سیاسی چال

Sublimegate Urdu Stories

براہ مہربانی پلے کا بٹن  ضرور دبائیں۔ آپ کے تعاون کا بہت بہت شکریہ
👇👇

شام یوں اُتر آئی تھی جیسے کسی نوجوان بیوہ کے دل میں اُداسی اُتر آتی ہے۔ وہ نیم تاریک حوالات میں آنکھیں بند کیے لیٹا ہوا تھا۔ باہر خاموشی تھی، دور کسی مسجد سے مغرب کی اذان بلند ہو رہی تھی اور اُس کے دماغ میں قیامت کا شور برپا تھا۔ خیالات کی جنگ جاری تھی۔ پولیس انسپکٹر نے جس طرح اُس کے اعتماد کا خون کیا تھا، وہ جسمانی تکلیف سے کہیں بڑھ کر اذیت دہ تھا۔ وہ دیوار کا سہارا لے کر، کراہتے ہوئے بڑی مشکل سے اٹھا اور لڑکھڑاتے قدموں سے چلتا ہوا سلاخوں کے پاس آ گیا۔ اُس کا جوڑ جوڑ دُکھ رہا تھا۔ پولیس والوں نے اُس کی اتنی پٹائی کی تھی کہ وہ زندہ تو تھا، مگر موت کی سختی جھیل رہا تھا۔

 اُس نے سلاخیں تھام کر باہر دیکھا۔ دور برآمدے میں، ایک میز کے پاس تھانے کا محرر کچھ لکھنے میں مصروف تھا۔ اُس نے زور سے آواز دی۔ محرر نے اُس کی طرف دیکھا، پھر اُس کے پاس آ کر غصے سے پوچھا کہ کیا بات ہے، شور کیوں مچا رہے ہو۔ وہ بولا شور نہیں مچا رہا، غور کر رہا ہوں کہ جب اچھے کام کی طرف بلایا جائے تو اُسے کرنا چاہیے یا نہیں۔ محرر نے کہا نیک کام ہر کوئی نہیں کرتا، جسے توفیق ملے، وہی کرتا ہے۔ وہ عاجزی سے بولا مؤذن عبادت کی طرف بلا رہا ہے اور تم اپنا کام کر رہے ہو، مجھے باہر نکالو، دونوں نماز پڑھیں گے۔ محرر نے طنز کرتے ہوئے کہا تھانے میں آ کر خدا یاد آ گیا؟ باہر شیطان بنے پھرتے ہو، اور دو دن حوالات میں گزار کر فرشتہ بن جاتے ہو؟ وہ دُکھ سے بولا تھانے میں زیادہ تر مجرم ہی آتے ہیں، لیکن ضروری نہیں کہ ہر آنے والا مجرم ہو۔ میں صرف ملزم ہوں۔ پلیز، مجھے نماز پڑھنے دو۔ محرر نے ڈانٹ کر کہا بس بس، اندر جا کر لیٹ جا، زیادہ نیکی کا بخار نہ چڑھا۔ اور اپنی میز کی طرف واپس چلا گیا۔

 وہ دوبارہ لڑکھڑاتے ہوئے ایک طرف دیوار کے ساتھ فرش پر جا بیٹھا اور دل ہی دل میں اللہ کو یاد کرنے لگا۔وہ دوبارہ لڑکھڑاتے ہوئے ایک طرف دیوار کے ساتھ فرش پر جا بیٹھا اور دل ہی دل میں اللہ کو یاد کرنے لگا۔ صبح ہوئی تو ایک سپاہی سلاخوں کے پاس آیا اور تالا کھولتے ہوئے بولا، اوئے باہر آؤ، تھانیدار صاحب نے بلایا ہے۔ وہ سپاہی کے ساتھ تھانیدار کے کمرے میں آیا۔ انسپکٹر اس کی بری حالت دیکھ کر ہنستے ہوئے بولا، لگتا ہے میرے جوانوں نے کچھ زیادہ ہی تیری خاطر تواضع کی ہے، لیکن یہ ضروری تھی۔ تیرے جیسے نمک حرام کے دماغ کو آسمان سے زمین پر لانے کے لیے اس کے علاوہ چارہ نہیں تھا۔ وہ بولا، انسپکٹر صاحب! آسمان پر دماغ نہیں، انسان کے اعمال جاتے ہیں۔ 

