Urdu Font Stories
بہروپیا - ایڈوانچر کہانی
قسط وار کہانیاں |
سریتا نے اپنی سفید کار کی رفتار ایک دم دھیمی کر لی جیسے کسی کو اپنی سمت آتے ہوئے دیکھا ہو۔ پھر اس نے سامنے پہاڑی کی جانب سے آتی ہوئی لڑکی کو دیکھ کر اپنا ہاتھ کھڑ کی سے باہر نکال کر فضا میں بڑی گرم جوشی سے ہلایا۔ لڑ کی بلا کی حسین تھی۔ اس کی قامت نے اس کی دل فریبی کو مزید اجاگر کر دیا تھا۔ یہ کون ہے….؟، شیکھر نے سوال کیا ..؟ وہ سریتا کے پہلو میں بیٹھا ہوا تھا۔ وجنتی … میری دوست … سریتا نے بے دلی سے بتایا۔ شیکھر کا پوچھنا اسے قدرے ناگوار لگا تھا۔ یہ ہمارےقریب ہی رہتی ہے۔ گاڑی روک لو میری گڑیا ! وہ بولا۔ کس لیے ؟ سریتا نے سوالیہ نظروں سے اسے گھورا۔ اس لیے کہ میں تمہاری دوست سے ملنا چاہوں گا۔ وہ ہنس کر بولا ۔ کیا یہ بد ذوقی اور بداخلاقی نہیں ہو گی کہ تمہاری دوست سے نہ ملوں ؟
سریتا نے اس کے چہرے کی طرف دیکھا۔ اسے شیکھر کی آنکھوں میں عجیب سی چمک محسوس ہوئی۔ سریتا کو کوئی تعجب نہیں ہوا اور نہ ہی یہ کوئی نئی بات تھی کیونکہ وہ اس کی فطرت سے بخوبی واقف تھی۔ وہ جانتی تھی کہ شیکھر خوبصورت اور پر کشش لڑکیوں کا دیوانہ ہے۔ وجنتی عام قسم کی لڑکی نہ تھی بلکہ نہایت حسین اور ہزاروں، لاکھوں میں ایک مثالی لڑکی نظر آتی تھی۔ شیکھر اس کے حسن کے سحر میں ایسا گرفتار ہوا کہ وہ لمحے بھر کے لیے دنیا ومافیہا سے بے نیاز ہو گیا۔ اس طرح کسی لڑکی کو دیکھنا بڑی عجیب اور معیوب سی بات تھی۔ جو کسی بھی طرح ایک ایسے مرد کو جو مہذب اور تعلیم یافتہ ہو، زیب نہیں دیتی تھی لیکن وہ کیا کرتی۔ دل مسوس کر رہ گئی۔ اس کے بس میں ہوتا تو شیکھر کے منہ پر ایک تھپڑ رسید کر دیتی یا پھر گاڑی کا رخ کسی اور سمت موڑ کر گزر جاتی۔ اس نے دل پر جبر کر کے وجنتی کے قریب پہنچ کر گاڑی روک لی۔ پھر سریتانے کن انکھیوں سے شیکھر کی طرف دیکھا۔ وہ مسکراتے ہوئے وجنتی کو گھور رہا تھا۔ اس کی دزدیدہ نگاہیں بڑی تیزی سے وجنتی کے شاداب وجود پر پھسل رہی تھیں جیسے کسی تراشیدہ مجسمے کا ناقدانہ جائزہ لے رہی ہوں۔
اس نے دل میں سوچا کہ وجنتی اس وقت دل میں شیکھر کے بارے میں کیا سوچ رہی ہو گی۔ پھر اسے خیال آیا کہ وجنتی کیا ہر حسین اور پر کشش عورت ایسی نگاہوں کی عادی ہو جاتی ہے۔ شیکھر کی اس حرکت سے سریتا خفت اور بے چینی محسوس کر رہی تھی۔ غصے اور نفرت سے اس کی رگوں میں خون کی گردش تیز ہو گئی تھی لیکن وہ مجبور تھی۔ شیکھر کو اس کی گستاخ نگاہوں سے روکنا اس کے بس کی بات نہیں تھی اور نہ ہی ایسے اپنے آپ پر کوئی اختیار تھا۔ وہ نہ چاہتے ہوئے بھی شیکھر کی فرمائش بلکہ حکم پر اس کے قریب گاڑی روکنے پر مجبور تھی۔ اس وقت شیکھر کے ہاتھوں میں اس کی حیثیت ایک کھلونے سے زیادہ نہیں تھی۔ سریتا نے اپنا ماضی بھول جانا چاہا تھا لیکن ماضی بھلا دینا اتنا آسان نہیں ہوتا۔ اس نے اپنا شہر چھوڑ دیا تھا جہاں اس نے اپنا بچپن اور جوانی کے بہترین دن گزارے تھے۔ لیکن ایک وقت ایسا آیا کہ سب کچھ اسے فراموش کرنا پڑا۔ اپنے بہترین، مخلص اور بے لوث دوست چھوڑ دیے۔ وہ سب کی نظروں سے دور اس پہاڑی علاقے میں چلی آئی تھی۔ یہ مقام اسے اس لیے پسند آیا تھا کہ اس کے شہر سے بہت دور تھا۔ کسی کے ذہن میں یہ بات نہیں آسکتی تھی کہ وہ یہاں آ کر رہ سکتی ہے۔ اسے کوئی تلاش کرتا ہوا یہاں آسکتا ہے۔ سوال یہ تھا کہ اسے بھلا کون اور کیوں تلاش کرے گا۔اس نے کوئی جرم تو نہیں کیا تھا۔ کسی کو دھوکا اور فریب دے کر یہاں رہائش اختیار تو نہیں کی تھی۔ یہاں اس کی ملاقات نوجوان گوپال سے ہوئی۔ گوپال کی نیک دلی اور شرافت نے اسے اپنی طرف مقناطیس کی طرح کھینچ لیا۔ اسے زندگی میں کسی مرد نے اتنا متاثر نہیں کیا تھا۔ اس کے دل پر اپنا سکہ نہیں جمایا تھا۔ آج کے ماحول میں عورت کی کوئی عزت نہیں رہی تھی۔ محبت اور دوستی کی آڑ میں فائدہ اٹھانے کی کوشش کی جاتی تھی۔
اس نے اپنی عزت و آبرو کی ہمیشہ اس طرح حفاظت کی تھی جس طرح کسی خزانے کی کی جاتی ہے۔ وہ ان لڑکیوں میں سے نہیں تھی جو محبت کے فریب میں آکر اپنا سب کچھ لٹا بیٹھتی ہیں۔ ان کی تین ملاقاتوں کا یہ نتیجہ نکلا کہ گوپال نے اس سے کہا تھا۔ سریتا ! میں اپنی زندگی میں ایک محبت کرنے والی جیون ساتھی کا خلا محسوس کر رہا ہوں۔ کیا تم اس خلا کو پُر کرنا پسند کرو گی ؟ اسے یوں لگا تھا کہ جیسے وہ کوئی سپنا دیکھ رہی ہے۔ اس نے خواب و خیال میں ؟ بھی نہیں سوچاتھا کہ اس کی ویران اور بے کیف زندگی میں چپکے سے بہار آ جائے گی۔ کچھ دنوں کے بعد وہ ہمیشہ کے لئے ایک دوسرے کے ہو گئے۔ گوپال بڑی محبت کرنے والا شوہر ثابت ہوا تھا۔ اس نے بھولے سے بھی سریتا سے اس کے ماضی کے بارے میں کوئی سوال نہیں کیا تھا۔ یہ جتنی خوشی کی بات تھی اتنی تعجب خیز بھی۔ اس کے ساتھ سریتا کی زندگی بڑی پر سکون گزر رہی تھی۔ یہ ایک ایسی شانتی تھی جو اس کی آتما کو ملی تھی جو دولت سے نہیں مل سکتی تھی۔ اس کا شوہر محبت سے بھر اخزانہ تھا جو بہت کم عورتوں کو ملتا ہے۔ وہ اپنے ماضی کے تمام نقش ایک ایک کر کے مٹادینا چاہتی تھی کہ ماضی کی یادیں انتہائی اذیت ناک ہوتی ہیں۔ لیکن نہ جانے کس طرح شیکھر اسے تلاش کرتا ہوا یہاں بھی پہنچ گیا تھا۔ ایسا ہو گا یہ بات اس کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھی۔
سریتا نے سلسلۂ کلام شروع کیا۔ وہ انہیں متعارف کرارہی تھی ۔ وجنتی ! یہ میرے کزن مسٹر شیکھر ہیں۔ کچھ دنوں کے لیے میرے ہاں آئے ہوئے ہیں۔ عشق کے معاملے میں بہت تیز ہیں، ان کے سائے سے بھی بچ کر رہنا۔ سریتا نے بظاہر مسکراتے ہوئے کہا۔ اور شیکھر … ! یہ میری پیاری سہیلی وجنتی ہے۔ بڑی بھولی بھالی ہے۔ آپ سے مل کر بڑی خوشی ہوئی مس وجنتی ! میرا خیال ہے اس ویرانے میں آپ سے متعارف ہونے کے بعد اب میر اوقت بہتر گزر جائے گا۔ شیکھر نے اس کا خوبصورت مرمریں ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیتے ہوئے کہا۔ وجنتی نے بڑی گرم جوشی سے اس سے ہاتھ ملا کر دلکش انداز میں مسکراتے ہوئے جواب دیا۔ یقینا… مسٹرشیکھر ۔ سریتا کی مشاق نگاہیں تاڑ گئی تھیں کہ شیکھر کی وجیہ شخصیت اپنا کام کر گئی ہے۔ وجنتی کو اس میں دلچسپی پیدا ہو گئی ہے۔حسین اور نوجوان لڑکیاں جلد ہی اس کی طرف متوجہ ہو جاتی تھیں۔ جب شیکھر نے اس کی طرف اپنا ہاتھ بڑھایا تو وجنتی نے بغیر کسی تذبذب کے اپنا ہاتھ اس کے ہاتھ میں دے دیا تھا۔ جبکہ وہ عموماً مردوں سے کیا لڑکیوں سے بھی کم ہاتھ ملاتی تھی۔ سریتا! تم اور گوپال کل شام مسٹر شیکھر کو لے کر میرے گھر ضرور آنا۔ میرا خیال ہے کہ ممی مسٹر شیکھر سے مل کر یقیناً خوش ہوں گی۔ وجنتی نے بڑے اشتیاق سے کہا۔ ”تم جانتی ہو کہ میری ممی کتنی سوشل ہیں۔ ضرور وجنتی ! سریتا نے دل پر جبر کر کے خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا۔ اس نے اپنے دل میں اسے کو سا۔ یہ دفع کیوں نہیں ہو رہی ہے۔ اب تک کھڑی ہوئی شیکھر پر اپنے حسن کی کرشمہ سازیوں سے اسے کیوں برسا رہی ہے۔ اسے اپنے سحر میں جکڑ لینا چاہتی ہے ۔ حرافہ کہیں کی۔ گوپال کیسے ہیں؟ وجنتی بظاہر اس سے مخاطب تھی لیکن اس کی نگاہیں بار بار شیکھر کی نگاہوں سے مل رہی تھیں۔ اسے اندازہ ہو گیا تھا کہ شیکھر اس کی مد بھری آنکھوں میں ڈوب رہا ہے۔ وہ ٹھیک ہیں۔ سریتا نے رسمی انداز سے جواب دیا تا کہ گفتگو مزید آگے نہ بڑھے۔ وجنتی ٹلنا نہیں چاہتی تھی۔ وہ ڈھیٹ بن کر کھڑی ہوئی تھی۔ کیا گوپال آج کل نیا ناول لکھ رہے ہیں؟ ہاں۔ انہوں نے ایک نیا ناول شروع کر رکھا ہے؟ سریتا نے مختصر سا جواب دیا۔ وجنتی نے بے تکلفی دکھائی اور مسکرا کے شیکھر کا بازو تھامتے ہوئے کہا۔ آپ سریتا اور گوپال کے ساتھ میرے غریب خانے پر ضرور آئیں مسٹر شیکھر ! میں انتظار کروں گی ۔
مزید پڑھیں |
پھر و جنتی نے بڑے پیار سے سریتا کا گال تھپتھپایا اور آگے بڑھ گئی۔ تو یہ حسین و جمیل لڑکی تمہاری سہیلی ہے۔ شیکھر نے سریتا کو چھیڑا۔ سریتا سنی ان سنی کر گئی۔ وہ سوچ رہی تھی کہ شیکھر کو یہاں سے کس طرح واپس بھیجا جائے۔ شیکھر کی موجودگی کسی بھی وقت اس کے لیے خطرناک ہو سکتی تھی۔ آخر اس سے رہا نہ گیا۔ اس نے بڑی صاف گوئی سے کہا۔ شیکھر ! تم یہاں سے واپس کیوں نہیں چلے جاتے …؟ بھگوان کے لیے تم جلد واپس چلے جائو۔
