جن زادی کی قربانی - آخری حصہ

Sublimegate Urdu Stories

تب اچانک… ہوا میں خفیف سی سرسراہٹ ہوئی، جیسے کہیں سے کچھ آ رہا ہو۔ درختوں کے پتّے ہلنے لگے، اور زمرّہ نے نظریں ادھر موڑ لیں۔ اس کی آنکھوں میں اب وہی سرخی لوٹ آئی — جو حیدر نے اس دن یونیورسٹی کے باہر دیکھی تھی، مگر اس وقت وہ خود بھی اس پر یقین نہ کر سکا تھا۔ حیدر نے حیرت سے پیچھے دیکھا، مگر وہاں کچھ نہیں تھا۔ پھر جب دوبارہ زمرّہ کی طرف دیکھا — وہ وہاں نہیں تھی۔ "زمرّہ!"

حیدر نے آواز دی، پر اب صرف ہوا تھی، جو اس کے گرد گھوم رہی تھی… اور زمین کی نمی جو اس کی بےچینی کو جذب کر رہی تھی۔ وہ خاموشی سے واپس پلٹ گیا۔ اس رات، حیدر نے پہلی بار زمرّہ کو ایک خواب کی مانند محسوس کیا… مگر وہ خواب، حقیقت سے زیادہ سچ لگا۔ صبح کی پہلی کرن جیسے زمین پر بھیجا گیا کوئی سوال ہو، جس کا جواب ہوا بھی دینے سے قاصر ہو۔ حیدر رات کے اس پراسرار واقعے کے بعد جاگا تو بدن میں عجیب سی بےچینی تھی۔ نیند تو جیسے کمرے کے در و دیوار سے روٹھ چکی تھی۔

وہ کمرے سے باہر نکلا تو حویلی کی راہداری میں وہی بوڑھی عورت، سفید دوپٹے میں لپٹی، زمین پر بیٹھی کچھ دھاگے بُن رہی تھی۔ حیدر آہستگی سے اس کے پاس پہنچا۔ "امّی جی… مجھے آپ سے کچھ پوچھنا ہے۔" عورت نے سر اٹھایا۔ اس کی آنکھیں اب بھی بند تھیں، لیکن چہرے پر وہی پرانا سکون تھا۔ "پوچھ لو، بیٹا۔ سچ وہ ہوتا ہے جو وقت پر ظاہر ہو۔ لیکن کچھ سچ وہ بھی ہوتے ہیں جو وقت سے پہلے بتانے ہوں… ورنہ نقصان ہو جاتا ہے۔"

حیدر کا دل زور سے دھڑکنے لگا۔ "زمرّہ کہاں ہے؟ وہ رات کو یہاں آئی تھی… میں نے خود دیکھا اسے۔ پھر وہ غائب ہو گئی۔ آپ جانتی ہیں نا وہ کون ہے؟"
عورت نے خاموشی سے دھاگے بُننا بند کیا، اور اپنے بند آنکھوں والے چہرے کو آسمان کی طرف موڑا۔ "تم اسے دیکھ سکے، یہ تمہارے مقدر کی پہلی علامت ہے۔ لوگ اُسے نہیں دیکھ سکتے۔ وہ جب چاہے، جہاں چاہے آ سکتی ہے۔ مگر تم… تم اسے دیکھتے ہو، سنتے ہو، اور شاید… سمجھنے کی کوشش بھی کر رہے ہو۔"
حیدر کی سانس رک سی گئی۔ "تو وہ… انسان نہیں؟" عورت نے ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ سر ہلایا۔ "وہ کچھ اور ہے، بیٹا۔ اُس کا وجود عام نہیں… اس کا عکس، اس کی آواز، اس کی موجودگی… سب کچھ مختلف ہے۔"

