عزت کی موت

Sublimegate Urdu Stories

زاہدہ بیگم نہایت شریف النفس خاتون تھیں۔ وہ کچھ عرصہ قبل ہمارے محلے میں آئی تھیں۔ چند ہی دنوں بعد ان کی شرافت کی سب ہی گواہی دینے لگے، کیونکہ بری عورت کی طرح اچھی عورت بھی جلد پہچانی جاتی ہے۔ شروع میں کوئی بھی انہیں مکان دینے پر تیار نہ تھا کہ تنہا عورت اپنی دو سالہ بچی کے ہمراہ کس طرح رہے گی اور جانے کیا گل کھلائے گی؟ مگر چچا اشرف نے ہمت کی اور اس بے آسرا عورت کو رہنے کے لیے اپنے گھر کا ایک حصہ کرائے پر دے دیا۔ وہ مکان ہمارے گھر کے بالکل سامنے تھا۔بظاہر وہ خوش نظر آتی تھی، مگر ماضی کے نشیب و فراز نے اس کے ماتھے پر بیتے ہوئے دکھوں کو شکنوں کی صورت میں سجا دیا تھا، جو زندگی بھر اس کے ساتھ رہنے والے تھے۔ آتے ہی اس نے پیٹ کا دوزخ بھرنے کے لیے ہاتھ پاؤں مارنے شروع کر دیے۔ جلد ہی اسے دو چار گھروں میں کام مل گیا۔ صبح سویرے وہ ان گھروں میں کام کرنے چلی جاتی۔رفتہ رفتہ سب کو معلوم ہو گیا کہ بظاہر خوش و خرم نظر آنے والی زاہدہ کتنی غمگین اور دھتکاری ہوئی عورت ہے۔ ان دنوں امی بیماری کے باعث گھر کا کام کاج کرنے سے معذور تھیں۔ 

میں بھی کالج جاتی تھی اور بھابھی اکیلی تمام کام نہیں نمٹا سکتی تھیں، تبھی امی نے زاہدہ کو کام پر رکھ لیا۔ایک روز کالج کی چھٹی کی وجہ سے میں بور ہو رہی تھی کہ زاہدہ آ گئی۔ میں نے اس سے کہا: میرا کمرہ تو صاف ہے، آج تم صفائی نہ کرو، بس پاس بیٹھ کر باتیں کرو۔ تب میں نے پوچھا:تم یہاں آنے سے پہلے کہاں رہتی تھیں؟ اور تمہاری کیا مجبوری ہے کہ یہاں تنہا کرائے کے گھر میں رہتی ہو؟ تم کسی کھاتے پیتے گھرانے کی لگتی ہو، کیا تمہاری کفالت کرنے والا کوئی نہیں ہے؟اس نے تھوڑی دیر توقف کیا، پھر یوں گویا ہوئی:میری شادی جمال احمد نامی شخص سے ہوئی تھی۔ وہ کچھ ضدی اور خود سر تھے، کسی کی نہیں سنتے تھے۔ شکل و صورت کے اچھے اور وجیہہ نوجوان تھے۔

ایک رشتے دار کے بیٹے کی شادی میں انہوں نے مجھے دیکھا اور پسند کر لیا، پھر اپنے گھر والوں کو رشتے کے لیے بھیج دیا۔ چونکہ ان سے دور کی رشتہ داری تھی اور وہ خوشحال لوگ تھے، اس لیے میرے والدین نے ہاں کر دی۔ یوں میری شادی جمال کے ساتھ دھوم دھام سے ہو گئی۔شروع میں وہ مجھ پر جان چھڑکتے تھے۔ میرے آنے کے بعد ان کو کاروبار میں بہت منافع ہوا، مگر بدقسمتی سے ہماری شادی کے ایک ماہ بعد ان کے چھوٹے بھائی کسی دوست کی شادی میں شرکت کے لیے پشاور گئے۔ وہاں تقریب میں خوشی کے اظہار میں ہوائی فائرنگ ہو رہی تھی کہ ایک گولی ان کو لگ گئی اور وہ موقع پر ہی فوت ہو گئے۔ وہ ہنستے مسکراتے گئے تھے، اور میت گاڑی میں گھر پہنچائے گئے، تو گھر میں کہرام برپا ہو گیا۔پڑوسنیں بھی میری ساس کے غم میں شریک ہونے آئیں اور کچھ جاہل عورتوں نے ان کے کان بھرے کہ ان کی بہو سبز قدم ہے۔

