انوکھی واردات

Sublimegate Urdu Stories

میرا نام ملک صفدر حیات ہے۔ ان دنوں میری تعیناتی پنجاب کے ایک سرحدی علاقے میں تھی۔ پاک-بھارت سرحد میرے تھانے سے زیادہ دور نہیں تھی۔ جہاں تک مجھے یاد ہے، یہ اپریل کی کوئی وسطی تاریخ تھی۔ موسم خاصا خوش گوار اور دلکش تھا۔ میں حسبِ معمول تیار ہو کر تھانے پہنچا تو مجھے اطلاع ملی کہ میلے میں ایک شخص کی لاش ملی ہے۔ میں نے کانسٹیبل عبدالرحمن کو ساتھ لیا اور فوراً جائے وقوعہ پر پہنچ گیا۔

قیامِ پاکستان کو ابھی زیادہ وقت نہیں گزرا تھا۔ میرے تھانے میں عملے کی شدید کمی تھی۔ میرے علاوہ صرف تین کانسٹیبلز تھے، اور بس یہی ہمارا مکمل عملہ تھا۔ اس زمانے میں دیہی علاقوں کے تقریباً تمام تھانوں کا یہی حال تھا۔ جو تین کانسٹیبلز مجھے ملے، ان میں ایک سینیئر، سکندر علی، جبکہ باقی دو جونیئر، فیض احمد اور عبدالرحمن تھے۔ اس مختصر عملے کے ساتھ مجھے اس تھانے کی تھانیداری نبھانی تھی، جس کی حدود میں پانچ گاؤں آتے تھے۔ ان میں سے سب سے قریب وہی گاؤں تھا جہاں میلہ لگا ہوا تھا۔

مذکورہ میلے کا آغاز ہندوؤں اور سکھوں کے مشہور تہوار بیساکھی سے ہوا تھا۔ بیساکھی ہندو کیلنڈر کے مہینے بیساکھ کی پہلی تاریخ کو منائی جاتی ہے، جو عموماً اپریل کی 13 تاریخ ہوتی ہے۔ بیساکھی تو گزر چکی تھی، لیکن اس کے حوالے سے منعقد میلے کی رونقیں اور سرگرمیاں ابھی تک جاری تھیں۔ لاش سرکس کے شامیانے کے پیچھے کچی زمین پر پڑی تھی۔ یہ میلہ گاؤں سے باہر ایک وسیع و عریض میدان میں لگا تھا۔ عام دنوں میں گاؤں کے بچے اس میدان میں فٹ بال اور گولی ڈنڈا کھیلا کرتے تھے۔ ان دنوں کرکٹ کے نام سے کوئی واقف نہیں تھا، اس لیے اس کھیل کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔

میں نے اُکڑوں بیٹھ کر لاش کا معائنہ کیا۔ مرنے والے شخص کی عمر 25 سے 30 سال کے درمیان رہی ہو گی۔ اس نے گہرے نیلے رنگ کا شلوار قمیص پہن رکھا تھا اور پاؤں میں چمڑے کی سیاہ سینڈل تھی۔ وہ ایک وجیہہ اور خوش شکل شخص تھا۔ اس کے سر کے بال بڑے سلیقے سے بنائے گئے تھے۔ رنگت گندمی اور قد میانی تھا، لیکن اب وہ زندگی کی رونق اور توانائی سے محروم ہو چکا تھا۔ وہ چت پڑا تھا اور اس کے سینے میں ایک خنجر دست تک پیوست نظر آ رہا تھا۔ میرے محتاط اندازے کے مطابق، اس بدنصیب کو کسی بھی قیمت پر زندہ افراد میں شمار نہیں کیا جا سکتا تھا۔ اس کے سینے میں جس جگہ خنجر گھونپا گیا تھا، وہاں سے نکلنے والے خون نے اس کی قمیص کے سامنے والے حصے کو تر کر دیا تھا، اور بہت کم خون زمین تک پہنچا تھا۔ بظاہر یہی دکھائی دے رہا تھا کہ کسی سنگ دل شخص نے اس کے سینے میں خنجر اتار کر اسے موت کے گھاٹ اتار دیا تھا۔

لیکن جب میں نے مزید معائنہ کرنے کے لیے لاش کو پلٹ کر دیکھا تو مجھے حیرت کا جھٹکا لگا۔ مقتول کے سر کا عقبی حصہ بری طرح زخمی تھا۔ اس کی کھوپڑی اس جگہ سے چٹخ گئی تھی، لیکن حیرت انگیز طور پر وہاں کی زمین خون کے آثار سے خالی تھی۔ سر کے عقبی حصے اور گردن پر خون ضرور نظر آ رہا تھا، اور اس خون نے قمیص کے کالر کو بھی آلودہ کر دیا تھا، مگر سر کے نیچے والی کچی زمین بالکل خشک تھی۔ اس صورتِ حال کو دیکھتے ہوئے فوراً میرے ذہن میں ایک خیال آیا کہ اس بدنصیب کی کھوپڑی کو کہیں اور نشانہ بنایا گیا، اور پھر اسے یہاں لا کر اس کے سینے میں خنجر گھونپا گیا۔ ایسی حرکتیں چالاک قاتل پولیس کو گمراہ کرنے کے لیے کرتے ہیں، یا بعض اوقات کسی مجبوری کے تحت بھی ایسا ہو جاتا ہے، جس کی کئی وجوہات ہو سکتی ہیں۔

