جب سنا کہ حور کو ماموں جان کے گھر ملازمہ رکھ لیا گیا ہے تو میں حیران رہ گئی۔ جانتی تھی کہ ممانی بدصورت چیزوں کو برداشت نہیں کرتیں، لیکن ماموں؟ اف! وہ تو انتہا درجے کے حسن پرست تھے۔ اگر کسی ایسی شے پر نظر پڑ جاتی جو ان کے ذوق کے مطابق نہ ہوتی تو ان کی طبیعت متلانے لگتی تھی۔ حور پہلے ہمارے ملازم کی بیٹی تھی۔ جب ہوش سنبھالا، تو اماں ایک بار اُسے اپنے ساتھ بڑے بھائی کے گھر لے گئیں، جو ڈپٹی صاحب تھے۔
یوں پہلی بار وہ ڈپٹی کمشنر کے گھر پہنچی۔ ممانی کو بخار تھا۔ وہ آنکھیں بند کیے لیٹی تھیں۔ اماں نے کہا، بھابی جان کا سرباندھ دو، حور، میں بھائی جان کو سلام کر کے ابھی آتی ہوں۔ حور اس وقت سات برس کی تھی۔ وہ ممانی کی پائنی بیٹھ کر پوری لگن سے ان کی ٹانگیں دبانے لگی، جن میں وہ اکثر درد کی شکایت کرتی تھیں، اور آج تو بخار کے باعث مزید نڈھال تھیں۔ خدا جانے حور کے ہاتھوں میں کیا جادو تھا کہ اُس نے تھوڑی ہی دیر میں ممانی کی ٹانگوں کا نہیں، سارے بدن کا درد دور کر دیا۔ وہ بہت خوش ہوئیں، آنکھیں کھولے بغیر بولیں، بچی، آج آپا جی کے ساتھ ان کے گھر واپس مت جانا۔
جب تک میں ٹھیک نہیں ہو جاتی، تم یہیں رہو۔ تمہارے ہاتھ میں تو شفا ہے، لڑکی۔ اماں نے کہا، بھابی، بے شک آپ حور کو ساری عمر کے لیے رکھ لیں، مجھے کوئی اعتراض نہیں۔ بس تب سے حور ماموں کے گھر رہنے لگی۔ وہ کسی بھی گھر رہتی، کوئی فرق نہ پڑتا، کیونکہ اُس کا باپ تو چل بسا تھا۔ میری اماں نے اُسے اپنے پرانے اور وفادار ملازم کی امانت سمجھ کر رکھا ہوا تھا۔ جب بھابی نے مانگا، تو بلا تامل اُن کے حوالے کر دیا۔ حور کا دبانا ممانی کو اتنا بھایا، یا یوں کہنا چاہیے کہ اُسے ایسی راحت ملی کہ انہوں نے اس کی صورت سے آنکھیں بند کر لیں۔ سبھی حیران تھے کہ ان بیگم کو تو بدصورت چہرے بھاتے نہ تھے، وہ ایسی صورتوں کو الم غلم کہا کرتی تھیں۔ انہوں نے حور کو کیسے رکھ لیا؟ اس کے بعد تو حور اس گھر کے ہر فرد کی ایسی ہر دلعزیز ہو گئی کہ سب نے اُسے دل سے قبول کر لیا۔
دراصل، آدمی صورت سے نہیں، اپنے گُروں سے چاہا جاتا ہے۔ اس لڑکی نے اس گھر میں ہر کسی کی خدمت کر کے یہ ثابت کر دیا کہ جب بھی کام کرتی، دل جمعی، سلیقے اور توجہ سے کرتی، یوں کہ کام بتانے والے کا دل خوش ہو جاتا۔البتہ، اس کی صورت سب کی آنکھوں میں کھٹکتی تھی۔ تبھی تو اس کا نام حور سے بدل کر چھوکری رکھ دیا گیا تھا۔ ڈپٹی ماموں کے گھروالے اسے چھوکری بلاتے تھے۔ اس کا اصل نام لینا وہ اس نام کی توہین سمجھتے تھے۔ بدقسمتی کے ساتھ ساتھ بدصورتی کا داغ بھی اس مادر پدر یتیم کی ہستی پر لگا ہوا تھا۔ حور کی بدصورتی کوئی معمولی بدصورتی نہ تھی۔ جب کبھی بے خیالی میں آئینہ دیکھ لیتی، تو خود بھی اپنے عکس سے ڈر جاتی۔ جانے کون سی بھیانک ساعت میں اس نے اپنی ماں کی کوکھ میں قرار پایا تھا کہ گویا ساری دنیا کی بدصورتی اس ایک چہرے میں سمٹ آئی تھی۔
