زہرہ میری خالہ زاد تھی۔ وہ ایک اعلیٰ خاندان سے تعلق رکھتی تھی۔ اس کے دادا گاؤں کے چوہدری تھے اور والد بڑے افسر تھے۔ ان کی پوسٹنگ مختلف جگہوں پر ہوتی رہتی تھی اور وہ جہاں بھی جاتے، بڑے بڑے بنگلوں میں رہائش اختیار کرتے۔خالو جان کا ہم سے دور کا رشتہ تھا، لیکن وہ ہمیں خاصی اہمیت دیتے تھے۔ جب کبھی ہم ان کے گھر جاتے، خاطر تواضع میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھتے۔ مجھے اپنی بیٹی جیسا مانتے تھے۔خاندان میں خالہ جان کو بہت خوش قسمت سمجھا جاتا تھا، کیونکہ وہ نہایت خوشحال زندگی گزار رہی تھیں۔ زہرہ ان کی چھوٹی بیٹی تھی۔ خالہ کے دو بیٹے بھی تھے، غلام مصطفیٰ اور غلام مرتضیٰ۔ دونوں ہی نہایت پیارے بچے تھے، لیکن زہرہ سب سے زیادہ لاڈلی تھی۔خالو جان کو سرکار کی طرف سے دو ملازم ملے ہوئے تھے۔ ایک کا نام باری تھا، جو گھریلو کام کاج کرتا تھا، اور دوسرا گیٹ کیپر تھا۔ جب وہ گاؤں آتے، یہ ملازم ان کے ساتھ ہوتے اور ان کے گھر کی نگرانی کرتے۔یہ لوگ گاؤں کم ہی آتے تھے۔ خالہ جان کا کہنا تھا کہ وہ اپنے بچوں کو مٹی میں گندا نہیں ہونے دینا چاہتیں، کیونکہ گاؤں میں ہر طرف مٹی ہی مٹی ہے۔ وہ اپنے بچوں کو گاؤں کے بچوں کے ساتھ کھیلنے بھی نہیں دیتی تھیں۔اللہ تعالیٰ نے خالہ جان کو بے شمار نعمتوں سے نوازا تھا، جن کا شمار ممکن نہ تھا۔ لیکن قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔
اچانک ایک حادثے میں خالو جان کا انتقال ہو گیا۔ ان کی وفات کے بعد خالہ جان کو نہ صرف سرکاری مراعات سے ہاتھ دھونا پڑا بلکہ ملازم بھی چھوٹ گئے۔ مجبوری کے عالم میں وہ گاؤں کے سرسید کے بنگلے میں آ کر رہنے لگیں، جہاں ان کی زمینداری تھی۔زہرہ کے پاس اب بھی دنیا کی ہر نعمت تھی، کسی چیز کی کمی نہ تھی۔ زمینیں ان کی اپنی تھیں، لیکن باپ کا سایہ اور شفقت موجود نہ تھی، اور یہ ایسی کمی تھی جو کبھی پوری نہ ہو سکی۔زمینوں پر کام کرنے والے ایک مزارع نے اپنا بارہ سالہ بیٹا خالہ جان کے سپرد کر دیا اور کہا کہ اسے آپ کی خدمت پر مامور کیا ہے، جو کام کرانا ہو، کرا لیا کریں۔زہرہ اس وقت صرف دو سال کی تھی۔ جو لڑکا ان کے گھر ملازم آیا، اس کا نام یوسف تھا۔ وہ نہایت نیک، تابع دار اور خوبصورت تھا۔ خالہ جان نے اس کی ذمہ داری قبول کر لی، اور اس کی شرافت دیکھ کر اسے اسکول بھیجنے کا فیصلہ کیا۔وقت گزرتا رہا۔ یوسف صبح اسکول جاتا اور باقی وقت خالہ جان کی خدمت میں حاضر رہتا۔
