میں 15 اپریل کی دوپہر کو یاد کرنے لگا۔ جائے وقوعہ پر موجود لوگوں سے پوچھ گچھ کے بعد، جب میں نے سرکس والوں سے بات کی تھی، تو چمکیلی اور لیاقت کے چہروں پر ہلکی سی ہچکچاہٹ دیکھی تھی۔ ان کے مالک، ارشاد حسین، نے اعتماد سے کہا تھا، "تھانیدار صاحب، جب ہم نے کوئی جرم نہیں کیا، تو ڈرنے کی کیا ضرورت ہے؟" سب نے ان کی تائید کی تھی، لیکن چمکیلی اور لیاقت کی تائید میں وہ جوش نہ تھا۔ اس وقت میں نے اس رویے پر زیادہ توجہ نہ دی تھی، لیکن پازیب کے منظر عام پر آنے کے بعد میرا دھیان اس طرف گیا۔ میں نے چمکیلی کے ایک پاؤں میں ایسی ہی پازیب دیکھی تھی۔ میں نے گہری سانس لی اور عبدالرحمن کی واپسی کا انتظار کرنے لگا۔
تقریباً آدھے گھنٹے بعد عبدالرحمن واپس آیا، لیکن وہ صرف چمکیلی کو نہیں لایا بلکہ اس کے ساتھ لیاقت اور سرکس کے مالک ارشاد حسین بھی تھانے پہنچ گئے۔ چمکیلی اور لیاقت کو ایک ساتھ دیکھ کر میرا ماتھا ٹھنکا۔ میں نے تو صرف چمکیلی کو بلایا تھا، لیکن لیاقت کا اس کے ساتھ آنا میرے شک کو مزید تقویت دے رہا تھا۔ جب ارشاد حسین، چمکیلی اور لیاقت کے ساتھ میرے سامنے آیا تو میں نے کہا، "میں نے تو صرف تمہارے سرکس کی ڈانسر کو ایک خاص مقصد کے لیے بلایا تھا۔ تم دونوں بلاوجہ اس کے ساتھ کیوں چلے آئے؟" پھر میں نے ارشاد حسین کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کہا، "تم دونوں باہر برآمدے میں جا کر بیٹھو۔ اگر تم میں سے کسی کی ضرورت پڑی تو میں خود بلا لوں گا۔"
لیاقت اور ارشاد نے الجھن بھری نظروں سے ایک دوسرے کو دیکھا اور چپ چاپ کمرے سے باہر نکل گئے۔ میں نے چمکیلی کو سامنے کرسی پر بیٹھنے کا اشارہ کیا۔ وہ بغیر کسی تردد کے کرسی پر بیٹھ گئی اور سوالیہ نظروں سے مجھے دیکھنے لگی۔ چمکیلی کی عمر لگ بھگ ستائیس سال تھی۔ وہ درمیانے قد کی ایک خوبصورت لڑکی تھی، جس کے چہرے کے نقوش میں خاص دلکشی تھی۔ تاہم، اس وقت وہ کافی خوفزدہ دکھائی دے رہی تھی، اور یہ خوف اس کے حسن کو مزید نکھار رہا تھا۔
میں نے اس کے چہرے پر نگاہ جماتے ہوئے پوچھا، "چمکیلی، کیا تم جانتی ہو کہ میں نے تمہیں یہاں کیوں بلایا؟" اس نے نفی میں سر ہلاتے ہوئے جواب دیا، "نہیں، تھانیدار صاحب، مجھے کیسے پتا ہوگا؟" میں نے اس کی نفسیات سے کھیلتے ہوئے کہا، "میرا تھانہ تمہارے سرکس سے چند گز کے فاصلے پر ہے۔ پھر تم نے ایسی غفلت کیوں کی؟" اس کی آنکھوں میں بے یقینی کے آثار ابھرے۔ الجھن بھرے لہجے میں بولی، "میں کچھ سمجھی نہیں، تھانیدار صاحب۔"
میں نے بات آگے بڑھاتے ہوئے کہا، "جب کسی کی کوئی قیمتی چیز گم ہو جائے تو اس کی گمشدگی کی رپورٹ درج کرائی جاتی ہے تاکہ پولیس اسے ڈھونڈنے کی کوشش کرے۔ کیا میں غلط کہہ رہا ہوں؟" وہ سر ہلاتے ہوئے بولی، "نہیں، آپ ٹھیک کہہ رہے ہیں، تھانیدار صاحب۔" میں نے اس کی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے پوچھا، "پھر تم نے غیر ذمہ داری کیوں دکھائی؟" وہ گڑبڑا گئی اور بولی، "میری کون سی قیمتی چیز گم ہوئی؟ مجھے تو کچھ یاد نہیں۔"
میں نے سرسری انداز میں کہا، "میں یاد دلاتا ہوں۔" پھر میز کی دراز سے چاندی کی پازیب نکال کر اسے دکھاتے ہوئے کہا، "دو تین روز پہلے تم نے یہ پازیب کہیں گم کر دی تھی۔ وقوعہ کی دوپہر جب میں تم لوگوں سے پوچھ گچھ کر رہا تھا، تو تمہارے ایک پاؤں میں پازیب تھی، لیکن دوسرے میں نہیں۔ حالانکہ تم ہمیشہ دونوں پاؤں میں پازیبیں پہن کر سرکس میں ڈانس کرتی ہو، ہاں یا نہ؟"