لاش کے تفصیلی معائنہ کے بعد، میں نے جائے وقوعہ کا نقشہ بنایا اور وہاں موجود لوگوں سے پوچھ گچھ شروع کی۔ یہ 15 اپریل کی ایک سہانی اور روشن صبح تھی۔ اس چھوٹے سے گاؤں کے محدود ماحول میں قتل کا یہ واقعہ سنسنی خیز اور رونگٹے کھڑے کر دینے والا تھا۔ اسی وجہ سے وہاں دو درجن سے زائد افراد موجود تھے، جن میں سرکس میں کام کرنے والے لوگ بھی شامل تھے۔ اس شخص کی لاش اسی سرکس کے شامیانے کے پیچھے پڑی ملی تھی، جس کے سینے میں خنجر پیوست تھا۔ اس کی موت کے وقت کا درست اندازہ تو پوسٹ مارٹم رپورٹ کے بعد ہی ہو سکتا تھا، لیکن اپنے پیشہ ورانہ تجربے کی روشنی میں میں بڑے اعتماد سے کہہ سکتا تھا کہ اس کی زندگی کا چراغ 14 اور 15 اپریل کی درمیانی شب، یعنی گزشتہ رات کے وسطی حصے میں کسی وقت بجھایا گیا تھا۔

حیرت کا دوسرا اور زیادہ شدید جھٹکا مجھے اس وقت لگا جب میں نے وہاں موجود لوگوں سے سوال و جواب شروع کیے۔ ان میں سے کوئی ایک بھی مقتول کو نہیں جانتا تھا۔ مقتول کی شناخت کے لیے میں نے گاؤں سے مزید لوگوں کو وہاں طلب کیا۔ اس گاؤں کی آبادی لگ بھگ 500 افراد پر مشتمل تھی۔ میرے بلاوے پر تقریباً 100 افراد جائے وقوعہ پر جمع ہو گئے۔ میں نے ہر ایک کو مقتول کا چہرہ دکھا کر ایک ہی سوال کیا: ’’یہ بدنصیب شخص کون ہے؟‘‘ اور سب نے ایک ہی جواب دیا کہ انہوں نے اسے پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ اس سے صرف ایک نتیجہ اخذ کیا جا سکتا تھا کہ مقتول اس گاؤں کا رہنے والا نہیں تھا۔
میں نے اس اجنبی مقتول کی لاش کو سرکاری ہسپتال بھیجنے کا بندوبست کیا اور کانسٹیبل عبدالرحمن کو اس کی ذمہ داری سونپی۔ جب وہ جانے لگا تو میں نے اس سے کہا، ’’عبدالرحمن، ایک بات کا خاص خیال رکھنا۔ اس کی چیرپھاڑ سے پہلے سرکاری فوٹوگرافر کو بلا کر تصاویر بنوا لینا۔ میری بات سمجھ آئی نا؟‘‘ اگرچہ پوسٹ مارٹم کے عمل میں سرجن کو مقتول کے چہرے کے ساتھ چھیڑ چھاڑ نہیں کرنی تھی، پھر بھی احتیاطاً میں چیرپھاڑ سے پہلے اس کی تصاویر بنوانا چاہتا تھا تاکہ یہ معلوم کرنے میں آسانی ہو کہ یہ شخص کون تھا اور کہاں سے آیا تھا۔ ایک بات تو طے تھی کہ وہ اس گاؤں کا رہائشی نہیں تھا۔

’’جی، ملک صاحب،‘‘ عبدالرحمن نے گردن ہلاتے ہوئے کہا، ’’آپ فکر نہ کریں، میں آپ کی بات اچھی طرح سمجھ گیا ہوں۔ میں پوری ذمہ داری سے آپ کے حکم کی تعمیل کروں گا۔‘‘
کانسٹیبل کو لاش کے ساتھ ہسپتال روانہ کرنے کے بعد، میں جائے وقوعہ کے آس پاس کی زمین کا جائزہ لینے لگا۔ میری توجہ کا مرکز سرکس کے شامیانے کا عقبی حصہ تھا۔ جلد ہی مجھے اپنے مقصد میں کامیابی مل گئی۔ جائے وقوعہ سے 50 سے 60 گز کے فاصلے پر کچی زمین پر خون کے دھبے نظر آئے۔ میرے ذہن نے اس واقعے کی چند کڑیوں کو جوڑ دیا۔ اس خون آلود زمین کو دیکھتے ہوئے میں نے خود کلامی کی، ’’اس نامعلوم شخص کے سر کے عقبی حصے پر کسی بھاری آلے سے وار کیا گیا، اور وہ یہیں گرا۔ پھر اسے اٹھا کر سرکس کے شامیانے کے پیچھے پھینک دیا گیا، جہاں کسی نے اس کے سینے میں خنجر گھونپ کر اسے موت کی نیند سلا دیا۔‘‘