وقت گزرتے دیر نہیں لگتی۔ اب خالہ جان کے بچے جوان ہو چکے تھے۔ یوسف بھی اب نوجوان تھا، اس نے ایف ایس سی پاس کر لی تھی۔ اس کی تابعداری میں ذرا برابر بھی فرق نہیں آیا تھا۔ وہ لڑکا ایسی خوبیوں کا مالک تھا کہ خالہ جان کو اس سے دلی محبت ہو گئی، اور وہ اسے اپنی اولاد کی طرح چاہنے لگیں۔ اسے بالکل اپنے بیٹوں جیسا رکھا جاتا۔ کسی کو یہ اندازہ نہ ہوتا کہ یوسف دراصل مزارعے کا بیٹا ہے، نہ کہ ان کا اپنا۔اصل میں انسان کی قدر اس کے خاندانی پس منظر سے نہیں، بلکہ اس کی خوبیوں سے ہوتی ہے۔ یوسف نے بھی اپنی صفات سے مقام حاصل کیا۔ وہ پڑھائی میں ہمیشہ اول آتا اور دوسرے کام بھی نہایت دیانت داری سے انجام دیتا تھا۔خالہ جان کی زمین بہت زیادہ تھی۔ انہوں نے سوچا کہ اس میں سے کچھ حصہ یوسف کو دے دوں، تاکہ اس کی زندگی سنور جائے اور اسے پڑھ لکھ کر مزدوری نہ کرنی پڑے۔دادا جان کا انتقال ہو چکا تھا۔ اب خالہ جان ہی خاندان کی بڑی سمجھی جاتی تھیں اور بہت سے اہم فیصلے انہیں خود کرنے ہوتے تھے۔جب بچوں کی شادی کا مرحلہ آیا تو خالہ جان سوچ میں پڑ گئیں۔ وہ زہرہ کے رشتے کے لیے پریشان تھیں۔ خاندان میں جو لڑکے موجود تھے، وہ اگرچہ صاحبِ جائیداد تھے، لیکن ان میں کئی خامیاں بھی پائی جاتی تھیں۔
خالہ جان کو یوسف سے بیٹوں جیسی محبت تھی۔ کچھ سوچ بچار کے بعد نظرِ انتخاب اس پر ٹھہر گئی۔ انہوں نے فیصلہ کر لیا کہ یوسف کو گھر داماد بنا کر اپنی بیٹی کا نکاح اس سے کر دیں گی۔ وہ روشن خیال خاتون تھیں، امیری، غریبی اور ذات پات کو اہمیت نہیں دیتی تھیں۔ یوسف کا باپ مزارع ضرور تھا، مگر ان کا تعلق ایک اچھی ذات سے تھا۔جب خالہ نے اپنے اس خیال کا اظہار زہرہ اور اپنے دونوں بیٹوں سے کیا، تو انہوں نے مخالفت نہیں کی کیونکہ ایک ہی گھر میں رہنے کی وجہ سے وہ سب بھی یوسف سے انسیت رکھتے تھے۔ لیکن جب زہرہ کے چچا کو اس بات کا علم ہوا، تو وہ بہت خفا ہوئے۔انہوں نے کہا کہ یہ رشتہ ہرگز نہیں ہو سکتا۔ ہم اپنی لڑکی کو کسی جاہل اور غریب خاندان میں نہیں بیاہ سکتے۔ ہم گاؤں کے چوہدری ہیں، ہماری بیٹی مزارعوں میں کیسے جا سکتی ہے۔ رشتہ اپنے ہم پلہ گھرانے میں کیا جاتا ہے، ایسے ان پڑھوں میں نہیں۔ان کا کہنا کچھ حد تک درست بھی تھا، کیونکہ صرف یوسف ہی پڑھا لکھا تھا، باقی اس کا سارا خاندان ان پڑھ تھا۔جب خالہ جان اس رشتے پر ڈٹ گئیں، تو سارا خاندان ان سے ناراض ہو گیا۔ مگر خالہ کو یوسف سے محبت اور بھروسا تھا۔ انہوں نے کسی کی نہ سنی۔ سب سے کہہ دیا کہ میں اپنی بیٹی کی شادی یوسف سے کروں گی۔ وہ دیکھا بھالا ہے، میرے ہاتھوں پلا بڑھا اور جوان ہوا ہے۔ شادی کے بعد میری بیٹی کو دکھ نہیں دے گا۔