"لیکن وہ یونیورسٹی میں آتی ہے، مجھ سے بات کرتی ہے، میرے ساتھ ہنستی ہے… وہ عام سی لگتی ہے!"
حیدر کی آواز بےچینی سے لرز رہی تھی۔
"ظاہر کی آنکھ اکثر دھوکہ کھاتی ہے۔ لیکن تمہارے ساتھ جو کچھ ہو رہا ہے، وہ ایک آزمائش بھی ہے، اور شاید کسی بڑے فیصلے کا پہلا قدم بھی۔"
حیدر کی پیشانی پر پسینہ اُتر آیا۔
"لیکن… وہ مجھ سے دور کیوں چلی گئی؟ اور اب واپس کیوں نہیں آتی؟"
بوڑھی عورت نے اپنی انگلی آسمان کی طرف اٹھائی۔
"وہ خود نہیں آئے گی۔ تمہیں جانا ہوگا۔ اس سے ملنے۔ اسے یقین دلانے… کہ تم اس سچ کو قبول کر سکتے ہو جو تمہارے سامنے آ چکا ہے۔"
حیدر خاموشی سے سن رہا تھا۔ دل میں ہلچل، ذہن میں دھواں۔
"تم جاؤ گے، بیٹا؟ اُس سے ملنے؟"
عورت نے آہستہ سے پوچھا۔
حیدر نے نظریں اٹھائیں، اور پہلی بار، وہ دل کی گہرائی سے بولا:
"ہاں… میں اسے ڈھونڈوں گا۔ جو بھی ہو… زمرّہ کو دیکھے بغیر اب دل نہیں مانتا۔"
عورت نے ہلکے سے سر ہلایا۔
"بس، اتنا یاد رکھو… ہر سچ کا وقت ہوتا ہے۔ اور کچھ سچ… خاموشی سے قبول کرنے کے لیے ہوتے ہیں۔"
حیدر نے گہری سانس لی، اور آسمان کی طرف دیکھا — جہاں بادلوں میں چھپی روشنی، زمرّہ کی آنکھوں کی طرح عجیب مگر دلکش محسوس ہو رہی تھی۔
رات پھر سے گہری ہو چکی تھی۔ آسمان پر چاند جیسے کسی صدمے میں مدھم ہو گیا تھا، اور ہوائیں درختوں کے پتوں میں کسی ادھورے فسانے کی سرگوشی کر رہی تھیں۔ حیدر بستر پر کروٹیں بدل رہا تھا۔ دن میں جو کچھ اس بوڑھی عورت نے بتایا تھا، وہ دل سے چپک گیا تھا جیسے کوئی بوجھ۔ نیند تو جیسے بھاگ گئی تھی، اور آنکھوں کے آگے صرف زمرّہ کا چہرہ تیر رہا تھا۔

اسی لمحے، جیسے ہوا نے کوئی آہٹ سنائی ہو۔ حیدر نے آنکھیں کھولیں — اور وہی چمکتی آنکھیں، وہی نرم پر اسرار سا وجود، اس کے کمرے میں کھڑا تھا۔
زمرّہ۔ وہ آج کچھ اور لگ رہی تھی۔ اس کے گرد ہلکی سی روشنی کا ہالہ، اور آنکھوں میں ایک الگ سی چمک تھی… جو خوف، بےبسی اور محبت کا امتزاج لیے ہوئے تھی۔ حیدر کا دل جیسے رک گیا۔ "زمرّہ… تم؟ تم یہاں؟"
زمرّہ نے آہستہ سے قدم بڑھائے، اور اُس کے قریب بیٹھ گئی۔
"میں وعدہ کرکے گئی تھی کہ خود نہیں آؤں گی… لیکن دل نے اجازت نہیں دی، حیدر۔"

حیدر خاموش رہا۔ بس اُس کی موجودگی کو محسوس کرتا رہا۔ جیسے کوئی خواب ٹوٹنے سے پہلے کا لمحہ ہو۔ زمرّہ کی آواز دھیمی، لیکن صاف تھی۔
"حیدر… میں تمہیں ایک سچ بتانے آئی ہوں۔ ایک ایسا سچ جو تمہارے ہر سوال کا جواب ہے… اور شاید ہماری ہر ملاقات کا بھی۔"
حیدر کی سانس رک گئی۔
"کیا مطلب؟"
زمرّہ نے نظریں جھکائیں، اور آہستگی سے بولی:
"میں… میں انسان نہیں ہوں، حیدر۔ میں جن زادی ہوں۔"

کمرے کی فضا جیسے ساکت ہو گئی ہو۔ حیدر نے پلکیں جھپکائیں، لیکن کچھ کہہ نہ سکا۔ "میں لاہور میں، تمہارے ساتھ والے گھر میں رہتی تھی۔ اپنے خاندان کے ساتھ۔ ہم تمہاری دنیا میں آ کر چھپ کر رہتے ہیں… عام انسانوں کی نظر سے اوجھل۔ لیکن تم… تم نے مجھے دیکھا، محسوس کیا… تم مجھ سے بات کرتے تھے جیسے میں عام ہوں۔ اور میں… میں تمہارے اس سادہ پن میں کھو گئی۔ تمہارے لفظوں میں، تمہارے خاموش رویّے میں… میں خود کو پہچاننے لگی۔"

