میری عمر ابھی کم تھی جب میری شادی کر دی گئی۔ مجھے سمجھ نہیں آتا تھا کہ میرے ساتھ یہ سب کیوں ہو رہا ہے۔ نہ تو میری منگنی ہوئی تھی، نہ ہی کوئی تیاری۔ بس یک دم شادی کر دی گئی۔ یہ سب مجھے عجیب اور خوفناک لگ رہا تھا۔ میری سہیلیوں نے شادی کے بارے میں ایسی باتیں سنا رکھی تھیں کہ مجھے ڈر لگنے لگا۔ میں سوچتی کہ میری عمر ابھی شادی کے لیے موزوں نہیں ہے، پھر میرے گھر والوں نے یہ فیصلہ کیوں کیا؟
جب میں اپنے سسرال پہنچی، تو سہمی ہوئی اپنے کمرے میں بیٹھی تھی۔ وہ گھر کوئی شاندار نہیں تھا، بس ایک عام سا گھر تھا۔ میں نے کمرے کا جائزہ لیا جہاں مجھے بٹھایا گیا تھا۔ دل میں خیال آیا کہ میرے گھر والوں نے اس گھر میں میری شادی کیوں کی؟ انہیں یہاں کیا نظر آیا؟ لیکن جو ہو گیا، سو ہو گیا۔ اب سوچنے کا کوئی فائدہ نہیں تھا۔ میں نے خاموشی اختیار کر لی۔
کچھ دیر بعد میرے شوہر کمرے میں آئے۔ انہیں دیکھ کر پہلے تو میں ڈر گئی، لیکن ان کی باتوں نے میرا خوف دور کر دیا۔ انہوں نے مجھے ایسی خوشیاں دیں جو میں نے کبھی سوچی بھی نہیں تھیں۔ اس چھوٹے سے گھر میں مجھے سکون مل گیا۔ میں اپنے شوہر کا ہر طرح سے خیال رکھتی، ان کا ہر کام کرتی، اور اس سے مجھے روحانی خوشی ملتی جو میں نے پہلے کبھی محسوس نہیں کی تھی۔
وقت گزرتا گیا، ہمارے بچے بھی ہوئے۔ سب کچھ ٹھیک چل رہا تھا، لیکن پھر حالات بدلنے لگے۔ میرے شوہر کا رویہ تبدیل ہو گیا۔ وہ بلاوجہ مجھے ڈانٹنے لگے، حتیٰ کہ مارنے بھی لگے۔ میں سمجھ نہ سکی کہ یہ تبدیلی کیوں ۔ میری حیثیت ایک نوکرانی سے بھی کم ہو گئی۔ میرا دل ٹوٹنے لگا، لیکن میں امید رکھتی کہ شاید سب کچھ پہلے جیسا ہو جائے۔ لیکن حالات بہتر ہونے کے بجائے بگڑتے گئے۔
ایک رات، شدید مار پیٹ کے بعد، میرے شوہر نے مجھے گھر سے نکال دیا۔ رات کے اندھیرے میں، نہ جوتوں کے ساتھ، نہ پیسوں کے، میں اکیلی سڑک پر تھی۔ خوف سے دل دھک دھک کر رہا تھا۔ میں ایک گاؤں کے خستہ حال کمرے میں رات گزارنے پر مجبور ہوئی، جہاں مویشی بندھے ہوتے تھے۔ عورت کی عزت ہی سب کچھ ہوتی ہے، اور میں اسے ہر قیمت پر بچانا چاہتی تھی۔ ایک لمحے کے لیے خودکشی کا خیال آیا، لیکن پھر یاد آیا کہ خودکشی حرام ہے۔ اس سے دنیا کے دکھ تو ختم ہو سکتے ہیں، لیکن آخرت کی سزا سے خلاصی نہیں ملے گی۔
