عادل شاہ نے گاؤں کی اس گوری کو اپنے کزن کی شادی میں دیکھا تھا۔ واقعی، وہ اپنے نام کی لاج تھی۔ سوہنی، خود ماہ تمام تھی اور حسن اس پر تمام تھا۔ عادل نے اسی دن عہد کر لیا تھا کہ وہ اس ماہ جبیں کو حاصل کرکے رہے گا.ان دنوں، عادل شاہ کی شادی کو ایک برس ہوا تھا۔ اس کی بیوی، نور، اس سے عمر میں بڑی اور معمولی شکل و صورت کی چچا زاد تھی۔ اسے اپنی دلہن سے کوئی شکایت نہ تھی۔ ان کی نسبت بچپن سے طے تھی، تبھی نور کے دل میں عادل کی محبت ٹھہرے پانیوں کی طرح گہری تھی۔ وہ نہ بدصورت تھی، نہ بدسلیقہ، نہ بدزبان بلکہ اپنے نام کی طرح پر سکون اور دل کو ٹھنڈک پہنچانے والی لڑکی تھی۔ بے شک، ایسی سیدھی سادی اور محبت کرنے والی بیوی کسی خوش نصیب کو ہی ملتی ہے۔وہ پیار سے عادل کو چھوٹے شاہ صاحب کہہ کر بلاتی تھی اور وہ بھی اتنی اچھی بیوی کو پا کر مطمئن تھا۔
زندگی کا جام آسودگی کی شراب سے لبریز تھا، اس میں مزید کسی چیز کی گنجائش نہ تھی، پھر جانے کیوں سوہنی کو دیکھتے ہی اس کے دل و ذہن میں انقلاب آ گیا۔ وہ نور کو فراموش کرکے گاؤں کی اس گوری کے خیال میں ایسا گم ہوا کہ لگتا تھا، نور کبھی اس کی زندگی میں آئی ہی نہ تھی۔ سچ ہے، اسے اب نور کی چاہت نہ رہی تھی۔ اس کا ہونا یا نہ ہونا، چھوٹے شاہ کے لیے برابر ہو چکا تھا، اور سوہنی دل و روح پر ایک مست گھٹا بن کر چھا گئی تھی۔شاہ صاحب کا شمار علاقے کے معزز لوگوں میں تھا۔ ان کے آباؤ اجداد کو وراثت میں عزت اور سادات خاندان کا اعلیٰ مقام حاصل تھا۔ عادل شاہ سے رشتہ جوڑنے پر سوہنی کے والد کو کیا اعتراض ہو سکتا تھا؟ وہ تو بس ایک چھوٹے زمیندار تھے۔ انکار کی واحد وجہ یہ تھی کہ عادل شاہ شادی شدہ تھا۔ سوہنی اسی صورت اس کی ہو سکتی تھی کہ وہ نور کو طلاق دے دے، جبکہ نور کو طلاق دینا عادل کے بس کی بات نہ تھی۔
وہ اس کی عم زاد تھی اور خاندانِ سادات کی دختر ہونے کے ناتے، اس کی دوبارہ شادی تقریباً ناممکن تھی۔ مزید یہ کہ ان کے خاندانی روایات میں طلاق ایک معیوب بات سمجھی جاتی تھی۔عادل نے سوہنی کے والد سے التجا کی کہ نور بی بی کو میں طلاق دینے سے عاجز ہوں۔ اس کے سوا، مجھے آپ کی ہر شرط منظور ہے۔ کہیے تو اپنی تمام جائیداد آپ کی بیٹی کے نام لکھ دینے کو تیار ہوں۔جواب ملا، ہمیں جائیداد کا لالچ نہیں، تمہاری وفاداری کی ضمانت چاہیے۔بہرحال، گھر کی خواتین سے مشاورت کے بعد سوہنی کے والد اس شرط پر راضی ہو گئے کہ سوہنی سے شادی کے بعد عادل اپنی پہلی زوجہ سے طلاق تو نہ دے، مگر اس سے کوئی تعلق بھی نہ رکھے۔ چھوٹے شاہ نے قسم کھائی کہ نور سے محض نکاح برقرار رہے گا، مگر باقی تمام واسطے ختم ہو جائیں گے۔