میں زمین پر ہی تھا، بس آپ زمینی حقائق سے منہ پھیر رہے تھے۔ یہ سنتے ہی انسپکٹر نے اسے الٹے ہاتھ کا طمانچہ مارا، پھر چیخ کر کہا، الو کے پٹھے! اتنی مار کھا کے بھی دماغ سے گرمی نہیں اتری، ابھی تک وہی کتے کی دم ہو۔ وہ بولا، تھانیدار صاحب! اس معاشرے میں غریب اور بے کس اسی طرح مار کھاتے ہیں۔ مجھے دکھ اس طرح مار کھانے کا نہیں، اس بات کا ہے کہ غریب اور لاچار سچ بھی بولیں تو جھوٹ ہوتا ہے۔ انسپکٹر نے گالی دے کر کہا، زیادہ ڈائیلاگ مت بولو، سیدھی طرح بتاؤ کہ دماغ ٹھکانے آیا ہے کہ نہیں؟ چوہدری احتشام کے خلاف جو بیان دیا تھا، کہو وہ جھوٹ ہے، ان پر بہتان ہے۔ 

وہ مستحکم لہجے میں بولا، میں نے چوہدری احتشام پر بہتان نہیں لگایا، ٹھوس حقائق کی روشنی میں بیان دیا ہے۔ میں خود ان کی غلط کاریوں میں شریک رہا ہوں، بس اس معاملے میں میری قومی غیرت آڑے آگئی اور میں باغی بن گیا۔ انسپکٹر زہر خند لہجے میں بولا، بہت بڑی غلطی کر رہے ہو تم، اس طرح تم چوہدری صاحب کا کچھ نہیں بگاڑ سکو گے، بس اپنی ہی مٹی پلید کرو گے، کیونکہ تم ایک حقیر کیڑے ہو۔ ان کے پاس سب کچھ ہے، دولت، طاقت، اختیار۔ اسے پھر سے حوالات کی تاریکی میں دھکیل دیا گیا اور وہ جسمانی و ذہنی کرب برداشت کرتا ہوا ننگے فرش پر لیٹ گیا۔ ادھر تنہائی تھی، تاریکی تھی اور اس سے بڑھ کر ہولناک ماضی کی یادیں تھیں۔ وہ ان یادوں کی چھن سہتا ہوا ماضی کے تاریک زندان میں جا اُترا۔

بابر کا باپ ترک تھا۔ ایماندار تھا، اس لیے بہت تنگی سے گزر بسر ہو رہی تھی۔ تین بہنیں اور وہ اکیلا بھائی تھا۔ بہت ذہین تھا، ہر کلاس میں اول آتا۔ ہر شخص کی طرح اس کے باپ کی بھی خواہش تھی کہ وہ پڑھ لکھ کر بڑا افسر بنے، اس لیے میٹرک کے بعد اسے مزید تعلیم کے لیے بڑے شہر بھیج دیا۔ اس نے والدین کی لاج رکھی اور جی لگا کر محنت کرنے لگا۔ وہ فرسٹ ایئر میں تھا کہ اس کا باپ ریٹائر ہو گیا۔ پنشن وغیرہ ملا کر جو رقم ملی، اس سے اس کے والد نے ایک دکان کھول لی۔ اس طرح گھر کے ساتھ ساتھ بیٹے کے تعلیمی اخراجات بھی پورے ہونے لگے۔ وقت سکون سے گزر رہا تھا کہ ایک دم گردشِ حالات نے انہیں آ گھیر لیا۔ 

وہ ایم ایس سی فائنل میں تھا کہ ایک دن اس کے باپ کی دکان میں ڈاکہ پڑا۔ چوروں نے ساری دکان کا صفایا کر دیا۔ اس کا باپ ہر در پر گیا، علاقے کے ایم این اے سے اپنائیت سے فریاد کی، مگر چور نہ پکڑے گئے۔ دکان آمدنی کا واحد ذریعہ تھی، اس کی ساری پنشن اسی میں لگی ہوئی تھی۔ یہ بہت بڑا دھچکا تھا۔ ان کی دنیا اندھیر ہو گئی۔ جب بابر کو پتا چلا تو اس کے ہاتھ پاؤں پھول گئے۔ یہ اس کا ایم ایس سی کا آخری سال تھا، مگر اس نے ہمت نہیں ہاری۔ محنت مزدوری کر کے تعلیمی اخراجات پورے کیے اور جیسے تیسے امتحان دے کر گھر چلا آیا۔ گھر کے حالات انتہائی خراب تھے۔ وہ نوکری کی تلاش میں مارا مارا پھرنے لگا۔ دن بھر دفتروں میں جوتے گھساتا رہا، مگر گوہرِ مقصود نہ ملا۔ اس دوران ایم ایس سی کا رزلٹ آ گیا۔ وہ فرسٹ ڈویژن میں کامیاب ہوا تھا۔

انہی دنوں اس نے اخبار میں ایک اشتہار دیکھا، جس میں ایک دفتر میں چند آسامیاں پر کرنے کے لیے درخواستیں طلب کی گئی تھیں۔ اس نے بھی درخواست جمع کرا دی۔ پانچ آسامیاں تھیں اور امیدوار پانچ سو سے زیادہ۔ ٹیسٹ کے بعد بیس امیدواروں کو شارٹ لسٹ کر کے انٹرویو کے لیے بلایا گیا، جن میں اس کا دوسرا نمبر تھا۔ وہ بڑی امیدوں سے انٹرویو میں شریک ہوا۔ اسے یقین تھا کہ وہ ضرور منتخب ہو گا۔ شدت سے انتظار کے بعد جب آخری پانچ امیدواروں کے ناموں کا اعلان ہوا تو اسے حیرت اور صدمے کا شدید جھٹکا لگا، کیونکہ وہ اُن میں شامل نہیں تھا۔ جن لڑکوں کا انتخاب کیا گیا تھا، وہ ان کو جانتا تھا اور شرط لگا کر کہہ سکتا تھا کہ وہ کامیاب نہیں ہوئے، بلکہ کامیاب کرائے گئے تھے۔ وہ سب اس ملازمت کے اہل نہیں تھے، بس کسی سیاسی رہنما یا کسی سرکاری افسر کے طفیلی تھے یا پھر لاکھوں روپے خرچ کر کے یہ نوکری حاصل کی تھی۔ 

اس نے چند اور نوجوانوں کو ساتھ ملا کر احتجاج کیا، سوشل میڈیا پر آواز بلند کی، اپنے جاننے والے صحافیوں کے ذریعے اخبارات میں اس ناانصافی کی خبر بھی لگوائی، مگر اوپر سے نیچے تک بے ایمانوں کا ٹولہ ایسا بااثر اور مضبوط تھا کہ اس کا احتجاج اور غم و غصہ صدا بہ صحرا ثابت ہوا۔ وہ غریب تھا، بے کس تھا، اس لیے غم و غصے کی آگ میں خود ہی جلتا رہا اور ملازمت کے حصول کے لیے دھکے کھاتا رہا۔ بہت دنوں بعد پھر ایک جگہ نوکری کا موقع نظر آیا۔ وہ ٹیسٹ میں بیٹھ گیا۔ یہ نوکری اگرچہ اس کی تعلیم کے برابر نہیں تھی، مگر گھر کی ابتر حالت کے باعث وہ ملازمت کے نام پر کچھ بھی کرنے کو تیار تھا۔ ٹیسٹ ایک بڑے سے ہال میں لیا جا رہا تھا۔ یہاں بھی ایک ایک آسامی کے لیے سینکڑوں امیدوار موجود تھے۔ ہال کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ امیدوار اس طرح پاس پاس بیٹھے ہوئے تھے، جیسے کسی کلاس روم میں ہوں۔ سب ایک دوسرے کو دیکھ کر پرچہ حل کر رہے تھے۔ کسی کو بھی احساس نہیں تھا کہ وہ بے ایمانی اور بے اصولی کر رہا ہے۔ حد تو یہ تھی کہ ٹیسٹ کے نگران بھی سب کچھ دیکھتے ہوئے انجان بنے ہوئے تھے۔ 