میں نے فیصلہ کیا کہ زندگی کا مقابلہ کروں گی۔ صبح اذان کی آواز کے ساتھ، میں کھیتوں کے راستے شہر کی طرف نکل پڑی۔ شہر میرے لیے اجنبی تھا۔ کوئی چہرہ شناسا نہیں تھا۔ ڈگمگاتے قدموں سے چلتی جا رہی تھی، اور اپنی منزل کا تعین کر رہی تھی۔ شہر میں ایک مزار نظر آیا۔ وہاں پہنچ کر مجھے کچھ سکون ملا، لیکن خوف تھا کہ میرے شوہر مجھے ڈھونڈتے ہوئے یہاں آ جائیں گے۔ اور وہی ہوا۔ وہ مزار پر آ گئے۔ ان کی آنکھوں میں غصہ تھا۔ انہوں نے مجھے زبردستی گھر واپس لے گئے اور پھر سے مار پیٹ شروع کر دی۔
میری نند نے بھی مجھ پر الزامات لگائے، جو میری عزت پر حملہ تھے۔ میں نے کہا، "میری عزت پر الزام نہ لگاؤ۔ چاہے جان سے مار دو، لیکن میری عزت پر بات نہ کرو۔" لیکن انہوں نے مجھے رسیوں سے باندھ دیا۔ میں سوچتی رہی کہ اگر مجھے باندھنا ہی تھا تو گھر واپس کیوں لایا؟ میری نند نے کہا کہ میری شادی زبردستی کرائی گئی تھی، کیونکہ وہ کسی اور لڑکی سے شادی کرنا چاہتے تھے۔ یہ سن کر میرا دل ٹوٹ گیا۔
ایک ماہ بعد، ایک رات پھر مار پیٹ کے بعد، مجھے طلاق دے کر گھر سے نکال دیا گیا۔ اس بار میرے بچے بھی میرے ساتھ تھے۔ میں روتی ہوئی، بچوں کا ہاتھ پکڑ کر نکلی۔ میرے دل میں موت کا خیال آیا، لیکن بچوں کی وجہ سے میں نے خود کو روک لیا۔ میں اسی خستہ حال کمرے کی طرف جانے لگی، لیکن وہاں بھی خوف لگا۔ میں نے فیصلہ کیا کہ نہ مزار جاؤں گی، نہ گھر والوں کے پاس۔ میں نے اپنے بچوں کے لیے جینے کا فیصلہ کیا۔
شہر میں پہنچ کر، میں نے ایک اخبار سے نوکری کا اشتہار دیکھا۔ ایک گھر میں ملازمہ کی ضرورت تھی، رہائش کے ساتھ۔ میں فوراً اس گھر پہنچی۔ وہ ایک شاندار گھر تھا، جہاں بزرگ میاں بیوی اکیلے رہتے تھے۔ میں نے ان سے کہا کہ میں ان کی ہر ضرورت پوری کروں گی۔ مجھے تنخواہ، رہائش، اور کھانا سب مل گیا۔ خدا نے میری سن لی۔
اس گھر میں مجھے بیٹی جیسا مقام ملا۔ میں نے انہیں اپنی کہانی سنائی، اور ان کے دلوں میں میری جگہ بن گئی۔ ان کی بیٹیاں بھی مجھ سے محبت کرتی تھیں اور اپنے کپڑے دیتی تھیں۔ وہ کہتے کہ شادی کرنا گناہ نہیں، لیکن میں نے کہا کہ ابھی اس بارے میں نہیں سوچا۔ ان کی باتوں سے متاثر ہو کر، میں اپنے والدین سے ملنے گئی۔ وہ مجھے دیکھ کر رو پڑے۔ انہوں نے بتایا کہ میرے سسرال والوں نے ان سے جھوٹ بولا تھا کہ میں نے غلط کام کیا۔ میں نے انہیں سچ بتایا اور کہا کہ خدا نے مجھے ایک نیا گھر دیا ہے۔ دو دن بعد، میں واپس اپنی نوکری پر لوٹ آئی۔