اب ایک اہم سوال اُبھرا کہ کیا دونوں مقامات پر حملہ ایک ہی شخص نے کیا، یا یہ دو مختلف افراد کا کارنامہ تھا؟ لاش کو ہسپتال بھیجنے سے پہلے میں نے اس کی جامع تلاشی بھی لی تھی، لیکن اس کی جیبوں یا لباس سے کچھ بھی نہیں ملا۔ یہ ناقابلِ یقین تھا کہ کوئی شخص میلے میں آئے اور اس کی جیبوں میں روپیہ پیسہ، پرس، کنگھی، رومال یا کوئی اور چیز نہ ہو۔ اس صورتِ حال نے مجھے یہ سوچنے پر مجبور کیا کہ یہ ابتدائی طور پر لوٹ مار یا ڈکیتی کی واردات ہو سکتی ہے۔ کسی لٹیرے نے رات کی تاریکی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اس کے سر پر وار کیا، اور جب وہ زمین پر گرا تو اس کی جیبوں کا صفایا کر کے فرار ہو گیا۔ یہاں تک تو سب سمجھ میں آتا تھا، لیکن اس کے بعد کی کہانی خاصی پیچیدہ اور فکر انگیز تھی۔

ڈاکو یا لٹیرے عموماً اس بات کی پروا نہیں کرتے کہ ان کے جانے کے بعد مقتول پر کیا گزرتی ہے۔ وہ اپنا مقصد پورا کر کے غائب ہو جاتے ہیں اور پلٹ کر دیکھنے کی زحمت نہیں اٹھاتے۔ لیکن یہاں معاملہ معمول سے ہٹ کر تھا۔ جس جگہ لاش پڑی تھی، وہ اس مقام سے کچھ فاصلے پر تھی جہاں اس کی کھوپڑی کو نشانہ بنایا گیا تھا۔ میں نے اپنے طور پر یہ فیصلہ کیا کہ گزشتہ رات دو مختلف افراد نے اس نامعلوم شخص کو نشانہ بنایا۔ گاؤں والوں نے تو اسے پہچاننے سے صاف انکار کر دیا تھا۔ میلے میں لگائی گئی دکانیں بھی گاؤں والوں کی تھیں، صرف سرکس کے لوگ باہر سے آئے تھے اور ان کا اس گاؤں سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ اس لیے میں نے اپنی تفتیش کی سمت سرکس والوں کی طرف موڑ دی۔ وہی لوگ اس لرزہ خیز واقعے کے بارے میں کچھ بتا سکتے تھے۔

اس سرکس کا عملہ کل پانچ افراد پر مشتمل تھا، یعنی میرے تھانے کے عملے سے زیادہ۔ سرکس کے مالک کا نام ارشاد حسین تھا۔ ارشاد حسین کی عمر تقریباً پچاس سال تھی۔ وہ درمیانے قد و قامت اور سانولی رنگت کا حامل تھا۔ وہ خود سرکس میں کوئی فن پیش نہیں کرتا تھا، بلکہ صرف انتظامی معاملات کی نگرانی کرتا تھا۔ باقی افراد میں تین مرد اور دو عورتیں تھیں۔ لیاقت، ایک تیس سالہ شخص، سرکس کا ’ماچو مین‘ تھا اور جسمانی طاقت کے مظاہرے دکھاتا تھا۔ پینتیس سالہ بشیر درجن بھر سانپوں کے ساتھ اپنے فن کا مظاہرہ کرتا تھا، جبکہ بیس سالہ رفاقت شعبدہ بازی اور جادوئی کرتب دکھاتا تھا۔ دو عورتوں میں چمکیلی ناچ پیش کرتی تھی، جبکہ روبی اپنے جسم کو توڑ موڑ کر جمناسٹک کے پوز بنا کر تماشائیوں کو محظوظ کرتی تھی۔

جب میں ان سب کو لے کر ایک سایہ دار جگہ پر بیٹھ گیا، ارشاد حسین نے لجاجت آمیز لہجے میں کہا، ’’تھانیدار صاحب، ہم پردیسی ہیں۔ ہم مختلف شہروں اور دیہاتوں میں گھوم پھر کر اپنی روزی کماتے ہیں۔ ہم جہاں بھی جاتے ہیں، مقامی لوگوں سے کوئی تعلق نہیں رکھتے۔ آپ خواہ مخواہ ہم پر شک کر رہے ہیں۔ اس شخص کی موت کے بارے میں ہمیں کچھ معلوم نہیں، بلکہ ہم تو اسے جانتے بھی نہیں۔‘‘