میری باتوں نے اسے بالکل نشانے پر لگایا۔ پازیب دیکھتے ہی چمکیلی کے چہرے کی چمک بڑھ گئی۔ اس نے ہاتھ بڑھاتے ہوئے کہا، "کیا میں اس پازیب کو ہاتھ میں لے کر دیکھ سکتی ہوں، تھانیدار صاحب؟" میں نے نرمی سے کہا، "کیوں نہیں، ضرور۔ یہ تمہاری ہے، تم اسے اپنے پاس بھی رکھ سکتی ہو، لیکن میرے سوالات کے درست جواب دینے کے بعد۔" پھر ڈرامائی انداز میں رکتے ہوئے کہا، "پہلے تصدیق کرو کہ یہ وہی پازیب ہے جو تم نے گم کی تھی۔"
اس نے جلدی سے کہا، "جی، یہ وہی ہے، تھانیدار صاحب۔" میں نے اطمینان کی سانس لی۔ میری نفسیاتی چال کامیاب ہوئی تھی۔ میں نے پازیب اس کے حوالے کرتے ہوئے کہا، "لو، اسے ہاتھ میں لے کر تسلی کر لو۔ اس کے بعد میں اپنے سوالات شروع کروں گا۔" چمکیلی نے پازیب لی اور اسے اپنے دوسرے پاؤں کی پازیب سے ملا کر دیکھا۔ سرسراہٹ بھری آواز میں بولی، "تھانیدار صاحب، یہ سولہ آنے میری پازیب ہے۔ کیا میں اسے پہن کر دیکھ سکتی ہوں؟"
میں نے ہاتھ بڑھاتے ہوئے کہا، "ابھی نہیں، چمکیلی۔ پہلے میرے سوالات کے جواب، پھر یہ پازیب تمہاری۔" اس نے پازیب واپس میرے ہاتھ پر رکھ دی اور معذرت خواہانہ انداز میں کہا، "میں نے پازیب کی گمشدگی کی اطلاع نہیں دی، مجھے معاف کر دیں، تھانیدار صاحب۔"
میں نے فراغ دلی سے کہا، "تم بھی کیا یاد کرو گی، چمکیلی۔ میں نے تمہیں دل سے اور قانون سے معاف کر دیا۔ اب بتاؤ، یہ پازیب تم نے کہاں کھوئی تھی؟" وہ پریشان ہوئی اور بولی، "مجھے یاد نہیں، تھانیدار صاحب۔" چند لمحے سوچنے کے بعد اس نے کہا، "میرا دماغ کام نہیں کر رہا۔ آپ ہی بتائیں کہ یہ پازیب آپ کو کہاں ملی؟"
عبدالرحمن مجھے بتا چکا تھا کہ یہ پازیب اسے جائے وقوعہ سے ذرا ہٹ کر سرکس کے میدان میں ملی تھی۔ میں نے چمکیلی کی زبان کھلوانے کے لیے دانستہ غلط بیانی کرتے ہوئے کہا، "یہ پازیب مجھے اس نامعلوم ہندو جوان کی لاش کے قریب پڑی ملی تھی۔" چمکیلی کے چہرے کا رنگ اڑ گیا، اور اس کی آنکھوں کی چمک مدھم پڑ گئی۔ وہ چند لمحے متذبذب نظروں سے مجھے دیکھتی رہی، پھر شک بھرے لہجے میں بولی، "تھانیدار صاحب، کیا آپ مجھے اس قتل کی واردات میں گھسیٹنے کی کوشش کر رہے ہیں؟"
میں نے ایک ایک لفظ پر زور دیتے ہوئے کہا، "میں تو اس پردیسی مقتول کے قاتل تک پہنچنے کی کوشش کر رہا ہوں، چمکیلی، اور یہی میرا کام ہے۔ مجھے بتاؤ، تم وقوعہ کی رات سرکس کے بڑے خیمے کے پیچھے کیا کر رہی تھی؟ یہ مت کہنا کہ تمہاری پازیب اڑ کر وہاں پہنچ گئی تھی۔" چمکیلی اس لمحے نہ جانے نہ ماندن کی کیفیت میں نظر آئی۔
میں نے واضح الفاظ میں کہا، "ایک بات ذہن میں رکھو، مجھے تمہاری زبان سے صرف سچ سننا ہے۔ ابھی تک میں تمہیں اس قتل میں ملوث نہیں سمجھتا، لیکن اگر تم نے جھوٹ بول کر مجھے چکر دینے کی کوشش کی تو میں تم پر ایسا کیس بناؤں گا کہ باقی زندگی جیل کی دیواروں کے پیچھے چکی پیستے گزر جائے گی۔ ڈانس کا شوق تم صرف خوابوں میں پورا کرو گی، وہ بھی اگر سونے کا موقع ملا تو۔"
میری دھمکی نے کام کیا۔ چمکیلی کے چہرے پر زلزلے کے آثار نمودار ہوئے۔ پھر اس نے دوٹوک انداز میں کہا، "اس رات میں تھوڑی دیر کے لیے اپنے خیمے سے باہر نکلی تھی، لیکن اس طرف نہیں گئی جہاں سے آپ کو وہ لاش ملی۔"