میری زندگی میں ایک ایسا موڑ آیا جس کے بارے میں شاید میں نے کبھی سوچا بھی نہ تھا۔ میں سبزی اور دیگر اشیاء کی خریداری کے لیے بازار جایا کرتی تھی۔ ایک لڑکا مجھے گہری نظروں سے دیکھا کرتا تھا۔ پہلے پہل، میں نے اس کی طرف توجہ نہ دی، لیکن جب اس کی آنکھوں کا ہر لمحہ میری طرف ہی مرکوز رہنے لگا، تو مجھے غصہ آنے لگا۔ دل چاہا کہ جا کر اس کے منہ پر طمانچہ مار دوں، لیکن ایسا کرنا مجھے مناسب نہ لگا۔ ایک دن، دو دن نہیں، بلکہ ہر روز یہی ہونے لگا۔ وہ مجھے ہر روز دکھائی دینے لگا، اور مجھے اس سے خوف آنے لگا۔
میں نے فیصلہ کیا کہ اب میں گھر سے اکیلی نہیں نکلوں گی، بلکہ اپنے کسی بچے کے ساتھ جایا کروں گی تاکہ وہ جان لے کہ میں شادی شدہ ہوں اور بچوں کی ماں ہوں۔ لیکن اس کے باوجود اس کی نظریں میری طرف ہی رہتی تھیں۔ میں نے اس کی آنکھوں میں اپنے لیے بے پناہ پیار دیکھنا شروع کیا۔ یوں لگتا تھا کہ وہ مجھ سے کچھ کہنا چاہتا ہے، لیکن میں اسے کوئی موقع دینا نہیں چاہتی تھی۔ اس کے اس طرح دیکھنے سے نہ جانے کیوں میں اس کے بارے میں سوچنے لگی۔
آج میں نے اسے بہت غور سے دیکھا۔ اس کے چہرے پر ایک کشش تھی جو مجھے اپنی طرف کھینچ رہی تھی۔ اس کی آنکھوں میں ایک گہرائی تھی جو مجھے اس میں ڈبونے لگی۔ میں بچنا چاہتی تھی، لیکن اب یہ میرے لیے مشکل ہوتا جا رہا تھا۔ وہ میری نظروں کے سامنے رہنے لگا، اور میری سوچیں اس کی طرف مائل ہونے لگیں۔ شاید میں ابھی جوان تھی، بوڑھی نہیں ہوئی تھی۔ ہو سکتا ہے وہ مجھے کنواری سمجھتا ہو۔ میں نقاب لے کر جاتی تھی، لیکن پھر بھی اسے اپنا منتظر پاتی تھی۔ اس کی آنکھیں میرا ہی تعاقب کرتی تھیں۔
میں جاننا چاہتی تھی کہ وہ مجھ سے کیا چاہتا ہے۔ ایک دن، سبزی لینے کے بعد، میں اس کی طرف چل دی اور کہا، "تم ہر روز مجھے یوں گھور گھور کر کیوں دیکھتے ہو؟" میری بات سن کر وہ ڈر سا گیا، پھر ہمت کر کے بولا، "تم مجھے بہت اچھی لگتی ہو۔ یہ کوئی بڑی بات نہیں، ہر وہ لڑکی جو یہاں گھومتی ہے، اچھی لگتی ہے۔" میں نے کہا، "دیکھو، پہلی بات تو یہ ہے کہ میں کنواری نہیں ہوں، میرے بچے بھی ہیں۔" میں کچھ اور کہنے لگی تھی کہ وہ بول پڑا، "ہاں، میں جانتا ہوں کہ تمہارے بچے ہیں۔ میں نے تمہیں کئی بار ان کے ساتھ دیکھا ہے، لیکن پیار بچوں کو نہیں دیکھتا۔ جب ہوتا ہے، تو بس ہو جاتا ہے۔"
میں نے کہا، "اگر میں کہوں کہ مجھے تم سے یا کسی سے بھی پیار نہیں کرنا؟" اس پر وہ بولا، "میں نے کب کہا کہ تم بھی مجھ سے پیار کرو؟ بس اتنا کر دو کہ اپنا دیدار کراتی رہو، میرے لیے یہی کافی ہے۔" اس کی ایسی باتوں نے مجھے سوچوں میں ڈال دیا۔ میں سوچنے لگی کہ ہر لڑکا لڑکی کو پھنسانے کے لیے ایسی ہی باتیں کرتا ہے۔ مجھے اسے آزمانا ہوگا۔ اگر وہ واقعی سچا پیار کرتا ہے، تو پھر میں اس کے بارے میں سوچوں گی۔
میں نے کچھ دنوں کے لیے بازار جانا چھوڑ دیا۔ جب کئی دنوں بعد دوبارہ گئی، تو اس کی حالت دیکھ کر میں دنگ رہ گئی۔ وہ کسی مجنوں کی طرح دکھائی دے رہا تھا۔ مجھے دیکھتے ہی وہ پاگلوں کی طرح میری طرف بھاگا اور بولا، "میں نے کہا تھا، چاہے مجھ سے پیار نہ کرو، لیکن اپنا چہرہ دکھاتی رہو۔" میں نے غصے سے کہا، "میں نے بتایا تو تھا کہ میں شادی شدہ ہوں، بچوں والی ہوں۔ تمہیں ایسی باتیں کرنا زیب نہیں دیتا۔"
وہ بولا، "میں جانتا ہوں کہ تم شادی شدہ ہو، اور یہ بھی جانتا ہوں کہ تمہیں طلاق ہو چکی ہے۔" اس کی بات سن کر میں چونک گئی۔ اس نے کہا، "ہاں، میں نے تمہارے بارے میں سب کچھ جان لیا ہے۔ میں کوئی غلط انسان نہیں ہوں، نہ میری عادت ہے کہ راہ چلتی لڑکیوں کو تنگ کروں۔ میں نے تمہارے بارے میں جاننے کے بعد فیصلہ کیا ہے کہ تمہیں اپنا ہمسفر بناؤں گا۔ تم خود کو کمزور نہ سمجھو، اور نہ ہی مجھے غلط سمجھو۔ تمہیں میرے بارے میں جاننے کا پورا حق ہے۔ یہ میرا نمبر ہے، اس پر رابطہ کر سکتی ہو۔"
وہ مجھے اپنا نمبر دے کر چلا گیا۔ میں شاپنگ کر کے گھر لوٹ آئی، لیکن راستے بھر اس کی باتیں اور اس کا چہرہ میرے ذہن میں گھومتے رہے۔ گھر پہنچ کر جب میں نے کام شروع کیا، تو میرا دھیان اس کی باتوں کی طرف ہی رہا۔ رات کو، میں نے اسے کال کی اور باتوں کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ اس کی زبانی میں نے اس کے بارے میں سب کچھ جان لیا۔ وہ کوئی غلط انسان نہیں تھا۔ وہ مجھے عزت دینا چاہتا تھا، ایسی عزت جو ہر لڑکی اپنے دل میں چاہتی ہے۔ وہ مجھے وہ مقام دینا چاہتا تھا جو ہر لڑکی اپنے خوابوں میں دیکھتی ہے۔
اب میری عادت بن گئی کہ گھر کے کام کرتے ہوئے اس سے باتیں کرتی رہتی۔ اس سے بات کرنا مجھے بہت اچھا لگتا تھا۔ دل چاہتا تھا کہ فون کبھی بند نہ ہو اور اس کی میٹھی باتیں جاری رہیں۔ میں نے اس سے کہہ دیا، "اگر میں نے شادی کی، تو تم سے ہی کروں گی، کسی اور سے نہیں۔" میری بات سن کر وہ بولا، "میں بھی یہی چاہتا ہوں۔ چاہے سوچنے کے لیے مجھ سے کئی سال لے لو، لیکن جب شادی کرو، تو مجھ سے ہی کرو۔"
اسے پرکھنے کے لیے میں نے ایک دو دن نہیں، بلکہ پورے تین سال لیے۔ ان تین سالوں میں وہ ذرا بھی نہیں بدلا۔ اس کی باتیں، اس کا انداز، سب وہی رہا۔ وہ خود بھی شادی شدہ تھا، اور اس کی زندگی دکھوں سے بھری ہوئی تھی۔ اس کے بھی بچے تھے، اور وہ اپنی بیوی سے بہت دکھی تھا۔ اس کی بیوی بدتمیز تھی، اس کا خیال نہ رکھتی تھی، اور اس کا جینا حرام کر رکھا تھا۔ وہ اپنی زندگی سے اس قدر تنگ تھا کہ خودکشی کا خیال آتا تھا۔ اس کی یہ بات سن کر میں کانپ جاتی اور کہتی، "دوبارہ ایسی بات نہ کرنا جس سے مجھے دکھ ہو۔"
