ہم سب شہر جانا چاہتے تھے، لیکن بابا کو گاؤں سے پیار بھتا کیوں کہ ان کو اپنے جانوروں سے، اپنے آباؤ اجداد کی مٹی سے بھی پیار تھا۔ وہ اپنے کھلے صحن والے کچے مکان کو نہیں چھوڑنا چاہتے تھے۔ اس سے جان لیں کہ وہ کتنے روایت پرست
تھے۔
میرے تین بھائی شادی شدہ تھے۔ ان کے رشتے چپاتایا، جو شہر میں رہتے تھے ، ان کی بیٹیوں سے ہوئے تھے، لہذا وہ بھی شہر جاہے۔ چوتھے بھائی کی شادی ہونا باقی تھی ، مگر اس نے عجب گل کھلایا۔ اپنی مرضی چلائی اور کہیں سے ایک لڑکی کو بھگا کر لے آیا۔ ایسے معاملات مرنے جینے کے ہوتے ہیں زندگیاں داؤ پر لگ جاتی ہیں۔ میرے بھائیوں میں اتفاق نہ تھا، اس لئے بابا کو تنہا لیس کا مقابلہ کرنا پڑا۔ مقدمے پر تمام خرچہ انہوں نے ہی کیا۔ خدا خدا کر کے بہت مشکل سے لڑکی کے ورثا نے صلح کی اور لڑکی کے بدلے، بابا کو کافی زمین ان کی نذر کرنا پڑی اور نہ چاہتے ہوئے بھی ان کو اپنا آبائی گھر چھوڑنا پڑا۔ اس طرح ہم بھی شہر چلے گئے۔ مگر وہاں کی فضا اور ماحول میرے والد کو راس نہ آیا۔ وہ بیمار رہنے لگے تو ہم واپس گاؤں آگئے۔
جب ہم گاؤں سے گئے تھے ، میں بارہ برس کی تھی اور چوتھی جماعت میں پڑھتی تھی ۔ والد اپنا آبائی گھر اور جانور بیچ کر شہر گئے تھے۔ واپس لوٹے تو رہنے کو ٹھکانہ نہ تھی۔ مجبوراً اپنے پرانے گھر سے دور ایک ویران جگہ پر گھر بنا لیا۔ یہ زمین میرے والد کے ایک کزن کی تھی۔ انہوں نے از راہ ہمدردی ایک کنال ہمیں گھر بنانے کے لئے دی تھی۔ اس جگہ ٹیوب ویل تحت اور شجاعت کا گھر بھی قریب تھا۔ وہ مجھ سے چھ سال بڑا تھا۔ ایک روز میں نلکے سے پانی لینے گئی تو وہاں ٹیوب ویل کے پاس شجاعت کھڑا تھا۔ وہ محویت سے مجھے دیکھنے لگا، تب مجھے اپنے سراپا کا احساس ہوا۔ اس سے پہلے کبھی میرے من میں، آئینے میں اپنی صور ت دیکھنے کی آرزو نہیں جاگی تھی۔ اپنی ذات کی آگہی کا یہ میرا پہلا دن تھا۔ اب پانی لینے جب گھر سے نکلتی ، اس کے آنے کا انتظار رہتا۔
وہ کبھی نظر آجاتا اور کبھی نہیں۔ وہ ہمارے گھر کے سامنے ڈیرے پر بیٹھتا تھا، جو اس کے والد کا تھا۔ میں دور سے اس کو دیکھتی رہتی۔ وہ کبھی کرسی پر بیٹھا اخبار پڑھ رہا ہوتا اور کبھی کوئی کتاب پڑھنے میں محو ہو تا، کبھی ٹیپ ریکارڈر پر لوک گیت سنتا ہو تا۔ گھر جاتی تو دن بھر اس کی ہر حرکت یاد رکھتی۔ اگر کوئی اس کا ذکر میرے سامنے کرتا، تو میرے دل کی دھڑکن تیز ہو جاتی۔ میری عمر اتنی نہ تھی کہ دل کی دھڑکنوں پر قابو رکھ پاتی۔ ان دنوں میرے احساسات ایسے تھے ، جیسے بالی عمریا کی الہڑ دوشیزہ۔ سوچتی تھی کہ پتا نہیں اس کے دل میں کون ہے۔ میرے دل میں تو وہی تھا۔ اس کی کزن پروین ہمارے اسکول میں پڑھتی تھی۔ ایک روز میں نے ڈرتے ڈرتے اس سے ، اس کا نام پوچھ لیا۔ اس نے بتا دیا۔ میں اس کا نام جان کر بہت خوش ہوئی، جیسے کوئی خزانہ پالیا ہو۔ ڈیڑھ سال بعد والد نے دوبارہ اپنا پرانا گھر خرید لیا۔ سبھی کو خوشی ہوئی مگر مجھے نہیں، بلکہ یہ سوچ کر افسردگی ہو گئی کہ ہم اس ڈیرے سے چلے جائیں گے، تو پھر کب میں اسے دیکھ سکوں گی ؟
اب میری آنکھوں میں اس کا چہرہ آتا، پھر غائب ہو جاتا۔ ہر عید پر دعا کرتی کہ اے اللہ ! عید کے چاند کی طرح اسے بھی عید پر دکھا دے۔ کوئی تین سال دعا کرتے گزرے تھے کہ ایک دن دعا قبول ہو گئی۔ میں صحن میں سورہی تھی کسی نے دستک دی۔ میں نے دروازہ کھولا تو سامنے میرا بھتیجا دینو ھتا اور اس کے ساتھ وہ بھی۔ دینو کسی کام سے آیا تھا۔ میں دل میں خوش تھی کہ خدا نے میری دعا سن لی۔ آج شام عید کا چاند نظر آنے والا تھا، لیکن مجھے صبح ہی میرے اللہ نے دکھا دیا تھا۔ اب میں خوش رہنے لگی۔ اس نے جاتے ہوئے مڑ کر میرے طرف دیکھا تھا، اسی لئے میں اس قدر مسرور تھی جیسے بیچ بیچ عید کا چاند دیکھ لیا ہو ۔
ایک دن ہم میلہ دیکھنے جارہے تھے کہ وہ سڑک پر ملا۔ اس نے میرے بھائی کو دیکھ کر سلام کیا اور ہاتھ ملایا۔ میں چھوٹی بہن کے ساتھ ایک طرف ہو گئی۔ جی چاہا کہ وہ بھی ہمارے ساتھ ہوئے، مگر ایسا بھلا کہاں ممکن تھا میلے میں میرا کسی چیز میں دل نہ لگا۔ چھوٹی بہن جھولا جھول رہی تھی اور میری نظریں کسی کو تلاش کر رہی تھیں۔ اتنی بھیڑ میں بالآخر میری نگاہوں نے اُسے دیکھ لیا۔ وہ ایک طرف ہجوم میں کھڑا تھا اور اس کی نگاہیں نجانے کس کو تلاش کر رہی تھیں۔ میں نے دعا کی۔ خدا کرے، وہ میں ہی ہوں۔ اب بات اتنی بڑھ چکی تھی کہ دل میں بے کلی نے گھر کر لیا تھا اور جدائی کے درد سے بات بے بات آنسو نکل آتے، لیکن میں ایک بے بس لڑکی کیا کر سکتی تھی۔ ایک دن میں کھانا تیار کر رہی تھی کہ وہ آگیا۔ بھائی نے اسے بیٹھک میں بٹھایا، امی بھی جا کر باتیں کرنے لگیں۔ میں نے بہانے سے کھڑکی کی جھری سے اسے دیکھا۔ میں نے اس کے لئے چائے تیار کی۔ میرے بھائی سے اس کی دوستی ہو گئی تھی، یوں وہ روز ہمارے گھر آنے لگا۔ جب اس کی جانب دیکھتی، تو کھو جاتی، وہ اگر میری جانب دیکھتا، تو شر ما جاتی۔ شجاعت الیکٹرانکس میں ماہر تھا۔ جب پیغام بھجواتے آجاتا۔ ایک دن اس کے محلے کی ایک عورت آئی، کہنے لگی۔ ہمار ا پنکھا ٹھیک نہیں ہے، تو میں نے بھی کہہ دیا کہ ہمار ا پنکھا بھی ٹھیک نہیں ہے۔ اس نے شجاعت کو جا کر بتایا۔ وہ اسی وقت آگیا۔
میں گھر میں اکیلی تھی۔ جب دستک پر دروازہ کھولا تو اسے سامنے پایا اور گھبرا گئی۔ وہ پوچھنے لگا کہ خالہ کہاں ہے ؟ وہ گھر میں نہیں ہیں۔ آپ پنکھا دیکھ لیں ، وہ ٹھیک نہیں ہے۔ وہ سیدھا کمرے میں چلا گیا۔ اس نے سویچ چیک کیا اور کہا۔ یہ ٹھیک نہیں ہے ، نیا سونچ لے کر آتا ہوں۔ تھوڑی دیر بعد وہ سوئچ لے آیا اور پر انا سونچ کھول کر بولا۔ آؤ دیکھو، تم بھی اسے چیک کرو۔ میں نے کہا۔ نہ بابا میں اسے ہاتھ نہ لگاؤں گی۔ اس میں کرنٹ ہوا تو ؟ کچھ نہیں ہو گا، کرنٹ نہیں ہے اس میں۔ میں سوچ چیک تو کر لیتی، مگر اس کے قریب جانے سے ڈر رہی تھی۔ میرے بازو پر اس کا نام لکھا ہوا تھا۔ نہیں چاہتی تھی کہ وہ اسے دیکھ لے، تبھی امی آگئیں۔ وہ ان سے باتیں کر کے چلا گیا۔ جب وہ دروازے پر پہنچا، میں نے گانا لگا دیا کہ وعدہ کرو پھر آنا ہو گا۔ اس نے مڑ کر مجھے دیکھا اور چلا گیا۔
اب وہ نہ آتا، تو میں بے چین رہتی۔ ہر وقت سوچتے رہنے سے میری صحت خراب رہنے لگی۔ سہیلیاں پوچھتیں کہ تمہیں کیا ہو گیا ہے ؟ آنکھوں کے گرد حلقے پڑ گئے ہیں۔ کوئی نہیں جانت بیت، لیکن میری بھیجی جانتی تھی کہ ایسا کیوں ہے۔ میں ان دنوں بہت حساس ہو گئی تھی۔ ذرا ذرا سی بات پر بھری محفل میں رو پڑتی تھی۔ ایک دن وہ میری چھوٹی بہن کو ملا۔ وہ اس کے ساتھ پیار سے باتیں کرتا تھا۔ راجی اس کے دکان پر جاتی اور خوب باتیں کرتی۔ راجی نے ایک دن اس سے کہا۔ شجاعت بھائی آپ ہمارے گھر نہیں آتے۔ ٹائم نہیں ملت، پھر کہا۔ گھر سے پوچھ کر آنا کہ کس وقت آؤں ؟ راجی نے یہ بات مجھے بتائی۔ میں نے اس سے کہا۔ کہنا صبحآٹھ بجے آنا۔ میں سمجھی کہ مذاق میں کہا ہو گا، لیکن اگلے دن صبح آٹھ بجے وہ آگیا۔ میں اپنی بھتیجی نیلوفہ کے پیچھے چھپ گئی اور وہ بیٹھک میں جا کر بیٹھ گیا۔