میں نے پوچھا، "تو پھر تم کس طرف گئی تھی؟" اس نے بتایا، "سرکس کے بڑے خیمے کی دوسری جانب، جہاں سے ہمارے رہائشی خیمے نظر نہیں آتے۔"
میں جانتا تھا کہ سرکس کے بڑے خیمے کے پہلو میں تین خیمے ایک قطار میں لگے تھے۔ سب سے چھوٹے خیمے میں ارشاد حسین رہتا تھا، درمیانی خیمے میں روبی اور چمکیلی، اور آخری خیمے میں لیاقت، رفاقت اور بشیر رہتے تھے۔ یعنی لڑکیوں کا خیمہ دونوں مردوں کے خیموں کے درمیان تھا۔
میں نے سرسراہٹ بھرے لہجے میں پوچھا، "تمہیں آدھی رات کو اس طرف جانے کی کیا ضرورت پڑی، جہاں سے تمہارے خیمے دکھائی نہیں دیتے؟" اس نے بے دھڑک کہا، "لیاقت سے ملنے۔"
میں نے پوچھا، "تو اس کا مطلب تم دونوں کے درمیان کوئی چکر چل رہا ہے؟" وہ مضبوط لہجے میں بولی، "میں آپ سے سچ بولنے کا وعدہ کر چکی ہوں، تھانیدار صاحب، اس لیے جھوٹ نہیں بولوں گی۔ میں لیاقت کو پسند کرتی ہوں، لیکن ماسٹر نے ہمیں سختی سے ہدایت کی ہے کہ اگر سرکس میں کام کرنا ہے تو پیار محبت سے دور رہو، ورنہ کام چھوڑ دو۔" وہ لمحہ بھر رکی، گہری سانس لی، اور بولی، "اس لیے ہمیں چھپ کر ملنا پڑتا ہے۔"
میں نے پوچھا، "کیا لیاقت بھی تمہیں چاہتا ہے؟" اس نے سر ہلانے پر اکتفا کیا۔ میں نے کہا، "میں پیار محبت کے خلاف نہیں، بشرطیکہ یہ تعلق پاکیزگی اور اخلاقیات کو پامال نہ کرے۔" وہ فخریہ انداز میں بولی، "ہم نے کبھی اخلاقی حدود عبور کرنے کی کوشش نہیں کی۔ آپ چاہیں تو لیاقت سے اس کی تصدیق کر سکتے ہیں۔"
میں نے کہا، "اس کی ضرورت نہیں، چمکیلی۔ جو لوگ محبت میں خالص ہوتے ہیں، وہ سچائی کے لیے اپنی گردن کٹوانے کو تیار ہوتے ہیں۔ کیا تم میری اس بات سے اتفاق کرتی ہو؟" میں اس کی آنکھوں میں جھانک رہا تھا، اور مجھے وہاں کوئی بے چینی یا الجھن نظر نہ آئی۔ یہ اس کی سچائی کی دلیل تھی۔ وہ بہادری سے بولی، "ہاں، میں آپ سے اتفاق کرتی ہوں۔"
میں نے اس کے چہرے پر نگاہ گاڑ کر پوچھا، "تو پھر بتاؤ، وقوعہ کی رات تم دونوں نے سرکس کے بڑے خیمے کے پیچھے کیا دیکھا؟" چمکیلی نے سچ بولنے کا وعدہ کیا تھا اور اس کا عزم تھا کہ وہ عہد شکنی نہیں کرے گی۔ اس نے اعتماد سے کہا، "وہ آدھی رات کا وقت تھا۔ میں اور لیاقت بڑے خیمے کے پیچھے راز و نیاز میں مصروف تھے کہ میں نے اندھیرے میں ایک پراسرار حرکت دیکھی۔ میں نے لیاقت سے اشارہ کر کے پوچھا کہ وہ کیا ہے۔ لیاقت نے اس طرف دیکھا جہاں میں نے اشارہ کیا تھا۔ اگلے ہی لمحے اس نے سرسراہٹ بھری آواز میں کہا، 'یہ تو کوئی انسان ہے جو زمین پر گھسیٹتے ہوئے آگے بڑھ رہا ہے۔ اگر میری آنکھیں دھوکہ نہیں کھا رہی ہیں تو وہ شدید زخمی بھی ہے۔ ہمیں اس کی مدد کرنی چاہیے۔'"
چمکیلی نے کہا، "میں نے لیاقت سے کہا کہ ہمیں اس کی مدد کرنی چاہیے، لیکن لیاقت نے سمجھایا، 'چمکیلی، بے وقوفی کی باتیں مت کرو۔ ہم چھپ کر مل رہے ہیں، ماسٹر کے علم کے بغیر۔ اگر ہم اس زخمی کی مدد کے لیے گئے تو ہماری خفیہ ملاقات راز نہیں رہے گی۔ اس کے بعد ہماری ملازمت ختم ہو جائے گی، اور اس شخص کے معاملے میں بھی ہم ملوث ہو جائیں گے۔ کوئی ہماری بات پر یقین نہیں کرے گا، اور اگر وہ بدقسمت مر گیا تو اس کی موت کا الزام ہم پر آئے گا۔ ہمیں اس پھڈے میں نہیں پڑنا چاہیے۔'"