زمرّہ کی آواز اب لرز رہی تھی، جیسے دل کے اندر کوئی چیز ٹوٹ رہی ہو۔
"اور اب… جب میں خود کو تمہارے ساتھ محسوس کرنے لگی ہوں، میرے خاندان نے میرے لیے ایک فیصلہ کر لیا ہے۔ میری شادی… ایک دیوہیکل جن سے طے کر دی گئی ہے۔"
حیدر کے چہرے پر ہوائیاں چھا گئیں۔
"کیا… تم یہ چاہتی ہو؟"
زمرّہ نے آہستہ سے سر ہلایا۔
"نہیں۔ کبھی نہیں۔ میرا دل کہیں اور بندھ چکا ہے… اور وہ بندھن تم ہو، حیدر۔"
ایک لمحے کے لیے مکمل خاموشی چھا گئی۔ جیسے وقت بھی رُک گیا ہو۔
حیدر نے ہولے سے زمرّہ کا ہاتھ تھام لیا، جس میں سردی کے ساتھ ایک عجیب سی توانائی تھی۔
"تم چاہو تو میں کچھ بھی کر سکتا ہوں، زمرّہ۔ بس تم مجھے خود سے دور مت کرو۔"
زمرّہ نے دھندلی آنکھوں سے مسکراتے ہوئے اُس کی طرف دیکھا۔
"میں آئی تھی تمہیں بتانے، کیونکہ مجھے یقین تھا کہ تم سنو گے… سمجھو گے۔ اور شاید… میرا انتظار بھی کرو گے۔"
اتنا کہہ کر وہ آہستہ آہستہ اُس روشنی میں تحلیل ہونے لگی جو اُسے گھیرے ہوئے تھی۔ حیدر نے بےاختیار آواز دی:
"زمرّہ! مت جاؤ…"
لیکن وہ جا چکی تھی۔

کمرہ پھر سے خاموش ہو چکا تھا، لیکن حیدر کے دل میں اب ایک فیصلہ دھڑک رہا تھا۔ وہ زمرّہ کو واپس لائے گا، چاہے دنیا کسی بھی جنس یا ذات کی کیوں نہ ہو۔
صبح کی روشنی جب کھڑکی سے اندر در آئی، تو حیدر کی آنکھیں جاگتی تھیں۔ وہ ساری رات جاگا تھا۔ زمرّہ کی باتیں، اُس کی آنکھوں کا کرب، اور اس کے الفاظ… “میرا دل کہیں اور بندھ چکا ہے…”  ہر پل جیسے دل میں گونج رہے تھے۔
حیدر کا دل بےچین تھا۔ وہ جانتا تھا اب سب کچھ ویسا نہیں رہا جیسا پہلے تھا۔ اب زمرّہ کوئی راز نہیں تھی، بلکہ ایک حقیقت تھی ۔ ایک ایسی حقیقت جس نے حیدر کی دنیا بدل دی تھی۔

دن گزرے، لیکن حیدر کی بےقراری بڑھتی گئی۔ ہر لمحہ زمرّہ کے خیال سے جڑا تھا۔ وہ اُس کے لہجے کو، اُس کی موجودگی کو، اُس کی آنکھوں کی خاموشی کو یاد کرتا۔ اُس نے خود سے وعدہ کیا تھا کہ وہ ہار نہیں مانے گا۔ اگر زمرّہ کا دل اُس کے ساتھ ہے، تو وہ اُسے پا کر رہے گا۔ چاہے زمرّہ کی دنیا انسانوں جیسی نہ بھی ہو۔
اگلی رات حیدر پھر سے اُس بوڑھی عورت کے دروازے پر پہنچا۔ اُس کے قدموں میں تیزی تھی، اور دل میں صرف ایک طلب زمرّہ سے ملاقات۔
دروازہ کھلا۔ وہی پرانی، نابینا عورت خاموشی سے سامنے آئی۔ اُس کے چہرے پر عجیب سی سنجیدگی تھی۔

