مہمان یا شیطان

Sublimegate Urdu Stories

جنت صرف دو سال کی تھی جب اس کے باپ اور بستی کے رہنے والے ایک چرواہے میں لڑائی ہو گئی۔ لڑائی کی وجہ ایک گھنٹی تھی جو راج کے بیٹے نے رشید کی بھیٹر کے گلے سے اتار کر اپنی بھیڑ کے گلے میں باندھ لی تھی۔ اس پر دونوں لڑکے آپس میں لڑ پڑے۔ شور سن کر ان کے باپ بھی آ گئے۔ سرور نے اس کے لڑکے کی زیادتی کا شکوہ کیا تو راج نے بجائے اپنے بیٹے کی غلطی ماننے کے سرور کے بیٹے کو ہی برا بھلا کہا جس پر سرور کو غصہ آ گیا۔ راج نے بندوق نکال لی اور فائر کرنے کی دھمکی دی۔ اس نے تو محض دھمکی ہی دی تھی کہ پڑوسی نے اہانت کر دی۔ 

سرور غصے کا اتنا تیز تھا کہ وہ اپنے ہاتھوں اور بازوؤں پر قابو نہ رکھ سکا۔ یوں بندوق ایک طرف رہ گئی اور دونوں مردوں میں ہاتھا پائی شروع ہو گئی۔اس وقت راج کا بھائی وہاں آگیا۔ جب اس کو علم ہوا کہ سرور کے بیٹے نے ان کی بھیڑ کے گلے سے گھنٹی اتاری ہے، جس باعث سرور نے راج کو زخمی کر دیا ہے تو بھائی کا بدلہ لینے کی خاطر اس نے بندوق اٹھائی اور سرور کی اس بھیڑ کو گولی مار کر ہلاک کر دیا، جس کے گلے میں گھنٹی بندھی تھی اور جھگڑا شروع ہوا تھا۔ فائر کی آواز سن کر دونوں طرف کے رشتے دار مرد آ گئے تھے اور اس لڑائی میں شامل ہو گئے تھے۔ یوں ایک گھنٹی کی خاطر چار مرد قتل ہو گئے۔ ان میں راج بھی شامل تھا جو معصوم جنت کا والد تھا۔

جنت کا باپ اور بھائی تو اس معرکے میں کام آ گئے لیکن زخمی چچا بچ گیا جس نے بعد میں جنت کو پالا پوسا اور جب وہ شادی کے قابل ہو گئی تو اس کا نکاح بھیڑوں کے عوض غیور خان نے کر دیا۔ یوں وہ غریب اپنے گھر کی ہوئی۔ اس نے اپنے شوہر اور نئی زندگی سے سمجھوتہ کر لیا۔ تین سال میں دو بچے بھی ہو گئے۔اس کا خاوند زیادہ خوشحال نہ تھا۔ وہ ایک لکڑ ہارا تھا، جنگلات سے لکڑیاں کاٹ کر خچروں پر لاد کر شہر میں فروخت کیا کرتا تھا۔ وہ جیسا بھی تھا، جنت اپنی قسمت پر شاکر تھی کیونکہ اس کو دو وقت کی روٹی عزت سے مل رہی تھی۔ بچوں کو ماں کا پیار نصیب تھا اور اولاد سے جنت کا کلیجہ ٹھنڈا تھا۔

ایک روز وہ گھر میں اکیلی تھی اور غیور خان لکڑیاں فروخت کرنے شہر گیا ہوا تھا کہ غیور کا ایک رشتے دار خمیس خان آ گیا۔ وہ پہلے بھی کئی بار آچکا تھا۔ غیور اس کی عزت کرتا اور خاطر مدارات بھی کرتا تھا کیونکہ وہ جنگلات کے ٹھیکیدار کا ملازم تھا اسی کی وجہ سے غیور کو جنگلات سے لکڑیاں کاٹنے کی اجازت ملی ہوئی تھی۔ جنت نے اسی بات کو مد نظر رکھتے ہوئے اس مہمان کو گھر میں عزت سے بٹھا دیا اور اس کی آؤ بھگت کرنے لگی کہ وہ ان کی روزی روٹی میں وسیلہ بنا تھا۔ وہ خمیس خان کے لئے کھانا تیار کرنے لگی تا کہ جب شوہر آئے تو اس کی مہمانداری میں کمی کا گلہ نہ کرے۔ غیور خان لکڑیاں بیچ کر واپس اپنے گاؤں پہنچا تو اس کو یاد آیا کہ گھر میں چکی کا پاٹ ٹوٹا ہوا ہے۔ اس کو پتھر کاٹ کر چکی بنانے کا ہنر آتا تھا۔ 

