شادی کا فریب

Sublimegate Urdu Stories

میری سہیلی زیتون کے کسی رشتہ دار کی شادی تھی۔ میں بدیسی طرز کی شادی دیکھنے کے شوق میں اُس کے ساتھ چلی گئی۔ لمبی ڈرائیو کے بعد ہم دلہن کے گھر پہنچے، جہاں اس کی رشتہ دار خواتین نے ہمارا پرتپاک استقبال کیا۔ گھر کی دیواروں پر گیندے کے پھولوں کے ہار سجے ہوئے تھے، اور کھوپرے کو مختلف رنگوں میں رنگ کر اس قدر خوبصورت پھول اور پتیاں تراشی گئی تھیں کہ نظریں ہٹائے نہ ہٹیں۔ یہ ایک انڈونیشی لڑکی کی شادی تھی، جو اب امریکہ میں مقیم تھی۔ابھی میں نے کھوپرے کے دودھ سے بنے شربت کے چند گھونٹ ہی لئے تھے، جس میں مونگ پھلی کے ٹکڑے بادام کی مانند شامل تھے، کہ دلہن کا بھائی گھبرایا ہوا آیا اور انڈونیشی 
زبان میں زیتون سے کچھ کہا۔ ہمیں معلوم ہوا کہ کسی پاکستانی لڑکی کو اُس کے بوائے فرینڈ نے قتل کر دیا ہے۔

 اُسے غسل دینے کے لیے مسلمان خواتین کی ضرورت ہے۔ میں اور زیتون اُس کی گاڑی میں ایک چرچ پہنچے، جہاں لاش رکھی گئی تھی۔ دروازے کے باہر ایک پچاس سے پچپن سالہ پاکستانی شخص موجود تھا، جس کا چہرہ سپاٹ، پلکیں جھکی ہوئی اور بدن بھاری تھا۔ اُس کے ساتھ ایک سفید فام عورت کھڑی تھی، جو بظاہر پریشان نظر آ رہی تھی، مگر اس کے چہرے کی سختی سے اندازہ ہوتا تھا کہ وہ ایک بے رحم قسم کی عورت ہے۔پاکستانی شخص کا نام مستین تھا۔ اُس نے مجھے بتایا کہ زبیدہ نامی اس لڑکی کو وہ پاکستان سے بطور ملازمہ لایا تھا۔ شام کو وہ کام کاج سے فارغ ہو کر اپنے کسی سیاہ فام بوائے فرینڈ کے ساتھ چلی جایا کرتی تھی۔ ایک دو بار اُس کے بوائے فرینڈ نے اُسے مارا پیٹا بھی تھا، اور چند دنوں سے وہ لاپتا تھی۔ 

گزشتہ رات اُس کی لاش اُن کے گھر کے باہر گھاس پر پڑی ملی۔ مستین اور اُس کی بیوی نے فوراً پولیس کو اطلاع دی، جس نے لاش کو پوسٹ مارٹم کے لیے اسپتال بھجوا دیا۔ اب وہ اسلامی طریقے سے اس کی تجہیز و تکفین چاہتے تھے، اسی لیے ہماری مدد طلب کی گئی۔اس چھوٹے شہر میں چونکہ کوئی بڑی مسجد یا مسلمانوں کے لیے غسلِ میّت کا الگ انتظام موجود نہ تھا، اس لیے مجبوراً چرچ کے میّت خانے میں لاش رکھ دی گئی تھی۔ میں اور زیتون وضو کر کے غسل خانے کی طرف جانے لگیں، تو وہ خونخوار بڑھیا بھی ہمارے ساتھ اندر جانے کو تیار ہو گئی۔ کہنے لگی، وہ ہماری مدد کرے گی۔ میں نے صاف انکار کر دیا اور اُسے بتایا کہ مسلمان عورت کو کوئی غیر مسلم نہلا نہیں سکتی۔ مگر وہ بضد تھی اور اب بدتمیزی پر اُتر آئی تھی۔ تبھی مجھے غصہ آ گیا اور میں نے کہا، اس لاش کو سرد خانے میں رکھوا دیں، میں اس عورت پر مقدمہ دائر کروں گی! میری آواز بلند ہوئی، تو آٹھ دس لوگ ہمارے گرد جمع ہو گئے، جن میں ایک میکسیکن لڑکی بھی شامل تھی۔ وہ بہت غمزدہ لگ رہی تھی؛ آنسو بار بار اُس کی آنکھوں سے چھلک رہے تھے۔ 