میں تمہارے آگے ہاتھ جوڑتی ہوں ۔ بنتی کرتی ہوں۔ میں اس کے لیے بڑی سے بڑی قیمت ادا کرنے کے لیے تیار ہوں۔لیکن میں یہاں سے کسی قیمت پر واپس نہیں جائوں گا۔ شیکھر نے ٹھوس لہجے میں کہا۔ تم مجھے یہاں سے جانے کے لیے مجبور نہیں کر سکتیں۔ ٹھیک ہے میں پھر خود گوپال کو سب کچھ بتادوں گی۔ مجھ سے یہ اذیت برداشت نہیں ہوتی ۔ وہ جھنجھلا کر بولی۔ لیکن تم اسے کیا بتائو گی ۔ کیا تم اسے میرے متعلق بتا کر اس کا دل توڑنا پسند کرو گی ؟ یقینا نہیں… بہتر ہے کہ تم میرے ساتھ یہاں سے نکل چلو۔ کیونکہ ہم دونوں ایک دوسرے سے جدا نہیں رہ سکتے ۔ بکواس مت کرو۔سریتا نے غصے سے دانت پیسے ۔ میں گوپال سے محبت کرتی ہوں۔ میں اس کے لیے جان تک دے سکتی ہوں۔ تمام لڑکیاں یہی کہتی ہیں۔ بہر حال تمہاری مرضی لیکن میں اتنا جانتا ہوں کہ تم گوپال کو کچھ نہیں بتا سکتیں اور نہ ہی مجھے واپس جانے پر مجبور کر سکتی ہو۔ میں یہیں قیام کروں گا۔ میں یہاں سے واپس نہیں جائوں گا سریتا ! میرے اور تمہارے تعلقات کتنے گہرے رہے ہیں۔ تمہیں دیکھنے کے بعد مجھے کسی اور میں دلچسپی نہیں رہی۔ نہ جانے تم نے کیا جادو کر دیا ہے۔ پتا نہیں کیا بھید ہے۔ میر ا وجود تمہارے قرب سے اتنا مانوس ہو چکا ہے کہ میں اب کسی اور سے مانوس نہیں ہو سکتا۔ تم وہ زمانہ یاد کیوں نہیں کرتیں جب ہم دونوں ایک دوسرے کے جنم جنم کے ساتھی تھے۔ وہ میں وہ بھیانک زمانہ یاد کرنا نہیں چاہتی۔ اس نے جھنجھلاتے ہوئے کہا۔ میں اپنی گزشتہ زندگی سے نفرت کرتی ہوں۔ اب مجھے وہ سب کچھ سوچ کر گھن سی آنے لگتی ہے۔ خوب! شیکھر نے ، قہقہہ لگایا۔جو لڑ کی کل تک رسوائے زمانہ سوسائٹی گرل تھی وہ آج کیسی عجیب باتیں کر رہی ہے۔ اگر تمہارے شریف اور غیرت مند شوہر کو تمہارا ماضی معلوم ہو گیا تو کیا ہو گا؟
سریتا کی خوبصورت آنکھوں میں آنسو جھلملانے لگے۔ اس نے بڑی مشکل سے خود پر قابو پاتے ہوئے کہا۔ وہ کچھ نہیں کہے گا۔ وہ مجھے معاف کر دے گا۔ وہ بہت اچھا آدمی ہے۔ سریتا نے یہ بات کہنے کو کہہ تو دی تھی لیکن اس کا دل خود مطمئن نہیں تھا۔ یہ تمہاری خام خیالی ہے ۔ جب تمہارے فرشتہ صفت شوہر کو معلوم ہو گا کہ تم کسی زمانے میں معروف ترین سوسائٹی گرل تھیں تو اس پر قیامت ٹوٹ پڑے گی … ساتھ ہی تم پر بھی۔ سریتا کے لیے گاڑی چلانا دشوار ہو گیا۔ اس نے گاڑی سڑک کے کنارے کھڑی کر دی اور اپنا چہرہ دونوں ہاتھوں میں چھپا کر سسکتی ہوئی بولی۔ لیکن میں اب بدل گئی ہوں۔ اب میں بالکل مختلف ہوں۔ میں نے اپنی گزشتہ زندگی بھلا دی ہے شیکھر ! میں یہاں بہت خوش ہوں۔ میں نے اپنی منزل پالی ہے ۔ اب میں میں شادی شدہ ہوں اور اپنے شوہر کو جان سے زیادہ عزیز رکھتی ہوں ۔ آخر تم یہ باتیں کیوں نہیں سمجھتے شیکھر ؟ تم میرا پیچھا کیوں نہیں چھوڑ دیتے۔ یہ تمہی تھے جس نے مجھے گناہ آلود زندگی کی ترغیب دی تھی۔ اب جبکہ میں اس دلدل سے نکل چکی ہوں تو مجھے بخش کیوں نہیں دیتے؟ میں نے تمہارا کیا بگاڑا ہے ؟ تم میری ہنستی کھیلتی زندگی تباہ کرنے پر کیوں تلے ہوئے ہو؟ مہربانی کر کے یہاں سے چلے جائو۔ اب تو میں تمہارا سایہ تک برداشت نہیں کر سکتی۔ مجھے میرے حال پر چھوڑ دو۔ یہ کہتے ہوئے سریتا نے ایک جھٹکے سے انجن اسٹارٹ کیا اور گاڑی انتہائی تیزی سے چکنی سڑک پر پھیلنے لگی۔ شیکھر خاموشی سے اس کے پہلو میں بیٹھا تھا۔ راستے بھر دونوں خاموش رہے۔