اس نے ایک دوست کی دکان سے اوزار اٹھائے اور پتھر کاٹ کر چکی کا پاٹ بنانے بیٹھ گیا۔ بد قسمتی سے اس کٹھن کام میں اس کا ہاتھ زخمی ہو گیا تو وہ کام چھوڑ کر گھر کی طرف چل پڑا۔ خمیس خان اس کے انتظار میں بیٹھا تھا کہ اچانک اس نے کھانا بناتی جنت کو بغور دیکھا۔ وہ روٹیاں لگاتے ہوئے اس کو بہت خوبصورت دکھائی دی، تبھی اس کے دل میں برائی کی خواہش نے جنم لے لیا اور اس نے جنت کو پکڑ لیا۔ وہ بچاری اس اچانک حملے سے گھبراگئی۔ خمیس نے سمجھا کہ ڈر گئی ہے اور شور نہ مچائے گی ، وہ اس کو صحن سے کھینچ کر کمرے میں لے جانے لگا تبھی جنت نے شور مچادیا اور زور زور سے چلانے لگی، اس کے ساتھ ہی اپنے بچاؤ کے لیے اس نے خمیس کے ساتھ ہاتھا پائی شروع کر دی۔ جس کی وجہ سے اس کے کپڑے پھٹ گئے۔ ابھی یہ زور آزمائی جاری تھی کہ غیور خان اچانک گھر آ گیا۔پتھر کاٹنے سے ہاتھ زخمی تھا تبھی وہ درد سے بہت تکلیف محسوس کر رہا تھا اور آرام کرنے کی نیت سے جلد آگیا تھا۔

 بیوی، خمیس کو آپس میں گتھم گتھا دیکھا تو اس کی آنکھوں میں خون اتر آیا، اس کا دماغ گھوم گیا۔ وہ خمیس پر جھپٹا مگر اس نے دوڑ لگادی اور نکل بھاگا۔ غیور نے دور تک اس کا پیچھا کیا مگر پکڑ نہ سکا کیونکہ ہاتھ کے درد نے اس کو نڈھال کر دیا تھا۔ وہ بھنا یا ہوا واپس پلٹا۔ عورت کے کپڑے پھٹے دیکھے تو تپ اٹھا۔ بغیر سوچے سمجھے اس نے جنت کو ہی پیٹنا شروع کر دیا۔

غیور کے علاقے کی یہ ریت تھی کہ اگر خائن مرد بچ کر نکل جائے تو وہ عورت کو بھی اپنے پاس نہیں رکھتے بلکہ اس کو کہیں دور دراز علاقے میں بیچ دیتے ہیں ، پس غیور نے بھی ایسا ہی کیا، حالانکہ جنت بے قصور تھی، مگر اس کی پاک دامنی کی گواہی دینے والا کوئی نہ تھا تھا۔غیور نے اس کو ایک شخص قوت ور کے ہاتھ فروخت کر دیا جس نے جنت کے ساتھ نکاح کر لیا۔ غیور نے دونوں بچے اپنے پاس رکھ لئے اور اس بچاری بد نصیب عورت پر ترس نہ کیا اور معصوم پھولوں کو ماں سے نوچ کر الگ کر دیا۔ وہ بلکتی ہوئی قوت ور کے ساتھ کر دی گئی۔ قوت ور کا گھر غیور کی بستی سے دو تین میل کے فاصلے پر تھا اور جنت کو یہاں ایک پل چین نہ تھا۔ اس کا چھوٹا لڑکا تو ابھی شیر خوار تھا، بڑا بھی بمشکل دو برس کا تھا۔ایک رات بچوں کی یاد سے بے قرار ہو کر وہ قوت ور کے گھر سے نکل کھڑی ہوئی جبکہ وہ بے خبر سورہا تھا۔