بابر حیرانی سے یہ سب دیکھ رہا تھا اور سوچ رہا تھا کہ کیا قابلیت اس طرح پرکھی جاتی ہے؟اس سے رہا نہ گیا تو وہ اپنی سیٹ سے اٹھا اور نگران سے بولا کہ سر! ٹیسٹ ایسے تو نہیں لیا جاتا۔ اس طرح خاک کسی کی قابلیت کا پتا چلے گا؟ آپ پلیز پیپر رکوائیں اور مناسب طریقے سے بٹھائیں۔ نگران چند ثانیے گھور کر اس کی طرف دیکھتا رہا، پھر ترشی سے بولا، خاموشی سے ٹیسٹ حل کرو، تمہیں اس سے کیا مطلب کہ کس طرح بیٹھایا گیا ہے؟ کیا تمہیں کسی نے روکا ہے؟ ان کی طرح تم بھی پرچہ حل کر لو۔ وہ حیرت سے گنگ اس کی طرف دیکھتا رہا، پھر سارے ہال پر نظر دوڑائی۔ سب کھلے عام نقل میں مصروف تھے۔ اس نے اپنا جوابی پرچہ اٹھایا، ٹکڑے ٹکڑے کیا اور ہوا میں اچھال دیا، پھر لمبے لمبے ڈگ بھرتا ہوا ہال سے باہر نکل گیا۔ ہال کے باہر کچھ اور نوجوان بھی موجود تھے، جو ٹیسٹ کے طریقۂ کار اور بے قاعدگی پر شدید غصے میں تھے۔ وہ سب کہہ رہے تھے کہ اوپر والوں نے رشوت اور سفارش کے ذریعے اپنے خاص بندوں کو پہلے ہی منتخب کر لیا ہے، اب عوام کو دکھانے کے لیے صرف ڈرامہ رچایا جا رہا ہے۔

 بابر ان لڑکوں کو لے کر بازار کی طرف آیا اور مرکزی چوک کے قریب احتجاجی مظاہرہ کرنے لگا۔ بہت سے لوگ ان کے ساتھ شامل ہو گئے۔ بابر کے سینے میں غصے کی آگ لگی ہوئی تھی۔ گھر کی خستہ حالی، اپنی بے چارگی اور پھر شدید قسم کی اندھیر نگری کے باعث اس کے دل میں دبی ہوئی چنگاری ایک آتش فشاں بن کر بھڑک اٹھی۔ وہ ایک اونچی جگہ پر کھڑا ہو گیا اور مظلوم بے روزگاروں کی آواز بن کر مرکزی چوک میں گونجنے لگا۔ وہاں موجود لوگ اس کی باتوں میں چھپے کرب سے متاثر ہو رہے تھے۔ بابر کی باتیں ان سب کے جذبات کی ترجمانی کر رہی تھیں۔ وہ سب اندر سے ٹوٹے پھوٹے تھے۔ سسٹم کے نام پر پھیلتی ہوئی بدعنوانی سے تنگ آ چکے تھے۔ پارٹی بازی، ذات پات، مسلک اور زبان کے خانوں میں بانٹ کر ان کے روشن مستقبل کا تیا پانچہ کیا جا رہا تھا اور بابر ان ساری محرومیوں اور مایوسیوں کے خلاف زہر اگل رہا تھا۔

اسی دوران مرکزی چوک کے قریب ایک بڑی سی لینڈ کروزر آ کر رکی۔ کھڑکی کا شیشہ نیچے سرکا اور ایک بارعب شخص کا چہرہ نمودار ہوا۔ وہ بڑے غور اور پسندیدہ نظروں سے بابر کی طرف دیکھ رہا تھا۔ بابر کی نظر بھی اس پر پڑی۔ وہ اسے پہچانتا تھا، وہ علاقے کا معروف سیاسی رہنما چوہدری احتشام تھا۔ کچھ دیر وہ بابر کی جذباتی تقریر سنتا رہا، پھر خاموشی سے وہاں سے چلا گیا۔ یہ تین دن بعد کی بات ہے۔ بابر کو چوہدری احتشام کی طرف سے اس کے دفتر میں بلایا گیا۔ وہاں اس کی خوب خاطر تواضع کی گئی۔ چائے پلانے کے بعد چوہدری احتشام نے اس سے پوچھا، برخوردار! اس روز تمہاری تقریر مجھے بہت اچھی لگی۔ تم کیا کرتے ہو؟بابر نے دل گرفتہ انداز میں جواب دیا، کچھ نہیں کرتا۔ غریبوں کے ساتھ ہونے والی ناانصافی اور اس اندھیر نگری پر بس اپنا خون جلاتا ہوں۔ 

