میرے بھائی کا اصل نام روپ سنگھ تھا۔ ان کو بچپن میں میرے والدین نے بے سہارا اور بے یار و مددگار پایا، تو گود لے لیا۔ تب سے وہ ہمارے ساتھ تھے۔ مجھے سگی بہن سمجھتے اور میں بھی ان کو ماں جیسا ہی مانتی تھی۔روپ سنگھ کی عمر خونی بٹوارے میں چار برس اور کی بڑی بہن بسنت کور سات برس کی تھی۔ سب جانتے ہیں کہ تقسیم کے وقت بہت سے لوگ بچھڑ کر اپنوں سے جدا ہو گئے، کٹ مر گئے، لٹ گئے۔ یوں لاکھوں گھر تباہ و برباد ہو گئے تھے۔ جب کسی سرزمین پر انقلاب آتا ہے تو ایسی تبدیلیاں دیکھنے کو ملتی ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ آپ کسی غاصب قوم سے آزادی مفت میں حاصل نہیں کر سکتے، اس کے لیے جانی و مالی، عزت و ناموس اور اپنے پیاروں کی قربانیاں دینی پڑتی ہیں۔ اسی لیے کہا جاتا ہے کہ آزادی ایک نعمت ہے، جس کی بہت بھاری قیمت چکانی ہوتی ہے۔
تب 1947 کا دور تھا۔ روپ سنگھ کی مانند بچے اپنے والدین کی شفقت بھری چھاؤں میں پل رہے تھے۔ دلیپ سنگھ اور اس کا خاندان بھی چک نمبر 76 یوسف والا کے قریب رہتا تھا۔ جب انہیں ہجرت کا سندیسہ ملا تو انہوں نے کوچ کی تیاری کی اور قافلے میں شامل ہو گئے۔ جب یہ قافلہ ریلوے اسٹیشن پہنچا تو اس پر حملہ ہو گیا۔ ہر شخص بھاگ کر جان بچانے کی کوشش کرنے لگا۔ ہر طرف لوگ گرے ہوئے تھے، کچھ بے جان پڑے تھے، کچھ لاشے خون میں لت پت تھے اور کچھ ایسے زخمی تھے جو بے ہوش تھے مگر سانس لے رہے تھے۔ کون زندہ ہے، کون مردہ، کچھ پتا نہیں چل رہا تھا۔ اس کے بعد لوٹ مار شروع ہو گئی۔روپ سنگھ اس وقت بہت کم سن تھا، لیکن اس وقت کے وحشتناک نظارے اس کے ذہن پر نقش ہو چکے تھے۔ اس نے یہ خونی کھیل اپنی آنکھوں سے دیکھا اور تاب نہ لا کر ایک جھاڑی میں جا چھپا اور وہاں گر کر بے ہوش ہو گیا۔
جب بلوہ ختم ہوا تو میرے والد اس طرف گئے۔ تب ہی انہیں جھاڑی میں ایک بچہ پڑا ہوا ملا، یہ روپ سنگھ تھا۔ میرے ابو اسے اپنے ساتھ گھر لے آئے اور والدہ کے سپرد کر دیا۔اس بچے کا نام معلوم نہیں تھا، نہ یہ پتا تھا کہ وہ کس کا لخت جگر ہے، لیکن اس کے والدین نے سمجھداری کا ثبوت دیا تھا کہ قافلے میں شامل ہونے سے پہلے اپنے بچوں کے ازار بند کے ساتھ ان کے نام لکھ کر باندھ دیے تھے۔ اس کے بھی ازار بند سے ایک لفافہ بندھا تھا، جس پر اس کے ماں باپ اور بہن بھائیوں کے نام لکھے ہوئے تھے۔ لوگ تو لوٹ مار کر رہے تھے، مگر میرے نیک دل ماں باپ ان لوگوں کو روکنے آئے تھے۔میرے والدین نے پہلا کام یہ کیا کہ روپ سنگھ کے بال قینچی سے کاٹ کر صاف کر دیے، اس کے زخم دھو کر دوائیں دیں، گرم گرم دودھ پلایا اور بہت پیار کیا جس سے اس کے حواس بحال ہو گئے۔
