بدچلن لڑکا

Sublimegate Urdu Stories

چار سال کی تھی جب امی اور ابو وفات پا گئے۔ میری پرورش میری سگی نانی نے کی۔ جب میں دس برس کی ہوئی، تو نانی نے میرا بیاہ کرنے کی ٹھان لی۔ حالانکہ میں نے ابھی پوری طرح شعور کی دہلیز پر قدم بھی نہیں رکھا تھا۔ میرے معصوم ذہن میں شادی کا مطلب صرف چمکیلے کپڑے پہننا، زیور سجانا اور دلہن بن جانا تھا۔شادی کو خوشی کہا جاتا ہے، لیکن ہمارے یہاں شادی ایک عورت کی زندگی میں سب سے بڑی مصیبت اور اذیت بھی بن سکتی ہے۔ مجھے کچھ خبر نہ تھی۔ جب نانی نے کہا، تیری شادی کر رہی ہوں ، تو میں حیرت سے ان کا منہ تکتی رہ گئی کہ وہ کیا کہہ رہی ہیں۔ شادیوں میں دولہا کو ہمیشہ ایک خوبصورت، نوجوان انسان کے روپ میں دیکھا تھا۔ میں سمجھتی تھی کہ سبھی دولہا ایسے ہی ہوتے ہیں۔ 

ایک دن نانی نے بتایا کہ تیرا دولہا آیا ہے۔ اس وقت ایک پڑوسن بھی ہمارے گھر بیٹھی تھی۔ وہ اشتیاق سے بولی، ذرا دیکھوں تو، کیسا ہے؟تبھی میں نے بھی، پڑوسن کی آڑ میں، اپنے ہونے والے دولہا کو دیکھا۔اوہ میرے خدا، پڑوسن کے منہ سے بے ساختہ نکلا:جمیلہ، پروین پر اتنا بڑا ظلم مت کرو! کیا اس پھول جیسی بچی کو اس بوڑھے کے ساتھ بیاہ دو گی؟ یہ تو عمر میں اس کے باپ سے بھی بڑا لگتا ہے! کسی اور کے قصور کی سزا تم اس بچی کو کیوں دے رہی ہو؟ اگر یہ تم پر بوجھ ہے تو مجھے دے دو، میں اس کا خرچ اٹھا لوں گی۔ رشتہ تو جوڑ کا ڈھونڈا جاتا ہے۔نانی نے سخت لہجے میں جواب دیا کہ تمہیں کیا پتا، جب سر پر مرد نہ ہو، تو جوان بچیوں کی گھر میں کس قدر رکھوالی کرنی پڑتی ہے۔نانی کی یہ بات سن کر پڑوسن خاموشی سے اپنا سا منہ لے کر چلی گئی۔ مگر میں… مجھے تو حالات کی سنگینی کا کچھ اندازہ ہی نہ تھا، کیونکہ میں ابھی کم سن تھی۔ میری تو وہ عمر تھی کہ میں کھیلوں، ہنسوں، خوب کھاؤں پیوں، گڑیا گڈے سے بہلوں۔ مگر نانی نے وہ ظلم کیا جس کے تصور سے ہی لڑکیاں کانپ جاتی ہیں۔میں صرف دس سال کی عمر میں ساٹھ سالہ مرد کی بیوی بنا دی گئی۔

ان دنوں کی تفصیل لکھنا میرے بس کی بات نہیں… بلکہ انہیں یاد نہ کروں تو ہی بہتر ہے۔ یہ وہ سیاہ دن تھے جنہیں میری یادداشت بھی مٹا دینا چاہتی ہے۔یہ ستم ڈھانے والی نانی صرف تین برس میرے ساتھ رہی، اور جب میں تیرہ سال کی عمر میں ایک بچے کی ماں بن گئی، تو اس نے مجھے مکمل طور پر اس بوڑھے کے حوالے کر دیا اور خود اپنے گھر چلی گئی۔اب شعور آ چکا ہے کہ جوانی کیا ہوتی ہے اور اس کے کیا ارمان ہوتے ہیں۔ میرا شوہر، جو مجھ سے عمر میں بہت بڑا تھا، نہایت بد مزاج انسان تھا۔ کبھی کبھار تو محبت سے پیش آتا، لیکن اکثر میری معمولی غلطیوں پر سخت سرزنش کرتا۔ تب میں اپنے والدین کو یاد کرکے گھنٹوں روتی، وہ والدین جو مجھ سے محبت کرتے تھے اور میری ذرا سی تکلیف پر تڑپ اٹھتے تھے۔