چمکیلی نے سانس ہموار کرتے ہوئے کہا، "لیاقت کی بات میری سمجھ میں آ رہی تھی کیونکہ وہ غلط نہیں تھا۔ لیکن اندر سے میری خواہش تھی کہ اس مصیبت زدہ شخص کی مدد کی جائے۔ اس دوران وہ شخص کچی زمین پر اپنے جسم کو گھسیٹتے ہوئے سرکس کے بڑے خیمے کے پیچھے پہنچ گیا تھا۔"
چمکیلی کی بات نے میرے ذہن میں ایک اہم سوال کا جواب دے دیا۔ وہ سوال تھا کہ وہ اجنبی ہندو جوان، جس کے سر پر کاری ضرب لگی تھی، وہ اس مقام سے اس جگہ تک کیسے پہنچا جہاں اس کے سینے میں خنجر گھونپ کر اس کی زندگی کا چراغ
بجھا دیا گیا تھا۔
چمکیلی نے بتایا، "کھیتوں کی طرف سے ایک لمبا قد کا آدمی نمودار ہوا۔ وہ سیدھا اس شخص کے قریب پہنچا جو زمین پر بے بس پڑا تھا۔ اگلے ہی لمحے اس نے اس لاچار انسان کے سینے میں خنجر گھونپ دیا۔ یہ دل دہلا دینے والا منظر دیکھ کر میں کانپ اٹھی، تھانیدار صاحب۔ اس سے پہلے میں نے کبھی کسی انسان کا خون ہوتے نہیں دیکھا تھا۔"
چمکیلی نے بات مکمل کی تو میں نے اس کے چہرے اور وجود کا بغور جائزہ لیا۔ اس کی آنکھوں میں خوف و ہراس کے آثار نمایاں تھے، اور اس کا جسم ہلکا ہلکا کانپ رہا تھا۔ میں نے نرم اور ٹھہرے ہوئے لہجے میں پوچھا، "چمکیلی، کیا تم اس قاتل کو جانتی ہو؟ کیا تمہیں اس کا حلیہ یا کوئی خاص بات یاد ہے؟"
وہ بے بسی سے بولی، "نہیں، تھانیدار صاحب۔ میں اس وقت بہت ڈری ہوئی تھی، اور خیمے کے پیچھے کافی اندھیرا بھی تھا۔ قاتل کی شناخت کے بارے میں میں آپ کی کوئی مدد نہیں کر سکتی، اور اس کا مجھے بہت افسوس ہے۔"
چمکیلی کی بات سننے کے بعد، میں نے سرکس کے ماچو مین لیاقت کو کمرے میں بلایا اور اسے صورتحال سے آگاہ کیا۔ وہ اندر آتے ہی چمکیلی کو معنی خیز نظروں سے دیکھنے لگا۔ اس کی نظروں میں ایک خاموش سوال تھا، گویا وہ پوچھ رہا ہو، "چمکیلی، کیا تم نے تھانیدار کو ہماری محبت کے بارے میں بتا دیا؟"
میں نے تسلی دیتے ہوئے کہا، "پریشان ہونے کی ضرورت نہیں، لیاقت۔ میں ماسٹر ارشاد حسین یا کسی اور کو تم دونوں کے عشقیہ معاملات کی بھنک نہیں پڑنے دوں گا۔ تمہارا راز میرے اندر ہمیشہ دفن رہے گا۔ لیکن میری ایک شرط ہے کہ تم دونوں مجھ سے خلوص اور سچائی کے ساتھ تعاون کرو۔ چمکیلی نے اپنے تعاون کا یقین دلایا ہے، اب تمہاری باری ہے۔"
میں نے لیاقت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر پوچھا، "اب بتاؤ، وقوعہ کی رات جب تم اور چمکیلی اپنے خیموں سے دور، قتل گاہ کے قریب پیار و محبت کی باتیں کر رہے تھے، تو تم نے اپنی ان تیز نگاہوں سے کیا دیکھا؟ اور جو دیکھا، اس سے تمہارے ذہن نے کیا نتیجہ اخذ کیا؟ میں جاننا چاہتا ہوں کہ اس شخص نے، جس نے زمین پر بے بس پڑے انسان کے سینے میں خنجر گھونپا، اس کا قد، حلیہ، اور وضع قطع کیسی تھی؟ کیا تم اسے دوبارہ دیکھ کر پہچان سکو گے؟"
لیاقت نے جواب دیا، "وہاں کافی اندھیرا تھا، لیکن اس شخص کی جسامت اور قد کے بارے میں جو کچھ میرے ذہن میں محفوظ ہے، اس کی بنیاد پر اگر میں اسے دوبارہ دیکھوں تو اسے شناخت کرنے میں کوئی دشواری نہیں ہوگی۔"
میں نے ان دونوں کو جانے کی اجازت دی اور لیاقت سے کہا، "ذرا اپنے ماسٹر ارشاد حسین کو میرے پاس بھیج دو تاکہ میں اس سے بھی بات کر لوں۔ کل کا دن ہم سب کے لیے بہت اہم ہے۔" لیاقت اور چمکیلی نے سر ہلایا، مجھے سلام کیا، اور کمرے سے نکل گئے۔
