براہ مہربانی پلے کا بٹن ضرور دبائیں۔ آپ کے تعاون کا بہت بہت شکریہ
👇👇
بعض اوقات ایسا بھی تو ہوتا ہے کہ جس پیار کی تلاش میں ہم اپنا سب کچھ وار دیتے ہیں، جان بوجھ کر اپنے دل کے ہاتھوں مجبور ہو کر ایسی اندھی کھائی میں جا گرتے ہیں، جس سے رہائی ممکن ہی نہیں ہوتی۔ اور پھر یوں ہوتا ہے کہ وہ پیار، جو حاصل نہیں ہو سکتا، مل بھی جائے تو ہمیں لگتا ہے جیسے ہم نے دنیا میں ہی جنت پا لی ہو۔ بابا، وہ کیسی تھیں؟ اس کی بیٹی نے اس کے پاس بیٹھتے ہوئے ایسے انداز میں سوال کیا کہ وہ نہ چاہتے ہوئے بھی بری طرح چونک گیا۔ کون؟ تم کس کی بات کر رہی ہو، بیٹا؟ خود کو بمشکل سنبھالتے ہوئے، اس نے دل کی گہرائیوں میں ڈوبتے ہوئے انجان بننے کی کوشش کی۔
اس کی فرہن، حسین بیٹی گہری نظروں سے اسے دیکھتی رہی، جیسے دل میں برسوں سے جمع سوال لبوں پر آ گئے ہوں۔ بابا، میں اب بڑی ہو گئی ہوں، بچی نہیں رہی۔ سب جانتی ہوں، سب سمجھتی ہوں۔ ساری زندگی امی نے جس خیالی پیکر سے نفرت کرتے ہوئے آپ کی، اپنی، اور ہماری زندگی کو برباد کیے رکھا، وہ خیالی پیکر دراصل ایک زندہ حقیقت ہے۔ میں سب جان چکی ہوں، بابا۔ رمشہ میری جان، ایسا کچھ بھی نہیں ہے۔ تمہاری امی کا مزاج ذرا تیز ہے، انہیں جلد غصہ آ جاتا ہے، بس اسی لیے… نہیں بابا! اب آپ مجھے بہلا نہیں سکتے۔ میں جانتی ہوں کہ وہ جو کوئی بھی ہیں، آپ انہیں ابھی تک بھلا نہیں پائے۔ بابا، پلیز، ایک بار مجھے ان سے ملا دیں۔ میں دیکھنا چاہتی ہوں کہ ان میں ایسا کیا ہے کہ امی آج تک ان کے حوالے سے خود کو غیر محفوظ محسوس کرتی ہیں۔ پلیز بابا۔ اس کی بات سنتے ہی رمشہ نے ایک عجیب سی فرمائش کر دی۔ وہ اپنی جگہ ساکت رہ گیا۔ اس کی آنکھوں کے سامنے سب کچھ دھندلانے لگا، حتیٰ کہ اپنی جان سے پیاری بیٹی کا چہرہ بھی — اور اس کی جگہ ایک اور چہرے نے لے لی۔ ایسا چہرہ جس میں آج بھی اس کی جان بستی تھی، ایسا چہرہ جسے دیکھنے کے بعد وہ کسی اور کو دیکھنے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کرتا تھا۔ بابا… بابا! کیا ہوا آپ کو؟ آپ ٹھیک تو ہیں؟ بابا! بھائی، دیکھیں نا، بابا کو کیا ہو رہا ہے۔ بابا…! اور ساتھ چھوڑتی آنکھوں کے ساتھ جو آخری آواز اس نے سنی، وہ رمشہ کی گھبرائی، بوکھلائی اور روتی ہوئی آواز تھی۔
اسے ہمیشہ سے ہی یہ لگتا تھا کہ وقت اس کی مٹھی میں ہے۔ وہ خود کو دنیا کی خوش نصیب ترین عورت سمجھتی تھی کہ خاندان کا سب سے حسین و جمیل نوجوان اس کا جیون ساتھی بنا تھا۔ یہ الگ بات ہے کہ قسمت نے یہ ہیرا اس کی جھولی میں یوں ڈال دیا کہ سارا زمانہ دیکھتا ہی رہ گیا۔ وہ تو روزِ اول سے ہی اپنے نصیبوں پر نازاں رہی تھی۔ پانچ بہنوں میں سب سے چھوٹی تھی تو کیا ہوا؟ اگر اپنی حسین ترین بہنوں کے برابر حسن نہیں رکھتی تھی تو بھی کوئی فرق نہیں پڑتا تھا، کیونکہ وہ خوش نصیب تھی۔ اس کے آتے ہی نہ صرف باپ کا کاروبار چمک اٹھا، بلکہ برسوں کے ترسے اس کے والدین کو بیٹوں کی نعمت بھی نصیب ہوئی۔ سو، وہ بختاور کہلائی۔ اسے خوش بخت مان لیا گیا۔ ایک کے بعد ایک اس کی ساری بہنیں اعلیٰ خاندانوں میں بیاہی گئیں۔ بڑی باجی کو چچا کے ابا کے کزن نے بہو بنا لیا۔ اس سے چھوٹی کو چچا کے دوست بہو بنا کر لے گئے، اور ان دونوں نے جاتے ہی ایسا چکر چلایا کہ ان سے چھوٹی دونوں بہنیں بھی ان کی دیورانیاں بن کر رخصت ہو گئیں۔ پانچویں بہن پر ان کے بیٹے کا دل آ گیا، اور پھوپھو بڑی شان سے بیٹی کو تین کپڑوں میں بہو بنا کر لے گئیں۔ یہ سب کچھ اتنی جلدی اور آناً فاناً ہوا کہ سب کو بختاور کے نصیبوں پر رشک آنے لگا۔
امی کا اعتقاد اس پر ایسا پکا ہو چکا تھا کہ گھر میں جب بھی کوئی نیک یا نیا کام کرنے کا سوچا جاتا، تو بختاور بی بی کو پیر و مرشد بنا کر سامنے بٹھا لیا جاتا۔ سب سے چھوٹی ہونے کے باوجود اس کی رائے کو خاص اہمیت دی جاتی، اور اسے ایسا پروٹوکول دیا جاتا کہ وہ خود کو اپنی ہی نگاہوں میں کئی فٹ بلند محسوس کرنے لگی۔ بختاور کے ابا، خیر سے اب ساری بیٹیوں کے فرض سے سبکدوش ہو چکے تھے، صرف یہ چھوٹی ہی رہ گئی تھی۔ امی کو جانے کیوں اپنے سارے بوجھ ایک ساتھ ہی اتارنے کی پڑی تھی کہ یسری کی شادی کے چند ماہ بعد ہی وہ بختاور کے لیے فکرمند ہو گئیں۔ لیکن یسری نے فوراً ماں کو جواب دے کر باپ کو کچھ بولنے کا موقع ہی نہ دیا۔ اس نے کہا: نہیں امی، بختاور کے لیے آپ کو فکر مند ہونے کی ضرورت نہیں۔ اُسے میں اپنی دیورانی بناؤں گی۔ میری صارم سے بات ہو گئی ہے، آپ بس خاموش رہیں، وقت آنے پر ہم خود ہی سب کچھ کر لیں گے۔ ماں اپنی بیٹی کے پختہ لہجے اور فیصلہ کن انداز پر خوشگوار حیرت میں گھری، بیٹی کو دیکھتی ہی رہ گئی۔ یسری نے جب یہ کہا کہ جی امی، میں علی ہی کی بات کر رہی ہوں، تو اپنی خوشی چھپائے نہیں چھپ رہی تھی۔
اس نے مزید کہا: دیکھیں نا، بڑی چاروں بہنیں تو ایک ہی گھر میں دو دو نیٹ ورک میں ہیں، تو میں اپنے سسرال میں اکیلی کیوں رہوں؟ مجھے بھی تو مورل سپورٹ کے لیے اپنی سگی بہن کا ساتھ چاہیے۔ بس اسی لیے میں چاہتی ہوں کہ آپ بختاور کو میری دیورانی بنا دیں۔لیکن یسری، علی کی بات تو امل کے ساتھ تقریباً طے ہی ہے۔ خاندان میں سب کو پتا ہے۔ آپا نے مجھے خود بتایا تھا کہ علی امل سے محبت کرتا ہے، اس لیے وہ اس کی شادی… بات ابھی طے نہیں ہوئی، ابو۔ ابھی پھوپھو اور پھوپھا جان سوچ رہے ہیں۔ اور رہی بات علی کی محبت کی، تو محبت کا کیا ہے؟ جس کے ساتھ نکاح ہوگا، لامحالہ اس سے محبت بھی ہو ہی جائے گی۔ اس لیے آپ پریشان نہ ہوں۔ علی تو میری بختاور کا نصیب ہی بنے گا۔ میں سب کی سوچ بدل دوں گی، دیکھ لیجیے گا آپ۔ اُس نے باپ کی بات کاٹتے ہوئے اتنے پُرعزم انداز میں کہا کہ وہ بھی سوچ میں پڑ گئے۔ یسری، میری بچی، جو بھی کرنا بہت سوچ سمجھ کر کرنا۔ معاملہ خاندان کا ہے۔ اہل بھی تمہارے سگے چچا کی بیٹی ہے اور علی کی محبت بھی۔ آپا نے اگر صارم کی پسند کو نظرانداز کر کے تمہیں بہو بنا لیا تو علی تو ان کا لاڈلا اور چھوٹا بیٹا ہے۔ تم ایسی ویسی کوئی حرکت مت کرنا بیٹا، کہ بعد میں تمہیں کوئی پریشانی ہو۔ ابو نے اسے سمجھانے کی کوشش کی، مگر وہ اپنے ارادوں میں اٹل رہی۔