وہ ان کے خاندان کی لاج ہے، لہٰذا نور صرف نام کی بیوی ہوگی اور وہ کبھی خلوت میں اس سے نہیں ملے گا۔اس یقین دہانی پر، سوہنی نے عادل شاہ کے ساتھ نکاح کرنا قبول کر لیا، اور وہ دلہن بن کر ان کے گھر آ گئی۔ عادل شاہ کو اپنے کیے پر ذرا بھی ملال نہ تھا کہ اس نے نور جیسی صابر، وفادار اور نیک بیوی سے کنارہ کشی اختیار کر لی تھی۔ اس نے اپنی من چاہی لڑکی کو پا لیا تھا اور نئی نویلی محبوبہ کو پاکر سمجھا تھا کہ اس نے سب کچھ حاصل کر لیا ہے۔افسوس ہوا تو نور کو کہ اس نے اپنا شوہر کھو دیا تھا۔ یقیناً وہ چھپ چھپ کر روئی ہوگی۔ بند کمرے میں اس کے بین کیسا منظر پیش کرتے ہوں گے؟ وہ بن پانی کی مچھلی کی مانند تڑپی ہوگی۔ نجانے اس پر کیا بیتی؟ کسی کو کچھ معلوم نہ تھا۔البتہ، یہ بات پورے خاندان کو پتا تھی کہ سوہنی سے شادی کے بعد چھوٹے شاہ نے کبھی اپنی پہلی بیوی کی خبر نہ لی۔
کبھی اس کی خیریت دریافت نہ کی، کبھی ترس نہ کھایا کہ وہ اکیلی رہتی ہے۔ وہ اپنے بڑے گھر کی بڑی سی حویلی میں تنہا ہی اپنے رنگا رنگ جذبوں کے کشت و خون میں مصروف رہتی ہوگی۔نور کسی دکھے دل کی بددعا بن کر قسطوں میں مرتی رہی اور عادل اپنی نئی نویلی دلہن کے پہلو میں زندگی کے حسین دنوں کو اپنی تمام تر خوشیوں اور شادابیوں کے ساتھ بسر کرتا رہا۔ یہاں تک کہ پندرہ سال بیت گئے۔پندرہ برس بعد، اچانک سوہنی بیمار ہو گئی۔ اس نے اپنے چوتھے لخت جگر کو جنم دیا تھا۔ آپریشن کے بعد، وہ موت و زیست کی کشمکش میں گرفتار ہو گئی۔ اس کے ہاتھ پاؤں سن ہونے لگے تھے اور گلا بند ہو رہا تھا۔ سانس رک رہی تھی اور پانی کا ایک قطرہ بھی اس کے حلق سے نہیں اتر رہا تھا۔
اپنی چہیتی بیوی کی یہ حالت دیکھ کر عادل کی روح کانپ گئی۔سوہنی کو جان کنی کی حالت میں دیکھ کر، وہ رونے لگا۔ اچانک اسے یاد آیا کہ والدہ کے پاس ایک بزرگوں سے چلا آتا نقش تھا۔ اس کی ماں نے اپنی زندگی کے آخری دن نور کو وہ نقش دے کر کہا تھا کہ اسے سنبھال کر رکھنا، جب کوئی دوا کارگر نہ ہو تو یہ کام آئے گا۔دوپہر کے دو بج رہے تھے۔ عادل دوڑتا ہوا اپنے آبائی مکان میں پہنچا، جہاں نور رہتی تھی۔ بوڑھی ملازمہ اپنے کمرے میں سو رہی تھی اور نور اپنی خواب گاہ میں جاگ رہی تھی۔ وہ پلنگ پر آنکھیں موندے لیٹی تھی، جب چھوٹے شاہ نے اسے آواز دی۔ نور اٹھو، میں آیا ہوں۔ وہ چونک پڑی۔
اسے اپنے کانوں پر یقین نہ آیا۔ کیا یہ واقعی چھوٹے شاہ کی آواز ہے؟ کیا سچ میں وہی ہے، جو اسے پکار رہا ہے؟ پندرہ برس پہلے کا سہانا وقت جیسے پلٹ آیا ہو۔ وہ حسین خواب، جو ہمیشہ دوپہر میں گھر آ کر وہ اسے جگانے کے لیے آواز دیا کرتا تھا۔نور کو اس کی آمد پر یقین نہ آیا۔ وہ پتھر کی مورت بنی حیرت سے تک رہی تھی۔ اسے یوں بے یقینی سے تکتے دیکھ کر، عادل کو خیال آیا کہ واقعی، انسان پر ظلم مظلوم کو پتھر کا بنا دیتا ہے۔نور کے ویران اور مجبور چہرے کو دیکھ کر، وہ سارے دکھ اس کے مکھ پر انگاروں کی طرح جلتے نظر آئے، جو شاہ نے اس کو دیے تھے۔ دل کی اندر کی دنیا میں ٹوٹ پھوٹ ہونے لگی، وہ دیوار بھی لرزتی محسوس ہوئی جو پندرہ برس پہلے اس کے اور عادل شاہ کے درمیان کھڑی کی گئی تھی۔ پیلا زرد چہرہ، اجڑی ہوئی نور، مجسم سوال بستر سے اٹھ بیٹھی۔
اس کی خستہ حالی اتنی ناقابل دید تھی کہ وہ یہ بھول ہی گیا کہ یہاں کیوں آیا تھا۔ ذرا سے قرب نے پندرہ برس کا بن باس توڑ ڈالا تھا۔ نور کی آنکھوں سے مسلسل آنسو گر رہے تھے، پھر فاصلے سمٹ گئے۔ شاید تقدیر اس ایک لمحے کی منتظر تھی۔برسوں کی پیاسی دھرتی رو رہی تھی اور آنسو اسے سیراب کر رہے تھے۔ نور کے آنسو نہ تھے تو وہ بھی رو دیا۔ اس کے بکھرے بالوں کو سنوارنے لگا۔ آج ساری دوریاں مٹ گئی تھیں۔ آنسو دونوں کے بیچ پل بن گئے تھے۔ یہ کیا معجزہ ہوا کہ آنسوؤں کا پانی پل بنا تھا۔ کتنی بے رونق ہو گئی تھی یہ سہاگن؟ سہاگ جو اس کا روٹھا، تبھی سنگھار بھی اس سے روٹھ چکا تھا۔
مدت سے گویا، نور کے نین جل کو ترس رہے تھے۔ اس دوپہر نرم دل فرشتوں نے اپنے پروں کا سایہ ان پر ڈالا اور پیار کے پھولوں سے ایک مدت بعد نور کا دامن بھر دیا۔ خوشی سے وہ کبھی روتی، کبھی ہنستی تھی، مگر زبان سے کچھ نہ کہتی تھی۔ کہنے سننے کی قوتیں اس اچانک ملنے والی مسرت نے سلب کر لی تھیں۔شام تک وہ یونہی ایک دوسرے میں گم رہے کہ وقت کے گزرنے کا ذرا بھی احساس نہ ہوا۔ جب احساس ہوا تو یہ بھی یاد آگیا کہ اس نے کتنی بڑی قسم کو توڑ کر اس سرحد کو عبور کیا تھا۔ قسم توڑنے کا عذاب سوچ کر وہ لرز گیا۔ اب کفارہ کیونکر ادا ہوگا؟ گھر سے نکلا تو قدم نحیف تھے، جیسے اپنے گھر میں نہ تھا، کسی اور کے گھر میں نقب لگانے چلا گیا تھا۔
گھر سے نکلتے وقت نور کو قسم دی تھی کہ میرے آنے کا تذکرہ کسی سے نہ کرنا، ورنہ میں خاندان اور سسرال میں بے وقار ہو جاؤں گا۔ وہ اللہ کی بندی اپنے خاوند سے اتنا پیار کرتی تھی کہ اپنی قسم پر قائم رہی۔ ادھر اللہ نے کرم کیا اور سوہنی صحت یاب ہو کر اسپتال سے گھر آگئی۔ کسی کو بھید نہ تھا کہ ایک دوپہر پندرہ برس کی جدائی کے بعد نور اور چھوٹے شاہ کے درمیان محبت کا بھولا بسرا افسانہ دوہرایا گیا ہے۔وہ نور سے شرمندہ نہ تھا کہ اسے طویل جدائی بخشی تھی۔ وہ تو ایک عورت تھی، وفادار شریک حیات، اس نے کہاں جانا تھا، کیا شکوے کرنے تھے؟ اس کے لیے تو یہی بڑی خوشی کی بات تھی کہ ایک مسرت بھری گھڑی ابھی بھی اس کی زندگی میں باقی تھی۔ عادل شرمندہ تھا تو اپنے آپ سے کہ قسم توڑ کر گناہ گار ہوا تھا۔ سوچتا تھا، خدا جانے اب بخشش ہوگی کہ نہیں؟ توبہ کر رہا تھا کہ میرا خالق مجھے قسم توڑنے کے عذاب سے بچا لے اور سزاوار نہ ہو جاؤں۔
نور سال بھر کی بیاہتا تھی، جب اس نے بیوی کو چھوڑ کر سوہنی کو گلے سے لگایا تھا۔ اس کے دل سے اولاد کی تمنا بھی باقی ساری خواہشوں کے ہمراہ مٹی میں مل گئی تھی۔ تصور بھی نہ کر سکتی تھی کہ زندگی میں ایسا وقت بھی آئے گا جب تقدیر ایک بار پھر سے مہربان ہو جائے گی۔ اس کا خالی دل آباد اور ویران کوکھ بھر دے گی۔یہ خوشی جہاں اس کو دیوانہ بنانے کو کافی تھی، وہاں شوہر سے کیا عہد بھی یاد تھا، تبھی اب مشکل یہ تھی کہ لوگ پوچھیں گے کہ شوہر نے تم سے کبھی ناتا نہ رکھنے کی جو قسم کھائی تھی، کیا وہ جھوٹی تھی؟ اگر چھوٹا شاہ تمہارے گھر قدم نہیں رکھتا تو پھر یہ تنہائی کا ساتھی کہاں سے آگیا؟ کیسے کہے گی کہ کوئی غیر نہ تھا جس نے دہلیز سے اندر آنے کی جرات کی تھی، وہ میرا اپنا تھا، سہاگ تھا میرا؟ نام نہ بتایا تو لوگ طعنے دیں گے، جینا دو بھر کر دیں گے اور اگر کہہ دے کہ میرا سرتاج، میرا عادل شاہ آیا تھا تو سوہنی اور اس کے باپ بھائی طلاق ہی نہیں مانگیں گے بلکہ تلواریں سونت لیں گے۔
ملازمہ نے مگر چپ رہنے کی قسم نہ کھائی تھی۔ اس نے جا کر عادل شاہ کو بتایا کہ نور بی بی دوجی سے ہے۔ شاہ کے تو پیروں تلے سے زمین نکل گئی۔ اس کی کیفیت اس شخص کی سی تھی، جس نے کوئی فاش غلطی کر دی ہو اور اب اس خطا کو دوسروں کے سامنے لانے سے ڈرتا ہو۔ سوہنی اور اس کے والدین سے کھائی ہوئی قسم یاد آتی تو خود کو کوستا کہ کیوں بڑے گھر گیا۔ اتنے برس تو اس سے علیحدہ رہ کر گزار ہی دیے تھے، اب یہ غلطی کرنا کیا ضروری تھا؟ ساری ریاضت پر پانی پھر گیا تھا۔ سوہنی کے دل سے بھی اس کا اعتبار اٹھ گیا۔ وہ سمجھی کہ شاہ مسلسل پندرہ برس سے جھوٹ بولتا رہا ہے۔
نور سے پیمان وفا باندھے رکھا اور اسے دھوکا دیتا رہا۔ اب چپ رہنے سے رسوائی اور بولنے میں بھی خرابی تھی۔نور نے ایک فرزند کو جنم دیا۔ برسوں بعد اسے تنہائیوں کا ساتھی ملا تو اسے تو خوشی سے پاگل ہو جانا چاہیے تھا، مگر وہ اب غم سے پاگل ہو رہی تھی۔ لوگوں سے کہتی تھی کہ یہ میرے سرتاج کا لخت جگر، ہمارے پیار کی نشانی ہے، مگر رشتہ دار تصدیق چاہتے تھے۔ نور سے گھر میں عادل شاہ کے آنے جانے کی گواہی مانگتے تھے کیونکہ وہ بچاری تو اپنے گھر کی چار دیواری سے پاؤں بھی باہر نہیں رکھتی تھی۔
