ماں جیسی بیٹی - رولا دینے والی کہانی

Urdu Font Stories

ماں جیسی بیٹی - رولا دینے والی کہانی

قسط وار کہانیاں
بچپن ہی سے مجھے چچی بہت اچھی لگتی تھیں۔ ہم لوگ ایک ہی گھر میں اوپر نیچے پورشن میں رہتے تھے۔ چچی بہت خوب صورت تھیں یہی وجہ ہے کہ میں ان سے بہت متاثرتھی۔ اور لاشعوری طور پر ہر وقت امی اور چچی کا موازنہ کرتی رہتی تھی۔ چچی کے گھر میں صبح گیارہ بجے ہوتی تھی۔ اور گھر کے تمام کام ماسی کے سپرد تھے۔ وہ اپنی جلد کا بے حد خیال رکھتی تھیں۔ ڈرینگ ٹیبل انواع اقسام کی کریموں اور لوشنز سے بھری ہوئی تھی۔ ہمہ وقت ہیئر کٹ اور نیل کلر ان کی شخصیت کا خاص جز تھے۔ مزاجوں کے کھلے تضاد کے باوجود امی سے ان کی بہت اچھی دوستی تھی۔ دونوں میں دیورانیوں، جیٹھانی والی کوئی بات نہ تھی۔ میں بچپن سے ہی کتابی کیڑا تھی اور یہ واحد شوق مجھے اپنی امی سے وراثت میں ملا تھا۔ لیکن چونکہ میں چچی سے بہت متاثر تھی لہذا ان کی ہی طرح ہمہ وقت بن سنور کر رہتی تھی۔ خاص طور پر مجھے ریڈ نیل بالش بہت پسند تھی لیکن چونکہ امی نے کبھی نماز چھوڑنے کی اجازت نہ دی تھی تو میں اپنا نیل کلر لگا کر فورا ہی چھڑانے بیٹھ جاتی۔

میری سوچ کا دائرہ اس وقت وسیع ہوا جب میں کالج میں آئی۔ جب میری فرینڈز مجھ سے پوچھتیں۔ نیہا ! تم اپنی امی میں ملتی ہو یا ابو میں ؟ تو میں جواب دیتی۔ بھئی میں تو اپنی چچی جیسی ہوں۔ کبھی میں سوچتی کاش چچی میری امی ہوتیں۔ امی زیادہ تر گھر کے کاموں میں مصروف رہتی تھیں ۔ ان کا رنگ اور ناک نقشہ اچھا تھا جسے انہوں نے کبھی نکھارنے کی ضرورت محسوس نہ کی تھی۔ وہ یونیورسٹی کی ٹاپر تھیں اس لیے اکثر وہ طلباء کو آن لائن پڑھایا کرتی تھیں۔ مجھے پورا یقین تھا کہ اگر وہ چچی کی طرح نک سک سے رہتیں تو ان طرح نہیں تو ان سے کم بھی نہیں دکھائی دیتیں۔ امی ! مجھے چچی کی طرح کا ہیئر کٹ لینا ہے۔ بہت دنوں سے میں سوچ رہی تھی ۔ امی کا اچھا موڈ دیکھ کر بات کروں گی۔ مگر کیوں؟ امی نے سوال کیا۔ کیونکہ مجھے پسند ہیں، ان کے جیسے بال۔ میں نے ضد کی۔ مگر بیٹا مجھے آپ کے لمبے بال ہی پسند ہیں ۔ امی نے جواب دیا۔ ہمیشہ ہی ایسا ہوتا ۔ امی منع نہ کرتیں مگر ہامی بھی نہ بھرتیں میں ٹھہری اچھی بیٹی سو ناچاہتے بھی میں امی کی بات سے اختلاف نہ کر پاتی۔ یار نیہا تم نے کبھی ہمیں اپنے گھر نہیں بلایا بس اس ویک اینڈ پر ہم تمہارے گھر آ رہے ہیں ہمارے گروپ کی انعم نے کہا۔ اچھا موسٹ ویلکم ۔
 میں بس اتنا ہی کہہ سکی۔ انٹی سے کہنا، اچھی اچھی ڈشز بنا کر رکھیں۔ ہمیں امید ہے تمہاری امی بھی تمہاری طرح ڈیشنگ ہوں گی ۔ صفیہ بولی۔ اور یہاں مجھے نئی فکر نے آلیا۔ گھر آ کر میں امی کے سر ہوگئی۔ امی ! آج آپ فیشل کروانے چلیں۔ امی حیران تھیں۔ دراصل اس ہفتہ میری فرینڈز آ رہی ہیں تو میں چاہ رہی تھی آپ ان کو فریش نظر آئیں میں نے اٹکتے اٹکتے وجہ بتائی۔ اچھا چلو، چلتے ہیں امی میری بات سن کر مسکرا دیں۔ اور جب وہ فیشل کروا کے آئیں تو مجھے لگا وہ واقعی چمک رہی ہیں۔ نیہا ! اپنی فرینڈ زکولنچ پہ انوائیٹ کر لینا ۔ امی نے کہا۔ جی اچھا، امی میری ایک بات اور مان لیں جب میری فرینڈز آئیں تو آپ چچی سے کوئی اچھا سا جوڑا لے لیں پہننے کے لیے۔ امی نے تیز نظروں سے مجھے گھورا۔ اصل میں چچی کے کپڑے بہت اسٹائلش ہوتے ہیں نا میں نے جلدی سے وضاحت دی۔ بیٹا شیر کی کھال پہن لینے سے گدھا شیر نہیں بن جاتا۔ امی نے جواب دیا۔ اور میں خاموش ہوگئی۔