پھر اس کی ماں اور بہنیں بھی اس کے ساتھ تھیں، اسی لیے اُسے کسی کی پرواہ نہ تھی۔ اور شاید قسمت بھی انہی کے ساتھ تھی، اس لیے ایک رات ابو ایسے سوئے کہ پھر دن کا اجالا دیکھنا نصیب نہ ہوا۔ کہنے کو تو یہ ایک بہت بڑا نقصان تھا — بیوی کے سر سے شوہر کا سایہ، اور بچوں کے سر سے باپ کی شفقت کی ردا اٹھ گئی تھی — مگر اس عظیم نقصان میں بھی انہوں نے اپنا فائدہ تلاش کر ہی لیا۔ جب قسمت ان پر مہربان ہو رہی تھی تو وہ کیوں منہ موڑتیں؟ اور پھر، یسری نے واقعی ایسا چکر چلایا کہ دیکھتے ہی دیکھتے بختاور کو علی کی دلہن بنا کر اپنے سنگ لے گئی۔ پورے خاندان کی ہمدردیاں اس وقت ان کے ساتھ تھیں۔ اکلوتے پھوپھو کو بھائی کی اچانک موت کا ایسا صدمہ پہنچا کہ انہیں بیٹے کی آنکھوں میں پہلے خواب کی جھلک بھی دکھائی نہ دی۔ اور مرحوم بھائی اور بیوہ بھابھی کی آخری ذمہ داری کو بخوشی قبول کرتے ہوئے انہوں نے علی پر ایسا جذباتی دباؤ ڈالا کہ وہ کچھ بول ہی نہ سکا۔
ہاسپٹل کے ٹھنڈے کاریوڈور میں وہ جانے کب سے بیٹھی اپنی اجاڑ اور ویران آنکھوں کے ساتھ ٹھنڈے، خاموش آئی سی یو میں مختلف نالیوں اور مشینوں میں جکڑے اپنے متاع حیات کو دیکھ رہی تھی۔ اس کی ساکت پلکیں جنبش کرنے سے عاری تھیں خاموش لبوں میں دبی سسکیاں دعائیں بن کر نکلنا چاہتی تھیں، مگر جانے وہ کون سا جذبہ تھا جو ان دعاؤں کو باہر آنے سے روک رہا تھا۔ ایسا لگ رہا تھا کہ آج اس کی ساری دعائیں رد کر دی جائیں گی، اور واپس اس کے منہ پر یوں دے ماری جائیں گی، جیسے وہ ساری عمر اپنے سے وابستہ اُس شخص کے خونی اور حقیقی رشتوں کی محبتوں، چاہتوں اور خلوص کو لالچ، مفاد اور فساد کا نام دے کر اس کے منہ پر دے مارا کرتی تھی۔ اس کی نگاہوں کے سامنے سے ایسے کئی مناظر گزرے تھے جو ناقابلِ بیان اور دوسروں کے لیے ناقابلِ برداشت رہے تھے، مگر سب نے برداشت کیا تھا۔ اس کے خوف سے نہیں، بلکہ اپنی مروّت اور بیٹے و بھائی کی محبت میں۔ علی اس کا تھا، اُس کی ملکیت کی طرح، جس پر وہ کسی دوسرے کا سایہ بھی برداشت نہیں کر سکتی تھی۔ اور اب وہی علی، اس کے سامنے لاچار اور بے بس پڑا، زندگی اور موت سے لڑ رہا تھا، اور وہ کچھ بھی نہیں کر سکتی تھی۔ موت سے وہ کیسے لڑتی؟ زندگی بھر تو وہ سب سے لڑ لڑ کر علی کو سب سے بچاتی رہی تھی۔ علی کے ماں باپ، بہن بھائی سب چھوٹ گئے تھے، کیونکہ بختاور کو وہ لوگ پسند نہیں تھے۔ حتیٰ کہ اپنی سگی بہن سے بھی وہ جانے کب کا جیٹھانی، دیورانی کا رشتہ بنا چکی تھی۔
بہن کا ساتھ تو شاید اسی دن چھوٹ گیا تھا جب اس نے علی کے نام کی مہندی اپنے ہاتھوں میں رچائی تھی۔ اور اب تو اُس واقعے کو بیتے برسوں گزر چکے تھے، مگر آج سب کچھ یاد آ رہا تھا۔ جیسے جیسے یادوں کی ریل چلتی گئی، ویسے ویسے اس کی سانسیں سینے میں اٹکنے لگیں، مگر زندگی کا پنجرہ ابھی مضبوط تھا۔ وہ ساری عمر سمجھتی رہی کہ اس کی سانسوں کی ڈور علی کی سانسوں سے بندھی ہے، جیسے ہی وہ اس سے دور ہوگا، وہ مر جائے گی۔ مگر اب وہ حیران تھی کہ لمحہ بہ لمحہ اُسے اپنے آپ سے دور جاتا دیکھ رہی تھی، مگر زندہ تھی۔ علی کی سانسیں ٹوٹ رہی تھیں، مگر وہ پوری توانائی اور روانی سے سانس لے رہی تھی۔ بابا ٹھیک ہو جائیں گے، آپ خود کو سنبھالیں۔ اگر آپ اس طرح ہمت ہار جائیں گی تو ہم کیا کریں گے؟ پلیز امی، ہماری خاطر، بابا کی خاطر، پہلے کی طرح مضبوط ہو جائیں، پلیز امی۔ عبدالہادی سے ماں کی یہ حالت دیکھی نہ گئی، تو وہ ان کے پاس بیٹھ گیا۔ اپنا مضبوط بازو ان کے شانے پر رکھ کر، انہیں اپنے ساتھ لگا کر نرمی اور محبت سے بھرے انداز میں تسلی دینے لگا۔
بختاور نے پہلی بار علی سے نگاہیں ہٹا کر اپنے ساتھ بیٹھے بیٹے کو دیکھا، اور تھکاوٹ کا ایک گہرا احساس اسے ہونے لگا۔ میرا بچہ… میرے علی کا عکس۔ اگر کل کو کوئی مجھ جیسی بختاور اسے مجھ سے چھین لے، تو میں کیا کروں گی؟ شاید میں بھی پھوپھو کی طرح رو رو کر مر جاؤں… یا پھوپھا جان کی طرح صبر کی بھاری چادر دل پر رکھ کر کنارہ کش ہو جاؤں۔ مگر نہیں… میں پھوپھو یا پھوپھا جان کی طرح صابر و شاکر نہیں ہوں۔ میں تو بختاور ہوں… ایک حاکم اور منتقم مزاج عورت۔ نہیں! میں عبدالہادی کو کسی کے ساتھ شیئر نہیں کر سکتی۔ میں نے تو کبھی علی کو کسی کے ساتھ شیئر نہیں کیا، تو عبدالہادی تو میرا اکلوتا بیٹا ہے۔ اس کی سوچیں جانے کہاں سے کہاں بھٹک رہی تھیں۔ عبدالہادی گہری نگاہوں سے اسے دیکھ رہا تھا۔ وہ اُس کا بیٹا تھا، اس کی سوچ پڑھ سکتا تھا۔
اس وقت بھی وہ جان گیا کہ ماں کیا سوچ رہی ہیں۔ سو، ایک بار پھر اسے اپنے ساتھ لگا کر اس کا ماتھا چوم لیا- امی… میں بہت پریشان ہوں، لیکن میں بھی آپ کا ہوں، اور بابا بھی آپ کے ہی ہیں۔ ہم نے آپ کے ساتھ ہی رہنا ہے، آپ کے پاس، کیونکہ آپ کے سوا ہمارا اب ہے ہی کون۔ اس لیے بے فکر ہو جائیں۔ بابا جلد ہی ٹھیک ہو جائیں گے، اور پھر ہم یہاں سے چلے جائیں گے، جیسا کہ آپ چاہتی ہیں۔ میں اور رمشہ بابا کو منا لیں گے۔ وہ ہماری بات نہیں ٹالیں گے۔ بس، بابا ایک بار گھر آ جائیں، پھر ہم لندن شفٹ ہو جائیں گے، ان شاء اللہ۔ امی، علی ٹھیک ہو جائیں گے ناں؟ وہ میرے ہیں… مگر مجھ سے خفا ہیں۔ کہیں وہ مجھے چھوڑ تو نہیں جائیں گے؟ عبدالہادی کی بات کاٹتے ہوئے انہوں نے ڈرتے ڈرتے کہا تو عبدالہادی کو ان پر ترس آ گیا۔ امی، بابا آپ کے ہی ہیں۔ وہ آپ سے خفا نہیں ہیں، بس خاموش رہتے ہیں، اور یہ ان کی عادت ہے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ بابا کو تنہائی اور خاموشی پسند ہے، لیکن اس کا یہ مطلب تو نہیں کہ وہ ہم سے ناراض ہیں۔ امی، بابا تو مجسم محبت ہیں، وہ کسی سے کیسے خفا ہو سکتے ہیں بھلا؟ آپ ایسی باتیں سوچ سوچ کر خود بھی پریشان ہوتی ہیں اور ہم سب کو بھی پریشان کرتی ہیں۔ پلیز امی، پریشان نہ ہوں۔عبدالہادی… میں اپنا جملہ بدلتی ہوں، میں اپنا بیان بدلتی ہوں، اور میں اپنا نظریہ بھی بدل رہی ہوں۔ میں علی کی ہوں… اور علی؟ علی کس کا ہے، یہ تم بھی جانتے ہو اور میں بھی۔ بختاور نے اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کچھ اس انداز سے کہا کہ ایک لمحے کو تو وہ بھی ساکت ہو کر رہ گیا۔ میں گھر جا رہی ہوں۔ بہت تھک گئی ہوں، کچھ دیر آرام کروں گی۔ تم علی اور رمشہ کو لے کر آجانا، میں تم تینوں کا انتظار کروں گی۔ وہ آہستگی سے اس کا بازو اپنے شانے سے ہٹا کر آہستہ آہستہ اٹھیں اور بغیر اس کی طرف دیکھے باہر کی طرف بڑھ گئیں۔ امی… رکیں، میں چلتا ہوں آپ کے ساتھ۔ وہ فوراً سے اٹھا ہی تھا کہ اسی لمحے ڈاکٹرز تیزی سے آئی سی یو کی طرف بڑھتے دکھائی دیے۔ بختاور اور عبدالہادی جہاں کے تہاں کھڑے کے کھڑے رہ گئے۔
علی کی آنکھ کھلی تو اس نے خود کو ایک حسین گلستان میں پایا۔ ایسا خوبصورت نظارہ اس نے اپنی پوری زندگی میں کبھی نہیں دیکھا تھا۔ ہر طرف دلنشین اور دلنواز پھول کھلے تھے۔ ان رنگ برنگے خوشنما پھولوں پر حسین اور نازک تتلیاں منڈلا رہی تھیں۔ کچھ فاصلے پر ایک اور دلکش منظر اس کی نگاہوں کا منتظر تھا۔ ایک خوبصورت پہاڑی سے جھرنا پھوٹ رہا تھا، جو ایک انوکھی البیلی ناری کی طرح لہراتا، بل کھاتا ہوا وادی میں گرتا اور چشمے کی صورت گلشن کو سیراب کر رہا تھا۔ وہ پوری طرح ان نظاروں میں کھو گیا تھا۔ علی، آئیں ناں! آجائیں، میں کب سے آپ کا انتظار کر رہی ہوں اور آپ نے آنے میں اتنی دیر کر دی۔ اب وہاں اتنی دور کھڑے کیا دیکھ رہے ہیں؟ آئیں، یہاں میرے پاس بیٹھیں۔ وہ جانے کب تک ان نظاروں میں کھویا رہتا، اگر زندگی کی محبت سے لبریز یہ آواز اس کے کانوں میں نہ پڑتی۔ الٰہی! میری زندگی، تم یہاں… اور میں تمہیں کہاں کہاں نہیں ڈھونڈتا رہا ہوں؟ لہراتے جھرنے کے نیچے ایک اونچے پتھر پر بیٹھی، وہ چشمے کے ٹھنڈے پانی میں پاؤں ڈالے اسے اپنی طرف بلا رہی تھی، اور اس پکار کا تو وہ برسوں سے منتظر تھا۔ اس لیے وہ بے تابی سے اس کی طرف لپکا اور اس کے پاس بیٹھتے ہی کہا۔ وہ آج بھی ویسی ہی حسین تھی، نرم و نازک کلیوں کی مانند، ویسی ہی جوان، گل رعنا کے حسین پھول کی طرح تروتازہ۔ وہ اسے وارفتہ نگاہوں سے دیکھنے لگا۔