 وہ پیدل چلتی جارہی تھی اپنی بستی کی طرف جہاں غیور کے پاس اس کے بچے تھے اور وہ اپنے بچوں سے ملنے کی تڑپ سے مجبور ہو کر نکلی تھی۔ رات کو اس طرح کسی عورت کا بغیر ہتھیار پیدل سفر کرنا، موت کو دعوت دینا تھا۔ پہاڑی جانور ، ریچھ اور ان سے بھی بڑھ کر خونخوار کتے ہوتے ہیں مگر اس نے کسی خطرے کا خیال نہ کیا صرف ایک لاٹھی اس کے پاس تھی جس سے خطر ناک وحشی جانوروں کا مقابلہ عبث تھا، پھر بھی ممتا سے مجبور وہ چلتی رہی اور خدا نے اس کی حفاظت کی۔ یہاں تک کہ سپید سے سحر نمودار ہو گیا اور بستی بھی نظر آنے لگی۔ تمام رستہ تو اللہ کی امان میں بخیریت کٹ گیا تھا لیکن بستی کے اندر آتے ہی اس پر کتوں نے بھونکنا شروع کر دیا۔ وہ ان کو لاٹھی گھما کراورآگے بڑھتی گئی لیکن کتوں نے اس کا گھر تک پیچھا نہ چھوڑا۔
کتوں کے بھونکنے پر غیور باہر آیا۔ دیکھا کہ جنت سامنے ہے۔ وہ تھکن سے چور تھی اور ایک درخت کا سہارا لئے تھی۔ تم …! تم یہاں کیوں آئی ہو ؟ غیور غرایا۔ اپنے بچوں کو ایک نظر دیکھنے کے لئے ! مجھے میرے بچوں سے ملوا دو۔ کیسے ملوا دوں، میں تم پر گھر کا دروازہ نہیں کھول سکتا۔ اب تم کسی اور کی ملکیت ہو۔ وہ اس بد گمانی میں مجھ سے دشمنی کرلے گا کہ تم مجھ سے ملنے کی خاطر اس کا گھر چھوڑ کر یہاں بھاگی آئی ہو ، اس لئے وقت سے واپس لوٹ جاؤ ور نہ قوت ورجو تمہارا مول دے چکا ہے ، تمہارے ساتھ سخت برتاؤ کرے گا۔ میں بچوں سے ملنے آئی ہوں، سال ہو گیا ان سے نہیں ملی ، اب میں ان کے بغیر نہیں رہ سکتی۔ مجھ کو میرے بچے دکھا دو۔ ابھی وہ یہ بات کر رہے تھے کہ کتوں نے جنت پرحملہ کر دیا۔

 غیور نے کتوں کو بھگانے کی کوشش کی تو وہ اس پر بھی غرانے لگے، تبھی پڑوسن اماں سکینہ ہاتھ میں ڈنڈا لئے اپنے گھر سے باہر نکل آئی۔ کیا تو قوت ور کو بتا کر یہاں آئی ہے؟ تو کیوں آئی ہے، آخر کیا مجھے پھنسوانے کے لئے جبکہ میں تجھ کو فروخت کر چکا ہوں۔ واپس چلی جا ابھی اور اسی وقت۔ میں بہت تھک گئی ہوں، میرے پاؤں زخمی ہیں۔ اب میں اور نہیں چل سکتی، مجھ کو پانی پلا دے اور کچھ دیر آرام کرنے دے۔ اپنے بچوں کو ملے بغیر نہیں جاؤں گی۔ کیسے نہیں جائے گی؟ تجھ کو جانا ہی ہو گا۔ اس سے پہلے کہ قوت اور یہاں آکر مجھے قصور وار ٹھہرائے ! تو واپس ہو جا۔ ہر گز نہیں ! میں اپنے بچوں کو دیکھے بغیر نہیں جائوں گی۔ نہیں جائے گی تو اچھا! پھر ٹھہر جامیں ملواتا ہوں تجھ کو تیرے بچوں سے … ! یہ کہہ کر اس نے جنت سے لاٹھی چھین لی اور گھر کا دروازہ بند کر دیا۔

جو نہی وہ گھر کے اندر گیا، کتوں نے جنت پر حملہ کر کے اس کو زخمی کر ڈالا۔ اتنے میں قوت ور بھی اپنی گھوڑی پر آپہنچا۔ اس نے دروازے پر آواز لگائی، غیور باہر آیا۔
تیری عورت تیرے گھر سے بھاگ کر آئی اور تو سوتا رہ گیا۔ اب لے جا اس کو ، میں نے اسے گھر کے اندر نہیں آنے دیا تا کہ تو شک نہ کرے، پانی بھی نہیں دیا تا کہ تو خود اس کو گھر لے جائے۔ اگر میں اپنے گھر کے اندر لے جاتا تو ممکن ہے تو مجھ کو ہی قصور وار ٹھہرا دیتا۔ تم نے ٹھیک کیا۔ ایسی عورتوں کے ساتھ ایسا ہی سلوک کرنا چاہئے۔ یہ تو زخمی ہے۔ ہاں ! اس کو کتوں نے بھنجھوڑ دیا ہے۔ میری ہمسائی وقت پر ادھر نکل آئی، اس نے کتوں کو مار بھگایا ورنہ وہ اس کی تکا بوٹی کر ڈالتے۔ ایسی عورتوں کا یہی انجام ہے۔ قوت ور نے اس کو سہارا دیا۔ ہمسائی نے پانی کا گلاس لبوں سے لگایا پھر بھی جنت میں بولنے کی سکت نہ آئی۔ ارے بند کہ خدا ! ذرا تواس پر رحم کرو، کچھ دیر میرے گھر آرام کر لینے دو۔ اس کو روٹی کھلا دوں پھر لے جانا۔ تب جنت نے ہمت جمع کر کے کہا۔ اماں سکینہ ! میں اپنے بچوں سے ملے بغیر نہ جائوں گی، مجھ کو میرے بچوں سے ملا دو۔ بیٹے غیور ماں کو اس کے بچوں سے ملادے۔ اللہ کے بندے ! اس پر ترس کھا۔ اماں ! کیسے ترس کھاؤں، بچے اس کو دیکھ کر اس سے لپٹ نہ جائیں گے ؟ کیا وہ اس کو چھوڑ دیں گے ؟ بہتر ہے کہ نہ ملیں۔ یہ ٹھیک کہتا ہے۔ بچے تو بچے ہوتے ہیں، وہ اس کو دیکھ کر مچل گئے تو سنبھالنا مشکل ہو جائے گا اور یہ بھی روز گھر سے بھاگ کر آجائے گی۔