جب میرے شوہر ملک نے دیکھا کہ یہ بچی نہ خود کو سنبھال سکتی ہے اور نہ ہی اپنے بچے کو، تو وہ نانی سے اصرار کرنے لگا کہ وہ آ کر ہمارے ساتھ رہیں۔ نانی کو بھی یہی منظور تھا، اس لیے وہ فوراً ہمارے گھر آ گئیں۔ مگر ان کے ساتھ رہنے سے میری مشکلات کم ہونے کے بجائے اور بڑھ گئیں۔میری شادی کے بعد نانی کے رویے میں بہت تبدیلی آ گئی تھی۔ اب وہ نانی کم اور ساس زیادہ لگتی تھیں۔ شوہر اگر مجھ پر ظلم کرتا، تو نانی بجائے کچھ کہنے کے الٹا اسی کا ساتھ دیتیں، اور مجھے برا بھلا کہتیں۔ یہاں تک کہ میرے شوہر کے سامنے مجھے ذلیل کر کے رکھ دیتیں۔ ان کے اس رویے سے ملک کو اور شہ ملتی، اور وہ مزید میری توہین کرنے لگا۔نانی گویا ساس سے بھی بڑھ کر ظلم کرنے لگی تھیں۔ 

میں بیان نہیں کر سکتی کہ میرے دل میں کتنا درد، کتنا غم چھپا تھا۔ میں بے سہارا تھی، اور اس ظالم نانی کے سوا دنیا میں میرا اور کوئی نہ تھا۔ شاید نانی کا یہ سلوک اس لیے تھا کہ میں دبی رہوں اور میرا گھر بسا رہے، یا شاید اس لیے کہ ملک ایک خوشحال آدمی تھا، اور نانی جب بھی اس سے اپنی ضرورت کے لیے رقم مانگتیں، وہ فوراً پوری کر دیتا۔ نانی کو اور کیا چاہیے تھا؟ انہیں تو اپنی زندگی گزارنی تھی، کیونکہ ان کے پاس کوئی دوسرا سہارا نہ تھا۔نانی مجھے گھر سے باہر قدم رکھنے تک کی اجازت نہ دیتی تھیں۔ میں پاس پڑوس میں بھی نہیں جا سکتی تھی۔ دل کی بات کسی سے کہہ نہیں سکتی تھی۔ ہر ظلم، ہر زیادتی چپ چاپ سہتی اور تنہائی میں روتی رہتی تھی۔ اللہ سے گڑگڑا کر دعائیں مانگتی تھی کہ اے رب! یا تو ان دونوں کے دلوں میں میرے لیے رحم ڈال دے، یا پھر مجھے ملک اور نانی دونوں کے ظلم سے نجات دے دے۔ وقت کے ساتھ ساتھ میں ذہنی مریضہ بنتی جا رہی تھی۔ خود پر اس عمر میں جبر آسان نہیں ہوتا۔ بیٹھے بیٹھے دل میں عجیب و غریب وسوسے آنے لگتے۔ کبھی لگتا کہ کہیں گھر کی چھت مجھ پر نہ گر پڑے، کبھی ڈر لگتا کہ زلزلہ نہ آ جائے۔ امنگیں جنم لیتیں اور اسی لمحے دل میں دفن ہو جاتی تھی-