 شادی کو ایک ماہ نہیں گزرا تھا کہ دیور کا جنازہ تیار ہو گیا۔ ساس کو ان عورتوں نے ایسی باتیں کہیں کہ ان کا دل مجھ سے برا ہو گیا اور دیور کی حادثاتی موت میرے لیے طعنہ بن گئی۔ساس اور نندیں دبے دبے لفظوں میں جب مجھے یہ طعنہ دیتیں، تو میں رو پڑتی، مگر بات یہیں ختم نہیں ہوئی۔ میرے سسر کے دل پر جواں سال بیٹے کی ناگہانی موت کا صدمہ ایسا بیٹھا کہ وہ دو ہفتے بعد ہی ہارٹ فیل ہونے سے چل بسے۔ یکے بعد دیگرے دو جان لیوا حادثوں نے میری ساس کو نڈھال کر دیا۔سونے پر سہاگہ یہ کہ اردگرد رہنے والی ان پڑھ خواتین اور ان کی رشتہ دار عورتیں، جو توہم پرست تھیں، منہ سے ایسی منفی باتیں نکالتیں اور بجائے دلجوئی کرنے اور ڈھارس بندھانے کے، یہی کہتیں کہ بہو کو بیاہ لانا راس نہیں آیا۔ یہ لڑکی منحوس ہے کہ پے در پے دو صدمات سے دوچار ہونا پڑا ہے۔

ساس پڑھی لکھی نہ تھیں اور غم کے باعث ذہنی طور پر کمزور ہوتی جا رہی تھیں۔ ان کے دل میں یہ بات بیٹھ گئی تھی کہ زاہدہ منحوس قدم ہے۔ اب ان کا رویہ مجھ سے یکدم بدل گیا تھا۔ وہ میرا سایہ بھی اپنی بیٹیوں پر نہ پڑنے دیتی تھیں۔ اگر ان کی کسی نواسی یا نواسے کی سالگرہ ہوتی، تو مجھے ان خوشیوں سے دور رکھتیں۔ اس رویے سے میرا دل رنجیدہ رہنے لگا۔ سوچتی، موت و حیات تو اللہ کے ہاتھ میں ہے، پھر یہ لوگ ایسا کیوں سوچتے ہیں؟ان کے چبھتے ہوئے فقروں سے میرا دل چھلنی ہوتا رہتا۔ صرف ساس ہی نہیں، نندیں بھی ان کے نقشِ قدم پر چلنے لگیں۔ ساس تو دوسروں کے بہکاوے میں آئی تھیں، مگر نندیں تو پڑھی لکھی تھیں۔ ان کی بے رخی میرے دل کو اور زیادہ زخمی کرنے لگی۔ایک روز چھوٹی نند ہمارے گھر آئی۔ اس کی گود میں چھ ماہ کا ننھا سا بیٹا تھا۔ میرے شوہر نے اس سے کہا کہ یہ سو رہا ہے، اسے مجھے دے دو۔

 میں جھولے میں سلادیتا ہوں۔ بچے کو انہوں نے جھولے میں ڈالا اور مجھے کہا کہ اسے ذرا جھولا دو، کہیں اُٹھ نہ جائے۔جونہی میں نے جھولا ہلایا، بچے کی نیند ٹوٹ گئی اور وہ زور زور سے رونے لگا۔ اتنے میں دوسری نند دوڑی ہوئی آئی اور بولی کہ یہ تو اچھا بھلا سو رہا تھا، تم نے کیسا جھولا دیا کہ بچے نے اتنی زور کی چیخ ماری ہے؟میں نے کہا کہ چھوٹے بچے ایسے ہی ہوتے ہیں، یہ جھولا ہلنے سے شاید ڈر گیا ہے۔وہ بولی کہ نہیں، تم میں ہی کوئی مسئلہ ہے۔ تم نے ہاتھ لگایا تو یہ بری طرح ڈر کر رو دیا ہے۔ تم پر کچھ اثرات ہیں یا کسی جن بھوت کا سایہ ہے۔ آئندہ میرے بھانجے سے دور رہنا، ہاتھ بھی نہ لگانا۔یہ دل چیر دینے والے الفاظ کہہ کر وہ بچے کو ہمارے کمرے سے اٹھا لے گئی۔اس کا انداز اتنا توہین آمیز تھا کہ میں رونے لگی۔ تبھی جمال کمرے میں آ گئے۔ انہوں نے مجھے دلاسا دیا، چپ کرایا اور بولے کہ اکثر عورتیں ایسے ہی توہمات میں مبتلا رہتی ہیں، تم ان کی باتوں کا برا مت مانو۔میں نے ان کے کہنے پر صبر کے دامن کو مضبوطی سے تھام لیا۔

