توقیر میرے تایا کا بیٹا تھا۔ خوبصورت، چلبلا، اور کھلاڑیوں جیسے قد کاٹھ والا۔ وہ ہمیشہ سے نٹ کھٹ اور تیزرو تھا، جبکہ میں سکون پسند، آہستہ مزاج، اور زمین سے جڑی ہوئی لڑکی تھی۔ وہ آسمان و زمین کے قلابے ملاتا، اور میں دھرتی پر مضبوطی سے قدم جمائے رہتی۔ ہمارے مزاج کبھی نہ ملے۔ بچپن سے ہی ہماری نہیں بنتی تھی، اور میں نے اس سے دوری اختیار کر لی تھی۔ لیکن اماں اور تایا کی سوچ الگ تھی۔ وہ ہمیں عمر بھر کے لیے جوڑنا چاہتے تھے۔ مگر مجھے تو اس طوفان میل جیسے لڑکے کے ساتھ دو قدم چلنا بھی بھاری لگتا تھا۔
جب وہ ہمارے گھر آتا، گویا زلزلہ آ جاتا۔ اونچی آواز میں میوزک لگاتا، زور زور سے بولتا، دھم دھم چلتا، برتن گراتا، یا چارپائی پر بیٹھ کر اتنی زور سے ٹانگیں ہلاتا کہ دیواریں بھی ہلنے لگتیں۔ میں دل ہی دل میں دعا مانگتی کہ وہ جلدی چلا جائے۔ عجیب بات یہ تھی کہ جتنا میں اس سے چڑتی، وہ اتنا ہی میری طرف کھنچتا۔ میری توجہ پانے کے لیے وہ چھت سے الٹا لٹکنے کو بھی تیار تھا۔ گھر آتے ہی سب سے پہلے مجھے ڈھونڈتا، اور پھر وہی حرکتیں شروع کر دیتا جو مجھے پسند نہ تھیں۔
میں اس کے آنے سے پہلے کتاب اٹھا کر گھر کے کسی کونے میں چھپ جاتی۔ کبھی اسٹور روم میں، کبھی سیڑھیوں کے بیچوں بیچ۔ لیکن اسے جیسے الہام ہو جاتا۔ وہ سیدھا وہیں آ دھمکتا اور طنزیہ لہجے میں کہتا، "کتنا پڑھ لیا بھئی؟ کتنا بھی پڑھ لو، پاس تو ہونا نہیں۔ رزلٹ تیرا مجھے پتا ہے۔ بس کتابیں بغل میں دبائے چھپتی رہتی ہو۔ گدھے پر کتابیں لادنے سے کیا وہ عالم فاضل ہو جاتا ہے؟" جب اس کی باتیں حد سے بڑھ جاتیں، میرا سر گھومنے لگتا، کانوں کی لویں جل اٹھتیں، اور غصے سے کہتی، "توقیر، میرا دماغ خراب نہ کرو، ورنہ تایا سے شکایت کر دوں گی!" مگر وہ کہاں سنتا تھا؟ بس اپنی من مانی کرتا اور مجھے ستاتا رہتا۔
عید کے دنوں میں وہ ہمارے گھر کا راجہ بن جاتا۔ مٹھائی یا کھانے پینے کی چیزیں ضرور لاتا، لیکن میں جان بوجھ کر اسے جلانے کے لیے انہیں لینے سے انکار کر دیتی۔ اس کا اترا ہوا چہرہ دیکھ کر مجھے عجیب سی خوشی ملتی۔ گھر والے اس سے بے حد محبت کرتے، اس کی ہر بات کو اہمیت دیتے۔ وہ جب گھر ہوتا، ہر طرف رونق ہوتی۔ بہن بھائی اسے عید کی چہل پہل کہتے۔ وہ کبھی گیت سنتا، کبھی مہینوں سے پڑا کوئی کام کر ڈالتا۔ لیکن جب وہ ہفتے دس دن بعد واپس جاتا، گھر میں خاموشی چھا جاتی۔ سب اداس ہوتے، مگر مجھے سکون ملتا، کیونکہ وہ میرے ہر کام میں ٹانگ اڑاتا تھا۔ روٹیاں بناؤں تو کہتا، "بس یہی کام تمہارے بس کا ہے۔" صفائی کروں تو طنز کرتا، "یہی تو تمہارے کرنے کے کام ہیں۔"
رفتہ رفتہ، نجانے کب اس کی شرارتیں دل میں گھر کرنے لگیں۔ اس کے خطوط آنے لگے، جن میں چھپے چھپے پیغامات میرے لیے ہوتے۔ میں نے بھی ڈرتے ڈرتے ایک خط لکھا، یہ سوچ کر کہ کہیں وہ میرا مذاق نہ اڑائے۔ لیکن اس بار اس نے کچھ نہ کہا۔ پھر کئی دن گزر گئے، نہ اس کی کوئی خبر آئی، نہ خط، اور عید پر بھی وہ نہ آیا۔ میرا دل اس کی یاد میں تڑپنے لگا۔ وہ جو کبھی نفرت کا نشانہ تھا، اب نجانے کیسے محبت بن گیا۔ اس کے بغیر جینا مشکل لگتا، مگر حیا کی وجہ سے کسی سے کچھ نہ کہتی۔