ارشاد حسین کو اپنے ڈھب پر لانا میرے لیے مشکل نہ تھا۔ وہ ایک سمجھدار آدمی تھا۔ میری بات اس کے ذہن میں آسانی سے بیٹھ گئی، اور اس نے اپنے مکمل تعاون کی یقین دہانی کرائی۔ اس کے پاس اور کوئی چارہ بھی نہ تھا۔ جب تک میری تفتیش اپنی منزل تک نہ پہنچ جاتی، میں سرکس والوں کو وہاں سے جانے کی اجازت نہیں دے سکتا تھا۔
مجھے زیادہ انتظار نہیں کرنا پڑا۔ ایک شخص کو گیٹ پاس جاری کرنے کے بعد لیاقت نے مجھ سے کہا، "تھانیدار صاحب، یہی وہ بندہ ہے۔" اس نے جس شخص کی طرف اشارہ کیا، اس نے اپنا نام جمیل قریشی لکھوایا تھا۔ میں نے عبدالرحمن کو اپنے پاس بلا کر تحکمانہ انداز میں کہا، "جو شخص ابھی سرکس کے اندر گیا ہے، اس پر نظر رکھو۔"
عبدالرحمن نے پوچھا، "آپ جمیل قریشی کی بات کر رہے ہیں؟"
"ہاں، وہی،" میں نے دوٹوک لہجے میں کہا۔ عبدالرحمن اسی گاؤں کا رہنے والا تھا، اس لیے وہ جمیل کا نام جانتا تھا۔
عبدالرحمن کے جانے کے بعد، میں نے لیاقت سے پوچھا، "کیا تمہیں پکا یقین ہے کہ تم نے صحیح شخص کی نشاندہی کی ہے؟"
وہ اعتماد سے سر ہلاتے ہوئے بولا، "جی، تھانیدار صاحب۔ میری آنکھیں اور یادداشت مجھے دھوکہ نہیں دے سکتیں۔ میں نے وقوعہ کی رات اسی لمبے قد کے شخص کو مقتول کے سینے میں خنجر گھونپتے دیکھا تھا۔"
میں نے فیصلہ کن انداز میں کہا، "ٹھیک ہے، اب تم گاؤں کے لوگوں کو گیٹ پاس جاری کرتے رہو۔ میں اپنے کام پر لگتا ہوں۔ شام کو ملاقات ہوگی۔" یہ کہہ کر میں لیاقت کے پاس سے اٹھا اور عبدالرحمن کی طرف بڑھ گیا۔
اگر لیاقت کے مشاہداتی حافظے نے درست کام کیا تھا، تو اس کا مطلب تھا کہ میں اس اجنبی ہندو مرد کے قاتل کے بہت قریب پہنچ چکا تھا۔ عبدالرحمن نے مجھے اپنی طرف آتے دیکھا تو ایک جگہ رک گیا۔ جب میں اس کے قریب پہنچا، اس نے کہا، "ملک صاحب، جمیل قریشی پر نظر رکھنے کی کیا ضرورت ہے؟ یہ تو اسی گاؤں کا رہنے والا ہے۔ میں اسے اچھی طرح جانتا ہوں۔ اس کا گھر بھی دیکھا ہوا ہے۔ آپ کو یاد ہے، میں نے آپ سے اس کی بیوی کا ذکر بھی کیا تھا۔"
میں نے سرسری انداز میں کہا، "مجھے یاد نہیں۔"
وہ یاد دلاتے ہوئے بولا، "کل جب میں نے چاندی کی پازیب آپ کے حوالے کی تھی، تو بتایا تھا کہ ایسی ہی پازیب گاؤں کی ایک عورت بھی پہنتی ہے۔ اسی کو دیکھ کر میری بیوی سعدیہ کو پازیب پہننے کا شوق چڑھا تھا، لیکن افسوس کہ میں اب تک اسے ایسی پازیب نہ دے سکا۔"
میں نے معتدل انداز میں کہا، "ہاں، اب یاد آیا۔ تم نے بتایا تھا کہ جمیل کی بیوی تمہارے گاؤں کی واحد عورت ہے جو چاندی کی پازیب پہنتی ہے۔"
عبدالرحمن نے کہا، "ہاں، جی۔ اس سانولی لیکن سلونی عورت کا نام روشنی ہے، اور وہ جمیل قریشی کی بیوی ہے۔"
میں نے کہا، "مگر جو پازیب تم نے مجھے دی تھی، وہ تو سرکس والی ڈانسر چمکیلی کی تھی۔ وقوعہ کی رات وہ اس کے پاؤں سے میدان میں گر گئی تھی، جو اگلی صبح تمہیں ملی، اور دو دن بعد تم نے مجھے دی۔ اسی پازیب کا دامن پکڑ کر میں اس اجنبی قاتل کو پکڑنے سرکس میں آیا ہوں۔ یہ تفصیل تمہیں پہلے بھی بتا چکا ہوں۔"
عبدالرحمن نے پوچھا، "تو کیا ہم جمیل قریشی کو پکڑ کر تھانے لے جائیں گے؟"
میں نے دوٹوک انداز میں کہا، "نہیں۔ سرکس میں اس پر ہاتھ ڈالنا مناسب نہیں ہوگا۔ تم اس پر نظر جمائے رکھو۔ جو بھی کارروائی کرنی ہوگی، ہم آج رات کریں گے۔"