"پھر آ گیا تُو؟" اُس نے ہولے سے کہا۔
حیدر نے آہستہ آواز میں کہا، "میں جانتا ہوں آپ سب کچھ جانتی ہیں۔ مجھے زمرّہ سے ملنا ہے۔ بس ایک بار۔"
بوڑھی عورت نے کچھ دیر خاموش رہ کر کہا، "جس سے ملاقات نصیب ہو، اُس سے فاصلہ بھی مقدر میں لکھا جاتا ہے۔ تُو یہ بات سمجھتا ہے؟"
حیدر کی آنکھیں نم ہو گئیں، "میں اُس سے فاصلہ نہیں چاہتا… صرف سچ چاہتا ہوں۔"
بوڑھی نے آہستہ سے گردن ہلائی، "تو جا… اگر وہ چاہے گی تو ملے گی۔"
حیدر حیران ہوا، "کیا وہ یہاں ہے؟"
عورت نے کچھ نہ کہا، بس دروازہ بند کر لیا۔
حیدر باہر کھڑا رہا۔ رات کی خاموشی میں وہی احساس، وہی بےقراری پھر سے جاگ اٹھی۔ اور پھر… جیسے فضا میں کوئی آہٹ ابھری۔
ہوا میں وہی روشنی ابھری۔ وہی آشنا سی مہک، اور پھر زمرّہ… وہ سامنے کھڑی تھی۔ آنکھوں میں نمی، لبوں پر خاموشی، اور دل میں طوفان۔
حیدر ایک قدم آگے بڑھا، "زمرّہ…"
زمرّہ نے نظریں چُرا لیں، "مجھے نہیں آنا چاہیے تھا… لیکن تمہارے لہجے نے مجھے روک نہ سکا۔"
"تم جانتی ہو، تم مجھے چھوڑ کر جا نہیں سکتیں۔ تم نے خود کہا تھا تمہارا دل…"
"ہاں، حیدر۔ میرا دل تمہارا ہے۔ لیکن میری دنیا… وہ نہیں مانے گی۔"
حیدر نے بےبسی سے اُسے دیکھا، "کیا دنیا اتنی اہم ہے کہ دل کی سچائی قربان ہو جائے؟"
زمرّہ کی آنکھیں بھر آئیں۔ "تم انسان ہو، اور میں… جن زادی۔ میرے لیے جذبات رکھنا بھی ہمارے قبیلے میں گناہ سمجھا جاتا ہے۔ اور جس سے میری شادی طے کی گئی ہے… وہ طاقت میں بہت بلند ہے۔"
حیدر نے مضبوطی سے کہا، "طاقت دل کو نہیں جیت سکتی، زمرّہ۔ صرف محبت کر سکتی ہے۔"
زمرّہ نے پلٹ کر حیدر کی طرف دیکھا، اُس کی آنکھوں میں روشنی تھی… جیسے ایک اندھیرے غار میں کوئی شعلہ جل اٹھا ہو۔
"میں تم سے وعدہ کرتی ہوں، حیدر… میں لڑوں گی۔ اپنی دنیا سے، اپنے مقدر سے۔ لیکن اگر کبھی… کبھی میرا سایہ بھی تم پر بوجھ بنے، تو وعدہ کرو… تم خود کو سنبھالو گے۔"
حیدر نے اُسے دیکھ کر کہا، "زمرّہ، تم بوجھ نہیں ہو… تم میری روشنی ہو۔ میں تمہیں کبھی تنہا نہیں چھوڑوں گا۔"
زمرّہ نے پہلی بار مسکرا کر آنکھیں بند کیں، اور آہستہ سے اُس کی گرفت سے نکلتی چلی گئی۔ وہ پھر ہوا میں تحلیل ہو گئی، لیکن حیدر جانتا تھا… اب وہ تنہا نہیں۔ اُس کا دل اب کسی اور دل سے بندھا تھا — ایک ایسی محبت سے جو جسمانی وجود سے ماورا تھی، مگر احساس میں ابدی۔۔
***
رات کی تاریکی ابھی گہری نہ ہوئی تھی، لیکن حیدر کا دل بےقرار تھا۔ زمرّہ کی آخری ملاقات نے اُس کے دل میں ایک نئی آگ جلا دی تھی۔ وہ جان چکا تھا کہ محض عوے کافی نہیں اُسے کچھ کرنا ہوگا۔ اسی بیچ، گاؤں کی مسجد کے امام صاحب نے اُسے ایک بزرگ شخص کا بتایا تھا، جو ساتھ والے گاؤں “چندرالی” میں رہتے تھے۔ لوگ کہتے تھے کہ وہ بزرگ جنات کی دنیا سے واقف ہیں، اور اُن کی نگاہیں چیزوں کو دیکھ لیتی ہیں جو عام آنکھوں سے اوجھل رہتی ہیں۔

اگلی صبح حیدر پیدل ہی نکل پڑا۔ راستہ خاموش اور ویران تھا۔ اُس کے قدموں میں ایک عزم تھا اور دل میں صرف ایک نام: زمرّہ۔ چندرالی گاؤں میں پہنچ کر، اُس نے ایک بوڑھے درخت کے نیچے بیٹھے شخص کو دیکھا۔ لمبی سفید داڑھی، سادہ لباس، اور آنکھوں میں ایک اجنبیت سی چمک۔ "السلام علیکم بابا جی،" حیدر نے ادب سے کہا۔ بزرگ نے سر اٹھایا، جیسے پہلے ہی جانتے ہوں کہ کون آیا ہے۔ "تو آ ہی گیا… اُس کی تلاش میں۔"
حیدر چونکا، "آپ کو کیسے…؟"

