو ہمیشہ کے لیے بدل سکتی تھی۔
فضا میں عجب سی اداسی گھلی ہوئی تھی۔ جیسے موسم، ہواؤں اور سورج نے بھی حیدر کے دل کی کیفیت کو محسوس کر لیا ہو۔ وہ صبح سویرے ہی جاگ گیا تھا۔ امی نے زبردستی ناشتہ کروایا، مگر حیدر کا دھیان کہیں اور تھا۔ دل جیسے تیز دھڑک رہا ہو، جیسے اسے کوئی بڑا واقعہ پیش آنے کا اندازہ ہو۔

بائیک اسٹارٹ کی، تو ماں کی دعاؤں کی بازگشت پیچھے گونج رہی تھی۔
"خدا خیر کرے، اکیلے نہ جانا ہوتا تو بہتر تھا، لیکن جا رہا ہے تو خیال رکھنا بیٹا۔"
حیدر نے ہلکا سا مسکرا کر سر ہلایا اور روانہ ہو گیا۔ لاہور کی گلیاں پیچھے رہ گئیں۔ شہر کی آوازیں، شور، ٹریفک، سب آہستہ آہستہ خاموشی میں بدلتا گیا۔ اب آس پاس کھیت تھے، کبھی ویران سڑکیں، اور کبھی چھوٹے موٹے گاؤں جن کے باہر لکڑی کے چھپر، بھینسوں کی آوازیں، اور اجنبی نظروں والے چہرے تھے۔
راستہ جتنا طویل تھا، حیدر کا دل اتنا ہی بےچین۔

"زمرّہ… تم کیوں یوں اچانک غائب ہو گئیں؟ اور وہ عورت… اس کی باتوں میں کچھ تو تھا۔" نقشے اور چند دیہاتیوں کی رہنمائی سے حیدر نے آخرکار اس گاؤں کا راستہ پا لیا۔ ایک خاموش سا گاؤں، جس کے باہر لکڑی کا پرانا بورڈ آویزاں تھا:
"چک راماں، ضلع نارووال" گاؤں کے اندر داخل ہوتے ہی فضا کچھ اور محسوس ہوئی۔ جیسے وقت تھم سا گیا ہو۔ کچھ بچے سست روی سے کھیل رہے تھے، چند عورتیں چھاچھ کے برتن لیے جا رہی تھیں، اور مرد بیل گاڑیوں میں مصروف تھے۔ لیکن ان سب میں ایک چیز مشترک تھی — وہ سب حیدر کو بہت غور سے دیکھ رہے تھے، جیسے وہ یہاں کا نہ ہو… جیسے وہ کسی اور دنیا کا فرد ہو۔
حیدر نے ایک بچے سے پوچھا،
"بیٹا، زمرّہ بی بی کا گھر کس طرف ہے؟"

بچہ فوراً سنجیدہ ہو گیا، اور خاموشی سے ایک پرانی گلی کی طرف اشارہ کیا، جہاں ایک ٹوٹی پھوٹی سی اینٹوں کی دیوار اور اس کے پیچھے ایک بڑا سا، بند دروازہ نظر آ رہا تھا۔ وہی گھر… حیدر کا دل تیزی سے دھڑکنے لگا۔
وہ دروازے تک پہنچا، بیل دی — اور انتظار کرنے لگا۔

چند لمحے بعد، وہی پرانی عورت نمودار ہوئی، جو لاہور میں زمرّہ کے گھر پر ملی تھی۔ وہی سفید آنکھیں، وہی دھیمی مسکراہٹ، وہی پراسرار خاموشی۔
"تم آ گئے؟"
اس نے جیسے پہلے سے جانا ہو۔
حیدر نے حیرانی سے کہا،
"آپ کو کیسے پتا؟"
عورت نے ہلکا سا قہقہہ لگایا، "دل کی آنکھ دیکھتی ہے، بیٹا۔ تم جس تلاش میں ہو، وہ یہاں ہے — مگر ہر سچ تمہارے جاننے کے لیے نہیں ہوتا۔"
"زمرّہ… کیا وہ یہاں ہے؟"
حیدر کی آواز میں سوال سے زیادہ التجا تھی۔
عورت نے دروازے کی طرف دیکھا، جیسے کچھ سن رہی ہو، پھر آہستہ کہا:
"وہ یہاں ہے، لیکن تمہیں اس تک پہنچنے کے لیے ایک اور دروازہ عبور کرنا ہوگا… اور وہ دروازہ تمہارے دل میں ہے، نہ کہ کسی مکان میں۔"
حیدر نے ایک قدم آگے بڑھایا،
"میں اسے دیکھنا چاہتا ہوں، اس سے بات کرنا چاہتا ہوں… وہ میری دوست ہے۔"
عورت خاموش ہوئی۔ پھر ایک دم اس کی آواز بدل گئی — سنجیدہ، ٹھہری ہوئی، جیسے ہوا میں گونج گئی ہو:
"تو پھر آج رات یہیں رک جاؤ۔ صبح ہونے سے پہلے تمہیں وہ نظر آئے گی… اگر تم سچ میں اس کے قابل ہوئے۔"
حیدر پیچھے ہٹ گیا، حیرت سے اسے دیکھتا رہا۔
"مگر رات کیوں؟ وہ اب کیوں نہیں…؟"