پھر میرے شوہر کو بھی احساس ہونے لگا کہ مجھ پر ظلم ہوا ہے اور اب اس کا ازالہ ہونا چاہیے۔ تبھی اس کے رویے میں تبدیلی آنے لگی۔ وہ میرا زیادہ خیال رکھنے لگا، مجھ سے محبت سے پیش آنے لگا، اور اب نانی کو بھی اس کی زیادتیوں پر ٹوکنے لگا۔ کہتا: اماں، تم چپ رہو۔ میری بیوی کو ڈانٹنے ڈپٹنے کی ضرورت نہیں ہے۔اب وہ میرے لیے پھل، فروٹ، کھانے پینے کی اشیاء، جوڑے، میک اپ کا سامان، غرض ہر طرح کی آرام و آسائش مہیا کرنے لگا۔ مگر میرا دل اس کی طرف کبھی مائل نہ ہو سکا۔ میرے دل میں اپنے ہم عمر جیون ساتھی کی آرزو رہنے لگی، جو میرے جیسا ہو، مجھ سے محبت سے بات کرے، اور ہم زندگی کا لطف لے سکیں۔وقت گزرتے دیر نہیں لگتی۔ یوں میں دو بچوں کی ماں بن گئی۔ مامتا ایک عظیم جذبہ ہے۔ بچوں نے مجھے اپنا دیوانہ بنا لیا۔ میں ہر دم ان کے پیار میں ڈوبی رہتی۔ وقت کے ساتھ ساتھ غموں اور زیادتیوں کو بھلا کر، بچوں کی معصوم شرارتوں سے دل بہلانے لگی۔ ان کی باتیں، ہنسی، ضدیں، مجھے ہنسا دیتیں، گدگدا دیتیں۔

 یوں زندگی ایک ڈگر پر رواں دواں ہو گئی۔اچانک، اچھی بھلی زندگی میں نانی کی نادانی سے بھونچال آ گیا۔ہوا یوں کہ جانے کیسے نانی کو یہ خیال آ گیا کہ گھر بدلنا چاہیے۔ وہ کہنے لگی کہ یہ گھر چھوٹا ہے۔ اس نے رات دن ملک کے کان کھانے شروع کر دیے۔ حالانکہ ملک محلہ چھوڑ کر کہیں اور جانے کے حق میں نہ تھا، کیونکہ یہاں سب جانے پہچانے لوگ تھے، اور نئی جگہ کا کچھ پتا نہیں تھا کہ وہاں کیسا ماحول ہوگا۔ مگر آخر وہ دیوار کھڑی ہو ہی گئی، جسے مجھے بعد میں پھلانگنا پڑا، اور بچوں کی بربادی کو آواز دینی پڑی۔میرے شوہر نے نانی کی باتوں میں آ کر دوسری جگہ کرائے کا مکان لے لیا۔ یوں ہم نئے گھر میں منتقل ہو گئے۔ مگر یہ تبدیلی ہمارے لیے سخت نقصان دہ ثابت ہوئی۔جس مکان میں ہم گئے، اس کا ایک حصہ مالک مکان کے پاس تھا، جس میں اس کا جوان بیٹا اظہر رہتا تھا۔ وہ نہایت بدچلن، آوارہ قسم کا لڑکا تھا۔ ہر خوبصورت چہرے پر اس کی نظر ہوتی۔ ہر حسین لڑکی کو دیکھ کر اس کے قدم ڈگمگا جاتے۔ 

پڑھائی سے زیادہ دل اس کا فلمی گانوں، عشق و عاشقی اور آوارہ گردی میں لگتا تھا۔ایک دن جب میں صحن میں کوئی کام کر رہی تھی، اظہر نے اپنی بالائی منزل کی کھڑکی سے مجھے دیکھ لیا۔ اس کے کمرے کی کھڑکی سے ہمارے صحن کا منظر صاف دکھائی دیتا تھا۔ مجھے دیکھ کر وہ مسحور ہو گیا۔ کیونکہ میں واقعی خوبصورت تھی۔ دو بچوں کی ماں ہو کر بھی میں ایک دوشیزہ سی لگتی تھی۔ مجھے دیکھ کر کوئی یہ اندازہ نہیں لگا سکتا تھا کہ میں شادی شدہ ہوں اور دو بچوں کی ماں ہوں۔اظہر نے کھڑکی کھولی، اور جب میں نے اوپر نگاہ کی، تو اس نے ایک پھول صحن میں گرا دیا۔بلاشبہ، اظہر نہایت حسین و جمیل نوجوان تھا۔ تاہم، میرے دل نے فوراً جھٹکا دیا۔ میں نے سوچا، میں دو بچوں کی ماں ہوں، میرا شوہر چاہے بوڑھا ہو، مگر میرا خیال تو رکھتا ہے، مجھ سے محبت کرتا ہے۔ نانی بھی اسی کی کمائی پر آرام کرتی ہے۔ مجھے اس قدر احسان فراموش نہیں ہونا چاہیے کہ اس کے ہوتے ہوئے کسی اور کی طرف توجہ دوں۔یہ سوچ کر میں نے وہ پھول اٹھایا اور کوڑے میں ڈال دیا، تاکہ اظہر ناامید ہو جائے، اور اگر دل میں کوئی برا خیال آیا بھی ہے تو وہ شرمندہ ہو کر توبہ کر لے۔مگر وہ ناامید نہ ہوا۔میری اس حرکت نے اس کے شوقِ آوارگی کو اور بڑھا دیا۔ اب اس نے یہ وطیرہ بنا لیا کہ جب میں صحن میں ہوتی، اور نانی اندر کے کمرے میں اونگھ رہی ہوتی، تو وہ کھڑکی میں آکر کھانستا اور ایک پھول صحن میں گرا دیتا۔

میں بھی انسان تھی۔ آخر کب تک دامن بچاتی؟ اب وہ جس روز نظر نہ آتا، نگاہیں اُسے تلاش کرنے لگتیں۔ دل بجھا بجھا سا رہتا، زندگی میں کوئی بڑی کمی محسوس ہوتی۔ نہ چاہتے ہوئے بھی میں اُس کے خیالوں کے دام میں آتی گئی۔بنیادی طور پر میں اچھے خیالات رکھنے والی لڑکی تھی۔ زندگی کی سب سے بڑی محرومی سے دوچار ہونے کے باوجود گناہ کے بارے میں کبھی سوچا تک نہ تھا۔ محرومیاں اپنی جگہ، لیکن ان محرومیوں کو غلط راستوں سے پُر کرنا میرے مسلکِ زندگی میں شامل نہ تھا۔شامتِ اعمال کہ مالک مکان نے میرے شوہر ملک سے جا کر کہہ دیا کہ میرا بیٹا تعلیم کی غرض سے شہر میں رہتا ہے۔ مکان ہمارا اپنا ہے، مگر اسے کھانے پینے کی پریشانی رہتی ہے۔ مسلسل ہوٹل کے کھانے سے اس کے معدے میں تیزابیت ہو گئی ہے، اور وہ بیمار رہنے لگا ہے۔ملک نے جواب دیا، اپنا گھر ہے، پریشانی کی کیا بات ہے؟ کھانا اظہر کو ہمارے گھر سے مل جائے گا۔مالک مکان خوش ہو گیا۔ کہنے لگا، جب تک آپ چاہیں، میں مکان خالی کرنے کی بات نہیں کروں گا، اور کرایہ بھی نہیں بڑھاؤں گا۔ میرے بیٹے کی تعلیم کے صرف دو سال باقی ہیں، اس کے بعد وہ گاؤں چلا جائے گا۔ اس روز کے بعد اظہر کے کھانے کی ذمہ داری ہم پر آ گئی۔ 

