براہ مہربانی پلے کا بٹن ضرور دبائیں۔ آپ کے تعاون کا بہت بہت شکریہ
👇👇
دوسری طرف خفیہ ہاتھ کا خاص نمائندہ بولا کہ بہت خوب! ہمیں آپ سے ایسی ہی امید تھی چوہدری صاحب۔ چوہدری نے جواب دیا کہ جناب عالی، میں آپ کی ہدایات کے مطابق مہرے چلا رہا ہوں، مگر مجھے اندیشہ ہے کہ حالات اس طرح نہ بگڑ جائیں کہ بساط ہی لپیٹ دی جائے۔ ہماری منشا کے مطابق حالات نے کروٹ نہ بدلی تو حکمت عملی کیا ہوگی؟ نمائندے نے کہا کہ پہلے بھی بتایا ہے، آئندہ کے بارے میں ٹینشن نہ لیں، ہم نے ساری پلاننگ کرلی ہے، آپ سے جو کہا جا رہا ہے وہی کریں، خراب حالات کو اپنی حق میں کرنے کی حکمت عملی ہم خوب جانتے ہیں۔ چوہدری نے پھر کہا کہ جناب عالی، مجھے تسلی کرائیں، آگے کیا ہوگا؟ قتل و خون کا یہ سلسلہ کب تک جاری رہے گا؟ جواب ملا کہ فی الحال امن کو بھول جائیں چوہدری صاحب، ابھی تو آتش فشاں پھٹے گا، ابھی تو کہرام بچے گا، ابھی تو شہر کے لوگ مذہبی جنون اور بدلے کے خون میں لت پت رہیں گے، ابھی تو قانون نافذ کرنے والے اداروں کی بے بسی اور بے چارگی کے تماشے ہوں گے، ابھی کچھ عرصے کے لیے سیاست اور مذہب کے خداؤں کی فرعونی سازشوں کی قیامت خیزی ہو گی۔
شہر کی فضا بڑی کشیدہ ہو گئی تھی۔ جلسے جلوس اور دھرنوں سے گزر کر قتل و خون تک نوبت پہنچ گئی تھی۔ ایک فرقے کا نوجوان مذہبی رہنما رات کی تاریکی میں قتل ہو گیا۔ مقتول کے لواحقین اور حامیوں نے چوبیس گھنٹے کے اندر قاتل کی گرفتاری کا مطالبہ کیا، ورنہ سخت اقدام کرنے کی دھمکی دے دی۔ اسی رات خونی کھیل کا دوسرا پہلو سامنے آیا۔ مخالف فرقے کے دو نوجوانوں کو نامعلوم افراد نے فائرنگ کرکے قتل کر دیا۔ اس کے بعد حالات سخت خراب ہو گئے۔ کئی جگہوں پر فائرنگ کے ذریعے ایک دوسرے پر حملے ہوئے اور راہ چلتے بے گناہ لوگ اس کی لپیٹ میں آگئے۔
تین چار دن تک شہر میدان جنگ کا منظر پیش کرتا رہا۔ پولیس اور رینجرز اس سارے کشت و خون کو روکنے میں سراسر ناکام رہے۔ چند دن پہلے جو عوام اکٹھے ہو کر اپنے حقوق کی بات کر رہے تھے اور بڑے جلسے کے ذریعے اپنے مطالبات منوانے کا خواب دیکھ رہے تھے، اب وہ ایک دوسرے کے جان و مال کے دشمن بن چکے تھے۔ جب حالات قابو سے باہر ہوئے تو کرفیو نافذ کر دیا گیا۔ پولیس اور رینجرز کے علاوہ فوج کی بھاری تعداد نے علاقے کو گھیرے میں لے کر شر پسند عناصر کو پکڑنے کے لیے سرچ آپریشن شروع کیا۔ جلد ہی ایسے فتنہ انگیز عناصر گرفت میں آئے کہ دیکھنے اور سننے والے ششدر رہ گئے۔
***
وہ مرا نہیں، زندہ تھا۔ جب اسے ہوش آیا تو خود کو ایک چھوٹے سے کمرے کے پکے فرش پر پایا۔ چند لمحوں تک اسے سمجھ نہیں آیا کہ وہ کہاں ہے اور کیوں ہے؟ پھر دھیرے دھیرے دماغ کی اسکرین روشن ہوئی اور گزرے ہوئے حالات یاد آنے لگے۔ اس نے سر گھما کر ادھر ادھر دیکھا، یہ اس کمرے کا دروازہ نہیں تھا۔ دائیں طرف چند سیڑھیاں اوپر کی طرف جارہی تھیں جن کے اختتام پر ایک چھوٹی سی کھڑکی بنی ہوئی تھی۔