جب گاڑی پورچ میں جاکرر کی تو شیکھر نے ٹھہرے ٹھہرے لہجے میں سنجیدگی سے کہا۔ میں یہیں رہوں گا سریتا ! تم مجھے اتنی آسانی سے دھتکار نہیں سکتیں۔ وہ خلا میں گھورتا ہوا بڑ بڑاتارہا۔ مجھے تم سے پیار ہے۔ میں تمہیں ہر گز نہیں چھوڑ سکتا سریتا ! میں تم سے محبت کرتا ہوں۔ مجھے یہ بھی منظور ہے کہ تم بدستور گوپال کی پتنی رہو لیکن ساتھ ہی مجھ سے بھی محبت سے پیش آتی رہو۔ اب میں تمہارے سوا کسی اور کی رفاقت میں سکون محسوس نہیں کر سکتا۔ میں تمہارے قانونی پتی سے بھولے سے بھی حسد محسوس نہیں کروں گا۔ اصولاً وہی تمہارے شریر اور آتما کا قانونی مالک ہے ، لیکن میں تم سے علیحدہ نہیں رہ سکتا۔ میں اپنے دل سے مجبور ہوں۔ میں یہاں سے چلا جائوں گا لیکن تمہیں یہ و چن دینا ہو گا جب میں تمہاری ضرورت محسوس کروں تو مجھے تمہارے پاس آنے کی اجازت ہو گی۔ سریتا نے نفرت اور بے زاری سے آنکھیں موند لیں۔ وہ اس بات سے بخوبی واقف تھی کہ شیکھر کی تجویز قبول کرنے میں زبردست خطرہ ہے۔ اس طرح گوپال کسی نہ کسی دن ان کے تعلقات سے آگاہ ہو جائے گا۔ ایسی باتیں بھلا کہیں چھپتی ہیں ؟ پھر پھر کیا ہو گا؟ یہ سوچ کر ہی اسے ہول آنے لگا۔ اس نے شیکھر کی بات کا جواب دیے بغیر دروازہ کھولا اور تیزی سے دوڑتی ہوئی مکان کے عقبی دروازے میں داخل ہو گئی۔ وہ شیکھر سے دور بہت دور چلی جانا چاہتی تھی۔ اس نے ایسا کیا بھی تھا لیکن وہ شیکھر کی شیطانی نگاہ سے زیادہ دیر روپوش رہ بھی نہیں سکتی تھی۔ وہ مکان میں داخل ہو کر دیوار سے لگی اپنی اکھڑی ہوئی سانسیں درست کر رہی تھی۔ پاس ہی گوپال کا کمرہ تھا۔ وہاں سے ٹائپ رائٹر کی آواز آرہی تھی۔ گویا گو پال ابھی تک کام کر رہا تھا۔ سریتا و ہیں دیوار سے لگی کھڑی ٹائپ رائٹر کی مانوس آواز میں ڈوب گئی۔ اسے ٹائپ رائٹر کی اس کھٹ کھٹ سے والہانہ پیار تھا۔ کیونکہ یہ آواز اس کے محبوب شوہر کو پسند تھی۔ وہ جانتی تھی کہ گوپال ایک اچھا مصنف ہے اور ایک دن وہ پوری دنیا میں مشہور ہو جائے گا۔
بہت ممکن ہے اس کتاب سے اسے شہرت مل جائے جو وہ ان دنوں تخلیق کر رہا ہے۔ گو پال اس کتاب پر جتنی محنت کر رہا تھا اس سے پہلے اس نے کبھی نہیں کی تھی۔ سریتا آنکھیں بند کیے گوپال کے بارے میں سوچ رہی تھی کہ ایک دم اس کے تصور میں شیکھر کا ہیولا آگیا۔ اف شیکھر کتنا ظالم ہے۔ اس نے مجھے کتنی اذیتیں پہنچائی ہیں۔ اس نے میری زندگی ہی ختم کر دی تھی، اگر اس نے گوپال کو میرے ماضی کے متعلق بتادیا تو کیا ہو گا؟ جس دن گوپال کو میرا ماضی معلوم ہو گیا وہ یقیناً میری خوشیوں کا آخری دن ہو گا۔ وہ جانتی تھی کہ گوپال کتنے بے داغ کردار کا مالک ہے۔ وہ یہ انکشاف ہرگز برداشت نہیں کر سکے گا کہ اس کی بیوی کبھی سوسائٹی گرل رہ چکی ہے۔ گو پال اسے بے حد پاک باز سمجھتا ہے۔ وہ یہ صدمہ کیسے سہ سکے گا کہ اس کی پاک باز بیوی غیر مردوں کے گلے کا ہار رہی ہے۔ شیکھر کو وہ جانتی تھی کہ کس قماش کا آدمی ہے۔ وہ اپنی دھمکی کو عملی جامہ پہنانے میں ذرہ بھر بھی نہیں ہچکچائے گا۔ سریتا اپنی بے بسی پر روپڑی۔ اس وقت شیکھر اندر داخل ہوا۔ سریتا نے اسے آتے دیکھا تو بھاگتی ہوئی سیڑھیاں پھلانگ کر اوپری منزل پر اپنے کمرے میں جائی۔ جب سے شیکھر آیا تھا وہ اپنا زیادہ تر وقت خواب گاہ میں گزارتی تھی۔ اس کی کوشش ہوتی تھی کہ کسی بھی صورت اس سے سامنا نہ ہو۔ گو ایک گھر میں رہتے ہوئے ایسا کرنا آسان نہ تھا لیکن کوشش تو کی جاسکتی تھی۔ جہاں تک اپنا دامن بچایا جا سکتا تھا بچایا جائے۔ اسے ایسا محسوس ہوتا تھا جیسے کوئی بھیڑ یا گھر میں گھات لگائے بیٹھا ہے۔ وہ ہر وقت بس یہی تدبیر سوچتی رہتی تھی کہ شیکھر سے کس طرح جان چھڑائی جائے۔ اس کی راتیں بھی بڑی اذیت میں گزرتی تھیں۔ وہ رات بھر اپنی آگ میں جلتی رہتی تھی۔
شیکھر بہت کم گھر سے نکلتا تھا۔ جب بھی وہ کسی کام سے باہر جاتا تو اسے لگتا جیسے زنداں سے رہائی ملی ہو۔ بڑا سکون اور اطمینان نصیب ہوتا۔ وہ اس موقع سے فائدہ اٹھا کر بڑی آزادی سے گھر میں گھومتی پھرتی۔ اپنے اور گوپال کے لیے کافی، سینڈوچ یا کھانا پکا لیتی تھی۔ اس کے علاوہ گوپال کے کام خوشی خوشی انجام دیتی تو اس کے دل کو بڑی شانتی محسوس ہوتی۔