جبکہ سرال میں سارے لڑکے آوارہ مزاج ہیں۔ اگر ان میں سے کسی سے رشتہ کیا، تو وہ زہرہ کو ضرور دکھ دیں گے۔ وہ شراب پیتے ہیں، دولت لٹاتے ہیں، حتیٰ کہ بازارِ حسن بھی جاتے ہیں، اور بڑے لوگوں کی صحبت کو برا نہیں سمجھتے۔ جبکہ یوسف میں ایسی کوئی برائی نہیں۔بہرحال، ان کا فیصلہ نہ بدلا۔ البتہ چچا، چچی اور دوسرے رشتہ داروں کے شور شرابے پر زہرہ ضرور پریشان ہو گئی کہ یہ سب کیا ہو رہا ہے؟ کیونکہ وہ یوسف سے بطور بھائی ہی انسیت رکھتی تھی۔ اس کے دماغ میں کوئی اور خیال نہیں تھا۔اب رشتہ داروں نے طرح طرح کی باتیں بنانا شروع کر دیں۔ ان کے خیال میں زہرہ کی مرضی بھی اس رشتے میں شامل ہے، مگر وہ کچھ نہیں جانتی تھی۔ اس کے دل میں یوسف کے لیے کوئی غیر معمولی خیال نہیں تھا۔ ان کے گھر کا ماحول بہت پاکیزہ تھا۔مگر کسی کے منہ پر کون ہاتھ رکھ سکتا ہے؟ جتنے لوگ، اتنی باتیں ہونے لگیں۔ رشتہ داروں نے زہرہ کے کان بھرنے شروع کر دیے، جس سے وہ ڈسٹرب رہنے لگی، مضطرب ہوتی گئی۔جب خالہ نے یہ صورتِ حال دیکھی، تو انہوں نے سسرالی رشتہ داروں سے ناتا توڑ لیا اور زہرہ کے نکاح کی تاریخ مقرر کر دی۔ پہلے میرا نکاح خالہ کے بیٹے غلام مصطفیٰ سے ہونا تھا۔ ہمارے نکاح کے اگلے روز یوسف اور زہرہ کا نکاح ہونا تھا۔خالہ نے بیٹے کے نکاح پر اپنے سسرالی رشتہ داروں کو مدعو کیا، لیکن زہرہ کے نکاح کی بات ان سے چھپائے رکھی۔ تاہم، ان کو کچھ اندازہ ہو گیا تھا۔
شاید اسی وقت جب میرا اور مصطفیٰ کا نکاح ہو رہا تھا اور سب لوگ اس میں مصروف تھے، زہرہ کے چچا زاد اسے گاڑی میں بٹھا کر اپنے گھر لے گئے، جو بالکل خالہ کے گھر کے قریب تھا۔انہوں نے وہاں زہرہ پر بندوق تان لی اور کہنے لگے کہ تم یوسف سے پسند کی شادی کرنا چاہتی ہو اور اپنی ماں کو آڑ بنا رہی ہو؟ ہم یہ شادی ہرگز نہیں ہونے دیں گے۔ ہم اس گاؤں کے چوہدری ہیں، ایک ملازم کے بیٹے کو داماد بنا کر اپنی عزت خاک میں نہیں ملا سکتے۔انہوں نے ایک سادہ کاغذ زہرہ کے سامنے رکھا اور کہا کہ اس پر دستخط کرو۔ وہ گھبرا گئی اور ڈر کے مارے رونے لگی۔ اس کے رونے کی آواز سن کر اس کا چچا زاد بھائی کمرے میں آ گیا۔ وہ وکالت کی تعلیم حاصل کر چکا تھا۔اس نے اپنے باپ سے کہا کہ بابا جان، آپ یہ بہت غلط کر رہے ہیں۔ ایسا نہ کریں۔ زہرہ سے زبردستی کسی کاغذ پر دستخط نہ لیں۔ اس مسئلے کو بعد میں پیار محبت اور بات چیت سے حل کیا جا سکتا ہے۔اس نے بندوق اپنے باپ سے لے لی اور زہرہ سے کہا کہ زہرہ، فوراً چلی جاؤ۔