چوہدری احتشام مسکرا کر بولا، بیٹے، اپنا خون جلانے سے انصاف نہیں ملتا۔ یاد رکھو، ابتر اور ناہموار معاشرے میں انصاف مانگا نہیں جاتا، جھپٹ کر حاصل کیا جاتا ہے۔ اور تم جیسے کمزور اور بے کس نوجوان، جو صرف چیخنے چلانے پر یقین رکھتے ہیں، وہ کبھی انصاف حاصل نہیں کر سکتے، کیونکہ تمہیں جھپٹنا نہیں آتا۔ تم ابھی ناسمجھ ہو۔ چوک پر کھڑے ہو کر آواز بلند کرنے سے کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ اگر کسی پختہ کار اور جہاندیدہ شخص کی انگلی تھام لو، تو تمہیں ظالموں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر حساب لینے کا ڈھنگ آ جائے گا۔ بابر نے کچھ دیر سوچا، پھر دھیمی آواز میں کہا، میں جانتا ہوں کہ صرف چیخنے چلانے سے کچھ نہیں ملتا، بس اندر کا غصہ کچھ کم ہو جاتا ہے۔ ویسے آپ کی بات غور طلب ہے۔ خود کو کندن بنانے کے لیے واقعی کسی تجربہ کار راہنما کی بھٹی میں جلنا ضروری ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ میں کس رہنما کا انتخاب کروں؟ چوہدری احتشام کے چہرے پر اطمینان سا چھا گیا۔ وہ بولا، مجھے خوشی ہوئی کہ میری بات تمہاری سمجھ میں آئی۔ جہاں تک رہنما کی بات ہے، تو میں حاضر ہوں۔ مجھے ایک ذہین اور مستعد سیکرٹری کی ضرورت ہے۔ اگر تم میرے ساتھ رہو گے، تو نہ صرف اچھا خاصا معاوضہ پاؤ گے، بلکہ سیاست، دنیا داری اور نظام کو سمجھنے کا ہنر بھی سیکھ لو گے۔

 بابر معاشرتی ناہمواریوں، اربابِ اختیار کی ناانصافیوں اور اپنی بے بسی سے اس قدر عاجز آ چکا تھا کہ اس کے خیالات میں بغاوت سرایت کرنے لگی تھی۔ وہ جانتا تھا کہ اسی اندھیر نگری میں نہ جانے کتنے باصلاحیت اور تعلیم یافتہ نوجوان جرم کی راہوں پر چل نکلتے ہیں اور اپنے مستقبل کو برباد کر بیٹھتے ہیں۔ اس کے ذہن میں ایک الجھن سی برپا تھی، مگر چوہدری صاحب کی پیشکش نے اس کے سوچنے کا رخ بدل دیا۔ کچھ دیر کے غور و فکر کے بعد وہ پیشکش رد نہ کر سکا اور اپنی رضا مندی دے دی۔ اس نے چوہدری احتشام کے ساتھ کام کرنا شروع کر دیا۔ بابر ذہین اور تعلیم یافتہ تھا، اس لیے کچھ ہی عرصے میں سیاست اور دنیا داری کے تمام داؤ پیچ سیکھ گیا۔چوہدری احتشام، کہنے کو تو ایک سیاست دان تھا، مگر درپردہ ہر وہ کام کرتا تھا جس سے دولت حاصل ہو۔ وہ اپنے نام، اختیارات اور سیاسی حیثیت کو ذاتی فائدے اور اپنے طفیلیوں کو نوازنے کے لیے بھرپور استعمال کرتا تھا۔ چونکہ مرکز میں اس کی پارٹی برسرِ اقتدار تھی، اس لیے وہ دھونس دھمکی کے ذریعے ذمہ دار افسران کو خاموش کروا لیتا اور بیرونِ ملک سے قیمتی اشیاء ناجائز ذرائع سے منگوا کر ملکی منڈیوں میں بیچ دیتا، یوں بے پناہ منافع کماتا۔ 