میری دھمکی کا اثر ہوا۔ متین، جو اپنی انگریز بیوی سے عمر میں چھوٹا تھا، اُسے ایک طرف لے گیا اور کچھ سمجھانے لگا۔ لگتا تھا کہ وہ دونوں میری بات سے خوفزدہ ہو گئے تھے۔اندر چبوترے پر چادروں سے ڈھکی ہوئی لاشوں کے درمیان زبیدہ کا مردہ جسم بھی رکھا ہوا تھا۔ چبوترے کے چاروں طرف کوئی پردہ یا پارٹیشن نہیں تھا۔ میں نے پردے کے لیے درخواست کی، تو وہاں موجود منتظم جھلا کر بولا، آخر دوسرے پادری بھی تو میّتیں نہلا رہے ہیں، تم کیوں مسئلہ پیدا کر رہی ہو؟ اپنا کام کرو اور چلی جاؤ۔ دو گھنٹے کا کرایہ ہمیں ملا ہے۔ تب زیتون اور میں نے بادل نخواستہ اُس بدنصیب لڑکی کے چہرے سے چادر ہٹائی، تو ہماری سسکی نکلتے نکلتے رہ گئی۔ یہ کوئی بیس بائیس سالہ سانولی سلونی لڑکی تھی، جس کے جسم پر جگہ جگہ گہرے نیل اور کھرونچیں تھیں۔ غسل دیتے ہوئے ہمیں اندازہ ہوا کہ اس کے جسم کے نازک حصوں پر کسی بھاری چیز سے ضرب لگائی گئی تھی۔ اسی طرح اُس کے گھٹنے کی ہڈی بھی چکنا چور تھی۔ صابن ملا سفید پانی جب اُس کے جسم سے بہتا، تو اُس کا رنگ گہرا گلابی ہو جاتا۔میت کی حالت دیکھ کر ہم روتے روتے کلمۂ طیبہ پڑھنے لگیں۔ 

جب زیتون نے کفن ڈالنے کے لیے اُس کا سر آہستہ سے اُٹھایا، تو یوں محسوس ہوا جیسے کوئی گیند لڑھک گئی ہو۔ تب ہمیں معلوم ہوا کہ اُس کی ریڑھ کی ہڈی کا پہلا مہرہ بھی ٹوٹ چکا ہے۔بے حد دُکھ اور صدمے کے ساتھ ہم نے اپنی ہم وطن، مظلوم پاکستانی لڑکی کو آخرت کے سفر کے لیے تیار کیا اور بھاری دل کے ساتھ غسل خانے سے باہر آ گئیں۔ ہمارے باہر نکلتے ہی وہی میکسیکن لڑکی، جو مسلسل رو رہی تھی، میرے پاس آئی اور ٹوٹی پھوٹی انگریزی میں زبیدہ کا چہرہ دیکھنے کی اجازت مانگی۔ چونکہ میرا اُس معصوم مرحومہ پر کوئی اختیار نہ تھا، اس لیے میں نے اُسے اُس کے مالک کی طرف اشارہ کیا، اور زیتون کے ہمراہ واپس اُس گھر آ گئی جہاں شادی کی تقریب جاری تھی۔ ہم ایک مسلمان لڑکی کو آخری غسل دینے کی خاطر یہ تقریب چھوڑ کر آئے تھے، مگر خوشی کے اس گھر میں زبیدہ کا چہرہ بار بار آنکھوں کے سامنے آتا رہا۔

تین ماہ بعد، ایک دن میں اسٹور سے سامان لینے گئی، تو وہی میکسیکن لڑکی مجھے نظر آئی۔ وہ بھاگتی ہوئی میرے پاس آئی۔ وہی لڑکی، جو زبیدہ کے غسل کے وقت چرچ میں ملی تھی۔ اُس نے اصرار کیا کہ میں اُس کی بہن کے گھر ملاقات کے لیے آؤں، یا پھر اُسے اپنے گھر بلاؤں۔ وہ چند روز کے لیے شہر آئی ہوئی تھی۔ اُس کی ضد سے مجبور ہو کر میں مارتھا کی بہن کے گھر اُس سے ملنے چلی گئی۔