پھر اچانک ایک دن خبر ملی کہ توقیر کا نکاح ہو گیا۔ نہ منگنی، نہ کوئی بات۔ بس اچانک نکاح؟ میں راتوں روتی رہی، لیکن کسی سے کچھ نہ کہا۔ وقت گزرتا گیا، میں اپنی روٹین میں مصروف ہو گئی، دل کے درد کو دبائے مردہ سی زندگی جینے لگی۔ بھابھیوں کے بچوں میں دل لگاتی، کہ اچانک وہ ایک دن گھر آ گیا۔ اپنی بیگم اور بچی کے ساتھ۔ ڈیڑھ سال بعد وہ آیا تھا، ایک بچی کا باپ بن چکا تھا۔ اس کی بیوی چھوٹے قد کی، سیاہ رنگت والی، اور موٹی سی عورت تھی۔ بچی بھی ویسی ہی تھی۔ اسے دیکھ کر اس کے پرانے طنز یاد آ گئے: "مجھے بونے بچے نہیں چاہئیں۔ قد دیکھا ہے اپنا؟ ایک بالشت کی ہو!" میں نے آئینہ دیکھا اور زخمی مسکراہٹ کے ساتھ سوچا کہ میرا گورا رنگ اور خوبصورت چہرہ اس کے طنزیہ الفاظ کا مذاق اڑا رہا ہے۔ اس دن کے بعد میرے دل پر تالا پڑ گیا، اور توقیر کی محبت، جو کبھی دل کے سنگھاسن پر براجمان تھی، ہمیشہ کے لیے بند ہو گئی۔
اب وہ جب بھی آتا، اکیلا آتا۔ میں دعا مانگتی کہ وہ نہ آئے، مگر وہ پھر بھی آ جاتا۔ کیا اس نے میرے دل کو جلانے میں کوئی کسر چھوڑی تھی کہ اب دوبارہ درد جگانے آتا تھا؟ میرا دل اس سے پھر نفرت کرنے لگا۔ کئی رشتے آئے، لیکن میرا دل جیسے مر چکا تھا۔ اپنے آپ سے نفرت ہو گئی تھی، تو کسی اور کی زندگی کیسے تباہ کرتی؟ میں نے تایا کے گھر سے رابطہ ختم کر دیا، حالانکہ خاندان اب بھی میرا اور توقیر کا رشتہ چاہتا تھا۔ وہ اماں کا لاڈلا تھا، اگر وہ ڈٹ جاتا تو تائی مان جاتیں۔ لیکن میں نے سوچ لیا کہ محبت ایسی ہونی چاہیے جو اعتماد دے، ورنہ رسوائی مقدر بن جاتی ہے۔
اس سارے قصے میں میری سہیلی دردانہ تھی۔ توقیر کی بہن۔ اس کی خاطر ہی میں تایا کے گھر سے رابطہ رکھتی تھی۔ لیکن اس کے ساتھ جو میرے بھائی دانش نے کیا، وہ بھی کوئی کم سانحہ نہ تھا۔ ایک خوبصورت شام تھی، بارش برس رہی تھی۔ دانش بھائی توقیر سے ملنے گئے تھے۔ اگلے دن دردانہ نے مجھ سے کہا، "مائرہ، خدا کرے ہم دونوں کو اپنی چاہتیں مل جائیں۔" میں نے حیرت سے پوچھا، "اچھا! تجھے بھی کسی سے محبت ہو گئی؟ کون ہے وہ؟" وہ بولی، "وہی، جس کا نام دانش ہے۔"
میں خوشی سے اچھل پڑی۔ "تو پھر تو ہم دونوں بھابھیاں بن جائیں گی!" میں بی اے میں تھی، اور دانش بھائی مجھے ناسمجھ سمجھتے تھے۔ ایک دن وہ مجھے اپنی کلاس فیلو کے گھر سے درخواست لینے لے گئے۔ راستے میں بولے، "دردانہ کے گھر چلیں؟ گھر میں بڑی خاموشی ہے۔ اگر وہ اکیلی ہو تو اسے کہو کہ ہمارے گھر آ جائے۔ دل بہل جائے گا۔" میں سب سمجھتی تھی، لیکن خاموش رہی۔ دردانہ کو پیغام دیا، وہ گھر آ گئی۔ وہ مجھ سے باتیں کرتی، لیکن اس کی نگاہیں دانش بھائی کے لیے ہوتیں۔ وہ خوشی سے سرخ ہو رہے تھے۔ وہ دن ہم سب کے لیے یادگار تھا۔