ان کی اولاد نرینہ نہیں تھی، انہوں نے روپ سنگھ کو اپنا بیٹا بنا لیا اور اسے کلمہ یاد کروا کر نیا نام محمد روپ سلیمان رکھا، جو اس کے مذہب کی عکاسی بھی کرتا تھا۔ جب اسے اسکول میں داخل کروایا تو والد نے ولدیت کے خانے میں اپنا نام اس لیے درج کرایا کہ شر پسند عناصر بچے کو سکھ ہونے کی بنیاد پر اس کی جان کے دشمن نہ بن جائیں، کیونکہ پڑوسی طرف سکھ بلوائیوں کے ہاتھوں ان کے رشتہ داروں کو جان سے ہاتھ دھونا پڑے تھے۔ تبھی اُن دنوں ہمارے گاؤں والے بھی سکھوں کے مخالف ہو رہے تھے۔اس طرح روپ سنگھ کو اپنا کر اور اپنا نام دے کر میرے ماں باپ نے ایک معصوم بچے کی جان بچائی، اسے پیار دیا، گھر کی ٹھنڈی چھاؤں تلے بہت لاڈ پیار سے پالا اور پروان چڑھایا۔ ہم سے یہی کہا کہ یہ تمہارا سگا بھائی ہے۔کسی کم سن بچے سے محبت کی جائے تو وہ محبت کا جواب محبت سے ہی دیتا ہے۔ روپ سنگھ بھی کہتا تھا کہ یہ کتنے عظیم لوگ ہیں، جنہیں خدا نے میرے ماں باپ کے روپ میں عطا کیا ہے، جو میری ہر خواہش پر قربان ہو جاتے ہیں۔میرے والدین کھیتی باڑی کرتے تھے۔ اس خونی انقلاب کے بعد انہوں نے اپنے مال مویشی اونے پونے بیچ دیے اور چک والوں کی چہ میگوئیوں سے بچنے کے لیے، جو وہ روپ سنگھ کے بارے میں کرتے تھے، ابو اپنا چک چھوڑ کر نزدیکی قبرستان کے قریب چلے گئے۔
یہ انہوں نے صرف ایک سکھ بچے کی زندگی بچانے کے لیے کی تھی تاکہ اسے نئی شناخت مل سکے اور معاشرے کے کتاہ ذہن کچھ لوگ اس کی آئندہ کی خوشیوں میں رکاوٹ نہ ڈال سکیں۔میرے والد نے شہر آ کر ایک چھوٹی سی دکان خریدی اور دکانداری شروع کر دی۔ اس طرح روپ سنگھ نے میٹرک امتیازی حیثیت سے پاس کر لیا۔ گویا والدین نے اُسے اس قدر ذہنی سکون دیا اور اس کے روحانی تقاضوں کا خیال رکھا کہ وہ سب کچھ بھول کر کلی طور پر پڑھائی پر توجہ مرکوز کرنے لگا، جس کا نتیجہ بہت اچھا نکلا۔میرے والدین کی زندگی کا مقصد یہی تھا کہ ان کا لے پالک بیٹا اعلیٰ تعلیم حاصل کر لے۔ وہ خود تو پڑھے لکھے نہیں تھے، مگر بیٹے کو خوب سے خوب تر تعلیم دلوانا چاہتے تھے۔ روپ سنگھ بھی بہت سمجھ دار اور میرے والدین کا سچا ہمدرد تھا۔ اُس نے سوچا کہ میرے ماں باپ بڑھاپے کی طرف بڑھ رہے ہیں، امیر بھی نہیں ہیں، محنت مشقت کر کے میری فیس بھرتے ہیں، لہٰذا ایف ایس سی کے بعد اس نے اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے بجائے نوکری کو ترجیح دی۔
ابا سمجھاتے: بیٹا! تم آگے پڑھو، ہم محنت کر کے تمہیں پڑھائیں گے، یہاں تک کہ تم اعلیٰ عہدے پر پہنچ جاؤ گے۔ لہٰذا اُس نے کالج میں داخلہ لے لیا۔ ایف ایس سی کی سند حاصل کی، تو اب مسئلہ لاہور یا ملتان جا کر مزید تعلیم حاصل کرنے کا تھا، جس پر خوب خرچ آنا تھا۔ چنانچہ بھائی نے ابا کو سمجھایا کہ: آپ بوڑھے ہو گئے ہیں، خود کو ہلاکت میں نہ ڈالیں، اور نہ مجھے خود سے دور تعلیم کے لمبے سفر پر بھیجیں۔ میں اوورسیز کے کورس میں داخلہ لے لیتا ہوں – اس طرح اس نے اوورسیز کا کورس پاس کر لیا اور اسے ایک سرکاری محکمے میں ملازمت مل گئی۔ یوں جب وہ کمانے کے قابل ہو گیا، تو والد سے اصرار کیا کہ اب آپ دکانداری چھوڑ دیں، کیونکہ صبح سے رات گئے تک دکان پر ایک ہی جگہ بیٹھے رہنے سے ابا کی صحت روز بروز گرتی جا رہی تھی۔ وہ اب اتنی مشقت نہیں کر سکتے تھے۔ والد صاحب کو گردوں کی تکلیف رہنے لگی تھی، جو مسلسل بیٹھے رہنے سے بڑھتی جا رہی تھی۔بالآخر انہوں نے دکان کو خیر باد کہہ دیا۔