اس نے معنی خیز انداز میں کہا، "لگتا ہے آپ کسی خاص موقع کا انتظار کر رہے ہیں، ملک صاحب۔"
لیاقت کی نشاندہی کردہ جمیل قریشی کے بارے میں جو معلومات مجھے اب تک ملی تھیں، ان کے تناظر میں وہ کوئی خونی دکھائی نہیں دیتا تھا۔ عبدالرحمن اور لیاقت کی جمیل کے بارے میں رائے میں واضح اختلاف تھا۔ عبدالرحمن کے مطابق، جمیل ایک امن پسند، صلح جو، اور شریف انسان تھا، جبکہ لیاقت نے یقین دلایا تھا کہ اس نے وقوعہ کی رات جمیل کو مقتول کے سینے میں خنجر گھونپتے دیکھا تھا۔ میں دونوں کی رائے کو یکسر رد کرنے کی پوزیشن میں نہیں تھا۔ حقیقت جو بھی تھی، وہ آج رات کھل کر سامنے آنے والی تھی۔
دو پہر کے بعد سینیئر کانسٹیبل سکندر علی اپنے خاص مشن سے واپس آیا۔ اس کے چہرے سے منفرد جوش جھلک رہا تھا۔ وہ میرے سامنے بیٹھتے ہی بول پڑا اور ایک ایسی خبر سنائی جس سے اس کیس میں خاصی پیشرفت ہو سکتی تھی۔ اس نے کہا، "جناب، ہماری تحقیق کے مطابق اس تھانے کی حدود میں کوئی ہندو خاندان نہیں رہتا۔ لیکن ایک تجربہ کار بوڑھے بابا نے بتایا کہ ہمارے گاؤں میں ایک ہندو عورت ہے جو ایک مسلمان کے گھر اس کی بیوی کی حیثیت سے رہتی ہے۔ وہ عورت جمیل قریشی کی بیوی ہے۔"
سکندر علی کے انکشاف نے مجھے بے چین کر دیا۔ میں نے اضطراری لہجے میں کہا، "لیکن جمیل قریشی کی بیوی کا نام تو روشنی ہے! میں کل سے اسی شخص پر کام کر رہا ہوں۔ سرکس کے ایک ملازم، لیاقت، نے بتایا کہ اس نے وقوعہ کی رات جمیل قریشی کو سرکس کے بڑے خیمے کے پیچھے مقتول کے سینے میں خنجر گھونپتے دیکھا تھا۔ وہ جمیل سے واقف نہیں تھا، لیکن اس کا حلیہ اسے یاد رہ گیا۔ میں نے عبدالرحمن کو جمیل کی نگرانی پر مامور کیا ہوا ہے۔"
سکندر علی بولا، "جناب، جمیل قریشی یہاں کا مقامی نہیں ہے۔ ڈیڑھ سال پہلے وہ مشرقی پنجاب سے اس ہندو عورت کے ساتھ آیا اور سب کو یہی بتایا کہ وہ اس کی بیوی ہے۔ حقیقت کیا ہے، یہ اللہ جانتا ہے۔ لیکن اگر ہم اس نقطے کو ذہن میں رکھ کر تفتیش کریں تو مقتول کی شناخت کے سلسلے میں کافی آسانی ہو جائے گی۔"
میں نے کہا، "عبدالرحمن سرکس میں جمیل کا سایہ بنا ہوا ہے۔ یقیناً وہ اب بھی اس کے ساتھ ہوگا۔ پہلے میں نے سوچا تھا کہ آج رات کارروائی کریں گے، لیکن تمہاری نئی معلومات کی روشنی میں ہمیں جمیل اور اس کی بیوی پر ابھی ہاتھ ڈالنا ہوگا۔" لمحاتی توقف کے بعد، میں نے گہری سانس لی اور کہا، "میں جانتا ہوں کہ تم بہت تھکے ہوئے ہو، لیکن یہ کام تم سے بہتر کوئی نہیں کر سکتا۔ فوراً جمیل کے گھر جاؤ۔ وہ سرکس سے نکل کر گھر پہنچ چکا ہوگا۔ میں دونوں میاں بیوی کو تھانے میں دیکھنا چاہتا ہوں۔"
سکندر علی ایک جھٹکے سے اٹھا، مجھے سلام کیا، اور پرجوش انداز میں کمرے سے نکل گیا۔ اس کی بات اپنی جگہ، لیکن میں تسلی سے نہیں بیٹھ سکتا تھا۔ میں کمرے میں ٹہلنے لگا۔ اگر پولیس کی تفتیش صحیح سمت میں رواں ہو تو اسے منزل تک پہنچنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔
ایک گھنٹے بعد سکندر علی اور عبدالرحمن جمیل قریشی اور اس کی بیوی روشنی کو تھانے لے آئے۔ میں نے فوری طور پر ان سے بات نہیں کی اور انہیں تھانے کے دو الگ الگ کمروں میں بند کر دیا۔ ایک ہی کیس میں ملوث دو افراد کو الگ الگ رکھنا ایک نفسیاتی حربہ ہے جو انہیں اعصابی طور پر توڑ دیتا ہے، اور پھر ان کی زبان کھلوانا آسان ہو جاتا ہے۔