 چیخ پکار ڈال دیں گے بچے۔ اماں ! اس کو اپنے گھر لے جا اور اس کے زخم دھو، میں دوا لے کر ابھی آتا ہوں۔اماں سکینہ ، جنت کو گھر لے گئی۔ چار پائی پر لٹایا، دودھ کا گلاس اس کے لبوں سے لگایا مگر اس سے پیانہ گیا۔ اس کےلبوں پر ایک ہی جملہ تھا۔ مجھ کو ایک نظر بچے دکھا دے اماں سکینہ ۔ اماں سکینہ کیا کرتی ، بچے اس کے پاس تو نہ تھے وہ تو غیور کے پاس تھے جس نے گھر کو تالا لگا دیا تھاتا کہ بچے باہر نہ آسکیں۔ قوت ور جب دوالے کر آیا تب تک جنت کی سانس اکھڑ چکی تھی۔ وہ شدید زخمی تھی اور چلنے کے قابل نہ تھی۔ جب اماں نے کتوں کی آواز پر باہر آکر ان کو بھگایا تو جنت زخموں سے چور ہو چکی تھی۔اب قوت ور کا اصرار تھا کہ جنت کو لے جانا ہے اور اماں سکینہ ہاتھ جوڑ کر کہہ رہی تھی کہ بیٹا ! اس کی حالت اچھی نہیں ہے، یہ سفر نہیں کر سکتی۔ تو اس کو شہر کے اسپتال لے جا، بستی میں ڈاکٹر تو ہے نہیں اور نہ اسپتال ہے ، وہاں اس کا علاج کیسے ہو گا۔
 کتوں کے کاٹے کا زخم خطر ناک ہوتا ہے، کیا خبر اس کو ٹیکے لگیں ! قوت ور پریشان تھا کہ اب کیا کرے۔ وہ اس قدر زخمی تھی کہ اس کو گھر سے بھاگنے کی سزا بھی نہ دے سکتا تھا۔ بالآخر کچھ سوچ بچار کے بعد اس نے جنت کو شہر کے اسپتال لے جانے کی ٹھانی۔ ویگن کرائے پرکی اور اس میں ڈال کر جنت کو اسپتال لے آئے۔ پتا نہیں ان سفاک دلوں میں اللہ نے کیسے رحم ڈال دیا تھا۔ جنت اسپتال میں چھ دن رہی اور ساتویں دن وہ اس دنیا کو چھوڑ کر چلی گئی۔ مرتے دم بھی اس کے لبوں پر یہی جملہ تھا۔ مجھے میرے بچے دکھا دو، مجھے بچوں سے ملواد و۔ مگر دونوں سنگدل مردوں نے اس کی یہ خواہش پوری نہ کی اور وہ فریاد کرتے کرتے چل بسی۔ہم جب بھی کھاکھی کی طرف اپنے رشتے داروں کو ملنے جاتے ہیں، مجھے بے اختیار جنت یاد آجاتی ہے۔ وہ بھی ایک عورت تھی، جانے اس کے ساتھ اتنا ظلم کیوں ہوا۔ خدا جانے ان پہاڑی عورتوں کو کب پرانے رواجوں کی زنجیروں سے نجات ملے گی۔ نام تو اس کا جنت تھا مگر زندگی جہنم سے بدتر گزار کر اس دنیا سے گئی۔ خدا کرے اس کو دوسرے جہان میں جنت میں جگہ مل جائے
(ختم شد)

اگر کہانی پسند آئی ہو تو فیس بک کمنٹ میں ضرور بتائیں۔ شکریہ