وہ اب آزاد تھے، لہٰذا جہاں کہیں روپ سلیمان کی تعیناتی ہوتی، وہ وہیں اس کے ساتھ رہتے۔ یوں زندگی کے شب و روز خوش و خرم گزر رہے تھے۔میرے تہجد گزار والدین میرے بھائی کے لیے ہر وقت ترقی و کامرانی کی دعائیں کرتے تھے۔ 1965 میں میری والدہ کا انتقال ہو گیا۔ یہ ہمارے لیے ایک بڑا سانحہ تھا، خاص طور پر میرے بھائی کے لیے، کیونکہ ماں نے اسے سگے بیٹے سے بڑھ کر پیار دیا تھا۔ کبھی ڈانٹا، نہ جھڑکا۔ اس کی خاطر ہم سگی بیٹیوں کو ڈانٹتی اور مارتی تھیں، اور ہمارے حصے کی چیزیں بھی کبھی کبھی روپ کو دے دیا کرتی تھیں۔بہت دنوں تک بھائی سلیمان اور ہم سب بہنیں ماں کے لیے اداس رہے، پھر رفتہ رفتہ صبر آ گیا۔ ہم نے اسے اللہ کی رضا جانا۔ ہم بہنوں کی شادیاں ہو گئیں، تو گھر میں ابا اور بھائی ہی رہ گئے۔ ابا نے روپ پر پیار نچھاور کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی، کیونکہ وہ ماں کو یاد کر کے روتا تھا۔
ایک باورچی ان دونوں کا کھانا بنا کر دے دیا کرتا تھا۔ والدہ کی کمی ان دونوں کو بہت زیادہ محسوس ہوتی تھی۔ والد صاحب بیوی کی فرقت سے نیم جان تھے۔ گھر میں سب کو ایک گھر سنبھالنے والی کی ضرورت محسوس ہوتی تھی۔ابا جان روپ سلیمان کی شادی پر اصرار کرنے لگے۔ ہم نے بھی اُسے سمجھایا کہ ابا جان بہو لانا چاہتے ہیں اور تمہاری شادی کا یہی صحیح وقت ہے۔ وہ تمہاری خوشی دیکھنا چاہتے ہیں۔ بالآخر والد صاحب کے کہنے پر بھائی نے ابا کے دوست کی بیٹی سے شادی پر ہاں کر دی۔ گھر میں بہو آ گئی، اور ایک سال بعد میرے والد نے پوتے کی خوشی بھی دیکھ لی۔ والد صاحب پوتے پوتیوں کی رونق اور بہو کے حسنِ سلوک سے بہت خوش تھے۔ ہم چاہتے تھے کہ وہ دی ہمارے درمیان یونہی ہنستے مسکراتے موجود رہیں، کیونکہ ان کا وجود گھر میں خیر و برکت کا باعث تھا۔ لیکن اچانک ایک دن ان کا بلاوا آ گیا، اور وہ اس دنیا سے رخصت ہو گئے۔والدہ کا غم ابھی میرے بھائی کے دل سے اٹھا نہ تھا کہ والد بھی داغِ مفارقت دے گئے۔ سلیمان تو جیسے اندر سے ٹوٹ گیا۔ بیوی بچوں کے ہوتے ہوئے بھی خود کو تنہا محسوس کرتا تھا۔ وہ ہر دم آزردہ اور پرملال رہنے لگا۔
بھابی بہت سمجھدار تھی۔ اس نے روپ سلیمان کو بہت سہارا دیا۔ وہ ہر وقت بھائی کو دلاسا دیتی کہ: “تم مسلمان ہو، اور مسلمان موت سے آزردہ نہیں ہوتے۔ والدین اپنے خالق کے پاس چلے گئے، لیکن ان کی روحیں تبھی سکون میں رہیں گی جب تم اس دنیا میں خوش و خرم رہو گے۔ شکر کرو، اللہ نے تمہیں سب کچھ دیا ہے گھر، اچھی نوکری، بیٹے، بیٹیاں اور کیا چاہیے؟ تمہاری شریکِ حیات تمہارے ساتھ ہے، بہنیں تم پر جان نچھاور کرتی ہیں۔