مغرب کے بعد میں نے انہیں باری باری اپنے کمرے میں بلایا اور ایک جیسے سوالات کیے۔ تھانے لاتے وقت میں نے ان کے چہروں کا بغور جائزہ لیا تھا۔ روشنی کی آنکھوں میں الجھن اور پریشانی تھی، جبکہ جمیل حد درجہ گھبرایا ہوا دکھائی دیا۔ اس سے میں سمجھ گیا کہ دال میں کچھ کالا ضرور ہے۔
پہلے میں نے روشنی سے پوچھ گچھ کی۔ وہ میرے سامنے بیٹھی تو میں نے اس کا تنقیدی جائزہ لیا۔ اس کی عمر پچیس سے تیس سال کے درمیان تھی۔ وہ ایک دلکش، سانولی عورت تھی۔ میں نے پوچھا، "روشنی، کیا یہ تمہارا اصلی نام ہے؟"
اس نے کہا، "مرا پیدائشی نام جوتی تھا، لیکن جمیل سے شادی کے وقت میں نے اپنا نام تبدیل کر لیا۔"
میں نے کہا، "مجھے پتا چلا کہ تم ہندو ہو۔"
اس نے جواب دیا، "شادی سے پہلے میں ہندو تھی، لیکن جمیل کی محبت میں میں نے دین بدل لیا اور مسلمان ہو گئی۔ مولوی صاحب نے میرا نام روشنی رکھا تھا۔ وہ مولوی صاحب مشرقی پنجاب میں ہیں۔"
میں نے اس کے چہرے پر نگاہ جماتے ہوئے کہا، "تو تم دونوں کی شادی ہندوستان میں ہوئی، اور بعد میں تم پاکستان آ گئے؟"
وہ سر ہلاتے ہوئے بولی، "جی، ایسا ہی ہے۔ میں نے اپنے لوگوں سے بغاوت کر کے جمیل سے شادی کی اور دین بھی بدل لیا۔ وہاں میری جان کو خطرہ تھا۔ جمیل نے کہا کہ ہمیں پاکستان چلے جانا چاہیے۔ سو، ڈیڑھ سال پہلے ہم یہاں آ گئے۔"
میں نے اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے پوچھا، "کیا تمہیں پتا ہے کہ چار روز پہلے سرکس کے میدان میں ایک ہندو مرد کی لاش ملی تھی؟ کیا تم جانتی ہو کہ وہ کون تھا جسے بے دردی سے قتل کیا گیا؟"
وہ بے بسی سے بولی، "میں نے اس واقعے کے بارے میں سنا ہے، لیکن مرنے والے کو نہیں جانتی۔"
میں نے میز کی دراز سے مقتول کی تصاویر نکال کر اس کے سامنے پھیلائیں اور تحکمانہ انداز میں کہا، "انہیں غور سے دیکھو۔" تصاویر پر نگاہ پڑتے ہی روشنی کی آنکھوں میں شناخت کی چمک ابھری۔ وہ لرزتی آواز میں بول اٹھی، "یہ… یہ تو اجے کمار ہے!"
میں نے نرم لہجے میں پوچھا، "اجے کمار کون؟"
وہ انکشافی لہجے میں بولی، "اجے کمار مجھ پر مرتا تھا، لیکن وہ مجھے ایک آنکھ نہیں بھاتا تھا۔ اس لیے میں نے اس کی بجائے جمیل سے شادی کی اور پاکستان آ گئی۔"
میں نے کہا، "اجے تم پر مرتا تھا، اسی لیے وہ تمہارے پیچھے انڈیا سے پاکستان آیا۔ میں اسی مقتول ہندو مرد کے کیس کی تفتیش کر رہا ہوں۔"
وہ منت بھری نظروں سے بولی، "میری بات کا یقین کریں، میں اجے کے یہاں آنے یا اس کی موت کے بارے میں کچھ نہیں جانتی۔"
میں نے نرم لہجے میں کہا، "روشنی، مجھے تمہاری سچائی پر یقین ہے۔ تم جا کر آرام کرو۔ میں تم سے بعد میں بات کروں گا۔"
روشنی سے پوچھ گچھ کے بعد مجھے اندازہ ہو گیا کہ اس اجنبی ہندو مقتول، اجے کمار، کے ساتھ کیا واقعہ پیش آیا ہوگا۔ اس کے بعد میں نے جمیل قریشی کو بلایا۔ وہ بیٹھتے ہی بگڑے لہجے میں بولا، "تھانیدار صاحب، آپ نے ہمیں کس جرم میں تھانے بٹھا رکھا ہے؟"
اس کا بدتمیزی بھرا انداز مجھے پسند نہ آیا، لیکن میں نے غصہ پی کر خشک لہجے میں کہا، "بس ایک معمولی کارروائی ہے۔ اگر تم نے کچھ نہیں کیا تو میں تمہیں جانے کی اجازت دے دوں گا۔"