میں صبح شام روٹیاں بنا دیتی۔ سبزی وغیرہ وہ خود لے آتا، تو سالن بھی تیار کر دیتی، کیونکہ یہ میرے شوہر کا حکم تھا۔ جب کھانا تیار ہو جاتا، نانی آواز لگاتیں، اور اظہر دروازے سے ٹرے اوپر لے جاتا۔ اسی طرح وہ روز برتن بھی دستک دے کر صحن کے فرش پر رکھ جاتا۔یہ کھانا لینے دینے کا سلسلہ، ایک وسیلہ بن گیا۔شوہر کام پر چلے جاتے، نانی سو جاتیں، تو کھانا دینا میرا کام بن جاتا۔ اندھے کو کیا چاہیے، دو آنکھیں! یوں اظہر کی دلی مراد بر آئی۔ اس کے تو بھاگ جاگ گئے۔شروع میں نانی یہ فرض خود انجام دیتی رہیں۔ پھر انہوں نے مجھ پر یہ ذمہ داری ڈال دی کہ میں اظہر کو کھانا دیا کروں۔ آگ اور کپاس کا کیا میل؟ وہ بدچلن لڑکا، اور میں محرومیوں کی ماری ہوئی۔ اس کی میٹھی میٹھی باتوں میں آ گئی۔ اور ایسا ہونا کچھ بعید بھی نہ تھا، کیونکہ میں خوبصورت اور جوان تھی۔اظہر نے مجھے سوچنے کا موقع ہی نہ دیا۔ 

ایک دن اس نے نہایت چالاکی سے اپنے غلط خیالات کی طرف مجھے مائل کر لیا۔اب دل کی ہر بات اُسے بتانے لگی۔ لگتا تھا جیسے برسوں کی قید کے بعد زندگی میں ایک دوست ملا ہو۔ دکھ درد اسی سے بانٹنے لگی۔ یوں لگا جیسے میری نئی زندگی شروع ہو گئی ہو۔ میں نے برسوں پرانے سمجھوتے کا بوجھ اتار پھینکا۔ وہ عورت جو خواہشوں کا گلا گھونٹ کر جی رہی تھی، اسے جیسے اچانک آکسیجن مل گئی ہو۔لہٰذا اظہر کے اکسانے پر، بغیر سوچے سمجھے، اپنے ننھے منے پیارے بچوں کو چھوڑ کر اس کے ساتھ گھر س نکل گئی۔بچے کس کو پیارے نہیں ہوتے؟ جانور تک اپنی اولاد پر جان وار دیتے ہیں، اور میں تو انسان تھی۔ مگر اپنے عزیز از جان جگر گوشوں کو بھی ان جذباتی لمحوں میں فراموش کر بیٹھی۔ اپنے بوڑھے شوہر کو بڑھاپے میں بے آسرا چھوڑ کر گھر سے قدم باہر نکالا، اور وہ دیوار پھلانگ گئی، جسے عورت کی عزت، اس کی شان، اور تحفظ کا نام دیا جاتا ہے۔نانی کی آنکھوں میں بھی دھول جھونک دی۔یہ سب کچھ شاید میرے بچپن کے ماحول کا اثر تھا، جو میں نے گاؤں میں گزارا تھا۔ میں زیورِ تعلیم سے محروم تھی۔ اگر تعلیم حاصل کر لی ہوتی، تو شاید ایسا نہ کرتی۔اظہر مجھے لے کر ایک دوست کے پاس دوسرے شہر آ گیا۔ 
شروع کے دنوں میں بچوں کی یاد نہ آئی، مگر بعد میں ان کی یاد نے بے چین کر دیا۔ جب میں روتی تو اظہر کو کوفت ہوتی۔ آخرکار اس کے دوست نے پتا کروایا، تو یہ افسردہ خبر ملی کہ میرے بھاگ جانے کے صدمے نے میرے شوہر کی جان لے لی۔ وہ یہ غم برداشت نہ کر سکا اور خالقِ حقیقی سے جا ملا۔میں نے اظہر کی منت کی کہ مجھے واپس جانے دو، کیونکہ میرے بچے بے آسرا اور ویران ہو چکے ہیں۔ ان کا نانی کے سوا اس دنیا میں کوئی سہارا نہیں۔ نانی بھی بوڑھی ہے، وہ بچوں کو کیسے سنبھال سکتی ہے؟ لیکن اظہر ایک سنگ دل انسان تھا، اس کے دل میں کوئی رحم نہ آیا۔ اس نے مجھے سابقہ گھر میں جانے کی اجازت نہ دی۔ وہ کہتا، جو اپنی تمام کشتیاں جلا دیتے ہیں، وہ واپس نہیں لوٹ سکتے۔ اظہر ایک نکما آدمی تھا۔ ہمیں سخت تنگ دستی میں گزارہ کرنا پڑا۔ اس نے مجھ سے شادی کو اپنے باپ سے بھی چھپایا تھا۔ جو جیب خرچ اسے والد سے ملتا تھا، اسی پر گزارہ تھا۔ نانی کرائے کا مکان چھوڑ کر واپس اپنے گاؤں چلی گئی اور میرے دونوں بچوں کو بھی ہمراہ لے گئی۔ وہ ننھے منّے ماں کو ڈھونڈتے تھے۔ میرے شوہر کے مکان کو نانی نے کرائے پر چڑھا دیا، جس کے کرائے سے بچوں کے دودھ اور ڈبل روٹی کا خرچ بمشکل پورا ہوتا تھا۔وقت گزرتا رہا۔ جب اظہر باہر جاتا، تو باہر سے تالا لگا جاتا تاکہ میں گھر سے نہ نکل سکوں۔ 