مارتھا نے بتایا کہ جس زبیدہ کی میّت کو ہم نے چرچ میں غسل دیا تھا، مارتھا اُس کے برابر والے گھر میں ملازمہ تھی۔ زبیدہ دراصل نوکرانی نہیں تھی، بلکہ اُسے اُس کا مالک بیاہ کر لایا تھا، جس کا نام متین تھا۔ متین ایک عمر رسیدہ انگریز عورت کا شوہر تھا۔ وہ بوڑھی میم خود کام نہیں کر سکتی تھی، اس لیے اُس نے اپنے شوہر کو مشورہ دیا کہ وہ اپنے وطن جا کر کوئی خادمہ لے آئے، جو گھر کے تمام کام سنبھال سکے۔ متین پاکستان گیا، تو ایک اہم شخصیت کے طور پر اُس کا استقبال ہوا، اور ایک غریب لڑکی کو، جو زبیدہ تھی، اُس سے نکاح کر دیا گیا۔ لڑکی کے بھائی بہت خوش تھے کہ جب زبیدہ امریکی شہریت حاصل کر لے گی، تو وہ انہیں بھی امریکہ بلا سکے گی۔ یہ لڑکی نوجوان تھی، اور نوجوانی کے اپنے خواب ہوتے ہیں۔ زبیدہ خود بھی امریکہ جانے کے تصور میں کھو گئی تھی۔ نکاح کے بعد متین صاحب دوبارہ امریکہ آئے۔ جس لڑکی نے کبھی ہوائی جہاز کو اندر سے نہ دیکھا تھا، وہ اب امریکہ جا رہی تھی۔ جب وہ شوہر کے ساتھ نیویارک کے ہوائی اڈے پر اتری، تو جھلملاتے بے شمار ستاروں کی باراتیں اُس کی آنکھوں کو خیرہ کرنے لگیں۔ جب وہ شوہر کے گھر کے سجے ہوئے ڈرائنگ روم کے صوفے پر دھم سے بیٹھی، تو اُسے لمبے سفر کے بعد بہت آرام محسوس ہوا۔ لیکن ابھی اُس نے پوری طرح سے سکون کا سانس بھی نہ لیا تھا کہ عمر رسیدہ گوری میم اندر سے نمودار ہوئی اور اپنا تعارف کرانے کے بعد بولی میں متین کی مسز ہوں، اس گھر کی مالکن۔ تم تھکی ہوئی ہو، ایسا کرو کہ اپنا سامان اُٹھا کر میرے پیچھے چلی آؤ، میں تمہیں تمہارے کمرے میں پہنچا دیتی ہوں۔ اس نے زبیدہ کو گھر کے آخری کونے میں ایک الگ تھلگ کمرے میں پہنچا دیا اور حکم دیا کہ اپنا سامان نکال کر سلیقے سے الماری میں رکھ دو، اب تم یہیں رہو گی۔

یہ کمرہ ہمارے نوکروں کے لیے مختص ہے۔ زبیدہ نے بے بسی سے متین کی طرف دیکھا، جو اُسے بیوی بنا کر لایا تھا۔ وہ آنکھیں نہیں ملا رہا تھا، ایسا بے جان، بے زبان بُت بنا کھڑا تھا کہ زبیدہ کو اُس کی بے بسی کا احساس کر کے رونا آ گیا۔اسی شام متین کی مسز نے اُسے کام کی ایک لمبی فہرست تھما دی۔ زبیدہ کے دل میں جھلملاتے خوابوں کے ستارے ماند پڑ گئے۔ اُسے اندازہ ہو گیا کہ اُس کے ساتھ بہت بڑا دھوکہ ہوا ہے۔ نکاح تو بس خانہ پری تھی، اصل میں اُنہیں خادمہ کی ضرورت تھی۔وہ ایک صابر و شاکر لڑکی تھی۔ اپنے غریب والدین کا خیال کر کے اُس نے حالات سے سمجھوتا کر لیا اور نوکرانی بن کر وہاں دن گزارنے لگی۔
یہ اُن دنوں کی بات ہے جب پاکستان میں ہر گھر میں فون نہیں ہوتا تھا۔ وہ بھی ایک غریب گھر سے تھی، اس لیے رابطے کے لیے عام پاکستانیوں کی طرح خط و کتابت کا سہارا لیتی۔ وہ اردو میں خط لکھ کر متین کو دے دیتی، جو اُنہیں پڑھنے کے بعد پوسٹ کر دیتا تھا۔ وہ یہاں کے حالات اپنے گھر لکھ سکتی تھی، مگر نہیں لکھتی تھی، کیونکہ اگر وہ سب کچھ لکھ دیتی، تو یقینا متین وہ خطوط کبھی پوسٹ نہ کرتا۔ زبیدہ صبح سے شام تک گھر کا کام کرتی۔ گھر میں لگے کیمرے اُس کی ہر حرکت ریکارڈ کرتے تھے۔ ہفتے میں ایک دن گھاس کاٹنے کے بہانے اُسے باہر نکلنے کا موقع ملتا، اور اُس وقت وہ برابر والے گھر کی ملازمہ، یعنی مارتھا ، سے بات کر لیا کرتی تھی۔ گوری میم، جو اُس کی سوتن تھی مگر مالکن بنی ہوئی تھی، اُس پر کڑی نظر رکھتی تھی۔ اُس نے زبیدہ کو سمجھا دیا تھا کہ وہ متین کے ساتھ زیادہ کھل کر بات نہیں کر سکتی، اگر ایسا کیا، تو اُسے واپس پاکستان بھجوا دیا جائے گا۔تبھی زبیدہ سہمی سہمی رہتی تھی، کیونکہ ایوا میم بہت کم گھر سے باہر جاتی تھی۔

