براہ مہربانی پلے کا بٹن ضرور دبائیں۔ آپ کے تعاون کا بہت بہت شکریہ
👇👇
پلان کے مطابق کام ہوا تو دونوں ٹیموں کو پچاس پچاس لاکھ روپے ملیں گے۔ بابر کے دماغ میں طوفان اٹھنے لگے۔ چوہدری کے فتنے بھرے دماغ کی منصوبہ بندی اسے کانپنے پر مجبور کر رہی تھی، مگر اس نے خود کو قابو میں رکھتے ہوئے توجہ سے باتیں سننا جاری رکھا۔ چوہدری نے اپنے خاص کارندوں کو بھی بلا لیا تھا اور اب سب مل کر اس منصوبے کو ناکام بنانے کے لیے نہیں بلکہ نو پروف بنانے پر غور کر رہے تھے۔ یہ میٹنگ کئی گھنٹوں تک جاری رہی۔ چوہدری کی اس سازش کی تفصیلات سن کر بابر تو بظاہر میٹنگ میں شامل رہا اور ان کی باتوں میں ہاں میں ہاں ملاتا رہا، مگر اندرونِ دل ایک اور جنگ چھڑی ہوئی تھی۔
یہ جنگ اس کے ضمیر اور دولت کے لالچ کے درمیان جاری تھی۔ اس کا ضمیر ملک و قوم کے خلاف اس بھیانک سازش پر سراپا احتجاج تھا، جبکہ دوسری طرف پیسوں کی چمک دمک اس کے ارادوں کو ڈگمگا رہی تھی۔ کئی دیر تک سوچ بچار کے بعد اس نے ایک اہم فیصلہ کیا اور وہ فوری طور پر وہاں سے باہر نکل آیا۔ بازار میں گھومتے ہوئے وہ ہر طرف محتاط نگاہوں سے دیکھتا رہا کہ کہیں چوہدری کے لوگ اس کا پیچھا تو نہیں کر رہے، پھر مطمئن ہو کر وہ تیزی سے ایک طرف بڑھ گیا۔ تھوڑی دیر بعد وہ شہر کے پولیس اسٹیشن پہنچا اور تھانہ انچارج سے تنہائی میں ملاقات کی درخواست کی۔ جب وہ انچارج کے سامنے اپنی بات رکھ رہا تھا، تو ہانیدار بڑی سنجیدگی سے اس کی بات سن رہا تھا، گہری اور متجسس نظروں سے بابر کو دیکھتا رہا۔ جب بابر نے بات ختم کی تو انچارج اٹھ کر کمرے سے باہر گیا۔
بابر نے کھڑکی سے باہر دیکھا تو انچارج موبائل پر کسی سے بات کر رہا تھا۔ کچھ دیر بعد وہ واپس آیا، کرسی پر بیٹھتے ہوئے پوچھا، تم نے یہ بات کسی اور کو نہیں بتائی نا؟ نہیں، میں سیدھا آپ کے پاس آیا ہوں، بابر نے جواب دیا، “میں دولت حاصل کرنے کی خاطر غلط راستے پر چل پڑا تھا، مگر اتنا بے غیرت نہیں کہ اپنی قوم اور وطن سے غداری کروں۔ انسپکٹر نے کہا، تمہارے جذبے پر مجھے فخر ہے۔ ہمارے نوجوانوں کو ایسے ہی ہونا چاہیے۔ ابھی میں نے اپنے بڑوں کو بلا لیا ہے، یہ معاملہ
وہی سنبھالیں گے۔ تب تک تم چائے پی لو۔
باہر ابھی چائے پی کر فارغ ہوا تھا کہ تھانے کے باہر گاڑیوں کے رکنے اور قدموں کی آوازیں سنائی دیں، وہ متجسس نظروں سے آنے والوں کو دیکھ رہا تھا کہ اچانک حیرت اور خوف سے اچھل پڑا کیونکہ اسے چوہدری احتشام نظر آیا جس کے چہرے پر غصے کی سرخی تھی، اس کے دائیں بائیں بہت سے جوان ہتھیار بدست کھڑے تھے، چوہدری احتشام آندھی طوفان کی طرح تھانیدار کے کمرے میں داخل ہوا اور اس کے خاص کارندے بھی کمرے میں آ گئے، تب انسپکٹر نے دروازہ بند کر دیا، بابر متوحش نظروں سے اسے اور تھانیدار کو دیکھ رہا تھا۔