شہر کے مختلف محکموں کے اہم افسران کو بھی اس نے شاطرانہ طریقوں سے اپنے قابو میں کر رکھا تھا۔ اپنے صوابدیدی اختیارات اور سرکاری فنڈز کی بندر بانٹ بھی جاری تھی۔بابر آہستہ آہستہ ان تمام سرگرمیوں سے واقف ہوتا جا رہا تھا۔ وہ سیاست دانوں کی شعبدہ بازیوں اور سرکاری مشینری پر ان کی اثراندازیوں کا قریب سے مشاہدہ کر رہا تھا۔ کل تک وہ ایک بے بس، غریب نوجوان تھا، لیکن اب اس کے پاس پیسہ تھا، ایک مقام تھا اور چوہدری احتشام جیسے بااثر شخص کا سیکرٹری ہونے کا بھرم بھی۔ چونکہ اسے بھی اس نظام سے فائدہ پہنچ رہا تھا، اس لیے سب کچھ جانتے بوجھتے ہوئے بھی خاموش تھا۔البتہ ایک بات اسے ہمیشہ کھٹکتی تھی: چوہدری احتشام کے پاس وقتاً فوقتاً کچھ پراسرار غیر ملکی یا اجنبی لوگ آتے تھے، جن سے وہ مکمل تنہائی میں ملاقات کرتا۔ کئی بار ایسا ہوا کہ بابر کسی ضروری کام سے کمرے میں چلا گیا، مگر چوہدری اسے دیکھ کر فوراً چپ ہو جاتا۔ اگرچہ بابر کو ان ملاقاتوں سے براہِ راست کوئی تعلق نہیں تھا، مگر تجسس ضرور پیدا ہوتا۔ 

کافی عرصہ گزر گیا، لیکن وہ یہ راز نہ سمجھ سکا کہ وہ لوگ کون تھے اور ان کی چوہدری احتشام سے کیا نوعیت تھی۔ادھر ملک کے سیاسی اور معاشی حالات شدید ابتری کا شکار تھے۔ بدامنی، مہنگائی، ناانصافی اور سیاسی اشرافیہ کی بے حسی سے عوام کی زندگی اجیرن ہو چکی تھی۔ ہر روز جلسے، جلوس، احتجاج اور ہڑتالوں کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ جاری تھا۔ پورے ملک میں بے چینی، اضطراب اور انارکی کا ماحول پھیل چکا تھا۔ ایسے نازک وقت میں مرکزی حکومت نے اس صوبے میں ایک ایسا قانون نافذ کر دیا، جسے صوبے کی اکثریت ناجائز اور ظالمانہ سمجھتی تھی۔ اس موقع کو اپوزیشن جماعتوں نے عوامی حمایت حاصل کرنے کے لیے استعمال کیا، اور پھر کیا تھا۔ پورا صوبہ سراپا احتجاج بن گیا۔ تمام مکاتبِ فکر سے تعلق رکھنے والے افراد نے مل کر ایک مشترکہ تنظیم بنائی، جس کا نام “تحفظِ معاہداتِ باہمی پارٹی” رکھا گیا۔ انہوں نے متفقہ طور پر ایک دن طے کیا اور فیصلہ کیا کہ مرکزی چوک میں ایک بڑا عوامی جلسہ منعقد کیا جائے گا تاکہ حکومت کے خلاف اپنی آواز بلند کی جا سکے۔ تمام سیاسی اور مذہبی جماعتیں اس تحریک میں سرگرم ہو گئیں۔