میری بھابی بے شک ایک مثالی بیوی تھی، لیکن اُسے یہ نہیں معلوم تھا کہ اس کے شوہر کو ایک نہیں، دو غم ہیں — ایک زخم مسلمان والدین کے انتقال کا، جنہوں نے اُسے پالا، پوسا، پروان چڑھایا، محبت دی؛ اور دوسرا زخم، خونی انقلاب کا، جس نے اُسے اس کے حقیقی ماں باپ سے جدا کر دیا۔میرے والد اپنی وفات سے چند روز قبل بہت اداس رہنے لگے تھے، جیسے ان کے سینے پر کوئی بوجھ ہو۔ جیسے کوئی امانت ان کے پاس ہو اور وہ اُسے اس کے اصل مالک کو لوٹانا چاہتے ہوں۔ بالآخر، وفات سے دو دن قبل انہوں نے سلیمان بھائی کو بتایا کہ: تم مجھے اُس وقت ملے تھے جب بلوے میں اپنے والدین سے بچھڑ گئے تھے-
انہوں نے وہ کاغذ، جو موم جامے میں لپٹا ہوا تھا، بھائی کو دے دیا اور کہا: اس میں تمہارے حقیقی والدین اور بہن بھائیوں کے نام درج ہیں۔ یہ تمہارے خاندان کی تفصیل ہے۔ شاید کبھی تم ان تک پہنچ سکو۔ یہ ایک امانت تھی جو میں نے سنبھال کر رکھی تھی، آج تمہیں لوٹا رہا ہوں تاکہ تمہیں اپنی اصل شناخت کا علم ہو سکے۔والد کے انتقال پر روپ اس قدر رویا کہ اُسے سنبھالنا مشکل ہو گیا۔ وہ کہتا تھا: آج میرا دل ویران ہو گیا ہے کاش میں بھی بلوے میں مارا گیا ہوتا، تو امی جان اور ابا جان کی جدائی نہ دیکھنی پڑتی۔ اُسے اپنے حقیقی والدین کی جدائی کا دکھ نہ تھا، کیونکہ اُس وقت وہ نا سمجھ بچہ تھا، مگر پرورش کرنے والے والدین کے بعد وہ خود کو بالکل تنہا محسوس کرتا تھا۔وقت کی اپنی چال ہے، اور وہ اپنے حساب سے چلتا ہے۔ کوئی کہتا ہے کہ وقت دبے قدموں گزرتا ہے، اور کوئی کہتا ہے کہ پروں سے اُڑتا ہے۔ بہرحال، یہ کٹھن وقت بھی بیت گیا۔ روپ سلیمان رفتہ رفتہ والدین کی جدائی کا غم سہہ گیا اور اپنے بچوں کی خوشیوں میں مگن ہو گیا۔
اُس نے اپنے دونوں بیٹوں اور بیٹیوں کو اعلیٰ تعلیم دلائی، اور آج وہ سب اعلیٰ سرکاری عہدوں پر فائز ہیں بھائی روپ سلیمان اپنی ملازمت سے ریٹائر ہو چکے ہیں۔ وہ بڑھاپے میں اپنے بچوں کے ساتھ آرام کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔ اب وہ اسی برس کے ہونے کو ہیں، مگر اپنے ماضی کے بارے میں کسی سے بات نہیں کرتے۔ البتہ، کبھی کبھی جب ہم بہن بھائی مل بیٹھتے ہیں، تو وہ مجھ سے دل کا احوال کہتے ہیں۔ کیونکہ انہیں معلوم ہو چکا ہے کہ وہ ایک سکھ خاندان میں پیدا ہوئے تھے۔ اُنہیں اپنے ماں باپ اور بہن بھائیوں کے نام بھی معلوم ہو چکے ہیں، لیکن یہ معلوم نہیں کہ وہ زندہ ہیں یا نہیں۔وہ کہتے ہیں کہ دل میں ایک تڑپ ضرور ہے کہ کاش میرے خاندان کا کوئی فرد کبھی مجھے مل جائے، تو اُسے گلے لگا لوں۔ ہو سکتا ہے ربِّ العزت نے ان میں سے کسی کو زندہ رکھا ہو۔میرے بھائی نے کئی عمرے کیے، دو بار حج بھی کیا۔ وہ ایک پکے مسلمان ہیں اور اپنے مذہب سے مکمل طور پر مطمئن بھی۔ لیکن انسان اپنی اصل کو جاننے کی خواہش رکھتا ہے، اور یہی وجہ ہے کہ اپنوں کی چاہت آج بھی اُن کے دل میں زندہ ہے۔میں سوچتی ہوں اے کاش! ابا جان، روپ سلیمان کو اس کی حقیقت نہ بتاتے، تب شاید میرے بھائی کا دل مطمئن اور پُر سکون ہوتا، اور یہ خلش نہ رہتی کہ اس کے “اپنے” کہاں ہیں۔