آخر کار ویک اینڈ آگیا۔ یہ لوگ کالج سے میرے ساتھ ہی آئیں۔ میں نے ان کو خاص طور پر چچی اور امی سے ملوایا۔ جاتے وقت شیزا بولی۔ نیہا تمہارا گھر اور گھر کے لوگ بہت اچھے ہیں۔ خاص طور پر تمہاری گریس فل سی مما مجھے بہت پسند آ ئیں۔ بہت لکی ہو تم۔ انہوں نے چچی کا ایک دفعہ بھی نام نہ لیا حالانکہ میں سوچ رہی تھی کہ وہ نہیں گی تمہاری چچی بہت اسٹائلش ہیں۔ بہرحال اپنی امی کی تعریف سن کر مجھے لاشعوری طور پر بہت خوشی ہوئی ۔ اور اس کے بعد میں نے کئی مرتبہ نظروں کا زاویہ بدل کرامی کو غور سے دیکھا کہ امی میں وہ کیا تھا جو مجھے کبھی نظر نہ آیا۔ میں نے اکثر اپنے خاندان میں دیکھا امی کو ہر جگہ اہمیت دی جاتی۔ ان کو ہر معاملے میں بہت عزت دی جاتی تھی۔ لوگ ان کو دیکھ کر ان کے لیے اپنی جگہ خالی کر دیتے۔ بہت سے لوگ مختلف معاملات میں مشورے کے لیے گھرآیا کرتے تھے۔
آخر کئی سالوں بعد یہ بات میری سمجھ میں آئی جب میرے شوہر نے مجھے کہا۔ نیہا! تمہیں پتا ہے تم بالکل اپنی امی جیسی ہو۔ کیا واقعی؟ مجھے حیرت ہوئی۔ ہاں تم نے کبھی غور نہیں کیا؟ انہوں نے مجھے پکڑ کر آئینے کے سامنے کھڑا کیا دیکھو وہی ذہانت سے بھری ہوئی آنکھیں وہی تمکنت ، وہی وقار اور ویسے ہی خوب صورت لمبے بال۔ میں نے اپنی امی سے کہا تھا، شادی کے لیے لڑکی بھلے خوب صورت نہ ہو مگر اس کے بال لازمی خوب صورت ہونے چاہئیں۔ وہ میرے بالوں کو دیکھتے ہوئے بولے۔ میری امی کے عام سے چہرے میں وہ خاص کیا تھا جو مجھے کبھی نظر نہ آیا۔ وہ اپنے فارغ وقت میں ہمیشہ کتا میں پڑھتی پائی جاتی تھیں وہ علم کے سمندر میں غرق تھیں جو ان کے ماتھے پر نور بن کر چمک رہا تھا۔
 
 ان کی ذہانت ، تفکر تدبر ان کو چچی سے الگ کرتی تھیں۔ چچی جو ایک عام سی عورت تھیں ان کے خواب اور خواہشیں کپڑوں اور فیشن کی حد تک ہی محدود تھے۔ اپنے شوہر کے منہ سے تعریف سن کر آج مجھے احساس ہوا نسلیں پروان چڑھانے کے لیے جس چیز کی ضرورت ہوتی ہے وہ ہے علم اور تربیت۔ میں نے اپنے اللہ کا شکر ادا کیا کہ واقعی میں اپنی امی جیسی ہوں۔

sublimegate urdu stories

Urdu stories online, Urdu stories for kids, Short Urdu stories, Urdu Kahaniyan, Famous Urdu stories, Urdu stories with moral, Best Urdu stories collection, Urdu stories for students, Urdu love stories, Urdu horror stories, Urdu stories for reading, Urdu stories in Urdu text, Funny Urdu stories, Urdu stories for beginners, Urdu detective stories, Urdu motivational stories, Urdu stories for adults, Urdu moral stories, Urdu stories for children, Urdu true stories, Urdu suspense stories, Urdu emotional stories, Urdu adventure stories,hindi moral stories in urdu,سبق آموز کہانیاں, jin-ki-dushmni,good moral stories in urdu,Moral Stories,Urdu Stories,urdu kahani,اردو کہانی,قسط وار کہانیاں, urdu font stories, emotional urdu stories

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے