گہرا زخم

Sublimegate Urdu Stories

جب میں بیاہ کر اپنے سسرال پہنچی تو میرے شوہر فرحان نے پہلی ہی رات کہا کہ نسیم خانم، تم جب بھی کوئی کام کرنے لگو تو مجھ سے ضرور مشورہ کرنا۔ میں جس بات سے منع کروں، اس پر اصرار مت کرنا۔ اسی طرح زندگی اچھی گزرے گی۔میں نے ان کی نصیحت ایک کان سے سن کر دوسرے کان سے اڑا دی، کیونکہ میں خود کو بہت عقل مند اور دوسروں کو معمولی سمجھتی تھی۔ یہ میرے والدین کے لاڈ پیار کا نتیجہ تھا۔میرے شوہر فطرتاً خاموش مزاج انسان تھے۔ ان کا ایک چھوٹا سا جنرل اسٹور تھا، جس کی آمدنی سے بخوبی گزر بسر ہو جاتی تھی۔ شادی کے وقت میری عمر صرف سترہ برس تھی۔ سارا دن کبھی ہمسایوں کے ہاں، کبھی سہیلیوں کے گھر اور کبھی خالہ زاد بہنوں کے پاس وقت گزارتی۔ میری ساس مجھ سے ڈرتی تھیں، کیونکہ میں زبان دراز تھی اور منٹوں میں بڑوں کی بے عزتی کر دیا کرتی تھی۔

میاں سمجھاتے رہتے کہ گھر پر رہا کرو، دوسروں کے گھروں میں روز روز جانے سے اپنی عزت کم ہو جاتی ہے، مگر میں نہ مانتی۔ میں کہتی کہ میرا دل گھر میں نہیں لگتا، تو کیا کروں۔گھر کا کوئی کام میں نہ کرتی تھی، سارا کام عمر رسیدہ ساس کے سپرد تھا۔ وہ بیچاری ڈر کے مارے کبھی شکایت نہ کرتیں کہ کہیں الٹی شکایت میرے سر نہ آ جائے۔شادی کے ایک سال بعد اللہ تعالیٰ نے مجھے بیٹے کی ماں بنایا۔ ہم نے اس کا نام ایان رکھا۔ چھوٹے بچوں کی طرح وہ راتوں کو جاگتا، مگر میں نیند کی رسیا تھی۔ شوہر دن بھر دکان پر کام کرتے اور رات کو تھکے ہارے گھر آتے۔ ساس ان کو کھانا دیتیں، اور جب وہ سونے کے لیے کمرے میں آتے تو میں کہتی کہ تمہارا بیٹا رات کو بار بار جاگتا ہے، میری نیند خراب ہو جاتی ہے۔ میں نے اس کے لیے فیڈر لگا دیا ہے، تم اُسے ماں کو دے دیا کرو تاکہ جب جاگے تو وہی پلا دیں۔ مجھ سے بار بار نہیں اٹھا جاتا۔

فرحان کہتے کہ ماں بوڑھی ہیں، وہ دن بھر کام کرتی ہیں۔ اگر رات کو بھی بچے کے لیے جاگتی رہیں تو بیمار پڑ جائیں گی۔ تم نہیں اٹھ پاؤ گی تو میں اٹھ جاؤں گا، لیکن امی کو تکلیف نہ دو۔یوں وہ خود رات رات بھر جاگتے، بچے کو سنبھالتے، جب کہ میں مزے سے سوتی رہتی۔ دن کو دکان پر کام، رات کو جاگنے سے ان کی صحت خراب ہونے لگی، مگر وہ پھر بھی مجھ سے کچھ نہ کہتے۔ وہ میرے آرام کے لیے اپنی راحت قربان کر دیتے تھے۔ایان کو سانس لینے میں دشواری رہتی تھی، اسی لیے وہ پوری رات جاگتا تھا۔ وقت گزرتا گیا، ایان کے بعد اللہ نے ایک بیٹی عطا کی، پھر ایک کے بعد ایک بچے ہوتے گئے، یہاں تک کہ گھر بھر گیا۔ اب میری مصروفیت بچوں میں ایسی بڑھی کہ باہر نکلنے کا موقع ہی نہ رہا۔ میاں کی آمدنی بچوں پر خرچ ہو جاتی، گھر کا خرچ بمشکل پورا ہوتا۔جب تک ساس زندہ رہیں، انہوں نے سگی ماں کی طرح میرا ساتھ دیا۔ 

حقیقت میں میرے بچوں کو انہوں نے ہی پالا۔ اگر وہ نہ ہوتیں تو شاید میں بچے چھوڑ کر کہیں نکل جاتی۔وقت گزرتا گیا، بچے بڑے ہو گئے۔ بڑا بیٹا ایان نہایت لائق اور بااعتماد تھا۔ ایف ایس سی کے بعد اس نے ڈپلومہ کیا تو ایک دوست کے ذریعے جرمنی جانے کا موقع ملا۔ وہاں جا کر اسے بہت پسند آیا۔ مستقل رہائش کے لیے اس نے ایک جرمن عورت سے شادی کر لی۔کچھ عرصے بعد جب وہ پاکستان آیا تو اپنی جرمن بیوی اور ایک ننھے سے بیٹے کے ساتھ آیا۔ میری بہو بہت شریف اور بااخلاق عورت تھی، میرا ادب کرتی تھی۔ مگر نہ جانے کیوں، غیر ملکی بہو کو دیکھ کر میرے دل کو دھچکا لگا۔ میں نے بیٹے سے کہا کہ یہ تم نے کیا کیا، اپنی عمر سے بڑی غیر مذہب عورت سے شادی کر لی، تم نے میری اجازت کا خیال بھی نہ رکھا۔ اب اسے طلاق دو۔ایان کسی طور راضی نہ ہوا۔ اس نے کہا کہ امی، میں اسے چھوڑ نہیں سکتا۔ وہ میرا گھر، میری زندگی ہے۔فرحان مجھے سمجھانے لگے کہ نسیم، ایسا نہ کرو۔ بیٹے کا ہنستا بستا گھر مت اجاڑو۔ 

بہو غیر ملکی ہے تو کیا ہوا، وہ اچھی عورت ہے، اخلاق والی ہے۔ وہ اتنی دور سے تم سے ملنے آئی ہے، اور تم اس کی طلاق کروانا چاہتی ہو۔ کم از کم اپنے پوتے کا خیال تو کرو۔ وہ اپنے گھر میں خوش ہیں، انہیں وہیں آباد رہنے دو۔ جیسی زندگی جینا چاہتے ہیں، انہیں ویسی زندگی جینے دو۔مگر میری سوچیں ہی عجیب تھیں۔ کوئی خیال دماغ میں سما جاتا تو پھر اسے نکالنا میرے بس کی بات نہیں رہتی تھی۔ میں نے رو رو کر دن رات ایک کر دیا اور ایان سے کہا کہ اگر تم نے اس فرنگن کو طلاق نہ دی تو میں تمہیں بد دعا دوں گی۔ میرا بیٹا بے چارہ چکرا گیا۔ آخر کار اسے میری خواہش پوری کرنا پڑی۔

ہم ماں بیٹے کے درمیان ہر وقت جھگڑے رہتے تھے۔ یہ سب دیکھ کر جرمن بہو پریشان ہو گئی۔ بالآخر ایان نے اسے بتا دیا کہ میری ماں چاہتی ہے کہ میں تمہیں طلاق دے دوں اور پاکستان میں رہ جاؤں۔ اس نے پوچھا، کیا تم چاہتی ہو کہ میں پاکستان میں ہمیشہ کے لیے تمہارے ساتھ رہوں؟اس نے صاف کہا کہ ہرگز نہیں۔ میں کبھی بھی اپنا ملک چھوڑ کر کسی دوسرے ملک میں رہنا پسند نہیں کروں گی۔ آپ تو اپنی ماں سے ملنے آئے تھے اور وعدہ کیا تھا کہ ہم جلد واپس جرمنی لوٹ جائیں گے۔ اب اپنا وعدہ نبھاؤ یا مجھے جانے دو، میں دوبارہ یہاں نہیں آؤں گی۔ایان نے مجھے سمجھانے کی بہت کوشش کی، مگر میں اپنی ضد پر قائم رہی۔ میں نے کہا کہ تم اب واپس نہیں جاؤ گے، ورنہ میں زہر پی لوں گی۔ میں ماں ہوں، میرا حق ہے کہ جس بچے کو پالا پوسا، اسے اپنا سہارا سمجھا، وہ مجھے چھوڑ کر چلا جائے۔ یہ میں گوارا نہیں کر سکتی۔

یوں دو کشتیوں کا سوار میرا بیٹا بیچ منجھدار میں ڈوب گیا۔ میری جرمن بہو میرے رونے پیٹنے سے گھبرا کر اپنے بیٹے کو لے کر واپس چلی گئی۔ اس نے خود ہی ایان سے طلاق لے لی تاکہ وہ مجھے راضی رکھ سکے اور میرے پاس رہ سکے۔اس کا یہ قدم میرے لیے وقتی خوشی کا باعث تو بنا، مگر ایان بہت دنوں تک پریشان رہا۔ مگر چونکہ میرے کہنے کے سوا اس کے پاس کوئی چارہ نہ تھا، اس نے میری خوشی کے لیے میری بھانجی صنوبر سے شادی کر لی اور وطن میں رہنا قبول کر لیا۔وہ ایک سال پاکستان میں رہا مگر معقول روزگار نہ مل سکا۔ باپ کی دکان پر بیٹھنے سے اس کا جی اکتا گیا۔ تب اس کے سسر نے اپنے بیٹوں کے ذریعے اس کا دبئی کا ویزا لگوا دیا، اور وہ وہاں چلا گیا۔ وہاں اس کے سالوں نے اسے اپنے کاروبار میں شامل کر لیا اور بعد میں اپنی بہن، یعنی ایان کی بیوی، کو بھی دبئی بلا لیا۔انہی دنوں میری بیٹی گل ناز کے لیے رشتہ آیا۔ میں چاہتی تھی کہ اس کی شادی کسی خوبصورت نوجوان سے ہو۔

حالانکہ کئی اچھے اور شریف گھرانوں سے رشتے آئے تھے، مگر میں نے اعلیٰ خاندان اور شرافت کے بجائے صرف خوبصورتی کو ترجیح دی۔تب ہی گل ناز کے لیے ایک نہایت خوبصورت نوجوان کا رشتہ آیا، جس کا نام بلند اقبال تھا۔ پہلی نظر میں ہی مجھے وہ نوجوان بے حد پسند آیا اور میں نے رشتہ منظور کر لیا۔میرے شوہر نے سمجھایا کہ یہاں رشتہ مت کرو۔ ان لوگوں کے بارے میں کچھ پتا نہیں، نہ کوئی پڑوسی انہیں جانتا ہے۔ یہ محلے میں نئے کرایہ دار ہیں۔ مگر میں نے ان کی ظاہری ٹپ ٹاپ دیکھ کر سمجھا کہ کھاتے پیتے لوگ ہیں، اور ضد میں آ کر بیٹی کو بیاہ دیا۔میاں منع کرتے رہ گئے اور بعد میں بہت پچھتانا پڑا، کیونکہ شادی کے ایک ماہ بعد ہی وہ لوگ میری بیٹی کو لے کر کہیں چلے گئے اور ہمیں کوئی اطلاع تک نہ دی۔دو سال تک ہمیں ان کا کچھ پتا نہ چلا۔ آخر ایک دن گل ناز کا خط آیا۔ اس نے لکھا کہ ماں، تم نے مجھے جہنم میں دھکیل دیا ہے۔ 

یہ لوگ عورت کی کمائی کھانے والے ہیں، مجھ پر سخت پابندیاں ہیں، اور یہ خط بھی میں بڑی مشکل سے لکھ رہی ہوں۔خط پڑھ کر میرا خون کھول گیا، مگر میں نے وہ خط اپنے میاں سے چھپا لیا، کیونکہ اگر وہ جان لیتے تو میری خیر نہ ہوتی۔ یقیناً وہ مجھے طلاق دے دیتے، پھر میری اولاد کا کیا بنتا؟ میں اپنی خودسری پر بہت پچھتاتی رہی کہ میری نادانی نے بیٹی کو عذاب میں ڈال دیا۔مگر افسوس، عقل پھر بھی نہ آئی۔ دوسری بیٹی ماہ جبیں کی شادی بھی ایک خوبصورت نوجوان سے کر دی، البتہ اس کے خاندان کے بارے میں معلومات ضرور حاصل کیں۔ وہ لوگ نہایت مذہبی اور سخت مزاج تھے۔جب کہ ماہ جبیں شوخ و شنگ، آزاد خیال اور فیشن ایبل تھی۔ شوہر سخت گیر نکلا، جس نے اسے زندہ دل سے مردہ دل بنا دیا۔ وہ اسے پردوں میں رکھتا، چار دیواری سے باہر قدم رکھنے کی اجازت نہ دیتا۔ میکے آنے پر بھی پابندی تھی۔خاص طور پر وہ میری بیٹی کو جتلاتا کہ تمہاری ماں خودسر عورت ہے، اور مجھے اس کا مزاج بالکل پسند نہیں- انہی دنوں میرے منجھلے بیٹے جنید نے دفتر میں کام کرنے والی ایک لڑکی سے مراسم بڑھا لیے پھر دونوں چند دنوں کے لیے کہیں دور چلے گئے۔

ایک دن ایک شخص نے میرے گھر کے دروازے پر دستک دی اور کہا کہ آپ کی بیٹی ماہ جبیں کی حالت بہت خراب ہے۔ اس کا ایکسیڈنٹ ہو گیا ہے، آپ کا داماد بھی شدید زخمی ہے۔ وہ دونوں فلاں اسپتال میں ہیں۔ جلدی آپ کو بلوایا ہے۔ میں نے شوہر کے آنے کا بھی انتظار نہ کیا اور خبر سنتے ہی اکیلی ان کے ساتھ چل پڑی۔ وہ مجھے ایک خالی مکان میں لے گئے، میرے ساتھ زیادتی کی اور ویڈیو بنالی۔ کہا کہ یہ ہے تمہارے غرور کا بدلہ ۔ ہماری بیٹی کو تمہارے بیٹے نے اغوا کیا، کئی دن اپنے نے پاس رکھا، اس کو بے آبرو کیا ، جب کہ وہ ابھی سولہ برس کی ناسمجھ بچی تھی۔ ہم کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہے۔ اب تم بھی کسی منہ دکھانے کے قابل نہیں رہو گی، اب تم دفع ہو جائو۔میں روتی ہوئی گھر آ گئی۔ کسی کو اس واقعے کی ہوا بھی نہ لگنے دی کہ اس میں میری ہی بدنامی تھی۔ انہی دنوں ایک لڑکی میرے پاس آئی اور بولی۔ تمہارے بیٹے فہد نے میرے ساتھ زیادتی کی ہے، جس کی وجہ سے میں بدنامی کے دوراہے پر کھڑی ہوں۔ خدا کے لیے مجھے بچا لو، ورنہ میں خود کشی کرلوں گی۔ ایک بیٹے کی زیادتی کا خمیازہ بھگت چکی تھی، تب ہی اس دوسری پر مجھے رحم آگیا کیونکہ میں خود زخم خوردہ ہو چکی تھی۔ اب احساس ہوا کہ ایسے نازک معاملات میں عورت بے چاری کی جان پر بن جاتی ہے ، جب کہ زمانہ اس کے دکھ کو نہیں سمجھتا اور اسے ہی قصور وار ٹھہراتا ہے۔
میں نے پروین کو تسلی دی وعدہ کیا کہ تم کو اپنی بہو بنانے کو تیار ہوں۔ پہلے شوہر سے بات کرلوں۔ میں نے کسی کو پروین کی حالت کے بارے میں نہ بتایا۔ صرف یہ کہا کہ ایک ملنے والی نے رشتہ دکھایا، مجھے لڑکی پسند آگئی ہے۔ فہد سے شادی کے لیے میں نے پروین کے گھر والوں کو ہاں کہہ دی ہے۔ خود میرے بیٹے کو بھی علم نہ تھا ، مگر اس نے میرا مان رکھتے ہوئے میرے فیصلے کو مان لیا۔ میں نے اس کو اس لیے پروین کے بارے میں نہ بتایا کہ وہ مجھے ملی تھی، کہیں وہ شادی سے سے منع نہ کر دے اور پہلی والی لڑکی کی طرح اس کی بھی زندگی برباد ہو جائے۔فہد شریف طبیعت اور فرماں بردار تھا۔ میں نے اتنا بھی نہ سوچا کہ ممکن ہے ، یہ لڑکی جھوٹ بول رہی ہو۔ بیٹے سے پوچھ تو لوں کہ تم پروین نامی لڑکی کو جانتے بھی ہو یا نہیں؟ بس اس کے والدین سے رشتے کی بات کی اور چٹ منگنی پٹ بیاہ کر ڈالا۔ پروین کو بہو بنا کر گھر لے آئی۔ میرے شوہر حیران تھے کہ یہ مجھے کیا ہوا ہے کہ میں ایک غیر مذہب کی لڑکی، جو نرس ہے اور فہد سے بڑی ہے، اس کو بہو بنا کر لے آئی۔ آخر اس معمولی شکل و صورت کی لڑکی میں ایسی کیا خوبی ہے کہ میں نے ان سے مشورہ بھی نہیں کیا۔ ادھر شوہر میری من مانیوں پر حیران، ادھر فہد میری خوشنودی کی خاطر چپ اور میں سمجھ رہی تھی کہ میرا صاحبزادہ اپنے کرتوت کی وجہ سے چپ ہے، لیکن اول شب ہی جب فہد کو یہ احساس ہوا کہ پروین پہلے ہی کہیں اپنا زیور عصمت کھو آئی ہے، تو اسے بہت رنج ہوا اور اگلی صبح ہمارے بیدار ہونے سے قبل گھر چھوڑ کر چلا گیا۔

میں نے بھی چپ سادھ لی۔ زبان کھولتی تو خود بدنام ہوتی۔ آخر اس لڑکی کی منت سماجت کی، تو اسی نے اس راز سے پردہ اٹھایا کہ اسے دراصل ایک پولیس والے نے دھوکا دیا تھا، لیکن بدنامی سے بچنے کے لیے اس نے میرا سہارا لیا۔ وہ بولی۔ میں فہد کو یوں جانتی تھی کہ وہ میرے کزن کا دوست ہے۔ میں اس کو دیکھ چکی تھی کہ وہ سیدھا سادہ شریف لڑکا ہے۔ سوچا، اس کی ماں سے ملتی ہوں اور کہانی بنا کر رحم کی بھیک مانگتی ہوں۔ ممکن ہے بات بن جائے اور بات بن گئی۔ گویا اپنی جان بچانے کی خاطر اس نے میرے لڑکے کی شرافت کا سہارا لیا تھا اور میں نادان، بغیر بیٹے سے تصدیق کیے اس کی چالا کی کے جال میں پھنس گئی۔ جب میں نے فرحان کو بتایا، وہ تو رونے لگے۔ بولے۔ آخر تمہاری من مانیاں ہم کو ظلمت کے سمندر میں کہاں تک لے جائیں گی؟ میں نے پہلے روز ہی تم سے کہہ دیا تھا کہ جو فیصلہ کرنا، میرے مشورے سے کرنا، مگر تم اب تک اپنی مرضی کرتی رہی ہو۔ کسی سے مشورہ لینے کی زحمت تک گوارا نہیں کرتیں۔ اب دیکھو، ہر فیصلہ ہی تمہارا غلط رہا ۔ اپنی اولاد کو جہنم میں جھونک کر بھی تم کو یہ احساس نہیں ہوتا کہ تم کر کیا رہی ہو۔ یہ ہے تمہاری خود پسندی کی انتہا۔ میرا بیٹا تو لوٹ کر کبھی واپس نہ آیا، مگر اُس نرس نے کسی اور کا تحفہ ہمارے گھر میں جنم دیا، اور میں خاموش رہی۔ اس غم نے میرے شوہر کو اندر ہی اندر کھوکھلا کر دیا۔ وہ بیمار رہنے لگے، اور دو برس کے اندر ہی یہ دنیا چھوڑ گئے۔
میں نے دو سال صبر کیا، مگر آخرکار صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا۔ ایک دن میں نے پروین سے کہا:تمہاری وجہ سے میں نے اپنا شوہر اور بیٹا دونوں کھو دیے ہیں۔ تم پر ترس کھانے کی مجھے کافی سزا مل چکی ہے۔ بہتر ہے کہ اب تم اپنا بچہ لے کر یہاں سے چلی جاؤ۔ میں اب مزید نیکی نہیں کر سکتی۔ اگر تم نہ گئیں تو میں سب کچھ ظاہر کر دوں گی۔پروین بھی اب مزید “نیک پروین” بن کر ہمارے گھر میں نہیں رہ سکتی تھی۔ اُس کا مقصد پورا ہو چکا تھا۔ اُس کے بچے کو میرے بیٹے کا نام مل چکا تھا۔ لہٰذا وہ خاموشی سے اپنا سوٹ کیس اُٹھا کر ہمارے گھر سے چلی گئی۔اپنی ہی نادانیوں نے مجھے ایسے غم دیے کہ میں خود کو قصوروار ٹھہرانے لگی۔ سب سے گہرا زخم تو میر بڑی بیٹی کا تھا۔ جو جیتے جی مجھ سے بچھڑ گئی۔ میں نے اپنے شوہر سے گُل ناز کا خط چھپا لیا تھا، مگر وہ راز میرے دل میں کانٹے کی طرح چبھتا رہا۔ میں نے اُس کے دیے گئے پتے پر بہت تلاش کروائی، مگر وہ لوگ وہاں سے کہیں اور جا چکے تھے۔آج میں ایک رفاہی ادارے میں ہوں، جسے لوگ “اولڈ ہوم” کہتے ہیں۔ یہاں آ کر میں نے سمجھا کہ انسان اپنے اعمال، اپنی ضد اور اپنی خودسری کی سزا خود ہی بھگتتا ہے۔ میں نے ہمیشہ اپنے شوہر کو خود سے کم عقل سمجھا، اور یہی غرور مجھے یہاں تک لے آیا۔

(ختم شد)

اگر کہانی پسند آئی ہو تو فیس بک کمنٹ میں ضرور بتائیں۔ شکریہ