کچھ دن بعد میں دردانہ کے گھر نہ جا سکی، نہ وہ آئی۔ دانش بھائی انتظار میں رہے، لیکن ان کے پرچے شروع ہونے والے تھے۔ وہ مجھے تایا کے گھر لے گئے۔ توقیر باہر گراؤنڈ میں تھا، دانش بھائی اس کے پاس چلے گئے، اور میں گھر کے اندر۔ پندرہ منٹ بعد وہ مجھے لینے آئے اور دردانہ سے بولے، "مجھے پرچوں کی تیاری کرنی ہے، کچھ دن تم سے ملاقات نہیں ہو سکے گی۔" دردانہ نے مسکرا کر کہا، "ضرور، لیکن وعدے نبھانا اور اچھے نمبر لانا۔"
دانش بھائی نے محنت کی اور شاندار نمبر لائے۔ دردانہ مبارکباد دینے ہمارے گھر آئی۔ بھائی نے کہا، "دردانہ، یہ سب تیری محبت کا کرشمہ ہے۔" گھر میں چرچے ہونے لگے کہ مائرہ توقیر کی ہے، اور دردانہ دانش کی۔ ہم دونوں بہن بھائی خوش تھے۔ لیکن پھر اچانک تائی اماں کو اپنی بھتیجی یاد آ گئی۔ وہ توقیر کو اس سے بیاہنا چاہتی تھیں۔ توقیر اور تایا نے بہت سمجھایا، لیکن تائی نے زہر کھانے کی دھمکی دے دی۔ ہم چاروں خاموش رہے، حالانکہ دھمکی ہمیں دینی چاہیے تھی۔
توقیر کے نکاح کی خبر نے امی کو اسپتال پہنچا دیا۔ وہ اسے اپنا داماد مان چکی تھیں۔ ابو گم سم ہو گئے، اور میں کئی دن کمرے سے نہ نکلی۔ میرا چہرہ ماتم کی تصویر بن گیا۔ دانش بھائی نے میری خاموش محبت پڑھ لی اور تایا کے گھر جانا بند کر دیا۔ وہ دردانہ سے بات بھی نہ کرتے۔ دردانہ بیچاری ہم دونوں کے بیچ پِس گئی۔ اس نے کہا، "نکاح تو توقیر بھائی کا ہوا، دانش تم مجھ سے کیوں نہیں بولتے؟ میرا کیا قصور؟"
امی نے دانش سے صاف کہہ دیا، "اگر بھاوج نے میری بیٹی نہ لی، تو میں ان کی بیٹی کیوں لوں؟ خبردار، دانش، اگر دردانہ کا سوچا!" میں نے بھائی سے کہا، "ہر کسی کے خواب پورے ہونا ضروری نہیں۔ دردانہ کو سزا نہ دو۔" لیکن وہ بولے، "اس کی بات نہ کرو۔" دردانہ نے میرا سہارا لیا اور کہا، "دانش سے پوچھو، کیا وہ مجھے اپنائیں گے؟" میں نے بھائی سے خدا کا واسطہ دے کر پوچھا، تو انہوں نے کہا، "اگر توقیر کو اس کی ماں پیاری ہے، تو مجھے بھی میری ماں پیاری ہے۔ امی نے کہا یہ ناممکن ہے، تو پھر کیسے ممکن ہوگا؟"
میں اپنی کزن کو کیا منہ دکھاتی؟ میرے اور دردانہ کے خواب مٹی میں مل گئے۔ ہمت کر کے اس کے گھر گئی۔ جب اس نے اپنے سوال کا جواب مانگا، تو میں اس کے گلے لگ کر پھوٹ پھوٹ کر رو پڑی۔ اسے جواب مل گیا۔ ہم دونوں سہیلیاں گلے مل کر خوب روئیں۔ دردانہ بولی، "تمہارا کیا قصور؟ قصور تو امی کا ہے، جن کی ضد نے ہم چاروں کو اجاڑ دیا۔ خدا ایسی ماں کسی کو نہ دے۔"
آج میں اپنے گھر بس چکی ہوں۔ دانش بھائی کی شادی ہو گئی، لیکن دردانہ نے شادی نہ کی۔ کوئی فرق نہ پڑا، سوائے اس کے۔ اس کا خیال آتا ہے تو دل رنجیدہ ہو جاتا ہے۔ میں بھائی سے خفا ہوں، جن کی ہٹ نے ایک شوخ و چنچل لڑکی کو اداس، عمر رسیدہ عورت میں بدل دیا۔ توقیر شاید مجھے بھلا چکا ہوگا۔ میں نے بھی دل پر پتھر رکھ لیا اور اپنے بچوں میں گم ہو گئی۔ لیکن جب تائی دردانہ کو اجڑی ہوئی دیکھتی ہیں، تو ان کے کلیجے سے ایک ٹھنڈی آہ ضرور نکلتی ہے۔
(ختم شد)