 وہ زیادہ تر گھر میں آرام کرنا پسند کرتی تھی، اور باغ میں چہل قدمی کرتی تھی۔ لیکن وہ باغ بھی اُسی کے گھر کا تھا۔ جب متین کو سودا سلف لینا ہوتا یا شاپنگ کا پروگرام بنتا، تو ایوا اُس کے ساتھ جاتی، یا وہ دونوں لمبی ڈرائیونگ پر نکل جاتے۔ ایسے وقتوں میں زبیدہ کو گھر پر تنہا چھوڑ دیا جاتا۔زبیدہ پانچویں جماعت پاس تھی، اس لیے وہ انگریزی نہیں سمجھ سکتی تھی۔ یہی وجہ تھی کہ جب متین اور ایوا میم آپس میں بات کرتے، تو اُن کی باتیں اُس کی سمجھ سے باہر ہوتیں اور اُس کے سر سے گزر جاتیں۔ گھر میں اُسے اس لیے بھی تنہائی محسوس ہوتی کہ اُس کے ساتھ بات کرنے والا کوئی نہ تھا۔ اُسے اس ملک کے قوانین کا کوئی علم نہ تھا اور اُسے فون اٹھانے کی بھی ممانعت تھی۔ اگر کبھی فون اٹھا بھی لیتی، تو کیا جواب دیتی؟ سامنے والا ہمیشہ انگریزی میں بات کرتا، جو اُس کے لیے اجنبی زبان تھی۔
ایک دن شام کے وقت ایوا میم اپنی سہیلی کی سالگرہ میں گئی۔ آج متین گھر میں اکیلا تھا۔ اُس نے زبیدہ کو تنہا پایا تو اُس کے پاس آ کر باتیں کرنے لگا۔ زبیدہ بھی اُس کے ساتھ باتوں میں محو ہو گئی۔ آخر وہ اُس کی بیوی کے طور پر ہی تو آئی تھی۔دو دن بعد، جب ایوا نے کیمروں کی ریکارڈنگ چیک کی، تو غصے کے مارے اُس کا برا حال ہو گیا۔ اُس نے متین کو خوب برا بھلا کہا اور زبیدہ کو بری طرح مارا پیٹا۔ ایوا کے غصے کو دیکھ کر متین اتنا ڈر گیا کہ اپنے کمرے میں جا کر دروازہ بند کر لیا۔ زبیدہ اپنے کمرے میں تھی۔ متین، ایوا کے غصے سے خوف زدہ تھا، کیونکہ وہ اُسے پولیس کے حوالے کر کے جیل بھی بھجوا سکتی تھی۔اب متین صبح سویرے ناشتہ کیے بغیر دفتر چلا جاتا، اور شام کو آ کر خود ہی کچن سے کھانا نکالتا، گرم کرتا اور کھا کر خاموشی سے اپنے کمرے میں چلا جاتا۔ اس طرح تین دن تک اُس نے زبیدہ کو نہ دیکھا اور نہ ہی مارتھا سے پوچھا کہ وہ کہاں ہے؟اتوار کا دن تھا۔ ایوا میم باغ میں چہل قدمی کے لیے نکلی، تو مارتھا نے اُس سے پوچھا:آپ کی ملازمہ زبیدہ نظر نہیں آ رہی، وہ کہاں ہے؟ایوا غصے سے بولی: اگر تم نے زبیدہ کے بارے میں مزید کچھ پوچھا، تو میں تمہیں امریکہ سے نکلوا دوں گی یا جیل بھجوا دوں گی، کیونکہ میں جانتی ہوں کہ تم یہاں غیر قانونی طور پر رہ رہی ہو۔ 