علی، ایسے کیا دیکھ رہے ہیں؟ اس کی مسکراہٹ آج بھی دل میں بجلیاں گرا دینے کی صلاحیت رکھتی تھی۔ اپنی زندگی کو دیکھ رہا ہوں۔ تم مجھ سے دور کیا ہوئیں، ساری خوشیاں ہی مجھ سے روٹھ گئیں۔ تم نے ایک بار بھی میرے بارے میں نہیں سوچا، امل؟ میں تمہارے بغیر کیسے جیوں گا، کیسے زندہ رہوں گا؟ تمہاری محبت کے بغیر، تمہیں ایک بار بھی میرا خیال نہیں آیا؟ میرے پیار میں کوئی کمی دیکھی تھی تم نے، جو اس طرح مجھے چھوڑ کر یہاں چلی آئیں؟ بولو ناں، امل! جواب دو۔ میں آپ سے دور کہاں تھی، علی؟ آپ نے تو مجھے خود سے دور ہونے ہی نہیں دیا۔ میرا خیال، میری چاہت، میری محبت… سب آپ ہی تو ہیں۔ پھر آپ نے ایسا کیوں کیا، علی؟ میں تو آپ کا ماضی تھی، اور ماضی تو بھول جانے کے لیے ہوتا ہے۔ حال میں جینا ہی عقل مندی ہوتی ہے، علی، اور آپ تو بہت عقل مند تھے۔ پھر آپ نے ایسی بیوقوفی کیوں کی؟ اپنے حال کو ماضی میں دفن کر دیا، اور اپنے مستقبل کے ساتھ ساتھ اپنے سے وابستہ سب رشتوں کا مستقبل بھی داؤ پر لگا دیا۔ کیوں، علی، کیوں؟ کیوں کیا آپ نے ایسا؟ وہ اس سے کچھ اور پوچھ رہا تھا، اور جواب میں وہ کچھ اور ہی سنا رہی تھی۔ علی خاموشی سے بس اسے دیکھتا رہا۔علی… آپ واپس چلے جائیں، یہ دنیا آپ کے لیے نہیں ہے۔ اگر آپ مجھ سے سچا پیار کرتے ہیں تو اسے رسوا مت کریں۔ مجھے اور میری محبت کو اپنے دل کے ایسے گوشے میں ہمیشہ کے لیے دفن کر دیں، جہاں تک صرف آپ کی یادوں کی رسائی ہو۔
دنیا اور دنیا والے اس پاکیزہ محبت تک کبھی نہ پہنچ پائیں۔ بس، میری آپ سے یہی التجا ہے۔ وہ اپنی جگہ سے اٹھ کھڑی ہوئی تھی، اور وہ بھی اس کے ساتھ ہی کھڑا ہو گیا۔ امل، تم ایک بار پھر مجھے چھوڑ کر جا رہی ہو؟ مجھے… میرے پیار کو ٹھکرا رہی ہو؟ نہیں امل، نہیں! اس بار ایسا مت کرنا، پلیز… مجھے یہاں رہنے دو ناں۔ یہاں کتنا سکون ہے، اور میں کب سے سکون کو ترس رہا ہوں۔ مجھے تھوڑا سا سکون چاہیے، تھوڑی سی راحت، اور تمہارا ہمیشہ کا ساتھ۔ بس اس کے سوا کچھ بھی نہیں مانگ رہا… پہلے بھی کچھ نہیں مانگا تھا، اب بھی کچھ نہیں مانگ رہا۔ پلیز، امل! بختاور کا پیار میرے لیے کسی قید سے کم نہیں۔ اس کے سمندر جیسے کھارے پانی جیسے پیار نے مجھ سے میری ساری خوشیاں چھین لیں۔ تم مجھے اب خود سے دور مت کرو، امل! مان جاؤ میری بات۔ اسے خود سے دور ہوتے دیکھ کر وہ تڑپ اٹھا۔ امل، نرم سفید بادلوں میں چھپتی جا رہی تھی، اور وہ کھڑا اسے پکار رہا تھا۔ نہیں علی، یہ ممکن نہیں۔ آپ واپس جائیں اور اپنی ذمہ داریوں کو اس طرح نبھائیں، جس طرح میں آپ سے توقع رکھتی تھی۔ میری آپ سے یہی درخواست ہے… مجھے بھول جائیں۔ اگر نہیں بھول سکتے، تو کم از کم یاد بھی نہ کریں۔ اپنے ساتھ موجود زندہ انسانوں سے بھی محبت کرنا سیکھیں۔ اگر بختاور کا پیار آپ کے لیے کھارے پانی جیسا ہے، تو آپ اس میں اپنے پیار کا شہد ملا دیں۔ مجھے پورا یقین ہے کہ آپ کے پیار کا شہد بختاور کے پیار کو بھی میٹھا کر دے گا۔ جائیں علی، انہیں بھی آپ کی محبت کی ضرورت ہے۔ آپ ان کے پیار سے پیار کریں۔ پھر دیکھیے گا کہ آپ کی زندگی میں کیسا سکون اتر آئے گا۔ وہ اس کی نگاہوں سے اوجھل ہو چکی تھی، اور وہ وہیں کھڑا، اس کی آواز کی بازگشت میں کھویا ہوا تھا۔