وہ اپنی بیوی اور بچوں کی باتیں بھی سناتا، اور مجھے اچھا لگتا کہ وہ صاف دل انسان ہے۔ وہ کوئی کام کرنے سے پہلے مجھ سے پوچھتا، ہر بات میں میرا مشورہ لیتا۔ ہم موقع نکال کر کسی ہوٹل میں بھی مل لیتے تھے۔ وہ میرے بچوں کو بھی قبول کرنے کو تیار تھا۔ اس کی ایک ہی خواہش تھی کہ اس شہر میں ایک چھوٹا سا، لیکن خوبصورت گھر بنائے گا، اور ایک گاڑی لے گا جس میں ہم دونوں سفر کیا کریں گے۔ اس کی باتیں سن کر میں بہت خوش ہوتی تھی۔
چار سال گزر گئے ہماری محبت کو۔ ان سالوں میں میں نے اندازہ لگا لیا کہ اس سے بہتر انسان مجھے نہیں ملے گا۔ میں نے اس کے انتظار کو ختم کرنے کا فیصلہ کیا اور کہا، "میں تم سے فوری شادی کرنا چاہتی ہوں۔" میری بات سن کر وہ جیسے اچھل پڑا اور بولا، "واقعی، تم نے میرے حق میں فیصلہ کر لیا؟" میں نے کہا، "ہاں، میں نے فیصلہ کر لیا ہے، کیونکہ میں نے پرکھ لیا کہ تم سے بہتر انسان مجھے کہیں نہیں ملے گا۔ مجھے شادی کے لیے کسی کی اجازت یا مشورے کی ضرورت نہیں۔ ہاں، بچوں سے پوچھنا ضروری سمجھتی ہوں، اور میں نے ان سے پوچھ لیا۔ انہیں کوئی اعتراض نہیں۔"
وہ خوشی سے بولا، "میں تمہیں ہر وہ خوشی دوں گا جو تم سوچتی رہی ہو۔" پھر ہم نے چپکے سے شادی کر لی۔ شادی کے بعد مجھے ایک گھر مل گیا، ایک ساتھی مل گیا، پیار مل گیا، چاہت مل گئی۔ وہ سب کچھ مل گیا جو شاید مجھے پہلے کبھی نہ ملا تھا۔ اس نے مجھے شہر میں ایک مکان لے کر دیا، جیسا کہ اس نے وعدہ کیا تھا۔ اس کے سارے وعدے اسے یاد تھے۔ اب اس کی نظر گاڑی پر ہے، جسے لے کر وہ ہمیں پورے شہر کی سیر کرانا چاہتا ہے۔
میں اس کے دو بچوں کی ماں ہوں، اور میرے اپنے بچے بھی میرے پاس ہیں۔ ہمارے گھر میں خوشیاں ہی خوشیاں ہیں۔ ہر طرف پیار اور محبت ہے۔ وہ جب بھی مجھے دیکھتا ہے، اس کی آنکھوں میں وہی چاہت ہوتی ہے جو پہلے دن تھی، اور اس کے لبوں پر وہی مسکراہٹ ہوتی ہے۔ میری زندگی، جو پہلے ایک دکھی خواب تھی، اس نے خوشیوں سے بھر دی۔ اس کی زندگی بھی دکھوں سے بھری تھی، لیکن میں نے اس کے دکھ بانٹ لیے۔ وہ مجھ پر اتنا خوش ہے جتنا میں چاہتی ہوں۔ کسی نے سچ کہا ہے کہ دکھوں کے بعد خوشیاں ضرور ملتی ہیں۔ میں اپنی پچھلی زندگی کو بالکل بھول چکی ہوں۔ وہ ایک ڈراؤنا خواب لگتی ہے۔
(ختم شد)