میں نے ارشاد حسین کے چہرے پر نگاہ جمائی اور معتدل انداز میں کہا، ’’وہ بدنصیب مقتول آپ کی طرح گاؤں والوں کے لیے بھی اجنبی تھا۔ لیکن اس حقیقت کو جھٹلایا نہیں جا سکتا کہ کسی نے بڑی بے دردی سے اسے موت کے گھاٹ اتارا ہے۔ پولیس کا کام قاتل تک رسائی حاصل کرنا ہے، اور اس کے لیے شک ضروری ہے۔ اگر آپ میں سے کوئی اس واقعے کے بارے میں کچھ جانتا ہے تو مجھے بتا دے۔ آپ لوگ پولیس سے اتنا تعاون تو کر ہی سکتے ہیں، نا؟‘‘

’’ہم ہر قسم کے تعاون کے لیے تیار ہیں، سرکار،‘‘ ارشاد حسین نے منت ریز لہجے میں کہا۔ ’’لیکن سچی بات یہ ہے کہ ہم اس واقعے کے بارے میں کچھ نہیں جانتے۔ ہمارا سرکس صبح دس بجے سے رات دس بجے تک چلتا ہے، اور اس دوران ہماری ساری توجہ اپنے کام پر ہوتی ہے۔ ادھر اُدھر کے معاملات پر ہمارا دھیان نہیں جاتا۔‘‘

میرے محتاط اندازے کے مطابق، اس نامعلوم شخص کو گزشتہ رات کے درمیانی حصے میں موت کے گھاٹ اتارا گیا تھا، اور ارشاد حسین بتا رہا تھا کہ رات دس بجے سرکس اپنا کام بند کر دیتا ہے۔ ’’رات دس بجے کے بعد آپ لوگ کیا کرتے ہیں؟‘‘ میں نے ایک اہم سوال کیا۔

’’ہم اپنے خیموں میں چلے جاتے ہیں، جو سرکس کے بڑے شامیانے کے ساتھ ایک قطار میں لگے ہیں۔ آپ خود بھی ان تین خیموں کو دیکھ سکتے ہیں،‘‘ ارشاد حسین نے ایک جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا۔ ’’چھوٹے خیمے میں میں رہتا ہوں۔ باقی دو بڑے خیموں میں سے ایک میں لیاقت، بشیر اور رفاقت مقیم ہیں، جبکہ تیسرے خیمے میں چمکیلی اور روبی رہتی ہیں۔ ہم سب رات کا کھانا کھانے کے بعد آرام کرتے ہیں، کیونکہ اگلے دن پھر ہمیں محنت کے لیے تیار ہونا پڑتا ہے۔‘‘

’’کیا آپ لوگ کھانا کھانے کے بعد فوراً سو جاتے ہیں؟‘‘ میں نے سوالات کا سلسلہ جاری رکھتے ہوئے پوچھا۔

’’بالکل، تھانیدار صاحب،‘‘ ارشاد حسین نے گردن ہلاتے ہوئے کہا۔ ’’دن بھر کے کام سے اتنی تھکن ہو جاتی ہے کہ بستر پر گرتے ہی نیند ہمیں اپنی آغوش میں لے لیتی ہے۔ پھر اگلی صبح ہی ہماری آنکھ کھلتی ہے۔‘‘ لیکن وہ لمحے بھر کے لیے رکا، پھر ایک گہری اور افسردہ سانس لے کر بولا، ’’آج اس واقعے کی وجہ سے کوئی ہمارے سرکس کا رخ نہیں کرے گا۔ اس سنسنی خیز واقعے نے لوگوں کے ہوش اڑا دیے ہیں۔ میں سوچ رہا ہوں کہ ہم اپنا کام سمیٹ کر کہیں اور چلے جائیں۔‘‘

’’ایسی غلطی بول کر بھی نہ کریں، ارشاد حسین،‘‘ میں نے تنبیہ کن انداز میں کہا۔ ’’جب تک میں اس واقعے کی ابتدائی تفتیش مکمل نہیں کر لیتا، آپ کو یہیں رہنا ہوگا، اور آپ کے تمام ساتھیوں کو بھی۔‘‘

’’تھانیدار صاحب، حالات ایسے ہو گئے ہیں کہ نہ صرف ہمارا سرکس، بلکہ یہ سارا میلہ اجڑ جائے گا،‘‘ اس نے گہری سنجیدگی سے کہا۔ ’’جب کوئی ہمارے کھیل تماشے دیکھنے نہیں آئے گا تو ہم یہاں رہ کر کیا کریں گے؟‘‘