امی خالہ کے گھر گئی ہوئی تھیں۔ میں نے کولڈ ڈرنک اور بسکٹ منگوائے، مگر اس نے انکار کر دیا۔ میں صحن میں تھی، گھبرائی ہوئی اندر گئی اور اس سے مخاطب ہوئی۔ ایک تو اتنی مشکل سے یہ سب منگوایا ہے اور آپ ٹھنڈی بو تل نہیں پی رہے۔ میں بوتل نہیں پیتا۔ وہ پندرہ بیس منٹ بیٹھ کر چلا گیا۔ وہ دن میری زندگی کا یادگار دن تھا۔ اگلے دن ہماری فیصل آباد کی تیاری تھی۔ میں نے چھوٹی سے کہا کہ شجاعت کا فون نمبر لا دو۔ وہ گئی اور نمبر لے آئی۔ ہم فیصل آباد چلے گئے ، وہاں سے میں نے فون ملایا ، شجاعت نے ہی اٹھایا۔ میں بہت خوش ہوئی۔ واپس کب آنا ہے ؟ اس نے پوچھا۔ نہیں آنا۔ میں نے جواب دیا۔ کیوں، کس کے پاس رہنا ہے ؟ اپنے بھائی کے پاس۔ وہ بولا ، ٹھیک ہے لیکن اپنا گھر اپنا ہوتا ہے۔ میں نے کوئی جواب نہیں دیا اور فون بند کر دیا۔ دوسری بار میں نے فون کیا تو اس کی والدہ اور بہن سے بات ہوئی۔ بعد میں اس سے بات ہوئی۔ جب ہم گائوں واپس آئے تو میں اپنے والد کے ڈیرے پر گئی، جہاں ہم شہر سے آنے کے بعد رہتے تھے۔
سامنے اس کا ڈیرہ تھا، وہ وہاں کام کر رہا تھا۔ پاس ہی اس کا گھر تھا، میں اس کے گھر چلی گئی۔ شجاعت کی امی مجھ سے مل کر خوش ہو گئیں۔ وہ مجھ کو پسند کرتی تھیں۔ بار بار کہتیں کہ ہمارے گھر آیا کرو۔ تمہاری سہیلی پروین تو ہمارے قریب رہتی ہے ، اس سے ملنے کے بہانے آجایا کرو۔ وہ مجھ کو اپنی ماں سے باتیں کرتے دیکھ کر مسکرا رہا تھا۔ جب میں ان کے گھر سے آنے لگی تو اس کی ماں نے کہا۔ اکیلی مت جائو، میں شجاعت سے کہتی ہوں، تم کو چھوڑ آئے۔ یہ دیہات کا رواج ہے کہ لڑکیاں اکیلی ہوں تو میزبان گھرانے سے کوئی ان کو اس کے گھر تک چھوڑنے جاتا ہے اور اسے عزت کی بات سمجھا جاتا ہے۔
اب میں اپنے گھر کو جارہی تھی اور وہ میرے آگے آگے گھر تک چھوڑنے آیا۔ چونکہ راستے میں ہم کلام ہو نا وہاں کی روایات کے مطابق معیوب بات سمجھی جاتی تھی، لہذا ہم تمام سفر خاموش رہے۔ نہ ہی اس نے میری طرف پیچھے مڑ کر دیکھا، صرف مقدموں کی چاپ سنتار ہا اور جب میں اپنے گھر میں داخل ہو گئی، تب وہ لوٹ کر واپس ہو گیا۔ اب مجھے عجب خواب نظر آنے لگے۔ کبھی دیکھتی کہ وہ امی کے پاس بیٹھا رو رہا ہے، کبھی دیکھتی کہ امی کہہ رہی ہیں رحمت ، ہم نے تیری منگنی اس سے کرنی ہے اور میں کہتی ہوں کیسے ہو سکتی ہے یہ تو غیر ہے اور آپ لوگ غیروں میں رشتے نہیں کرتے، لیکن ماں کہتیں۔