بابر سمجھ گیا کہ وہ کسی تہ خانے میں تھا۔ چھت سے زیر و پاور کا بلب لٹک رہا تھا۔ وہ اس نیم روشن کمرے میں اپنے حالات کے بارے میں سوچتا رہا۔ اس کے ماں باپ، بھائی بہنیں سب اس کے بارے میں پریشان ہوں گے۔ خدا جانے اب کبھی انہیں دیکھ بھی سکے گا کہ نہیں؟ بہت دیر بعد تہ خانے کی وہ کھڑکی کھلنے کی آواز آئی۔ اس نے کمزور روشنی میں دیکھا تو کھڑکی کے پاس زمین پر اسے ایک شخص دکھائی دیا، جس کے ایک ہاتھ میں رائفل اور دوسرے میں کھانا تھا۔
وہ نزدیک آ کر خاموشی سے کھانا بابر کے سامنے رکھ گیا۔ بابر نے پوچھا، میں کہاں ہوں؟ کیا تم چوہدری صاحب سے میری بات کروا سکتے ہو؟ وہ شخص سپاٹ لہجے میں بولا، چوہدری صاحب دارالحکومت گئے ہیں، ملک کے سیاسی حالات ٹھیک نہیں، فی الحال ان سے بات کرنا ممکن نہیں۔ اب یہ تہ خانہ ہی تمہارا مقدر ہے، یہی تمہاری دنیا ہے۔ جب تمہیں گولی مارنے کا حکم ہو گا تبھی یہاں سے نکل سکو گے۔ بابر نے فریادی لہجے میں کہا، خدا کے لیے اتنا بتا دو کہ شہر کے حالات کیسے ہیں؟ وہ شخص طنز سے بولا، حالات کا کیا ہے؟ ابھی ٹھیک ہیں تو خراب ہونے میں کیا دیر لگتی ہے؟ تم کیا سمجھتے ہو اگر ساتھ نہیں دو گے تو اور بندے نہیں ملیں گے؟ باہر وہی ہو رہا ہے جس کی پلاننگ کی گئی تھی۔
بےوقوف! تم بری طرح پھنس گئے ہو، ہاتھ آیا پیسہ بھی گیا اور اب جان سے بھی جاؤ گے۔ یہ کہہ کر وہ شخص چلا گیا۔ اب باہر کے شب و روز تہ خانے میں بسر ہونے لگے۔ دن گزرتے رہے، ہتھیار بردار محافظ اسے کھانا لا کر دیتے۔ وہ شہر کے حالات جاننے کے لیے بےتاب تھا مگر وہ لوگ اس کی کسی بات کا جواب نہیں دیتے تھے۔ یوں ہی کئی دن گزر گئے۔
ایک رات اسے کسی گڑ بڑ کا احساس ہوا۔ تہ خانے کی چھت بہت سے قدموں کی دھمک سے لرز رہی تھی۔ وہ کچھ سمجھنے کی کوشش کرتا ہوا ایک طرف ڈیک کر بیٹھ گیا۔ یکایک کہیں سے گولیاں چلنے کی آوازیں سنائی دینے لگیں۔ کچھ دیر بعد تہ خانے کی کھڑکی زور زور سے بجنے لگی، کوئی ٹھوکریں مار رہا تھا، پھر پر شور دھماکے سے کھڑکی کھل گئی۔بابر نے سہمی سہمی نظروں سے دیکھا، پھر اچانک اچھل پڑا۔ وہ پولیس اور رینجرز کے جوان تھے جو کھڑکی توڑ کر اندر داخل ہو رہے تھے۔ وہ حیرت سے اسے دیکھنے لگے، پھر پکڑ کر تہ خانے سے اوپر لے گئے۔ اوپر پہنچ کر بابر کو معلوم ہوا کہ وہ چوہدری احتشام کی شہر سے باہر والی کوٹھی میں تھا۔ وہ پہلے بھی یہاں کئی بار آ چکا تھا۔
وہاں زبردست افرا تفری تھی، پولیس اور رینجرز کے جوان مختلف جگہوں پر چوکس کھڑے تھے۔ اسے ایک بڑے پولیس افسر کے سامنے پیش کیا گیا۔ بابر کی حالت بہت خراب تھی، سر اور داڑھی کے بال بے تحاشا بڑھ چکے تھے ۔ پولیس افسر نے اسے پانی پلایا اور پوچھنے پر بابر نے بتایا کہ وہ کون ہے اور کن حالات کا شکار ہو کر اس تہ خانے میں پڑا تھا۔ پولیس افسر نے اس کی بات سن کر کچھ دیر بے یقینی اور گھورتے ہوئے دیکھا، پھر اپنے جوانوں کو حکم دیا کہ اسے پولیس انویسٹی گیشن سینٹر لے جایا جائے جہاں اس سے تفصیلی پوچھ گچھ ہوگی۔