’’میں آپ کو اور آپ کے ساتھیوں کو کھیل تماشے دکھانے کے لیے نہیں، بلکہ اپنی تفتیش کے لیے روک رہا ہوں، ارشاد حسین،‘‘ میں نے ایک ایک لفظ پر زور دیتے ہوئے کہا۔ ’’اگر میری بات آپ کی سمجھ میں نہ آئی تو مجھے قانون کا استعمال کرنا پڑے گا، اور آپ جانتے ہیں کہ ایک تھانیدار کی حیثیت سے میں زبردستی یہ سب کر سکتا ہوں۔‘‘

’’ہاں، میں جانتا ہوں،‘‘ وہ شکست خوردہ انداز میں بولا۔ ’’آپ اس علاقے کے مائی باپ ہیں۔ ہم آپ سے باہر نہیں جا سکتے۔‘‘

’’فکر مند ہونے کی ضرورت نہیں، ارشاد حسین،‘‘ میں نے معتدل انداز میں کہا۔ ’’میں آپ لوگوں کو زیادہ عرصے تک یہاں نہیں روکوں گا۔ آپ نے پچھلے چند دنوں میں اچھا خاصا کما لیا ہے۔ اب ایک آدھ دن ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھنے سے آپ کی صحت پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ مجھے بس پوسٹ مارٹم رپورٹ کا انتظار ہے۔ اس کے بعد ہی اس نامعلوم مقتول کی موت پر روشنی پڑے گی۔ اگر آپ میں سے کوئی اس کی موت میں ملوث نہیں تو میں آپ کو جانے کی اجازت دے دوں گا۔‘‘

’’ٹھیک ہے، تھانیدار صاحب،‘‘ ارشاد نے تعاون آمیز انداز میں گردن ہلاتے ہوئے کہا۔ ’’ہم اپنی بے گناہی ثابت کرنے کے لیے آپ کے حکم پر دو دن یہاں رکنے کو تیار ہیں۔ اگر ہم نے کوئی جرم نہیں کیا تو ہمیں ڈرنے کی کیا ضرورت ہے؟‘‘ وہ لمحے بھر کے لیے رکا، پھر اپنے عملے کی طرف دیکھ کر تصدیق طلب انداز میں پوچھا، ’’میں ٹھیک کہہ رہا ہوں، نا؟‘‘

’’جی، ماسٹر،‘‘ سب نے بیک آواز کہا۔ سرکس کے فنکار ارشاد حسین کو ’ماسٹر‘ کہتے تھے۔ یہ ماسٹر کوئی اسکول کا استاد نہیں، بلکہ ان کا مالک اور رہنما تھا۔ لیاقت، بشیر، رفاقت، چمکیلی اور روبی نے اگرچہ اپنے ماسٹر کی ہاں میں ہاں ملائی، لیکن میں نے چمکیلی اور لیاقت کی تائید میں وہ جوش و خروش نہیں دیکھا جو بشیر، رفاقت اور روبی کی آواز میں تھا۔ بہرحال، میں نے اس تبدیلی پر زیادہ توجہ نہیں دی اور باری باری ان سے سوالات کرنے لگا۔ سوالات کچھ اس طرح تھے: کیا ان میں سے کوئی رات گئے تک جاگتا رہا تھا؟ کیا کسی نے سرکس کے بڑے شامیانے کی جانب سے کوئی آواز سنی تھی؟ کیا کسی کو کچھ معلوم تھا کہ پچھلی رات شامیانے کے پیچھے کیا واقعہ پیش آیا؟ وغیرہ وغیرہ۔

ان کے جوابات سے واقعے پر روشنی کی ایک کرن بھی نہ پڑی۔ یعنی وہ اس لرزہ خیز اور افسوسناک واقعے کے بارے میں کچھ نہیں جانتے تھے۔ میں نے انہیں ضروری ہدایات دیں اور تھانے واپس آ گیا۔

میں جائے وقوعہ سے لوٹ تو آیا تھا، لیکن میرا دھیان وہیں رہ گیا تھا۔ ایک سوچ جونک کی طرح میرے احساسات سے چمٹ گئی تھی کہ میں اس خوبرو شخص کے بارے میں سوچے بغیر رہ نہیں پا رہا تھا کہ وہ آخر تھا کون؟ وہ کہاں سے آیا تھا؟ گزشتہ رات وہ سرکس کے شامیانے کے پیچھے کیا کر رہا تھا؟ اور جب اس علاقے میں کوئی اسے جانتا تک نہیں تھا تو اسے موت کے گھاٹ کس نے اتارا؟ یہ اور اس جیسے درجنوں سوالات مجھے پریشان کر رہے تھے۔ ظاہر ہے، مجھے پریشان ہونا بھی چاہیے تھا۔ میرے تھانے کی حدود میں قتل کی ایک سنگین واردات ہوئی تھی، اور میں ابھی تک ایک بند گلی میں کھڑا تھا۔