جب کبھی وہ تنہائی میں اپنا چہرہ اور سراپاد یکھتی تو ایک سرد آہ بھر کے سوچتی کاش ! وہ اتنی حسین اور پر کشش نہ ہوتی کہ غلاظت کے دلدل میں گر جاتی۔ حالات اور شیکھر نے اسے غلط راستے پر ڈال دیا تھا۔ اگر وہ عام قسم کی لڑکی ہوتی اپنی زندگی کہیں ملازمت کر کے بسر کر لیتی۔ بھگوان نے اسے اتنا حسین کیوں بنایا؟ اس معاشرے میں جانے کتنی حسین لڑکیاں اپنے سپنوں کو پانے کے لیے غلط راستوں پر چل رہی تھیں۔ وہ اپنی ذات کو ٹٹولتی تو اسے ایسا محسوس ہوتا کہ اس کے وجود میں ایک بہت ہی اچھی لڑکی چھپی ہوئی ہے۔ اگر اس کی شادی ہو جاتی تو وہ ایک اچھی پتنی اور ماں ہوتی۔ گوپال سے شادی کرنے کے بعد وہ ایک روایتی بیوی بن کر اس کی سیوا کر رہی تھی۔ ایسی مسرت اور شانتی اسے دولت نہیں دے سکتی تھی۔ ایک عورت بس یہی کچھ تو چاہتی ہے۔اس نے کئی بار آئینے کے سامنے کھڑے ہو کر سوچا کہ کیا ایسا ممکن ہے کہ وہ اپنے آپ کو اس قدر بد صورت اور بے کشش بنالے کہ شیکھر اس سے متنفر ہو کر اس کی زندگی سے نکل جائے اور کبھی ادھر کا رخ نہ کرے۔ لیکن گوپال کیا ایسی عورت کی رفاقت کو پسند کرے گا؟ جب اس کی گوپال سے پہلی ملاقات ہوئی تھی تو گو پال نے اسے ستائش بھری نظروں سے دیکھتے ہوئے کہا تھا کہ آپ کتنی حسین اور سند رہیں…. بالکل میری کہانی کی ہیروئن کی طرح… کیا ایسا ہو سکتا ہے کہ آپ میرے جیون میں آجائیں ؟ میں حسین ہوں لیکن میر اماضی ؟ گوپال نے جھٹ سے اس کے لبوں پر اپنا ہاتھ رکھ دیا تھا۔ مجھے ماضی سے کیا لینا دینا؟ مجھے اس سے کوئی سروکار نہیں … آدمی، آدمی ہوتا ہے۔ دیوتا نہیں ہوتا۔ وہ گوپال کو سب کچھ سچ بتا دینا چاہتی تھی کہ اس کا ماضی انتہائی داغ دار ہے۔ اسی لیے وہ دلدل سے نکل کر یہاں آئی ہے کہ ایک بے داغ زندگی گزارے … وہ شادی اس لیے نہیں کرنا چاہتی کہ کسی اچھے اور باکردار آدمی کے قابل نہیں رہی ہے۔ اسے دھوکا اور فریب دینا نہیں چاہتی۔ لیکن وہ یہ بات نہ کہہ سکی۔ گوپال نے اسے کہنے کا موقع ہی نہیں دیا۔ اسے محبت اور ازدواجی زندگی کے اٹوٹ بندھن میں باندھ لیا۔ کچھ دنوں تک ایسے یہ خوف لاحق رہا کہ گوپال کو اس کی گھنائونی زندگی کے بارے میں معلوم نہ ہو جائے۔ پھر وہ اس لیے بے فکر ہو گئی تھی کہ یہ ایک دور افتادہ، گم نام اور غیرمعروف علاقہ تھا۔
یہاں سیاح بھی آٹے میں نمک کے برابر آتے تھے… اور پھر گوپال کا کام صرف لکھنا ہوتا تھا۔ گوپال چاہتا تھا کہ جلد از جلد اپنی کتاب مکمل کرلے ۔ اس لیے آج کل سریتا کی طرف اس کی توجہ کم ہو گئی تھی۔ خود گوپال کو بھی اس بات کا احساس تھا۔ وہ چائے، لنچ اور رات کے کھانے میں بھی شریک نہیں ہوتا تھا۔ اس نے بار بار اپنے اس رویے کی معذرت چاہی تھی۔ سریتا جانتی تھی کہ وہ سچ کہہ رہا ہے۔ واقعی گوپال جلد از جلد کتاب مکمل کر لینا چاہتا تھا۔ اس کا خیال تھا کہ اس کی یہ کتاب پورے ملک میں تر تہلکہ مچادے گی۔ ۔ کیونکہ ایسی تحریریں بار بار لکھی نہیں جاتیں۔ وہ یہ بات بڑے یقین اور اعتماد سے کہتا تھا۔ گوپال نے باتوں باتوں میں اس سے کئی دفعہ دریافت کیا تھا۔ شیکھر یہاں سے کب جائے گا ؟ کیا اس نے کچھ بتایا ہے ؟ سریتا کیا جواب دیتی۔ اس لیے کہ شیکھر نے اشارے میں بھی کبھی کوئی بات نہیں کی تھی۔ وہ اسے کیا بتاتی کہ شیکھر کے ارادے کیا ہیں۔ گوپال سے کیسے کہتی کہ شیکھر اسے اپنے ساتھ لے جانے کے درپے ہے۔ وہ گوپال کی بات سن کر خاموش رہتی۔ گوپال سمجھتا کہ وہ اس کی بات سن کر برا مان گئی ہے۔ وہ اسے خاموش پا کر اپنے بازوئوں کے حصار میں لے کر کہتا۔ دو نہیں سریتا! شیکھر کا یہاں رہنا مجھے ناگوار خاطر ہر گز نہیں۔ وہ مرد ہے۔ اسے کچھ کام کرنا چاہیے۔ ویسے وہ تمہارا کزن ہے۔ یہ اس کا گھر ہے ۔ وہ جب تک چاہے یہاں رہے ۔ وہ یہ سب سوچ رہی تھی کہ اسے خواب گاہ کے دروازے پر آہٹ محسوس ہوئی تو وہ لرز گئی۔ اسے یقین تھا کہ شیکھر آیا ہے۔ ۔ وہ شیکھر سے بچنے کے لیے دروازے کی جانب رخ نہیں کر رہی تھی۔ اس کا سینہ بری طرح دھڑک رہا تھا۔شیکھر نے اسے گرفت میں لیا تو وہ مزاحمت نہیں کر سکے گی۔ لیکن اس کا اندیشہ غلط ثابت ہوا۔ یہ گوپال تھا۔ گو پال اسے دیکھ کر بے اختیار مسکراتے ہوئے بولا۔ تم کہیں گئی ہوئی تھیں ؟ میں تمہارا انتظار کر رہا تھا۔سریتا کو گوپال کی قربت میں تحفظ کا احساس ہوا۔ اس نے دلکش انداز سے مسکراتے ہوئے جواب دیا۔ میں شیکھر کو ذرا پہاڑی سلسلہ دکھانے لے گئی تھی۔