بزرگ مسکرا کر بولے، "جن زادیاں اپنے نشان چھوڑ جاتی ہیں۔ اور جو دل سچے ہوں، وہ ہمیں دکھائی دیتے ہیں۔ بیٹھ جا۔"
حیدر خاموشی سے اُن کے سامنے بیٹھ گیا۔
"زمرّہ کی دنیا کوئی عام دنیا نہیں، بیٹا۔ وہ ایک ایسی دنیا ہے جہاں قوانین، وقت، اور جذبے — سب کچھ مختلف ہوتا ہے۔"
حیدر نے ہمت کرتے ہوئے کہا، "بابا جی، مجھے وہاں جانا ہے۔ مجھے اُس تک پہنچنا ہے۔"

بزرگ نے سنجیدگی سے کہا، "یہ سفر روح سے ہوتا ہے، جسم سے نہیں۔ اگر تُو واقعی تیار ہے، تو میں تجھے دروازہ دکھا سکتا ہوں… لیکن اُس کے بعد تیرا لوٹنا، تیرے حوصلے پر منحصر ہوگا۔"
حیدر نے فوراً کہا، "مجھے پرواہ نہیں۔ اگر میرا دل اُس کے لیے دھڑکتا ہے، تو میں ہر دنیا، ہر دیوار پار کرنے کو تیار ہوں۔"
بزرگ نے زمین پر ایک دائرہ کھینچا۔ کچھ الفاظ زیرِ لب بڑبڑائے، اور ایک ہلکی سی سرد لہر نے حیدر کو چھو لیا۔

"اب آنکھیں بند کر… اور صرف اُس کے بارے سوچ، جس کے لیے تُو آیا ہے۔"
حیدر نے آنکھیں بند کیں۔ زمرّہ کا چہرہ، اُس کی آواز، اُس کی آنکھوں کی اداسی — سب ایک ایک کر کے اُس کے سامنے آنے لگے۔ اور پھر… جیسے زمین کھسکنے لگی۔ فضا گہری، سرد اور خاموش ہو گئی۔
جب اُس نے آنکھیں کھولیں، تو وہ کسی اور مقام پر تھا۔ آسمان سرمئی تھا، درخت گہرے سائے جیسے۔ خاموشی ایسی جیسے سب کچھ سن رہا ہو۔ اور سامنے… ایک پتھریلا راستہ، جو کہ جیسے اُسے کسی پوشیدہ بستی کی جانب بلاتا تھا۔
حیدر جان گیا — اُس نے زمرّہ کی دنیا میں قدم رکھ دیا ہے۔
حیدر نے آنکھیں کھولیں تو اُس کے گردوپیش کی فضا میں وہ دھواں سا معلق تھا، جیسے ہر شے ایک خواب کی سطح پر ہو — بےجان مگر زندہ، ساکت مگر متحرک۔ یہ دنیا، جس کا نہ کوئی سورج تھا نہ چاند، صرف نیلے اور سیاہی مائل دھندلکے میں لپٹی زمین، ہوا میں بکھرتی سرگوشیاں، اور دور کہیں وحشت ناک سانسوں کی گونج تھی۔

حیدر کی سانس رکنے لگی۔ سامنے پہاڑوں جیسے بڑے سائے حرکت کرتے دکھائی دیے۔ یہ مخلوقات انسانوں جیسی نہ تھیں — ان کے جسم انسانوں کے تین گنا بڑے، آنکھیں سرخ، اور چہرے پر جلی ہوئی کھال جیسی پرتیں۔ کچھ کے جسم سے دھواں اٹھ رہا تھا، کچھ کے پنجے زمین میں دھنسے تھے، اور وہ اپنے درمیان کسی نامعلوم زبان میں خراش زدہ آوازوں میں باتیں کر رہے تھے۔ حیدر نے خود کو چھپانے کی کوشش کی۔ وہ ایک پرانی جڑ کے پیچھے دبک گیا۔ اُس کا دل زور زور سے دھڑک رہا تھا، مگر اُس کی نگاہیں مسلسل زمرّہ کو تلاش کر رہی تھیں۔