پولیس انویسٹی گیشن سینٹر میں بابر نے سینئر افسروں کے سامنے پوری تفصیل بیان کی۔ وہاں آرمی اور انٹیلی جنس کے افسران بھی موجود تھے جنہوں نے کئی سوالات کیے۔ بابر نے کچھ بھی چھپایا نہیں، اپنا ماضی، چوہدری احتشام کا سیکریٹری بن کر جائز و ناجائز کام کرنا اور پھر ملک دشمن سازش کے خلاف بغاوت کرنا، سب کچھ کھل کر بتایا۔ وہاں اسے معلوم ہوا کہ باہر کیا ہوا تھا۔ چوہدری احتشام نے فرقہ وارانہ فسادات کا جو ناپاک منصوبہ بنایا تھا، کسی حد تک وہ کامیاب بھی ہوا تھا، مگر فوج، رینجرز اور پولیس نے شہر کے حالات کو بڑی حد تک قابو میں کر لیا تھا۔
بڑی تعداد میں گرفتاریاں ہوئیں۔ خوش قسمتی سے گرفتار لوگوں میں سے ایک نے دوران تفتیش اعتراف جرم کیا اور جب سخت پوچھ گچھ کی گئی تو اس نے چوہدری احتشام کے بارے میں ہولناک انکشافات کیے۔ سیکیورٹی اداروں کے سامنے وہ پہلے ہی مشکوک تھا، اب اس کی ملک دشمن سرگرمیوں کے بارے میں بھی اہم ثبوت سامنے آئے تھے۔ چونکہ وہ سیاست کے گندے تالاب کی بڑی مچھلیوں میں شمار ہوتا تھا، اس لیے اس کے خلاف اور بھی ثبوت اکٹھے کیے گئے۔ حساس اداروں نے بھی سیکیورٹی اداروں کا ساتھ دیا۔
چوہدری احتشام کو گرفتار کر کے پوچھ گچھ کی گئی، سارے ثبوت اور گواہوں کو اس کے سامنے پیش کیا گیا۔ اس نے بڑے ہاتھ پاؤں مارے، بڑے تعلقات کا دھونس جمایا، خطرناک نتائج کی دھمکیاں دیں، پھر دھیرے دھیرے اس کا مزاج زمین پر آ گیا۔ اس کے کئی کارندے پکڑے گئے۔ شہر کے مضافات والی کوٹھی اس کی بد اعمالیوں کا مرکز تھی۔ وہاں بھی چھاپہ مارا گیا اور اسی تہ خانے سے بابر برآمد ہوا۔تفتیشی سینٹر میں بابر نے پولیس انسپکٹر کے بارے میں بھی بتایا جو چوہدری احتشام کا گڑھ تھا۔ اسے معلوم ہوا کہ وہ پہلے ہی مشکوک افراد میں شامل تھا اور اسے بھی گرفتار کیا جا چکا تھا۔ بڑی دیر بعد بابر کو کہا گیا کہ اب آرام کرے، کچھ مزید تحقیقات اور تفتیش کے بعد اس کی رہائی کا فیصلہ کیا جائے گا۔
دن گزر گیا، رات بھی گزر گئی، اگلی صبح اسے کچھ کاغذات پر دستخط کروائے گئے اور گھر جانے کی اجازت دے دی گئی۔وہ تفتیشی سینٹر سے باہر نکلا تو ہر طرف اجلی دھوپ پھیلی ہوئی تھی، ہلکی ہلکی ہوا محو حرام تھی۔ اس نے طمانیت بھری چند گہری گہری سانسیں لیں۔ آزاد فضا نے اسے کئی دنوں کی گھٹن سے نجات دلائی۔ وہ خوش تھا، بہت خوش تھا، لیکن یہ خوشی اس بات کی نہیں تھی کہ اسے رہائی ملی تھی اور وہ موت کی دہلیز سے لوٹ آیا تھا۔ وہ اس لیے خوش تھا کہ قوم کو راہنما کے بہروپ میں ایک راہزن سے چھٹکارا ملا تھا۔ عوام کو قوم و ملک کے وسیع تر مفاد کی رٹ لگا کر جڑوں کو کھوکھلا کرنے والوں میں سے ایک کی منافقت سے نجات مل گئی تھی۔
(ختم شد)