اس ظالم دنیا میں جیسی صورت ہو، سلوک بھی ویسا ہی ہوتا ہے۔ بچپن سے تیز و ترش نگاہوں اور تو بہ تو بہ کہنے والوں نے اس کا دل چھلنی کر ڈالا تھا۔ اس کا جی چاہتا کہ جس دن پیدا ہوئی تھی، اسی دن اپنی ماں کے ساتھ اس جہان سے رخصت ہو جاتی۔اس روز ڈپٹی ماموں کی بیٹی کے لیے رشتہ دیکھنے والے مہمان آئے ہوئے تھے۔ بیگم صاحبہ نے صاف کہہ دیا تھا کہ چھوکری، تو اپنی بھتنی سی شکل لے کر مہمانوں کے سامنے مت آنا، ورنہ وہ تیری صورت دیکھ کر ہی اُٹھ کر چلے جائیں گے۔ اگر ملازم ایسے بدشکل ہیں، تو مالکوں کے ذوق کا کیا عالم ہو گا؟حور بے چاری گردن ہلا کر ایک کونے میں دبک گئی۔ جانے پھر کیا دل میں آئی کہ حسنہ بی بی کے ہونے والے دولہا کو دیکھنے کی خواہش میں ڈرائنگ روم کے دروازے کے سامنے جا کھڑی ہوئی، جہاں سے مہمانوں کی جھلک صاف دکھائی دے رہی تھی۔ لڑکا خاصا خوبصورت تھا، مگراس کا بڑا بھائی تو گویا یوسفِ ثانی لگتا تھا۔
حور اپنی بدصورتی کو بھول گئی اور بس اس کو دیکھتی رہ گئی۔ دل ہی دل میں سوچنے لگی، الٰہی، کہاں تو نے مجھے جیسی بدصورت پیدا کیا اور کہاں ایسے حسین چاند جیسے چہرے بھی بنائے ہیں۔ ایک ذرا سا رنگ ہی مجھے بھی دے دیتا، کیا کمی تھی تیرے خزانے میں؟ دروازے کے ایک کونے سے اسے یوں جھانکتے پاکر خرم صاحب بولے، لڑکی، ایسے کیا جھانک رہی ہو؟ جاؤ، چائے لے کر آؤ۔ تب بیگم صاحبہ کی نظر بھی دروازے پر پڑی اور انہیں پتہ چلا کہ حور وہاں کھڑی ہے۔ انہوں نے غصے سے ادھر دیکھا، تو وہ بچاری گھبرا کر فوراً باورچی خانے کی طرف بھاگ گئی۔ اتنے میں چھوٹی بی بی نے چائے کی ٹرے اس کے ہاتھ میں تھما دی اور کہا، لے جاؤ، مہمانوں کے سامنے رکھ دو۔ وہ بیچاری، کانپتے ہاتھوں سے ٹرے اٹھائے، ڈر ڈر کر دوبارہ کمرے کی طرف چل پڑی۔ بیگم صاحبہ اس وقت غصہ پی گئیں کہ اس گھڑی کا یہی تقاضا تھا، مگر دل میں غصہ لاوا بن کر کھولنے لگا تھا۔ باوجود سختی سے منع کرنے کے، یہ چھوکری پھر بھی ادھر جھانکنے سے باز نہ آئی اور اپنی منحوس صورت مہمانوں کو دکھا ہی دی۔
پھر حکم ہوا کہ ٹرے رکھو اور چائے مہمانوں کو دو۔ وہ سلیقے سے سب کو چائے کی پیالی تھمانے لگی، لیکن جب پیالی خرم کو دی، تو ان کے رعبِ حسن سے اس کے ہاتھ لرز گئے۔ اوپر سے بیگم صاحبہ نے جو غصے سے گھورا، تو پیالی خرم صاحب کے اوپر ہی گر پڑی۔ گرم چائے سے ان کی ٹانگ جل گئی۔ بیگم صاحبہ، جو اب تک ضبط سے کام لے رہی تھیں، اس منظر پر آپے سے باہر ہو گئیں۔ انہوں نے آؤ دیکھا نہ تاؤ، جوتی اتار کر حور کو پیٹنا شروع کر دیا۔ ان کے منہ سے بے اختیار الفاظ نکلے، اندھی، بدصورت، چڑیل… چل نکل یہاں سے۔ خرم صاحب نے بالآخر ان کا ہاتھ روک لیا اور کہا، آنٹی، کیا غضب کر رہی ہیں؟ یہ بدصورت ہے تو کیا ہوا، ہے تو انسان! بدصورتی کی اتنی بڑی سزا؟ اس نے پیالی جان بوجھ کر تو مجھ پر نہیں گرائی، جانے دیجیے۔
بیچاری حور روتی ہوئی کمرے سے نکل گئی۔ سب کے سامنے اپنی اس قدر تذلیل پر اسے گہرا صدمہ پہنچا۔ دل میں سوچنے لگی، اے اللہ، میں مر کیوں نہ گئی؟ وہ اپنی کوٹھری میں جا کر روئی اور موت کی دعا مانگنے لگی۔ مانگی تو دعا موت کی تھی، مگر وہ دعا زندگی بن کر پلٹ آئی۔ اگلے ہی دن خرم صاحب نے کہہ دیا، میں شادی کروں گا تو اسی بھتنی، چڑیل سے، ورنہ کسی سے نہیں۔