اچانک ایک جھماکا ہوا، اور آسمان میں ایک سبز چمک سی ابھری۔ وہ چمک جیسے کسی طلسم کا حصہ تھی۔ اسی لمحے، حیدر کو کسی کے چلنے کی آہٹ سنائی دی۔ وہ فوراً پلٹا۔ وہ زمرّہ تھی۔ لیکن آج وہ ویسی نہ تھی جیسی لاہور میں تھی۔ اُس کا لباس گہرے سیاہ اور نیلے رنگ کا، آنکھوں میں کوئی اور ہی چمک، اور اردگرد ایک پراسرار دھند۔ وہ اُسی طرح خاموشی سے چلتی آئی جیسے اُس کا وجود ہوا میں تحلیل ہو رہا ہو۔

حیدر لرزتے لہجے میں بولا، "زمرّہ…؟"
زمرّہ ایک لمحے کو رکی۔ اُس کے چہرے پر حیرت اور اضطراب اُمڈ آیا۔
"حیدر… تم؟" اُس کی آواز دھیمی مگر کپکپاتی ہوئی۔
"میں تمہیں لینے آیا ہوں… میں تمہیں تنہا چھوڑنے کا سوچ بھی نہیں سکتا، زمرّہ۔"
زمرّہ نے پلٹ کر خوفزدہ نظروں سے پیچھے دیکھا، جیسے کوئی سُن رہا ہو۔
پھر اُس نے آگے بڑھ کر حیدر کا ہاتھ تھاما، مگر اُس کے لبوں پر کپکپاتے ہوئے الفاظ نکلے: "حیدر… تمہیں یہاں نہیں آنا چاہیے تھا… تم نہیں جانتے، یہ دنیا انسانوں کے لیے نہیں ہے…" یہ کہتے ہی ہوا میں ایک عجیب سی سرگوشی گونجی، جیسے جنگل نے سانس لینا بند کر دیا ہو۔ آسمان پر گھنے بادل اکٹھے ہونے لگے، اور فضا میں ایک چیخ جیسی بازگشت پھیل گئی۔
***
زمرہ نے حیدر کا ہاتھ تھاما اور تیزی سے اُسے اس سنسان راہ پر لے چلی جو درختوں اور چٹانوں کے درمیان سے ہو کر ایک تاریک غار کی طرف جاتی تھی۔ حیدر حیرت زدہ تھا — قدموں کے نیچے زمین کبھی نرم ہو جاتی، کبھی پتھروں کی طرح سخت، اور اردگرد کی فضا میں وہی عجیب سی سرگوشیاں گونج رہی تھیں۔
"یہاں ہم کچھ دیر محفوظ ہیں،" زمرّہ نے کہا، جیسے وہ ہر آواز، ہر سایہ جانتی ہو۔
غار کے اندر روشنی کی کوئی صورت نہ تھی، مگر جب وہ اندر داخل ہوئے تو ایک نیلا ہالہ سا پورے غار میں پھیل گیا — زمرّہ کی جناتی طاقت کا مظہر۔
حیدر خاموشی سے بیٹھا، اور پھر وہ لمحہ آیا جس کا وہ منتظر تھا۔

زمرّہ نے گہری سانس لی اور آہستہ آواز میں بولنا شروع کیا:
"یہ دنیا، جسے تم ‘جنّات کی دنیا’ کہہ سکتے ہو… یہاں ہر چیز ایک قانون کے تابع ہے۔ یہاں ایک بادشاہ ہے، جو کئی صدیوں سے حکومت کر رہا ہے۔ اُس کا ہر حکم حرف آخر ہے۔ اُس کی طاقت لامحدود ہے، اور اُس کے خلاف کوئی بول نہیں سکتا۔"
"میری دنیا کا ہر جن اُس کے تابع ہے۔ اور… میں بھی۔" وہ رکی۔
"اور کیا وہی… تمہاری شادی طے کرنے والا ہے؟" حیدر کی آواز گھٹی ہوئی تھی۔
زمرّہ نے اثبات میں سر ہلایا۔ "وہ نہیں… مگر میرے والدین۔ وہ بادشاہ سے ڈرتے ہیں۔ وہ اُسی کی مرضی سے رشتہ طے کرتے ہیں… ایک دیوہیکل جن کے ساتھ، جو جنگوں میں سب سے بےرحم رہا ہے۔"
حیدر نے لب بھینچ لیے، جیسے کچھ ٹوٹ رہا ہو اُس کے اندر۔
زمرّہ نے آگے بڑھ کر اُس کی طرف دیکھا، اُس کی آنکھوں میں درد اور مجبوری کا عکس تھا۔ "لیکن میں ہار ماننے والوں میں سے نہیں۔ اب جب تم یہاں آ چکے ہو، میں خود اپنے والدین سے بات کروں گی… اور یہ شادی نہیں ہونے دوں گی۔"
حیدر نے صرف اتنا کہا: "میں تمہارے ساتھ ہوں، زمرّہ۔"
غار کے باہر طوفانی ہوائیں چلنے لگیں۔ کسی خطرے کی آہٹ جیسے قریب آ رہی ہو۔ مگر اس لمحے زمرّہ کے چہرے پر ایک مضبوطی، ایک چمک نمایاں تھی — وہ جن زادی جو اب اپنی تقدیر خود لکھنے جا رہی تھی۔