ٹھنڈے، سرد آئی سی یو میں ہوش و خرد سے بیگانہ لیٹے وجود کی سانسیں آہستہ آہستہ زندگی کا ساتھ چھوڑ رہی تھیں۔ اس کے سرہانے مستعد کھڑی نرس مانیٹرنگ مشینز کی لمحہ بہ لمحہ بدلتی صورتحال کو تشویش سے دیکھتے ہوئے اہم پوائنٹس نوٹ کر رہی تھی۔ یہ مریض ان سب کے لیے بہت اہم تھا۔ اس ہسپتال کے ڈین، سر مرتضیٰ میر کا سالا اور بچپن کا دوست، علی، جس کی حالت میں گزشتہ پندرہ دنوں سے رتی برابر بھی فرق نہیں آیا تھا۔ برین ہیمرج کے شدید اٹیک کے بعد جب اسے فوری طور پر یہاں لایا گیا، تو ایک لمحے کی تاخیر کے بغیر اس کا علاج شروع کر دیا گیا تھا، مگر یہ مریض بہتری کی جانب آنے کے بجائے آہستہ آہستہ موت کی طرف بڑھ رہا تھا۔ ہوش میں آنے کے بجائے وہ کومے میں جا چکا تھا، اور اب ڈاکٹر مرتضیٰ سمیت سب ہی کسی معجزے کے منتظر تھے۔اور معجزہ ہو گیا۔ علی کے بظاہر بے جان وجود کو ایک ہلکا سا جھٹکا لگا۔
مانیٹرنگ مشین میں ہلچل مچی، اور نرس نے ایک لمحہ ضائع کیے بغیر ڈاکٹر کے کمرے میں وائرلیس پیغام بھیجا۔ پیغام ملتے ہی ڈاکٹر مرتضیٰ کی معیت میں دیگر ڈاکٹرز کی ٹیم آئی سی یو میں پہنچ گئی اور تندہی سے اپنے کام میں جت گئی۔علی… پندرہ دنوں کی بے ہوشی اور بے خبری کے بعد اس کے منہ سے ادا ہونے والا پہلا لفظ امل تھا، جس نے مرتضیٰ کو چونکا دیا۔ بابا… میرے بابا اب کیسے ہیں؟ جیسے ہی ڈاکٹر مرتضیٰ نے آئی سی یو سے باہر قدم رکھا، رمشہ اور عبدالہادی ان کی طرف لپکے۔ رمشہ کی تو جان ہی اپنے بابا میں تھی، اور اس کی حالت سب سے زیادہ خراب تھی۔رمشہ بیٹا، بی بریو… علی اب بالکل ٹھیک ہے، ما شاء اللہ! ہوش آ گیا ہے۔ بھائی، آپ کو علی کی دوسری زندگی بہت بہت مبارک ہو۔ مرتضیٰ نے رمشہ اور عبدالہادی کو ایک ساتھ بانہوں میں بھرتے ہوئے کہا تو وہ دونوں اس کے سینے پر سر رکھ کر رونے لگے، اور بختاور شاخِ نازک کی طرح وہیں گر کر ڈھیر ہو گئی۔امی… بھائی… اور نرسنگ اسٹاف! پلیز، کوئی ہماری مدد کرے! بختاور کو گرتے دیکھ کر سب کے ہاتھ پاؤں پھول گئے اور سب اس کی طرف لپکے۔
یہ خوشی کی انتہا تھی یا شرمندگی کا احساس، کہ وہ ایک لمحہ بھی اپنے قدموں پر کھڑی نہ رہ پائی اور بے ہوش ہو کر اسی ہسپتال کے دوسرے کمرے میں ایڈمٹ ہو گئی۔علی، بس! بہت ہو گیا یار، سنبھل جاؤ اب۔ اسے میری *لاسٹ وارننگ* سمجھو۔ اب اگر تم نے خود پر کسی بھی قسم کا ڈپریشن سوار کرنے کی کوشش کی تو تمہارے لیے اچھا نہیں ہوگا۔ دوبارہ زندگی ہر کسی کو نہیں ملتی، اور نہ ہی ایسے معجزے بار بار ہوتے ہیں۔ پرائیویٹ روم میں شفٹ کیے جانے سے پہلے، ڈاکٹر مرتضیٰ نے اس کی اچھی خاصی کلاس لینا ضروری سمجھی۔ علی جواب میں سوائے ایک تھکی تھکی سی مسکراہٹ کے کچھ نہ دے پایا۔ وہ بہت تیزی سے صحت یاب ہو رہا تھا، اور بختاور بھی ایک دو دن میں سنبھل گئی تھی۔