چوہدری احتشام غصے سے لرزتے ہوئے بولا کہ کمینے نمک حرام، تجھے پہچاننے میں مجھے شدید غلط فہمی ہوئی، مجھے معلوم نہیں تھا کہ تم آستین کا سانپ ہو گے، اگر انسپکٹر صاحب کے بجائے کوئی اور یہاں کا ہانیدار ہوتا تو میرا کباڑا ہو گیا ہوتا، بابر نے چونک کر بے یقینی سے انسپکٹر کی طرف دیکھا جو بڑے زہریلے انداز میں مسکرا رہا تھا، بابر کو سمجھنے میں دشواری نہ ہوئی کہ انسپکٹر بھی دولت کے پجاریوں اور موت کے سوداگروں کا آلہ کار تھا، اس نے زہرخند لہجے میں کہا کہ تمہیں ڈوب مرنا چاہیے، یہ جو تم نے وردی پہن رکھی ہے، عوام کے جان و مال کی حفاظت کی جو قسم کھائی ہے اس کے بعد ان موت کے سوداگروں اور وطن دشمن عناصر کا ساتھ دیتے ہوئے تمہیں ذرا بھی غیرت نہیں آتی۔
تھانیدار نے قہقہہ لگایا اور بولا فلمی ڈائیلاگ مت بولو، تم جیسے احمق اپنی جذباتی سوچ کے ساتھ ہر دور میں مارے جاتے ہیں، تم بھی اپنے انجام کو پہنچ جاؤ گے، چوہدری احتشام گرج کر بولا کہ انسپکٹر، اس کمینے کے ساتھ جو بھی سلوک کرنا ہے وہ تم بعد میں کرنا، پہلے مجھے اپنی بھڑاس نکالنے دو، میرا ہی کہتا تھا مجھ پر ہی بھونکنے لگا تھا، اسے تھوڑی سزا میں بھی دے دیتا ہوں، چوہدری کے اشارے پر اس کے دو خاص کارندوں نے اسے باہر کو پکڑا، پھر چوہدری نے بیلٹ لے کر اسے مارنا شروع کیا، باہر درد کی شدت سے چیختے ہوئے وہ مچل مچل کر ان کی گرفت سے خود کو چھڑانے کی کوشش کرنے لگا مگر کامیابی نہ ہوئی، کچھ دیر بعد چوہدری نے تھک کر مارنا بند کیا، تب تک بابر بے ہوش ہو گیا تھا۔
انسپکٹر نے کہا کہ یہ کتا اب ہمارے لیے خطرناک ہو گیا ہے اور کتا جب باؤلا ہو جائے تو اس کا علاج صرف موت ہے، اس کا بھی قصہ صاف کر دو اور ہاں یہ بات یہاں سے باہر نہیں جانی چاہیے، چوہدری احتشام ہانپتے ہوئے بولا، انسپکٹر نے کہا کہ مجھے معاملے کی نزاکت کا احساس ہے، چوہدری صاحب آپ بے فکر ہو کر جائیں، تھانے میں آ کر بڑے بڑے تیس مار خاں سیدھے ہو جاتے ہیں، یہ کیا چیز ہے، پہلے میں اس سے کچھ پوچھ گچھ کر لوں، کہیں اتنی اہم بات کسی اور کے آگے نہ بک دی ہو، اس کے بعد وہی ہو گا جو آپ کا حکم ہے، اب اس کا انجام موت ہی ہے، چوہدری اپنے خاص کارندوں کے ساتھ چلا گیا۔