صبح کی روشنی جنّات کی دنیا میں عام دنیا سے مختلف تھی۔ یہاں سورج نہیں نکلتا، بلکہ نیلے اور سیاہی مائل ہالوں میں روشنی کسی جادو کی طرح سرکتی تھی۔ زمرّہ اور حیدر جس پناہ گاہ میں چھپے تھے، وہ اب زیادہ محفوظ نہ رہی۔
اسی لمحے، ایک گہری گرج دار آواز زمرّہ کے کانوں میں گونجی۔ "تمہارے والدین جان چکے ہیں کہ ایک انسان تمہارے ساتھ ہے۔"
زمرّہ ساکت ہو گئی۔ وہ جانتی تھی، اب وقت آ گیا ہے کہ سچ کا سامنا کیا جائے۔
وہ حیدر کو وہیں رکنے کا کہہ کر خود اپنے محل کی جانب روانہ ہوئی۔ اس کا دل دھڑک رہا تھا، نہ جانے اس کا سامنا کیا ہو گا… باپ کے غصے سے یا ماں کے آنسوؤں سے۔
محل میں داخل ہوتے ہی زمرّہ کے والد، عالی جناب سیّاف، اور اُس کی ماں، جنّت، اسے دیکھتے ہی غصے سے اٹھ کھڑے ہوئے۔
"تم جانتی ہو کہ ایک انسان کو ہماری دنیا میں لانا کتنا خطرناک ہے؟" سیّاف کی آواز گرج رہی تھی۔
زمرّہ نے ڈرتے ہوئے، لیکن ثابت قدمی سے جواب دیا، "میں جانتی ہوں… لیکن میں اسے اپنے ساتھ لائی کیونکہ میں اس سے محبت کرتی ہوں۔"
خاموشی چھا گئی۔
ماں نے دھیرے سے کہا، "زمرّہ، یہ صرف تمہارا فیصلہ نہیں… تمہاری نسبت اُس دیو جن سے طے ہو چکی ہے، جس کا انتخاب خود بادشاہ نے کیا ہے۔"
"میں اُس سے شادی نہیں کروں گی!" زمرّہ کی آواز میں ایک عجیب سی مضبوطی تھی۔
باپ نے سخت نظروں سے اسے دیکھا، پھر قدرے نرم لہجے میں کہا، "ہم تمہیں نہیں روکیں گے، اگر… تم بادشاہ کو خود قائل کر سکو۔ وہی اس نسبت کو ختم کر سکتا ہے، ورنہ ہم کچھ نہیں کر سکتے۔"
زمرّہ کے قدم جیسے زمین میں گڑ گئے۔ "اور اگر وہ نہ مانا؟"
"تو پھر…" ماں نے آنکھیں جھکائیں، "ہم مجبور ہوں گے۔"
زمرّہ نے خاموشی سے سر جھکایا، مگر اُس کے دل میں فیصلہ ہو چکا تھا۔
اس نے حیدر سے وعدہ کیا تھا، اور وہ وعدہ نبھانے کو تیار تھی — چاہے جنّات کا بادشاہ ہو یا جہنم کا دروازہ، زمرّہ اب پیچھے نہیں ہٹنے والی تھی۔
جنّات کی سلطنت کا مرکزی قصر، جسے دربارِ سیاہ کہا جاتا تھا، سیاہ سنگ مرمر سے تراشا گیا ایک وسیع و عریض محل تھا، جس کی چھتیں تاریکی سے باتیں کرتی تھیں اور ستونوں پر جادو سے کھدی ہوئی تحریریں روشنی کی مانند جھلملاتی تھیں۔ یہ وہ مقام تھا جہاں ہر بڑا فیصلہ ہوتا، جہاں جنّات کا بادشاہ شاہ شاکر الجن بیٹھتا تھا — سخت گیر، ناقابلِ رحم، اور طاقت کا پجاری۔