زہرہ وہاں سے بچ کر اپنے گھر واپس آ گئی، مگر اب ماں سے بات کرنا مشکل تھا۔ خالہ بیٹے کی رسمِ نکاح میں مصروف تھیں۔ زہرہ نے کچھ کہنا چاہا، لیکن خالہ نے بیٹی کی ایک نہ سنی۔ وہ بہت سہمی ہوئی تھی، اپنے کمرے میں دیر تک اکیلی بیٹھی روتی رہی۔اگلے دن شام کو اس کا یوسف سے نکاح تھا، جس کے لیے خالہ نے کافی رازداری سے کام لیا تھا۔ صرف یوسف کے والد اور چچا کو بلایا گیا تھا۔ زہرہ کے بھائی گواہ بنے، اور یہ مرحلہ خاموشی سے طے پا گیا۔زہرہ نے ماں سے التجا کی کہ چچا سے دشمنی نہ مول لیں، ورنہ وہ جینا حرام کر دیں گے۔ اس نے کہا کہ یوسف ہمارے بھائی بن کر یہاں رہا ہے، تو بھائی ہی رہنے دیں۔مگر خالہ نے ایک نہ سنی۔
ایک سال تک خالہ جان نے اس بات کو راز رکھا، یہاں تک کہ میں ان کی بہو بن کر سسرال آ گئی۔ ایک سال بعد انہوں نے بیٹی کی سادگی سے رخصتی کر دی اور وہ یوسف کی دلہن بن کر اس کے گھر چلی گئی۔ خالہ کا خیال تھا کہ معاملہ ٹھنڈا ہو جائے گا تو پھر بیٹی اور داماد کو واپس بلا لوں گی، لیکن معاملہ ٹھنڈا نہ ہوا۔زہرہ کے چچاؤں اور دیگر رشتہ داروں نے صاف کہہ دیا کہ اگر یوسف اور زہرہ نے دوبارہ اس گھر میں قدم رکھا تو ہم یوسف کو گولیوں سے چھلنی کر دیں گے۔ وہ اب یہاں دوبارہ نہیں آ سکتا۔یوسف زہرہ کو پا کر بہت خوش تھا، لیکن زہرہ کافی پریشان تھی کیونکہ اس کے سسرال والوں کا ماحول بالکل مختلف تھا۔ وہاں کوئی فرد بھی پڑھا لکھا نہیں تھا۔ یوسف گریجویٹ ضرور تھا، مگر وہ بیروزگار تھا۔ آخر کار اسے ریلوے میں کلرک کی ملازمت مل گئی اور وہ لاہور ریلوے اسٹیشن پر تعینات ہو گیا۔ڈیوٹی کے باعث اسے اسٹیشن پر ہی رہنا پڑتا تھا، جبکہ زہرہ سسرالیوں کے ساتھ گاؤں میں رہتی تھی۔ یوسف ہر ماہ صرف ایک بار چھٹی پر ملنے آتا تھا۔
میکے والوں نے بھی اسے اپنے گھر آنے سے روک دیا تھا کیونکہ انہیں شر و فساد کا اندیشہ تھا۔ زہرہ بیچاری وہاں بہت اداس اور پریشان تھی۔ایک سال بعد وہ ایک بیٹی کی ماں بن گئی، لیکن بچی کی پرورش اچھے ماحول میں نہ ہو سکی۔ وہ مچھروں سے تنگ تھی، گرمی سے نڈھال ہو جاتی تھی، اور پینے کو صاف پانی بھی میسر نہ تھا۔ خالہ چوری چھپے کچھ رقم ہر ماہ بھجواتی تھیں، مگر وہ رقم زہرہ کے سسرالی اپنے اوپر خرچ کر لیتے تھے، اور وہ خالی ہاتھ رہ جاتی تھی۔وقت گزرتا جا رہا تھا۔ ہم سب ایک موزوں اور مناسب وقت کا انتظار کر رہے تھے کہ جب معاملات چچا والوں سے درست ہو جائیں تو زہرہ کو واپس لے آئیں۔ ڈیڑھ برس بعد اللہ تعالیٰ نے اسے ایک بیٹا بھی دیا، مگر وہ تب بھی خوش نہ تھی۔ کھانے پینے کو اس کی مرضی کا نہ ملتا تھا۔ بیٹا پیدا ہوتے ہی بیمار ہو گیا، اسے ٹائیفائیڈ ہو گیا۔ بڑی مشکل سے بچا۔زہرہ کی ساس واحد ہستی تھی جو ایک ماں کی طرح بہو کا خیال رکھتی تھی، اس کی قدر کرتی تھی اور پیار دیتی تھی۔ وہ بھی جلد ہی چل بسی۔ ان کی وفات کے بعد گھر کا ماحول زہرہ کے لیے اور بھی خراب ہو گیا۔
زہرہ کی جٹھانی اور دیورانی دونوں ہی اس سے جلتی تھیں، اور جہالت کے باعث طرح طرح سے تنگ کرتی تھیں۔ کہتی تھیں کہ یہ مہارانی ہے تو اپنے گھر کی ہے، ہم کیوں اس کا کام کریں، اسے کھانا بنا کر کیوں دیں، یہ اپنے سارے کام خود کرے۔پہلے ساس ساتھ دیتی تھی، اب وہ بھی نہ رہی تو زہرہ کو برتن دھونا، جھاڑو پونچھا دینا اور کھانا پکانا پڑا۔ جٹھانی اور دیورانی اس پر اصرار کرتیں اور بات بات پر لڑتیں۔ شوہر گھر موجود نہ ہو تو ایک اکیلی عورت ان سب مسائل کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔زہرہ کو گھر کے ان کاموں کی عادت نہ تھی۔ وہ ایک زمیندار گھرانے کی لڑکی تھی، شہزادیوں کی طرح پلی بڑھی تھی۔ اس کے گھر میں دس نوکرانیاں تھیں۔ آج وہ سب کام خود کرنے پر مجبور تھی، جو پہلے اس کی نوکرانیاں کرتی تھیں۔ جٹھانیوں، دیورانیوں، نندوں، ان کے بچوں اور شوہروں نے زہرہ کا جینا دوبھر کر دیا تھا۔ ان کے طرزِ زندگی پر بھی اس لڑکی کو سخت الجھن ہوتی تھی۔ اب اسے احساس ہوا کہ یکساں طرزِ زندگی نہ ہونے سے حیات کتنی مشکل ہو جاتی ہے۔
ماں نے اس کی شادی کر کے بہت بڑی غلطی کی تھی، شاید انہیں اپنے سسرالی رشتے داروں کی طاقت کا اندازہ نہ تھا جو اب زہرہ اور یوسف کو میکے آنے ہی نہ دیتے تھے۔جب یوسف سے زہرہ نے رو رو کر مطالبہ کیا کہ مجھے اپنے گھر کے جلتے جہنم سے نکالو تو وہ دو بچوں سمیت اسے اپنے ساتھ لاہور لے آیا۔ بڑی مشکل سے ایک کوارٹر الاٹ کیا، تنخواہ تھوڑی تھی جس میں گزارا مشکل تھا۔ یوسف نے اپنے چھوٹے بھائی کو بھی ساتھ لے آیا تھا تاکہ زہرہ گھر میں اکیلی نہ رہے۔ لاہور میں اس نے منصور کو اسکول میں داخل کرا دیا۔زہرہ منصور کا بہت خیال کرتی تھی۔ اسے پڑھا لکھا کر اپنے بھائی سے کہہ کر رقم بھجوادیا کرتی تھی جو خرچہ خالہ صاحبہ اٹھاتی تھیں۔ زہرہ اپنی دیور کی پڑھائی پر بھی خرچہ لگا دیتی تھی تاکہ سسرال کے خاندان کا کم از کم ایک فرد تو پڑھ لکھ کر سدھر جائے، کمانے کے قابل ہو جائے اور ایک ہم نوا بن جائے۔خالہ جان نے بڑی مشکل سے کچھ زمین اپنے اختیار میں لے لی اور اس کی پیداوار بیٹی کو دینے لگیں جس سے زہرہ کی مشکلات آسان ہو گئیں۔ حالات بھی بہتر ہوئے۔