سوچا، یہ سب وقتی جذبات ہیں، وقت کے ساتھ سب ٹھیک ہو جائے گا اور وہ مجھے خوش دلی سے قبول کر لیں گی، مگر ایسا نہ ہوا۔ میری ساس اور نندوں نے خاندان میں میرے منحوس ہونے کی بات اس قدر دہرائی کہ جمال کے دیگر رشتہ داروں نے بھی مجھے اپنے گھروں میں آنے سے منع کر دیا۔ خاص طور پر شادی بیاہ یا کسی بھی خوشی کی تقریب میں وہ میری شرکت کو ناپسند کرتے تھے۔ایک روز جانے میری نند کو کیا سوجھی کہ جب اس کا تایا زاد بھائی اشعر آیا، تو اس نے مجھ سے کہا کہ جاؤ، اشعر کو چائے دے آؤ۔ وہ اوپر کی منزل پر لیٹا ہوا ہے اور طبیعت ٹھیک نہیں۔ اسے چائے، بام اور سر درد کی گولی دے دینا۔میں نے چائے بنائی، سب چیزیں ٹرے میں رکھیں اور پوچھا کہ اشعر کہاں ہے؟وہ بولی کہ اوپر چلی جاؤ، اسے یہ دے آؤ۔میں اوپر گئی۔ اشعر کمرے میں پلنگ پر منہ چھپا کر لیٹا ہوا تھا۔ میں نے ٹرے میز پر رکھ دی اور کہا کہ یہ لیجیے، آپ اٹھا لیجیے۔پھر میں الٹے قدموں واپس لوٹنے لگی، تو دیکھا جمال باہر سے آ گئے تھے اور کمرے میں بیٹھے تھے۔ جانے ان کی بہن نے ان سے کیا کہا کہ وہ غصے میں دھاڑنے لگے کہ جب گھر میں امی موجود ہیں تو تمہیں کمرے میں جا کر اشعر کی خدمت کرنے کی کیا ضرورت تھی؟اس سے پہلے کہ میں کچھ کہتی، انہوں نے میرے منہ پر ایک تھپڑ رسید کر دیا۔میں اچانک اس حملے سے گھبرا گئی۔ 