مجھے میرے بچوں کی خبر دینے والا کوئی نہ تھا۔ چار برس یونہی روتے سسکتے گزر گئے۔ اس دوران ایک بچی پیدا ہوئی، مگر چند روز ہی زندہ رہی۔ میں پھر سے تنہا ہو گئی۔اب مجھے اپنے بچوں سے بے وفائی کی سخت سزا مل رہی تھی اور میں روتے روتے پاگل ہونے لگی تھی۔ سوچتی تھی کہ کسی طرح اس قید سے نکلوں۔ یہاں تو بوڑھے شوہر کا گھر بھی لاکھ درجہ بہتر تھا۔ کاش میں گھر سے نکلتے وقت کچھ سوچ لیتی! لیکن جوانی کی بھول، بھول ہی ہوتی ہے — جس کا انجام اچھا نہیں ہوتا اور جو عمر بھر دکھ دیتی رہتی ہے۔اٹھتے بیٹھتے، جاگتے سوتے ہر دم یہی دعا لبوں پر رہتی: اے اللہ! مجھے میرے بچوں سے ملا دے۔‘ تواتر سے مانگی گئی دعا، جو دل سے نکلتی ہو، کبھی نہ کبھی قبول ہو ہی جاتی ہے۔ایک دن اظہر اپنے والد سے گاڑی مانگ کر لایا اور کہا، چلو، تمہیں سیر کراؤں۔ تم بہت اُداس اور رنجیدہ رہنے لگی ہو۔ جانے اس کے دل میں کیسے میرے لیے سیر کا خیال آ گیا! میں لمحہ بھر کو جی اٹھی۔ اس چار دیواری سے باہر نکلے ہوئے مدت گزر چکی تھی۔
وہ مجھے اس شہر لے آیا جہاں میری نانی کا گھر تھا، جہاں میرا شوہر رہتا تھا، اور جہاں میرے بچے رہتے تھے۔ ہم بازار سے گزر رہے تھے اور میں دل میں سوچ رہی تھی، کاش کوئی معجزہ ہو جائے اور میں اپنے بچوں کی ایک جھلک دیکھ سکوں۔ اسی سوچ میں کھوئی ہوئی تھی کہ اچانک نگاہ دو بچوں پر پڑی، جو بالکل میرے فہد اور حمّاد جیسے تھے۔ مگر ان کے چہرے میلے، کپڑے گندے اور پھٹے ہوئے تھے۔ وہ دبلے پتلے، ہڈیوں کے ڈھانچے، مدقوق چہروں والے بچے بھیک مانگ رہے تھے۔انہیں دیکھ کر میری چیخ نکل گئی۔اظہر نے پوچھا،کیا ہوا؟میں نے کانپتے ہاتھوں سے اشارہ کیا، وہ دیکھو! وہ میرے بچے فہد اور حماد ہیں۔‘اظہر بولا، تمہیں غلط فہمی ہوئی ہے۔ تم پاگل ہو گئی ہو۔ وہ فہد اور حماد ہرگز نہیں ہیں-