مارتھا ڈر گئی، مگر ایک رات جب اُس نے پولیس کی گاڑی متین کے گھر کے باہر دیکھی، تو فوراً باہر نکل آئی۔ گھاس پر زبیدہ بری حالت میں پڑی تھی۔ایوا نے پولیس کو بیان دیا کہ اُس نے چار دن پہلے اپنی خادمہ کے لاپتہ ہونے کی رپورٹ درج کرائی تھی، اور اب جب وہ باغ میں چہل قدمی کے لیے نکلی، تو زبیدہ گھاس پر بے ہوش پڑی ملی۔ اُس نے کہا،مجھے معلوم نہیں، شاید اُس کے کسی بوائے فرینڈ نے اُسے زدوکوب کر کے یہاں پھینک دیا ہے، یا کچھ اور واقعہ ہوا ہے۔ پولیس نے زبیدہ کو ایمبولینس کے ذریعے اسپتال پہنچایا، مگر وہ بے چاری راستے ہی میں دم توڑ گئی۔ وہ بیان دینے کے قابل نہ تھی۔ غریب گھر کی روکھی سوکھی کھا کر پلنے والی یہ لڑکی دن رات محنت کرتے کرتے پہلے ہی نڈھال ہو چکی تھی، اور اوپر سے ایوا نے اُسے کسی سے سخت مار بھی کھلوائی تھی۔جس شوہر کی آس لے کر وہ یہاں تک آئی تھی، وہ تو اُسے صرف خادمہ بنا کر لایا تھا۔ وہ اپنی انگریز بیوی کے دباؤ میں تھا، اور اُسے کبھی بچا نہ سکا۔
ساری بات مارتھا نے مجھے بتا کر کہا کہ میں اُس کا نام لیے بغیر پوری حقیقت پولیس کو بتا دوں۔ وہ عینی شاہد تھی، مگر پولیس کو یہ سب بتانے سے صرف اس لیے ڈرتی تھی کہ وہ خود امریکہ میں غیر قانونی طور پر مقیم تھی۔ مجھے بخوبی علم ہے کہ پاکستان میں لڑکیوں کی شادیاں ایک بڑا مسئلہ ہیں، مگر خدارا! صرف امریکہ کے لالچ میں اپنی بچیوں کو یوں قصائیوں کے حوالے نہ کریں۔ ورنہ اُن بچیوں کا انجام بھی زبیدہ جیسا ہو سکتا ہے۔میری کزن کے کچھ قریبی رشتہ دار امریکہ میں رہتے تھے۔ اُن سے اس دیس کی ترقی اور سہولتوں کے بارے میں سن کر دل میں خواہش پیدا ہوتی تھی کہ میں بھی امریکہ جاؤں اور وہاں سکونت اختیار کروں۔ لیکن یہاں آنے کے بعد کچھ ایسے واقعات دیکھنے کو ملے کہ اگر اُنہیں لکھنے بیٹھوں تو روح تک کانپ اٹھے۔بے شک، ہر جگہ اچھے اور برے لوگ پائے جاتے ہیں۔ کوئی بھی ملک یا شہر اچھائی اور برائی سے مکمل پاک نہیں ہوتا۔ کہیں کم، کہیں زیادہ جرائم ہوتے ہیں، مگر اپنے ملک میں ایک ڈھارس ہوتی ہے کہ وہاں ہمارے ہم زبان اور شناسا لوگ ہوتے ہیں۔ لیکن دیارِ غیر میں جب کوئی مصیبت آ جائے، تو انسان کو صحیح معنوں میں غریب الوطنی کے درد سے دوچار ہونا پڑتا ہے۔اگر زبیدہ اپنے وطن میں ہوتی، تو شوہر کے دھوکے سے بچ سکتی تھی۔ ایوا کی چیرہ دستی دیکھ کر اپنے میکے چلی جاتی۔ مگر یہاں وہ بالکل اکیلی تھی، تنہا، لاچار، بے زبان اور بے سہارا۔جب ہم اپنوں سے دور ہوں، اور پردیس میں غریب الوطنی کے دکھ سہتے ہوں، تب بہت سی باتوں کے معنی گہرائی سے سمجھ میں آنے لگتے ہیں۔

 (ختم شد)

اگر کہانی پسند آئی ہو تو فیس بک کمنٹ میں ضرور بتائیں۔ شکریہ