سبھی رشتہ داروں کے گھر قریب قریب تھے، جو خود اس سے ملنے آجاتے تھے۔ادھر سوہنی شاہ سے تکرار کرتی تھی کہ اگر نور کا بیٹا واقعی تمہارا لخت جگر ہے، تو تم کب گئے تھے اس کے گھر؟ مجھے بتاؤ، گئے تھے؟ بتاؤ! تم نے تو قسم کھائی تھی کہ نور سے جدا رہو گے، پھر یہ لخت جگر کہاں سے آگیا؟ تم مسلسل مجھ سے جھوٹ بولتے رہے ہو۔ تم نور کے پاس آتے جاتے رہے ہو۔ تم بدعہد ہو، جھوٹی قسمیں کھانے والے، بے دین، بے ایمان، میں اب ایک پل تمہارے پاس نہ رہوں گی۔
سوہنی کے ماموں، چچا، بھائی سبھی آگئے اور بولے: شاہ جی! تم نے قسم اٹھائی، ایمان کو کھیل سمجھا۔ اب ہم سمجھ لیں گے تم سے۔ادھر نور بار بار ملازمہ کو بھیجتی تھی کہ سرتاج سے کہو، ایک بار آجائیں ورنہ دنیا مجھ بد نصب پر تہمت لگا دے گی۔ مجھ سے زندہ رہنے کا حق بھی چھین لیا جائے گا۔ نور کی دہائی پر تب ہی چھوٹے شاہ کے بڑے بھائی طاہر شاہ کو خاندانی وقار سنبھالنے کا فرض یاد آیا۔ انہوں نے مولانا صاحب کو بلوا کر قسم کا کفارہ پوچھا اور اپنی طرف سے ادا کر دیا۔ پھر اپنی بیوی کے ساتھ نتھے بھتیجے کو گود میں لے کر عادل شاہ کے اس گھر گئے، جہاں وہ دوسری بیوی سوہنی کے ساتھ رہتے تھے۔
انہوں نے بچے کو دعادی کے طور پر عادل شاہ کی گود میں دے کر کہا کہ میاں، کیوں منہ میں لنگھیاں ڈال کر بیٹھے ہو؟ کیا اس کی چھٹی نہیں کرنی تھی کہ اب عقیقہ بھی نہیں کرو گے؟ چھ دن گزر گئے ہیں بچے کی پیدائش کو، چھ دن میں تو ساری کائنات بن گئی تھی۔چھوٹے شاہ جی کی گود میں معصوم بچہ آتے ہی بانہوں میں سما گیا۔ بچے کی صورت دیکھ کر دل میں محبت کا سمندر امنڈ آیا۔ بالآخر مظلوم، پاک باز، پیاری نور کی خاطر فیصلہ کر لیا کہ سوہنی ناراض ہوتی ہے تو ہو، اب سارے خاندان کو جمع کرنا ہی ہے۔ کفارہ تو ادا کر دیا ہے۔
وہ عورت ذات کب تک لب سیئے بیٹھی رہے گی۔ اگلے روز عقیقے کا اعلان کر دیا گیا۔ اب سارا خاندان نور کی حویلی میں جمع ہونا تھا۔عقیقہ دھوم دھام سے ہوا اور وہ سب کے سامنے سرخرو ہو گئی۔ صرف سوہنی کے ماموں عقیقے میں شریک تھے، سسرال سے اور دوسرا کوئی نہ آیا۔ عقیقے والے دن نور نے خوبصورت لباس زیب تن کیا۔ وہ کسی دلہن کی طرح سجی ہوئی تھی۔ سولہ سال بعد بالآخر اس کی زندگی کے بے وفا ساتھی نے اسے سماجی مقام دے دیا تھا۔ سوہنی نے طلاق طلاق کی رٹ تو لگائی، مگر چار بچوں کی ماں کا طلاق لے کر میکے جانا آسان نہ تھا۔ اس کے ماموں نے سوہنی کے باپ اور بھائیوں کو سمجھایا کہ ظلم تو نور کے ساتھ ہوا اور خفا تم لوگ ہو۔
حق کی بات کرو، ظلم کو مزید طول مت دو۔ یوں سب نے مل کر صلح پر رضا مندی ظاہر کی اور ایک اجڑی ہوئی عورت کو پھر سے ازدواجی خوشیاں مل گئیں، اور وہ عورت تھی نور، جس کا نام بھی اس کی شخصیت جیسا تھا۔
(ختم شد)