عورت اندر چلی گئی۔ دروازہ آہستگی سے بند ہو گیا ۔ جیسے کسی کتاب کا صفحہ بند ہو جائے، مگر کہانی ابھی ختم نہ ہوئی ہو۔ حیدر خاموش کھڑا رہا۔ وہ جانتا تھا کہ اب پیچھے ہٹنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ وہ زمرّہ سے ملے بغیر واپس نہیں جائے گا — چاہے رات کی تاریکی میں اسے کسی سایے سے سامنا ہی کیوں نہ کرنا پڑے۔
رات آہستہ آہستہ گاؤں پر اتر رہی تھی… اور اس کے ساتھ ساتھ ایک نیا پردہ اُٹھنے والا تھا۔ گاؤں کی راتیں شہر سے مختلف ہوتی ہیں۔ وہاں شور نہیں ہوتا، نہ ہارن، نہ تیز روشنیوں کا ہجوم۔ بس ایک خاموشی… جو دھیرے دھیرے ہر چیز پر حاوی ہو جاتی ہے۔ حیدر آج اس خاموشی کا حصہ بن چکا تھا۔

وہ عورت  جس کی آنکھوں میں وقت رک چکا تھا — حیدر کو ایک کمرے میں لے آئی۔ مٹی کی دیواریں، ایک پرانا بستر، اور چھت پر لٹکتی ایک مدھم پیلی روشنی۔
"یہاں آرام کرو… رات لمبی ہو سکتی ہے،"

عورت نے کہا، اور بغیر کچھ اور بولے باہر چلی گئی۔
حیدر خاموشی سے بیٹھ گیا۔ دل میں ہزاروں سوال، لیکن زبان پر ایک بھی نہیں۔ کھڑکی سے باہر جھانکا تو پورا گاؤں نیند میں ڈوبا ہوا محسوس ہوا، مگر فضا میں ایک عجیب سا احساس، جیسے کچھ ہونے والا ہو۔
وقت گزرتا گیا۔ گھڑی کی سوئیاں جیسے سست ہو گئی ہوں۔
تب ہی — ایک ہلکی سی سرگوشی… جیسے کسی نے اس کے کان میں آہستہ سے پکارا ہو:
"حیدر…"

اس نے چونک کر پیچھے دیکھا۔ کمرہ خالی تھا۔ وہ دروازے کی طرف لپکا، مگر وہاں بھی کوئی نہیں تھا۔ روشنی مزید دھندلا گئی تھی۔ پھر اچانک — کھڑکی سے باہر سفید دوپٹہ لہراتا ہوا دکھائی دیا۔ حیدر بے اختیار دروازے کی طرف لپکا اور باہر نکل آیا۔
ٹھنڈی ہوا اس کے چہرے سے ٹکرائی۔ پورا گاؤں سناٹے میں تھا، مگر ایک سمت سے چاندنی میں نہائی ہوئی ایک شبیہ چلتی ہوئی دکھائی دی۔ وہ دور تھی، لیکن آہستہ آہستہ واضح ہوتی جا رہی تھی۔ سفید لباس، کھلے بال، پرسکون چال
زمرّہ۔ "زمرّہ!"
حیدر نے پکارا، مگر وہ نہیں رکی۔ جیسے وہ سن تو رہی ہو، مگر سننا نہ چاہتی ہو۔
حیدر اس کے پیچھے چل پڑا۔ گاؤں سے تھوڑا ہٹ کر، ایک درختوں سے گھری جگہ پر وہ شبیہ رک گئی۔ ہوا تھم گئی، رات اور گہری ہو گئی۔
حیدر آہستہ قدموں سے اس کے قریب پہنچا۔
"تم… تم یہاں ہو؟"

زمرّہ آہستہ سے مڑی۔ اس کے چہرے پر وہی خاموشی، وہی تھکن، اور وہ آنکھیں — جو ایک ہی پل میں ہزاروں سوال پوچھتی بھی تھیں اور جواب دیتی بھی۔
"تم کیوں چلی گئیں؟ کچھ بتائے بغیر؟"
حیدر کی آواز میں خفگی اور پریشانی دونوں تھیں۔
زمرّہ نے نظریں چرا لیں۔
"میں کبھی مکمل یہاں تھی ہی نہیں، حیدر۔"
"مطلب؟"
حیدر ایک قدم اور قریب ہوا۔
زمرّہ نے پل بھر کو نظریں اٹھائیں —
وہی آنکھیں… اب گہری، دھندلی، جیسے روشنی نگل رہی ہو۔
"تم نہیں سمجھو گے… اور شاید جاننا بھی نہ چاہو۔"
حیدر خاموش ہو گیا۔