یہ کہتے ہوئے اس نے گاڑی تیزی سے آگے نکال لی اور میں غم سے بے ہوش ہو گئی۔جب ہوش آیا تو اپنے آپ کو گھر پر پایا۔ اظہر مجھے بے ہوش حالت میں گھر لا کر بستر پر لٹا چکا تھا اور بیرونی دروازے پر تالا لگا کر نجانے کہاں چلا گیا تھا۔تب میں اٹھ کر دیواروں سے سر ٹکرانے لگی۔ میری چیخیں پڑوس میں سنائی دیں تو پڑوسن نے دیوار کے ساتھ سیڑھی لگا دی اور پوچھا، کیا ہوا ہے؟میں روتے ہوئے بولی، خدا کے لیے مجھے یہاں سے نکالو، میں اپنے بچوں کو دیکھنا چاہتی ہوں۔پڑوسن بولی، یہاں سے نکلو گی تو کہاں جاؤ گی؟میں نے کہا، کہیں بھی چلی جاؤں گی، گاؤں چلی جاؤں گی۔ مگر مجھے یہاں سے نکال لو۔اس نے کہا، اچھا، میرا شوہر آئے گا تو میں اس سے کہوں گی۔ وہ تمہارے شوہر سے بات کرے گا۔

پڑوسی کے دباؤ پر اظہر مجھے میرے سابقہ گھر لے گیا، جہاں تالا پڑا ہوا تھا۔ نانی کے گھر پر بھی تالا لگا ہوا تھا۔ پڑوسیوں نے بتایا: تمہاری نانی کا انتقال ہو چکا ہے۔ کچھ دن ہم نے تمہارے بچوں کو سنبھالا، لیکن ایک دن وہ ہمارے گھر سے چپکے سے نکل گئے اور پھر کبھی واپس نہ آئے۔ ہم نے بہت تلاش کیا، مگر معلوم نہیں وہ کہاں چلے گئے۔ آہ! یہ خبر سن کر میرا دل ڈوب گیا۔ میں نے اپنی آنکھوں سے فہد اور حمّاد کو بھیک مانگتے دیکھا تھا۔ یقیناً وہ میرے ہی بچے تھے، میری ماں کی آنکھیں دھوکا نہیں کھا سکتیں۔ کاش! اُس ظالم اظہر نے وہاں گاڑی روک لی ہوتی، مجھے اُن سے بات کرنے دیتا، تو ہم انہیں اپنے ساتھ لے آتے۔اس واقعے کو کئی برس بیت چکے ہیں، مگر وہ منظر آج بھی میری آنکھوں میں نقش ہے
جب میں نے اپنے جگر کے ٹکڑوں کو سڑک پر بھیک مانگتے دیکھا تھا۔ خدا جانے ان پر کیا گزری، وہ آج کس حال میں ہوں گے۔ اظہر نے مجھ پر ایسی سخت پابندیاں عائد کر دیں کہ میں انہیں تلاش بھی نہ کر سکی۔ اسے اس معاملے سے کوئی دلچسپی نہ تھی کہ میرے بچے مجھے ملیں یا نہ ملیں۔ اسے ان یتیموں سے کیا سروکار، جن کا باپ مر چکا تھا اور ماں بھی کھو گئی تھی۔جب تک زندہ ہوں، مرتے دم تک بے چین رہوں گی۔ یہ ایک ایسی سزا ہے جو شاید موت کے بعد بھی ختم نہ ہو۔میری ہر عورت سے یہی التجا ہے کہ جب وہ ایک بار ماں بن جائے، تو پھر اپنی ذات کی خوشیوں کو پسِ پشت ڈال دے اور اپنی زندگی صرف اور صرف اپنے بچوں کے لیے وقف کر دے۔ کوئی عورت میرے جیسی غلطی کبھی نہ کرے۔ خواہ شوہر بوڑھا ہی کیوں نہ ہو۔

 (ختم شد)

اگر کہانی پسند آئی ہو تو فیس بک کمنٹ میں ضرور بتائیں۔ شکریہ