کام کی وجہ سے گوپال کی حالت غیر ہو رہی تھی۔ اس کے کپڑے گندے ہو چکے تھے اور بے ترتیب بال اس بات کی غمازی کر رہے تھے کہ وہ ہر چیز سے بے نیاز ہو کر اپنے کام میں مصروف رہا تھا، اسے کسی بات کا ہوش نہیں رہا تھا۔ جب بھی وہ اپنے کام میں ڈوب جاتا تو لکھنے کے سواہر بات کو فراموش کر دیا کرتا تھا۔ اس کے باوجود گوپال کی آنکھیں پوری طرح کھلی ہوئی تھیں اور ان میں سریتا کے لیے پیار ہی پیار تھا۔ شاید گوپال نے سریتا کے چہرے سے اس کی اندرونی پریشانی بھانپ لی تھی۔ وہ اس کے ریشمیں بالوں کو چھوتے ہوئے بولا۔ مجھے تمہاری پریشانی کا سبب معلوم ہے۔ سریتا کا سینہ دھک سے ہو کر رہ گیا کہ کہیں ایسا تو نہیں شیکھر نے اسے اس کے ماضی کے متعلق کچھ بتادیا ہو۔اس نے گوپال سے نظریں چراتے ہوئے پھنسی پھنسی آواز میں پوچھا۔ تم میری کس پریشانی کے بارے میں کہہ رہے ہو ؟ ایک ماہ سے مجھے اتنی فرصت نہیں مل سکی کہ تمہارے ساتھ کچھ وقت گزار سکوں ۔ لیکن گھبرانا نہیں بس کچھ دنوں کی بات ہے۔ جلد ہی میرا کام مکمل ہو جائے گا۔ پھر تمہیں کبھی کوئی شکایت نہیں ہونے دوں گا۔ تمہارا چڑ چڑا پن بھی ختم ہو جائے گا۔ اچھا… اب میں چلا۔
مزید پڑھیں |
اس وقت بس میں تمہارے سندر چہرے کی ایک جھلک دیکھنے آگیا تھا۔ پھر وہ مسکراتا ہوا کمرے سے باہر نکل گیا۔ گوپال کی محبت نے اسے دیوانہ بنار کھا تھا۔ اسے اس بات کا اندازہ تھا کہ گو پال اس کے دلکش سراپے سے نہیں بلکہ اس سے بے پناہ محبت کرتا ہے۔ ایک ایسی محبت جو آتما کو شانتی پہنچاتی ہے۔ گوپال کے جانے کے بعد وہ پھر اداس ہو گئی۔ وہ بستر پر بیٹھ کر اپنے متعلق سوچنے لگی۔ پھر اس کی سوچ کا رخ گوپال کی طرف مڑ گیا۔ گوپال بے حد امیر و کبیر آدمی تھا۔ اس کے باپ نے اپنے بیٹے کے لیے کثیر دولت اور بے پناہ جائداد چھوڑی تھی۔ گوپال کوئی کام بھی نہ کرتا تو اسے برسوں تک کوئی مالی پریشانی نہ ہوتی۔اسے لکھنے کا شوق جنون کی حد تک تھا۔ وہ کہانیاں اور ناول لکھ کر ایک عجیب سا سکون محسوس کرتا تھا۔ وہ اپنے دل کے سکون کے لیے لکھتا تھا۔ اسے دولت اور شہرت سے کوئی دلچسپی نہ تھی۔ گوپال اور سریتا ایک دوسرے سے بے پناہ محبت کرتے تھے۔ گو پال اس پر اندھا بھروسہ کرتا تھا اور اسے ایک نہایت شریف عورت سمجھتا تھا۔ وہ اس کے ماضی سے بالکل ناواقف تھا اور نہ ہی کبھی اس نے بھولے سے پوچھا تھا کہ وہ کون ہے ؟ اس کے گھر والے کہاں رہتے ہیں ؟ کیا اس کے ماں باپ اور بھائی بہن ہیں۔ وہ بس اتنا کہتا تھا کہ سریتا میں محبت کا بھوکا ہوں۔ تم مجھ سے محبت کرو اور میں تم سے کروں گا۔ مجھے محبت کے جذبے اور خلوص کے سوا کچھ نہیں چاہیے۔ میں اتنا جانتا ہوں کہ عورت ہی محبت کرنا جانتی ہے بس اس محبت سے سرفراز کرتی رہا کرو۔ سریتا کو اپنا ماضی یاد آتے ہی ایک انجانا سا خوف محسوس ہونے لگتا تھا۔ اس کی راتوں کی نیندیں اڑ جاتی تھیں۔ اکثر اس کے دل کے کسی کونے میں یہ خواہش شدت سے ابھرتی تھی کہ وہ گوپال کو سب کچھ بتا کر نہ صرف دل کا بوجھ ہلکا کر لے بلکہ اسے دھوکے میں بھی نہ رکھے۔ لیکن اس کا دل کہتا کہ نہیں، گوپال کو کچھ نہیں معلوم ہونا چاہیے۔ زندگی جس طرح رواں دواں ہے اسے اسی طرح گزرنے دے۔
اگر گوپال کو اس کا ماضی معلوم ہو گیا تو وہ اسے چھوڑ دے گا۔ مرد جتنا چاہے بد کار اور سیاہ کار کیوں نہ ہو عورت اسے قبول کر لیتی ہے لیکن مرد عورت کا کوئی داغ برداشت نہیں کرتا۔ اس کے ساتھ زندگی بسر نہیں کرتا۔ اسے اپنے پیروں پر کلہاڑی نہیں مارنی چاہیے ورنہ وہ ایک بار پھر اس اندھے کنویں میں ڈوب جائے گی۔ یہ ٹھیک تھا کہ وہ خود کو بدل چکی تھی۔ اب وہ پہلی والی سریتا نہیں رہی تھی لیکن اب ان با اب ان باتوں سے کیا فائدہ؟ بھرے ہوئے زخم کریدنے سے کیا حاصل؟ پھر شیکھر یاد آ گیا۔ خیریت گزری کہ شیکھر آج تک اس کے کمرے میں نہیں آیا تھا۔ حالانکہ وہ جانتا تھا کہ سریتا اکثر اپنے کمرے میں اکیلی رہتی ہے اور اندر سے اس لیے دروازہ مقفل نہیں کرتی ہے، گوپال رات کے کسی بھی سے سونے کے لیے آجاتا تھا۔ اس کے باوجود شیکھر نے کبھی سریتا کے اکیلے پن سے فائدہ اٹھا کر اس کے کمرے میں گھنے کی کوشش نہیں کی تھی۔ سریتا سوچ رہی تھی اگر شیکھر چاہے تو کسی بھی رات تنہائی میں آکر مجھے اپنے اشاروں پر چلنے پر مجبور کر سکتا ہے۔ اگر ایسا ہوا تو کیا ہو گا؟ اس کشمکش میں دو دن گزر گئے۔ ان دودنوں میں اس کی ملاقات شیکھر سے بہت کم ہوئی۔ وہ اکیلا ہی کہیں نکل جاتا تھا۔ کہاں جاتا ہے اسے اس سے کوئی سروکار نہ تھا۔ رات ہو چکی تھی۔ گوپال کچھ دیر پہلے سریتا سے رخصت ہو کر اپنے کمرے میں گیا تھا۔ سریتا کو معلوم تھا کہ گوپال حسب معمول آج رات بھی دیر تک کام کرے گا۔ یہ بھی ممکن تھا کہ علی الصباح تک کام کرتا رہے ۔ وہ پل بھر کے لیے بھی نہیں سوتا تھا۔ جب سے گوپال نے یہ کتاب لکھنی شروع کی تھی یہی ہو رہا تھا۔ سریتا کو تنہا ہی خواب گاہ میں سونا پڑتا تھا۔ اس وقت بھی وہ بستر پر لیٹی سونے کی ناکام کوشش کر رہی تھی۔ نیند کا کوسوں پتا نہ تھا۔ کافی دیر تک کروٹیں بدلنے کے بعد وہ بستر سے اٹھ کر سڑک پر کھلنے والی کھڑکی کے پاس کھڑی ہو گئی۔
رات جتنی تاریک ہوتی جارہی تھی اتنی ہی سہانی اور من خانوں میں فرحت بن کر اترتی جارہی تھی۔ بارش کے آثار تھے اور آسمان گہرے سیاہ بادلوں سے ڈھکا ہوا تھا۔ ہر طرف تاریکی اور سناٹے کا راج تھا۔ ایک عجیب سا احساس اسے گدگدار ہا تھا۔ وہ نہ جانے کیوں بڑی شدت سے گوپال کی غیر موجودگی محسوس کر رہی تھی۔ آج پہلی بار تو ایسا نہیں ہوا تھا۔ ایسی کئی راتیں آچکی تھیں۔ وہ گوپال کے انتظار میں کروٹیں بدلتی رہتی اور پھر نیند کی دیوی اسے اپنی آغوش میں سمیٹ لیتی ۔ جب وہ بیدار ہوتی تو صبح ہو چکی ہوتی اور اس کے پہلو میں گوپال گہری نیند میں غرق ہوتا۔ وہ اسے اس لیے نہیں جگاتی تھی کہ رات بھر کا جاگا ہوا ہوتا تھا۔ اس کے چہرے سے تھکاوٹ ظاہر ہوتی تھی۔ وہ نڈھال دکھائی دیتا تھا۔
وہ کھڑکی میں کھڑی ٹھنڈی ہوا کے جھونکوں سے لطف اندوز ہو رہی تھی۔ اس کے سارے بدن میں ایک عجیب سما کیف بجلی کی رو کی طرح دوڑ رہا تھا۔ نس نس میں خون کی گردش حرارت پیدا کر رہی تھی۔ اس نے سوچا کہ کیوں نہ وہ گوپال کے لکھنے کے کمرے میں چلی جائے اور اس سے کہے کہ بھاڑ میں گئی یہ کہانی… کیا یہ کہانی مجھ سے زیادہ سند رہے کہ ایسی حسین راتوں کو غارت کر دیا جائے ؟ پھر یہ سوچ کر اپنا ارادہ ملتوی کر دیا کہ کچھ دنوں کی تو بات ہے۔ پھر وہ ہو گی اور گوپال کی بے پناہ محبت ہو گی۔ وہ ایک دم چونک گئی۔ اچانک اسے دور سے ایک کار آتی دکھائی دی۔ اس نے پہچان لیا۔ یہ وجنتی کی کار تھی۔ کار اس کے مکان سے ذرا دور جا کر رک گئی۔ اس وقت تاریکی میں ایک سایہ اس کے مکان سے نکل کر گاڑی کی جانب بڑی تیزی سے بڑھا۔ چند لمحوں کے بعد گاڑی آہستہ آہستہ آگے بڑھی۔ سریتا کو اب شیکھر کی غیر موجودگی کی وجہ معلوم ہوئی۔ گویا وہ بالا ہی بالا وجنتی سے قریب ہو چکا تھا اور وہ دونوں تنہائی میں ملنے لگے تھے۔ سریتا جانتی تھی کہ شیکھر اس معصوم لڑکی کو بھی تباہ کر ڈالے گا۔ یہ سوچ کر اس نے تیزی سے اپنے شانوں پر گائون ڈالا اور دوڑتی ہوئی کمرے سے نکلی۔ جب وہ گوپال کے کمرے کے قریب سے گزری تو اندر سے ٹائپ رائٹر کی مخصوص آواز آرہی تھی۔ گویا وہ اپنے کام میں مصروف تھا۔ سریتا نے آہستہ سے گھر کا دروازہ کھولا اور خاموشی سے اپنی گاڑی تک پہنچ گئی۔ وجنتی کی کار کی عقبی روشنی اور مدھم ہوتی ہوئی نظر آرہی تھی۔ سریتا ان دونوں کا غیر محسوس انداز سے تعاقب کر رہی تھی۔ تھوڑی دور جانے کے بعد اسے وجنتی کی گاڑی پہاڑی کی طرف جانے والی سڑک پر مڑتی نظر آئی۔ سریتا ان دونوں کا تعاقب کرتے ہوئے سمجھ گئی کہ وہ دونوں کہاں جارہے ہیں؟ یہ سڑک جھاڑیوں میں گھری ہوئی ایک پہاڑی پر جا کر ختم ہوتی تھی۔ اس کے ایک کنارے پر نیچے دریا بہتا تھا۔ کافی مدت پہلے یہاں کے خانہ بدوش کے سردار کے نوجوان لڑکے نے عشق میں ناکام ہو کر اس پہاڑی سے کود کر دریا میں چھلانگ لگادی تھی۔ یہ پہاڑی اس عشق کے جانباز کے نام سے منسوب تھی۔