انسپکٹر نے اپنے ہم راز چند اہلکاروں کو بلایا، وہ اس کے حکم پر بابر کو تفتیشی کمرے میں لے گئے اور مخصوص تفتیشی طریقے سے تشدد کرنے لگے، انسپکٹر اس سے پوچھتا رہا کہ چوہدری احتشام نے جو منصوبہ بتایا تھا کیا اسے کسی اور کو بتایا ہے، بابر چیختا چلاتا رہا، درد کی شدت سے بار بار بے ہوش ہوتا رہا، بڑی دیر بعد جب وہ تقریباً ادھ موا ہو چکا تھا تب اسے پھر سے گھسیٹ کر ایک تنگ و تاریک کوٹھری میں پھینک دیا گیا۔ رات نہ جانے کتنی بیت گئی تھی۔
وہ ماضی کے زندان میں بھٹک بھٹک کر پھر حال کے اندھیرے میں آیا تھا۔ کال کوٹھری میں درد سے بے حال وہ سوچ رہا تھا کہ ایک اندھیرا دھوپ ڈھلنے کے بعد ہوتا ہے اور ایک اندھیرا نظام کا ہوتا ہے، یعنی اندھیر نگری شب کے اندھیرے میں انسان آرام کرتا ہے، لیکن اندھیر نگری میں آرام نہیں، کہرام مچ جاتا ہے۔ شب کے اندھیرے میں ایک نئی صبح کی امید روشن ہو جاتی ہے جبکہ اندھیر نگری میں امیدیں مر جاتی ہیں۔ وہ کال کوٹھری کے گھپ اندھیرے میں اسی طرح لیٹا، آگے کے بارے میں سوچتا رہا۔ یہ سوچ کر بھی وہ اندر سے لرز جاتا کہ چوہدری نے اپنے آقاؤں سے مل کر فرقہ وارانہ فسادات کا جو زہریلا منصوبہ بنایا تھا، اگر وہ کامیاب ہوا تو نہ جانے شہر کے حالات کیا ہوں گے۔
اچانک وہ چونک اٹھا، کال کوٹھری کا دروازہ کھلنے کی آواز سنائی دی۔ آنے والے سیاہ پوش تھے، انہوں نے اسے گھسیٹتے ہوئے انسپکٹر کے سامنے لے آئے، جہاں ایک پر اسرار اجنبی بھی موجود تھا۔ بابر کو دیوار کے ساتھ کھڑا کیا گیا، وہ اتنی کمزوری محسوس کر رہا تھا کہ کھڑا رہنا ممکن نہ تھا، لڑکھڑایا اور فرش پر گر گیا مگر کوئی اسے اٹھانے نہ آیا۔ پھر اسے انسپکٹر کی آواز سنائی دی کہ ہم نے اس پر زبردست تشدد کیا ہے، اتنی مار کھا کے بھی اگر زبان بند نہ رکھی تو اس کا آخری علاج انکاؤنٹر ہے۔ معاملہ بہت حساس ہے، ذرا سی غفلت بھی خطرناک ہو سکتی ہے، بات باہر جانے کا خدشہ ہے اس لیے ہم اسے خود ٹھکانے لگا دیں گے۔
باہر کانوں میں پر اسرار اجنبی کی آواز پڑی، پھر اس نے اپنے بیگ سے ایک سرنج نکالی اور شیشی سے سرخ محلول بھر کر بابر کے بازو میں لگا دیا۔ بابر خوف زدہ نظروں سے اسے دیکھنے لگا، وہ سمجھا کہ بس یہی اس کا آخری وقت ہے، آنکھیں بند کر کے اللہ کو یاد کرنے لگا۔ دو کارندوں نے اسے پکڑا ہوا تھا، بابر مزاحمت کرنے لگا مگر کمزوری کی وجہ سے طاقت نہ تھی۔ اچانک بازو میں سوئی چبھنے کی تکلیف ہوئی، وہ بے دم سا ہو کر فرش پر گر گیا۔ کچھ ہی دیر میں اس پر غنودگی چھانے لگی، پھر اس کا احساس ختم ہو گیا اور شاید وہ مر بھی گیا تھا-