شام سے کچھ دیر پہلے کانسٹیبل عبدالرحمن ہسپتال سے واپس آیا۔ اس وقت میں کانسٹیبل سکندر علی کے ساتھ اپنے کمرے میں بیٹھا تھا۔ عبدالرحمن نے اندر آ کر مجھے سلام کیا۔ میں نے پوچھا، ’’وہاں کیا رہا، عبدالرحمن؟‘‘

’’لاش کو میں نے پوسٹ مارٹم کے لیے ہسپتال والوں کے سپرد کر دیا،‘‘ عبدالرحمن نے جواب دیا۔ ’’کل شام سے پہلے پوسٹ مارٹم شدہ لاش ابتدائی رپورٹ کے ساتھ تھانے پہنچا دی جائے گی۔‘‘

’’اور جو میں نے تمہیں لاش کی تصاویر بنوانے کا کام سونپا تھا، اس کا کیا ہوا؟‘‘ میں نے سوالیہ نظروں سے اس کی طرف دیکھ کر پوچھا۔

’’میں نے وہ کام کر دیا، ملک صاحب،‘‘ وہ پرجوش لہجے میں بولا۔ ’’پوسٹ مارٹم کی ابتدائی رپورٹ کے ساتھ وہ تصاویر بھی یہاں پہنچ جائیں گی۔‘‘

’’شاباش! یہ تم نے بہت اچھا کام کیا،‘‘ میں نے ستائشی نظروں سے اس کی طرف دیکھ کر کہا۔ ’’اب جا کر آرام کرو۔ کل کا دن ہم سب کے لیے بہت مصروف اور تھکا دینے والا ہوگا۔‘‘

عبدالرحمن نے میرا شکریہ ادا کیا اور کمرے سے نکل گیا۔ تب سکندر علی نے مجھ سے پوچھا، ’’ملک صاحب، جب اس پردیسی مقتول کو کوئی جانتا ہی نہیں تو آپ نے اس کی تصاویر کیوں بنوائیں؟‘‘

’’اسی لیے کہ وہ بدنصیب یہاں سب کے لیے اجنبی ہے،‘‘ میں نے جواب دیا۔ ’’میں یہ پتہ لگانا چاہتا ہوں کہ اگر اس گاؤں کے لوگ اسے نہیں جانتے تو کیا دوسرے گاؤں کے لوگ بھی اس سے ناواقف ہیں، یا ان میں سے کوئی اسے پہچان لیتا ہے۔ سکندر، اس کی شناخت بہت ضروری ہے۔ جب تک یہ معلوم نہیں ہوتا کہ وہ کون تھا اور یہاں کس مقصد سے آیا تھا، اس کے قاتل تک رسائی ناممکن رہے گی۔‘‘

’’آپ بالکل ٹھیک کہہ رہے ہیں،‘‘ سکندر علی نے تائیدی انداز میں گردن ہلاتے ہوئے کہا، اور پوچھا، ’’مقتول کی تصاویر کے حوالے سے آپ کے ذہن میں کیا منصوبہ ہے؟‘‘

’’اب تک جو حقائق سامنے آئے ہیں، ان کے مطابق اس شخص کا اس گاؤں سے کوئی تعلق نہیں،‘‘ میں نے گہری سنجیدگی سے کہا۔ ’’لیکن میرے تھانے کی حدود میں کل پانچ گاؤں ہیں۔ باقی گاؤں کے لوگ بھی اس میلے میں آتے جاتے رہے ہیں۔ عین ممکن ہے کہ مقتول انہی گاؤں میں سے کسی کا رہنے والا ہو۔ میں نے سوچا ہے کہ تصاویر آنے کے بعد آپ کو اس کی شناخت کے لیے اردگرد کے گاؤں دیہات کا دورہ کرنے بھیجوں گا۔ امید ہے کہیں نہ کہیں سے اس کا سراغ مل جائے گا۔ یہ تو ہو نہیں سکتا کہ وہ اچانک آسمان سے ٹپکا ہو یا زمین سے نکلا ہو، اور ظاہر ہوتے ہی کسی نے اسے بے دردی سے موت کے گھاٹ اتار دیا ہو۔‘‘

’’آپ بالکل ٹھیک کہہ رہے ہیں، ملک صاحب،‘‘ سکندر علی نے معتدل انداز میں میری تائید کرتے ہوئے کہا۔ ’’آپ کا منصوبہ مجھے پسند آیا۔ مقتول کہیں نہ کہیں کا رہنے والا تو ہوگا ہی۔ ہم اسے ڈھونڈ نکالیں گے۔‘‘

’’اس کام کے لیے میرے ذہن میں آپ کا نام ہے، سکندر علی،‘‘ میں نے اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کہا۔ ’’میں مقتول کی تصاویر کے ساتھ آپ کو اس کی شناخت کی تلاش کے لیے روانہ کرنے کا ارادہ رکھتا ہوں۔ ہمارے پاس عملہ بہت کم ہے، اس لیے یہ کام آپ کو اکیلے ہی کرنا ہوگا۔‘‘