ہو سکتی ہے ہمیں تیرے آبا سے کہوں گی۔ میں نے راجی کو خواب سنایا اس نے جا کر شجاعت کو بتایا۔ وہ بہت خوش ہوا، مگر اس کی بہن نے کہ دیا کہ میرا بھائی اپنی چچا زادے شادی کرے گا۔ تمہاری بہن کو جھوٹے جھوٹے خواب آرہے ہیں۔ اس پر مجھ کو بہت دکھ ہوا۔ لوگ جس چیز کی تمنا کرتے ہیں، ان کو مل جاتی ہے۔ کیا میری قسمت میں ایسی پذیرائی نہیں ہے ؟ کیا دعا میں اثر نہیں ہے ؟ دل کو سمجھاتی تھی مگر پاگل دل سمجھتا ہی نہیں تھا۔ آخر خدا نے ایک دن میری سن لی۔ میرا چچا زاد عادل جو میر امنگیتر تحت ، اس نے اپنے والدین سے کہہ دیا کہ میں رحمت سے شادی نہیں کروں گا۔ میں ہما سے پیار کرتا ہوں، اسی سے شادی کروں گا۔ ہما، ہماری پھوپھی کی بیٹی تھی اور بہت خوبصورت تھی۔ اس جواب پر امی ابو مایوس ہو گئے۔ راجی نے شجاعت کو یہ بات بتادی، تبھی اس کی امی اور بہن میرا رشتہ لینے ہمارے گھر آگئیں اور میرے نام بارہ بیگھے زمین لکھ دینے کی پیشکش کر دی۔
بابا نے سوچا کہ میرا بھتیجا تو انکار کر چکا ہے اور اپنے رشتہ داروں میں کوئی دوسر الڑکا میری بیٹی کے لائق موجود نہیں ہے۔ یہ واقف کار لوگ ہیں اور بارہ سیکھے زمین بھی لکھ کر دے رہے ہیں۔ شجاعت بھی اچھا لڑکا ہے ، یوں انہوں نے ہامی بھر لی، مگر کہا کہ ہم منگنی نہیں کریں گے ، بس شادی کی تاریخ دی جائے گی۔ مجھے تو سارے جہان کی خوشیاں مل گئیں اور اسے بھی۔ ہم دونوں نہال تھے ، ہماری شادی عزت سے طے ہو گئی تھی، مگر یہ خوشی نہیں آزمائش تھی۔ چچا چچی نے جب سنا کہ راحت کی شادی شجاعت سے ہونے جارہی ہے ، تو ان کے خون نے جوش مارا اور انہوں نے بیٹے کو سمجھا کر کسی طور راضی کر لیا۔ ادھر پھو پھی کے پاس بھی ایک امیر گھر سے ہما کارشتہ آگیا اور ان کی نیت بدل گئی۔ یہ لوگ بھی ہمارے رشتہ دار ہی تھے۔ جب ان کی وہاں بات بن گئی، تو عادل کو سوچنے سمجھنے کا موقع ملا اور اس نے پھر سے میری طرف دھیان دیا۔
چپ اچھی تبھی دوڑے ہوئے ابا کے پاس آئے۔ چھپانے پگڑی اور چچی نے اپنا دوپٹہ ابا کے پیروں میں ڈال دیا اور کہا۔ ہم تمہارے اپنے ہیں، ہمیں نہ چھوڑو۔ انہوں نے معافیاں مانگیں، تو والد کا دل پھر سے اپنوں کے لئے پسیج گیا اور انہوں نے شجاعت کے گھر والوں کو یہ جواب دے دیا کہ میں اپنوں کو نہیں چھوڑ سکتا۔ ہمیں معاف کر دینا، در اصل ساری برادری مجھے مجبور کرنے آگئی ہے۔ اس جواب پر میرے اور شجاعت کے دلوں پر بجلی گری، مگر اب خاموش تھے۔ جینے کی آس جاتی رہی مگر سانس کی چکی چلتی رہی۔ شجاعت سے شادی کی آس چھوڑ دی کیونکہ بھائی کہتے تھے کہ اماں ابا نے رحمت کو بہت لاڈ دیا ہے۔ منہ بسورے پھرتی ہے، کہیں کوئی گل نہ کھلا دے۔ میں نے مگر کبھی کوئی عناط حرکت نہیں کی۔ اماں باوا کہتے ، ہمارا خون ہے تو کہیں نہیں جائے گی۔ خیر، میری شادی عادل سے ہو گئی۔