زمرّہ، اُس کے والدین، اور حیدر — پہلی بار ایک ساتھ دربار میں داخل ہوئے۔ حیدر کے دل کی دھڑکن تیز تھی، وہ پہلی بار جنّات کی اس سب سے بااختیار ہستی کے سامنے کھڑا تھا۔
شاہ شاکر نے اپنی سرخ چمکتی آنکھیں حیدر پر گاڑ دیں، پھر زمرّہ کی طرف متوجہ ہو کر بولا،
"تم جانتی ہو تم نے کس قانون کی خلاف ورزی کی ہے؟"
زمرّہ نے نظر جھکائے بغیر کہا،
"میں جانتی ہوں، اور میں اپنی محبت کے لیے حاضر ہوں۔"
شاہ شاکر نے قہقہہ لگایا،
"محبت؟ جن زادوں کو محبت زیب نہیں دیتی، وہ طاقت کے وارث ہوتے ہیں۔"
زمرّہ کے والد، سیّاف، آگے بڑھے،
"شاہ سلامت، اگر اجازت ہو تو ہم اپنی بات رکھنا چاہتے ہیں۔"
"تمہیں اجازت ہے، مگر فیصلہ… دیوہیکل کی رائے کے بغیر نہ ہو گا۔"
اُسی لمحے، دربار کے دروازے زور سے کھلے۔ ایک عظیم القامت، دو سر والا، آگ برساتی آنکھوں والا دیوہیکل جن اندر داخل ہوا۔ اس کا نام تھا عارق العذاب۔
"زمرّہ میری ہے!" وہ دھاڑا، "بچپن سے لے کر آج تک اس کا ہر لمس، ہر وعدہ میری آنکھوں میں قید ہے۔ اور اب کوئی انسان…؟"
حیدر، قدم آگے بڑھا کر بولا،
"محبت کسی ملکیت کا نام نہیں، عارض۔ زمرّہ کو حق ہے کہ وہ اپنی زندگی کا فیصلہ خود کرے۔"
عارق کی آنکھوں میں انگارے دہک اٹھے۔
"اگر تم واقعی اسے چاہتے ہو، تو اپنی محبت کی قیمت دو۔ لڑو مجھ سے — اگر جیت گئے، تو زمرّہ تمہاری، اگر ہارے… تو تمہارا نام و نشان باقی نہ بچے گا۔"
بادشاہ نے اونچی آواز میں حکم دیا،
"دونوں فریقوں کی مرضی شامل ہے، جنگ ہوگی۔ یہ دربار فیصلہ نہیں دے گا — میدان دے گا!"
زمرّہ چیخی،
"نہیں! میں تمہیں لڑتے نہیں دیکھ سکتی، حیدر!"
حیدر نے خاموشی سے اُس کی طرف دیکھا اور کہا،
"اگر محبت کے لیے لڑنا پڑے، تو میں لڑوں گا۔"
... (جنگ، بزرگ کی رہنمائی، اور عارق کی شکست کے مناظر ویسے ہی رہتے ہیں) ...
بادشاہ شاہ شاکر اپنی جگہ سے اٹھا، چند لمحے حیدر کو دیکھا، پھر گرج دار آواز میں بولا:
"آج ایک انسان نے جنّات کی جنگ جیتی ہے۔ وہ ہماری دنیا میں داخل ہوا، ہمارے قوانین کا سامنا کیا… اور سچائی سے فتح پائی۔"
اس نے ہاتھ اٹھایا،
"زمرّہ کا حق ہے کہ وہ اپنی زندگی کا فیصلہ کرے۔ میں اس رشتے کی مخالفت نہیں کرتا۔"
زمرّہ کی آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے۔ وہ بھاگ کر حیدر کے پاس آئی،
"تم نے وہ کر دکھایا جو میں سوچ بھی نہ سکی تھی…"
حیدر نے ہلکی مسکراہٹ سے جواب دیا،
"کیونکہ تم میری کمزوری نہیں، میری طاقت ہو۔"

 (قربانی، نور کے دائرے، زمرّہ کا انسان بننا، سب ویسا ہی رہتا ہے) 
ایک شام، لاہور کی چھت پر بیٹھے، جب سورج غروب ہو رہا تھا، زمرّہ نے آسمان کی طرف دیکھا۔
"کبھی کبھی لگتا ہے کہ میں نے سب کچھ کھو دیا… مگر پھر تمہیں دیکھتی ہوں، تو لگتا ہے سب کچھ پا لیا۔"
حیدر نے مسکرا کر اس کا ہاتھ تھام لیا،

"اور میں ہر دن یہ سوچ کر جیتا ہوں کہ ایک جن زادی… میری زندگی کی سب سے حسین حقیقت بن گئی۔" 

(ختم شد)