’’سمجھ گیا، ملک صاحب،‘‘ وہ بڑے عزم سے بولا۔ ’’تھانے کی حدود میں جو گاؤں دیہات ہیں، وہاں تو میں جاؤں گا ہی۔ اگر مقتول کا سراغ لگانے کے لیے مجھے اس حدود سے باہر بھی نکلنا پڑا تو میں ضرور جاؤں گا۔ آپ بے فکر ہو جائیں۔‘‘

اور میں عارضی طور پر بے فکر ہو گیا۔
****
اگلے روز دوپہر تک کیس کا معاملہ جوں کا توں رہا۔ سرکس والے میری ہدایت کے مطابق میدان میں رُک گئے تھے۔ ان کے پاس کھانے پینے اور رہائش کا مکمل بندوبست تھا، اس لیے دو چار دن مزید ٹھہرنے سے انہیں کوئی دشواری نہ ہوتی، سوائے اس کے کہ ان کی آمدنی رُک گئی تھی۔ قاتل اور مقتول کے بارے میں ہم سب ابھی تک اندھیرے میں تھے۔ میں اپنے ذہن کو مختلف زاویوں سے دوڑا رہا تھا، مگر کوئی واضح راستہ نہ مل رہا تھا جس پر قدم رکھ کر میں اپنی منزل کی طرف بڑھ سکتا۔ اسی سوچ و بچار میں شام ہو گئی۔ پھر اچانک اس کیس نے نئی کروٹ لی، اور اس کی وجہ پوسٹ مارٹم رپورٹ تھی۔

پوسٹ مارٹم رپورٹ کی ابتدائی معلومات کے مطابق، نامعلوم مقتول کی موت 14 اور 15 اپریل کی درمیانی شب، رات 10 سے 12 بجے کے درمیان ہوئی تھی۔ موت کی وجہ ایک خطرناک خنجر تھا جو مقتول کے سینے میں گھونپا گیا تھا۔ رپورٹ میں یہ بھی اشارہ تھا کہ مقتول کو بے ہوشی کی حالت میں قتل کیا گیا۔ سر کے عقبی حصے کے تجزیے سے پتا چلا کہ کسی لوہے کی سلاخ یا اس جیسے آلے سے کھوپڑی پر وار کیا گیا، جس سے کھوپڑی کا عقبی حصہ بری طرح زخمی ہو گیا۔ نتیجتاً، وہ وہیں گر کر بے ہوش ہو گیا تھا۔ بعد میں، اس کے سینے میں خنجر گھونپ کر اسے موت کی نیند سلا دیا گیا۔

پوسٹ مارٹم رپورٹ سے یہ بھی ظاہر ہوا کہ مقتول پر دو مرتبہ حملہ ہوا تھا۔ پہلے کسی ڈاکو نے اسے لوٹنے کے لیے سر پر وار کیا اور اس کی جیبوں کا صفایا کر کے فرار ہو گیا۔ دوسری بار، اس کے جان کے دشمن نے سینے میں خنجر گھونپ کر اس کا کام تمام کر دیا۔ مقتول لوٹ مار کے مقام سے قتل کے مقام تک کیسے پہنچا، یہ ابھی تک ایک راز تھا۔ سب سے حیران کن بات یہ تھی کہ مقتول مسلمان نہیں تھا۔ اگر وہ مسلمان نہیں تھا، تو یقیناً وہ ہندو یا سکھ تھا۔ یہ ایک سنسنی خیز انکشاف تھا۔

اب سب سے بڑا مسئلہ یہ تھا کہ مقتول کی لاش کس کے حوالے کی جائے۔ اگر اس کی شناخت نہ ہو سکی اور کوئی وارث نہ ملا، تو کیا اسے دفن کیا جائے یا جلایا جائے؟ اس مسئلے کے فوری حل کے لیے میں نے گاؤں کی مسجد کے امام سے مشورہ کیا۔ انہوں نے کہا، "ملک صاحب، جب تک مقتول کا مذہب واضح نہ ہو، اسے کسی الگ تھلگ جگہ پر دفن کر دیں۔ اگر بعد میں اس کا مذہب معلوم ہو جائے کہ وہ ہندو، سکھ، عیسائی یا کوئی اور تھا، تو یہ اس کا نصیب ہے۔ لیکن ہم کسی انسانی جسم کو کھلے میں نہیں پھینک سکتے، یہ انسانیت کی توہین ہوگی۔" مولوی صاحب کا مشورہ درست تھا، لہٰذا لاش کو ایک ویران جگہ پر سپردِ خاک کر دیا گیا۔

ان تمام معاملات کو نمٹاتے شام ہو گئی۔ میری اندرونی بے چینی بدستور برقرار تھی۔ مجھے اپنے مقصد میں کامیابی تب ملتی جب میں قاتل تک پہنچ جاتا، مگر ابھی کچھ بھی یقینی نہ تھا۔