اس نے چبھتی نظروں سے کہا، "کیسی کارروائی؟"
میں نے کہا، "مجھے پتا چلا کہ روشنی، جوتی ہے۔ وہ اجے کمار نامی شخص کی بیوی تھی، جسے تم ڈیڑھ سال پہلے مشرقی پنجاب سے بھگا کر لائے۔"
وہ احتجاجی انداز میں بولا، "یہ جھوٹ ہے! جوتی نے میری خاطر اسلام قبول کیا اور روشنی بنی۔ ہم نے باقاعدہ شادی کی۔ وہ اجے کی بیوی کبھی نہیں تھی۔ وہ اس سے نفرت کرتی تھی۔ آپ کو کسی نے میرے خلاف بھڑکایا ہے، تھانیدار صاحب۔"
میں نے اس کے چہرے پر نگاہ گاڑ کر کہا، "میں مانتا ہوں کہ کسی نے مجھے تمہارے خلاف بھڑکایا ہے۔"
وہ خفگی سے بولا، "وہ نامراد کون ہے جو ہماری بستی زندگی اجاڑنا چاہتا ہے؟"
میں نے سرسراہٹ بھری آواز میں کہا، "اس نامراد کا نام اجے کمار ہے۔ وہ آج صبح یہاں آیا اور یہ سب بتایا۔"
وہ شدت سے نفی میں سر جھٹکتے ہوئے بولا، "یہ نہیں ہو سکتا! وہ یہاں کیسے آ سکتا ہے؟"
میں نے سخت لہجے میں کہا، "کیوں نہیں آ سکتا؟" وہ گڑبڑا گیا اور بکھرے لہجے میں بولا، "اجے تو انڈیا میں ہے۔"
میں نے مقتول کی تصاویر اس کے سامنے پھینکتے ہوئے درشت لہجے میں کہا، "تو پھر یہ کون ہے؟" تصاویر دیکھتے ہی اس کا رنگ اڑ گیا، لیکن اس نے ہمت نہ ہاری اور کمزور لہجے میں بولا، "میں اسے نہیں جانتا۔"
میں نے خشم آلود نگاہ سے کہا، "لیکن روشنی اسے اجے کمار کے طور پر پہچان چکی ہے۔"
وہ بولا، "اسے مغالطہ ہوا ہوگا، تھانیدار صاحب۔"
جمیل کے اس جواب پر اس کی سرکاری خاطر داری ضروری تھی۔ میں نے اسے اپنے عملے کے حوالے کیا۔ جمیل بنیادی طور پر ایک سیدھا سادہ آدمی تھا، اس لیے وہ آدھے گھنٹے سے زیادہ نہ ٹک سکا اور اس نے اپنے جرم کا اقرار کر لیا۔ اس کے اقبالی بیان کا خلاصہ کچھ یوں تھا:
"تھانیدار صاحب، اجے کمار بہت برا انسان تھا۔ جب روشنی سے میری شادی ہو رہی تھی، اس نے کہا تھا، 'جوتی اگر میری نہیں ہو سکتی تو کسی اور کی بھی نہیں ہوگی۔ میں دنیا کے آخری کنارے تک اس کا پیچھا کروں گا اور موقع ملتے ہی اسے کاٹ ڈالوں گا۔ اب تو اس کا قتل اس لیے بھی ضروری ہو گیا کہ اس نے اپنا دین بھی چھوڑ دیا۔' اس کی یہ دھمکی میرے ذہن پر نقش ہو گئی۔ چند روز پہلے جب میں نے اسے میلے میں دیکھا تو میرے ہوش اڑ گئے۔ اس سے پہلے کہ وہ میری روشنی کی جان لیتا، میں نے موقع ملتے ہی اس کے سینے میں خنجر گھونپ دیا۔ مجھے یہ کام کرنے میں کوئی دشواری نہ ہوئی کیونکہ اس سے پہلے دو راہزنوں نے اسے شدید زخمی کر کے لوٹ لیا تھا۔ میں اس وقت کھیتوں میں تھا اور یہ منظر میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا۔"
جمیل خاموش ہوا تو میں نے ٹھہرے ہوئے لہجے میں کہا، "انسان بہت جلد باز ہے اور جلد بازی میں غلط فیصلہ کر بیٹھتا ہے، حالانکہ اس کے پاس درست فیصلہ کرنے کا موقع ہوتا ہے۔" لمحاتی توقف کے بعد، میں نے بوجھل سانس لیتے ہوئے کہا، "اگر تم چاہتے تو اجے کو دیکھتے ہی میرے پاس آتے اور حقیقت بتاتے۔ میں خود اسے دیکھ لیتا، اور تمہیں قانون ہاتھ میں نہ لینا پڑتا۔ لیکن وہی بات، تصویر کے دو رخ ہر ایک کو دکھائی نہیں دیتے۔ میں اسے زندگی کا دو طرفہ کہتا ہوں۔"
جمیل نے مجھے ایسی نظروں سے دیکھا جیسے میں نے دو طرفہ نہیں، بلکہ دو سین کہے ہوں جو اس کے سر پر اچانک نکل آئے ہوں۔ افسوس کہ وہ اب بھی غلط اندازہ لگا رہا تھا۔
(ختم شد)