اب اس کے چاروں بچے اچھے اسکولوں میں پڑھنے لگے اور یوسف کو بھی ریلوے میں ترقی مل گئی۔ یوں کافی مسائل پر قابو پا لیا گیا۔مجھے زہرہ سے ملنے کی اجازت نہ تھی، لیکن جب میں میکے جاتی تو اس سے ملنے جاتی تھی، امی ساتھ ہوتیں۔ زہرہ اپنے دکھ بیان کرتی اور روتی تو مجھے کافی افسوس ہوتا کہ خالو کی ایک ہی بیٹی تھی، شہزادیوں جیسی! دیکھو کیسی اس کی قسمت نکلی۔ دن سدا ایک سے نہیں رہتے۔منصور نے کچھ دن وفا کی، دبئی سے کما کر اپنے والدین کو رقم بھجوانے لگا۔ کچھ رقم یوسف کو بھی بھیجتا تھا، مگر پھر اس نے بھائی اور بھابی سے ناطہ توڑ لیا اور اپنی ساری کمائی والدین کے لیے وقف کر دی۔ زہرہ کو اس بات کا شکوہ نہ تھا، افسوس تھا تو یہ کہ اپنی بھابیوں کے کہنے میں آ کر اس نے زہرہ اور یوسف سے قطع تعلق کر لیا تھا، جبکہ زہرہ نے اسے بچوں کی طرح پالا پوسا اور پڑھایا لکھایا تھا۔اب زہرہ کہتی تھی کہ سچ ہے، پرائی اولاد کی پرورش بڑے جان جوکھم کا کام ہوتا ہے۔ باپ کی زمینوں سے بھی بہت کم حصہ دیا گیا، بعد میں اس کے بھائی بھی اپنے چچاؤں کے ہم خیال ہو گئے۔ صرف ماں کے حصے میں آئی زمین ہی اسے مل سکی، اور یہ سزا تھی یوسف سے شادی کی!ماں کے اس اقدام کو ان کے بیٹوں نے معاف بھی نہ کیا۔
بہوؤں نے ساس کو برا بھلا کہا اور وہ ان کے ساتھ حقارت کا سلوک کرنے لگیں۔ ان کی بہوئیں ان کے سسرال سے تھیں۔وضاحت کر دوں کہ مجھے شادی کے بعد جب اولاد نہ ہوئی تو میرے شوہر نے دوسری شادی اپنی چچا زاد سے کر لی تھی تاکہ ان کی زمین دگنی ہو جائے۔ خدا نے اولاد بھی دے دی اور چچاؤں نے دشمنی بھی ختم کر دی۔ گرچہ بظاہر عزت کرتے تھے، مگر دل میں مجھ سے وہ سب لوگ خار کھاتے تھے کیونکہ میں خالہ جان کی بھانجی تھی اور ان کی طرف داری کرتی تھی، ان کا خیال رکھتی تھی۔اس پر میری سوتن اور دیورانی دونوں ہی جلتی تھیں اور مجھ سے بدظن رہتی تھیں۔ وہ اپنے شوہروں کو بھی مجھے سے بدظن کر دیتیں۔ تنگ آ کر بالآخر خالہ جان زہرہ کے گھر منتقل ہو گئیں۔ وہ بیٹی تھی، ہر حال میں ماں کا خیال رکھتی تھی۔ یوسف نے بھی وفا کی اور بیٹے کی طرح ان کا خیال رکھا۔آخری عمر میں خالہ جان کا خیال ایک بیٹے کی مانند رکھا گیا، ان کو کوئی تکلیف نہ ہونے دی گئی۔ جب وہ بیمار ہو گئیں تو ان کی خدمت سگے بیٹوں سے بڑھ کر کی گئی، جبکہ سگے بیٹوں نے پوچھا تک نہیں۔سچ ہے، کسی کے ساتھ نیکی کرو تو رائیگاں نہیں جاتی۔ یوسف نے بھی بیٹا ہونے کا آخر کار حق ادا کر دیا۔
.jpg)