بات یہیں تک رہتی تو بھی گزر بسر ہو جاتی، لیکن ایسا نہیں ہوا۔ عادل کے دل میں ہما کی چاہت کی شمع جلتی رہی اور پھر ایک دن جب ہما کارشتہ کسی سبب ٹوٹ گیا، تو میری چچی نے ہما کے والد کے آگے ہاتھ جوڑ دیئے اور کہا۔ میرا بیٹا بہت افسردہ اور ناخوش رہتا ہے۔ تم میرے بھائی ہو ، خدا کے لئے میرے بیٹے کو ہما کا رشتہ دے دو، ورنہ وہ وہ ہ کسی روز جنگل کی طرح منہ کر جائے گا اور ہم اس کی صورت دیکھنے کو ترس جائیں گے۔ ہم نے زبردستی اس کی شادی رحمت سے کروا تو دی ہے ، مگر وہ اس کے ساتھ خوش نہیں ہے۔ میرے دوسرے چچا، ہما کے والد بولے۔ میں اپنی بیٹی سوتن پر کیسے دے دوں ؟ وہ بھی تو میرے بھائی کی بیٹی ہے ، میوں پرحمت پر ظلم نہیں کر سکتا ، مگر وہ بضد ہو گئیں اور رو رو کر برا حال کر لیا۔ دلیلیں دیتی تھیں کہ بھیا ہمارے دین نے چار شادیوں کی اجازت دی ہے۔ دونوں لڑکیاں آپس میں کز نیں ہیں ، بہنوں کی طرح رہیں گی۔
عادل کا وعدہ ہے کہ دونوں کو برابر رکھے گا اور بیویوں میں انصاف قائم رہے گا، عرض انہوں نے ہما کا رشتہ لے کر ہی دم لیا۔ میں جس گھر کی بہو تھی، میرا بھی وہ چپ کا گھر تھا اور اسی گھر میں ہمارے دوسرے چپ کی صاحبزادی دلہن بن کر آرہی تھی۔ میں ایک کمرے میں بخار میں پڑی تھی اور دوسرے کمرے میں دلہن کو بیاہ کرلے آئے تھے ، وہاں سیچ سجی تھی اور شہنائیاں میرے کانوں کو زخمی کر رہی تھیں۔ میں صحن میں جھومر ڈالتی لڑکیاں اور دلہا کی بہنوں کے پائلوں کی جھنکار سن رہی تھی۔ باہر ڈھول باجے ایسے بج رہے تھے ، جیسے عادل کی یہ پہلی شادی ہو۔ میرے آنسو بہہ رہے تھے اور میں اپنے پیدا کرنے والے سے فریاد کر رہی تھی کہ اس نے مجھے کسی تعلیم یافتہ گھرانے میں کیوں پیدا نہیں کیا؟ ایک دیہاتی روایت پسند خاندان میں کیوں پیدا کیا ہے، جو اپنوں کی محبت میں اولاد کی خوشیاں قربان کر دیتے ہیں۔
اس بات کو تیس برس ہونے کو آئے ہیں آج بھی جی رہی ہوں، کیونکہ یہ تو گائوں کے اکثر گھروں کی کہانی ہے، جہاں ہر چوتھے پانچویں گھر میں ایک شوہر کی دو دو بیویاں ایک ساتھ رہتی ہیں، بالکل بہنوں کی طرح ۔ اب تو یہ خدا ہی جانتا ہے کہ اندر سے ان کے دلوں کی کیا حالت ہوتی ہے۔ دنیا تو ظاہر کو ہی دیکھتی ہے۔
(ختم شد)