اگلی صبح، میں نے کانسٹیبل سکندر علی کو اپنے کمرے میں بلایا۔ گزشتہ روز مقتول کی لاش کے ساتھ اس کے چہرے کی تصاویر بھی آئی تھیں۔ میں نے وہ تصاویر سکندر کے حوالے کیں اور اسے ایک خاص مشن پر روانہ کر دیا۔ سکندر کے جانے کے بعد، میں تازہ حالات پر غور کرنے لگا۔ ابھی آدھا گھنٹہ بھی نہ گزرا تھا کہ کانسٹیبل عبدالرحمن میرے کمرے میں آیا۔ اس کا چہرہ بجھا ہوا تھا۔ میں نے پوچھا، "عبدالرحمن، کیا بات ہے؟ تمہاری شکل کیوں اُداس ہے؟"

وہ پریشانی سے بولا، "ملک صاحب، میں آپ سے اپنی ایک غلطی کی معافی مانگنے آیا ہوں۔" میں نے سنجیدگی سے پوچھا، "کیسی غلطی؟" اس نے جیب سے کچھ نکالا اور چپ چاپ میز پر رکھ دیا۔ وہ چاندی کی ایک پازیب تھی۔ میں نے سوالیہ نظروں سے اس کی طرف دیکھا۔ اس نے شرمندگی سے کہا، "یہ پازیب مجھے وقوعہ کے روز اسی میدان میں پڑی ملی تھی۔ میری نیت تھی کہ آپ لاش کا معائنہ مکمل کر لیں تو میں یہ آپ کے حوالے کر دوں گا۔ لیکن آپ نے مجھے لاش کے ساتھ ہسپتال بھیج دیا، اور میں یہ دینا بھول گیا۔ ہسپتال پہنچ کر جب میں نے اس پازیب کو دوبارہ دیکھا، تو میرے دل میں لالچ آ گیا۔"

میں نے بیزاری سے کہا، "عبدالرحمن، میرا ذہن پہلے ہی الجھا ہوا ہے۔ جو بتانا چاہتے ہو، کھل کر بتاؤ۔" وہ بولا، "ملک صاحب، میں نے کوئی سنگین جرم نہیں کیا، بس ایک حقیقت دو دن تک آپ سے چھپائی۔ آپ جانتے ہیں کہ میری شادی کو دو سال ہو گئے ہیں، اور میں اپنی بیوی سعدیہ سے بہت محبت کرتا ہوں۔ ہمارے گاؤں میں جمیل کی بیوی روشنی واحد عورت ہے جو چاندی کی پازیب پہنتی ہے۔ سعدیہ نے کئی بار مجھ سے پازیب لانے کی فرمائش کی۔ وہ کہتی ہے کہ روشنی کے پاؤں میں پازیب اچھی نہیں لگتی، لیکن میرے پاؤں میں یہ بہت خوبصورت لگے گی کیونکہ وہ سانولی ہے اور میں گوری ہوں۔ میں ہر بار سعدیہ سے وعدہ کرتا ہوں کہ جلد اسے پازیب لا دوں گا، لیکن اپنی نالائقی کی وجہ سے وعدہ پورا نہ کر سکا۔ جب یہ پازیب ملی، تو میں نے سوچا کہ آپ کو اس کے بارے میں نہ بتاؤں اور یہ سعدیہ کو دے دوں۔"

میں نے پوچھا، "تو پھر تم نے یہ پازیب سعدیہ کو کیوں نہ دی؟" اس نے کہا، "پچھلے دو دن سے میرے دل و دماغ میں جنگ چل رہی تھی۔ دماغ کہتا تھا کہ آپ کو اس پازیب کی خبر نہیں، اسے سعدیہ کو دے دو۔ لیکن میرا دل اس کی مخالفت کر رہا تھا۔ میں آپ کو پریشان دیکھ رہا تھا، اس لیے میں نے اپنے دل کی بات مانی اور آپ کو دھوکا دینے کا ارادہ ترک کر دیا۔ اب میں اس پازیب کے ساتھ آپ کے سامنے ہوں، اس امید کے ساتھ کہ یہ آپ کو کیس حل کرنے میں مدد دے گی۔"

اس نے پازیب میرے حوالے کی، اور مجھے کیس حل کرنے کے لیے ایک نیا سراغ مل گیا۔ میں نے کہا، "وقوعہ کی دوپہر جب میں سرکس کے عملے سے پوچھ گچھ کر رہا تھا، تو میں نے سرکس کی ڈانسر چمکیلی کے پاؤں میں بالکل ایسی ہی پازیب دیکھی تھی۔ تم ابھی سرکس کے میدان جاؤ اور چمکیلی کو یہاں لے کر آؤ۔" عبدالرحمن بغیر کوئی سوال کیے اٹھا اور کمرے سے نکل گیا۔