وہ لندن پلٹ تھے۔ سنا تھا کہ شادی اس لیے نہیں کرتے تھے کہ انہیں اپنی پسند کی لڑکی نہیں ملتی تھی۔ حسن ان کے پاس تھا، تو ان کے حسن پر چار چاند لگتے۔ ان کی والدہ کہتی تھیں کہ وہ بہت نازک مزاج ہیں۔ ماں نے ایک سے ایک حسین لڑکی ان کے سامنے رکھی، مگر ان کے دل کو کوئی بھی نہ بھائی۔ اور جو بھائی، تو وہ کون؟ ایسی کالی، بھدے نقوش والی لڑکی۔ جس نے بھی سنا، دانتوں تلے انگلی دبا لی۔ خرم کی ماں تو دم بخود رہ گئیں اور ہماری ممانی بیگم… وہ تو بری طرح بھنّا اٹھیں۔ کہنے لگیں، اتنے بڑے باپ کا بیٹا، جن کی دولت کا شمار نہیں، اور وہ بھی یوسفِ ثانی جیسا خوبرو… اور ہمارے گھر کی نوکرانی، ایسی دیدہ دلیپ شکل والی؟ ہرگز نہیں!مگر بعد میں سب نے انہیں سمجھایا کہ تمہارا کیا جاتا ہے؟ خود ڈپٹی ماموں نے اپنی زوجہ محترمہ سے کہا، عالم جانم، جب ان کے چھوٹے بیٹے کا رشتہ تمہاری بیٹی سے ہو رہا ہے، تو ان لوگوں کو ناراض کر کے اپنی بیٹی کے نصیب کو کیوں ٹھکرانا چاہتی ہو؟ ہے تو یہ ایک مشکل بات، مگر ناممکن نہیں۔
احمر کی شرط یہی ہے کہ وہ ہماری لڑکی سے تبھی شادی کرے گا جب اس کے بڑے بھائی خرم کی منشا پوری ہو گی۔ تو ہمیں انہیں چھوکری کا رشتہ دینے میں کیا تامل ہے؟ ہر کسی کی اپنی پسند ہوتی ہے اور اپنی قسمت۔ خدا نے اس غریب لڑکی کی تقدیر ایسی ہی لکھی ہو گی، تو ہم اور تم کون ہوتے ہیں اس کی تقدیر کو بدلنے والے؟اور ہم میں یہ جرات کہاں کہ اللہ کی منشا میں دخل دیں؟ ہم اس کے عاجز بندے ہیں، ہمیں عاجز ہی رہنا چاہیے۔ اللہ کے خوف نے ممانی بیگم کو رام کر دیا، اور یوں ایک بدقسمت، بدقسمت نہ رہی۔ وہی بدشکل لڑکی، جس کی صورت دیکھنے کو کسی کا جی نہ چاہتا تھا، عزت و وقار کے ساتھ رخصت ہوئی۔
ہمارے ڈپٹی ماموں نے اسے زیوروں سے لاد کر، سر پر شفقت کا ہاتھ رکھ کر رخصت کیا۔ وہ چھوکری، جو کل تک ان کی خدمت کرتے نہ تھکتی تھی، شادی کے بعد خود اس کے سامنے کئی نوکر چاکر تھے۔ جو کبھی دوسروں کے اچھے لباس کو حسرت بھری نظروں سے دیکھتی تھی، وہ اب زربفت لباس پہنے، سونے جیسی دولت میں کھیل رہی تھی۔ خرم صاحب نے ایک شاندار کوٹھی بھی اس کے نام کر دی تھی، اور سب سے بڑھ کر یہ کہ وہ اسے اتنا چاہتے تھے کہ خاندان والے پھٹی پھٹی آنکھوں سے حور کو دیکھتے رہ جاتے۔
سچ کہا ہے کسی نے، جب بدنصیبوں کے نصیب جاگتے ہیں، تو وہ یوں کھلتے ہیں جیسے حور کے کھلے۔ اللہ جانے، اس لڑکی نے کس لمحے، کتنے دل سے اپنے لیے اچھے دنوں کی دعا کی تھی کہ وہ دعا عرش تک پہنچی اور بارگاہِ الٰہی میں مستجاب بھی ہو گئی۔اسی لیے کہتے ہیں کہ انسان کو کبھی بھی اپنے رب کی رحمت اور فیاضی سے مایوس نہیں ہونا چاہیے۔ جس لڑکی کو ہر کوئی اس کی بدصورتی کی وجہ سے حقیر جانتا تھا، اسے ایک رئیس زادے نے دل کی آنکھ سے دیکھا اور اپنی زندگی کا ساتھی بنا لیا۔