مزید پڑھیں |
سریتا نے اپنی گاڑی ان کی گاڑی سے بہت پیچھے رکھی تھی اور اب جس جگہ ان کی گاڑی کھڑی تھی اس جگہ سے کافی فاصلے پر اپنی گاڑی ایک درخت کی اوٹ میں کھڑی کر دی۔ پھر وہاں سے پیدل ان کی کار کی طرف بڑھی۔ وجنتی کی کار پہاڑی کے کنارے پر کھڑی تھی۔ سریتا ز مین پر بیٹھ کر چھپتی ہوئی ان کے نزدیک پہنچ گئی۔ پچھلی نشست پر ان کی تیز سانسوں کی سر گوشیاں سنائی دے رہی تھیں۔ چند لمحے وہ اس جگہ بیٹھی رہی۔ ہر طرف سناٹا چھایا ہوا تھا۔ پورے علاقے میں تاریکی کا راج تھا۔ جھینگروں کی آواز کے سواکچھ سنائی نہیں دے رہا تھا۔ ایک دم اس کے ذہن میں ایک خیال آیا۔ وہ جانتی تھی کہ جب تک شیکھر زندہ ہے وہ اس سے چھٹکارا نہیں پاسکتی۔ اس نے بڑے دکھ سے و جنتی کے بارے میں سوچا مگر وجنتی کے مقابلے میں اسے اپنی ازدواجی زندگی زیادہ اہم معلوم ہوئی۔ اس کے سامنے اب شیکھر سے گلو خلاصی کا یہ نادر موقع تھا۔
اس کی عجیب حالت ہو گئی۔ وہ بالکل ہیجانی کیفیت میں مبتلا تھی۔ اسے معلوم تھا کہ کار ڈھلان پر اس طرح کھڑی تھی کہ ایک جھٹکے سے سینکڑوں فٹ گہرے دریا میں گرائی جاسکتی ہے۔ اور یہ سب کچھ اس کی ذراسی محنت سے ہو سکتا تھا۔ یہاں اسے دیکھنے والا کون تھا ؟ ایک دفعہ تو اس کے اعصاب جواب دے گئے لیکن اس نے خود کو سنبھالا۔ گزرنے والا ایک ایک لمحہ اسے منزل سے دور کر رہا تھا۔ اسے یہ کام ہر صورت میں انجام دینا تھا۔ وہ کسی قیمت پر شیکھر جیسے اوباش آدمی کے لیے گوپال سے علیحدہ ہونا نہیں چاہتی تھی۔ اس کے دل کی دھڑکن تیز ہو گئی تھی اور اس کا پورا بدن پینے میں شرابور ہو رہا تھا۔ وہ سر تا پا کانپ رہی تھی۔ وہ آہستہ آہستہ رینگتی ہوئی گاڑی کے قریب ہو گئی۔ پچھلی نشست سے اکھڑی اکھڑی سانسوں، کپڑوں کی سرسراہٹ کے سوا کچھ اور سنائی نہیں دے رہا تھا۔ ایسا محسوس ہو رہا تھا جیسے وہ دنیا ومافیہا سے بے نیاز ہوں۔ وہ تیزی سے گاڑی کے اگلے دروازے کی جانب بڑھی۔ اس نے آہستہ سے سر اٹھایا۔ دونوں میں سے کسی نے اسے نہیں دیکھا۔ اس وقت انہیں کسی چیز کا ہوش نہیں تھا۔ اس نے چشم زدن میں دروازہ کھولا اور کار کا ایمر جنسی بر یک ڈھیلا کر دیا اور اس سے قبل کہ وہ دونوں سنبھل پاتے کار تیزی سے ڈھلان کی جانب بڑھی۔ سریتا کنارے کھڑی ہوئی دریا میں گرتی ہوئی کار کی طرف دیکھ رہی تھی۔ اسے دور سے و جنتی کی چیخ سنائی دی۔ پھر کار ایک چٹان سے ٹکرائی اور اس میں شعلے بھڑک اٹھے۔ وہ آہستہ آہستہ چلتی ہوئی اپنی گاڑی کے قریب آئی اور تیزی سے گھر کی جانب لوٹی۔ گو وہ بہت گھبرائی ہوئی تھی لیکن اس نے خود کو قابو میں رکھا تھا۔ اس نے خاموشی سے گاڑی کھڑی کی اور دھڑکتے دل کے ساتھ مکان میں داخل ہوئی۔ گوپال کے کمرے سے ابھی تک ٹائپ رائٹر کی آواز آرہی تھی۔ سریتا نے اطمینان کی سانس لی۔ گویا اس کی غیر موجود گی کا گوپال کو پتا نہیں چل سکا تھا۔ وہ اب بالکل مطمئن تھی۔
اس وقت شیکھر باورچی خانے سے نکلتا دکھائی دیا۔ اس کے ہاتھ میں کافی کا پیالہ تھا۔ ہیلوسریتا ! اس نے کافی کا گھونٹ لیتے ہوئے کہا۔ اتنی رات گئے تم کہاں گئی تھیں ؟ وہ آنکھیں پھاڑے دیوانوں کی طرح شیکھر کو دیکھ رہی تھی۔ اسے سکتہ سا ہو گیا تھا۔ اس کی آواز نکل نہیں رہی تھی اور چہرہ انجانے خوف سے سفید ہو گیا تھا۔ کیا ہوا سریتا ! تم اتنی پریشان کیوں ہو؟، شیکھر اس کے قریب آتا ہوا بولا۔ سریتا کوئی جواب دیئے بغیر تیزی سے مڑی اور چلاتی ہوئی گوپال کے کمرے میں داخل ہو گئی۔ اندر گھستے ہی وہ ٹھٹک کر رک گئی۔ کمرے میں کوئی نہیں تھا۔ گوپال کی کرسی خالی پڑی تھی اور میز پر ایک ٹیپ ریکارڈر رکھا ہوا تھا اور کمرے میں ٹائپ رائٹر کی مانوس آواز گونج رہی تھی۔ شیکھر نے آہستگی سے سریتا کے شانے چھوئے۔خاموشی سے سریتا شیکھر کی. کی جانب مڑی۔ اس کی آنکھوں سے آنسو بہ رہے تھے۔ شیکھر کہہ رہا تھا۔ حیرت ہے گو پال اس وقت نہ جانے کہاں گیا ہوا ہے ؟
قسط وار کہانیاں |
0 تبصرے