چوہدری احتشام نے بھی کھل کر عوامی حقوق کی حمایت کا اعلان کیا۔ جلسے سے دو روز قبل، حسبِ معمول، وہی پراسرار اجنبی اس کے پاس دوبارہ آئے۔ اس وقت بابر بھی چوہدری احتشام کے ساتھ کمرے میں موجود تھا۔ چوہدری نے ایک اشارے سے اسے باہر جانے کو کہا۔ بابر خاموشی سے کمرے سے نکل آیا۔ وہ اجنبی کافی دیر تک اندر موجود رہے۔ ان کے جانے کے بعد چوہدری نے بابر کو بلایا اور کہا، بابر! پرسوں عوامی جلسہ ہو رہا ہے، شاید تیاریاں مکمل ہو چکی ہیں۔جی ہاں، چوہدری صاحب! تاریخ میں شاید پہلی مرتبہ یہاں کے لوگ کسی بڑے مقصد کے لیے اکٹھے ہو رہے ہیں۔ اس جلسے کے بعد اس خطے کی تقدیر بدل جائے گی۔ بابر کے پُرامید لہجے پر چوہدری احتشام نے ہلکا سا قہقہہ لگایا اور بولا، بہت خوب! میرے ساتھ رہتے ہوئے تمہیں بھی سیاسی ڈائیلاگ بولنے آ گئے ہیں، مگر یاد رکھو، سیاست کو سمجھنا اتنا آسان نہیں۔ یہ کہتے ہوئے وہ اپنی کرسی سے اٹھا، آہستہ آہستہ چلتا ہوا کھڑکی کی طرف گیا جو لان کی سمت کھلتی تھی۔ باہر نظر دوڑاتے ہوئے، اس نے دھیرے لہجے میں کہا، تم کہہ رہے ہو کہ کل کا جلسہ کامیاب ہوگا، لوگ متحد ہو کر اپنا مقصد حاصل کریں گے، مگر… میں نہیں چاہتا کہ یہ جلسہ کامیاب ہو، نہ ہی یہ کہ لوگ متحد ہوں۔ 

بابر بری طرح چونک گیا۔ اس نے حیرانی سے پوچھا، کیا مطلب سر؟ آپ ایسا کیوں نہیں چاہتے؟ چوہدری نے قیمتی نیلے رنگ کی سگریٹ نکالی، سلگائی اور گہرا کش لے کر ٹھہرے ہوئے لہجے میں بولا، بابر، تم ابھی سیاست کی دنیا میں کچے ہو۔ تمہیں معلوم نہیں کہ یہاں کی سیاست میں کیسی کیسی شعبدہ بازیاں ہوتی ہیں۔ بظاہر ہم جیسے سیاست دان بولتے ہیں، فیصلے کرتے ہیں، مگر پسِ پردہ کچھ ایسے طاقتور، بااختیار اور خفیہ ہاتھ ہوتے ہیں جو اصل کھیل چلا رہے ہوتے ہیں۔ ہماری ڈوریاں انہی کے ہاتھوں میں ہوتی ہیں۔ اس نے ایک لمحے کو توقف کیا، پھر دھواں خارج کرتے ہوئے گویا ہوا، ایسے ہی ایک خفیہ ہاتھ نے اشارہ کیا ہے کہ یہ جلسہ کامیاب نہیں ہونا چاہیے۔ مقصد یہ ہے کہ یہ قوم ہمیشہ کی طرح منتشر، الجھی اور منقسم رہے تاکہ وہ خفیہ قوتیں اپنے مفادات حاصل کرتی رہیں۔ اور یہ ’ٹاسک‘ مجھے سونپا گیا ہے۔

 بابر خاموشی سے سنتا رہا، مگر وہ بچہ نہیں تھا۔ وسیع مطالعے اور مشاہدے نے اسے اتنی سمجھ دے دی تھی کہ وہ جانتا تھا تیسری دنیا کے اکثر ممالک عالمی سیاست کے شاطر کھلاڑیوں کے ہاتھوں مہرے بنے ہوتے ہیں۔ یہ طاقتیں سامنے نہیں آتیں، ان کا وجود خفیہ رہتا ہے، مگر ان کی موجودگی اور اثرات ہر جگہ محسوس کیے جا سکتے ہیں۔ کون نہیں جانتا کہ مخالفت کی صورت میں کسی کا طیارہ “حادثاتی” طور پر گر جاتا ہے، کسی کو جلا وطن کر دیا جاتا ہے، اور کوئی عدالتی فیصلوں کے ذریعے نااہل قرار پاتا ہے۔اس کے علاوہ، ان ممالک کے اکثر حکمران خود بھی بدعنوان، مفاد پرست اور اقتدار کے بھوکے ہوتے ہیں۔ 