کچھ سمجھ نہ سکی کہ میری یہ خاطر مدارات کیوں ہو رہی ہے؟ان کے دل میں بدخواہوں نے شک کا بیج بو دیا تھا۔مرد کے دل میں ایک بار شک بیٹھ جائے، تو وہ نکلتا نہیں اور عورت کی زندگی اجیرن ہو جاتی ہے۔اس دن کے بعد سے انہوں نے مجھ سے بات کرنا چھوڑ دی۔ نہ مجھے بلاتے، نہ ہی کوئی کام بتاتے۔ اپنی ماں اور بہنوں کو ہی پکارتے، انہی کو اپنے کام بتاتے۔میری تنہائی بڑھتی جا رہی تھی اور جمال کی بے رخی بھی۔ اب میں اکثر ان کے ساتھ گزارے ہوئے حسین لمحے یاد کرکے روتی تھی۔ جب ان سے کوئی بات کرتی تو سخت جواب دیتے۔میں نے انہیں سمجھانے کی بہت کوشش کی، مگر وہ نہ سنتے۔ مجھے منحوس کہتے۔میں ان باتوں کو محض شک سمجھ کر بھول جاتی، مگر جب میرا خاوند ہی بار بار ہاتھ اٹھانے لگے، تو اس گھر اور اس کے مکینوں سے خوف آنے لگا۔خود کو سمجھاتی کہ یہ دیہاتی لوگ ہیں۔ چلو، مجھے منحوس سمجھتے ہیں تو کیا ہوا؟میں تو شہر کی پروردہ ہوں۔ مجھے اس لڑائی جھگڑے کو طول نہیں دینا چاہیے، بلکہ ان کے آگے چپ رہنا چاہیے تاکہ میرا گھر آباد رہے۔میں اپنے والدین کو بھی گھر کے حالات بتا کر دکھی نہیں کرنا چاہتی تھی۔ وہ میری سن بھی لیتے، تو سمجھا بجھا کر واپس سسرال بھیج دیتے۔
انہی دنوں جب میں ایک ذی روح کو جنم دینے والی تھی، لیڈی ڈاکٹر نے مجھے سختی سے ہدایت کی کہ مکمل آرام کروں، مگر میرا خیال کسی کو تھا؟ ایک شام، جب سایے دن کے اجالے کو ہولے ہولے اپنی لپیٹ میں لے رہے تھے، میں برتن دھونے میں مصروف تھی کہ جمال گھر میں داخل ہوئے۔ وہ روزانہ صبح دکان پر چلے جاتے، تو شام کو لوٹتے تھے۔ وہ گھر آئے، تو کچھ ہی دیر بعد اشعر آگیا۔ وہ سیدھا باورچی خانے میں آیا اور مجھ سے کہا، بھاھی چائے پلوا دو۔میں برتن دھو رہی تھی، تم کسی اور سے کہہ دو۔وہ بولا، نہیں، مجھے آپ کے ہاتھ کی چائے پینی ہے۔میں ابھی جواب بھی نہ دے پائی تھی کہ جمال وہاں آگئے۔ان کا غصہ بام عروج پر پہنچ گیا۔ کہنے لگے، زاہدہ، ذرا کمرے میں آنا۔میں فوراً اٹھ کر ان کے پیچھے کمرے میں آگئی، تبھی اشعر کو ساس نے جانے کیا کہا کہ وہ گھر سے چلا گیا۔ مجھے کیا پتہ تھا یہ سب مل کر میری زندگی میں تباہی کا باب کھولنے والے ہیں۔ اس سے پہلے کہ میں کچھ سوچتی، ایک زوردار تھپڑ میرے گال پر پڑا کہ آنکھوں تلے اندھیرا چھا گیا۔ جمال مجھے بری بری گالیاں دے رہے تھے۔ انہوں نے تبھی مجھے اتنے زور کا دھکا دیا کہ پلنگ سے فرش پر گر گئی اور بے ہوش ہو گئی۔ہوش آیا، تو سامنے پڑوسن کو پایا۔ 

اسے دیکھ کر رونے لگی، وہ بھی رو پڑی۔ کہنے لگی، تمہاری ساس اور نند نے بتایا ہے کہ تمہارے کسی سے غلط مراسم ہیں۔یہ سنتے ہی میں سن ہو گئی۔ یقین نہ آیا کہ پڑوسن ایسا کہہ رہی ہے۔ تبھی جمال کمرے میں آیا، تو وہ اُٹھ کر باہر چلی گئی۔میرا شوہر بھی مجھے بد چلن اور بد کردار کہہ رہا تھا۔ میں نے کہا، جمال، یہ بہتان ہے، میں بد کردار نہیں ہوں۔میری اور اپنی زندگی برباد نہ کرو۔مگر اس کے دل پر سیاہی چھا چکی تھی۔ اب میری ہر بات بے اثر تھی۔اس وقت میری ساس اندر آئی اور یہ کہہ کر بیٹے کو باہر لے گئی کہ مزید اس کو مت مارنا۔ ایسا نہ ہو کہ بچے کو کوئی نقصان پہنچے۔ اس کے والدین کو بلا کر اسے ان کے حوالے کر دو۔جمال باہر چلا گیا۔اب میرا دل زندہ رہنے کو نہیں چاہ رہا تھا۔ دیواروں سے ٹکر مار مار کر سر پھوڑ کر مر جانا چاہتی تھی۔ جو بے بنیاد الزام مجھ پر لگایا گیا تھا، وہ گھر کی عورتوں کی چال تھی، جو جمال کی شادی دوبارہ کسی امیر گھرانے میں کرانا چاہتی تھیں۔مجھے زخمی حالت میں پڑوسن اپنے گھر لے گئی اور میرے والدین کے گھر بھیجوانے کا انتظام کیا، اور میری یہ حالت کہ اٹھ بیٹھ نہیں سکتی تھی۔
 کچھ دن اس آس میں چپ پڑی رہی کہ شاید میرا خاوند نظر ثانی کر لے اور مجھے گھر لے جائے، مگر انہوں نے کہہ دیا کہ ہم نے اسے واپس نہیں بلانا، ہم طلاق دے رہے ہیں۔دو ماہ بعد میں نے والدین کے گھر بیٹی کو جنم دیا۔ جمال نے مجھے طلاق کے کاغذات بھجوا دیئے اور بیٹی بھی دے دی۔ابو بوڑھے تھے، سفر نہیں کر سکتے تھے، پھر بھی بچی کی پیدائش کا بتانے میرے سرال گئے۔ ان لوگوں نے میرے باپ کے بھی ایسے کان بھرے کہ گھر آ کر انہوں نے مجھے ہی کہہ دیا کہ بیٹی ایسے تو شک نہیں کیا جاتا، کچھ قصور تمہارا بھی ہوگا۔گویا والد بھی اب مجھے شک بھری نظروں سے دیکھ رہے تھے۔ایک برس میں نے ان کی بے رخی برداشت کی، اس کے بعد دلبرداشتہ ہو کر اس شہر اپنی سہیلی کے گھر آگئی، جس کے ساتھ میں نے میٹرک کیا تھا۔