شہر کی فضاؤں میں اچانک تلخیاں گھل گئی تھیں، جیسے پر سکون جھیل میں اچانک پتھر گر گیا ہو۔ ایک پرسکون ماحول میں آناً فاناً خوف، وہراس، بے یقینی اور بدگمانیوں کے اندھیرے چھا گئے تھے۔ شہر کے لوگ بڑے جوش و خروش سے اُس جلسے کے منتظر تھے جس میں ساری سیاسی اور علاقائی تنظیمیں اپنے حقوق کے لیے اکٹھی ہو کر آواز بلند کرنے والی تھیں، لیکن ان کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ پس پردہ کچھ سازشوں کے تانے بانے بن رہے تھے۔
اگلے دن جمعے کے اجتماعات سے پہلے ان پوسٹروں اور پمفلٹوں کی عبارت اور فتنہ انگیزی کے اثرات پھیلنا شروع ہو گئے۔ گلی کوچوں، سڑکوں، بازاروں اور دفتروں میں ان پر بحث و مباحثہ شروع ہو گیا تھا۔ کہیں غم و غصے کا اظہار کیا جا رہا تھا تو کہیں خوف اور اندیشے کا ماحول بنا ہوا تھا۔ حسب توقع جمعے کی نماز کے وقت مخالف فرقے کی مرکزی جامع مسجد کے خطیب نے اپنی تقریر میں دھواں دار جواب دیا۔ ان کی شعلہ بیانی سے اہل ایمان کا خون گرم ہو گیا۔ انہوں نے بلا تکلف ان پوسٹروں کو مخالف فرقے کے کھاتے میں ڈال دیا اور اپنے ساتھ ہونے والی ناانصافیوں، محرومیوں اور مخالف فرقے کی زیادتیوں کو ایسے پُر جوش انداز میں بیان کیا کہ سادہ دل اور جذباتی نمازیوں نے مسجد کے پاکیزہ ماحول کو گویا سیاسی جلسہ گاہ بنا دیا۔
نماز کے فوراً بعد ہزاروں افراد بڑی سڑک پر احتجاج کے لیے جمع ہو گئے۔ ان میں سے اکثر کو صحیح طور پر علم بھی نہ تھا کہ اس احتجاجی جلسے اور دھرنے کا مقصد کیا تھا، بس اتنا جانتے تھے کہ ان کے مذہبی لیڈر نے ایسا کرنے کا حکم دیا ہے۔ وہ نہیں جانتے تھے کہ جس عالم نے ان کا لہو گرم کیا تھا، وہ درحقیقت ایمانی غیرت اور مجاہدانہ جرات کا ڈھول پیٹتے ہوئے بھی کسی اور کا کٹھ پتلی تھا۔ اس نے جو ذمہ داری ملی تھی، وہ نبھائی تھی اور اب ہمیشہ کے لیے سادہ لوح اور بے خبر عوام ہنگامہ آرائی، انتشار، قتل و غارت، نعرے بازی اور نفرت کے ماحول کا حصہ بن گئے تھے۔
اسی رات شہر کی ایک سنسان اور تاریک سڑک پر ایک افسوسناک واقعہ پیش آیا۔ مخالف فرقے کی ایک مذہبی جماعت کا سرگرم رہنما موٹر سائیکل پر شہر کی سنسان سڑک سے گزر رہا تھا کہ اندھیری رات میں چھپے کچھ بے شناخت دہشت گردوں نے اس پر فائرنگ کی اور وہ موقع پر ہی جاں بحق ہو گیا۔ واردات کے فوراً بعد سوشل میڈیا پر شدید ہنگامہ مچ گیا۔ مقتول کے حامیوں اور ہم مسلکوں نے اسے دن کے احتجاجی دھرنے سے جوڑ دیا اور چوبیس گھنٹوں کے اندر قاتلوں کی گرفتاری کا مطالبہ کیا، ورنہ خود انتقام لینے کی دھمکیاں دی گئیں۔ شہر کی پرسکون فضا اچانک مسموم ہو گئی، بدامنی، خوف اور عدم تحفظ نے پورے شہر کو گھیر لیا تھا۔