بابر نے گہری نظروں سے چوہدری کو دیکھا اور محتاط لہجے میں پوچھا، ہمیں کیا کرنا ہو گا سر؟ آپ کے ذہن میں کوئی منصوبہ ہے؟ چوہدری احتشام آہستگی سے پلٹا، اس کے سامنے آ کر کھڑا ہوا، ایک اور کش لیا اور دھوئیں کے مرغولے فضا میں چھوڑتے ہوئے بولا، پرسوں کا جلسہ اس علاقے میں اتفاق و اتحاد کا زبردست مظاہرہ ہوگا۔ اور ہم نے یہ اتحاد توڑنا ہے۔ اس کی بہترین صورت یہ ہے کہ فرقہ وارانہ فسادات کی آگ بھڑکا دی جائے، تاکہ جلسہ منعقد ہونے کی نوبت ہی نہ آئے۔ ایسا ہی ہوگا، چوہدری صاحب! آپ حکم کریں، ہمیں کیا کرنا ہوگا؟ بابر نے بغیر کسی تذبذب کے جواب دیا۔ چوہدری احتشام مسکرا کر بولا، آج رات تم کچھ نوجوانوں کو ساتھ لے کر شہر کی مختلف دیواروں پر ایسے پوسٹرز لگا دو، جن میں مخالف فرقے کی مذہبی اور سیاسی سرگرمیوں پر اعتراضات ہوں۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ شوشہ بھی چھوڑنا ہے کہ حکومت، شہر کے اکثریتی فرقے کے مفادات کا استحصال کر رہی ہے اور بیرونی دباؤ کے تحت اُس فرقے کو نوازا جا رہا ہے جس کی مذہبی اور سیاسی سرگرمیاں ابتدا سے ہی مشکوک رہی ہیں۔ اور جن کا کردار، قوم و ملک کے وسیع تر مفادات سے سراسر متصادم ہے۔

 وہ تھوڑا سا جھکا، میز پر رکھے نقشے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بولا، کل جمعہ ہے۔ تم جانتے ہو، یہ دن مذہبی جماعتوں کے لیے خاص اہمیت رکھتا ہے، ایک ایسا دن جب ان کا خطیبانہ لہجہ عوام کے جذبات کو چنگاری بنا دیتا ہے۔ اسی دن ہماری دوسری ٹیم مخالف فرقے کے سرکردہ افراد کے پاس جائے گی اور انہی پوسٹرز کا حوالہ دے کر ان کے جذبات کو بھڑکائے گی۔ ان کا مذہبی جنون ہمارے کام آئے گا۔ اس نے سگریٹ کا ایک اور کش لیا، دھواں فضا میں چھوڑتے ہوئے، ٹھہرے ہوئے مگر خطرناک لہجے میں بولا، پھر جمعے کی نماز کے بعد، وہ سڑکوں پر نکل آئیں گے۔ پوسٹر لگانے والوں کی آڑ میں مخالف فرقے پر حملے ہوں گے، اشتعال پھیلے گا، دکانیں جلیں گی، پتھراؤ ہوگا، اور یوں جلسے کی فضا مکمل طور پر خراب ہو جائے گی۔ نہ صرف جلسہ رُک جائے گا، بلکہ اگلے کئی ہفتے خوف، انتشار اور افراتفری میں گزریں گے۔ 

بابر خاموشی سے سب کچھ سن رہا تھا۔ اس کی آنکھوں میں ہلکی سی چمک اور دل میں ایک انجانی ہلچل تھی۔ اب وہ اس نظام کا حصہ بن چکا تھا، جو پچھلے دنوں تک اسے دیمک کی طرح کھا رہا تھا۔ اب وہ خود اسی دیمک کی ایک شاخ بنتا جا رہا تھا۔ایک طرح سے دونوں طرف سے ماحول گرم ہو جائے گا۔ ہم اسی آتش‌ناک ماحول میں اپنی سازش کے تانے بانے بُنتے جائیں گے۔ جمعے کی رات تم میرے چند خاص کارندوں کو لے کر مخالف مسلک کے ایک بڑے عالم کو قتل کرو گے۔ دونوں فرقے والے ویسے بھی ایک دوسرے کو الزام لگانے کے لیے تیار بیٹھے ہیں۔ ہمارے سوشل میڈیا کے ماہرین اس قتل کو فوری طور پر مخالف فرقے کے کھاتے میں ڈال دیں گے، اور یوں ایک آدھ دن میں پورا شہر میدان جنگ بن جائے گا۔ دونوں آپس میں الجھ پڑیں گے، شہر میں قتل و غارت گری کی وارداتیں ہوں گی اور ہمارا منصوبہ کامیاب ہو جائے گا۔