علی، مجھے معاف کر دیں۔ میں نے آپ کو چاہا، یہ میری غلطی نہیں تھی۔ چاہت اور محبت پر کسی کا اختیار نہیں ہوتا، یہ آپ بھی اچھی طرح جانتے ہیں۔ پیار تو انسان کو کسی سے بھی ہو سکتا ہے، اور اگر سامنے آپ جیسی وجیہ شخصیت ہو تو پھر مجھ جیسی جذباتی اور انا پرست عورت کا عشق میں گرفتار ہو جانا کچھ ایسا غلط بھی نہیں۔ مگر میں مانتی ہوں، میں نے ایک بڑی بھول کی۔ ایسی بھول جس نے میرے ساتھ ساتھ آپ کی زندگی کو بھی منجدھار میں دھکیل دیا۔ مجھے معاف کر دیں علی، میں نے آپ کا پیار پانے کے لیے آپ اور اہل کے پیار میں زہر گھول دیا۔ وہ کہہ کر رونے لگی تو علی نے اسے بانہوں میں لیتے ہوئے کہا، بختاور، تم بھی مجھے معاف کر دو۔ میں نے تمہارے پیار کی شدت کو پہچاننے کی کوشش ہی نہیں کی۔ اس رشتے کو ایک بوجھ سمجھا، تمہیں غاصب اور خائن سمجھ کر تمہیں قابلِ توجہ ہی نہ جانا۔ زیادتی اگر تمہاری طرف سے ہوئی تو ہمیشہ کوئی نہ کوئی کمی میری طرف سے بھی رہی ہے۔ بختاور نے رو کر کہا، علی، آپ نہیں جانتے، میں بہت بری ہوں۔ اپنی انا اور ضد کے پیچھے میں نے پورا خاندان تباہ کر دیا۔
اپنے بھائی، بہنوں کو تو چھوڑا ہی، آپ سے آپ کے سارے رشتے بھی چھین لیے۔ میں نے آپ کو کبھی اپنا شوہر یا اپنے بچوں کا باپ سمجھا ہی نہیں۔ وہ بہت جذباتی ہو رہی تھی اور علی اس کا یہ روپ دیکھ کر دنگ رہ گیا تھا۔امی، بابا، آپ دونوں کو اس طرح ایک ساتھ دیکھنا میری زندگی کی سب سے بڑی خواہش تھی۔ آج میں بہت خوش ہوں۔ اللہ کا احسان ہے کہ اس نے میری یہ خواہش پوری کر دی۔ ہاں بھائی، ہے نا؟ رمشہ اور عبدالہادی جانے کب اندر آ گئے تھے، انہیں پتہ ہی نہیں چلا۔ اور جب رمشہ نے آگے بڑھ کر ماں باپ کو روتے دیکھا تو ماں سے لپٹ گئی۔ دونوں رو رہے تھے۔ بابا، یہ ہماری زندگی کا سب سے خاص دن ہے، اس لیے ہم اسے خاص انداز سے سیلیبریٹ کریں گے۔ دیکھیں، میں نے آپ دونوں کے لیے خود کیک بنایا ہے اور یہ پھول بھی آپ دونوں کے لیے ہی ہیں، سویٹس انجوائے کریں۔ عبدالہادی، جو چند منٹ پہلے باہر گیا تھا، واپس آیا تو ٹرے میں سجا کیک اور پھول اس کے ساتھ تھے۔ اس نے وہ علی کے سامنے رکھ دیے، تو بختاور اور علی نے ایک ساتھ تازہ بنے کیک کو مسکراتے ہوئے دیکھا۔امی، بابا، کیک کاٹیں ناں، مجھ سے صبر نہیں ہو رہا۔
پھر ہمیں ڈنر پر بھی جانا ہے، ہاں بابا؟ عبدالہادی نے پرجوش انداز میں کہا۔ بختاور نے ایک لمحے کو سوچا، نہیں، اب اور نہیں۔ اب میں اپنے بچوں کو مزید برباد نہیں ہونے دوں گی۔ اللہ نے مجھے ایک اور موقع دیا ہے، تو میں اس سے ضرور فائدہ اٹھاؤں گی۔ میں اپنے گھر کو واقعی جنت کا گہوارہ بنا کر دکھاؤں گی، ان شاء اللہ۔ اس نے علی کے ہاتھ میں ہاتھ دیتے ہوئے ایک عزم کے ساتھ سوچا اور پھر مسکراتے ہوئے علی کے ساتھ مل کر کیک کاٹا۔