کچھ دن اس کے گھر پر رہی، پھر جب محسوس کیا کہ اس کے گھر والے مجھے بوجھ سمجھتے ہیں، تو کرایے کا گھر تلاش کیا اور یہاں آگئی۔یہاں خوشی نہیں ہے، مگر سکون تو ہے۔ کوئی پیار کی بات کرنے والا نہیں، تو طعنے دینے والے بھی نہیں ہیں۔ میری بچی کو کوئی میری ناجائز اولاد تو نہیں کہتا ہے۔یہ کہہ کر وہ اپنے دوپٹے سے آنسو خشک کرنے لگی۔میں اس کی باتیں سن کر سوچ میں گم تھی۔ واقعی وہ بہت صابر عورت تھی۔ کہنے لگی، مجھ پر ظلم کرنے والوں کا کیا انجام ہوا؟ یہ بعد میں بتاؤں گی، ابھی تو کام کرنا ہے۔اس کے بعد نہ اس نے ان کا انجام بتایا اور نہ میں نے پوچھا۔وقت گزرتا رہا، میری شادی ہو گئی اور میں دوسرے شہر آ گئی۔ جب موقعہ بنتا، میکے جاتی۔ زاہدہ کی بیٹی بڑی ہو گئی تھی، وہ اب پانچویں کلاس میں تھی۔اشرف چچا کی بیوی وفات پا گئیں، تو وہ اکیلے رہ گئے۔ ان کی کوئی اولاد نہ تھی۔ زاہدہ ہی ان کو کھانا بنا کر دیا کرتی تھی۔ انہوں نے اسے بیٹی بنا لیا تھا۔ وہ بھی ایک بیٹی کی طرح ان کی دیکھ بھال کرتی تھی۔
اس بار جب میں میکے گئی تو زاہدہ سے ملاقات ہو گئی۔ وہ ہمارے گھر مٹھائی دینے آئی تھی۔ میں نے پوچھا، کسی بات کی مٹھائی ہے؟کہنے لگی، میری بیٹی کا باپ جیل سے رہا ہو گیا ہے، اسی لیے مٹھائی بانٹی ہے۔جیل سے؟ کیا وہ جیل میں تھا؟ہاں، اس سے کسی کا ناجائز خون سرزد ہو گیا تھا۔ کچھ عرصہ قبل جیل رہا، وارثوں نے خون بہا لے کر معاف کر دیا، تو اسے رہائی مل گئی ہے۔لیکن کس کا اس نے خون کیا تھا؟اپنی دوسری بیوی کا زیادہ تو معلوم نہیں، سنا ہے اس پر بھی شک کرتا تھا کہ بد چلن ہے۔ ایک روز طیش میں آ کر اتنا مارا کہ وہ بیچاری مر گئی۔پھر تو اچھا ہوا کہ تم نے وقت پر فیصلہ لیا اور وہاں سے نکل آئیں۔ہاں، اللہ کو ایسا ہی میرے حق میں منظور ہوگا۔

(ختم شد)

اگر کہانی پسند آئی ہو تو فیس بک کمنٹ میں ضرور بتائیں۔ شکریہ